Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

یک نہ شد دو شد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    بہت کمال کی کہانی ہے جناب

    Comment


    • #22
      بہت خوب جناب۔
      اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔

      Comment


      • #23
        یک نہ شد دو شد

        اگلے روزحسب پروگرام وہ تینوں ایک بار پھر فلیٹ میں موجود تھے۔آج ناصر کو پچھلی بار کی طرح پر ی شاہ کو بہانے سے ڈرائنگ روم میں نہیں بھیجنا پڑا بلکہ وہ خود ہی درائنگ روم کی طرف بڑھ گئی البتہ اسے جب تک ہم نہ کہیں باہر نہیں آنا کی ہدایت ضرور کردی گئی۔

        پری شاہ کے اندر جاتے ہی ناصر علیزہ کے جوانی کے رس سےلبریز بدن پر پل پڑا۔

        ایک منٹ ایک منٹ ناصر۔ رکو تو زرا۔ علیزہ نے بڑی مشکل سے خود کو اسکی گرفت سے نکالا۔

        ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جارہی۔

        میں تمھیں اب کہیں بھاگنے دونگا بھی نہیں۔یہ کہہ کر ناصر نے ایک بار پھر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے رس بھرے گلابی لبوں کو اپنے لبوں سے جکڑ کر اسکی الہڑ جوانی کا رس کشید کرنے لگا۔

        چونکہ علیزہ کی طرف سے مزاحمت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا چناچہ وہ بھی کسینگ میں ناصر کا ساتھ دینے لگی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی لمحوں میں ناصر نے اسے کپڑوں کی قید سے آزاد کردیا۔

        آج وہ ناصر سے دوسری بار چدنے جارہی تھی مگر اسکی فطری شرم آج بھی اسکی خواہش پر غالب تھی یہی وجہ تھی کہ اپنی برہنگی کا احساس پاکر اس نے اپنا چہرہ دونوں ہتھیلیوں سے چھپایا ہوا تھا

        جبکہ ناصر علیزہ کی اس کیفیت سے بے نیاز اسکے بھرے بھرے پستانوں کو باری باری چوس رہا تھا کبھی وہ ایک نپل کو منہ میں لیکر چوستا تو کبھی دوسرے نپل کو دانتوں سے ہلکے ہلکے کاٹتا۔اور کبھی نپلز کے گرد زبان کی نوک کو دائرے میں گھماتا۔علیزہ اس کے نیچے دبی اسکی ایک ایک حرکت کو انجوائے کرتی ہوئی ہلکے ہلکے سسک رہی تھی جبکہ ناصر اپنی زبانی پیش قدمی جاری رکھتا ہوا اسکی ناف کے گہرائی سے ہوتا ہوا چوت کے لبوں پہ پہنچ گیا۔علیزہ کی سرخ و سفید گلابی چوت آج بھی بالوں سے پاک تھی۔جسے دیکھ کر ناصر عش عش کر اٹھا۔

        اور اس نے شہوت سےبھرپور انداز میں چوت کے لبوں کو چوم لیا۔ یوں تو ناصر اب تک درجنوں لڑکیاں چود چکا تھا مگر جو کشش اسے علیزہ کی چوت میں محسوس ہوئی وہ کسی اور لڑکی کی چوت میں محسوس نہیں ہوئی تھی۔اس نے ایک ہاتھ کی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے چوت کے لبوں کو کھولا اور زبان کی نوک سے دانہ شہوت کو مسل دیا ۔ علیزہ کے بدن کو ایک زور دار جھٹکا لگا۔اور اس نےناصر کے سر کو اپنی چوت پہ دبا دیا۔یہ اس کے لئےلطف سے بھرپور ایک نیا تجربہ تھا جس سے وہ اب تک ناواقف تھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ اپنی زندگی کا اصل اور بھرپور لطف اب اٹھا رہی ہو۔۔ناصر کی اس کے دانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری تھی کہ علیزہ کی سسکیاں اب بلند ہونے لگیں تھی۔

        ناصر نے اسکی چوت سے منہ ہٹایا اور اسکے منہ کے عین سامنے اپنے گھٹنوں کے بل آکھڑا ہوا۔ناصر کا عضو ہونے والی چدائی کے پیش نظر جھٹکے لے رہا تھا جسے ناصر علیزہ کے منہ پہ لہرا رہا تھا۔اس نے سوالیہ نظروں سے ناصر کی طرف دیکھا ناصر نے کچھ کہے بغیر دونوں ہاتھوں سے اسکے سر کو تھاما اور لن کے اگلے حصے کو اسکےادھ کھلے لبوں پہ ٹکا دیا ۔ علیزہ نے کراہیت سے فورا ہی منہ پھیر لیا ۔ کیا ہوا اس کو پیار کرو نا پلیز۔ناصر لن اسکے گال پر رگڑتا ہوا بولا۔نہیں یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔وہ بولی۔ کیو ں نہیں ہوگا تم ایک بار کر کے تو دیکھو۔نہیں ناصر تمہیں جو کرنا ہے کرلو مگر پلیز یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ علیزہ ایک ہاتھ سے ناصر کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی۔ وہ تو میں کر ہی لونگا مگر تم اسے اگر پیار کروگی تو مجھے اچھا لگے گا۔ ابھی میں نے تمہیں نیچے پیار کیا تمہیں اچھا نہیں لگا کیا؟ جواب مین علیزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ تو پھر تم بھی کرو نا مجھے بھی اچھا لگے گا۔ نہیں ناصر پلیز۔ مجھے گھن آئیگی۔تم ایک بار کرو تو نہیں ہوتا کچھ۔ یہ کہہ کر ناصر نے اچانک لن اسکے لبوں پہ رکھ کر زور دینے لگا۔ناصر پلیز۔ نہیں ۔علیزہ نے منہ دوسری طرف کر کہ اپنے لبوں پہ ہاتھ رکھ لئے۔چلو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ یہ کہہ کر ناصر اسکے اوپر سے ہٹ کر اسکی ٹانگوں کے درمیان آ بیٹھا۔ مگر ایک وعدہ کرنا ہوگا ۔ناصر اسکی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھتا ہوا بولا۔کیسا وعدہ؟یہی کہ تم اگلی بار اسے اپنے منہ میں لیکر پیار کروگی۔ناصر نے لن کو اسکی چوت کے سوراخ پہ سیٹ کیا اور ایک دھکا لگایا۔ جواب میں علیزہ کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔کک۔۔۔کوشش ۔۔۔۔کرونگی ی ی ی ۔۔۔آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ وہ بمشکل بولی۔اسکے جواب سے خوش ہو کر ناصر اسکی چوت پہ زور دار انداز میں دھکے لگانے لگا۔

        ڈرائینگ روم کا دروازہ علیزہ کے سر کی طرف تھا جو کہ اس پوزیشن میں ناصر کے بالکل سامنے تھا یعنی علیزہ ڈرائینگ روم کے دروازے کو نہیں دیکھ سکتی تھی جبکہ ناصر کا رخ اسی طرف تھا۔علیزہ کی چدائی کرتے ہوئے ناصر کی نظر جیسے ہی ڈرائینگ روم کی طرف اٹھی اسے دروازے کی اوٹ سے ایک سایہ سا لہراتا ہوا محسوس ہوا۔
        Last edited by Man moji; 03-03-2024, 01:01 PM.

        Comment


        • #24
          bohot hi shandar kahnai he .

          Comment


          • #25
            پری شاہ کی چوت گرم ہو رہی ہے اپنی بہین کو چوداتے ہو دیکھ کر

            Comment


            • #26
              Uff behtareen garam update lagta ha pari shah ki phudi b lun Mang Rahi ha or is chakar ma nasir kye maze hone wale han

              Comment


              • #27
                کیا خوبصورت سین ہے۔
                ایک کے ساتھ ایک فری۔
                اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔

                Comment


                • #28
                  تمام احباب کا شکریہ !

                  Comment


                  • #29
                    چند منٹوں بعد آٹھ دس زوردار جھٹکے لگا کر وہ علیزہ کی چوت میں تیز تیز سانسوں کے ساتھ فارغ ہوگیا۔ فارغ ہونے کے بعدکچھ دیر تک وہ دونوں یونہی ایک دوسرے سے لپٹے لیٹے رہےاور ایک دوسرے کو چومتے رہے۔ پھر علیزہ گھر جانے کے خیال سے یک دم اٹھی اپنے کپڑے اٹھائے اور واش روم میں گھس گئی۔ناصر نے بھی جلدی جلدی اپنے کپڑے چڑھائے اور ڈرائنگ روم میں داخل ہوگیا۔ جہاں پری شاہ ریموٹ تھامے اسکرین پر نظریں جمائے صوفے پر نیم دراز تھی ۔اور اب ناصر کو دیکھ کر سنبھل کر بیٹھ گئی۔

                    ارے۔۔۔علیزہ آپی کہاں ہیں؟ پری شاہ نے ناصر کو اکیلے دیکھ کر پوچھا۔

                    علیزہ واش روم میں ہے زرا فریش ہورہی ہے۔تم بور تو نہیں ہورہی نہ پری شاہ؟ ناصر اسکے برابر بیٹھتے ہوئے بولا۔ نہیں ناصر بھائی میں تو بہت انجوائے کر رہی ہوں۔کاش ہمارے گھر میں بھی ایسی اسکرین اور سائونڈ سسٹم ہوتا مزہ آجاتا۔پری شا ہ ایکسائٹمنٹ سے بھرپور لہجے میں بولی۔ ارے یہ بھی تو تمہارا اپنا ہی ہے جب موڈ ہو آکر دیکھ لیا کرو تمہیں منع کس نے کیا ہے۔ناصر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ شکریہ ناصر بھائی۔ مگر آپی کو راضی کرنا کتنا مشکل ہے یہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ پری شاہ منہ پھلاتے ہوئے بولی۔

                    ارے تو آپی کو راضی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ناصر نے جواب دیا۔

                    کیا مطلب؟ پری شاہ نے سوال کیا۔

                    مطلب یہ کہ جب بھی تمہارا موڈ ہو مووی دیکھنے کا تو بس تم مجھے ایک ٹیکسٹ کرو میں کوئی ارینج منٹ کرلونگا تمہارے لئے۔ ناصر نے پری شاہ کو راستہ دکھایا۔ مگر میری ایک شرط ہے۔

                    وہ کیا؟ پری شاہ خوش ہو کر بولی۔ شرط یہ ہے کہ یہ بات صرف ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گی۔ علیزہ کو اس کی خبر نہیں ہونی چاہئے ورنہ وہ تم سے برا حال میرا کریگی۔ ناصر نے مصنوعی ڈر کا اظہار کیا۔

                    ناصر کے اس بات کے انداز پر پری شاہ کھلکھلا کے ہنس دی اور کہا ٹھیک ہے ناصر بھائی۔ اپ بے فکر رہیں۔

                    تھوڑی ہی دیر میں ناصر انہیں مارکیٹ سے زرا پہلے ڈراپ کر رہا تھا۔

                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                    ناصر جس سیاسی جماعت کے لئے کام کرتا تھا اس کے انٹر پارٹی الیکشن ہورہے تھے جس میں ناصر بھی علاقائی عہدے دار کا امیدوار تھا۔ جس کے لئے وہ بھرپور اندار میں پارٹی میں کمپین چلا رہا تھا۔وہ علاقے میں اپنا اثر رسوخ مزید بڑھانے کے لئے لازمی یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی تمام مصروفیات فی الحال ختم کردی تھیں اور ساری توجہ پارٹی الیکشن پر مبذول کردی تھی۔ علیزہ سے بھی کافی دن سے اسکی کوئی بات نہیں ہو سکی تھی۔اسکی اس انتھک محنت اور لگن کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ اپنے علاقے کا پارٹی کے لئے زمہ دار چن لیا گیا۔جس پر وہ بہت خوش تھا۔اپنی اس خوشی کو دوبالا کرنے اور کامیابی کا جشن منانے کے لئے اسے علیزہ کی یاد آئی۔اس نے علیزہ کو ٹیکسٹ کیا کہ مجھے تم سے بات کرنی ہے جس پر علیزہ نے اسے جوابی ٹیکسٹ کیا کہ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ آج تمہیں میری یاد آئی ہے؟ میں نے تمھیں کتنی کالز کیں کتنے مسجز کئے مگر تم نے ڈھنگ سے جواب نہیں دیا۔لہذا مجھے اب تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ علیزہ بلاشبہ اس سے ناراض تھی۔ناصر نے اس کے شکوہ دور کرنے کے لئے کال کی تو معلوم ہوا کہ علیزہ نے غصہ میں فون ہی آف کردیا ہے۔اب کیا جائے اس لڑکی کو منانے کے لئے؟ ابھی ناصر اسی سوچ میں تھا کہ اس کے موبائل پہ ایک ٹیکسٹ موصول ہوا۔ٹیکسٹ پری شاہ کی طرف سے تھا جس میں لکھا تھا کہ ہیلو ناصر بھائی۔ آپ تو اپنے الیکشن کے چکر میں ہمیں بالکل بھول ہی گئے ؟

                    ناصر نے اب پری شاہ کو کال کی جو اس نے فورا ریسیو کر لی۔

                    یار یہ علیزہ کو کیا ہوا؟ ناصر نے ہیلو ہائے کے بعد پری شاہ سے سوال کیا۔

                    ناصر بھائی وہ آپ سے بہت ناراض ہے۔پری شاہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

                    سمجھ نہیں آرہا کہ اسے کیسے منایا جائے۔ناصر نے نے سوچنے والے انداز میں کہا۔

                    چلو مل کے کوئی ترکیب سوچتے ہیں اسی بہانے آپ ہمیں مووی دیکھنے کا موقع بھی فراہم کردیں ایک نئی انڈین مووی ریلیز ہوئی ہے اور وہ مجھے آپ کےمنی سنیما میں ہی دیکھنی ہے۔ پری شاہ نے فورا فرمائش داغ دی۔ہاں یہ آئیڈیا اچھا ہے۔ناصر نے ہامی بھری۔آپ اپنی ٹائمنگ سیٹ کرلو پھر مجھے بتا دینا میں اس ٹائم پہ آپ کو پک کرلونگا۔

                    ٹھیک ہے ناصر بھائی۔ آپ کل صبح مجھے اسکول ٹائم پر اسکول سے تھوڑاپہلے پک کرلیجیئے گا۔ کیونکہ صبح میرا اسکول جانے کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا۔پری شاہ نے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔اس کے من میں جیسے لڈو پھوٹ پڑے ہوں۔

                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلی صبح پری شاہ تیسری بار ناصر کے فلیٹ میں موجود تھی مگر آج پہلی بار علیزہ کے بغیر۔اس کے باوجود وہ بہت پر اعتماد تھی اس کی آنکھوں میں اس ڈر کا شائبہ تک نہیں تھا

                    Comment


                    • #30
                      بہت گرم کہانی۔
                      جلدی پریشاہ بھی اپنی بہن کے یار سے اپنی تڑپتی جوانی کی پیاس بجھائی گی۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X