Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

نوکر نے بنایانوکریانی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    اس نے اپنے منہ میں تھوک اکھٹا کیا اور میرے منہ میں پھنکنے لگا۔ میں اسے دیکھتی رہی نا ہی اپنا سر پچھے کیا اور نا ہی اسے زبان سے روکنے کی کوشش کی۔ جس کا نتجہ یہ ہوا کہ اس کہ منہ سے نکلتا ہو تھوک میرے منہ سے ہوتا ہوامیرے گلے میں جا رہا تھا۔ جس کو میں نے اپنے گلے سے نیچے اتار لیا۔ ایک بار پھر اس نے میرے گلے میں تھوک پھنکا اور پھر مجھے اپنے لوڑے پر جھکا لیا۔میں بھی زور شور سے اس کا لوڑا چوسنے لگی۔ عثمان کا اور میرا ملا جلا تھوک سے اس کا لوڑا پوری طرح سے گیلا ہو گیا تھا۔ جس کے بعد اس نے میرے منہ کو پکڑا اور اپنے لوڑے کو باہر نکال کر میر ے منہ پر پھرنے لگا، جس سے اس کے لن پر لگا سارے تھوک میرے چہرے پر پھیل گیا۔ اور اسنے اپنے ٹٹے میرا منہ پر رکھے۔ ایک بار پھر میں اس کے ٹٹوں کا چاٹنے لگی اس پر اگۓ چھوٹے چھوٹ بال اور تھوک اور پسینے سے گیلے ہو چکے تھے۔ اور میں اس پر اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ کافی دیر کے بعد اس نے میرا سر کو چھوڑا تو میں اس کی طرف دیکھنے لگی کے رک کیوں گے۔ اور کرن بولی کہ مجھے تمھاری زبردستی اور تزلیل پسند آرہی ہے اور میں تمھیں روکوں گی نہی۔ میں شکوہ نہی کروں گی بلکے تم کو خوش کر دوں گی۔ اس نے مسکرا کر مجھے اپنے لوڑے پر جھکنے کا اشارہ کیا اور میں خوشی خوشی اس کا لوڑا چوسنے لگی۔ کچھ دیر کے بعد وہ کھڑا ہوا اور زور زور سے میرے منہ کو چودنے لگا جیسے منہ نہی میری پھدی ہو۔ میں نیچے بیھٹی اس کے دھکے جھلتی رہی اک ہار بھی اسے رکنے کا نہی کھا اور نہ ہی اپنے ہاتھ اس لے لن پر رکھے بلکے اس کے ٹانگوں اور گانڈ پر ہاتھ پھرتی رہی۔ کچھ دیر زور و شور سے چودنے کے بعد اس کا لن پھولنے لگا۔ پھر اس کا لوڑے کا گرم گرم رس میرے منہ میں گہلنے لگا۔ اپنی منی کو میرے منہ میں نکالنے لے بعد اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اس وقت تک میری حالت خراب اور میرا چہرا لال ہو گیا تھا۔ عثمان مجھے چھوڑ کر اپنے کمرے میں گیا اور اپنے کپڑے بدل کر میرے پاس آگیا۔ اور مجھے آٹھا کر کھڑا کیا۔اور میں خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔ وہ بولا کرن جی۔ گیارہ بج گیے ہیں کیا آپ نے اپنے ابو کو ملنے ہسپتال نہی جانا۔ ہیمں تیس منٹس لگ جانیں گے۔ اور وہ مجھے اسی حالت میں کھنچتے ھوے کار تک لے گیا۔ مجھے کار میں بٹھ کر خود کار کو چلانے لگا۔ کچھ وقت کے بعد اس نے باکس سے ٹشیو نکال کر میری طرف کیے اور کیا کہ کرن جی اپنی حالت تو ٹھیک کرلو۔ اپنا منہ صاف کرلو۔ سارے چہرے پر منی اور تھوک جم چکا تھا۔۔۔۔ کمنٹس کا اتظار۔۔۔ اگلی آپدئٹ کل رات۔۔۔۔۔۔۔

    Comment


    • #12
      اس نے اپنے منہ میں تھوک اکھٹا کیا اور میرے منہ میں پھنکنے لگا۔ میں اسے دیکھتی رہی نا ہی اپنا سر پچھے کیا اور نا ہی اسے زبان سے روکنے کی کوشش کی۔ جس کا نتجہ یہ ہوا کہ اس کہ منہ سے نکلتا ہو تھوک میرے منہ سے ہوتا ہوامیرے گلے میں جا رہا تھا۔ جس کو میں نے اپنے گلے سے نیچے اتار لیا۔ ایک بار پھر اس نے میرے گلے میں تھوک پھنکا اور پھر مجھے اپنے لوڑے پر جھکا لیا۔میں بھی زور شور سے اس کا لوڑا چوسنے لگی۔ عثمان کا اور میرا ملا جلا تھوک سے اس کا لوڑا پوری طرح سے گیلا ہو گیا تھا۔ جس کے بعد اس نے میرے منہ کو پکڑا اور اپنے لوڑے کو باہر نکال کر میر ے منہ پر پھرنے لگا، جس سے اس کے لن پر لگا سارے تھوک میرے چہرے پر پھیل گیا۔ اور اسنے اپنے ٹٹے میرا منہ پر رکھے۔ ایک بار پھر میں اس کے ٹٹوں کا چاٹنے لگی اس پر اگۓ چھوٹے چھوٹ بال اور تھوک اور پسینے سے گیلے ہو چکے تھے۔ اور میں اس پر اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ کافی دیر کے بعد اس نے میرا سر کو چھوڑا تو میں اس کی طرف دیکھنے لگی کے رک کیوں گے۔ اور کرن بولی کہ مجھے تمھاری زبردستی اور تزلیل پسند آرہی ہے اور میں تمھیں روکوں گی نہی۔ میں شکوہ نہی کروں گی بلکے تم کو خوش کر دوں گی۔ اس نے مسکرا کر مجھے اپنے لوڑے پر جھکنے کا اشارہ کیا اور میں خوشی خوشی اس کا لوڑا چوسنے لگی۔ کچھ دیر کے بعد وہ کھڑا ہوا اور زور زور سے میرے منہ کو چودنے لگا جیسے منہ نہی میری پھدی ہو۔ میں نیچے بیھٹی اس کے دھکے جھلتی رہی اک ہار بھی اسے رکنے کا نہی کھا اور نہ ہی اپنے ہاتھ اس لے لن پر رکھے بلکے اس کے ٹانگوں اور گانڈ پر ہاتھ پھرتی رہی۔ کچھ دیر زور و شور سے چودنے کے بعد اس کا لن پھولنے لگا۔ پھر اس کا لوڑے کا گرم گرم رس میرے منہ میں گہلنے لگا۔ اپنی منی کو میرے منہ میں نکالنے لے بعد اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اس وقت تک میری حالت خراب اور میرا چہرا لال ہو گیا تھا۔ عثمان مجھے چھوڑ کر اپنے کمرے میں گیا اور اپنے کپڑے بدل کر میرے پاس آگیا۔ اور مجھے آٹھا کر کھڑا کیا۔اور میں خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔ وہ بولا کرن جی۔ گیارہ بج گیے ہیں کیا آپ نے اپنے ابو کو ملنے ہسپتال نہی جانا۔ ہیمں تیس منٹس لگ جانیں گے۔ اور وہ مجھے اسی حالت میں کھنچتے ھوے کار تک لے گیا۔ مجھے کار میں بٹھ کر خود کار کو چلانے لگا۔ کچھ وقت کے بعد اس نے باکس سے ٹشیو نکال کر میری طرف کیے اور کیا کہ کرن جی اپنی حالت تو ٹھیک کرلو۔ اپنا منہ صاف کرلو۔ سارے چہرے پر منی اور تھوک جم چکا تھا۔۔۔۔ کمنٹس کا اتظار۔۔۔ اگلی آپدئٹ کل رات۔۔۔۔۔۔۔

      Comment


      • #13
        اُسکی بات سن کر مجھے ہوش آیا کے میرے منہ پر عثمان کا تھوک اور لوڑے کا پانی جو کے اب خشک ہوگیا تھا۔یہئ نہی بلکے میرے منہ کے اندر بھی پانی کا نمکین ٹیسٹ محسوس ہو رہا تھا۔ ۔ اب میں نہ تو منہ دھو سکتی تھی، نہ کپڑے بدل سکتی تھی۔ اس لیے جلدی جلدی خود کو کچھ حد تک صاف کر لیا. میرے چہرے کو دیکھ کے عثمان ابھی مسکرا رہا تھا۔
        کرن جی۔ اتنی بھی پریشانی نہ لو۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تم اپنے والد کی صحت کو لے کر پریشان ہو۔ سو کو بھی بہی سوچے گا کی تم کیا کر کے آرہی ہو۔ اور تمھاری ایسی حالت کیوں ہے۔
        میں عثمان کی بات سن کر چپ رہی اور دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کے میں اندر ہی اندر سے بہت بدل گئی تھی۔ میرے ہوس اتنی بڑھ گی تھی کے میں عثمان کے ساتھ ہر لمحے کو پھرپور طرح کے گزارنا چاہتی تھی۔
        میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ مگر جب سے ائی تھی بلکل بدل چکی تھی۔ میں اس کے لوڑے لو لینے لے لیے تڑپ رہی تھی۔ اس لے لمبے اور مضبوط لوڑے سے اپنی پھدی کو سراب کرنے کے لیے بیقرار ہو رہی تھی۔ مگر وہ صرف مجھے دیکھ رہا تھا کہ میں اس کے لوڑے کے کیے کس حد تک جا سکتی ہوں۔ اور یہی سوچتے سوچتے میں ہسپتال پہنج گی۔ آج بھی کل کی طرح ہمارا استقبال ہوا۔ اپنے والد کو دیکھنے کے بعد بھی میری بیچنی ختم نہی ہویہی۔ میں جلد از جلد ہسپتال سے نکلنا چھتی تھی۔ اپنی پیاس بجھا چہتی تھی۔
        اب کی بار گاڑی عثمان چلا رہا تھا۔ اور میں ساتھ والی سیٹ پر عثمان نے اپنا لوڑا نکالا اور میرا ہاتھ اس پر رکھ دیا۔ جس کی میں مٹھ مار رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے اپنا لوڑا چوسنے کے لیا کہا۔
        کرن: کوئی دیکھ لے گا۔
        عثمان: کیا ہوا تم ایک رنڈی ہو کوئی دیکھ بھی لے تو۔ تم تو خود بھی تو اسے چوسنے کے لیے بیقرا ہو۔
        میں آہستہ آہستہ اس لے لن بر جھکی اور اس پر زبان پھرنے لگی۔ اور عثمان میرے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ جیسے مجھے شاباش دے رہا ہو۔ اس کا لن مجھے اپنا دیوانہ بنا چکا تھا۔میں بھول چکی تھی کے میں کہاں پر ہوں۔ عثمان نے میرے چہرے کو پھچے کیا اور اپنے لن پر تھوک پھنکا جو کہ اس کے لن سے ہوتا ہوا، اس کے ٹٹون پر جانے لگا۔
        عثمان نے کہا کہ میرا لن گیلا نہی ہو ریا تھا تو اپنے تھوک سے گیلا کر دیا اور مجھے دربارہ چوسنے کا کہا، اور ساتھ ہی مجھے اپنے لن پر جھکنے پر مجبور کر دیا بلکہ یہ میں خود ہی جلدی سے جھک گئی کہ اس کا بیش قیمتی تھوک زائع نہ ہو جاۓ۔
        ایسے ہی ہم گھر پہنچ گےاور اس نے اپنے لن لو میرے منہ سے نکالا اور گاڑی سے نیچے اتر گیا۔ میں حیران تھی کے اسے اچانک کیا ہوا۔ پھر محسوس ہو کہ ہم گھر پھنچ چکے تھے۔ میں جلدی سے اس کے پھچے اپنے والد کے گھر میں داخل ہوئی عثمان کمرے میں کھڑا تھا میں نے پچھے سے اسے اپنی باہون میں لے لیا اور اس کہ لن لو پکڑا۔ مگر اس نے میرے ہاتھ کو ہٹا دیا۔مجھے بالوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھنچا درد کے مارے میرے منہ سے چیخ نکلی مگر میں اس کے سامنے اپنے آپ بےبس محسوس کر رہی تھی۔
        کیا چہتی ہو تم ؟ کیوں آئی ہو تم یہاں؟؟
        کرن: تمھارا لن چاہیے۔
        عثمان : کہاں چاہیے۔
        کرن: اپنے منہ میں
        عثمان : اور
        کرن: اپنی پھدی میں
        عثمان: اپنی گانڈ میں
        کیوں چاہے۔
        کرن: کیوں کے میں پیاسی ہوں۔
        عثمان: تم پیاسی ہو تو اپنے شوہر سے بجھوا اپنی پیاس۔
        کرن: وہ میرے پیاس نہی بجھا سکتے تم بجھاو میری پیاس۔
        عثمان: کیوں نہی بجھا سکتے وہ تمھاری پیاس۔
        کرن: ان کا لوڑا چھوٹا ہے اور دو منٹ میں چھوٹ جاتا ہے۔
        عثمان یہ سب پوچھ کر مجھے زلیل کرریا تھا ۔ مگر میں بھر بھی اس کے سب سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔
        عثمان تو میں کیا کروں کیسی اور جا کر بجھ لو اپنی پیاس۔
        نہی
        مجھے صرف تمھارا لوڑا چاہیے ۔
        عثمان: تمہں میرا لوڑا نہی مل سکتا۔
        کرن: کیوں
        عثمان: کیوں کی میں جس عورت کو چودتا ہوں اسے بہت زلیل کر کے چودتا ہوں۔ ایک بازارو رنڈی بنا کر رک دیتا ہوں۔ وہ سلوک کرتا ہوں جو وہ سوچ نہی سکتی۔
        کرن۔ میں ویسے کروں گی جسے تم کھوگے۔ ویسے چدواں گی جیسے تم چودو گے۔ ہر قدم پر تمھارا ساتھ دوں گا۔ رنڈی بن کے رہوں گی تمھاری۔
        عثمان: بھر اپنے شوہر کو کیا جواب دو گئی جب اپنی کھلی ہو پھدی لے کر جاوے گئی۔ کرن: فلحال مجھے تم سے چدوانا ہے، مجھے کیسی کی پرواہ نہی۔ عثمان میں چود سکتا تم رنڈی نہی ہو تم میرے مالک کی بیٹی ہو۔
        کرن : بنا لو اپنی رکھیل چود دو اپنی رنڈی کو۔ بنا دو میری پھدی کا بھوسڑا ۔ جیسے مرضی چودو زلیل کرو۔
        عثمان دیکھ لو اک بار میری رکھیل تو تمھیں ہر بات ماننی پڑے گی۔
        کرن: ہر بات مانو گئی سب سے اچھی رکھیل بنو گی تمھاری۔
        عثمان: میرا ڈانس دیکھنے کو دل کر ریا ناچو میرے سامنے میں بھی تو دیکھوں کتنا دم ہیے تم میں کرن ۔میں نے آج تک ڈانس نہی کیا تھا۔ مگر انڈین گانے دیکھے تھے جس میں لڑکیاں ناچتی تھی۔ عثمان کی فرمائش سن کر میں سوچ میں پڑ گئی۔ پھر اپنی جگہ سے اٹھی اور ٹی وی ان کر دیا، اور ایک انڈین چینل لگا دیا۔ اور اپنی کمر کو ہلا ہلا کر ناچنے لگی۔ میں کوئی ڈانسر تو نہی تھی اس لیے میرے سٹیپ اجییب تھے۔ جس کی وجہ سے عثمان جلد ہی مجھ سے بور ہو گیا تھا۔
        عثمان: بس کر رنڈی بننا تیرے بس کی بات نہی۔دفعہ ہو جا اپنے کمرے میں میری رنڈی بننا تیرے بس کی بات نہی۔ جا چلی جا اپنے کمرے میں اور مجھے بھی آرام کرنے دے۔ میں نے آگے بڑھ کر عثمان کا ہاتھ تھام لیا اور اس دوبارہ اس کی جگہ پر بٹھا کر ٹی وی کی طرف بڑھی اور دل میں فیصلہ کرکے ایک انگلش چینل لگا کر اپنی بنڈ کو ہلا ہلا کر ناچنے لگی۔ آہستہ آہستہ سے اپنا ڈوپٹا اتارہ اور جھومتے ہوۓ اپنی سرٹ کو اوپر اٹھانا شروع کر دیا۔ میرے پیٹ اور کمر کا کچھ حصہ نظر ایا اور میں نے واپس مسکراتے ہوۓ سرٹ کو بھر نیچے کر دی جس سے میری کمر اور پیٹ پھر نظر آنا بند ہو گے۔



        جاری ہے۔

        Comment


        • #14
          کچھ تہمکے لگانے کے پعد پھر سے شرٹ کا دامن اٹھایا پیٹ سے اوپر کرتے ہوئے رکی نہی اور اپنے برا کے اوپر سے لجا کر اپنے گردن سے نکل کر پھنک دی۔ اب میں اپنی سیکسی برا اور شلوار میں تہمکے لگا رہی تھی۔ پھر اپنی گانڈ کو اس کے چہرے کی طرف کرتے ہو شلوار کو اتارنے لگی۔ اور اپنے پیروں سے نکال سے صوفے پر پھنک دی۔ اب میں صرف برا اور پینٹی میں ناچ رہی تھی۔ کبھی ایک کندھے سے برءا کی سٹرپ کو اتارتی کبھی دوسرے سے کبھی اس کے سامنے جھک کر اپنے ممے ہلاتی جس کو دیکھ کر اس کا لن جھٹکے کھانے لگا۔ اس سے لگ رہا تھا کہ اس کو میری ادئین پسند آنے لگی۔
          پھر ایک جھٹکے سے اپنی برا اتار کر اس پر پھنک دی۔ اور اس کے سامنے جھک کر اپنی پینٹی بھی اتار دی۔ جو کہ اب تک گیلی ہو چکی تھی۔ اب میں اپنے عثمان کے سامنے بلکل ننگی ناچ رہی تھی۔ کبھی اپنے ممے ہلاتی کبھی اس کے سامنے اپنی بنڈ کو لہراتی۔ اس کو میری گانڈ اور چوت مکمل نظر آرہی تھی۔ اب تو میری پھدی پوری طرح سے گیلی ہو گئی تھی۔ اور تیسرا گانا مکمل ہوا اور میں بہت تھک چکی تھی۔
          عثمان کیا بات ہے میری رنڈی بہت اچھا ڈانس لیا تم نے دل خوش کر دیا ۔ مجھے یقین نہی تھا ۔ کرن: اپنی سانس کو سمبھالتے ہوے۔ میرے مالک نے حکم دیا تھا سو اس کو پورا کرنا میرا فرض تھا۔ ہا ہا مالک مجھے پسند آیا یہ لفظ آج سے تم مجھے اسی نام سے بلاو گئ میری رنڈی۔
          جی مالک سمجھ گئ۔
          چل آجا میرا لوڑا کھڑا ہے اسے گرمی چاہۓ زراہ۔ میں آگے بڑی اور منہ میں لینے لے لیے لیکن اس نے کہا کہ رنڈی تیری چوت کی گرمی چاہیئے۔
          چل آجا اور رگڑ اپنی چوت پر اسے گیلا کر اچھے سے اور پھر لے لے اپنی گرم چوت میں مٹا لے اپنی پیاس رنڈی۔ میں آگۓ بڑی اور اس کی گود میں بیٹھ گئ۔ اور اپنی گیلی چوت کو اس کے کھڑے لن پر پھرنے لگی۔ ایسا کرنے سے میری چوت فل گیلی ہوگی اور اس سے اس کا لن بھی گیلا ہونے لگا۔ اور وہ میرے چوت میں جانے لے لیا تیار تھا اور میرے چوت اس کو اپنے اندر سمالینے لے بیقرار تھی۔ میری چوت کا دانہ بھی کافی زیادہ پھول چکا تھا اب اس میں میٹھا سا درد بھی شروع ہو رہا تھا۔ میں تھوڑا سا اوپر ہوئی اور اس کے لن لو اپنی چوت پر سیٹ کر کے نیچے ہونا چاہا مگر اس کا لن بہت موٹا تھا اس کا ٹوپا بڑی مشکل سے میرے پھدی کے ہونٹوں میں پھسا ہوا تھا۔

          Comment


          • #15
            میں ہلکی سی نیچے ہوئی تو اس کی لن کی ٹوپی میری پھدی کے اندر تھوری سی گئ اور واپس نکل گئ۔ دو سے تین دفعہ کوشش کی مگر کامیاب نہی ہو سکی۔ عثمان میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
            کرن: غصہ سے کیسے مرد ہو میں تمھارا لن لینے لے لیے مری جاری ہوں اور تم بیٹھے مسکرا رہے ہو۔ تم خود ہی زور لگا رہئ ہو جب کہ تمھارا طریقہ غلط تھا۔ میرے لن کو اوپر کی طرف رکھ کر اپنی پھدی کو اس پر دباو۔ لیکن تم الٹا میرے لن کو اپنی پھدی پر فٹ کرنے نی کوشش کررہی ہو۔ جب کہ تمھاری پھدی اتنی چھوٹی ہے اورمیرا لوڑا اتنا بڑا تو اس میں کیسے گھس سکتا ہے۔
            میں نے اس کے لن کو اپنے تھوک سے گیلا کیا اوراپنی پھدی کے ہونٹوب سے اس کے لن کا نشانہ لیا اور پوری طاقت سے نیچے بیٹھ گئ۔ ایسا کرنے سے دو کام ہوے کہ اک تو اس کا لن تین انچ تک میری پھدی میں گھس گیا اور دوسرا میرے میں سے درد بھری چیخ نکل گئ۔ کیونکہ اس کے موٹے لن نے میری پھدی کو پھلا دیا تھا۔جس سے مجھے بہت درد ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میری پھدی پھٹ گئ ہو۔
            پھٹ ہی گئ تھی کیونکہ اس سے کچھ بوندیں خون کی نکلی۔ میں اس طرح بیٹھ کر اس کو اپنی بھدی میں اڈجسٹ کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ تاکہ میرا درد مزے میں بدل جاۓ۔ کیونکہ مجھے بتا تھا کہ یہ درد کچھ پل کا ہے۔ اور اس کے بعد مزا ہی مزا تھا۔ ایک ہی منٹ کے بعد میری پھدی اس کے لن کی عادی ہوئی اور میں نے ایک انچ تک اس اپنی پھدی سے نکالا اور پھر آہستہ سے اس کو پھدی کے اندر لینا شروع کر دیا اور ساتھ ہی کوشش کر ہی تھی کہ اس کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر لوں مگر پانچ انچ سے زیادہ پھدی میں نہ لے سکی۔

            تبھی عثمان مجھے اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ جیسے کہ میں پہلے بتایا تھا کہ میرا قد پانچ فٹ نو انچ ہے۔ اور جسم بھرا ہوا ہے وزن ۸۰ کلو ہۓ۔ آج تک میرے خاوند نے مجھے گود میں بیٹھا کر نہی چودا تھا اٹھا کر چودنا تو دور کی بات۔ عثمان نے بڑے آرام اٹھا رکھا تھا۔ میں نے اپنی باہیں اس کی گردن میں ڈالی ہوئی تھی۔ جب کے اس نے میرے گانڈ کو اپنے مضبوط بازوں میں جکھڑ رکھا تھا۔ میری ٹانگیں پوری طرح سے کھلی ہوئی تھی۔ اور اس کا لن پانچ انچ تک میری پھدی کی سیر کر رہا تھا۔

            تبھی اس نے مجھے اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا تو ایک بار پھر مجھے درد ہونے لگا۔ اک درد میری ٹانگوں میں ہو رہا تھا، جو کے پوری کھلی ہوئی تھی اور دوسرا دود مجھے پھدی میں ہو رہا تھا۔ جس میں عثمان اپنا لن ڈال رہا تھا۔اپنے بازوں کے زور سے میں اس کے لن پر اچھلنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ ایسی پوزیشن میں چودتے چودتے کب اس نے اپنا پورا لن میری پھدی میں ڈال دیا مجھے پتا ہی نہی چلا۔ میرے پسینے تک نکلے جب اس کے لن کی ٹوپی نے میری پچہ ڈانی پر دستک دی۔ میری پھدی بار بار پانی چھوڑ رہی تھی۔ ہلک خشک ہو ریا تھا ٹانگیں دکھنے لگی۔ میں کچھ وقت کے لیا اس لے لوڑے لو اپنی پھدی سے نکالنا چھاہتی تھی مگر ایسا ممکن نہی لگا رہا تھا۔ بلکہ وہ مجھے گود میں اٹھا کر مجھے پورے گھر کی سیر کروا رہا تھا۔جب اس کا لن پورے کا پورا میری پھدی میں گھس گیا تو اس نے میری گانڈ سے اپنے ہاتھ ہتا لیے۔ اس میرا سارا وزن میرا بازوں پر تھا اور اس کا پورا لوڑا میری پھدی کے اندر تھا۔
            میں نے جتنی بار بھی اوپر ہو کر اپنی پھدی سے اس کے لوڑے کو نکالنے کی کوشش کی ناکام ہوئی۔میں چاہ کر بھی اپنی ٹانگوں کو اس کی کمر کے گرد نہی لپیٹ سکی۔
            میری حالت دیکھ کرعثمان ہنس رہا تھا۔ اور بولا کرن لگتا ہے کہ بس ہو گئ ہے تمھاری۔ پورا لوڑا لیتے ہی تارے نظر آنے لگے۔
            کرن: تارے تو نظر آہیں گے کیونکہ اتنا موٹا اور تگڑا لوڑا آج پہلی بار میری پھدی میں گیا ہے۔ لیکن میں بھی ہار نہی مانوں گی۔ جیسے مرضی چودو مجھے آخر تم مالک ہو میرے۔ تمھارا حق ہے مجھ پر۔​

            Comment


            • #16
              عثمان میری بات سن کر مسکرا دیا۔ اور اپنے لوڑے کو میری پھدی سے نکال کر ۔مجھے صوفے پر لٹا دیا۔ تب ہی ۔میری نظر اپنی پھدی پر گئی جو کہ کافی حد تک کھل چکی تھی اور لال بھی ہو رہی تھی۔ تب ہی میں اپنا ہاتھ اس پر رکھا تو میری سسکی نکل گی۔ اود مجھے اپنی پھدی بہت گرم محسوس ہوئی۔
              تب ہی عثمان میری ٹانگوں کے قریب آیا اور بولا دیکھو کیا حالت ہو گی ہے تمھاری پھدی کی لیکن ابھی بھی گرم ھے۔ لگتا ہے اس کی گرمی کا بندوبست کرنا پڑے گا۔
              تب ہی وہ کچن کی طرف بڑھا اور اپنے ہاتھ میں بوتل تھامے واپس میرے پاس آیا اور بوتل کے ڈکھن کو کھول کر میری پھدی پر ٹھنڈی ٹھنڈی شراب گرانے لگا اور اپنے زبان سے میری بھدی میں گھسانے لگا۔ زبان کی گھستے ہی میں زور سے سسکتی ہوئی میری پھدی پانی چھوڑنے لگی۔ اور وہ میرا پانی کو اپنے منہ میں جمع کرنے گا۔
              اور کچھ ہی لمحوں کے بعد اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اور اپنے منہ میں جمع کیا ہو میری پھدی کا پانی میرے منہ میں انڈیلنا شروع کر دیا، جسے میں نے کس کرتے ہو مزے سے ننگلنا شروع کر دیا۔
              کس کرتے کرتے اس نے اپنے لوڑے کو میری پھدی پر رکھا اور زور دار جھٹکے سے میری پھدی میں آدھے سے زیادہ گھسا دیا۔ چار پانچ دھکوں سے اس کا پورا لوڑا میری پھدی میں گھس چکا تھا۔ اور میری پھدی سے پچک پچک کی آوازیں آرہی تھی۔
              اس پوزشن میں اس کا لوڑا پوری طرح سے میری پھدی میں جا رہا تھا ۔ مگر میری ٹانگیں بری طرح سے اکڑ چکی تھی۔ پانچ منٹ اسی زور دار طریقہ سے چودنے کے پعد وہ میرے اوپر سے ہٹ گیا اور مجھے کھڑا کیا۔بہت مشکل سے میں اپنے پیروں پر کھڑھی ہوئی۔
              اس نے میری ایک ٹانگ اٹھا کر صوفے پر رکھی اور پیچھے سے اپنا لوڑا میری پھدی میں ڈال کر مجھے چودنا شروع کردیا۔ ایک بار پھر پورے زور شور سے میری پھدی کی دھلائی ہونے لگی۔ کچھ دیر کے پعد اس نے مجھے میرے بالوں سے پکڑ لیا اور پھچے کی طرف کھنچنا شروع کردیا۔جس سے میری کمر مڑ چکی تھی اور میرا چہرا اوپر کی طرف اٹھ گیا تھا۔
              وہ اسی طرح مجھے پورا گھر دکھا رہا تھا۔ کبھی کچن، کبھی ورزش والا کمرا اور پھر میرے ابو کے کمرے کے سامنے ٹیرس پر آلٹا کر مجھے چودنے لگا۔ آس پاس کوئی گھر نہی تھے بلکے گہنے درخت تھے سو ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کیسی جنگل میں ہیں۔ میرے دماغ پر اس کے لوڑا کا جو نشاء تھا وہ کم ہونے کا نام ہی نہی لے ریا تھا۔ میں ہر قدم پر اس کا ساتھ دے ہی تھی۔ اب وہ چودتے چودتے مجھے گالیاں بھی دینے لگا۔ کچھ ہی دیر میں گھر کہی طرف گاڑی آتی محسوس ہوئی تو اس نے مجھےریلنگ کے پاس نیچے بٹھا لیا۔ اور اپنا لوڑا میرے منہ میں ڈالنا شروع کردیا۔
              میں شوق سے اس کا لوڑا چوسنے لگی۔ اور وہ ایسے کھڑا تھا کہ جیسے ورزش کے پعد وہ ریلکس کر رہا یو۔گاڑی گھر کے سامنے رکھی اس میں سے ایک آدمی نکلا جو اس کا بھائی تھا۔جو بازار جا ریا تھا۔ عثمان اس سامان لکھوا رہا تھا جو بازار سے لانا تھا۔ اس کے جاتے ہی پھر مجھےجھکا کر چودنا شروع کردیا ۔
              میری بس ہو گئی تھی ۔کرن بولی اور کتنا چودو گے۔ تووہ بولا کہ تم جیسی گھرولو رنڈیوں کو چود چود کر تو میں بڑا ہوں۔​

              Comment


              • #17
                usman bi shahkar kerdar ha zabardast story ha

                Comment


                • #18
                  بہت زبردست ۔۔۔لگتا ہے نوکر سے ہی حاملہ ہو گی

                  Comment


                  • #19
                    بہت بہترین کہانی ہے۔
                    اسے جاری رکھیں اور آگے بھی ایسی لاجواب کہانیاں لکھتے رہیں۔

                    Comment


                    • #20
                      ابھی تو کماز کم میں اپنی رنڈی کو بیس منٹ اور چودوں گا۔ بھر نکلے گا میرا پانی۔ چل میری رنڈی تجھے اس پوزشن میں چودتا ہوں کہ تری کمر دود نہ کرے۔ یہ کہ کر وہ خود نیچے لیٹ گیا اور مجھے اپنے لوڑے کے اوپر سواری کرنے کا کہنے لگا۔ میں گھومی اور اس کی طرف اپنی موٹی گانڈ کر کے اپنی پھدی اس کے لوڑے پر رکھ دی۔ اس پوزشن میں میں اپنی مرضی سے چدوا سکتی تھی۔ کبھی اس کے لوڑا پر اچھلتی کبھی پورا اندر لے کر اپنی گانڈ کو گھماتی۔
                      چودائی کی خاص بار ہوتی مرد ہو یا عورت چودتے ہوے خود ہی سب کچھ سیکھ جاتا ہے۔ میں نے کل تک صرف اپنے شوہر سے ہی چدوایا تھا۔ وہ بھی صرف بیڈ پر لیٹ کر وہ میرے اوپر چڑتے اور چود کر فارغ ہو جاتے۔ جب کے عثمان نے مجھے ہر طرح سے چودا تھا۔
                      بلکہ میں بڑے آرام سے اس کے لمبے اور مضبوط لوڑے کی سواری کر رہی تھی۔ اب میری پھدی اس کی لوڑے کی عادی ہو گئ تھی۔ مگر میں تھک چکی تھی۔ اور اب جلد از جلد اس کے لوڑے کا پانی اپنی پھدی میں چاہتی تھی یہ کچھ دیر کے لیے سکون۔
                      عثمان : کچھ سوچ کر رنڈی اگر تم اپنی بھدی کو کچج دیر کے لیے سکون دینا چاہتی ہو تو میرے لوڑے کو چوسو میرے ٹٹوں کو چاٹو۔ اتنی دیر تمھاری پھدی سکون میں رہے گی۔ جو کہ اب پھٹنے والی ہے۔ اس بات سنتے ہی میں نے اپنی پھدی سے اس کے لوڑے کو اپنی پھدی سے نکال کر کیسی کتیا کی طرح اس پر جھک گئ اور اس کے لوڑے کی ٹوپی پر زبان پھرنے لگی۔ اور اپنے اور اسے اپنی منہ میں لینے لگی۔ مگر اس نے اپنے لوڑے کو پچھے کھنچا اور میرے منہ کو اپنے ٹٹوں کی طرف دھکیلا۔ اور میں اس کے گیند جیسے ٹٹوں کو اپنے منہ میں لینے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ میں صرف انیئن چارٹ رہی تھی زبان پھر رہی تھی۔
                      کچھ ہی دیر کے بعد اس نے اپنی ٹانگیں اور کرنی شروع کردی۔ اور اس کی گانڈ میرے سامنے آگئ۔ اور میں اس کی بات کو سمجھ گئی۔ اور اپنی زبان اس کی گانڈ کے سوراخ پر پھرنی شروع کردی۔ عثمان کے ہاتھ میرے سر پر گھوم رہے تھے اور کچھ دیر کے بعد میں نے پھر اپنی زبان اس کے ٹٹوں پر پھرنی شروع کر دی۔ اور ساتھ ہی اس کے لوڑے کے چوپے لگانے شروع کردے۔
                      عثمان کو میری حالت دیکھ کر مجھ پر ترس آگیا۔ اور مجھے اپنے لوڑے سے کھل کرکھلنے دیا۔ کچھ ہی پل میں جب اسے لگا کے وہ چھوٹنے والا ہے تو وہ کھڑا ہوا اور میرے منہ کو چودنے لگا۔ اس کے دھکوں میں شدت تھی جس سے میری آنکھوں میں آنسو آگے۔ میرے منہ سے تھوک بہ کر میری چھاتی تک پھنچ گیا۔ چاہ کر بھی اس کا لوڑا چار انچ سے زیادہ میرے منہ میں نہی گیا۔
                      آخر عثمان جھڑنے لگا اور ایسا لگا کہ کوئی ٹوٹی کھل گئ ہو۔ ایک کے بعد ایک پچکاریاں میرے گلے سے ہوتی یوئی میرے پیٹ میں جانے لگی، وہ ایک منٹ تک جھڑتا ریا۔ اس کے بعد وہ رک گیا میں نے خود ہی اس کے لوڑے اور ٹٹوں پر زبان پھیر کر صاف کرنے لگی جو اس کہ منی اور میرے تھوک سے لبرز تھے۔
                      چل میں بیچے جارہا ہوں تری چوت کی حالت ٹھیک کرنی ہے اس کا کوئی انتظام کرنے۔ تو بھی فریش ہو جا۔ میری پھدی سوجھ گئی تھی آج کی چودائی سے میں اپنی ٹانگیں کھول کر چل رہی تھی ۔ ایسی حالت ہو میری اپنی شادی کی رات بھی نہی ہوئی تھی۔


                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X