Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    بہت ہی زبردست لکھ رہے ہیں آپ ۔ نہایت شاندار کہانی ہے۔ پڑھ کر بہت مزہ آتا ہے۔

    Comment


    • #32
      بہترین سٹوری لاجواب قلم کاری ?

      Comment


      • #33
        Kamal lekh rahy ho ab dekho faree kia krti hy hero k sath

        Comment


        • #34
          Kamal tehreer ha

          Comment


          • #35
            بہت ہی عمدہ شاہکار ہے

            Comment


            • #36

              بہت اچھی کہانی ...... یہ ایک تیز رفتار کہانی کا پلاٹ ہے لیکن توازن کو بہترین طریقے سے برقرار رکھا گیا ہے۔​

              Comment


              • #37
                6
                فرخندہ کو جیسے غنودگی سی ہورہی تھی کیونکہ زید نے اس کی پھدی کو پانی سے بھر دیا تھا. وہ بڑبڑا رہی تھی "کسے کمی دیا تخما .... میں تیرے تے کتے چاژھاں گی ہائے" اچانک وہ ہوش میں آئ جب اس کی پھدی میں گھسے لن نے اچانک جان پکڑی اور زید نے پھر سے جھٹکے دینے شروع کر دیے. وہ چلائی "توووووو مینوووووو جااااااانداااااا نئیں آہہہہہہہہہہہ" زید نے اس کے ممے پر زوردار تھپڑ مارا. اس نے اب تک اس کے جسم کے کسی ایسے حصے پر سخت ہاتھ نہیں مارا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے بھاری ہاتھ نشان چھوڑنے والے تھے. اس نے مار مار کر فرخندہ کی گانڈ.رانیں اور ممے لال کر دیے تھے. فرخندہ اچھے ڈیل ڈول کی بارعب خاتون تھی اور اس کا قد لمبا تھا اور ممے بڑے بڑے جبکہ پیٹ اور گانڈ تھوڑے سے ابھرے ہوئے تھے لیکن مجموعی طور پر وہ ایک خوبصورت عورت تھی. زید نے تھپڑ مارتے ہوئے کہا "جے تو مینو جاندی تے انج بکواس نہ کردی. دسن نو تینو انج وی میں دس سکدا سی پر تو جداں نوکراں تو نفرت کردی انج لگدا کہ تو اوناں نو انسان ای نئیں سمجھدی ایس لئی تینو سبق دینا ضروری سی. کی آکھیا کمی. کنجریے جنی تیرے پورے خاندان دی زمین نئیں اونی میرے کلے دی زمین ای او تے محب تے امینہ آنٹی دی خاطر گڈی چلا ریا اوہ وی اونا دی مامتا دی وجہ توں تے تینو مان کس شے دا. کل توں ویکھی جا ریاں کہ ہر کوئی تیرے تو انج چلدا پیا جیویں تو کوئی بلا ہوویں. اہنی ماں نو ویکھن آئی تے اوہ وی تیرے تو چالو تے تو مینو نوکر آکھیا. اے لے" زید نے زور سے جھٹکے دیے جبکہ فرخندہ کو سمجھ آگئی اور وہ کراہتےہوئے بولی "آہہہہہہہہ مینوووووووووو چھڈ دددددددے ہن آہہہہہہہہہہ توووووووو میرررررررریی عززززززتتت لللٹ لئی آہہہہہہہہہہ" زید نے زوردار جھٹکا دیا اور کہا "اے تے مینو پتا تے تینو پتا تے میں تے کسے نو دسنا نئیں کیونکہ میرا مقصد تیری بد نامی تے ہے نئیں تے میں تینو سبق دینا سی او دے دتا تے جے ہن وی ماں پین دیاں گالاں کڈنیاں تے کڈ کے ویکھ" فرخندہ کے منہ سے آہہہہہہ نکلا اور وہ فارغ ہو گئی. زید نے ہانپتی فرخندہ کی گانڈ کو تھامتے ہوئے اسے لن ڈالے ڈالے ہی گود میں اٹھا لیا اور اس کا سر زید کے کندھے پر آیا تو وہ سر اٹھا کر بولی "آہہہہہہہہہ کی ککککررررن لگااااااااں" زید نے اسے دیوار سے لگا کر چدائی شروع کردی اور وہ پھر سے چیخنے لگی مگر زید نے اسے چودا اور وہ فارغ ہو گئی. زید نے اسے بستر پر لا کر بے رحمی سے چودا اور پھر سے اندر ہی فارغ ہوا تاہم اس دفعہ اس نے لن نکالا اور ساتھ لیٹ کر سو گیا جبکہ نیند فرخندہ کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی. اس کی عمر سولی سترہ سال تھی جب اس کی شادی ہوئی اور اس کو شوہر نے زندگی کے تمام سکھ دیے اور تین سال میں ہی اس کی دو بیٹیاں بھی پیدا ہو گئیں لیکن اس کا شوہر روائیتی چوہدری تھا جس کا ایک پھدی پر گزارہ نہیں تھا اور فرخندہ کو یہ قبول نہ تھا کیونکہ وہ ایک با اثر چوہدری کی بیٹی اور بہن تھی اور وہ بلا کی خوبصورت تھی. اس نے اپنے شوہر کو پھدی دینا بند کر دی لیکن وہ نہ سدھرا اور آہستہ آہستہ وہ چوہدرانی کے اختیارات استعمال کرتی کرتی گاؤں کی بڑی چوہدرانی بن گئی. اس کا گاؤں میں اتنا رعب تھا کہ پنچائیت کے فیصلے وہ کرتی تھی اور خاندان میں بھی اس کا رعب تھا اور ہر کوئی اس سے دب کر رہتا تھا. اس کی دونوں بیٹیوں کے شوہر اور سسرالی تک اس سے ڈرتے تھے لیکن وہ حیران تھی کہ اس کی بیٹیوں سے بھی چھوٹی عمر کے لڑکے نے اس کی پھدی کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور انیس بیس سال سے ان چدی پھدی کو پھدا بنا کے رکھ دیا تھا. وہ چودراہٹ میں یہ تو بھول ہی گئی تھی کہ وہ عورت ہے اور اپنے شوہر کی ضد میں وہ نہ تو اسے پھدی دیتی تھی نہ دوسری شادی کرنے دیتی تھی کیونکہ وہ ایک بیٹا چاہتا تھا. وہ خود بھی اولاد نرینہ کی خواہش مند تھی لیکن ضد اور انا کے ہاتھوں اس قدر مجبور تھی کہ اس کا شوہر تین چار دن میں ایک دو دفعہ گھر آتا رات کو سوتا اور صبح کپڑے بدل کر چلا جاتا جبکہ ان کی بات بھی شازو نادر ہی ہوتی تھی اور یہ بھی بس دنیا کو دکھانے کے لیے تھا کیونکہ اس نے کبھی اپنے شوہر کو کسی کے سامنے بے عزت نہیں کیا تھا لیکن ایک ڈر بٹھا کر رکھا تھا. وہ اٹھی تو پھدی میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں. اس نے ٹانگوں کے بیچ ہاتھ لگایا تو پھدی زید کے گاڑھے پانی سے بھری ہوئی تھی. وہ لڑکھڑاتے ہوئے باتھ روم گئی اور درد میں ہی خود کو صاف کر کے ہانپتے ہوئے بستر پر گر پڑی. ابھی وہ سنبھلی ہی تھی کہ زید اس کے اوپر پھر سے آگیا. وہ منت بھرے لہجے میں بولی "ویکھ مینو بہت درد ہو ریا میرے کولوں غلطی.........." زید نے انگلی اس کے منہ پہ رکھ کر اسے خاموش کرایا اور اس کا ایک مما دبایا اور دوسرے کا نپل منہ میں لے کر چوسنے لگا. اس کے منہ سے اس بار درد اور مزے سے بھری کراہ نکلی. زید نے اس کے پیٹ کو سہلانا شروع کیا تو وہ کراہتے ہوئے کہنے لگی "آہہہہہہہہ کی کررررییی جااااااان ڈیااااااااں مینووووووو کج ہووووووو ریااااااااااا" زید نے مموں اور پیٹ سے کھیلنا جاری رکھا اور وہ ایک بار پھر چھوٹ گئی. زید نے اب اس کی ٹانگیں کھولیں اور آرام آرام سے لن گھسایا تو اسے مزہ آنے لگا اور وہ کراہتے ہوئے بولی "آہہہہہہ تووووووو کی شےےےےے ایں آہہہہہہہہہ" زید نے اس بار اسے محبت سے چودا اور اندر ہی فارغ ہو گیا. اس بار وہ اطمینان سے سوئی اور صبح ہی اٹھی. وہ لڑکھڑاتے ہوئے باتھ روم جانے لگی. اس کے جسم میں درد سے ذیادہ اتنی بار فارغ ہونے کی وجہ سے نقاہت تھی. وہ چکر کھا کر گرنے ہی والی تھی کہ زید نے اس تھاما اور باتھ روم لے گیا اور شاور چلا کر اس کے ساتھ ہی نہانے لگا. نہانے کے دوران ہی زید کا لن ایک بار پھر کھڑا ہو گیا. اس نے فرخندہ کے ممے چوسے اور دیوار سے لگا کر ٹانگ اٹھا کر چودا اور پھر بستر پر لا کر ٹانگیں اٹھا کر چودا اور اندر ہی فارغ ہوا. زید اور وہ نہائے اور زید نے اسے چائے کے ساتھ پین کلر بھی دیا جو اتفاق سے اس کی جیب میں تھا. لیکن ان کے درمیان خاموشی تھی. زید ڈرا ہوا تھا کہ فرخندہ کسی کو کچھ بتا نہ دے لیکن وہ شام کو ہی طبیعت خراب ہونےبکا بہانہ کر کے چلی گئی اور سب نے سکون کا سانس لیا. زید جب تک لاہور واپس نہ گیا وہ کسی نہ کسی طرح بینہ کو چودتا رہا. دوسری طرف فرخندہ نے گاؤں جانے کے بعد چار پانچ دن انتہائی بے چینی میں گزارے. اس کی پھدی لن مانگ رہی تھی اور اب اس کو شوہر کا ہی لن دستیاب تھا لیکن شوہر کے نہ آنے سے وہ مزید چڑچڑی ہوگئی تھی جبکہ شوہر اس کے خوف سے گھر نہیں آرہا تھا جبکہ ملازم اسے بتا چکے تھے. لیکن مرتا کیا نہ کرتا, اس کو گھر تو آنا ہی تھا لیکن وہ فرخندہ کے سونے کے بعد آیا اور احتیاط سے الماری کھولی ہی تھی کہ فرخندہ کی آواز آئی "آگئے تسیں" فرخندہ کے شوہر چوہدری جمال کی گانڈ پھٹ کے ہاتھ میں آگئی کیونکہ یہ وہی جانتا تھا کہ وہ کمرے میں کتنا بے عزت ہوتا تھا اور ہر وقت اس کو ایک رعبدار چوہدری کا بھرم ٹوٹنے کا اندیشہ رہتا تھا. فرخندہ نے کہا." غسل خانے وچ جاؤ میں کپڑے لیانی آں" وہ چپ چاپ چلا تو گیا پر اسے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی. اس نے کپڑے تبدیل کیے اور کمرے میں آیا تو اس کے لیے دودھ موجود تھا. اس نے چپ چاپ دودھ پیا اور بستر پر لیٹ گیا. کچھ دیر بعد وہ ساتھ آ کر لیٹی اور اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ چونکا لیکن جب اس نے ہاتھ اپنے ممےپر رکھا تو جمال ہل کر رہ گیا کیونکہ وہ مکمل ننگی تھی. اسے اپنی شلوار کے نالے پر فرخندہ کا ہاتھ محسوس ہوا. وہ سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہتی ہے. بیس سال بعد بیوی کی پھدی ملنے کے خیال نے ہی سے پاگل کر دیا اور وہ اٹھ کر جلدی سے ننگا ہوا اور فر خندہ پر چڑھ گیا. گو کہ وہ ایک لمبے لن سے چار دفعہ چدی تھی پر پانچ روز میں پھدی کافی بہتر ہو چکی تھی اور جمال کا لن آرام سے اند باہر ہو رہا تھا جبکہ وہ مموں سے بھی کھیلتا رہا لیکن وہ جوش میں زیادہ دیر ٹک نہ پایا اور آہہہ کہتا ہوا پھدی میں فارغ ہو گیا اور ہٹ کر لیٹ کر ہانپنے لگا. فرخندہ دل ہی دل میں اس کو گالیاں دینے لگی اور زید کے لن اور اس کی ٹائمنگ کو یاد کرنے لگی لیکن پھر خود کو ہی کوسنے بھی لگی کیونکہ زید ایک سترہ سال کا لڑکا تھا اور جمال چالیس کے اوپر کا تھا. وہ ان ہی سوچوں میں تھی کہ جمال ایک بار پھر اس پر چڑھ گیا اور اسے چودنے لگا. اب کی بار وہ بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر لن لینے لگی تو وہ چودتے ہوئے بولا "چدرانیے میں تے ڈریا ہویا ساں کہ تو واوا ای غصے وچ ایں تو تے مینو حیران ای کر دتا" وہ چدتے ہوئے بولی "چڑچڑی ناااااا ہہہہووواااااں تےےےے ہہہہہہوووورررر کی کرررررراااااااں. ویااااااااہی ورررری ہووووو کےےےےےےے وووووی تررررررسس گئی سااااااں" جمال سمجھ گیا کہ وہ لن کے لیے ترسی ہوئی تھی تو اس نے اسے چومتے ہوئے کہا "معاف کر دے نا فرخندہ ہن تو ساریاں تیریاں ای مناں گا. میں جیڑی مرضی زنانی کو چلا جاواں پر سکون تیریاں بانواں وچ ای اے. اج وی سال بعد سکون آیا" فرخندہ کی آنکھیں چھلک پڑیں اور وہ چدتے چدتے ہی اس سے لپٹ گئی. لن کا ایک تیز گھسا لگا اور آہہہہہہہ کے ساتھ فرخندہ کی پھدی نے آنسو بہانا شروع کر دیے جبکہ جمال نے بھی جوش میں ایک دو زوردار جھٹکے دیے اور آہہہہہ کرتا ہوا اندر ہی چھوٹ گیا. کچھ دیر بعد وہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے. جمال اس کی بانہوں میں سو رہا تھا اور فرخندہ سوچ رہی تھی کہ اتنا مزہ تو زید کے بڑے لن کا بھی نہیں آیا جتنا جمال کا آیا تھا کیونکہ وہ اس کا شوہر تھا اور اسے جمال سے بے پناہ محبت تھی, شاید جمال کو بھی اس سے محبت ہی تھی جو یوں غلطیاں مانتے ہوئے پگھل گیا ورنہ وہ اب جمال کو ہر حال میں قبول کرنے کو تیار تھی اور اب وہ یہ سوچ رہی تھی کہ زید کو دعا دے یا کوسے کیونکہ جمال کے اس کے پہلو میں ہونے کی وجہ کہیں نہ کہیں زید ہی تھا. زید لاہور واپس آ چکا تھا. لیکن اب اس کی پھدی کی حوس پھر سے جاگ گئی تھی لیکن وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا. اب بینہ اتنی جلدی لاہور آ نہیں سکتی تھی نہ ہی زرینہ تو اب اسے نئی پھدی کا جگاڑ کرنا تھا جو اس کے لن کو ٹھنڈا کرتی رہے. ایک روز اتفاق سے اس نے محب کی والدہ امینہ اور محب کی خالہ روبینہ کی گفتگو سن لی جس میں روبینہ اپنے شوہر کے ناروا سلوک پر افسردہ تھی اور امینہ اسے سمجھا رہی تھیں. پینتیس سالہ روبینہ ایک کالچ میں لیکچرار تھی اور ان کا شوہر بھی ایک یونیورسٹی کا لیکچرار تھا. تاہم وہ پی ایچ ڈی میں مشغول تھا اور اس نے یہ داخلہ لاہور کے بجائے ملتان میں لیا تھا. ملتان ہی روبینہ کا سسرالی شہر تھا اور اس کی اپنے شوہر سے محبت کی شادی تھی. وہ سسرال والوں کی ذیادہ توجہ نہ حاصل کر سکی نہ ہی سسرالیے پڑھی لکھی بہو حضم کر پائے اور بے اولادی نے اس کے لیے مسائل بڑھا دیے اور اب جب اس کے شوہر کو بار بار ملتان جانا پڑتا تھا تو اس کو یہ لگتا تھا کہ اس کی ساس اپنے بیٹے کو دوسری شادی کی ترغیب دے رہی ہے. زید کو اپنا حدف مل گیا تھا. روبینہ کو دن رات کوئی نہ کوئی کام پڑتا اور وہ اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں مجب کو بلاتی لیکن محب اس سب سے چڑ جاتا تھا. زید نے محب کی جگہ جانا شروع کیا اور اس کی خوش اخلاقی نے روبینہ کو قائل کر لیا کہ وہ محب کی بجائے اسے ہی بلائے. زید کو ویسے بھی مستقبل کا انتخاب کرنا تھا اور محب کے والد اسے بی اے کر کے مقابلے کے امتحان کا کہہ چکے تھے لیکن زید یہ سب ڈسکس کرنے کے بہانے روبینہ سے ملتا اور اب دونوں میں بے تکلفی ہونے لگی تھی. زید نے سوچ لیا تھا کہ پھدی خود چل کر آئے تو معاف نہ کرو لیکن شکار آہستہ آہستہ ہی ہوتا تھا. اب اسے ایک ایسے دن کا انتظار تھا کہ جب وہ گرم لوہے پر چوٹ کر دے. ایک شام زید ایک مضمون کی اصلاح کے لیے روبینہ کے گھر چلا گیا. اتفاق سے موسم بھی خراب ہی تھا. زید جب گیا تو روبینہ کا موڈ کچھ ٹھیک نہیں تھا. جب زید نے اس سے مضمون کے حوالے سے بات کی تو وہ چلا اٹھی "تمہیں کیا میں ہی ملتی ہوں جو ہر بار منہ اٹھا کر میرے پاس آ جاتے ہو. جاؤ کسی اور کو ڈھونڈو. سارے شہر کے اصلاح کار مر نہیں گئے" یہ الفاظ زید کے لیے توہین آمیز تھے اور وہ خصے سے اٹھ کر باہر آیا لیکن باہر آتے ہی اس کی چال دھیمی ہو گئی کیونکہ اس کے دماغ میں یہ سوچ آئی کہ ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا اس کے ساتھ کیونکہ عورتیں پہلے اس پہ غصہ کرتیں اور بعد میں اسی سے پھدی مرواتی رہی تھیں. یہ بات ذہن میں آتے ہی اس کی رفتار سست ہو گئی اور اس کا تکہ نشانے پر لگا جب پیچھے سے روبینہ کی آواز آئی "رکو" لیکن زید اب آہستہ آہستہ کھلاڑی بنتا جا رہا تھا چنانچہ وہ سست روی سے چلتا رہا اور روبینہ نے دروازے کے پاس آکر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا "میں نے کہا نا رکو! مجھ سے غلطی ہو گئی جو کسی اور کا غصہ تم پہ اتار بیٹھی" زید کا مقصد پورا ہو گیا تھا. وہ چاہتا تھا کہ روبینہ اس کو چھوئے اور ایسا ہی ہوا. وہ زید کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے گئی. اس نے زید کو بٹھایا اور اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی"بتاؤ اب کیا اصلاح کروانی ہے" اس نے ہاتھ میں پکڑی کاپی ایک طرف رکھی اور بولا "مجھے لگتا ہے پہلے آپ کی اصلاح ہو جائے"وہ چونک کر بولی "کیا مطلب" زید نے کہا "کس پر غصہ تھیں اور کیوں" وہ بولی "زید اس سب کے لیے تم ابھی بہت چھوٹے ہو" وہ مسکرایا اور بولا "اب یہ تو آپ ذیادتی کررہی ہیں. بتا دیں ہو سکتا ہے دل کا بوجھ کم ہو جائے آپ ہی تو کہتی ہیں کہ دوست ہرمشکل میں ساتھ دیتے ہیں اور میں آپکا دوست ہی تو ہوں "وہ بولی "مگر تم سمجھ نہیں پاؤ گے" زید نے کہا "دیکھیں زندگی میں اتنے تلخ تجربے میرے بھی ہو ہی گئے ہیں کہ بہت سی باتیں میں سمجھ لیتا ہوں تو یہ مت سوچیں اور کہیں کیا بات ہے" روبینہ نے اسے ساری بات بتائی تو زید نے کہا "آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کچھ ذیادہ ہی سوچتی ہیں" وہ بولی "تم میری ساس کو نہین جانتے. وہ جادو ٹونہ بھی کرواتی ہے میرے شوہر پر" زید ہنسا اور بولا "میں اسی علاقے سے ہوں اور وہاں کے جادو ٹونے والوں کو آپ سے بہتر جانتا ہوں" وہ بولی "تم نہیں جانتے نا زید. میری دیورانی کے ہاں بھی اولاد نہیں تھی اور میری ساس ہم دونوں کو وہاں کے ایک پیر کے پاس لے جانا چاہتی تھی. لیکن میں نے تمہاری طرح ان چیزوں کے ہونے سے انکار کیا اور میری دیورانی چلی گئی اور اب اس کے دو بچے ہیں اور میرا شوہر اور ساس اسی بات کا طعنہ مارتے ہیں" زید نے کہا "کونسا پیر تھا" اس نے ایک پیر کا نام بتایا تو زید نے کہا "کتنی جمعراتیں گئی تھی آپ کی دیورانی" وہ چونکی اور بولی "سات جمعراتیں لیکن تم کیسے جانتے ہو" زید بے کہا "اور وہ دوسرا بچہ بھی جمعراتیں گزارنے کے بعد ہی ہوا ہوگا" وہ بولی "ہاں بلکل. اس کی دفعہ نو جمعراتیں لگی تھیں لیکن تم کیسے جانتے ہو" زید ہنسا اور بولا "ویسے بچہ ہونا تو آپ کو پیر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے وہ تو میں بھی بن سکتا یا کوئی بھی مرد بن سکتا" وہ چونکی اور بولی "کیا مطلب" وہ مسکرایا اور بولا "آپ کی ساس ان پڑھ ہو گی اور آپ کا سسرال دقیانوسی لیکن آپ کامن سینس کا استعمال کریں کہ کیسے جمعراتیں مزار پر یا آستانے پر گزارنے سے بچہ ہوجاتا" روبینہ حیرت ذدہ لحجے میں بولی "قسم سے میں اب بھی نہیں سمجھی" وہ مسکرایا اور بولا "سیدھی سی بات ہے کہ ان دو بچوں کا باپ آپ کا دیور نہیں وہ پیر ہے جس کے ہاں آپ کی دیورانی کی جمعراتیں گزریں" وہ جھٹکا کھاتے ہوئے بولی "یہ کیا بول رہے ہو" وہ بولا "دیکھیں وہ میرا علاقہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پیروں کی سرزمین ہے لیکن اصلی پیر اس طرح راتیں نہیں گزارتے نہ ہی وہ بھاری چڑھاوے لیتے ہیں. وہ دعا کرتے ہیں یا ذیادہ سے ذیادہ کوئی تعویز یا کھانے والی شے پر کچھ پڑھ دیتے ہیں. ان اصلی پیروں کے ساتھ کچھ ڈھونگی بھی پیر بن گئے ہیں اور آپ کی دیورانی ایسے ہی ایک پیر کے بچوں کی ماں بنی ہے اور ثبوت ہے دوسرے بچے کے لیے گزری اس کی نو جمعراتیں ورنہ دوسرا بچہ پیر کے پاس گئے بغیر بھی تو ہو سکتا تھا" یہ ایک ایسی بات تھی جو روبینہ کے دل کو لگی اور وہ قائل ہوتے ہوئے بولی "تم نے واقعی ٹھیک کہا تھا. تم نے تو میرے دل کا بوجھ ہی اتار دیا" دراصل یہ باتیں زید کو چھندو اور نسرین سے پتہ چلی تھیں اور کچھ اس کے دوستوں سے. اس کے بعد زید نے مضمون کی اصلاح کروائی اور وہ جانے ہی والا تھا کہ طوفانی بارش شروع ہو گئی. روبینہ نے کہا "تم اس بارش میں کہاں جاؤ گے اور ویسے بھی میں گھر میں اکیلی ہوں تو تم یہیں رک جاؤ. میں فون کردیتی ہوں" اس نے فون کردیا اور زید وہیں رک گیا. انہوں نے ساراوقت باتیں کرتے گزارا اور زید گیسٹ روم میں سونے چلا گیا. اسے لیٹے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ دروازہ کھلا اور روبینہ اندر آئی. لیکن اس وقت وہ قیامت لگ رہی تھی کیونکہ اس نے نائٹ گاؤن پہنا ہوا تھا اور اس کے ممے اس گاؤن سے باہر کو جھانک رہے تھے. زید کے لن نے جھٹکا کھایا اور اٹھ کھڑا ہوا جبکہ اس نے دل ہی دل میں کہا "بیٹا زید آج تو تیری لوٹری لگنے ہی والی ہے" روبینہ آئی اور اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی "مجھے نیند نہیں آرہی تھی اس لیے سوچا تم سے اور باتیں کرلوں لیکن اگر تم سونا چاہو تو..............." زید نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئےکہا "اب اتنی خوبصورت خاتون سامنے ہو تو کس کافر کو نیند آئے گی" روبینہ نے شرماتے ہوئے کہا "بڑے بےشرم ہو ویسے تم" زید نے کہا "لے اب سچ بولنا بھی بے شرمی ہو گیا" وہ بولی "بکو مت اور یہ بتاؤ میری مدد کر سکتے ہو" زید نے کہا "کیسی مدد" وہ بولی "میں اس سارے معاملے کو کھول کر اپنی اس چڑیل ساس کا دماغ درست کرنا چاہتی ہوں. مجھے ثابت کرنا ہے کہ ان بچوں کا باپ میرا دیور نہیں وہ پیر ہے" زید نے کہا "اس سے کیا ہو گا. بس آپ کی انا کو سکون آ جائے گا ہے نا" وہ بولی "ہاں ایسا ہی ہے" زید نے کہا"اور اس میں آ پ کی اس دیورانی کا کیا قصور جو آپ کی ساس کے مجبور کرنے پہ اس پیر کے پاس گئی اور اس کا اس پیر نے استعمال کیا زاتی تسکین کے لیے. ظاہر ہے اب پیر نے منتر ہڑھ کے تو بچے پیدا نہیں کیے. اس سے اس بے چاری کا بھرم ٹوٹ جائے گا اور ان بچوں کا کیا قصور جن کے اس وقت سارا خاندان لاڈ اٹھا رہا اور کل ان کو ناجائز ناجائز کے طعنے پڑیں گے. آپ کی انا کی تسکین کے چکر میں کتنی زندگیاں برباد ہوں گی یہ سوچا آپ نے" وہ بولی "تم واقعی میں اپنی عمر سے بہت بڑے ہو. یہ سب میں نے واقعی نہیں سوچا" زید نے کہا "کسی کی انا کی تسکین کے چکر میں گھر چھوٹنے کا درد مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا" وہ بولی "لیکن مجھے صرف اپنی ساس کو غلط ثابت کرنا ہے ہاں ایسے کسی کی زندگی برباد کر کے نہیں لیکن پھر بھی.........." وہ جیسے مایوس سی ہوئی تو زید نے کہا "وہ آپ کر سکتی ہیں پیر کے پاس گئے بغیر ڈاکٹری علاج سے ماں بن کر" وہ بھنا کر بولی "کمی مجھ میں ہو تو علاج کراؤں نا. کمی تو اس بڑھیا کے بیٹے میں ہے لیکن وہ کبھی یہ مانے گا نہیں" زید نے روانی میں کہا"تو آپ بھی وہی رستہ اپنائیں جو آپ کی دیورانی نے اپنایا مگر پیر کے پاس گئے بغیر" وہ بولی "تمہارا مطلب کہ میں کسی اور مرد سے........" زید نے کہا "آپ تو اتنی حسین ہیں آپ کے لیے تو............." چٹاخ کی آواز سے ایک تھپڑ زید کے منہ پر پڑا اور وہ غصے سے اٹھ کر چلی گئی. زید نے دل ہی دل میں کہا "فٹے منہ یہ کہیں الٹا گلے ہی نا پڑ جائے" اس نے سوچا کہ صبح پہلی فر صت میں معافی مانگ لے گا. لیکن کچھ دیر بعد روبینہ واپس آگئ. اس کا چہرہ ابھی تک غصے سے لال تھا. اس نے کہا "تم مجھے کیا ایسی عورت سمجھتے ہو" اس نے کہا "بلکل نہیں" روبینہ نے کہا "تو پھر تم نے ایسی بات کی کیوں" اس نے کہا "اب آپ گند صاف کرنے جائیں گی تو کچھ گند تو آپ کو بھی لگے گا نا. ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی اور یہ اس کی قیمت ہے" وہ بولی "تو تمہیں لگتا ہے کہ کوئی بھی مرد میری خوبصورتی سے متاثر ہو سکتا" اس نے کہا "جی ہو سکتا ہے" اس نے کہا "لیکن میرا راز کھل بھی تو سکتا" وہ بولا "تو اس کا آسان سا حل ہے کہ آپ ایسا انسان چنیں جو آپ کا راز راز رکھ سکے" اس نے کہا "اگر میں تمہیں چنوں تو" زید کے تو جیسے بھاگ ہی کھل گئے اور لن نے شلوار میں انگڑائیاں لیں لیکن زید اپنا اوتاولا پن اس کو دکھانے والا نہیں تھا. اس نے حیرت کی کمال اداکاری کرتے ہوئے کہا "مم...........م......میں...." وہ بولی "ہاں تم" زید نے کہا "لیکن میں کیسے" وہ بولی "جب خود میں ہمت نہیں تو ایسے مشورے کیوں دیتے ہو" زید نے کہا "بات وہ نہیں ہے. اگر کسی کو پتا لگ گیا تو میں اس ٹھکانے سے بھی جاتا رہوں گا اور محب........" وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی "اب نخرے نہ کرو. تم نے ہی یہ آگ لگائی ہے اب اس پر پانی بھی تم ہی ڈالو گے" زید اٹھا اور جانے لگا تو وہ بولی "کہاں جا رہے ہو" وہ بولا "تیل لینے. آپ کو درد ہو گا" وہ بولی "میں کوئی کنواری نہیں ہوں نہ ہی ایسی جو اپنے شوہر سے اس کام کی وجہ سے تنگ ہو کیونکہ ایک یہی کام تو وہ ٹھیک سے کرتا ہے" یہ بولتے ہوئے اس نے اپنا گاؤن اتار دیا اور نیچے سے کچھ نہیں پہنا تھا. وہ ننگی ہو کر بستر پر آئی تو اور لیٹ گئی تو زید نے بھی کپڑے اتارے اور اس کے اوپر آگیا. اس نے ممے پکڑے تو وہ ڈانٹتے ہوئے بولی "اوئے اندر ڈال اپنا پانی نکال اور بس" زید کو غصہ اور اس نے ٹانگیں کھولتے ہوئے خشک لن کا ٹوپہ پھدی پہ رکھا اور دھکا مار دیا. لن اندر گھس گیا لیکن تھوڑا سا. اس سے پہلے کہ روبینہ سائز کا اندازہ لگا پاتی. زید نے لن پورا پیچھے کھینچا اور اتنا زوردار دھکہ مارا کہ پورا لن اندر جا گھسا اور وہ چلائی "آہہہہہہہہہہہ ہاااااااائے امممی جی پھٹ گئی آہہہہہہہہہہ" زید نے گھسائے ہوئے ہی اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اپنے ہاتھ اس کے مموں پر رکھ کر دبانے لگا اور لن کو اندر باہر کرنے لگا. وہ چلانے لگی "آہہہہہہہہ کیاآاااااااااا ڈاااااااللل دیاااااااا میررررےےےےے انددددددررررر" زید اب دھکے لگا رہا تھا اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آرہی تھی جبکہ زید پوری طاقت سے روبینہ کو چودتا جا رہا تھا اور وہ چد بھی رہی تھی. روبینہ کی پھدی اتنے بڑے لن سے جلد ہی ہار مان گئی اور چھوٹنے لگی تاہم اس کی پھدی میں اتنی تنگی نہیں تھی جتنی گرمی تھی اور زید کو اپنا لن جلتا ہوا محسوس ہوا اور اس کے منہ سے آہہہہہہ نکلا اور لن پھدی میں ہی اپنے پانی کی الٹیاں کرنے لگا.وہ دونوں بری طرح ہانپ رہے تھے. زید نے پھدی سے لن نکالا اور اس کے ساتھ لیٹ گیا. روبینہ کی پھدی سے زید کا پانی باہر آرہا تھا اور اس کی ٹانگوں اور گانڈ کو بھگو رہا تھا. زید کا لن ذیادہ دیر نہ بیٹھ سکا اور کچھ دیر بعد ہی اس کا لن پھر سے کھڑا ہونے لگا. زید نے اپنے ہونٹ روبینہ کے ایک نپل پر رکھے تو اس دفعہ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی "میں تو تم کو اناڑی سمجھی تھی لیکن تم تو کھلاڑی نکلے. ایک ہی بار میں کس بل نکال دیے اور اتنا بڑا ہے تمہارا. شکر ہے کہ میں شادی شدہ ہوں اور میرا شوہر اکثر میرے ساتھ کرتا ہے اور آہہہہہہ کاٹو مت آہہہہہہ میں کہہہہہ ررہی تھی کہہہہ میرررےےے شووووہررر کا ہتھیاااااررر بڑااااا ہےےےےے آہہہہہہہ نہ کاااااااااٹوووو" زید آہستہ سے اس کے اوپر آیا اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا جبکہ ممے بھی دبا رہا تھا اور لن روبینہ کی ٹانگوں کے درمیان کر کے رگڑ رہا تھا. زید اس کے گال چومنے لگا تو وہ بولی"میں نےےےے سوووچچا تھاااااا کہہہہہ تمہہہیں ڈھیل نہہہیں ددددوووں گی لیکننن تممم بہہہہتت تیزززززز ہہہہہووووو" زید نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور پھدی اچھی طرح صاف کر کے ٹانگیں کندھوں پر رکھیں اور لن گھسا دیا. وہ آہہہہہہہہ کر کے رہ گئی. زید نے ایک اور جھٹکا دیا اور لن پورا گھس گیا تو وہ چلا اٹھی "آہہہہہہہہہہہ پھٹ گئی میرررررررررری آہہہہہہہہہہہہہ" زید نے اس کو چومتے ہوئے لن اندر باہر کرنا شروع کردیا. کمرے میں تھپ تھپ اور روبینہ کی آہوں کی آواز گونجنے لگی. زید نے رفتار بڑھا دی اور اسی کے ساتھ ہی روبینہ کا جسم اکڑا اور اور اس کے ہاتھوں کی گرفت زہد کے جسم پر مضبوط ہوئی اور اس کے منہ سے آہہہہہہہہ نکلا اور وہ ڈھیلی پڑ کر ہونپنے لگی جبکہ اس کی پھدی سے نکلا پانی زید کے لن لو بھگونے لگا. زید نے لن نکال کر چادر سے صاف کیا اور اس کے پہلو میں لیٹ کر اس کی کمر اپنی طرف کرکے اس کی ٹانگ اٹھائ اور پیچھے سے لن اس کی پھدی پہ رکھ کر اندر گھسا دیا اور چودنے لگا جبکہ وہ مزے کے عروج پر پہنج کر بول رہی تھی "آآآآہہہہہہہہ ااااااووووورررر زززززووووررررررر سسسسسےےےےےےے آہہہہہہہہہہ" زید اس کو چودتا رہا اور اس کا پانی ایک دفعہ اور نکال کر سامنے سے چودنے لگا اور پھر اس کی پھدی میں چھوٹ گیا جبکہ اس نے تین بار اپنا پانی چھوڑا تھا. کچھ دیر بعد وہ ایک ساتھ لیٹے تھے جب روبینہ نے کہا"تم تو بڑی چیز ہو. یہ تمہارا پہلی بار تو نہیں" زید نے کہا "جب آپ کو معلوم ہے تو پھر اس پہ بات کرنے کی کیا ضرورت ہے" وہ بولی "کون تھی اس ہتھوڑے کا کنوراہ پن لوٹنے والی" زید نے ہنس کر کہا"چھوڑیں بس آپ نہیں تھیں اتنا کافی ہے" وہ بولی "کافی منجھے ہوئے ہو. استانی ہوں اس لیے تجربے سے بول رہی کہ میں دوسری نہیں جس نے اس ہتھیار کو جھیلا ہے" زید نے کہا "ان باتوں کو چھوڑیں اور میں تھک گیا ہوں مجھے سونا ہے" وہ بولی "تو سو جاؤ" وہ اس سے لپٹ کر بولا "مجھے آپ کے ساتھ سونا ہے" وہ مسکرائی اور بولی "نخرے کرنے لگے ہو تم ویسے" وہ ہنس پڑا اور اس کو مزید بھینچ لیا. زید اور روبینہ کی چدائی کا سلسلہ چلتا رہا. روبینہ کے ہاں تو کچھ نہ ہوا لیکن بینہ کو الٹی آگئی اور زرینہ بھی ایک دو بار لاہور آکر اس سے چدوا کر گئی اور ان ہی چدائیوں کے بیچ رزلٹ آگیا اور اس نے فرسٹ ڈویزن حاصل کی.ایک شام محب زید کو کرنل شجاع کے گھر لے گیا جو اسد شاہ اور چوہدری حیدر دونوں کے باہمی دوست تھے جبکہ ان کی اکلوتی بیٹی فضا زارا کی بہترین دوست ہونے کے ساتھ ساتھ محب کی محبوبہ بھی تھی۔ زارا کو اپنے سامنے دیکھنا زید کے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ رزلٹ کے بعد ضرور اس سے رابطہ کرے گی۔ محب اور فضا انہیں اکیلا چھوڑ کر گھر کے کسی اور حصے میں چلے گئے جبکہ زید اور زارا ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ دونوں کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر زارا آگے آئی اور زید سے لپٹ گئی۔ اس نے کہا "میں بہت خوش ہوں اور مجھے تم پر بہت فخر ہے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ تم مجھے پڑھائی کے نتائج سے مایوس نہیں کرو گے" زید خاموش رہا لیکن اس نے اسے خود سے الگ نہیں کیا کیونکہ وہ اندر سے خوش بھی تھا لیکن وہ یہ زارا کو نہیں دکھانا چاہ رہا تھا. وہ بولی، "کیا تم مجھے اپنے سامنے دیکھ کر خوش نہیں ہو؟" وہ مسکرایا اور اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولا، "تم یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہو کہ میں تمہیں اپنے سامنے دیکھ کر خوش نہیں ہوں، یقیناً میں بہت خوش ہوں۔ لیکن تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ اگر ابا جی کو اس کا علم ہو گیا تو یہ ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہوگا اور تم جانتی ہو کہ میں پہلے ہی ایک الزام کی زد میں ہوں اس لیے میں نہیں چاہتا کہ تم میری پریشانیوں کا حصہ بنو"۔ وہ ابھی تک اس کی بانہوں میں تھی اور اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی، "یہ تو میں جانتی ہوں لیکن تمہارا رزلٹ دیکھنے کے بعد میں خود کو روک نہیں پائی، اور تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ میں تمہاری مصیبتوں کا حصہ نہیں بن سکتی جب کہ یہ مصیبتیں کسی حد تک میری وجہ سے ہیں" اس نے کہا، "زارا، بس یاد رکھو کہ سب کچھ بدل سکتا ہے لیکن تم سے میری محبت کبھی نہیں بدلے گی اور ہمیشہ ویسی ہی رہے گی جیسا کہ پہلے تھی" اس نے کہا، "مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے اور میں آئی یہاں تم سے ملنے ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمہارے دستاویزات لینے کے لیے تاکہ میں ان دستاویزات کو برطانوی ہائی کمیشن میں جمع کروا سکوں اور تاکہ میں تمہاری طرف سے برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں درخواست دے سکوں"اگرچہ زید کا ابتدائی منصوبہ یہ کرنا تھا لیکن اب حالات بدل چکے تھے اور اس نے بھی اپنا ارادہ بدل لیا تھا کیونکہ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ پاکستان میں رہ کر کچھ بھی کرے گا اور اپنے اہل خانہ کے سامنے اپنی قابلیت کا ثبوت دے گا تاکہ اس کے والد فخر سے کہتے کہ زید ان کا بیٹا ہے۔ اس نے کہا "زارا اب ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے" وہ بولی "کیا مطلب تم اب یو کے نہیں جا رہی ہو" اس نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور اس کے قدموں میں بیٹھا اور سر اس کی گود میں رکھتے ہوئے کہا، "میری جان دیکھو، ہم نے یہ منصوبہ بہت پہلے بنایا تھا اور میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اس پلان کے ساتھ چلوں گا لیکن تم جانتی ہو کہ گھر میں کیا ہوا، یہ صرف میں نے نہیں تھا جس نے اس کی قیمت ادا کی بلکہ یہ میرے ابا جی بھی تھے جنہوں نے اپنی قدر کے ساتھ ساتھ اپنا فخر بھی کھو دیا اور میں اپنے والد کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا اس لیے مجھے یہاں پاکستان میں رہ کر کچھ کرنا ہوگا اور سب کو ثابت کرنا ہوگا کہ میری بھی کوئی قدر ہے اور میرے والد مجھ پر فخر محسوس کر سکتے ہیں. یو.کے میں کچھ کیا بھی تو جنگل میں ناچا مور کوئی نہیں دیکھے گا، مجھے امید ہے تم یہ سمجھ جاؤ گی اور تم میرے فیصلے کا احترام کرو گی۔" اس نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں پکڑا اور کہا، "زید مجھے خوشی ہے کہ اس واقعے نے تمہیں ایک بہت مہذب اور پر اعتماد انسان بنا دیا ہے اور نہ صرف یہ کہ میں تمہارے فیصلے کا احترام کرتی ہوں بلکہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ کھڑی رہوں گی جب تم اپنے فیصلے کا نتیجہ حاصل کرو گے تو میں سب سے زیادہ خوش ہوں گی۔‘‘ زید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چومتے ہوئے کہا، "وہ سویرا سوچ رہی تھی کہ میں تم سے تمہاری حیثیت اور پیسے کی وجہ سے پیار کرتا ہوں لیکن وہ یہ کبھی نہیں سمجھ سکتی کہ سچی محبت میں ان دنیاوی چیزوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور دونوں کے لیے ایک ہی چیز اہمیت رکھتی ہے کہ وہ دونوں۔ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کے فیصلے میں دوسرے ساتھی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں" وہ مسکرا کر بولی "لیکن اب تم کیا کرنے والے ہو" اس نے کہا، "میں نے ابھی تک نہیں سوچا لیکن میں کچھ کروں گا جتنی جلدی ہو سکے۔" زید اور محب اپنی محبوباؤں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کے بعد واپس آئے۔اگرچہ زید نے زارا کو بتایا کہ اس کے ذہن میں کوئی منصوبہ نہیں ہے لیکن اس نے پہلے ہی اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنا رکھا تھا، اس نے کرنل شجاع کے گھر کے گیٹ پر پاک فوج میں کمیشن افسروں کی بھرتی کا اشتہار دیکھا تھا اور اس نے سوچا کہ وہ پاکستان کی فوج میں بھرتی ہو جائے گا لیکن کسی کو اس وقت تک پتہ نہیں چلے گا جب وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس پر سب کو فخر ہو۔ اس نے مقررہ تاریخ پر ٹیسٹ دیا اور اسے آسانی سے پاس کر لیا، اب اسے آئی ایس ایس بی کے لیے تجویز کیا گیا جو ہر طرح ایک مشکل کام تھا اور اس نے اس کی تیاری شروع کر دی اور کچھ دن کے لیے روبینہ کی پھدی کی چدائی تک سے چھٹی لے لی۔ اس نے محب کے گھر والوں کو بتایا کہ وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک ہفتے کی چھٹیوں پر جا رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ کوہاٹ میں آئی ایس ایس بی سنٹر گیا اور آرمی کا آئی ایس ایس بی ٹیسٹ دیا اور مزید دو دن مری میں گزارنے کے بعد واپس آگیا۔ زید اس وقت روبینہ کے گھر میں تھا اور وہ روبینہ کو چودنے میں مصروف تھا اور وہ دونوں ننگے تھے. زید روبینہ کی ٹانگیں کندھوں پر رکھے چودے جا رہا تھا اور تھپ تھپ کی آواز کمرے میں آرہی تھی جبکہ اس کے ممے اچھل رہے تھے اور زید اس کی گانڈ دبا رہا تھا اور وہ کراہ رہی تھی "آہہہہہہہہہ چووووودددد ااااااووووررر ززززوووررر سے چوووووددددددد توووووو ننےےےے مجھےےےے اپنےےےے لن کاااااااا دیووووواااااااااانہ بنااااااااا دیاااااااا ہےےےے آہہہہہہہہہہہ تجھےےےےے نہیں پتاااااااا کہہہہہہہ کیسےےےےء میررررررررےےےے یہہہہہہہ چندددددد ددددددن گزززززززرررررےےےے آہہہہہہہہہ میں گئی آہہہہہہہہہ" روبینہ کی پھدی کا پانی چھوٹ گیا. وہ دونوں اس بات سے انجان تھے کہ ان کو شینہ یہنسب کرتے دیکھ رہی تھی. روبینہ یہ بھول گئی تھی کہ شینہ کے پاس اس کے گھر کی ایک فالتو چابی تھی اور وہ اس کے گھر سے چند گلیاں دور رہتی تھی.وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ.خالہ کالج میں لیکچر دے رہی ہو گی اور وہ گزشتہ روز کی گئی شاپنگ کے بیگ اٹھا لے گی جو وہ بھول گئی تھی مگر اندر اپنی خالہ کو کالج سے چھٹی کرکے اپنے سے آدھی سے بھی کم عمر کے لڑکے سے گانڈ اٹھا ٹھا کے چدتے ہوئے دیکھ کر حیران تھی. روبینہ کے فارغ ہوتے ہی زید نے لن نکال لیا اور چمکتا لن دیکھ کر شینہ کی پھدی پنیا گئی کیونکہ اس کے شوہر کا لن کافی چھوٹا اور پتلا تھا. زید نے روبینہ کو گھوڑی بنا کر چودنا شروع کردیا اور اس بار اس کے دھکے اس ودر طوفانی تھے کہ روبینہ کے کس بل نکل گئے اور شینہ بھی پھدی میں انگلی پر مجبور ہو گئی اور شلوار نیچے کر کے انگلی کرنے لگی. زید روبینہ کی پھدی میں چھوٹا اور شینہ کی پھدی نے بھی رس چھوڑ دیا. وہ گھر واپس آئی لیکن لن کی طلب اسے پاگل کرنے لگی. رات شوہر سے بھی چدوایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا. اس نے ٹھان لیا کہ وہ زید کو بلیک میل کر کے لن لے کر رڑپ مٹائے گی. اس نے اپنی ماں امینہ کو فون کیا اور کہا کہ زید کو بھیج دے تا کہ کچھ سٹور روم میں سامان رکھنا ہے اور اس میں مدد کر دے. امینہ کو غصہ آیا کہ زید ان کا نوکر تو نہیں لیکن اس کو بھیجنا پڑا. اندر آکر زید نے پوچھا "جی کہاں رکھنا ہے سامان" وہ غصے سے بولی "میں نے تمہیں یہاں سامان رکھنے کے لیے نہیں بلایا" زید نے کہا "جانتا ہوں" وہ چونک کر بولی "کیا مطلب" زید نے کہا "کل مجھے اپنی خالہ کے ساتھ دیکھ کر جو آگ لگی تھی وہی ٹھنڈی کروانی ہے" وہ حیرت ذدہ ہوئی اور بولی"بے شرم وہ تو خالہ کو نہ پتا چلے اس لیے نہیں کچھ کہا" زید نے کہا"اور جو انگلی کی اور پانی نکالا اس کا کیا" وہ حیرت ذدہ تھی کہ زید کسے اس سب سے واقف ہو گیا.وہ بولی "سوچو اگر یہ سب میں نے گھر بتا دیا تو" وہ ہنس کر بولا "تو مان جاؤں گا کہ آپ کے ساتھ میرا چکر ہے" وہ حیرت سے بولا "کیا بکواس کر رہے ہو" وہ بولا"میں ثابت بھی کردوں گا" وہ حیرت سے بولی "وہ کیسے" وہ بولا"یہ بتا کر کہ آپ کی پھدی سے تھوڑا سا نیچے ایک تل ہے اور وہ اسی وقت نظر آتا ہے جب یا عورت انگلی چلائے یا لن لے" زید نے اس قدر بے شرمی سے کہا کہ وہ کنگ ہو گئی. وہ بولی"مم........م.........میں.....وہ............... ............." زید نے اسے دھکا دے کر بیڈ پہ گرایا اور اپنی شلوار کھولتے ہوئے کہا "کافی ہوگیا ڈرامہ اب اصل کام.کر لیں" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی. زید نے اپنی قمیض بھی اتار دیا. ننگا لن پھنکارتا ہوا باہر آگیا. زید نے اس کی ٹانگوں میں ہاتھ ڈالا تو وہ بولی "وو......وہ.......مم......." اس کے ہکلاتے ہکلاتے ہی زید نے اس کی لاسٹک والی شلوار کھینچ کر اتار دیا. زید بیڈ پہ آیا اور اس کی ٹانگیں کھولتا ہوا لن اس کی پھدی پر لے آیا. اس نے قمیض پیٹ سے اوپر کی اور لن پر تھوک لگا کر دھکا مار دیا. تھوڑا سا لن اندر جاتے ہی وہ چلا اٹھی "آہہہہہہہ آآآررررراااااااممم سسسےےےےےے بببہہہہتتت بببڑڑڑااا ہہہےےے" زید نے اس کا دوپٹہ اٹھا کر اس کے منہ میں دہا اور ہاتھ زور سے قابو کر کے دو زوردار دھکوں میں لن شینہ کی پھدی کے آرپار کردیا. وہ ماہی بے آب کی طرح جھٹپٹا رہی تھی جبکہ زید پھدی میں لن رکھ کر لیٹا ریا. اس نے اسے اٹھایا اور قمیض اتارتے ہوئے اس کا دوپٹہ منہ سے نکالا تووہ لگ بھگ چلائی "آآآآآآآئےےےےےےےےے تتتمممم ننےےےے مممررررریی پھاڑڑڑڑ ڈددددددییی" زید نے اس کے ممے دباتے ہوئے اس چوما اور آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنے لگا. لن پھدی کی تنگی کی وجہ سے پھنس پھنس کر اندر جاتا رہا. شینہ کی آہوں کے درمیان ہی زید کی رفتار بڑھتی گئ اور اس کی پھدی نے ہتھیار ڈالے اور وہ چلا اٹھی "ہہہہہہہااااااااہہہہہ ممممییییرررررااااااا پہہہاااااانننننییییی نننننککککللللل گگگگیییااااا آآآآآہہہہہہہہہہہہہ" کو کہ اس کی پھدی گرم تھی مگر زید پھر بھی قائم رہنے میں کامیاب رہا اور اس کی پھدی کا دوسری بار پانی نکلنے کے بعد ہی اپنا پانی شینہ کی پھدی میں ہی چھوڑا. زید اس کے ساتھ لیٹا ہوا تھا جب شینہ نے اٹھ کر کراہتے ہوئے اپنی پھدی کی حالت دیکھی اور کہا "آآآآآہہہہہہہ تتتتمممم نننےےےےے ممممیییرررررررییییی پپپپھھدددییی کااااااا پپھھھددددااااا بببننننااااااااا دددددددیییاااااااااا ہہہہہہہہہہ" زید نے کہا "یہ تو ہونا ہی تھا" اس نے واپس لیٹ کر کہا "تمہیں کیسے پتالگا کہ کل میں وہاں تھی اور میرے تل کا کیسے پتا لگا" زید نے اس کے ممے سے کھیلتے ہوئے کہا "کامن سینس سے" وہ بولی "مطلب" زید نے کہا "آپ کے بلکل سامنے ایک شیشہ لگا تھا اور اس میں سب دکھ رہا تھا. میں نے آپ کی خالہ کو دو بار فارغ کرا دیا تھا اور میرا ہونے والا تھا لیکن یہ تیسری بار آپ کے لیے ان کو فارغ کرایا کیونکہ آپ کو لن کا دیدار کرانا تھا. ہاں یہ میں نے نہیں سوچا تھا کہ اتنی جلدی میرا لن پھدی کہ سیر بھی کر آئے گا" وہ ہنسی اور بولی "ہاہ مجھے اس شیشے کا یاد ہی نہیں تھا. لیکن تم نے خالہ کو کیسے پھنسایا کیونکہ جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے تم نے میری پھدی کو بجا کر رکھ دیا, اس سے ایک بات واضع ہے کہ خالہ تمہارا پہلا شکار نہیں تھی اور نہ ہی خالا ایسی ویسی ہے کہ اپنی عمر سے آدھے لڑکے سے یوں مزے سے ٹانگیں کھول کھول کر چدوائے" زید ہنسا اور بولا "آپ کی بات آدھی ٹھیک ہے" وہ بولی "وہ کیسے" وہ مسکرا کر ممے سے کھیلتا ہوا بولا "یہ سچ ہے کہ وہ پہلی عورت نہیں تھیں جن کو میرا لن نصیب ہوا لیکن قسم سے آپ پہلی ہیں جس کو میں نے پھنسایا ورنہ آپ سے پہلے جو بھی میرے لن کے نیچے آئی وہ اتفاق سے ہی آگئی. آپ بھی شاید اتفاق سے ہی آتیں لیکن آپ کی قسمت کہ میں نے آپ کو انگلی کرتے دیکھ لیا تھا اس کیے مجھے یہ اتفاق نہیں لگا اور میرے پاس ضائع کرنے کا وقت نہیں تھا سو آپ میرے نیچے اور میں آپ کے اوپر" وہ ہلکی سی چپت لگا کر بولی "بہت ہی بے شرم ہو ویسے تم" کچھ دیر بعد زید کا لن دوبارہ شینہ کی پھدی کی سہر کررہا تھا. پی ایم اے جانے تک زید دونوں خالہ بھانجی پہ روز ڈبل ڈیوٹی کرتا رہا اور ان کو یہ کہہ کر کہ اس کا ایڈمشن کراچی میں ہوا ہے وہ پی ایم اے نکل گیا. یہ جھوٹ اس سرپرائز کے لیے تھا جو وہ دینا چاہتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور اس کا سرپرائز اس کے لیے اور اس کی اصل شناخت چھپانے کے لیے بہت معاون ٹابت ہوا.​
                جاری ہے...............
                Last edited by jatt-lahoria; 01-15-2023, 09:07 AM.

                Comment


                • #38
                  دوستو اپڈیٹ کچھ لمبی تھی اس لیے لیٹ پوسٹ کی لیکن امید ہے آپ لو مزہ آئے گا

                  Comment


                  • #39
                    لاجواب کہانی ہے چھاہ گے ہو

                    Comment


                    • #40
                      کمال کی اپڈیٹ ہےمزاہ آ گیا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X