Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کزن سے کزنوں تک از مرزا اسلم . پارٹ 1

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Family کزن سے کزنوں تک از مرزا اسلم . پارٹ 1


    ! ہیلو دوستو
    میرا نام مرزا اسلم ہے اور یہ میری پہلی کوشش ہے جو آپ سب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں امید ہے کہ یہ آپ سب کو پسند آئے گی۔
    آپ سب جانتےہیں کہ تقریباً اس ٹائپ کی سبھی کہانیاں جو لکھی اور پڑھی جاتی ہیں ان میں سچائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے صرف چند ایک کہانیاں ایسی ہونگی جن کو سچی کہانی کہا جا سکے اور ان میں بھی مصالہ ضرور ایڈ کیا جاتا ہے۔
    میری یہ کہانی صرف انٹرٹینمنٹ کے نظریے پر لکھی جارہی ہے ۔ تو آپ سب سے گزارش ہے کہ اسے انٹرٹینمنٹ کے طور پر ہی پڑھا جائے۔
    کیونکہ یہ میری پہلی کہانی ہے اس لئے اگر کوئی کمی بیشی رہ جائے تو ایڈوانس معذرت چاہتا ہوں اور آپ سب سے بھی یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی اگنور کریں گے۔ اگر کہانی پسند آئے تو حوصلہ افزائی ضرور کیجیے گا ۔
    شکریہ !










    : کہانی کے کردار اور تعارف

    میں ! میرا نام اس کہانی میں ارسلان ہوگا یہ ایک فرضی نام ہے کیونکہ کہانی ہی فرضی ہے تو سبھی نام بھی فرضی ہی ہونگے ۔

    عمر: 22 سال، قد: 5فٹ 10 انچ، جسمانی ساخت درمیانی یعنی نہ زیادہ موٹا اور نہ زیادہ پتلا، رنگ فئر۔ کوئی لڑکی پہلی نِظر میں فریفتہ نہ بھی ہو مگر آسانی سے اگنور بھی نہیں کرسکتی۔

    نوشابہ ! میری گرل فرینڈ ہے اور میرے ماموں کی سب سے بڑی بیٹی ہے، مجھ سے تقریباً تین سال چھوٹی یعنی انیس سال کی ہے ۔ رنگ گورا ، بالکل سلم اینڈ سمارٹ سینہ اندازاً 32 کے لگ بھگ پتلی کمر اور کولہے بالکل گول مٹول زیادہ باہر کو نکلے ہوئے نہیں ہیں مگر دلفریب ہیں۔ مکمل طور پر ایک بہت خوبصورت لڑکی ہے۔

    ماہ رخ ! میری گرل فرینڈ کی بہن ،یعنی میرے ماموں کی چھوٹی بیٹی، نوشابہ سے دو سال چھوٹی ہے، رنگ بیشک تھوڑا سانولا ہے مگر پرکشش چہرہ اور کمال کا فیگر ہے ، سینہ کمر اور کولہے اس کے جسم کے حساب سے بالکل پرفیکٹ ہیں ۔

    سائمہ : نوشابہ سے 3سال اور ماہ رخ سے 1 سال چھوٹی ہے، سب اسے پیار سے سیمی کہتے ہیں ۔ اپنی دونوں بڑی بہنوں نوشابہ اور

    ماہ رخ کی طرح وہ بھی سیکسی فیگر کی مالک ہے اس کے فیگر اور شیپ کی بات اسہی وقت ہوگی جب اس کے ساتھ سیکس کا ٹائم آئے گا ۔

    ان دونوں کے علاوہ نوشابہ کی دو بہنیں اور بھی ہیں جو بہت چھوٹی ہیں۔

    میرے علاوہ میری ایک بڑی بہن بھی ہے جو مجھ سے تقریباً 8 سال بڑی ہے اسکی شادی کو 9 سال ہوگئے ہیں اسکا نام صباء ہے ۔ لیکن کہانی میں اسکا کوئی کردار نہیں ہے اس لئے اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ۔

    میرے ایک چچا اور چچی کا بہت عرصہ پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تھا اس وقت ان کی دو بیٹیاں تھیں جنہیں میرے والدین نے اپنی بیٹیاں بنا کر اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا ہم ایک دوسرے کو کزنز نہیں بلکہ سگے بہن بھائی ہی مانتے ہیں ۔

    مشال : میرے چچا کی بیٹی یعنی میری سب سے چھوٹی بہن ، سائمہ کی ہم عمر ہے لیکن نوشابہ کی پکی سہیلی ہے بہت ہی خوبصورت ہے گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب کی لاڈلی اور ایک نمبر کی ضدی طبعیت کی ہے اسکا باقی تعارف وقت آنے پر کراوں گا ۔

    میرے چچا کی دوسری بیٹی یعنی میری دوسری بہن کا نام شفق ہے اور وہ مجھ سے ایک سال بڑی ہے ۔ کمال کا فیگر ہے تنے ہوئے بوبز پتلی کمر اور باہر کو نکلے ہوئے کولہے ۔ اسکا باقی تعارف بھی بعد میں کراوں گا ۔

    ان کے علاوہ جو جو کردار کہانی میں داخل ہوتا جائے گا ساتھ ساتھ اسکا تعارف ہوتا رہے گا۔

    میرے پاس لکھنے کو بہت مواد ہے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں سے سٹارٹ کروں ۔ باقاعدہ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپکو بتاتا چلوں کہ میں نے اس کہانی میں سیکس سین سے زیادہ سیکسی ڈائلاگ پر زیادہ فوکس کیا ہے

    سیکس سین تو ہر کہانی میں ہی تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں یعنی ہونٹوں کی چسائی ممے دبانا پھدی چاٹنا اور لن اندر ڈال کر دے دھنادھن دھکے سٹارٹ اب اسکو جتنا مرضی لمبا کھینچ لو ہونا تو بس ایک ہی کام ہے ۔ میری ذاتی رائے کے مطابق اصل مزہ سیکس سے پہلے کی گفتگو اور سیکس کے بعد کی گفتگو میں ہے اسہی لئے میں ان باتوں پر زیادہ دھیان دوں گا سیکس سینز پر بھی فوکس کروں گا لیکن بہت زیادہ لمبا یا بہت زیادہ چھوٹا نہیں کروں گا۔

    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

  • #2


    ہم پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر علی پور کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے ہیں۔ ہمارہ تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے میرا ایک بھائی دوبئی میں ہوتا ہے اور ایک بھائی آرمی میں ہے۔

    نوشابہ کا گاؤں بھی ہمارے گاوُں سے کچھ ہی فاصلے پر ہے یعنی پیدل ایک گھنٹے اور موٹر سائیکل پر تقریباً دس منٹ کا سفر ہے۔ نوشابہ کے ابو یعنی میرے ماموں سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور اس کے بھائی ابھی چھوٹے ہیں ۔

    اس طرح اگر دیکھا جائے تو ہم بہت امیر کبیر تو نہیں ہیں مگر اپنی ضروریات ہم بہت اچھے سے پوری کر لیتے ہیں ۔

    ہمارے گاؤں میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے میری پڑھائی لیٹ شروع ہوئی جسکی وجہ سے میں اور نوشابہ ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے ، لیکن میرے نمبر ہمیشہ نوشابہ سے زیادہ آتے تھے ۔

    بات اس وقت کی ہے جب 8 کلاس کا رزلٹ آیا تو پتہ نہیں کیوں میرے نمبر نوشابہ سے کم آئے ۔

    ان دنوں میرے ماموں یعنی نوشابہ کے ابو بھی سعودی عرب سے چھٹی پر پاکستان آئے ہوئے تھے ۔

    وہ ہمارے گھر بھی آئے اور باتوں باتوں میں امی سے پوچھنے لگے کہ اس بار ارسلان کے نمبر نوشابہ سے کم کیوں آئے ہیں اسکا دھیان پڑھائی میں نہیں ہے یہ کیا کرتا رہتا ہے ؟

    امی کو تو جیسے میری شکایت کا موقع مل گیا کہنے لگیں، کیا بتاوں بھائی ارسلان اب بگڑتا جا رھا ہے اور پڑھائی پر بالکل بھی دھیان نہیں دیتا میں تو بول بول کر تھک گئی ہوں جب دیکھو گراونڈ میں کرکٹ کھیل رہا ہوتا ہے اسہی لئے اب کی بار نمبر بھی کم آئے ہیں ۔ میرے تو ہاتھ ہی نہیں آتا مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے اس نے۔

    ماموں نے مجھے بلایا اور کہا کہ اب تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گے اور وہیں رہو گے اب میں تمھارا علاج کروں گا دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں پڑھتے ۔ اور مجھے لے کر اپنے گھر آگئے۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے گھر جانا کس طرح میری زندگی بدل دے گا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ماموں نے مجھے ٹیوشن ڈال دیا اور گھر سے باہر جانے پر بھی پابندی لگا دی ۔

    اب میں ،نوشابہ اور ماہ رخ ایک ہی ٹیچر کے پاس پڑھنے جاتے تھے۔ میرا ٹائم 8 بجے شروع ہوتا اور 10 بجے چھٹی ہوجاتی اسکے بعد نوشابہ اور ماہ رخ کا ٹائم شروع ہوجاتا میں انھیں پہنچا اور واپس لے آتا میرے وہاں جانے سے نوشابہ وغیرہ بہت خوش تھے ۔

    لیکن میں کچھ دن اداس رہا کیونکہ مجھے اپنے دوستوں سے بچھڑنے کا دکھ تھا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے رہے میں بھی ایڈجسٹ ہوگیا اب میرا بھی وہاں دل لگ گیا ہم سب اکھٹے ہی پڑھتے تھے اور ایک ساتھ ہی کھیلتے تھے اس وقت مجھے سیکس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔

    دوستوں کے ذریعے اس بات کا علم تو تھا کہ سیکس کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے، لیکن مجھے لڑکی پٹانے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ ہم لوگ کھیل بھی بچوں والے ہی کھیلتے تھے سیکس یا گندے کاموں کی طرف ذہن ہی نہیں جاتا تھا ۔

    میرے دوسرے ماموں کا گھر بھی اسہی گاؤں میں قریب ہی تھا فارغ وقت میں ان کے گھر بھی چلا جاتا تھا۔ میرے اس ماموں کا ایک ہی بیٹا ہے جو میرے بڑے بھائی کا ہم عمر ہے میرے اس ماموں کا نام شکیل ہے ایک دن شکیل ماموں کے گھر شہر سے کچھ مہمان آئے ان کے ساتھ دو لڑکیاں بھی تھیں وہ دِکھنے میں اتنی خوبصورت نہیں تھیں جتنا بَن کر دِکھا رہی تھیں۔

    شہر میں رہنے کی وجہ سے وہ کافی تیز تھیں انھوں نے ہم لوگوں سے گُھلنے مِلنے کی بہت کوشش کی لیکن نوشابہ اور اسکی بہنوں نے اُنھیں لفٹ ہی نہ کروائی

    جب میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے تو نوشابہ بولی کہ ایسی کوئی بات نہیں بس میرا دل نہیں چاہتا ان سے بات چیت کرنے کو میں بھی چپ کر گیا ۔

    انھیں گاؤں آئے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے اور وہ یہ بھی نوٹ کررہیں تھیں کہ ہم سب ہمیشہ اکھٹے ہی رہتے ہیں ، یہاں تک کہ رات کو سوتے وقت بھی چھت پر ہماری چارپائیاں بھی ساتھ ساتھ ہی ہوتیں تھیں ۔

    ایک دن ہم سب چھت پر کھیل رہے تھے نوشابہ کی چھٹیوں کے بعد سکول میں پرفارمنس کرنی تھی وہ اسی کی تیاری کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ مجھے بھی سکھا رہی تھی ۔

    اتنے میں وہ دونوں بھی ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور ہمیں دیکھنے لگیں اور ساتھ ساتھ آپس میں باتیں کرتیں اور ہمیں دیکھ دیکھ کر ہنس دیتیں ۔

    یہ بات نوشابہ کو بہت بُری لگی اور وہ اُٹھ کر نیچے چلی گئی اور اُس کے پیچھے میں بھی چل پڑا ، ماہ رخ بھی میرے ساتھ ہی آنے کے لئیے اُٹھ کھڑی ہوئی تو اُنھوں نے ماہ رخ کو روک لیا تو وہ اُن کے پاس ہی بیٹھ گئی اور میں نیچے آگیا ۔

    ماہ رخ کافی دیر اُن کے ساتھ اُوپر ہی بیٹھی رہی اور جب واپس آئی تو پریشان لگ رہی تھی ۔

    رات کو ہم سب سونے کے لئیے لیٹ گئے

    نوشابہ اور ماہ رخ ایک ہی چاپائی پر سوتی تھیں اور میری چاپائی بالکل ان کے ساتھ ہوتی تھی میں نے ماہ رخ سے پوچھا کہ جب سے وہ ان کے پاس سے آئی ہے پریشان نظر آرہی ہے کیا بات ہے

    وہ بولی ایسی کوئی بات نہیں میں کیوں پریشان ہونے لگی ، لیکن میں نہ مانا اور نوشابہ بھی اس سے پوچھنے لگی تو

    ماہ رخ بولی ابھی نہیں پہلے ان کو چلے جانے دو اس کے بعد سب کچھ بتا دوں گی ۔ میں نے سوچا ضرور دال میں کچھ کالا ہے کوئی ایسی ویسی بات ہی ہوگی اس لیے میں نے زیادہ زور دیا تو ماہ رخ ناراض ہونے لگی اور بولی کہ اُن کے جانے سے پہلے بالکل نہیں بتاوں گی۔ تو میں خاموش ہوگیا ۔

    اگلے دن میں انھیں ٹیوشن سے لے کر واپس آرہا تھا میں آگے آگے چل رہا تھا۔ نوشابہ اور ماہ رخ پیچھے پیچھے آرہی تھیں مجھے ماہ رخ کی آواز آئی وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ تم کل سے ہمیں لینے کے لئیے مت آنا میں بولا کیوں ایسا کیا ہوگیا ہے کہ تم منع کر رہی ہو۔

    ماہ رخ بولی کچھ نہیں ہوا بس تم کل سے مت آنا ہم خود ہی آجایا کریں گے ۔

    میں نے کہا کچھ ہوا بھی ہے مجھے تو بتاو ، وہ بولی کچھ نہیں ہوا بس کل سے نہ آنا ۔

    اس پر مجھے بھی غصہ آگیا میں نے کہا ٹھیک ہے نہیں آؤنگا گھر جاکر پہلے ممانی کو یہی بات کہہ دینا ، یہ کہہ کر میں تیز تیز قدم اُٹھاتا گھر کی طرف چل پڑا ۔ گھر پہنچ کر مجھے بہت الجھن سی ہورہی تھی ایسا کیا ہوا اور وہ کچھ بتا بھی نہیں رہی ہے اسہی غصے میں میں نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا ۔

    جب ممانی نے پوچھا تو بہانا کر دیا کہ ابھی بھوک نہیں ہے کچھ دیر بعد کھا لوں گا ۔

    نوشابہ کو بھی اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا اس لئیے وہ بار بار ماہ رخ سے پوچھ رہی تھی اور ماہ رخ کچھ بتانے کی بجائے اس سے بد تمیزی کر رہی تھی۔

    میں اکیلا ہی بیٹھا رہا نہ کسی سے بات چیت کی اور نہ ہی رات کا کھانا کھایا

    ممانی مجھے کھانے کے لئے بلاتی رہی مگر میں سوتا بنا رہا اور کوئی جواب نہیں دیا ۔

    اگلے دن میں اپنے ٹیوشن سے واپس آگیا اور جب ان کو واپس لانے کا ٹائم ہوگیا تو ممانی نے کہا کہ ان دونوں کو لے آو ٹائم ہوگیا ہے ۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب کیا کروں اگر ممانی کو انکار کرتا ہوں تو وجہ بھی بتانی پڑے گی پھر میں نے سوچا کہ چلا جاتا ہوں اور دور دور ہی رہوں گا ممانی کو کیا پتہ چلے گا کہ میں ساتھ میں آیا ہوں یا دور دور رہتے ہوئے ۔

    یہ سوچ کر میں ٹیوشن والے گھر کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر اس گھر سے کچھ فاصلے پر رک گیا اور انتظار کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد نوشابہ اور ماہ رخ دروازے سے باہر نکلیں ان کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ میری طرف چل پڑیں اور میں مڑ کر گھر کی طرف چل دیا ۔ نوشابہ مجھے پیچھے سے آوازیں دے رہی تھی لیکن میں نے اسے اگنور کئیے رکھا اور گھر پہنچ گیا ۔

    مجھے نوشابہ پر اس لئیے غصہ آرہا تھا کہ وہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ماہ رخ کے ساتھ چپکی ہوئی تھی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا تھا ۔دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد سب ہی آرام کرنے کے لئیے لیٹ گئے تو نوشابہ میرے پاس آئی ۔

    نوشابہ : کیا بات ہے منہ کیوں بنایا ہوا ہے ؟

    میں : تم تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے تمھیں علم ہی نہیں ۔

    نوشابہ : ہاں مجھے پتہ ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ماہ رخ کو تم سے اور مجھ سے کیا مسئلہ ہے۔

    میں : (تھوڑا جذباتی ہوکر)سچی تمہیں کیسے پتہ چلا ؟

    نوشابہ : مجھے ٹیوشن میں خود ماہ رخ نے بتایا ہے ۔

    میں : اچھا اب بتا بھی دو کیا تکلیف ہے اس کو کیوں تنگ کر رہی ہے ۔

    نوشابہ : میں یہ بات تمھیں نہیں بتا سکتی مجھے شرم آتی ہے ۔

    میں : بتا دو نا ایسی بھی کیا بات ہے اور ہم تو دوست بھی ہیں پھر مجھ سے کیا شرمانا ۔وہ کافی دیر تک نہ مانی بار بار انکار کرتی رہی مگر میری ضد پر اسے بتانا ہی پڑا ۔

    نوشابہ : ماہ رخ کو تسنیم (وہ لڑکی جو ماموں شکیل کے گھر آئی ہوئی تھی ) نے بتایا ہے کہ نوشابہ اور ارسلان ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ۔

    یہ بات بتاتے وقت نوشابہ کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا تھا۔ اور یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کسی لڑکی کو ایسے شرماتے ہوۓ دیکھا تھا ۔ویسے اس وقت میں بھی گھبرا گیا تھا ۔

    میں : کیااااا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟؟

    میں نے تو ایس کچھ بھی نہیں کہا تم سے یا کسی اور سے بھی۔

    نوشابہ : مجھے کیا پتہ ؟ اور اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں اور تم ضرور کچھ گندی حرکتیں بھی کرتے ہوں گے اسہی لئیے تو ہر وقت ایک ساتھ رہتے ہیں۔

    یہ سب سن کر مجھے زبردست جھٹکا لگا ، میں نے تو کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا ، یہ اور بات ہے کہ نوشابہ واقعی مجھے اچھی لگتی تھی اور میں جب بھی اپنی شادی کے بارے میں سوچتا تو نوشابہ کا چہرہ میرے تصور میں آجاتا تھا مگر میں نے کبھی پیار ویار کے بارے میں نہیں سوچا تھا ۔

    میں : اٹھو اور میرے ساتھ چلو میں ابھی اس کمینی سے پوچھتا ہوں اسکی ہمت کیسے ہوئی ایسی بات کہنے کی ۔

    نوشابہ : نہیں پلیز تم ایسا کچھ نہیں کرو گے مجھے بہت شرم آرہی ہے میں کیسے سامنا کر پاوں گی ۔

    میں : میں اس سے ضرور پوچھوں گا تم ایسا کرو کہ ماہ رخ کو بھی بلا لو تاکہ ہر بات اسکے سامنے کلیر ہوسکے ۔

    اس نے ماہ رخ کو بھی بلا لیا ، ماہ رخ نے بھی مجھے روکنے کی بہت کوشش کی مگر میں نہ مانا اور ان دونوں کو لے کر ماموں شکیل کے گھر پہنچ گیا ۔

    ماموں کے گھر پر بھی سب سو رہے تھے اور وہ دونوں ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہی تھیں ۔

    ہم سب جاکر ان کے پاس کھڑے ہوگئے

    میں غصے میں وہاں تک آتو گیا مگر سچ پوچھو تو مجھے بھی بہت شرم آرہی تھی اور کوئی بھی بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی اور سمجھ بھی نہیں آرہی تھی کہ کیا بات کروں۔ پھر بھی میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔

    میں: تم نے ماہ رخ کو کیا کہا ہے ؟

    (میں نے تسنیم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا)

    تسنیم : کیا کہا ہے میں نے ؟؟؟؟

    میں :وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کیا کہا ہے تم نے ماہ رخ کو ، ہمارے بارے میں اور تمہیں تکلیف کیا ہے ؟

    تسنیم : ہنستے ہوئے مذاق اڑانے کے انداز میں بولی ، مجھے تو بہت سی تکلیفیں ہیں تم دور نہیں کرسکتے اور نہ تمھارے بس کی بات ہے ۔ ویسے ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے ؟؟؟؟

    میں خود سے کہہ بھی نہیں پا رہا تھا آج سے پہلے میں نے نوشابہ وغیرہ کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی تھی لیکن پھر بھی میں نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا۔

    میں : تم نے ماہ رخ سے کہا ہے کہ ارسلان اور نوشابہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور گندی گندی حرکتیں بھی کرتے ہیں ؟؟؟؟

    تسنیم : ہاں کہا ہے میں نے ، اور تم لوگ ایسا کرتے بھی ہو ، مجھے سب پتہ ہے۔

    میں : تم بکواس کرتی ہو ہم تو ایسا کچھ بھی نہیں کرتے تم ہی کرتی ہوگی اسی لئے تو ایسا بول رہی ہو ۔

    تسنیم : ہاں میں تو بہت کچھ کرتی ہوں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ تم کیوں جلتے ہو ۔ یہ کہہ کر وہ دونوں ہنسنے لگیں ۔

    اور ہم تینوں شرمندہ سا منہ لیکر ان کے سامنے کھڑے تھے اب مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کمینی لڑکی کو کیا جواب دوں ۔ آخر اس سے جان بھی تو چھڑوانی تھی تو اسے کہا ۔

    میں : آج کے بعد میں تمھارے منہ سے ایسی کوئی بکواس نہ سنوں ہم ایسا کچھ نہیں کرتے ۔

    یہ کہہ کر ہم اپنے گھر کی طرف پلٹ پڑے ۔ اور پیچھے سے ان کے ہنسنے کی آوازیں آتی رہیں ۔

    ہم تینوں واپس گھر پہنچ گئے لیکن ہم تینوں ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے اور پتہ نہیں کیوں ایک طرح سے شرمندگی سی محسوس کر رہے تھے ۔

    ہم ایک دوسرے سے کوئی بات بھی نہیں کر پا رہے تھے۔

    اس واقعہ سے ایک تبدیلی ضرور آئی کہ نوشابہ نے اب مجھ سے باقاعدہ شرمانا شروع کردیا تھا ۔

    اور میں نے بھی نوشابہ کو اس نظر سے یعنی پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تھا ۔

    نوشابہ مجھے دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہتی اور شرماتی رہتی ۔ اور میں بھی اسے بہت پسند کرنے لگا تھا ۔

    یہ بدلاو مجھے بہت اچھا لگتا تھا اسی طرح دن گزرتے گئے اور ہماری پسندیدگی پیار میں بدل گئی ۔

    میں ان کے گھر سے واپس آگیا تھا مگر اب میرا دل اپنے گھر پر نہیں لگتا تھا اس لئے اکثر نوشابہ کے گھر کا چکر لگا لیتا تھا ۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار تو کرتے تھے مگر دونوں میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ اس کا اظہار کر سکیں ۔ہم اپنے پیار کا اظہار نظروں ہی نظروں میں کر لیا کرتے تھے ۔

    آپ بھی سوچتے ہونگے کہ ہم اتنے بزدل تھے کہ اظہار بھی نا کرپائے لیکن جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت ایسا نہیں تھا دیہاتوں میں اس قسم کی باتوں کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور کچھ ہماری فیملی بھی کھلے ذہن کی نہیں تھی ، اور دوسرے مجھ میں بھی اتنا حوصلہ نہیں تھا کیونکہ میں گھر سے بھی کم ہی باہر نکلتا تھا اسی لیے ان سب باتوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔

    مختصر یہ کہ اسی طرح دن گزرتے گئے اور ہماری محبت اظہار کے بغیر ہی پروان چڑھتی گئی ۔

    ہم دونوں میں کچھ کرنے کی تڑپ بڑھ رہی تھی اور ہم موقع کی تلاش میں رہتے کہ کبھی اکیلے میں ملنے اور حال دل کہنے کا موقع مل جائے۔ جب ہم دسویں کے امتحان سے فارغ ہوئے تو انھیں دنوں ماموں شکیل کے بیٹے حسیب کی شادی شروع ہوگئی ۔

    یعنی ہمارا آخری پیپر تھا اور ان کی مہندی تھی ۔

    ہم سب گھر والے کچھ دن پہلے ہی ان کے گھر چلے گئے تھے ۔ رات کو میں بیٹھا پڑھ رہا تھا تو ایسے میں نوشابہ میرے پاس آگئی ۔نوشابہ : کیا کر رہے ہو ارسلان ؟؟؟

    میں : پیپر کی تیاری کر رہا ہوں ۔

    نوشابہ : کیوں کیا مہندی میں شامل نہیں ہونا ؟

    میں : مجھے نہیں پتہ ، کل میرا آخری پیپر ہے۔

    نوشابہ : پلیز ارسلان ایسا مت کرو ، آو باہر چلتے ہیں سب کتنا مزہ کر رہے ہیں ۔

    اور تمھاری وجہ سے سب مجھے کہہ رہے ہیں کہ ارسلان کتنی محنت کر رہا ہے اور تمہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے تمھارا بھی تو پیپر ہے ۔ جاو تم بھی جاکر پڑھائی کرو ۔

    میں : تو ٹھیک ہے نا ابھی پڑھ لو مزے بعد میں کرلیں گے۔

    میں نے جان بوجھ کر ذومعنی بات کی ۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ جواب میں کیا کہتی ہے۔

    نوشابہ : (میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے) نہیں مجھے ابھی مزے کرنے ہیں۔

    میں : سوچ لو ۔

    نوشابہ : سوچ لیا ۔

    میں : تم نے بھاگ جانا ہے ۔

    نوشابہ : (مجھے چیلنج کرنے والے انداز میں) تمھاری بھول ہے تم مجھے نہیں بھگا سکتے ۔

    میں : تم ابھی مجھے جانتی نہیں ہو ۔

    نوشابہ : بہت اچھی طرح جانتی ہوں تمہیں ، جتنے تم تیس مار خان ہو ۔

    میں : میں نے کچھ کیا تو تم نے ابھی رونے بیٹھ جانا ہے ، چھوڑو رہنے دو مجھے ابھی پڑھنا ہے ۔

    نوشابہ نے جب یہ سنا تو آگے بڑھ کر میری کتاب کھینچ لی اور اپنے پیچھے چھپا لی ، اپنی کتاب واپس لینے کے لئیے میں اس کی طرف تیزی سے لپکا جسکی وجہ سے میرا سینہ سیدھا نوشابہ کے مموں سے جا ٹکرایا ۔ یہ پہلی بار تھی کہ کسی لڑکی کے ممے مجھے ٹچ ہوئے تھے۔

    مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا مانو میں تو جنت کے مزے لے رہا تھا ۔

    بہت ہی نرم و گداز اور چھوٹے چھوٹے سے ممے تھے نوشابہ کے۔

    میں وہیں رک گیا جیسے مجھے سکتہ ہوگیا ہو میری بولتی بند ہو چکی تھی ۔

    اور نوشابہ بھی بالکل چپ چاپ کھڑی تھی ۔ ہم زندگی میں پہلی بار ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے تھے کہ ہم ایک دوسرے کی سانسیں بھی محسوس کر رہے تھے ۔ نوشابہ کے بارے میں تو کچھ کہہ نہیں سکتا مگر میرا حال بہت برا تھا اس کے لمس نے میرے اندر ہلچل سی مچا دی تھی اور اسکے ساتھ ہی میرا لن آہستہ آہستہ کھڑا ہونا شروع ہوگیا اس سے پہلے کہ میرا لن فل کھڑا ہوکر نوشابہ کی سیل پیک چوت کو سلامی پیش کرتا میں ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا اور باہر نکل گیا ۔

    بعد میں مجھے خود پر بہت غصہ آیا کہ اتنا اچھا موقع تھا اور میں کچھ بھی نہیں کر سکا نوشابہ لڑکی ہوکر بھی وہیں کھڑی رہی اور میں لڑکا ہونے کے باوجود بزدلوں کی طرح وہاں سے بھاگ آیا ۔ مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت میں ڈرتا بھی تو بہت تھا دوسرے میرا پہلا موقع تھا اور کانفڈینس کی کمی بھی تھی اور کسی کے آجانے کا ڈر بھی تو تھا ۔

    اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے ایک دوسرے کو دیکھتے بھی رہتے اور جیسے ہی نظریں ملتیں تو اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیتے میں نے کئی دفعہ نوٹ کیا کہ نوشابہ مجھے دیکھ رہی ہوتی تھی لیکن میں جیسے ہی اس کی طرف دیکھتا وہ نظریں چرا لیتی اور کچھ ایسا ہی میرا بھی حال تھا ۔

    میں نے اس کی آنکھوں میں محبت کا اقرار دیکھ لیا تھا مگر میں یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے بھی اقرار کرنے میں پہل کرے کیونکہ میں ایسا کرنے کے لئیے اپنے اندر حوصلہ پیدا نہیں کر پا رہا تھا ۔

    اسی کشمکش میں شادی کا فنکشن ختم ہوگیا اور ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔

    کچھ دنوں کے بعد ہمارہ میٹرک کا رزلٹ بھی آگیا ۔ ہم اتنے ذہین اور مہنتی تو نہیں تھے کہ بورڈ ٹاپ کر لیتے لیکن پاس ضرور ہو گئے تھے اور میرے لئے تو یہ بھی بہت تھا ۔

    میرے 850 میں سے 653 نمبر آئے تھے اور نوشابہ کے 850 میں سے 601 نمبر آئے تھے ۔ سب ہمارے پاس ہونے پر بہت خوش تھے ۔ ماموں نے سعودی عرب سے ہمارے پاس ہونے کی خوشی میں انعام کے طور پر دو موبائل فون بھیج دئیے ایک میرے لئیے اور دوسرا نوشابہ کے لئیے ۔موبائل ملنے پر ہم دونوں بہت خوش تھے ۔ سچ پوچھو تو اتنی خوشی ہمیں پاس ہونے کی نہیں ہوئی تھی جتنی موبائل ملنے پر ہوئی تھی ۔

    اب ہم دونوں کے پاس موبائل تھا اور ہم ایک دوسرے کو شعر وشاعری اور لطیفوں کے میسج کردیا کرتے تھے لیکن ابھی تک ہماری بات چیت نہیں ہوپائی تھی ۔ پھر ایک دن تقریباً 4بجے کے قریب اگست کی 18 تاریخ جمعرات کے دن نوشابہ کا میسج آگیا ۔

    نوشابہ : کیا تم مجھ سے دوستی کرو گے ارسلان ؟

    میں : مجھے تو لگتا ہے کہ ہم پہلے ہی بہت اچھے دوست ہیں ۔

    نوشابہ : وہ والی دوستی نہیں بلکہ پکی والی دوستی کرو گے کیا ؟

    میں : دوستی تو دوستی ہی ہوتی ہے یہ پکی والی اور کچی والی کیا ہوتی ہے؟

    نوشابہ : پکی والی دوستی وہ ہوتی ہے جس میں ایک دوسرے سے شرمائے بغیر دل کی ہر بات کرسکتے ہیں ،اب بتاو کرو گے مجھ سے ایسی دوستی؟

    میں : اگر ایسی بات ہے تو مجھے منظور ہے ۔

    نوشابہ : تھینک یو ویری مچ ، تو پھر آج سے ہم پکے والے دوست ۔

    میں : ہاں ہاں بالکل پکے والے دوست ۔

    پھر اس دن کے بعد سے ہماری بات چیت میسج پر شروع ہوگئی اور ہم سارا دن میسج پر لگے رہتے تھے ۔

    سارا دن اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتیں رہتی مگر ہم دونوں میں سے کسی نے بھی اب تک اظہار محبت نہیں کیا تھا شاید وہ میرے منہ سے سننا چاہتی تھی اور میں چاہتا تھا کہ پہل وہ کرے اسی کشمکش میں کافی دن گزر گئے ۔ پھر ایک دن ایسے ہی باتیں کرتے کرتے نوشابہ نے مجھ سے پوچھا۔

    نوشابہ : تم کسی سے پیار کرتے ہو کیا ؟

    میں : ہاں کرتا تو ہوں ۔

    نوشابہ : اچھا بتاو کون ہے وہ ؟

    میں : تم جانتی ہو اسے ۔

    نوشابہ : بتاو نا کون ہے؟

    میں : میری کزن ہے وہ بہت ہی پیاری ہے

    نوشابہ : نام بتاو اس کا ،کونسی کزن ہے۔

    میں : میں تمہیں اس کا نام نہیں بتاوں گا تم خود ہی گیس کرلو ۔

    نوشابہ : نہیں نا تم خود ہی بتا دو اب تو ہم پکے والے دوست ہیں مجھ سے کیوں چھپا رہے ہو ۔

    میں : ہاں دوست تو ہیں مگر میں سوچتا ہوں اگر میں نے اسکا نام بتا دیا تو وہ ناراض نہ ہو جائے ۔

    نوشابہ : کیا وہ بھی تم سے پیار کرتی ہے

    اور کیا تم دونوں نے کبھی اظہار محبت بھی کیا ہے ۔

    میں : لگتا تو ہے کہ وہ بھی مجھ سے پیار کرتی ہے مگر شاید وہ بھی میری طرح اظہار کرنے سے ڈرتی ہے۔

    نوشابہ : اچھا اب بتا بھی دو آخر وہ ہے کون ۔

    میں : میں تمہیں بتا تو دوں لیکن اگر وہ غصہ ہوگئی تو ؟؟؟؟؟؟؟

    نوشابہ : تم بس اسکا نام بتادو وہ غصّہ نہیں ہوگی ۔

    میں : تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ غصّہ نہیں ہوگی جبکہ تم اس کا نام بھی نہیں جانتی ۔

    نوشابہ : مجھے پتہ ہے بس ، اب تم بول بھی دو جو تمہیں کہنا ہے۔

    یہ اس کی طرف سے محبت کا اظہار کروانے کا کھلا دعوت نامہ تھا مجھے بھی کچھ حوصلہ ہوا میں نے سوچا یار ارسلان یہی موقع ہے آج کھل کر اپنے دل کی بات کہہ ڈال۔

    میں : میں اپنی اس کزن سے بہت پیار کرتا ہوں اپنی جان سے بھی زیادہ، لیکن اس کا پورا نام نہیں بتاؤں گا بس اسکے نام کا پہلا حرف بتا دیتا ہوں اسکا نام، این ، سے شروع ہوتا ہے ۔

    نوشابہ  بڑی بے تابی کے ساتھ) پورا نام بتاو نا ۔

    میں : یار اب خود سمجھ جاو نا ۔

    نوشابہ : نہیں ایسے نہیں تم پورا نام بتاو

    میں : (موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈرتے ڈرتے)آئی لو یو نوشابہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ۔

    نوشابہ : کیا مطلب ؟ یعنی تم کہنا کیا چاہتے ہو ، یہ تم مجھ سے کیوں کہہ رہے ہو ۔

    میں : تم ہی میری وہ کزن ہو جس کے لئے میں اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہو

    میں تمہیں خود سے بھی زیادہ چاہتا ہوں

    کیا تم بھی مجھے چاہتی ہو نوشابہ ؟

    نوشابہ : (کچھ وقفے کے بعد ) ہاں ارسلان میں بھی تم سے بہت پیار کرتی ہوں ، اور شاید تم سے بھی زیادہ تم سے پیار کرتی ہوں ۔

    میں : اگر ایسی بات ہے تو آج تک اظہار کیوں نہیں کیا میں یہ سب تمہاری زبان سے سننے کے لئیے کتنا بےتاب تھا ۔

    نوشابہ : تم تو لڑکے ہو پہل تمہیں کرنی چاہیے تھی اور تم مجھ سے توقع کئے بیٹھے تھے بدھو ۔

    میں : چلو اب تو کہہ دیا نا اب تو تمہیں کوئی شکایت نہیں اب تو خوش ہونا ۔

    نوشابہ : میں تمہیں بتا نہیں سکتی آج میں کتنی خوش ہوں ، آج کا دن میری زندگی میں بہت اہم اور یادگار رہے گا۔

    تو دوستو ! یہ تھا ہمارے پیار کا اظہار جس کے لئیے مجھے اتنا انتظار کرنا پڑا

    اب ہمارا باتیں کرنے کا انداز بدل چکا تھا اور ہم اب لورز کی طرح باتیں کیا کرتے تھے لیکن ابھی ہم سیکس کے بارے میں بات نہیں کر پائے تھے یہ اور بات ہے کہ سیکس کے بارے میں ہم دونوں کو کچھ نہ کچھ معلومات تو تھیں بلکہ مجھے تو اپنے دوستوں کے ذریعے اور ٹرپل فلمیں دیکھ دیکھ کر کافی زیادہ معلومات تھیں اب میرا دل بہت چاہتا تھا کہ ہم اکیلے میں ملیں اور کچھ کریں اور شاید اسکا بھی یہی حال تھا ۔

    کچھ عرصے بعد ہماری یہ مراد بھی بر آئی ۔ ہوا یوں کہ نوشابہ نے کچھ روز ہماری طرف گزارنے کا پروگرام بنا لیا ۔

    جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ ہمارے گھر رہنے کے لئے آرہی ہے تو میں بہت خوش ہوا میں نے اسے کہا کہ وہ آتے ہوۓ اپنی بہت ساری تصویریں بھی ساتھ لیتی آئے اور وہ مان گئی ۔

    تو دوستو ! کیونکہ اب کہانی میرے گھر پر چلنی ہے تو یہ ضروری ہے کہ میں آپ کو اپنے گھر کے بارے میں تمام ضروری معلومات فراہم کردوں تاکہ کہانی کے دوران آپ کو اجنبیت محسوس نہ ہو ۔ہمارا گھر چھوٹا سا ہی تھا اس میں 3 کمرے اور ایک بیٹھک تھی اسکے علاوہ ایک کچن ایک واش روم اور ایک چھوٹا صحن بھی تھا دو کمروں کے آگے برآمدہ بھی تھا ۔ ایک کمرے میں ابو سوتے تھے ۔ دوسرے میں میرے چچا کی بیٹی یا یوں سمجھو میری دونوں بڑی بہنیں شفق اور صباء آپی اور ایک کمرے میں امی، میں اور مشال سوتے تھے۔

    جب کوئی مہمان آجائے تو مشال اور میں بہنوں کے کمرے میں شفٹ ہوجاتا امی ابو کے کمرے میں اور خالی کمرہ مہمانوں کے استعمال میں آجاتا تھا

    اور اگر کبھی میرے بھائی آجائیں تو وہ میرے ساتھ ہی کمرہ شئر کر لیتے تھے ۔

    پھر وہ وقت بھی آگیا جب نوشابہ ہمارے گھر آگئی مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا اسے سب گھر والوں نے گھیر رکھا تھا مشال تو اسکے ساتھ چپکی ہوئی تھی میں نے بہت کوشش کی کہ وہ اکیلے میں مجھے مل جائے تاکہ میں وعدے کے مطابق اس سے اسکی تصویرں لے سکوں لیکن شام تک مجھے موقع ہی نہ مل سکا ۔ شام کے وقت وہ تھوڑی دیر کے لئیے اکیلی مجھے ملی تو میں نے اسے تصویریں دینے کو کہا ۔

    وہ بولی کہ تصویریں تو میں لانا ہی بھول گئی ۔

    یہ سن کر مجھے تو بہت غصہ آیا میں نے کہا تم نے وعدہ کیا تھا اور کہتی ہو کہ بھول آئی ہو تم مجھے اپنی تصویریں دینا ہی نہیں چاہتی یہ کہہ کر میں نے اس سے منہ بنالیا اور رات کا کھانا بھی نہیں کھایا اور نہ پھر اس سے کوئی بات کی ۔ اس نے بہت کوشش کی مجھے منانے کی مگر میں نہیں مانا اور ایسے ہی سونے کے لئیے اپنی چارپائی پر لیٹ گیا

    میری چارپائی دیوار کے ساتھ بچھی تھی اس کے بعد تھوڑی سی جگہ بچی ہوئی تھی گزرنے کے لئیے اس کے بعد مشال کی چارپائی تھی اور اسی کے ساتھ امی کی چارپائی بچھی ہوئی تھی

    نوشابہ کو امی نے الگ سے چارپائی پر سونے کو کہا تو اس نے انکار کردیا اور بولی کہ میں مشال کے ساتھ ہی سوجاتی ہوں اور اسطرح وہ مشال کی چاپائی پر میرے والی سائڈ پر لیٹ گئی۔

    تھوڑی دیر ہی گزری تھی شاید 10 کا ٹائم ہوا ہوگا کہ کسی نے اچانک میرا کمبل کینچ کر اتار دیا اور میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا جب اس طرف دیکھا تو نوشابہ نے کمبل پکڑا ہوا تھا ۔ کیونکہ میں اس سے ناراض تھا اس لئیے میں نے جھٹکے سے کمبل اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور دوسری سائڈ پر ہوکر لیٹ گیا ۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر میں اس سے دور ہی رہا تھک ہار کر اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔

    تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میرے موبائل پر نوشابہ کا میسج رسیو ہوا ۔

    نوشابہ : ارسلان سیدھی طرح اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو ورنہ ***** کی قسم صبح ہوتے ہی میں واپس اپنے گھر چلی جاوں گی اور اس کے بعد نہ تو دوبارہ تمھارے گھر آوں گی اور نہ ہی کبھی تم سے بات ہی کروں گی ۔

    میں : تم تصویریں کیوں نہیں لائی ؟ تم نے مجھ سے وعدہ بھی کیا تھا تمہیں مجھ پر اعتماد ہی نہیں ہے اور دعوے کرتی ہو محبت کے ۔

    نوشابہ : میری جان مجھے تم پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے تمھاری قسم میں واقعی جلدی میں اور تم سے ملنے کی خوشی میں بھول گئی تھی ۔

    میں تو اسکے میری جان کہنے پر ہی خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا مگر ایک دم ہی مان جانا مجھے اچھا نہ لگا اور میں نے سوچا کیوں نہ تھوڑا سا اور تنگ کیا جائے یہ سوچ کر میں نے میسج کیا ۔

    میں : ہاں جی یاد نہیں رہا تمہیں ۔ اگر میری تمھاری نظر میں کوئی اہمیت ہوتی تو یاد بھی رہتا نا ۔

    نوشابہ : ہاتھ دو اپنا پہلے ، پھر بتاتی ہوں کتنی اہمیت ہے تمھاری میرے لئیے ۔

    میں : اچھا جی ، یہ کرکے بھی دیکھ لیتے ہیں ۔

    میں نوشابہ کی طرف کھسک گیا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا ۔

    نوشابہ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اسے سہلانے لگی وہ میرا ہاتھ آہستہ آہستہ دبا رہی تھی ۔اور میں اس وقت خود کو ہواوں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا ابھی میں اس کے ہاتھوں کا لمس انجوائے کر ہی رہا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ اپنی طرف کھینچا اور اسے چومنے لگی اور اپنا ہاتھ اس نے میرے حوالے کر دیا اب میرا ہاتھ نوشابہ کے پاس تھا اور نوشابہ کا ہاتھ میرے پاس تھا ۔

    ہم دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں کو چوم رہے تھے سہلا رہے رہے تھے اور یقین کریں کہ ایسا کرنے سے مجھے اتنا مزہ آرہا تھا کہ بتا نہیں سکتا ۔

    میں اسی احساس میں گم تھا کہ نوشابہ نے میرے ہاتھ کی درمیان والی انگلی کو اپنے منہ کے اندر ڈال لیا اور چوسنے لگی ۔

    اسکے گرم منہ کا نرم و ملائم احساس میری روح تک کو گرما گیا ۔

    اب میں نے بھی اس کی انگلیاں چومنی اور چوسنی شروع کر دیں ۔

    مجھے صاف محسوس ہورہا تھا کہ نوشابہ کا جسم کانپ رہا تھا ۔

    کچھ دیر ایسے ہی کیا پھر نوشابہ نے ایک جھرجھری سی لی اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ لیکن میرا ہاتھ ابھی اسہی کے پاس تھا ۔

    اب میں نے اپنا ہاتھ اپنے محبوب کےچہرے پر پھیرنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اسکے گالوں پر چٹکیاں کاٹنے لگا اور ساتھ ساتھ اسکے ہونٹوں کو بھی سہلانے لگا ۔

    میں بہت مستی میں آگیا تھا ۔ اس دوران نوشابہ بالکل بے حرکت لیٹی رہی شاید اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ۔

    لیکن اس نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی بس آرام سے لیٹی رہی۔

    اس دوران میں اپنا ہاتھ اس کے چہرے سے گھماتے ہوئے اس کی گردن تک لے آیا تھا ۔ اب میں اپنے ہاتھ سے نوشابہ کی گردن کو سہلانے لگا ۔ نوشابہ میری طرف کروٹ لے کر لیٹی تھی اور اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھا رکھا تھا تاکہ میرے ہاتھ کو آسانی سے اسکی گرن تک رسائی حاصل ہو سکے ۔ نوشابہ کا سارا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا اور اسکی سانسیں تیز چل رہی تھیں ۔

    اب میں نے اپنا ہاتھ گردن پر پھیرتے پھیرتے کمر کی طرف گھما لیا اور نوشابہ کی قمیض کے اندر سے اس کی کمر کو سہلانے لگا ۔

    مجھے حیرت بھری خوشی ہورہی تھی کہ نوشابہ نے مجھے ایسا کرنے سے بالکل منع نہیں کیا تھا بس خاموشی سے لیٹی ہوئی تھی اور شاید انجوائے بھی کر رہی تھی ۔ میں اپنے ہاتھ سے نوشابہ کی کمر کو سہلا رہا تھا اور آہستہ آہستہ آگے کی طرف ہاتھ بڑھاتا جا رہا تھا ۔

    میرا ہاتھ جونہی نوشابہ کی بریزر کی سٹرپ کو ٹچ ہوا تو ہم دونوں کو ایک ہی وقت میں جھٹکا سا لگا اور نوشابہ کے منہ سے ہلکی سی آہ نکل گئی اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔ شدت جذبات سے میرا جسم سن ہوگیا تھا ۔ نوشابہ نے کچھ دیر میرا انتظار کیا جب میں نے کوئی حرکت نہ کی تو کچھ ہی دیر میں اسکا میسج آگیا

    نوشابہ : کیا ہوا میرے شہزادے کو ۔

    میں : کچھ نہیں بس ایسے ہی , تم نے آواز نکالی تو میں ڈر گیا کہیں مشال یا امی نہ سن لیں بس اسی لئیے ہاتھ ہٹا لیا

    نوشابہ : واہ بھئی ہمارا شہزادہ تو ڈرتا بھی ہے ۔ اچھا اب نہیں نکالوں گی آواز تم جو کرنا چاہتے ہو کرتے رہو ۔

    میں : تمہیں مزہ آرہا ہے؟

    نوشابہ : ہاں بہت زیادہ ، اسی لیے تو کہہ رہی ہوں ۔

    میں : اور مزہ کرنا ہے تو مجھے کچھ بھی کرنے سے روکنا مت اور کوئی آواز بھی نہ نکالنا ۔

    نوشابہ : ارے بابا نہیں روکوں کی اپنی جان کو جو تمھارا دل چاہے کرو آج میں تمھاری ہوں میں کوشش کروں گی کوئی آواز نہ نکلے مزہ ہی اتنا آرہا تھا کہ مجھ سے کنٹرول نہ ہوسکا ۔

    میں : تو پھر ٹھیک ہے میری شہزادی تم بس خود پر قابو رکھنا اور کوئی آواز نہیں نکلنی چاہیے ۔

    نوشابہ : اچھا میری جان باقی باتیں بعد میں کرلینا ابھی تو وہ کرو جو کرنا چاہتے ہو ۔ نہیں نکلے گی کوئی آواز میرے شہزادے ۔

    میں : بڑی آگ لگی ہے ؟ ابھی بجھاتا ہوں ۔

    نوشابہ : دیکھتے ہیں کیسے بجھاتے ہو ,٬

    یہ آگ بھی تو تم نے ہی لگائی ہے ۔

    اب میں نے اسکے میسج کا جواب دینے کے بجائے اپنا ہاتھ دوبارہ اسکے چہرے پر رکھ دیا اور پہلے کی طرح سہلانا شروع کر دیا پھر اسہی طرح ہاتھ گھماتے گھماتے اسکی گردن سے لاتے ہوئے کمر پر پہنچ گیا اس بار وہاں تک پہنچنے میں مجھے زیادہ ٹائم نہیں لگا اب میرا ہاتھ دوبارہ اسکی بریزیر کے سٹریپ پر تھا

    جانے اس جگہ ایسی کیا بات تھی کہ ہم دونوں کو پھر سے جھٹکا لگا لیکن اس بار میں پیچھے نہیں ہٹا اور نا ہی نوشابہ نے کوئی آواز نکالی میں کافی دیر وہیں پر ہاتھ پھیرتا رہا میرا ہاتھ اسکی کمر پر جہاں تک پہنچ سکتا تھا میں اسے سہلاتا رہا مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور نوشابہ کی تیز سانسیں اسکے حال کا پتہ دے رہیں تھیں ۔ نوشابہ کے جسم کا رواں رواں شدت جذبات سے تن چکا تھا جسکی وجہ سے مجھے اپنے ہاتھ میں عجیب سی سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔

    پھر میں نے اپنا ہاتھ اسکی قمیض سے باہر نکال لیا اور نوشابہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کو دبایا تو وہ سمجھ گئی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ۔

    اب نوشابہ بالکل سیدھی ہوکر لیٹ گئی تھی ۔ میں پھر سے اپنا ہاتھ اسکے چہرے اور گردن پر پھیرنے لگا کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد میں نے اپنا ہاتھ نوشابہ کی قمیض کے اوپر سے ہی آگے لے جانا شروع کیا اور اس کے دائیں ممے تک پہنچ گیا ، میں نے جیسے ہی اپنا ہاتھ نوشابہ کے ممے پر رکھا اسکے جسم کو زوردار جھٹکا لگا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو میرے ہاتھ کے اوپر رکھ دیا ۔

    اب نوشابہ میرے ہاتھوں کو دبا اور سہلا رہی تھی اور میں اس کے ممے کو سہلا رہا تھا اور انتہائی نرمی سے دبا رہا تھا ۔

    نوشابہ کے ممے بالکل مکھن کی طرح نرم ملائم تھے مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا ۔

    اب میں نے نوشابہ کے ہاتھ پکڑے اور انھیں سائیڈ پر کر دیا نوشابہ نے اس پر

    کوئی مزاحمت نہیں کی میں اس کے ممے اپنے ہاتھوں کی مدد سے بھر پور انداز میں محسوس کر رہا تھا کپڑوں کے اوپر سے نوشابہ کے مموں کے نپلز ٹائٹ ہوکر میری انگلیوں کو محسوس ہو رہے تھے ۔

    میں اپنا ہاتھ پھر سے اسکے چہرے پر لے گیا اور تھوڑی دیر اسکے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا ۔ پھر اپنا ہاتھ اسکی گردن پر پھیرنے لگا ۔ میں نے نظر اٹھا کر نوشابہ کی طرف دیکھا تو پایا کہ اس نے اپنے منہ میں دوپٹے کے پلو ٹھونسا ہوا تھا تاکہ آواز باہر نہ آسکے ۔میں اس طرف سے بالکل بے فکر ہوگیا تھا ۔

    میں اپنا ہاتھ گردن سے آہستہ آہستہ آگے بڑھانے لگا اور اسکی قمیض کے گلے سے گزارتا ہوا اسکے مموں تک لے گیا اور برا کے اوپر سے اسکے ممے سہلانے لگا ۔

    نوشابہ بڑی مشکل سے اپنے آپ پر کنٹرول کئیے ہوئے تھی اسکے باوجود تھوڑا تھوڑا مچل بھی رہی تھی ۔

    میں کچھ دیر برا کے اوپر سے نوشابہ کے دونوں ممے مسلتا اور سہلاتا رہا اسکے بعد جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ برا کے اندر گھسایا اور اسکے ننگے ممے پکڑے تو نوشابہ ایکدم چارپائی سے اچھل پڑی لیکن دوسرے ہی لمحے نارمل بھی ہوگئی۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرے ہاتھ نوشابہ کے مموں پر ہیں اس احساس سے اور نوشابہ کی جوانی کی گرمی سے میرا لنڈ پورے جوش میں کھڑا ہوچکا تھا اور ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جذبات سے پھٹ ہی جائے گا ۔ میرے سارے وجود میں مزے کی لہریں دوڑ رہیں تھیں ۔ میں جو بھی نوشابہ کے ساتھ کر رہا تھا وہ میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھی اس نے ابھی تک مجھے کسی بات سے روکا نہیں تھا ۔

    اب میں کبھی اسکا دائیاں مما اور کبھی بائیاں مما پکڑتا سہلاتا اور اسکے مٹر کے دانے جیسے نپل کو چھیڑتا اور مسلتا اسکے دونوں ممے اور ان کے اوپر چھوٹے چھوٹے نپل تن کر فل سخت ہوگئے تھے ۔

    میں کچھ دیر ایسے ہی کرتا ہی رہا پھر میں نے اپنا ہاتھ نوشابہ کی قمیض سے باہر نکال لیا ۔ اس پر نوشابہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی تو میں نے اسکی قمیض پکڑی اور اوپر کی طرف ہلکے ہلکے جھٹکے دینے لگا ۔

    نوشابہ فوراً سمجھ گئی کہ میں کیا چاہتا ہوں اس نے اپنی گانڈ تھوڑی سی اوپر اٹھا کر قمیض اپنے نیچے سے نکالی اور اسے اوپر کرنے میں میری مدد کی ۔

    میں نے نوشابہ کی قمیض مکمل اوپر اٹھا کر اس کے گلے تک لے آیا ۔ اب اسکا پیٹ بالکل ننگا تھا اور اس کے مموں کو بِرا ،نے ڈھانپ رکھا تھا ۔

    پھر میں نے دیر نہ کرتے ہوئے اسکی بِرا کو بھی اسکے گلے تک کھینچ دیا اب اس کے ممے بھی بالکل ننگے ہوگئے تھے بالکل چھوٹے چھوٹے اور تنے ہوئے ممے دیکھتے ہی میرا دل مچل گیا اور میں نے بیتابی سے اس کے ممے دبوچ لئے اور انہیں مسلنے لگا کبھی دائیں ممے کو اور کبھی بائیں ممے کو سہلاتا اور مسلتا رہا نوشابہ بھی مسلسل مچل رہی تھی مگر اسکی کوئی آواز منہ میں کپڑا ہونے کی وجہ سے نہیں آرہی تھی ۔

    پھر میں تھوڑا تھوڑا آگے بڑھنا شروع ہوگیا اب میرا ہاتھ اسکے پیٹ پر گردش کر رہا تھا اور میں اپنی چارپائی سے تھوڑا سا اور آگے کی طرف کھسک آیا ۔

    اب میرا منہ نوشابہ کے سینے پر آگیا تھا اور میں اس کے سینے کو چومنے لگا نوشابہ کے چھوٹے چھوٹے ممے میرے منہ میں بھر جاتے تھے اس کے ساتھ ہی میں اپنا ہاتھ نوشابہ کے پیٹ پر پھیر رہا تھا ۔

    ممے چوستے ہوئے میں نے اپنا ہاتھ اور بڑھایا اور نوشابہ کی شلوار پر لاسٹک والی جگہ تک لے گیا اور جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈالنے کی کوشش کی تو نوشابہ نے جھٹکا کھایا اور فوراً میرا ہاتھ پکڑ لیا میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے میرے بازو پر انگلی سے کچھ لکھنا شروع کیا لیکن میں سمجھ نا پایا اور نہ میں گردن ہلا دی اس نے کئی بار کوشش کی لیکن مجھے سمجھ نہ آسکا تو میں نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اس کی ٹانگ پر شلوار کے اوپر سے ہی پھیرنے لگا اور ساتھ ساتھ نوشابہ کے ممے بھی چھیڑتا اور چومتا جاتا تھا نوشابہ اب بری طرح بیچین ہورہی تھی میں اپنا ہاتھ نوشابہ کی ٹانگوں کے درمیان میں لے گیا اور شلوار کے اوپر سے اسکی پھدی کے اوپر رکھ دیا نوشابہ کی شلوار گیلی ہوچکی تھی اب پتہ نہیں کہ یہ پانی پری کم تھا یا وہ فارغ ہوچکی تھی ۔ میں اسکی پھدی سے کھیلنے لگا اور نوشابہ کے تڑپنے میں تیزی آگئی میں نوشابہ کی پھدی سے بھی کھیل رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے ممے بھی چھیڑ رہا تھا انہیں چوس رہا تھا چاٹ رہا تھا اور کبھی دونوں مموں کی درمیان والی جگہ پر زبان پھیر رہا تھا ۔

    یکایک نوشابہ مچل اٹھی اور اس نے جلدی سے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی شلوار کے اندر ڈال دیا ۔

    میں نے نوشابہ کی طرف دیکھا اور مسکرادیا اور نوشابہ نے نظریں چرا لیں ۔

    اب میرا ہاتھ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا تھا میں نے فوراً اپنا ہاتھ نوشابہ کی پھدی پر رکھ دیا اسکی پھدی پوری طرح سے بھیگی ہوئی تھی اور شلوار بھی کافی گیلی ہوچکی تھی ۔

    میں نے اپنا ہاتھ اسکی پھدی پر گھمایا تو مجھے محسوس ہوا کہ اسکی پھدی پر ہلکے ہلکے بال ہیں مجھے بالوں سے سخت چڑ ہے میں اپنے لنڈ کے بال بھی زیادہ بڑے نہیں ہونے دیتا خیر پہلی دفعہ کا سوچ کر میں نے اگنور کر دیا اور اسکی پھدی کو سہلانے لگا نوشابہ نے اپنا ہاتھ شلوار کے اوپر سے میرے ہاتھ کے اوپر رکھ دیا لیکن مجھے روکا نہیں میں اپنے کام میں لگا رہا اب نوشابہ نے ایک شرارت کی اور میرے گال پر زور سے چٹکی کاٹ لی اس اچانک حملے سے میرے منہ سے آواز نکل گئی جسکی وجہ سے امی کی آنکھ کھل گئی اور میں سیدھا ہوکر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا لیکن میرا ہاتھ ابھی تک نوشابہ کی پھدی پر ہی تھا امی نے دوبار آواز دے کر پوچھا کہ کیا ہوا پھر یہ سوچ کر سوگئی

    کہ شاید نیند میں آواز نکل گئی ہوگی ۔

    امی کے سوجانے کے بعد میں پھر اپنے کام میں لگ گیا اور تیزی سے اسکی پھدی کو سہلا رہا تھا نوشابہ کی پھدی پھولی ہوئی تھی لیکن چھوٹی سی تھی میں نے اپنی انگلی اسکی چوت کی لکیر میں پھیرنا شروع کردیا اسکی پھدی گیلی تھی اور انگلی سلپ ہورہی تھی میں اسکی پھدی میں اپنی انگلی ڈالنا چاہتا تھا لیکن نوشابہ نے میراہاتھ پکڑ لیا تو میں نے انگلی اندر ڈالنے لا ارادہ بدل لیا اور اوپر سے پی کھیلنے لگا ۔

    اچانک نوشابہ کا جسم اکڑنا شروع ہوگیا اور اس نے میرے بال سختی سے پکڑ لئے اسکی کمر چارپائی سے اوپر اٹھ چکی تھی اور اسکے ساتھ ہی اسکی چوت نے ڈھیر سارا گرم گرم پانی چھوڑنا شروع کردیا اور دیر تک پانی چھوڑتی رہی میرا ہاتھ اسکی چوت کے پانی سے بھر گیا تھا

    پھر آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوگئی اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی ۔

    میں سمجھ گیا کہ نوشابہ کو اسکی منزل مل چکی ہے میں نے اپنا ہاتھ اسکی شلوار سے باہر نکال لیا اور اپنی چارپائی پر سیدھا ہوکر لیٹ گیا ۔ اور نوشابہ کو میسج کیا ۔

    میں : ہاں تو میری جان کیسا محسوس ہورہا ہے۔

    نوشابہ : کچھ مت پوچھو میرے شہزادے ، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کام میں اتنے مزے ہوتے ہیں

    سچ پوچھو تو ابھی تک ہواوں میں اُڑ رہی ہوں ۔ اُف توبہ میری تو جان ہی نکل گئی ہے۔

    میں : ابھی اور مزہ بھی چاہئیے کیا میری شہزادی کو ، کہو تو ایک راونڈ اور ہو جائے ۔

    نوشابہ : نہیں بس اتنا ہی بہت ہے آج کے لئے اسے ہی سنبھال لوں تو بڑی بات ہے مجھ سے تو اپنی دھڑکنوں پر ہی قابو پانا مشکل ہو رہا ہے ، آئی لو یو سو مچ اینڈ گڈ نائٹ میری جان ۔

    میں : ہاں جی اب تو ویری ویری گڈ نائٹ بھی ہوگا تمھاری آگ جو ٹھنڈی ہو گئی ہے ، بس اپنے بارے میں ہی سوچنا میرا بھی کچھ خیال ہے تمہیں ؟

    نوشابہ : تمہیں کیا ہوا ہے اب جناب تمھارے لئے تو جان بھی حاضر ہے بس ایک بار اشارہ تو کرو ۔

    میں : وہی جو ابھی تمہیں تھا ، تمھاری آگ تو ٹھنڈی ہوگئی مگر میری اور بھی بڑھ گئی ہے ۔میں تو تڑپ رہا ہوں اس آگ میں جل رہا ہوں ۔

    نوشابہ : اچھا تو میرے شہزادے اب یہ بتاو میں ایسا کیا کروں کہ تمھاری آگ بھی ٹھنڈی ہوجائے ۔

    میں : کنا کیا ہے بس وہی کرو جو میں نے ابھی تمھارے ساتھ کیا ہے ۔

    نوشابہ : لو اس میں کیا ہے میں ابھی اپنے جانو کی آگ ٹھنڈی کر دیتی ہوں ۔

    میں : اچھا جی ، تو پھر شروع ہوجاو اب مزے دینے کی باری تمھاری ہے ۔

    یہ کہہ کر میں نے کمبل کے اندر ہی اپنی قمیض اور بنیان اتار دی اور شلوار کا ازاربند کھول کر اسے بھی نیچے کی طرف کھسکا دیا اور سیدھا لیٹ گیا ۔

    میرا لن جو اسوقت صرف 5.5 یا شاید 6 انچ کا ہی ہوگا اور اتنا موٹا بھی نہیں تھا لیکن فل تنا ہوا تھا اور ہوا میں لہرا رہا تھا ۔

    اس ہی لمے مجھے اپنے سینے پر نوشابہ کا ہاتھ محسوس ہوا اور میرے جسم میں جیسے کرنٹ کی لہریں دوڑنے لگیں ۔

    وہ اپنا ہاتھ میرے سینے پر پھیرنے لگی اور آہستہ آہستہ ہاتھ کو نہچے کی طرف لے جانے لگی ۔

    میں خود کو کسی اور ہی دنیا میں محسوس کر رہا تھا ، میرا دل کر رہا تھا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو اور نوشابہ ایسے ہی میرا جسم سہلاتی رہے ۔

    لیکن نوشابہ زیدہ دیر صبر نہ کرسکی اور جلدی سے اپنا ہاتھ نیچے کی طرف لے گئی اور جیسے ہی اس کا ہاتھ میرے لن

    کو ٹچ ہوا تو مجھے ایک جھٹکا لگا میرے پورے بدن میں سنسناہٹ کی لہریں دوڑ گئیں ، یہ پہلی بار تھی کہ کسی لڑکی نے میرے لن کو چھوا تھا ااور وہ بھی اتنے پیار سے ۔ لیکن اسے چھوتے ہی نوشابہ نے اپنا ہاتھ روک دیا اب وہ کوئی بھی حرکت نہیں کر رہی تھی ۔

    میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر اپنے ہاتھ سے نوشابہ کا ہاتھ پکڑا اور پھر سے اس اپنے لن پر رکھ دیا ۔ اب نوشابہ نے میرے لن کو پکڑ لیا اور وہ اسے اچھی طرح سے دبا دبا کر چیک کرنے لگی پھر اس نے اوپر سے نیچے تک کئی بار میرے لن پر ہاتھ پھیرا ۔ نوشابہ بڑی نرمی سے میرے لن کو سہلا رہی تھی اور میرے دماغ میں یہ سوچ آرہی تھی کہ ارسلان آج تو تمھاری محبت کے ہاتھ میں تمھارہ لن آہی گیا اور یہ سوچ آتے ہی میرے جسم میں مزےکی لہریں دوڑنے لگتیں

    اور لن جھٹکے کھانے لگتا ۔

    اب نوشابہ تیزی سے اپنا ہاتھ میرے لن پر اوپر نیچے کر رہی تھی اور میں ہواوں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔

    نوشابہ کافی دیر ایسے ہی کرتی رہی اچانک مجھے اپنا جسم اکڑتا ہوا محسوس ہوا ایسے لگ رہا تھا کہ سارے جسم کا خون لن کی طرف اکھٹا ہوگیا ہو

    میرا لنڈ اور زیادہ سخت ہوگیا تھا میں سمجھ گیا کہ اب میرا کام بھی ہونے والا ہے ۔ میں نے اپنا بنیان اٹھا کر اپنے لن پر ڈال دیا اب نوشابہ بنیان کے نیچے سے ہاتھ ہلا رہی تھی اور اسی وقت میرے لن نے پانی چھوڑنا شروع کردیا یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جسکے لئے انسان اتنی تگ و دو اور محنت کرتا ہے میں فارغ ہوچکا تھا اور اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا ۔ نوشابہ کا ہاتھ میری منی سے بھر گیا تھا میں نے اسے بھی اپنی بنیان سے ہی صاف کردیا اور کپڑے پہن کر لیٹ گیا۔

    طوفان گزر گیا تھا اور اب ہر طرف سکون ہی سکون تھا ایسے میں میرے موبائل پر میسج رسیوو ہوا ۔ میں سمجھ گیا کہ یہ میری جان کے علاؤہ کسی کا نہیں ہوسکتا ۔

    نوشابہ : ہاں میری جان اب بتاؤ اب تو خوش ہو نا اب تو تمھاری آگ بھی بجھا دی میں نے ۔

    میں : میری جان , میری زندگی آج میں اتنا خوش ہوں کہ بتا نہیں سکتا اور یہ سب تمھاری وجہ سے ممکن ہوسکا ہے

    تمھارا بہت بہت شکریہ آئی لو یو میری زندگی ۔

    نوشابہ : تمھارا بھی بہت شکریہ تم نے بھی آج میری زندگی بدل دی ہے اب اپنی جان کے لئے اور کوئی حکم ہے تو وہ بھی بتا دو ۔

    میں : کہنا تو بہت کچھ ہے مگر تم نے ماننا ہی نہیں ۔

    نوشابہ : ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میرا جانو کچھ کہے اور میں نہ مانوں ۔

    تم ایک بار کہہ کر تو دیکھو ۔

    میں کہنا تو کچھ اور ہی چاہتا تھا پر کچھ سوچ کر میں نے بات بدل دی اور کہا

    میں : تمھاری بلبل پر کافی بال ہیں اور مجھے صاف ستھری بلبل چاہیے آئندہ اسے بالکل نیٹ اینڈ کلین ہونا چاہیے۔

    نوشابہ : اوہ سوری ویری سوری میری بلبل کے مالک ، میں نے تو سوچا ہی نہیں تھا کہ اتنا سب ہو جائے گا ورنہ میں اپنی راج کماری کو اسکے راجکمار کے لئیے بالکل تیار کرکے ہی آتی آئندہ شکایت کا موقع نہیں دوں گی میں اپنے شہزادے کو

    اب میں اپنی راجکماری کو ہر وقت اسکے راجکمار کے لئیے بنا سنوار کر رکھوں گی۔

    میں : پھر اب کیا پروگرام ہے اگر سونا نہیں ہے تو ایک راؤنڈ اور ہوجائے ۔

    نوشابہ : نہیں ،نہیں بس اب سوتے ہیں صبح اٹھنا بھی ہے ویسے بھی بہت تھکن ہوگئی ہے ۔ لو یو اینڈ گڈ نائٹ میرے شہزادے ۔

    میں : لو یو ٹووو اینڈ گڈ نائٹ ۔

    پھر میں اٹھا اور باتھ روم چلا گیا بنیان بن دھلے کپڑوں میں ڈالا ہاتھ وغیرہ دھوئے اور واپس آکر لیٹ گیا اور ابتک ہونے والے ایک ایک لمحے کو سوچتے سوچتے نہ جانے کب میں نیند کی گہری وادیوں میں اترتا چلا گیا ۔

    ہم دونوں چونکہ اناڑی تھے یعنی ہمارا پہلا چانس تھا اسے پہلے اس قسم کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا ہماری آپس میں بھی سیکس کے متعلق کبھی کوئی اس قسم کی بات چیت نہیں ہوئی تھی اس حساب سے ہمارا پہلی دفعہ کے سیکس کا تجربہ انتہائی کامیاب رہا تھا

    اور اس بات کا ثبوت ہماری نیند تھی ایسی زبردست نیند کہ صبح تک شاید کروٹ بدل کر بھی نہیں دیکھا پہلی ہی بار میں اتنا کچھ ہوجانے کی وجہ سے ہم بہت ایکسائٹڈ ہوگئے تھے۔

    صبح دیر سے آنکھ کھلی ،کالج سے چھٹیاں تھیں اس لئیے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔میں جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا تو آپی شفق (میرے چچا کی بڑی بیٹی) کی نظر مجھ پر پڑ گئی وہ فوراً بولی ، اٹھ گئے افسر صاحب ۔

    میں نے جواب دیا ، جی آپی اٹھ گیا ۔

    شفق آپی : اتنی دیر سے خیر تو ہے کیا رات کو سوئے نہیں تھے ۔

    میں نے جواب دیا : نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں بس ایسے ہی لیٹ اٹھا آنکھ ہی نہیں کھلی ۔

    شفق آپی : اچھا چلو اب جلدی سے فریش ہو جاؤ میں تمھارے لئے ناشتہ بنا دیتی ہوں تم ناشتہ کر لینا ۔

    میں : جی اچھا آپی میں فریش ہوکر آتا ہوں ۔

    یہ کہہ کر میں نہانے چلا گیا اس کے بعد ناشتہ کیا نوشابہ بھی وہیں گھوم رہی تھی مگر وہ نہ تو میری طرف دیکھ رہی تھی اور نا ہی مجھ سے نظریں ملا رہی تھی ۔ سارا دن اس کا رویہ ایسا ہی رہا وہ مجھ سے بہت شرماتی رہی اور میں نوشابہ کی ایسی حالت کو انجوائے کرتا رہا ۔

    رات کو کھانا کھانے کے بعد سب ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئے ٹی وی ہمارے کمرے میں ہی ہوتا تھا ۔ میں پروگرام دیکھ رہا تھا کہ مجھے لگا کوئی مجھے مسلسل دیکھ رہا ہے میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو نوشابہ اپنی پھوپھو (میری امی ) کی گود میں سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی اور مجھے دیکھ رہی تھی اسکی نظروں میں اس وقت میرے لئیے دنیا جہان کی محبت سمٹ آئی تھی میں خود کو اس وقت دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا اور مجھے خود پر رشک آرہا تھا کہ اتنی خوبصورت لڑکی مجھے اس قدر چاہتی ہے ۔ اب میں بھی اس کی طرف بار بار دیکھنے لگا ۔

    تبھی میرے موبائل پر ایک میسج رسیوو

    ہوا میں نے دیکھا تونوشابہ ہی کا میسج تھا ۔

    نوشابہ : میری طرف اس طرح بار بار کیوں دیکھ رہے ہو سب ہی یہاں بیٹھے ہیں اگر کسی نے دیکھ لیا یا کسی کو شک ہوگیا تو ؟؟؟؟

    میں : تو پھر تم کیوں دیکھ رہی ہو ؟ کیا تمھیں دیکھ کر کسی کو شک نہیں ہوگا ؟

    نوشابہ : میرے بھولے ساجن تم آگے بیٹھے ہوئے ہو اور ٹی وی بھی آگے ہی رکھا ہے جبکہ تم مڑ مڑ کر مجھے دیکھ رہے ہو ۔

    میں : ہاں جی جیسے سب سے زیادہ سیانی تو بس تم ہی ہو نا ۔

    نوشابہ : اچھا بس نا اب مجھے دیکھنے بھی دو اور تم نے بالکل نہیں دیکھنا ،

    ٹھیک ہے نا ۔

    میں : جو حکم میری شہزادی ، نہیں دیکھوں گا ۔ بس اب تو خوش ۔

    اس کے بعد نوشابہ مجھے مسلسل گھورتی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں نہارتی رہی 9 بج گئے اور ابو جان ہیڈلائن دیکھنے کے بعد ٹی وی کے آگے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور یہ ہمارے لئیے بھی ٹی وی بند کرکے سونے کا اشارہ تھا ابو کے جانے کے بعد میں اٹھ کر واش روم چلا گیا اور جب واپس آیا تو سب لیٹ چکے تھے نوشابہ آج بھی اسی جگہ پر لیٹی تھی میں اپنی چارپائی کے قریب آیا اور یہ کہہ کر کہ کل میرے اوپر کیڑیاں چڑھ آئیں تھیں چارپائی کو دیوار سے تھوڑا سا نوشابہ کی چارپائی کے قریب کرلیا ۔ فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے کل رات میرا ہاتھ تھک گیا تھا

    ایک بات جو میں نے نوٹ کی ہے شاید آپ بھی اس سے اتفاق کریں کہ جو لوگ زیادہ شرمیلے ہوتے ہیں جب ان کی شرم کھلتی ہے تو وہ اتنے ہی زیادہ بولڈ ہوجاتے ہیں اور یہی کچھ میرے اور نوشابہ کے معاملے میں بھی ہوا جب سے ہمارے درمیان شرم کا پردہ اٹھا تھا ہماری بولڈنس میں اضافی ہوگیا تھا اور اسی بولڈنس نے ہم سے کیا کیا کروا دیا وہ سب آپ کو آگے آگے معلوم ہو ہی جائے گا ۔بہرحال چارپائی آگے سرکانے کے بعد میں بھی لیٹ گیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا میسج آگیا ۔

    نوشابہ : جانو جی کیا بات ہے آج چارپائی اتنی قریب کیوں کرلی خیر تو ہے پروگرام کیا ہے ؟

    میں : جانو کی جان یہ سب تمھارے لئے ہی کیا ہے رات اتنے فاصلے کی وجہ سے ہاتھ تھک گیا تھا آج سوچا قریب سے اپنی شہزادی کو زیادہ مزے کراؤں گا ۔

    نوشابہ : اچھا جی تو یہ بات ہے ، لگتا ہے آج میرے شہزادے کے ارادے کچھ زیادہ نیک نہیں ہیں ۔

    میں : ہاں جی بس کچھ ایسا ہی ہے ، تم ایک بات تو بتاؤ ؟

    نوشابہ : پوچھ لو ، ہم نے کونسا منع کرنا ہے اپنے جانو کو ۔

    میں : دن میں ایسا کیا عذاب آگیا تھا کہ ایک بار بھی بات نہیں کی ۔ تمہیں پتہ ہے سارا دن کتنا تڑپتا رہا ہوں ۔

    نوشابہ : سچ بتاؤں ، رات جو کچھ بھی ہوا اسے سوچ سوچ کر مجھے تم سے بہت شرم آرہی تھی بس اسی وجہ سے تم سے بات نہ کر پائی ۔

    میں : واہ بھئی کیا بات ہے رات کو تو بڑے مزے کر رہی تھی اور دن میں شرم آگئی ، بہت خوب میری شہزادی بالکل ٹھیک جا رہی ہو ۔

    نوشابہ : رات کو کونسا تم نظر آرہے تھے اندھیرے میں جو کیا ، سو کیا پر روشنی میں تو اس بارے میں سوچ کر بھی شرم آتی ہے بلکہ میں تو تم سے شادی کے بعد بھی ایسے ہی شرماتی رہوں گی ۔

    میں : اچھا بھئی شرماتی رہو مجھے کیا ۔

    اچھا ایک بات تو بتاو ، میرا کام کیا ؟

    نوشابہ : کونسا کام ؟ (نوشابہ کو سمجھ آگیا تھا کہ میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں بس وہ مزے لینا چاہتی تھی)

    میں : ارے وہی کام جو رات کو بولا تھا ۔

    نوشابہ : مجھے سمجھ نہیں آرہا اور یاد بھی نہیں آرہا کہ تم نے کوئی کام بتایا تھا کھل کر بتاؤ نا ۔

    میں سمجھ گیا کہ نوشابہ چاہتی ہے کہ اس سے کھل جاؤں اور اس سے فل سیکسی الفاظ استعمال کروں لن اور پھدی جیسے الفاظ میں ایسا جادو ہے کہ جب ان کا استعمال کیا جائے تو اور طرح کا مزہ محسوس ہوتا ہے اور اگر یہ الفاظ آپکے محبوب کی زبان سے ادا ہورہے ہوں تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے لیکن میں ابھی نوشابہ کو ایکدم اس سٹیج پر لانا نہیں چاہتا تھا ۔

    میں : میری راجکماری کے بال صاف کئیے

    نوشابہ : تمھاری کب سے ہوگئی راجکماری تو میری ہے اوکے

    میں : تمھاری ہے نہیں بلکہ تمھاری تھی اب یہ میری ہو چکی ہے اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو راجکماری سے ہی پوچھ لو خود ہی بتادے گی کس کی ہے ۔

    نوشابہ : اسے تو تمھارا نشہ چڑھا ہوا ہے وہ تو تمھارا ہی کہے گی ۔

    میں : اچھا اب ٹھیک سے بتا بھی دو نا ۔نوشابہ : تم بھی ٹھیک سے پوچھو نا ۔

    نوشابہ چاہتی تھی کہ میں اسکی پھدی کا نام لے کر پوچھوں تو میں نے بھی کھلنے کا فیصلہ کرلیا ۔

    میں : اچھا بابا ، کیا تم نے پھدی کے بال صاف کر لئیے ہیں یا نہیں ۔

    نوشابہ : ہائے میری جان بالکل صاف ایک بھی بال نہیں بچا تمھارے لئے چمکا دی ہے میں نے تمھاری پھدی ۔

    میں : بہت خوب اس کا مطلب ہے آج تو اور بھی مزہ آنے والا ہے ۔

    نوشابہ : اچھا اب یہ بتاؤ میری للی کا کیا حال ہے ؟

    میں : للی نہیں ہے لن بولو اسے لن کہتے ہیں للی تو بچوں کی ہوتی ہے ۔

    نوشابہ : اتنی سی تو ہے پہلے اسے لن کہلانے کے قابل تو کر لو ہا ہا ہا ہا ۔

    میں اسکی بات سن کر شرمندہ سا ہوگیا لیکن بات جاری رکھتے ہوئے اس سے پوچھا ، تمھیں کتنا بڑا چاہیئے

    نوشابہ : بہت بڑا ، بہت بڑا

    میں : پھر بھی بتاؤ تو سہی کتنا بڑا لینا چاہتی ہو تم ۔

    نوشابہ : کم ازکم اتنا بڑا تو ہو جتنا کل رات تم نے میرے ہاتھ میں دیا تھا

    ہاہاہاہاہا میں تو مزاق کر رہی تھی میرا جانو مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگیا نا ۔

    میں : نہیں تم مجھے سچ بتاؤ کیا واقعی تمہیں میرا لن چھوٹا لگا ہے ۔

    نوشابہ : میں واقعی مزاق کر رہی تھی میں نے تو کل پہلی بار ہی دیکھا ہے اس سے پہلے تو صرف رضا اور منیر (نوشابہ کے چھوٹے بھائی) کے ہی دیکھے تھے وہ تو میری چھوٹی انگلی سے بھی چھوٹے ہیں اور تمھارا تو کافی بڑا ہے ۔

    میں : چلو ٹھیک ہے ۔

    مگر میرے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اب اس لن کا بھی کچھ کرنا پڑے گا اس کے بغیر بھی گزارہ مشکل ہے۔

    اس کے بعد ہمارا وہی کھیل دوبارہ شروع ہوگیا اور میں اس کے چہرے گردن اور مموں کو چھیڑ رہا تھا کہ نوشابہ نے آج پھر میرے بازو پر کچھ لکھنا شروع کردیا لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا جب بہت کوشش کے بعد بھی کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور اسے میسج کیا ۔

    میں : کیا ہوا نوشابہ کیا لکھ رہی ہو بازو پر مجھے سمجھ نہیں آرہا ۔ تم کل بھی کچھ لکھ رہی تھیں ۔

    نوشابہ : بس چھوڑو ، اب اس بات کو رہنے دو ۔

    میں : نہیں پہلے بتاؤ کیا لکھا تھا ؟

    نوشابہ : میں نے کل لکھا تھا کہ بس اوپر اوپر تک ہی رہنا ۔ نیچے کی طرف مت جانا ۔

    میں : اور آج کیا لکھا تھا ؟ اب بتا بھی دو کیوں ستا رہی ہو ۔

    نوشابہ : میں نے لکھا ہے ، وہ کام کریں ؟

    میں : میری جان کھل کر بتاؤ نا کیا کام کرنے کا کہہ رہی ہو ؟

    نوشابہ : تمہیں سب پتہ ہے مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو میرا بہت دل کر رہا ہے مگر میں کھل کر نہیں بتا سکتی مجھے شرم آتی ہے تم سمجھ جاؤ نا ۔

    میں : نہیں بھئی نام لے کر بتاؤ ، مجھے ایسے سمجھ نہیں آرہا ۔

    نوشابہ : تم بھی نا ۔۔۔۔۔۔

    میں : اب بتا بھی دو ، جلدی کرو ۔

    نوشابہ : ارسلان میں چاہتی ہوں آج رات سیکس کریں ؟

    میں : پتہ بھی ہے سیکس کیا ہوتا ہے کیسے ہوتا یا پھر ایسے ہی جو دل میں آیا کہہ دیا ؟

    نوشابہ : ہاں مجھے سب پتہ ہے میں نے سیکس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے ۔

    میں : تو پھر بتاؤ نا کیسے ہوتا ہے ؟

    نوشابہ : جب لن پھدی کے اندر جاتا ہے اسے سیکس کہتے ہیں ۔

    میں : اس کا مطلب ہے کہ اب تم میرا لن اپنی پھدی میں لینا چاہتی ہو ؟

    نوشابہ : ہاں میں نے لینا ہے ، اور ابھی لینا ہے ۔

    میں : پاگل ہوگئی ہو کیا تمھیں پتہ بھی ہے پہلی دفعہ کتنا درد ہوتا ہے آوزیں نکلتی ہیں اور خون بھی نکلتا ہے تم کیسے برداشت کرو گی وہ بھی بنا آواز نکالے

    نوشابہ : بس مجھے نہیں پتہ ، مجھے ابھی تمھارا لن اپنی پھدی میں لینا ہے میں اور کچھ نہیں سننا چاہتی ۔

    میں : میرے پاس تو کوئی کنڈوم وغیرہ بھی نہیں ہے اور اگر بچہ ہوگیا تو کیا کریں گے ، ضد مت کرو نوشابہ ۔

    نوشابہ : اگر بچہ ہوگیا تو ہم شادی کرلیں گے ۔

    میں : تم میری بات سمجھنے کی کوشش کرو نوشابہ ۔

    نوشابہ : نہیں ، بس میں نے کہہ دیا نا ابھی اور اسہی وقت ۔

    میں : یار تم میری مجبوری کو سمجھو امی اور مشال بھی یہیں ہیں ان کو پتہ چل جائے گا ۔

    نوشابہ : کچھ نہیں ہوتا ، بس میں نے آج ہی تمھارا لن لینا ہے ورنہ یاد رکھنا میں شادی تک تمہیں ہاتھ بھی لگانے نہیں دوں گی ۔

    میں : چلو پھر ٹھیک ہے ہم شادی کے بعد ہی سیکس کریں گے اب خوش ؟

    نوشابہ : تو پھر ٹھیک ہے تم میرے ساتھ زور زبردستی نہیں کرو گے اور نہ ہی مجھے مجبور کرو گے سیکس کے لئے ۔

    میں : ہاں مجھے منظور ہے (میں نے سوچا کہ بعد میں اسے کسی طریقے سے منا لوں گا ابھی تو جان چھڑا لوں مجھے امی اور مشال کے اٹھ جانے کا خوف تھا)

    نوشابہ : نہیں مجھے تمھاری بات پر بھروسہ نہیں ہے پہلے تم قسم کھاؤ ۔

    میں : تم تو پاگل ہوگئی ہو ایسی باتوں پر بھی کوئی قسم کھاتا ہے ؟ میں نے نہیں کھانی کوئی قسم ۔

    نوشابہ : اچھا تو پھر میں اپنے ابو کی قسم کھاتی ہوں کہ شادی کے بعد میں نے تمہیں سہاگ رات کو بھی نہیں کرنے دینا اگر تم آج نہیں کروگے تو ۔

    میں اب بری طرح سے پھنس گیا تھا مجھے پتہ ہے کہ نوشابہ اپنے ابو سے بہت محبت کرتی ہے اور وہ کبھی ان کے نام کی قسم نہیں توڑے گی اور جو کچھ کہہ رہی ہے ضرور کرے گی ۔

    میں : یار ایسا کیسے ہوسکتا ہے تم خود ہی سوچو یہ موقع نہیں ہے ہم پھنس جائیں گے ۔

    نوشابہ : مجھے کچھ نہیں پتہ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا اب اگر کرنے کا پروگرام ہو تو مجھے اٹھا لینا ورنہ

    گڈ نائٹ ۔

    مجھے اس پر غصّہ بھی بہت آرہا تھا اور اسکے بچپنے اور ضد پر پیار بھی آرہا تھا میں نے سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا اور اسے گڈ بائے بول کر میں بھی سوگیا ۔

    صبح اٹھے تو سب کچھ نارمل تھا نوشابہ کا موڈ بھی بالکل ٹھیک تھا اس کے کسی بھی عمل سے محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ رات ناراضگی میں سوئی تھی ، آج وہ میرے ساتھ بھی کھل کر باتیں کر رہی تھی جسے اور گھر والوں نے بھی نوٹ کیا ، میں سمجھا کہ شاید اسے رات والی اپنی بے جا ضد کا اندازہ ہو گیا ہے اور وہ سب کچھ بھول گئی ہے ۔سارا دن اسی طرح گزر گیا وہی معمول رہا اگلے دن نوشابہ نے واپس جانا تھا تو میں آج کی رات کو یادگار بنانا چاہتا تھا رات کو سب کے سونے کے بعد ہم نے پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی آج ہم پہلے کی نسبت زیادہ آزادی سے ایک دوسرے کے جسموں سے کھیل رہے تھے میں کافی دیر تک نوشابہ کے مموں سے کھیلتا رہا ۔آج میں نے اسکی شلوار بھی آدھی اتار رکھی تھی اور اسکی پھدی کو کافی دیر تک سہلاتا رہا آج اسکی پھدی پر ایک بھی بال نہیں تھا اتنی نرم و ملائم پھدی دیکھ کر میں اپنا کنٹرول کھو رہا تھا بہرحال میں نے اسے اچھے سے مزے دیے اور اس کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا ۔ میں نے ایسے ہی چھیڑنے کے لئے نوشابہ سے کہہ دیا کہ آج سیکس کرتے ہیں اس پر وہ بگڑ گئی اور بولی اب تم اس بارے میں سوچنا بھی مت میں نے اپنے ابو کی قسم کھائی ہے جو میں کبھی بھی نہیں توڑوں گی ۔ ہاتھ سے جو چاہے کرلو یا کروالو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔

    میں بولا نوشابہ تم بہت ضدی ہو تو کہنے لگی ایسی ہی ہوں میں ۔

    اس کے بعد اس نے بھی میرے ساتھ پورا پورا انصاف کیا مجھے بہت مزے کروائے

    وہ بہت پیار سے میرے لن کو سہلا رہی تھی اور میری مٹھ مار رہی تھی کچھ ہی دیر بعد میں بھی فارغ ہو گیا اور اس کے بعد ہم دونوں سو گئے۔

    اگلے دن کیونکہ نوشابہ کو اپنے گھر جانا تھا اس لئیے میں بھی جلدی ہی اٹھ گیا تھا ۔اس سے جدائی کی وجہ سے میں بہت اداس ہوگیا تھا ۔ میرا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر نوشابہ بھی غم زدہ ہوگئی تھی

    مگر کیا کرسکتے تھے اسے آخر اپنے گھر جانا تو تھا ہی اگر ایک دو دن بعد بھی جاتی تو اس کے بعد بھی اداسی تو ہونی ہی تھی اس نے جاتے وقت دوبارہ آنے اور ملنے کے وعدے کئیے اور اپنے گھر چلی گئی ۔

    نوشابہ کے جانے کے بعد تو میرا حال ہی عجیب ہو گیا تھا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا مجھے رہ رہ کر وہ تین راتیں یاد آتیں رہیں جو ہم دونوں نے انجوائے کرتے ہوئے گزاری تھیں ۔ نہ گھر کے اندر آرام تھا اور نہ ہی باہر سکون تھا ۔

    بالآخر میں باہر نکلا اور اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا ، انھوں نے مجھے دیکھتے ہی اچھی اچھی گالیوں سے میرا استقبال کیا ۔ کیونکہ پورے تین دن میں گھر سے باہر ہی نہیں نکلا تھا نہ ہی گیم پر گیا اور نہ ہی کسی دوست سے ملاقات کی تھی ۔

    شام تک میں دوستوں کے ساتھ باہر ہی رہا ۔ شام کو گھر واپس آیا کھانا وغیرہ کھایا پھر ٹی وی دیکھنے کے بعد سونے کے لئیے لیٹ گیا لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی بےچینی سے کروٹیں بدلتا رہا مجھے بار بار وہ گزرے ہوئے حسین لمحات یاد آتے رہے اور تڑپاتے رہے

    آخر کار تھک ہار کر میں نے موبائل اٹھایا اور نوشابہ کو میسج لکھنے لگا ۔

    میں : اسلام و علیکم میری جان ۔

    تھوڑی ہی دیر میں نوشابہ کا جواب آگیا

    نوشابہ : وعلیکم اسلام ، میرے دل کی دھڑکن ۔

    میں : باتیں تو خوب بناتی ہو ، اور واپس جا کر مجھے بھول ہی گئی ہو ، نہ کوئی میسج نا ہی کوئی کال ۔ تمہیں پتہ ہے تمھارے بغیر میرا کیا حال ہو گیا ہے؟

    نوشابہ : ناراض ہو میرے جانو ؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں بھول جاؤں اسی لمحے مر نا جاؤں گی ۔

    تین دن کے بعد گھر آئی ہوں ساری سیٹنگ وغیرہ کرنی پڑی اس لیے ذرا مصروف تھی بس ابھی تمہیں میسج کرنے ہی والی تھی ۔

    میں : نوشابہ میری جان ، سمجھ نہیں آرہا تم نے کیسا جادو کردیا مجھ پر تمھارے بغیر تو میرا دل بالکل بھی نہیں لگ رہا سارا دن بوریت میں گزرا ہے اور اب رات کو بھی نیند کا نام و نشان نہیں، تم بہت یاد آرہی ہو

    نوشابہ : تمھارا کیا خیال ہے میں یہاں پر بہت خوش ہوں ؟ میرا بھی یہی حال ہے

    میرا دل تو چاہتا ہے کہ اڑ کر تمھارے پاس آجاؤں ۔

    میں : تو آجاؤ نا کس نے روکا ہے تمھیں؟

    نوشابہ : اچھا جی ، تو یہ بتاؤ اگر میں تمھارے پاس ابھی آجاتی ہوں تو تم میرے ساتھ کروگے کیا ؟

    میں : تم ایک بار آؤ تو سہی پھر میں تمھارے ساتھ وہ کروں گا جو اس رات نہیں کیا تھا ۔

    نوشابہ : وہ کیا ؟

    اب نوشابہ مستی میں آرہی تھی اور میرے منہ سے کھلے الفاظ سننا چاہ رہی تھی۔ میں بھی کھل گیا اور کہا ۔

    میں : تمھاری پھدی میں اپنا لن ڈال دوں گا ۔

    نوشابہ : بھول جاؤ اب تو ، تمہیں ڈالنے ہی کون دے گا اپنی پھدی میں لن ۔ اس وقت موقع دیا تو تھا ڈال دیتے اب تو دس بارہ سال میری پھدی میں لن ڈالنے کا بس خواب ہی دیکھو ۔

    میں : بڑی آئی خواب دکھانے والی ۔ ایک بار میرے ہاتھ آجاؤ پھر دیکھنا کیسے ٹھوکتا ہوں تمھارے اندر اپنا لن ۔

    نوشابہ : ہوں تم ٹھوکو گے میرے اندر ، پتہ ہے مجھے تم کتنے پانی میں ہو ، جب لڑکی اپنے منہ سے کہہ رہی تھی اس وقت تو کر کچھ نہ سکے اب زبردستی کیا خاک کر پاؤ گے ۔

    میں : ہاں اب تو تم بول سکتی ہو اگر اس وقت وہاں امی اور مشال نہ ہوتیں تو لگ پتہ جاتا جب تمھارے اندر جاتا اور تم رو رو کر کہہ رہی ہوتیں بس کرو درد ہو رہا ہے ، پلیز ارسلان باہر نکالو ہائے میں مر گئی ۔

    نوشابہ : اتنی سی للی کے دم پر اتنی بڑی بڑی باتیں کر رہے ہو اسکا تو پتہ بھی نہیں چلنا درد تو دور کی بات ہے ، ہاہاہاہاہاہا ۔

    مجھے اس کی بات سے پھر شرمندگی سی محسوس ہوئی ، میں نے سوچا کہ اب تو ہر حال میں صبح ہی کسی سے مشورہ کرکے اس لن کا کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا ۔ میں نے بات آگے بڑھائی اور کہا ۔

    ابھی اندر نہیں گیا اسی لیے بہت اچھل رہی ہو جب اندر جائے گا تو خود ہی بتا دے گا کہ للی ہے یا لن ہے تم ایک بار ڈالنے تو دو ۔

    نوشابہ : میرے شہزادے دیکھ لوں گی تم کو بھی ، کتنے پانی میں ہو ، تم کسی صورت میرا مقابلہ نہیں کر پاؤ گے ۔

    میں : پھر تم بھی یاد رکھنا میری شہزادی اب مجھے جب بھی موقع ملا میں نے ایک ہی جھٹکے میں اپنا پورا لن تمھاری پھدی میں ڈال دینا ہے ۔

    نوشابہ : ڈال سکو تو ڈال دینا میں بھی دیکھوں گی کیسے ڈالتے ہو ۔

    میں : یاد رکھنا ، تم مجھے چیلنج کر رہی ہو بہت پچھتاؤ گی ۔

    نوشابہ : دیکھ لیں گے کون پچھتاتا ہے۔

    میں : اچھا اب یہ بتاؤ کہ میں کیا کروں ؟

    نوشابہ : کیا مطلب ، کیا ہوا ؟

    میں : ادھر یہ تمھارے راجکمار جی (لن) کب سے کھڑے ہیں اب اسے بٹھانے کا بھی کوئی بندوبست کرو نا ۔

    نوشابہ : میں کیا کرسکتی ہوں مجھے تو تمھاری راجکماری (پھدی) نے بہت پریشان کیا ہوا ہے جب سے آئی ہوں اس نے رو رو کر برا حال کرلیا ہے جب بھی تہاری یاد آتی ہے یہ رونا شروع ہو جاتی ہے رو رو کر شلوار گیلی کر دیتی ہے اور کہتی ہے مجھے ارسلان کے پاس جانا ہے ۔

    میں : تو لے آؤ نا میرے پاس میری بلبل کو کیوں رلا رہی ہو بیچاری کو ، کچھ تو ترس کھاؤ ان بیچاروں پر ۔

    نوشابہ : میں نے کب منع کیا ہے لے آؤ بارات اور لے جاؤ مجھے بھی اور اپنی بلبل کوبھی ۔

    میں : واہ ، تمہیں کیوں لے جاؤں ، میں تو بس اپنی راجکماری کو ہی لے جاؤں گا اور تم دیکھتی رہ جانا ۔

    نوشابہ : نا بابا ایسا ظلم مت کرنا مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے جانا میں کبھی بھی تمھارے اور تمھاری راجکماری کے بیچ میں نہیں آؤں گی تمھارا جو دل چاہے وہ کرنا۔

    میں : اچھا ٹھیک ہے سوچتے ہیں کچھ تمھارے بارے میں بھی ۔

    اسی طرح کافی دیر تک ہم دونوں سیکسی باتیں کرتے رہے بہت ٹائم گزر گیا اور باتیں کرتے کرتے نا جانے کب مجھے نیند آگئی ۔ صبح آنکھ کھلی تو دیکھا موبائل پر نوشابہ کے کافی زیادہ میسج آئے ہوئے تھے اور میرے جواب نہ دینے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا ، میں نے اسے بتایا کہ رات کو مجھے جانے کب نیند آگئی اور میں اس کے میسج کا جواب ہی نہ دے سکا ۔ اور اسی وقت مجھے رات کی وہ للی والی بات بھی یاد آگئی تو میں نے جلدی سے ناشتہ کیا اور تیار ہوکر باہر نکل آیا ۔

    میرا ایک بچپن کا دوست ہے محسن ، ہم دونوں بہت گہرے دوست ہیں اور ایک دوسرے سے ہر بات شئیر کرتے ہیں اسکا لن بھی بہت چھوٹا تھا ، میرے والے سے بھی ، ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ وہ شہر کے کسی ڈاکٹر سے علاج کروا رہا ہے تاکہ اسکا لن بڑا ہوسکے ۔ اسکے بعد ہماری اس ٹاپک پر کبھی بات چیت نہیں ہوسکی تھی اب میں محسن کے پاس ہی جا رہا تھا تاکہ اس سے پتہ کر سکوں اسکے علاج کا کیا بنا اسکا لن بڑا ہوا یا نہیں ۔

    میں نے اسکے گھر کے قریب پہنچ کر اسے فون کیا ۔ کافی دیر بعد اس نے فون اٹھایا کیونکہ وہ ابھی تک سویا ہوا تھا

    میں نے کہا یار محسن کتنی دیر سے تجھے کالیں کر رہا ہوں اٹھا کیوں نہیں رہا تھا ۔ اس پر محسن صاحب فرماتے ہیں ، بھوسڑی کے ساری رات تو معشوق نہیں سونے دیتی اور صبح صبح تو آگیا گانڈ مارنے کو اب بندہ اپنی نیند بھی پوری نہ کرے کیا ۔

    میں نے کہا اب تو اٹھ گیا ہے نا جلدی سے باہر آ مجھے تجھ سے ضروری کام ہے ۔محسن نے جواب دیا تو اپنے ضروری کام کو تھوڑی دیر کے لئے روک کر رکھ پہلے میں اپنا ضروری کام کر لوں پھر پانچ منٹ تک آتا ہوں ۔

    میں نے اسے اوکے کہا اور اسکا انتظار کرنے لگا ۔

    کچھ دیر بعد محسن آگیا اور آتے ہی بولا کیا ہوگیا پیچھے سیلاب آرہا ہے کہ اتنی افراتفری میں آئے ہو ۔

    میں بولا ، ایسا ہی سمجھ لو ، تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے اور کچھ معلومات چاہیے۔

    محسن سیریس ہوگیا اور پوچھا ہاں بول کیا بات ہے ۔

    میں نے کہا یار ایک بار تم نے بتایا تھا کہ تم کسی شہر کے ڈاکٹر سے علاج کروا رہے ہو اسکا کیا بنا ؟

    محسن : یار ارسلان پہیلیاں نہ بجھوا اور کھل کر بتا کس علاج کی بات کر رہا ہے ۔

    میں بولا بے وہ تیرے چھوٹے لن کو بڑا کرنے کے علاج کی بات کر رہا ہوں ۔

    محسن ہنسنے لگا اور بولا کیوں کیا ہوا کہیں تجھے بڑے لن لینے کا شوق تو نہیں ہوگیا ۔

    میں نے غصے سے کہا ، مذاق کی بات نہیں ہے میں بہت پریشان ہوں تم بس میری بات کا جواب دو ۔محسن : کیا ہوا میرے شہزادے بڑا پریشان نظر آرہا ہے ، کیا تجھے بھی اپنا لن بڑا کروانا ہے ۔

    میں : یار پہلے اپنا تو بتا کیا ہوا ؟

    محسن : یار تجھے پتہ ہی ہے پہلے میرا لن تیرے والے سے بھی چھوٹا اور پتلا تھا

    اور میں اسکی وجہ سے کتنا پریشان رہتا تھا میں نے تجھے اپنے علاج کے بارے میں بھی بتایا تھا ۔ تم یقین نہیں کرو گے اب میرا لن پورے تین انچ بڑھ گیا ہے اور اور پہلے سے زیادہ موٹا بھی ہوگیا ہے ۔

    میں : ناکر یار سچ بتا ، کیا تو یہ سچ کہ رہا ہے ۔

    محسن : ابے تجھے یقین نہیں آرہا تو شلوار کھول کر دکھا دوں کیا ؟

    میں : اب تو دیکھنا ہی پڑے گا مجھے تمھاری بات پر بالکل بھی یقین نہیں ہے تمھارا تو میرے والے سے بھی انچ ڈیڑھ انچ چھوٹا تھا اور اب تم کہہ رہے ہو کہ تین انچ بڑھ گیا یعنی اب تو میرے لن سے بھی بڑا ہوگیا ہے

    محسن : چل بیٹھک میں بیٹھتے ہیں تجھے سب بتا اور دکھا دیتا ہوں ۔

    یہ کہہ کر وہ مجھے اپنی بیٹھک میں لے گیا اور جب اس نے مجھے اپنا لن نکال کر دکھایا تو میں حیران رہ گیا ۔

    تقریباً سات یا ساڑھے سات انچ لمبا اور ڈھائی انچ کے قریب موٹا ، جبکہ پہلے اسکا لن میرے سامنے للی ہی لگتا تھا ۔

    محسن شلوار واپس باندھتے ہوئے ، ہاں اب تو مجھے ساری سٹوری بتا کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ تجھے صبح صبح میرے پاس اس مقصد کے لئے آنا پڑا ۔

    میں نے کہا یونہی بس میں بھی اپنا بڑا کروانا چاہتا ہوں ۔

    اس پر محسن بولا ، ہاں ہم تو ساری زندگی گھاس ہی چرتے رہے ہیں تو نے کہا اور میں نے مان لیا ۔ اب سب کچھ سچ سچ بتا ۔

    اس کے اصرار پر مجھے اسے ساری کہانی بتانی پڑی کیونکہ اس کے اور میرے درمیان کوئی پردہ نہیں تھا اس لئے مجھے بلیک میلنگ کا کوئی ڈر نہیں تھا ۔

    میری کہانی سننے کے بعد وہ زور زور سے ہنسنے لگا اور بولا میں نا کہتا تھا اس کا علاج کرواؤ ورنہ کوئی لونڈیا نا پٹا سکو گے ، اب اگر ایک بدقسمت پھنس ہی گئی ہے تو اسے اپنی للی سے بھگا مت دینا ۔

    میں بولا اب مجھے بتاؤ میرا علاج کیسے ہوگا مجھے کیا کرنا ہوگا ؟

    محسن بولا پریشان مت ہو میں ابھی فون کرکے پتہ کرتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر اپنے کلینک پر بیٹھا بھی ہے یا نہیں ۔ اس کے بعد دونوں شہر چلتے ہیں ۔

    پھر وہ کچھ دیر فون پر باتیں کرتا رہا اسکے بعد مجھ سے بولا چلو اٹھو وہ ڈاکٹر اپنے کلینک پر ہی ملے گا ۔

    محسن نے اپنا موٹر سائیکل نکالا اور مجھے ساتھ بٹھا کر شہر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ کچھ ہی دیر میں ہم علی پور پہنچ گئے وہاں محسن نے اپنی بائیک ایک ڈینٹل کلینک کے سامنے کھڑی کر دی اور مجھے ساتھ آنے کو کہا

    میں نے پوچھا ، ابے لن ٹھیک کروانا ہے دانت نہیں نکلوانا ۔

    محسن ہنس پڑا اور بولا سوال مت کر بس دیکھتا جا ۔ میں چپ چاپ اسکے ساتھ کلینک کے اندر چلا گیا وہاں چند ہی مریض تھے اپنی باری آنے پر ہم ڈاکٹر کے پاس پہنچے ۔ ڈاکٹر نے محسن کو پہچان لیا اور پوچھا سناؤ کیسا چل رہا ہے ، تو محسن نے جواب دیا چل کہاں رہا ہے دوڑ رہا ہے اور دونوں ہنسنے لگے ۔

    پھر ہم نے ڈاکٹر کو اپنا مسئلہ بتایا تو ڈاکٹر نے مجھے کورس کے متعلق بتایا کہ دو ماہ کا کورس ہے اور اس سے تمھارا لن کم از کم تین انچ تو لمبا ہو ہی جائے گا اور موٹائی بھی بڑھے گی ایک کیپسول صبح اور ایک شام کو کھانا تھا اور اس کے علاؤہ مالش کے لئیے تیل بھی دیا تھا جسے وہ طلحہ کہہ رہا تھا پرہیز میں دو ماہ تک سیکس کی ممانعت اور مٹھ بھی نہیں مارنی تھی ۔

    اس سے دو ماہ کا کورس لے کر ہم اپنے گاؤں واپس آگئے محسن نے مجھے میرے گھر پر ہی اتار دیا ، میں نے محسن کا شکریہ ادا کیا اور گھر چلا گیا ۔

    میں نے اسی روز سے کورس شروع کردیا اس دوران میں نوشابہ سے بھی روز ہی بات ہوتی تھی لیکن میں نے اسے اپنے علاج کے بارے میں بالکل بھی نہیں بتایا تھا ۔ ہم اب بہت زیادہ سیکسی چیٹ کرتے تھے میرا دل بہت کرتا تھا کہ نوشابہ کے ساتھ سیکس کروں لیکن اب وہ ضد پکڑے بیٹھی تھی کہ شادی سے پہلے اندر نہیں لے گی ورنہ اسکی قسم ٹوٹ جائے گی ۔ بس اسی طرح وقت گزرتا گیا اور میں اپنے لن کی خدمت میں لگا رہا دو مہینے گزر گئے ۔ ڈاکٹر نے بالکل سچ کہا تھا میرا لن ان دو ماہ میں لن کے بجائے ناگ بن چکا تھا ساڑھے آٹھ انچ سے بھی زیادہ لمبا اور تین انچ کے قریب موٹا ہوگیا تھا اور سختی اتنی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ پھٹ جائے گا ۔

    میں نے اس کے بارے میں نوشابہ کو کچھ نہیں بتایا میرا پروگرام اس کو سرپرائز دینے کا تھا ۔

    ایک رات نوشابہ سے باتیں کرنے کے بعد سویا تو خواب میں بھی محترمہ تشریف لے آئیں اور میں نے خواب میں ہی نوشابہ کو جم کر چودا اور اسی دوران میں مجھے احتلام بھی ہوگیا ۔

    اگلے دن جب میری نوشابہ سے بات ہوئی تو میں نے اسے بتایا کہ تم رات میرے خواب میں آئیں تھیں اور میں نے تمھاری پھدی میں اپنا پورا لن گھسا دیا اور تمہیں چودتے ہوئے مجھے احتلام بھی ہو گیا ۔

    یہ سن کر نوشابہ ہنسنے لگی اور بولی ، میں نے تمہیں کہا تو تھا کہ اب مجھے چودنے کے خواب دیکھو، اور تم نے دیکھنے بھی شروع کردیے ۔ اب جب تک شادی نہیں ہوتی مجھے خواب میں ہی چودتے رہو ، حقیقت میں شادی سے پہلے سوچنا بھی مت ۔

    پھر پوچھنے لگی ، اچھا بتاؤ تو سہی تم نے خواب میں کیا کچھ کیا ، کیسے ماری تھی میری پھدی ، اور مجھے راضی کیسے کیا تھا ۔

    میں نے کہا ابھی بتانے میں مزہ نہیں آئے گا رات کا انتظار کرو رات کو ہی بتاؤں گا کیسے ماری ہے تمھاری پھدی ۔ نوشابہ نے بہت ضد کی کہ ابھی بتاؤ لیکن میں نہ مانا اور اسے رات کا انتظار کرنے کو کہا ۔

    رات ہوتے ہی نوشابہ کا میسج آگیا ، سارا دن ایسے ہی ٹرخاتے ٹرخاتے گزار دیا اب تو بتا دو ارسلان کیوں ستاتے ہو ۔

    میں : اف توبہ کتنی بے تاب ہے میری جان اپنی پھدی مروانے کے لئے ۔

    نوشابہ : پھدی مروانے کو بیتاب نہیں ہوں بلکہ تمھارا خواب سننے کے لئے بیتاب ہوں پتہ تو چلے تمہیں کچھ کرنا بھی آتا ہے یا بس ایویں ہی ڈینگیں مارتے رہتے ہو ۔

    میں نے زیادہ چھیڑنا مناسب نہ سمجھا اور سیدھا خواب پر آگیا

    میں : دوپہر کا وقت تھا جب میں تمھارے گھر میں داخل ہوا اسوقت سبھی لوگ آرام کر رہے تھے بس ممانی (نوشابہ کی امی) ہی اٹھی ہوئی تھیں انھوں نے مجھے پانی وغیرہ پلایا اور بیٹھک میں جاکر آرام کرنے کو کہا ، میں آرام کرنے بیٹھک کی طرف چلا گیا وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری جان نوشابہ پہلے سے ہی پلنگ پر سوئی ہوئی ہے یقین کرو تم سوئی ہوئی بالکل پری لگ رہی تھیں ۔تمھاری زلفیں بکھری ہوئیں تھیں اور کھلے گلے کی قمیض سے تمھارے ممے اور ان کے درمیان کی لکیر نظر آرہی تھی

    نوشابہ : اچھا ، پھر کیا ہو؟

    میں: پہلے تو میں نے سوچا کہ واپس چلا جاتا ہوں لیکن پھر میرا ارادہ بدل گیا اور میں نے سوچا اتنے عرصے بعد تو موقع ملا ہے ایسے ہی واپس چلا گیا تو مزہ نہیں آئے گا یہ سوچ کر میں آگے بڑھا اور تمھارے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا اور تمھارے ممے بڑے پیار سے دیکھنے لگا ۔

    پھر کیا ہوا ؟ نوشابہ نے پوچھا ۔

    میں : اس کے بعد میں نے تمھارے ماتھے، آنکھوں ، گالوں اور ہونٹوں پر کس کرنے لگا اور تمھارے ممے دبانے لگا ، ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ مجھے لگا جیسے تم بھی جاگ چکی ہو ، میں نے تمھاری طرف دیکھا تو تم میری ہی طرف بڑی محبت سے دیکھ رہیں تھیں پھر تم نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور مجھے خود سے لپٹا لیا اور میرے ہونٹ چوسنے شروع کردیے

    نوشابہ : آگے بولو نا پھر کیا ہوا ؟

    میں : میرے دونوں ہاتھ تمھارے مموں پر تھے اور میں انھیں بڑے پیار سے دبا رہا تھا پھر میں نے تمھاری گردن اور مموں کے درمیان والی لکیر پر اپنی زبان پھیرنی شروع کردی

    نوشابہ : اف ، اچھا پھر ؟

    میں : میں کپڑوں کے اوپر سے ہی تمھارے ممے چوسنے لگا تو تم نے میرا سر پکڑ کر اوپر کیا اور اپنے دونوں بازو اوپر کردیے ۔ میں سمجھ گیا کہ تم کیا کہنا چاہتی ہو میں نے تمھاری قمیض نیچے سے پکڑی اور اوپر کی طرف اٹھانی شروع کردی پہلے تمھارا پیٹ ننگا ہوا ، اف کیا زبردست لگ رہا تھا

    نوشابہ : آگے بولو ۔

    میں : اس کے بعد تمھاری کالے رنگ کی بریزر اور پھر میں نے تمھاری قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی اور تمھارے ممے دبانے لگا تم مدہوش ہو رہیں تھیں اسکے بعد تم نے میری قمیض اتارنے کا اشارہ کیا اور میں نے اسے بھی اتار دیا اور پھر تمھاری بریزر بھی اتار دی

    نوشابہ فل جذبات میں آگئی تھی کہنے لگی اب آگے بھی بولو نا ۔

    میں : تمھارے ممے چھوٹے چھوٹے سے بالکل دودھ کی طرح سفید تھے اور ان پر گلابی رنگ کے چھوٹے چھوٹے نپل غضب ڈھا رہے تھے ۔

    میں دیوانوں کی طرح تمھارے ممے چوسنے لگا اور نپلز پر زبان پھیرنے لگا اور تم آہ آہ آہ اففففف ارسلان اور زور سے چوسو میرے ممے کھا جاو میرے ممے بول کر مجھے اور زیادہ بھڑکا رہیں تھیں ۔

    نوشابہ : میں ایسا کہہ رہی تھی ہائے ارسلان آگے بولو نا ۔

    میں : تمھارے ممے چوستے چوستے میں نیچے آیا اور تمھارے پیٹ پر زبان پھیرنے لگا اور تم مچلنے لگیں تم نے دونوں ہاتھ میرے سر پر رکھ دیے اور اسے نیچے کی طرف دبانے لگی میں سمجھ گیا کہ تم کیا چاہتی ہو ۔

    نوشابہ : کیا سمجھ گئے ، میں کیا کروانا چاہتی تھی ؟ بتاو نا ۔

    میں : تم اپنی پھدی پر بھی اسی طرح زبان پھروانا چاہتی تھیں لیکن میں یہ کام کرنا نہیں چاہتا تھا

    نوشابہ : تم نے مجھے اتنا گندہ سمجھا ہوا ہے میں بھلا کیوں ایسا چاہوں گی ۔

    میں : میری شہزادی یہ خواب سنا رہا ہوں اور خواب میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔

    نوشابہ : چلو چھوڑو بھی آگے سناو بڑا مزہ آرہا ہے ۔

    میں : میں کھڑا ہوگیا اور تمھاری پھدی پر شلوار کے اوپر سے ہی ہاتھ پھیرنے لگا تمھاری پھدی نے خوب پانی چھوڑا ہوا تھا اور شلوار گیلی ہوگئی تھی میرا لن بھی فل گرم ہو کر جھٹکے کھا رہا تھا تم نے بھی اپنا ہاتھ میرے لن کے اوپر رکھ دیا اور سہلانے لگیں.

    اب ہم دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ اور زبان چوس رہے تھے اور ساتھ ہی تم میرے لن کو سہلا رہی تھیں اور میں تمھاری پھدی کو ۔

    نوشابہ : آگے بھی کچھ کیا یا بس یہی کرتے رہے

    میں : اس کے بعد تم نے میرا ازاربند کھینچ دیا تو میں نے بھی تمھاری شلوار نیچے کھینچ دی تم اب صرف پینٹی میں تھی۔ اور تمھاری نظریں میر ے انڈر ویر میں ابھرے ہوئے لن کے اوپر تھیں ہم دونوں ایک دوسرے کے جسم دیکھ دیکھ کر مدہوش ہو رہے تھے میں جلد از جلد تمھاری پھدی دیکھنا چاہتا تھا ۔

    نوشابہ : آہ میرے جانی جو رہ گیا ہے اسے بھی جلدی سے اتار دو نا ۔

    میں : پھر میں نے تمہیں اوپر اٹھایا اب ہم دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے میں نے اپنا ہاتھ پینٹی کے اوپر سے تمھاری پھدی کے اوپر رکھ دیا اور تمھارا ہاتھ اپنے لنڈ کے اوپر رکھ دیا تم میرا لن سہلانے لگیں اور میں تمھاری پھدی پر ہاتھ پھیر رہا تھا ہم دونوں ہی مزے میں ڈوبے ہوئے تھے

    نوشابہ : افففففف پھرررررر اس کے بعد ؟

    میں : پھر تم نے میرا انڈر وئیر اتار کر میرا بالکل ننگا لنڈ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میں نے بھی تمھاری پینٹی اتار دی اور تمھاری پھدی پر ہاتھ رکھ دیا ۔

    اب میرا لن تمھارے ہاتھ میں تھا اور تمھاری ننگی پھدی پر میں ہاتھ پھیر رہا تھا تمھاری چھوٹی سی پھدی اپنے ہی پانی سے چمک رہی تھی

    نوشابہ : یہ بات تو بالکل سچ ہے میری پھدی ہے تو چھوٹی سی ہی ، اچھا آگے کیا ہوا ۔

    میں : میں نے تمہیں پلنگ پر لیٹا دیا اور خود تمھاری ٹانگوں کے بیچ میں بیٹھ گیا اور تمھاری پھدی پر ہاتھ رکھ دیا تو تم بولیں اب سارا کام ہاتھ سے ہی کرو گے یا اپنا لن بھی اس میں ڈالو گے ۔ میں نے جھٹ سے تکیہ اٹھایا اور تمھاری گانڈ کے نیچے رکھا اور تمھاری ٹانگوں کو کھول دیا اب تمھاری پھدی بالکل میرے لنڈ کے سامنے تھی تم نے میرا لن اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اپنی پھدی پر رگڑنے لگی اور جیسے ہی میرا لن تمھاری پھدی کو ٹچ ہوا تمھارا سارا وجود ایک بار کانپ سا گیا اور تم آہ آہ آہ اففففف اففففف کی آوازیں نکالنے لگیں میرا اور میرے لن کا بھی برا حال تھا میں نے تمھاری ٹانگیں اٹھا دیں ۔

    نوشابہ : اففففففف ہاۓےےےےےے پھرررررر جلدی بولو نا کیا ہوا ۔

    میں : تمھاری آنکھوں میں سیکس کا نشہ تو تھا ہی مگر ہلکا ہلکا سا خوف بھی تھا ۔ پھر میں نے تمھاری پانی چھوڑتی ہوئی چوت کے اوپر اپنا لنڈ رکھ کر ہلکا سا دھکا لگایا تو لنڈ پھدی کے اوپر سے سلپ ہوگیا کیونکہ تمھاری پھدی بہت ٹائٹ تھی اور ساتھ ہی تمھاری سسکی کی آواز بھی آئی تم نے پوچھا ،

    ارسلان میری چھوٹی سی پھدی میں تمھارا اتنا بڑا لن چلا تو جائے گا نا ۔

    نوشابہ : جا اوئے میں کبھی بھی ایسا نہیں کہہ سکتی ، میں کوئی ڈرتی ہوں تمھاری للی سے ۔

    میں : یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا کہ للی ہے یا للا ہے ۔

    نوشابہ : اچھا جی وقت تو آنے دو پھر اسے بھی دیکھ ہی لیں گے ابھی تو آگے بتاو پھر کیا ہو ؟

    میں: میں بولا تم فکر نہ کرو چلا جائے گا بس تھوڑا درد برداشت کرنا پڑے گا تو تم بولیں تمھارے لئے درد تو کیا موت بھی قبول ہے میری جان بس اب دیر مت کرو اور پیل دو اپنا لنڈ میری پیاسی چوت میں ۔

    میں نے تھوڑا سا تھوک اپنے لن پر لگایا اور اسے دوبارا تمھاری پھدی پر سیٹ کرکے قدرے زور دار جھٹکا مارا تو پچک کی آواز کی ساتھ لن ٹوپے تک پھدی کے اندر گھس گیا اس کے ساتھ ہی تمھاری چینخ نکل گئی میں وہیں رک گیا

    نوشابہ : آہ اففففف ظالم پھر کیا ہوا ؟

    میں : کچھ دیر لن کو وہیں رہنے دیا اور تمھارے ممے اور ہونٹ چوسنے لگا۔

    اور آرام آرام سے لنڈ کو تمھاری پھدی میں ہلانے لگا ۔

    تمھاری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے میں نے پوچھا نوشابہ کیا بہت درد ہو رہا ہے تو تم نے ہاں میں سر ہلا دیا ، میں بولا اگر ایسا ہے تو میں واپس نکال لیتا ہوں تم نے کہا اب اندر ڈالنے کی کرو آج میں نے تمھارا پورا لن اپنی پھدی میں لینا ہے اب کچھ بھی ہو جائے تم نے رکنا نہیں ہے اگر زیادہ دیر کرو گے تو سب اٹھ جائیں گے اور پھر موقع نہیں ملنا ۔

    میں آہستہ آہستہ اپنا لن تمھاری پھدی کے اندر کرنے لگا ابھی کوئی ڈیڑھ انچ ہی گیا ہوگا کہ مجھے آگے کوئی رکاوٹ محسوس ہوئی اور میں وہیں رک گیا ۔

    نوشابہ : ابے یار رکنا نہیں تھا ایک ہی جھٹکے میں پورا لن گھسا دینا تھا ۔

    میں : مجھے پتہ چل گیا تھا کہ یہ تمھاری سیل ہے اسہی لیے میں چند لمحے وہیں رک گیا ۔ پھر میں نے تمھارے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں سختی سے دبا لیا اور اپنے لن کو تھوڑا سا پیچھے کھینچا اور ایک زور دار جھٹکا مارا تو میرا لن تمھاری پھدی کی سیل توڑتا ہو تین انچ تک اندر گھس گیا اور اس کے ساتھ ہی تمھارے جسم نے ایک زور دار جھٹکا کھایا اور تم بری طرح سے بستر پر اچھل پڑیں مگر تمھاری منہ سے کوئی آواز نہ نکل سکی کیونکہ میں نے اپنے ہونٹوں سے تمھارا منہ بند کیا ہوا تھا مگر تمھارا جسم بری طرح تڑپ رہا تھا ۔

    مگر میں رکا نہیں اس کے فوراً بعد میں نے ایک زوردار جھٹکا اور مارا اور میرا پور لن تمھاری پھدی میں سما چکا تھا اور میرے ٹٹے تمھاری گانڈ کو جا لگے تھے ، میرا پورا لن تمھاری پھدی میں فٹ ہوچکا تھا ۔

    تم ایک بار پھر سے اچھلی اور خود کو مجھ سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی

    مگر میں نے تمھیں سختی سے پکڑا ہوا تھا

    نوشابہ : ہائے میں مر جاؤں ، اتنا ظلم وہ بھی میری چھوٹی سی ،پیاری سی پھدی پر ، اچھا پھر آگے کیا ہوا ؟

    میں : میں لن کو جڑ تک تمھاری پھدی میں گھسا کر رک گیا اور تمھارے ہونٹ چوسنے لگا اور ساتھ ہی دونوں ہاتھوں سے تمھارے ممے بھی دبانے لگا جس کی وجہ سے تمھارا دھیان اپنی پھدی کے درد سے ہٹ گیا اور تم تھوڑی ہی دیر بعد نارمل ہوچکی تھیں ۔

    نوشابہ : واہ بھئی واہ کیا بات ہے دھیان تو خوب ہٹایا اچھا آگے کیا ہوا ؟

    میں : درد کم ہوتے ہی میں نے دھیرے سے تمھارے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹا لیے

    تمھاری آنکھوں سے اب بھی آنسو بہہ رہے تھے ہونٹ آزاد ہوتے ہی تم بولیں ، اف توبہ اتنا درد ، ارسلان تم نے تو آج مجھے مار ہی ڈالا تھا ابھی تک مجھے اپنی چوت میں جلن محسوس ہورہی ہے تم بس اسے میری پھدی سے باہر نکالو میں باز آئی ایسی چدائی سے جس نے میری پھدی ہی پھاڑ ڈالی ۔

    میں : میری جان اتنا درد برداشت کر چکی ہو اب مزے لینے کا ٹائم ہے تو کہہ رہی ہو باہر نکالو ، ہوچکا جو درد ہونا تھا

    میرا یقین کرو اب کوئی درد نہیں ہوگا تم اپنے ارسلان پر یقین رکھو ، اب تو مزے ہی مزے ہیں ۔ میں ساتھ ساتھ تمھارے ممے بھی دبا رہا تھا اب تمھارا چہرہ ریلیکس نظر آرہا تھا تو میں نے تھوڑا سا لن باہر نکالا ، تمھارے منہ سے سسسسی کی آواز نکلی اور میں نے دوبارا لن واپس گھسا دیا ۔

    نوشابہ : آاآآاآاآاآاہ افففففف پھر کیا ہوا؟

    میں : جب لن باہر آتا اور واپس تمھاری پھدی میں جاتا تو تمھارے منہ سے سسسسییییی اور آہہہہہہہ کی آوازیں نکل رہیں تھیں ۔ تم جیسے جیسے ریلیکس ہوتی گئی تم نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کردیا اب تمہیں بھی لن لینے میں مزہ آرہا تھا اور تم بھی میرے دھکوں کے ساتھ گانڈ اٹھا اٹھا کر مزے لے رہیں تھیں ۔ مجھے بھی اندازہ ہوچکا تھا اب تمہیں درد نہیں ہو رہا بلکہ مزہ آرہا ہے تو میں نے بھی اپنے دھکوں کی سپیڈ بڑھا دی ، تمھارے منہ سے مزے کی وجہ سسکیاں نکل رہی تھی اور تم نے مستی میں بڑبڑانا شروع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔ہاں ارسلان ایسے ہی کرو آآآآآآآآآہ مزہ آرہا ہے اففففففف اوہ ہاں ایسے ہی کرتے رہو تم نے بہت درد دیا ہے اب مجھے اس سے زیدہ مزہ دو اور تیز آآآآآاہ اور تیز ، بہت ظالم ہو تم نے میری چھوٹی سی پھدی پھاڑ کر رکھ دی اففففف اور تیز مارو بہت مزہ آرہا ہے بس ایسے ہی کرتے رہو ۔

    تم ایسے ہی جذبات میں بولتی جارہی تھیں اور تمھارے جملوں سے میرا جوش بڑھتا جارہا تھا اب میرے دھکوں کی سپیڈ بہت بڑھ چکی تھی میں لن کو ٹوپی تک تمھاری پھدی سے باہر نکلتا اور پھر جڑ تک گھسا دیتا ، ہم دونوں ہی خود کو مزے کے سمندر میں تیرتا ہوا محسوس کر رہے تھے جہاں صرف اور صرف مزہ تھا اور کچھ نہیں ، میں دھکے پہ دھکا لگارہا تھا ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ اچانک تمھارا جسم اکڑنے لگا اور تم بولیں ، ارسلان اور تیز آآآآآاہ اب رکنا مت مجھے کچھ ہو رہا ہے آآآآآآہہہہہہ آہ اور تیز ، میرے اندر سے کچھ نکلنے والا ہے ااااااففففففف اور تیز اور تیز پھاڑ دو میری پھدی کو آآآآآآآآہ اور اسکے ساتھ ہی تم نے دونوں ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ لیں اور اور مجھے اپنے آپ سے چمٹا لیا تمھارا جسم جھٹکے کھانے لگا ۔ مجھے اپنے لن پر کچھ گرم گرم بہتا ہوا محسوس ہوا تم فارغ ہوچکی تھیں اور اب تم نے اپنا جسم بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا تھا ۔

    میں نے پھر سے جھٹکے مارنے شروع کردیے اور فل سپیڈ سے لن کو اندر باہر کرنے لگا مجھے بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اب میرا بھی ٹوکن ٹائم شروع ہو چکا ہے ۔

    نوشابہ : میرے خوابوں کے ٹھوکو اب ہو بھی جاو فارغ اور کتنا چودو گے۔

    میں : فارغ ہونے کی وجہ سے اب تمھاری پھدی خوب چکنی ہوچکی تھی اور میرا لن روانی سے اندر باہر ہو رہا تھا مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سارا خون لن کی طرف اکھٹا ہو رہا ہے ، میرے دھکے اب طوفانی صورت اختیار کرگئے تھے میں جذبات میں بلکل پاگل ہوگیا تھا ہر دھکے کے ساتھ مزے میں اضافہ ہو رہا تھا اور یکایک میں نے ایک زوردار جھٹکا لگایا اور جڑ تک لن تمھاری پھدی میں گھسا کر وہیں رک گیا اور تمھاری پھدی کے اندر ہی فارغ ہونے لگا ، اور جیسے ہی ۔۔۔۔

    نوشابہ : جیسے ہی کیا ؟ کیا ہوا بتاو نا ۔

    میں : جیسے ہی فارغ ہوا میری آنکھ کھل گئی اور میرے لن سی نکلنے والی منی سے میری شلوار بھر چکی تھی ۔

    مجھے بڑا افسوس ہوا کہ یہ سب خواب میں ہو رہا تھا تمھاری پھدی نہ کھولنے کے دکھ نے خواب کے سارے مزے کو مٹی میں ملا دیا ۔

    نوشابہ : اوہ ، کتنے افسوس کی بات ہے میرا جانو میری پھدی مارنے کے بس خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔

    میں : اگر تم چاہو تو یہ سب حقیقت میں بھی ہوسکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ مزہ آئے گا خواہ مخواہ اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہو مان جاو نا میری شہزادی ایک بار کروا کر تو دیکھو کتنا مزہ آئے گا ۔

    نوشابہ : تمھیں کیا لگتا ہے صرف تم ہی اس آگ میں جل رہے ہو کیا میرا دل نہیں چاہتا کہ تمھارا لن اپنی پھدی میں محسوس کروں ؟ میں تم سے بھی زیادہ تڑپ رہی ہوں اگر اس دن تم میری بات مان لیتے تو میں غصے میں اپنے ابو کی قسم کبھی نہ کھاتی اور آج ہم دونوں ہی مزے کر رہے ہوتے اس طرح ترس نہ رہے ہوتے ۔

    میں : یار ایک قسم ہی تو ہے بندہ جذبات میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے ۔ کچھ نہیں ہوگا تم ایک بار مان جاو ہم کفارہ ادا کردیں گے ۔

    نوشابہ : نہیں ارسلان میں ایسا نہیں کرسکتی ۔ ذرا سوچو کہ میں قسم توڑ دیتی ہوں اور پاپا کو کچھ ہو جاتا ہے تو کیا میں ساری زندگی خود کو معاف کر پاوں گی پلیز ارسلان مجھے یہ سب کرنے پر فورس مت کرو ۔

    میں : یار تم تو بہت دور تک چلی گئی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ میں اب پھدی کے بغیر نہیں رہ سکتا بھول جاو جو تم نے غصے کہا تھا ، مجھے اب تمھاری پھدی چاہیے اور ہر حال میں چاہیے ۔

    نوشابہ : میری زندگی چاہتی تو میں بھی یہی ہوں لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی ۔

    ارسلان پلیز مجھے مجبور مت کرو ، تھوڑا خود پر کنٹرول کرلو ،تمہیں پتہ ہے میں بہت مجبور ہوگئی ہوں ۔

    میں : اگر ایسی ہی بات ہے نوشابہ تو میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا لیکن تم بھی جانتی ہو کہ اب میں پھدی مارے بغیر رہ نہیں سکتا تو اسکا بس ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ تم مجھے کسی اور کی پھدی دلوا دو اور اس طرح تمھاری قسم بھی نہیں ٹوٹے گی اور میری پھدی مارنے کی آرزو بھی پوری ہو جائے گی ۔

    نوشابہ : یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ میں تمہیں کس کی پھدی دلا سکتی ہوں ؟ ارسلان میں ایسا کیسے کروں گی ؟

    میں : تمھاری مرضی نوشابہ اگر تم ایسا نہیں کرسکتیں تو مجبوراً مجھے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بازاری عورتوں کے پاس جانا پڑے گا اور تم تو جانتی ہو کہ ان عورتوں میں بہت سی بیماریاں ہوتی ہیں جو مرد کو لگ سکتیں ہیں اور وہ مر بھی سکتا ہے اب فیصلہ تمھیں کرنا ہے کہ تم میرے لیے کچھ کروگی یا پھر اپنی جان کو بیماریوں سے مرتا دیکھو گی ۔

    میں جانتا تھا کہ نوشابہ کسی صورت نہیں مانے گی اور میں بھی نوشابہ کے علاوہ کسی اور کو چودنا نہیں چاہتا تھا ۔کیونکہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اور میرے مرنے کے ذکر پر جذباتی ہو جائے گی بس ایک یہی طریقہ تھا جس سے میں نوشابہ کو شادی سے پہلے چود سکتا تھا اسی لیے میں نے نوشابہ کو اس طرح بلیک میل کرنے کا سوچا تھا لیکن مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اسی بناء پر آگے کیا کچھ ہونے والا تھا ۔

    نوشابہ : ارسلان تم ایسا کچھ نہیں کرو گے تمھیں میری قسم ہے تم تھوڑا صبر کرلو کیا تم میرے لیے اتنا بھی نہیں کرسکتے ۔

    میں : نہیں نوشابہ اب مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا مجھے تمھاری پھدی میں اپنا لن ڈالنا ہے اگر نہیں تو تم میرے لیے پھدی کا انتظام کروگی ورنہ مجھے مجبوراَ بازار کا رخ کرنا ہی پڑے گا ۔

    نوشابہ : تم نے مجھے یہ کس امتحان میں ڈال دیا اب میں تمھارے لیے کہاں پھدی ڈھونڈتی پھروں گی ارسلان مان جاو نا میرے شہزادے یہ ضد چھوڑ دو۔

    میں : تم اگر کچھ نہیں کرسکتی تو نہ کرو اب جو کرنا ہے میں خود کچھ کرلوں گا اب میں مروں یا جیوں تمہیں اس سے مطلب نہیں ہونا چاہئے ، بڑے بڑے دعوے کرتی تھی محبت کے اور ایک چھوٹا سا کام تو کر نہیں سکتیں ۔

    نوشابہ : ارسلان ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو ؟ تم جانتے ہو میں تمھیں خود سے بھی زیادہ چاہتی ہوں میرے دعوے جھوٹ نہیں ہیں ، لیکن مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا میں کیا کروں ۔

    میں : بس وہی پیار کرتی ہوں ، پیار کرتی ہوں اتنا سا کام تو تم سے ہوتا نہیں ہے پھر ایسی چاہت کا کیا کروں ؟

    نوشابہ : ٹھیک ہے اب جیسے تم چاہو میں وہی کروں گی بتاو کس کی پھدی لینی ہے ؟

    میں : خوش ہوتے ہوئے ، اپنی شہزادی کی لینی ہے ۔

    نوشابہ : نہیں ، میرے علاوہ بتاؤ کس کی لینا چاہتے ہو پورے خاندان میں جس پر بھی ہاتھ رکھ دو گے میں پوری طرح تمھارا ساتھ دوں گی مگر تمہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ تم کوئی بھی ایسی ویسی حرکت نہیں کروگے اور جب تک میں کامیاب نہیں ہو جاتی صبر کرو گے۔

    میں سوچ میں پڑ گیا یہ کیا ہوگیا میں تو اس طریقے سے نوشابہ کو لائن پر لانا چاہت تھا یہ کہانی تو کسی اور ہی طرف جارہی ہے میں نے تو کبھی نوشابہ کے علاوہ کسی کو بھی ایسی نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا میں سوچنے لگا اب اس بلا کو کس کا نام بتاؤں ،

    نوشابہ : اب بتا بھی دو چپ کیوں ہوگئے ہو میں انتظار کر رہی ہوں ۔

    میں : مجھے بس تمھاری ہی لینی ہے اور کسی کی نہیں ۔ ایک بار تم ہاں بول دو پلیز ۔

    نوشابہ : میں نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا ہے میرے علاوہ ، بس اب جلدی سے نام بتاو ؟

    میں : تو پھر ٹھیک ہے میں پہلے سوچ لوں اس کے بعد تمہیں نام بتادوں گا لیکن وعدہ کرو کہ جس کا بھی کہوں گا تم اس کی لے کر دو گی ضرور ۔

    نوشابہ : میں وعدہ نہیں کرتی لیکن اپنے اب کی قسم کھاتی ہوں میں پوری کوشش کروں گی تمہیں اس لڑکی کے پھدی دلانے کی خواہ وہ کوئی بھی ہو۔

    میں : تو ٹھیک ہے میری جان میں کچھ دن تک تمہیں سوچ کر اس لڑکی کا نام بتاتا ہوں جس کی پھدی مجھے لینی ہے ۔

    نوشابہ : تو پھر ٹھیک ہے میں بھی انتظار کروں گی میرا راجکمار (لن) کس کی پھدی میں جاتا ہے ۔

    اس کے بعد کچھ دیر ہماری روٹین کی باتیں ہوتی رہیں رات گہری ہو چکی تھی اس لیے ہم دونوں سو گئے۔


    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

    Comment


    • #3
      سچ پوچھو تو میں بری طرح سے پھنس گیا تھا کیونکہ میں صرف نوشابہ سے تعلق رکھنا چاہتا تھا ،

      یہ سارا ڈرامہ صرف اس لیے کیا تھا کہ نوشابہ مجبور ہو کر ہاں بول دے لیکن اس نے بازی الٹ دی تھی ۔

      میں ایک شرمیلا سا لڑکا ہوں میں نے آج تک خاندان میں کسی لڑکی تے تعلقات بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی کو ایسی نظر سے دیکھا تھا

      اب میں سوچ یہ رہا تھا کہ نوشابہ کو کسی ایسی لڑکی کا نام بتاؤں جس کی دلوانا نوشابہ کے لیے ناممکن ہو اور آخر وہ خود اپنی دینے کو مجبور ہو جائے ۔

      اسی کشمکش میں تین دن گزر چکے تھے

      اور میں اب تک کسی کا بھی نام چننے میں ناکام رہا تھا ۔ خاندن میں لڑکیوں کی تو کوئی کمی نہیں تھی لیکن میرا ایک امیج بنا ہوا تھا سب جانتے تھے کہ ارسلان ایک نہایت ہی شریف اور شرمیلا لڑکا ہے میں اس بارے میں بھی سوچ رہا تھا کہ ایسا کرنے سے میرا نام بھی خراب ہو سکتا ہے ۔

      ان تینوں دنوں میں نوشابہ روز مجھ سے نام پوچھتی اور میں سوچ رہا ہوں کہہ کر ٹال دیتا تھا ۔مجھے تو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ کس کا نام بتانا ہے۔

      اگلے روز ممانی (نوشابہ کی امی)کا فون آگیا انھوں نے مجھے بلایا تھا کہیں جانے کے لیے ۔ ماموں سعودیہ ہوتے تھے اسلیے جب بھی ممانی کو کوئی کام ہوتا تو وہ مجھے ہی بلا لیتی تھیں ۔

      میں نے امی کو بتایا اور نوشابہ کے گھر کی طرف چلا گیا ۔

      وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ ماہ رخ اور سائمہ کو اپنی خالہ کے گھر جانا تھا ممانی بولیں ارسلان بیٹا ان دونوں کو چھوڑ آؤ وہ دونوں تیار ہوگئیں اور جب ہم روانہ ہونے لگے تو ریحان (نوشابہ کا چھوٹا بھائی) ضد کرکے کھڑا ہوگیا کہ اس نے بھی جانا ہے سب نے اسے سمجھایا مگر وہ نہیں مانا آخر نوشابہ نے اسے بھی تیار کردیا ۔

      میں نے ریحان کو ٹینکی پر بٹھا لیا

      ماہ رخ میرے پیچھے بیٹھی تھی اور سائمہ اس کے پیچھے چھوٹی سی موٹر سائیکل تھی ہنڈا 70 اور سواریاں 4 ، بس کسی طرح سے گھس کر بیٹھ گئے۔

      ماہ رخ بہت کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح اس کے بوبز مجھے ٹچ نا ہوں مگر اتنی تنگ جگہ میں وہ بری طرح ناکام ہو رہی تھی اس کے ممے میری کمر سے فل ٹکے ہوئے تھے ۔ راستہ بھی خراب تھا دھکے بہت تھے بریکیں بھی بار بار لگانی پڑ رہی تھیں جس کی وجہ سے

      ماہ رخ کے ممے میری کمر سے فل رگڑ کھارہے تھے ، میں بھی آخر مرد ہی ہوں کب تک برداشت کرتا آخر میں بھی گرم ہو گیا اور مہ رخ کے مموں کا لمس انجوائے کرنے لگا ۔ میرا لن کھڑا ہو گی تھا میں نے موٹر سائیکل کی رفتار بھی کم کردی تاکہ زیادہ سے زیادہ ماہ رخ کے ممے انجوائے کر سکوں ۔

      بالآخر ہم ان کی خالہ کے گھر پہنچ گئے میں نے انھیں وہیں اتارا اور بولا کہ میں کل تمھیں لینے آجاؤں گا اور وہیں سے واپس مڑنے لگا میں ان کی خالہ کے گھر جانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میرا لن فل کھڑا ہوا تھا اور اس وقت چھوٹی قمیض کا فیشن چلا ہوا تھا میں نے بھی وہی پہنی ہوئی تھی پتہ نہیں کیا سوچ کر

      ماہ رخ واپس مڑی اور بولی ارسلان بھائی آپ خالہ سے مل کر جانا ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گی ۔ میں نے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مانی تو مجبوراََ مجھے ماننا پڑا میں بولا تم چلو میں دو منٹ میں آتا ہوں ۔

      میں نے سوچا پہلے لن بیٹھ جائے پھر اندر جاؤں گا مگر میری کوشش کی باوجود میرا لن بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا میں نے کچھ سوچا اور اپنی شلوار میں ہاتھ ڈال کر ازاربند کے نیچے سیٹ کردیا اور اندر جانے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھا تو مجھے جھٹکا لگا کیونکہ ماہ رخ دروازے کے پیچھے سے سر نکال کر مجھے ہی دیکھ رہی تھی

      اس نے میری شلوار میں ابھرا ہوا تمبو بھی دیکھ لیا تھا اور مجھے لن نیفے کے نیچے سیٹ کرتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا

      جیسے ہی اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ پایا وہ ہنسنے لگی اور ہنستے ہوئے اندر چلی گئی

      اور میں بھی کھسیانا سا ہوکر اندر کی طرف بڑھا ، میں تھوڑی دیر ہی وہاں بیٹھا مگر جتنی دیر ادھر بیٹھا رہا

      ماہ رخ میری طرف دیکھ دیکھ کر ایسے مسکراتی رہی جیسے اس نے میری کوئی چوری پکڑ لی ہو ۔

      میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد اگلے دن شام کو آنے کا کہہ کر واپسی کے لیے نکل پڑا ۔

      شام کو میری نوشابہ کے ساتھ موبائل پر گپ شپ ہورہی تھی کہ ایسے میں

      ماہ رخ کا میسج آگیا ۔

      ماہ رخ : اسلام و علیکم ۔

      میں: وعلیکم اسلام ۔

      ماہ رخ : اور سناؤ کزن ، اب کیسے ہو ،ہی ہی ہی ہی

      میں : کیوں بھئی مجھے کیا ہوا ہے اور یہ دانت کس خوشی میں نکل رہے ہیں جناب ۔

      ماہ رخ : بس ایسے ہی ، مگر آپ ٹھیک لگ تو نہیں رہے تھے جب ہمیں چھوڑنے آئے تھے ۔

      میں : مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا میں تو بالکل ٹھیک ہوں تمھیں ایسا کیوں لگا ۔ ضرور تمھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔

      ماہ رخ : پیارے کزن مجھے خود ہی پتہ چل گیا اچھا چھوڑو ، یہ بتاؤ اندر کیوں نہیں آرہے تھے ؟

      میں : آیا تو تھا اور کیسے آتے ہیں

      ماہ رخ : وہ تو میں نے اتنا زور دیا تبھی آئے تھے اور وہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔

      میں : لو پھر شروع ہوگئی ،یا تو تم بات کر لو یا ہی ہی ہی کرلو ، پتہ نہیں آج تمھیں ہو کیا گیا ہے ۔

      ماہ رخ : اچھا جناب اب نہیں کروں گی ،

      اب بتاؤ نا کیوں نہیں آرہے تھے گھر کے اندر ۔

      میں : میری شیطان کزن ، ایسی کوئی بات نہیں میں صرف جلدی میں تھا اس لیے اندر نہیں آرہا تھا تم جانے کیا سمجھیں ،بس یہی بات تھی ۔

      ماہ رخ : اچھا کل ہمیں لینے آرہے ہو نا ؟ میں : ہاں میں نے تمہیں کہا تو تھا کل شام تک آجاؤں گا ۔

      ماہ رخ : کل پھر ہمیں پہنچانے کے بعد اسی طرح ہمارے گھر بھی نہیں آؤ گے

      میں : ہاں ہو بھی سکتا ہے کہ نا آسکوں ۔

      ماہ رخ : پریشان مت ہونا میں بائیک پر پیچھے بیٹھ جاؤں گی پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ہی ہی ہی ہی ہی ۔

      میں سوچ میں پڑ گیا ارے یار یہ کیا معاملہ ہوگیا یہ تو ڈائریکٹ فل ٹاس کرا رہی ہے کیوں نا چھکا مار دیا جائے ۔

      میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا : کیا مطلب تم کہنا کیا چاہتی ہو تم آگے بیٹھو یا پیچھے بیٹھو مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔

      ماہ رخ :۔۔ہاں جی مجھے سب پتہ ہے ویسے کزن جی اس وقت چھپایا کیا جارہا تھا ، ہی ہی ہی ہی ہی ۔

      میں نے سوچا جب یہ اتنا بڑھ رہی ہے تو مجھے بھی اس کی بولتی بند کرنے کے لیے کچھ بڑھنا ہی پڑے گا ۔

      میں :۔۔اوہ اسکی بات کر رہی ہو ، وہ تو میری ایک پرسنل چیز تھی اچھا ہوا میں نے اسے چھپا لیا ورنہ اگر تم اسے دیکھ لیتی تو ہوسکتا ہے ہفتہ بھر شاید تمہیں نیند ہی نہ آتی ۔

      ماہ رخ :۔۔ او ہو ایسا بھی کیا ہے تمھارے پاس جس سے میری نیند ہی اڑ جائے گی۔

      میں :۔۔ بس کچھ ہے ایسا ہی اور شکر کرو کہ میں نے چھپالیا ورنہ تم ڈر جاتیں اسے دیکھ کر ۔

      ماہ رخ :۔۔ اب میں اتنی چھوٹی بچی بھی نہیں ہوں جو اتنی اتنی سی چیزوں سے ڈر جاؤں ۔

      میں :۔۔ کزن جی بس دعا کرو کہ کبھی تمھی وہ چیز دیکھنی نا پڑ جائے ورنہ۔۔۔۔

      ماہ رخ :۔۔ ورنہ کیا ؟؟؟؟؟؟ اب تو دیکھنا ہی پڑے گا ایسا تمھارے پاس ہے کیا ۔

      میں :۔۔دیکھ لیتے ہیں اب وقت کس کس کو اور کیا کیا دکھاتا ہے میری پیار کزن ۔

      ماہ رخ :۔۔ اب وقت دکھائے گا تو دیکھنا ہی پڑے گا کزن جی ۔

      میں : تو پھر ٹھیک ہے کل ملاقات ہوگی ۔

      ماہ رخ :۔۔اوکے کزن جی کل ملتے ہیں

      پھر بائے۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      یہاں میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ ماہ رخ سے موبائل پر یہ میری پہلی بر چیٹنگ نہیں ہو رہی تھی اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے ، لیکن صرف کزن کی حیثیت سے حال احوال پوچھ لینا یا کوئی کام ہو تو اس کے بارے میں مگر آج جس ٹائپ کی باتیں ہوئیں وہ پہلی بار تھیں شاید ہم دونوں کے جسموں کے لمس نے کام دکھایا تھا یعنی صرف میں ہی اس کے جسم سے گرم نہیں ہوا تھا وہ بھی میری کمر سے اپنے ممے رگڑ رگڑ کر سارا رستہ انجوائے کرتی رہی تھی شاید ایک دوسرے کے جسموں کا نشہ تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      ماہ رخ سے بات کرنے کے بعد میرے خیالات بدل رہے تھے اب میرا دل چاہ رہا تھا کہ کیوں نہ نوشابہ کو بول دوں کہ مجھے تمھاری بہن ماہ رخ کی پھدی چاہیے مگر اس کے لیے پہلے تو مجھے

      ماہ رخ کو اور ٹٹولنا ہوگا کہ وہ مزید آگے بڑھتی ہے یا صرف مجھے تنگ کر رہی تھی ، اور دوسری طرف نوشابہ کو بھی مزید پکا کرنا تھا کہیں اپنی چھوٹی بہن کا نام سن کر بنا بنایا کھیل ہی نہ بگاڑ دے اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ کچھ دن انتظار کرلیا جائے اور بہتر بھی یہی تھا کیونکہ گرم گرم کھانے سے اکثر منہ جل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      اگلے روز کوئی 4 بجے کے قریب میں اپنے گھر سے ماہ رخ کی خالہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا ، جاتے وقت میں نے انھیں فون کردیا تھا تاکہ وہ تیار ہو جائیں اور مجھے انتظار نہ کرنا پڑے ۔

      جب میں وہاں پہنچا تو وہ سب تیار ہی بیٹھے تھے ، ان کی خالہ نے مجھے بٹھا لیا اور بولیں تم کل بھی جلدی میں چلے گئے تھے آج تو بیٹھو کچھ کھا پی کر جانا میں نے بہت کوشش کی مگر وہ نا مانی تو مجھے بیٹھنا پڑا خاطر مدارت کروانے کے بعد ہم روانگی کے لیے تیار تھے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      میں نے آج بھی شلوار قمیض ہی پہن رکھی تھی مگر آج شلوار کے نیچے

      انڈر وئیر بھی پہنا ہوا تھا اس لیے میں آج فل موڈ میں تھا اور چاہتا تھا کہ سارے راست کل سے زیادہ مزے کتا ہوا جاوں تو میں نے ماہ رخ سے کہا آج بھی میرے پیچھے تم ہی بیٹھو گی ۔

      ماہ رخ کو یہ بات بول کر میں باہر آگیا اور ریحان کو میں نے گود میں بٹھا لیا ماہ رخ اور سائمہ بھی آچکی تھیں میں اب ان کے بیٹھنے کا انتظار کر رہا تھا اور سائمہ ماہ رخ کے بیٹھنے کا انتظار کر رہی تھی ، ماہ رخ نے میری طرف دیکھا تھوڑا سا مسکرائی اور سائمہ سے بولی تم آگے بیٹھ جاو مجھے پیچھے بیٹھنا ہے یہ کہہ کر میری طرف دیکھا اور ہنسنے لگی جیسے مجھے چڑا رہی ہو اور میرا غصے سے برا حال تھا میں تو بہت کچھ سوچ کر آیا تھا اور یہ تو کھڑے لن پر دھوکے والی بات ہوگئی تھی ۔

      میں نے ماہ رخ کو غصے سے دیکھا وہ میری طرف ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کے ٹو سر کر لیا ہو اسکا انداز مجھے چھیڑنے والا تھا میں نے اپنا منہ آگے کی طرف کرلیا اور پھر پیچھے نہیں دیکھا ۔

      میں شروع سے ایسا ہی ہوں بہت جلد ہر کسی پر اپنا حق جما لیتا ہوں اس بات پر اب بھی سب میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ حق تو ایسے جماتا ہے جیسے اس کے بغیر ہمارا کھانا ہی ہضم نہیں ہوگا ۔

      میرے پیچھے سائمہ بیٹھ گئی تھی اور اس کے بعد ماہ رخ بیٹھ گئی ۔

      سائمہ کے ممے اس وقت کافی چھوٹے تھے اور کچھ میں غصے میں بھرا بیٹھا تھا اس لیے مجھے بالکل مزہ نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کچھ ہی دور گئے ہونگے کہ سائمہ بولی ۔۔۔۔۔۔ ارسلان بھائی بائیک روکو ، میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا ۔۔۔وہ بولی ماہ رخ کہہ رہی ہے مجھے آگے بیٹھنا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا اور بائیک چلاتا رہا ۔۔۔۔۔۔سائمہ نے پھر سے کہا تو میں بولا اس سے کہو کہ چپ کرکے وہیں پر بیٹھی رہے اسکے بعد اس نے دو تین بار مزید کوشش کی مگر میں نہیں مانا اور گھر پہنچ گئے وہاں پہنچ کر بھی میں نے اسکی طرف نہیں دیکھا ۔۔۔وہ سمجھ گئی کہ میں اس سے ناراض ہوں ۔۔۔۔۔ گھر کے اندر جانے کے بعد ممانی نے مجھے بٹھا لیا کھانے کا ٹائم ہو گیا تھا ہم سب نے کھانا کھایا اور اس کے بعد میں واپس اپنے گھر جانے کے لئے اٹھنے لگا تو ممانی نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔ ارسلان کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔میں بولا ممانی گھر جارہا ہوں ۔۔۔۔ وہ بولیں ٹائم بہت ہوگیا ہے اب گھر جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔میں بولا ممانی جان 10 منٹ کا تو راستہ ہے اور ابھی اتنی دیر بھی نہیں ہوئی ۔۔۔لیکن ممانی نہیں مانی اور کہا کہ میں نے تمھاری امی سے بات کر لی ہے کہ رات کو تم ہماری طرف ہی رہو گے ۔۔۔ ویسے بھی مجھے کل شہر دوائی لینے جانا ہے اور کچھ خریداری بھی کرنی ہے اس کے بعد تم اپنے گھر چلے جانا ۔۔۔۔

      اب میں کچھ نہیں کرسکتا تھا میرا موڈ بالکل بھی نہیں تھا کہ رات کو ان کی طرف رہوں کیونکہ میرا غصہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا مگر اب مجبوری تھی ۔۔۔۔

      ماہ رخ اب بھی میری طرف دیکھ رہی تھی مگر اب اسکا چہرہ میری ناراضگی کی وجہ سے اترا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

      البتہ نوشابہ میرے رات رکنے کا سن کر بہت خوش لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ سب کھانا کھا چکے تو ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئے ۔۔۔۔

      میں اٹھا اور نوشابہ سے پوچھا کہ مجھے کہاں سونا ہے نوشابہ نے بتایا کہ بیٹھک میں تو میں بیٹھک کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔

      ممانی نے مجھے جات دیکھا تو پوچھا ۔۔

      ارسلان کہاں جارہے ہو ۔۔۔ میں بولا سونے جا رہا ہوں ممانی ۔۔۔۔۔وہ بولیں ابھی سے سونے جارہے ہو بیٹھو ٹی وی دیکھو پھر سوجانا ۔۔۔۔۔ میں نے کہا ممانی میری طبیعت کچھ خراب سی لگ رہی ہے سوؤں گا تو ٹھیک ہو جائے گی یہ کہ کر میں بیٹھک میں چلا گیا ۔۔۔۔۔۔مجھے بیٹھک میں آئے ابھی 5 منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ ماہ رخ کا میسج آگیا ۔۔۔

      ماہ رخ : ۔۔ ارسلان کیا ہوا ؟؟؟؟؟؟؟

      میں: ۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔۔

      ماہ رخ : ۔۔ نہیں کچھ تو ہوا ہے تم مجھ سے ناراض ہو ؟؟؟؟؟

      میں: ۔۔ میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگا تم سے ۔۔۔۔۔

      ماہ رخ : ۔۔ اگر ناراض نہیں ہو تو مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہے ہو ؟؟؟؟؟

      میں : ۔۔۔ کر تو رہا ہوں بات ۔ ۔۔ اور کیسے کرتے ہیں ؟؟

      ماہ رخ : ۔۔ یار میں نے تو صرف مذاق ہی کیا تھا اور تم سچ مچ کے ناراض ہوگئے۔۔

      میں : ۔۔ میں کیوں ہونے لگا تم سے ناراض

      اب اگر تمھارا دل نہیں کر رہا تھا میرے پیچھے بیٹھنے کو تو تم نہیں بیٹھیں اب اسکے لیے میں بھلا تم سے ناراض کیوں ہونے لگا ۔۔۔۔۔

      ماہ رخ : ۔۔ ارسلان میں صرف تمہیں تنگ کر رہی تھی بعد میں کتنی بار بولا آگے آنے کو مگر تم مانے ہی نہیں ۔۔۔۔

      میں : ۔۔ ہاں میں تو اتنا ہی گیا گزرا ہوں کہ جب تمھارا دل چاہے میری انسلٹ کر دو اور جب دل چاہے تو خوش کر دو ۔۔۔

      ماہ رخ : ۔۔ ارسلان میرا ایسا کوئی اردہ نہیں تھا میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا پھر بھی اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو میں تم سے معافی مانگتی ہوں دونوں کان پکڑ کر سچی اب تو مجھے معاف کر دو آئندہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گی ۔۔۔

      میں نے کہا اوکے سب ٹھیک ہے ۔۔ اسکے بعد بھی ہم تھوڑی دیر چیٹنگ کرتے رہے اور پھر بائے بول دیا کیونکہ میں ابھی بھی غصہ محسوس کر رہا تھا اور کرتا بھی کیوں نا اس کی وجہ سے میرا اتنا زبردست چانس مس ہوگیا تھا ۔۔۔۔

      ساڑھے نو بجے کے قریب نوشابہ نے اپنی سٹڈی اور گھر کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد مجھے کال کی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔ آج کیونکہ میں انھیں کے گھر پر تھا اور یہ ایک بہترین موقع تھا اور میں کیسے یہ موقع مس کر سکتا تھا اسی لیے فوراً مطلب کی بات پر آگیا اور بولا ۔۔۔ نوشابہ آج رات میرے پاس آؤ گی نا ۔۔۔نوشابہ نے جواب دیا کیوں جی تمھارے پاس ایسا کیا ہے جسکے لیے میں تمھارے پاس آؤں گی ۔۔

      میں : ۔ ہے ایک ایسی پیاری چیز جسے دیکھ کر تمھارے منہ میں پانی آجائے گا۔

      نوشابہ : ۔۔ منہ کا تو پتہ نہیں ہے لیکن یہ بات پکی ہے کہ کسی اور جگہ سے پانی ضرور آ جائے گا ۔۔ہاہاہاہاہا

      میں : ۔ چلو پھر جہاں سے پانی آئے اسے وہیں لے لینا ۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ وہاں تو میں نہیں لے سکتی اور ویسے بھی آج تو کسی صورت میں لے ہی نہیں سکتی ، ناممکن ہے ۔

      میں : ۔ وہ کیوں بھئی آج ایسا کیا ہے ؟؟؟

      نوشابہ : ۔ وہ اس لیے میرے راجا آج مجھے ماہواری آئی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔

      میں : ۔ واہ جی واہ یہ کیا بات ہوئی مجھے پہلے تو بتا دیتی میں تو صرف تمھارے لئے ہی رکا تھا اور تم نے مجھے لال جھنڈی دکھا دی ۔۔۔

      نوشابہ : ۔ ارے واہ کیا بات ہے جھوٹ بولنا تو کوئی تم سے سیکھے ، جانو جی میری وجہ سے نہیں بلکہ امی کی وجہ سے رکے ہو ۔۔۔۔

      میں : ۔ اچھا بابا ، لیکن ماہواری تو تمھیں آئی ہے مجھے تو نہیں ، میرے بارے میں تو کچھ سوچو ۔۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ ارسلان تم ہی بتاو میں کیا کرسکتی ہوں مجھے بہت ڈر لگتا ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      میں : ۔ کچھ نہیں ہوتا تم باتھ روم کا بہانہ کر کے آجانا ۔۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ تم مرواؤ گے باتھ روم اتنا وقت کب لگتا ہے ؟؟؟؟؟؟

      میں : ۔ تم آنا تو سہی ، بس مٹھ مار کر فارغ ہی تو کرنا ہے دو منٹ میں سب ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ یار تم سمجھ نہیں رہے ہو مجھے تکلیف ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

      میں : ۔ خیر تو ہے میں صرف مٹھ مارنے کو کہہ رہا ہوں پھدی میں لن لینے کو نہیں کہہ رہا اور مٹھ مارنے سے بھلا تمہیں کیسے تکلیف ہوگی ؟؟؟؟؟؟

      نوشابہ : ۔میرے بھولے شہزادے جب میں تمھاری مٹھ لگاؤں گی تو خود بھی گرم ہو جاؤں گی جسکی وجہ سے تمھاری راجکماری نے پانی بہا دینا ہے اور جب ماہواری کے دوران پانی بہتا ہے تو بہت جلن ہوتی ہے ، تم سمجھتے کیوں نہیں ۔

      میں : ۔ یار کچھ نہیں ہوتا ، میرا بہت دل کر رہ ہے آج تو تمہیں آنا ہی ہوگا ۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ یار ارسلان کچھ تو رحم کرو مجھ پر میں بھی آنا تو چہتی ہوں مگر واقعی بہت تکلیف ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔

      میں : ۔میری خاطر اتنی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

      نوشابہ : ۔ میری جان ، تمھارے لیے تو اپنی جان بھی قربان کرسکتی ہوں ، اچھا ٹھیک ہے ۔ پر میں کوشش کروں گی وعدہ نہیں کرتی ۔۔۔۔۔۔

      میں : ۔ مجھے کچھ نہیں سننا بس تم نے آنا ہے اور بس ۔۔۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ اچھا جناب ، ابھی سے اتنے حکم چلا رہے ہو شادی کے بعد کیا کرو گے ۔۔۔۔۔

      میں : ۔ میرا حق ہے تم پر چاہے میں جو بھی کروں ۔۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ ہاں جی اب یہی حق رہ گیا ہے کہ آدھی رات کو مجھے بلا کر نواب صاحب مٹھ لگوائیں گے ۔۔۔۔۔۔

      میں : ۔ ہاں بس یہی سمجھ لو ۔

      نوشابہ : ۔ ارے یاد آیا ابھی تک تم نے مجھے اس لڑکی کا نام نہیں بتایا ؟ اب کتنا سوچو گے صرف اسکی لینی ہی تو ہے ساری زندگی ساتھ تو رکھنا نہیں پھر اتنا سوچنے کا فائدہ ۔

      میں : ۔ لڑکی تو فائنل ہوچکی ہے تقریباً بس ایک دو روز تک تمھیں اسکا نام بھی بتا دوں گا ۔ پھر دیکھتے ہیں تم کیا تیر مارتی ہو ۔

      نوشابہ : ۔ اچھا جب تمھارا دل چاہے بتا دینا ۔ میں نے تم سے جو وعدہ کیا ہے میں اسے ضرور پورا کروں گی ۔

      اس کے بعد ہماری کافی دیر تک باتیں ہوتیں رہیں اگر انھیں بھی شامل کردوں تو کہانی بہت لمبی اور بور ہو جائے گی اس لیے وہ باتیں نہیں لکھ رہا ۔

      ہم اسی طرح باتیں کرتے رہے ، شاید ساڑھے گیارہ بجے ہوں گے میں نے نوشابہ سے پوچھا کیا سارے گھر والے سو گئے ہیں ؟ اس نے مذاق میں جوب دیا نہیں میں ابھی تک جاگ رہی ہوں اور ہنسنے لگی ، پھر بولی ہاں مجھے لگتا ہے سب سو چکے ہیں ۔

      میں نے کہا تو پھر آجاو نا دیکھو تمھارا راجکمار بھی کتنا تڑپ رہا ہے اور تمھارے انتظار میں سونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔

      نوشابہ بولی اچھا ٹھہرو ایک بار سب کو چیک کر لوں اس کے بعد بتاتی ہوں ۔

      کچھ دیر بعد بولی ہاں ارسلان سب سوگئے ہیں اب میں آرہی ہوں ۔

      میں بولا جلدی آو اب تو میرا لن بھی درد کرنے لگا ہے ۔

      نوشابہ نے جواب دیا اچھا بابا آ تو رہی ہوں تم ایسا کرو جلدی سے دروازے پر آجاو لیکن پردے کے پیچھے ہی رہنا اور مجھے، کس ، کرنے یا گلے لگانے یا میرے ممے پکڑنے کی کوشش مت کرنا میں زیادہ چھیڑ چھاڑ افورڈ نہیں کرسکتی

      میں نہیں چاہتی کہ میں گرم ہو جاوں بس میں تمھاری للی کی مٹھ مار کر چلی جاوں گی ،اوکے ۔

      میں نے اوکے کہا اور شلوار اتار کر دروازے میں پردے کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور دل ہی دل میں کہا تم ایک بار ہاتھ میں تو لو پھر پتہ چلے گا للی ہے یا لن ۔

      باہر مکمل اندھیرا تھا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔ کچھ ہی دیر بعد نوشابہ دبے قدموں بیٹھک کی طرف آنے لگی ۔ میں اسے آتے دیکھ کر پردے سے تھوڑا آگے کی طرف ہوا اور لن ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا ہوگیا ۔

      نوشابہ دروازے کے ساتھ آکر نیچے بیٹھ گئی اور آہستہ سے بولی ، کہاں ہو ارسلان ؟

      تمھارے ساتھ ہی تو کھڑا ہوں اوپر تو دیکھو ، میں نے جواب دیا۔

      نوشابہ اوپر دیکھتے ہوئے بولی، نکالو اپنی للی باہر جلدی کرو ۔

      میں : ۔ یہ تو کب سے باہر نکلی ہوئی تمھارا انتظار کر رہی ہے ، آج مجھے اس کے للی کہنے پر مزہ آرہا تھا ۔

      نوشابہ نے ٹٹولتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا اور میرے لن کے اوپر رکھ دیا ۔جیسے ہی نوشابہ نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اسے زور دار جھٹکا سا لگا اندھیرے کی وجہ سے نظر تو کم ہی آرہا تھا لیکن میں محسوس کرسکتا تھا ۔

      نوشابہ : ۔ یییہ یہ کیا ہے ؟؟؟؟؟؟

      میں : ۔ للی ہے اور کیا ہے ، ابھی تم نے ہی تو کہا تھا للی نکالو ۔

      نوشابہ : ۔ ارسلاااان ،،،، للی کہاں ہے یہ تو لن سے بھی بڑا ہے ۔ یہ وہ للی تو نہیں ہے بہت بڑا لُلا لگ رہا ہے ۔ یہ اتنا بڑا کیسے ہوگیا ؟؟؟؟؟؟

      میں : ۔ بڑا کہاں ہے وہی تو ہے اب میں نے نیا تو لگوا نہی لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      ہم یہ باتیں بھی کر رہے تھے اور نوشابہ ساتھ ساتھ لن پر ہاتھ بھی ہلا رہی تھی ۔

      میں کھڑا ہوا تھا اور نوشابہ زمین پر بیٹھی ہوئی تھی اور بار بار پیچھے بھی دیکھ رہی تھی ۔

      نوشابہ : ۔جانو جی یہ اتنا بڑا کیسے ہوگیا ؟ میری پھدی تو بہت چھوٹی سی ہے یہ تو اسے پھاڑ کر رکھ دے گا ۔ نہیں میں اسے اپنی پھدی میں نہیں لے سکتی ۔ تم نے اسے اتنا بڑا کر کیسے لیا ۔

      میں : ۔ ارے میری شہزادی تم پریشان کیوں ہوتی ہو ، پانی اور لن اپنا راستہ خود بنا لیتے ہیں جب اندر جانے کا موقع آئے گا تو تمھاری پھدی خود ہی اسے راستہ دے دے گی ۔

      نوشابہ : ۔ نا بابا یہ تو بہت بڑا ہوگیا ہے اور دیکھو کتنا موٹا بھی ہے میں تو مر جاوں گی اسے اندر لے کر ۔

      میں : ۔واہ کیا بات ہے ، تم نے تو کہا تھا میں دیکھ لوں گی اور ایک ہی جھٹکے میں اندر لے لوں گی پتہ بھی نہیں چلے گا کہاں گیا ، میں تمہیں روکوں گی بھی نہیں جو مرضی کرتے رہنا ۔ اب یکایک اتنی ڈرپوک کیسے ہوگئی۔

      نوشابہ : ۔ نا جی نا جب میں نے یہ سب کہا تھا اسوقت یہ چھوٹا سا تھا مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا ہو جائے گا ، میں تو ڈرپوک ہی ٹھیک ہوں ، میں نے نہیں لینا اسے اپنی چھوٹی سی پھدی میں ۔۔۔۔۔

      میں : ۔ ارے چندا تم ابھی سے ٹینشن کیوں لے رہی ہو جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ، ابھی تو صرف میری مٹھ مارو اور میرا پانی نکال کر ٹھنڈا کر دو بس ۔۔۔۔۔۔۔

      نوشابہ : ۔ کتنی دیر سے تو لگی ہوئی ہوں پاگلوں کی طرح تمھاری مٹھ مارنے میں اور ایک تم ہو فارغ ہوکر ہی نہیں دے رہے

      میرا تو ہاتھ بھی تھک گیا ہے ، جلدی سے میری جان چھوڑ دو ۔

      میں : ۔ ایسے تو ساری رات بھی ہاتھ ہلاتی رہو گی تو اس نے فارغ نہیں ہونا پہلے کسی چیز سے اسے چکنا کرلو بلکہ ایسا کرو اس پر اپنا تھوک لگا لو اس کے بعد مٹھ لگاو ۔

      نوشابہ : ۔ ہوں ، گندے اب مجھے یہ سب بھی کرنا پڑے گا ۔۔۔۔

      یہ کہہ کر نوشابہ نے اپنے منہ میں کافی سارا تھوک جمع کیا اور اپنے ہاتھ پر ڈال کر میرے لن پر اچھے سے لگا دیا اور مٹھ مارنے لگی ۔

      تھوک کی وجہ سے لن چکنا ہوگیا تھا اب نوشابہ کا ہاتھ بڑی تیزی سے چل رہا تھا اور مجھے بھی بہت مزہ آنے لگا

      میری جان ،میرے دل کی دھڑکن ، میری شہزادی میرے لن کو اپنے ہاتھ سے مٹھ مار رہی تھی یہ سوچ کر ہی میں ہواؤں میں اڑ رہا تھا ۔

      شاید نوشابہ کا ہاتھ تھک گیا تھا اسی لیے اب وہ دونوں ہاتھوں سے مٹھ لگا رہی تھی سرور کی لہریں میرے پورے جسم میں دوڑ رہیں تھیں ۔ میرا سارا جسم اکڑنے لگا تو میں سمجھ گیا کہ بس اب فارغ ہونے والا ہوں ، میں نے نوشابہ سے کہا اب رکنا مت بس میں ہونے والا ہوں ۔ نوشابہ نے ایک بار پھر سے میرے لن پر تھوک لگایا اور تیزی سے مٹھ لگانے لگی ۔

      اب میرا پیمانہ بھر چکا تھا اور مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا میں نے نوشابہ کے ہاتھ سے لن چھڑایا اور خود مٹھ مارنے لگا اسہی وقت میں نے جھٹکا کھایا اور میرے لن سے منی کی پچکاری نکلی اور سیدھی نوشابہ کے منہ اور بالوں پر گری ۔ نوشابہ فوراً ہی ایک سائیڈ پر ہوگئی باقی ساری منی زمین پر ہی گر گئی ۔ اور میں بھی نوشابہ کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گیا ہماری سانسیں چڑھی ہوئی تھیں کچھ ہی دیر میں ہم نارمل ہوگئے تو نوشابہ نے بہت ہی پیار سے مجھے آئی لو یو کہا اور اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلی گئی ۔

      میں وہیں ایک طرف چپ چاپ کھڑا ہوگیا ۔ کچھ ہی دیر بعد نوشابہ باتھ سے ہاتھ منہ وغیرہ صاف کرنے کے بعد وہیں پر واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں کپڑے کی ٹاکی تھی جس سے اس نے زمین سے میری منی کو اچھی طرح سے صاف کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ میں بھی وہیں پر کھڑا ہوں زمین کو اچھی طرح سے صاف کرنے کے بعد وہ اٹھی اور جاتے جاتے بڑے پیار سے بڑبڑائی ، گندہ بچہ ، اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔اور میں بھی پلٹ پڑا اور اپنی شلوار پہن کر لیٹ گیا ۔

      ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ نوشابہ کا میسج آگیا ۔

      نوشابہ : ۔ تم بہت ہی گندے ہو ارسلان ۔

      میں : ۔ کیوں بھئی میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جو تم مجھے گندہ کہہ رہی ہو ؟

      نوشابہ : ۔ ابھی کچھ کیا ہی نہیں جناب نے ۔ میرے بال اور چہرہ خراب کردیا اور اب پوچھ رہے ہو میں نے کیا کیا ۔ تم اپنے راجکمار کا رخ موڑ کر اسے زمین پر بھی الٹی کروا سکتے تھے۔ میرا چہرہ خراب کیوں کیا ؟

      میں : ۔ ہاہاہاہاہاہا ،کوئی بات نہیں بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں ، ویسے بھی جو مزہ لڑکی کے چہرے پر منی نکالنے کا ہے وہ کہیں اور کہاں ۔

      نوشابہ : ۔تم بہت ہی گندے ہو ، خبردار اگر دوبارا ایسی بات کی یا کبھی پھر میرے ساتھ ایسا کرنے کی کوشش کی ۔

      میں : ۔ جو میری جان کا حکم ، ہم بھلا روگردانی کرسکتے ہیں کیا ؟

      نوشابہ : ۔ اچھا ایک بات تو بتاؤ ، یہ تمھاری للی کو کیا ہوگیا ایک دم اتنا بڑا لُلا کیسے بن گئی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

      میں : ۔ بس جی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اپنی جان کو خوش کرنے کے لیے بڑی محنت کر رہے ہیں اپنے شیر کو تیار کرنے کے لیے ۔

      نوشابہ : ۔ اتنے بڑے اور موٹے لن سے تم مجھے مارنا چاہتے ہو ظالم انسان ، مجھ پر کچھ تو رحم کرو میں کیسے برداشت کروں گی اس موٹے اور اتنے لمبے للے کو اپنی پھدی میں ، مجھے تو لگتا ہے میری پہلی رات ہی آخری ثابت ہوگی ۔

      میں : ۔ارے یار آج تک چدوانے سے کوئی مرا ہے جو تم مر جاو گی اور یہ بھی تو دیکھو کہ تم سے پہلے اور لڑکیوں کو بھی تو چودوں گا اگر ان کو کچھ ہوا تو تم نہ چدوانا ، اب خوش ؟؟؟؟

      نوشابہ : ۔ ہاں یہ تو ہے ، مگر جب بھی تمہیں دوسری لڑکی کی لے کر دوں گی اس وقت میں بھی وہیں ہوں گی جب تم اس کی پھدی مار رہے ہونگے ، بولو منظور ہے ۔۔

      میں : ۔ میری جان مجھے تمھاری ہر بات منظور ہے اسکے علاوہ اگر کوئی حکم ہو تو وہ بھی بتا دو ۔

      نوشابہ : ۔ بس بس ابھی کے لیے بس اتنا ہی اور اب آرام سے سو جاو اب تو تمھیں سکون آگیا ہوگا ٹھنڈے جو ہوگئے ہو ۔

      میں : ۔ کیوں نہ آئے سکون ؟ جس کی تم جیسی حسین اور سوئٹ گرل فرینڈ ہو اس کے لیے تو سکون ہی سکون ہے ۔۔

      نوشابہ : ۔ اچھا اچھا اب زیادہ ڈائیلاگ بازی کی ضرورت نہیں اور آرام سے سو جاو ورنہ نیند پوری نہیں ہوگی اور تمھیں کل امی کے ساتھ شہر بھی جانا ہے

      اسکے بعد وہی لو یو ، کس یو ، گڈ نائٹ وغیرہ سے فارغ ہوکر میں سو گیا ، واہ کیا سکون کی نیند آتی ہے محبوب کے ہاتھوں سے فارغ ہونے کے بعد کچھ مت پوچھو ۔۔

      صبح آنکھ کچھ دیر سے ہی کھلی تھی ، اتوار تھا چھٹی تھی اسی لیے سب گھر پر ہی موجود تھے ، فریش ہونے کے بعد ناشتہ کیا اور اس کے بعد ممانی سے شہر جانے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ابھی کچھ دیر کے بعد چلتے ہیں ۔

      ممانی نے بتایا کہ نوشابہ بھی ساتھ ہی جائے گی اسے بھی کچھ خریداری کرنی ہے ، وہ گھر کے کام ختم کرلے اس کے بعد چلیں گے ۔یہ سن کر میں خوش ہوگیا کہ چلو اسہی بہانے کچھ وقت اور نوشابہ کے ساتھ گزارنے کا موقع مل جائے گا ۔

      اس کے بعد میں چھت پر چلا گیا ۔ میں نے ابھی تک ماہ رخ کے ساتھ کوئی بات نہیں کی تھی اسے میں نے ابھی تک اگنور کیا ہوا تھا ۔ کوئی آدھا گھنٹہ گزرا ہوگا کہ سائمہ اوپر آئی اور بتایا کہ امی بلا رہی ہیں ۔

      میں نیچے آیا تو دیکھا کہ ممانی اور

      ماہ رخ شہر جانے کے کیے تیار کھڑی ہیں اور نوشابہ ایک طرف منہ بنائے بیٹھی ہوئی ہے ۔

      میں نے ممانی سے پوچھا ،نوشابہ نہیں جارہی کیا ؟

      جانا تو نوشابہ کو ہی تھا مگر ماہ رخ بھی ضد کر رہی تھی کہ وہ بھی جائے گی اب تم ہی بتاؤ ایک بائیک پر چار لوگ کیسے بیٹھ سکتے ہیں اس لیے میں نے نوشابہ سے کہا کہ وہ پھر کبھی چلی جائے گی ، اب تم جلدی سے بائیک نکالو چلتے ہیں ۔

      یہ سن کر میرا بھی موڈ آف ہوگیا تھا کیونکہ مجھے ابھی بھی ماہ رخ پر غصہ تھا ، میں نے ماہ رخ کی طرف غصہ بھری نظروں سے دیکھا اور بائیک نکالنے لگا ۔

      ممانی کا جسم کافی بھرا ہوا سا تھا اور ماہ رخ پتلے جسم کی تھی اسی لیے ممانی نے ماہ رخ کو درمیان میں بٹھا دیا اور خود پیچھے بیٹھ گئی ۔ ممانی کے بھاری جسم کی وجہ سے ماہ رخ کو پھنس کر بیٹھنا پڑا اور کچھ اس روز کی ناراضگی دور کرنے کے لیے آج ماہ رخ کھل کر میرے ساتھ بیٹھی تھی اس نے اپنے ممے میری کمر کے ساتھ دبائے ہوئے تھے اور وہ انھیں اوپر نیچے ہلا ہلا کر میری کمر کے ساتھ رگڑ رہی تھی ۔

      اس کے ممے کمر سے ٹچ ہوتے ہی لن صاحب نے تو ماہ رخ سے اپنی ناراضگی ختم کردی اور اسے سلامی دینے کے لیے سر اٹھا لیا لیکن میں نے ماہ رخ پر یہ ظاہر نہی کیا کہ میں اس کی حرکتوں کو انجوائے کر رہا ہوں ، سارے راستے ماہ رخ اپنے ممے رگڑتی رہی اور سارے ہی راستے لن نے بھی نا بیٹھنے کی قسم کھالی ۔

      شہر پہنچ کر سب سے پہلے ہم ہسپتال پہنچے کیونکہ ممانی کو وہاں سے دوائی لینی تھی اس لیے ممانی ہسپتال چلی گئی اور میں بائیک سے اترتے ہی واش روم کی طرف چلا گیا تاکہ پششی کرکے اپنے لن کو سکون دے سکوں ۔ماہ رخ بائیک کے قریب ہی کھڑی تھی اور مجھے واش روم جاتے دیکھ کر شرارتی انداز میں مسکرا رہی تھی ۔

      میں جیسے ہی واش روم میں داخل ہوا اور پششی کرنے کے لیے بیٹھا اسی وقت ماہ رخ کا میسج آگیا ۔

      میں نے پششی کرتے کرتے اسکا میسج پڑھا ۔

      ماہ رخ : ۔ کزن جی اب تو خوش ہو نا ؟؟

      میں : ۔ کیوں جی تم نے ایسا کیا تیر مار لیا کہ اس کی وجہ سے میں خوش ہو جاؤں ۔

      ماہ رخ : ۔ تو پھر واش روم کس خوشی میں گئے ہو ؟؟؟؟؟

      میں : ۔ لوگ واش روم میں کونسی خوشیاں منانے جاتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ لوگوں کا تو پتہ نہیں مگر تم کیوں گئے ہو اور کیا کر رہے ہو مجھے اچھی طرح سے اندازہ ہے ۔

      میں : ۔ بہت خوش فہمی ہے تمہیں خود پر ، میں اتنا کچا نہیں ہوں کہ اتنے سے کام کی وجہ سے آوٹ آف کنٹرول ہو جاؤں اور نا ہی اتنے سے کام سے خوش ہوتا ہوں اب اپنی بکواس بند کرو ۔اور مجھے پششی کرنے دو ۔

      ماہ رخ : ۔ بکواس بھی بند ہو جائے گی پہلے تم یہ تو بتادو کہ ایسا میں کیا کروں جس سے تمھیں خوش کرسکوں ؟

      میں : ۔ یہ بھی مجھے ہی بتانا پڑے گا ؟ ویسے تو بڑی تیز بنتی ہو خود ہی سوچو ۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔ اور بائے کہہ دیا ۔

      پششی کرنے کے بعد میں نے لن کے اوپر ٹھنڈا پانی ڈال کر پر سکون کیا کیونکہ میں یہاں پر میں مٹھ مارنا نہیں چاہتا تھا اور ویسے بھی میں مٹھ کم ہی مارتا تھا ۔ کچھ دیر میں جب میرا لن کچھ سکون میں آیا تو میں واش روم سے باہر آگیا ۔ وہاں کھڑی ماہ رخ بڑے غور سے میری طرف دیکھ رہی تھی ۔ شاید جج کر رہی تھی کہ میں نے واش روم کچھ کیا ہے یا نہیں ۔

      تھوڑی ہی دیر بعد ممانی دوائی لے کر واپس آگئی ، اب ہمیں بازار جانا تھا شاپنگ کے لیے ماہ رخ اب بھی میرے پیچھے ہی بیٹھی تھی اور اسی طرح اپنے ممے میری کمر سے چپکا کر بیٹھی تھی ۔ وہ دونوں مارکیٹ سے شاپنگ کرتی رہیں اور میں آرام سے بائیک پر بیٹھا رہا آخر کار شاپنگ مکمل ہوئی اور ہم کچھ کھانے پینے کے لیے سٹالز کی طرف چلے گئے وہاں پر ہم نے سموسے ، دہی بھلے اور فرٹ چاٹ بھی کھائی اس دوران ماہ رخ مسلسل میری ہی طرف دیکھتی رہی جیسے وہ میرے چہرے پر کچھ تلاش کر رہی ہو لیکن میں نے اپنا چہرہ بالکل نارمل رکھا اور اپنے تاثرات اس پر ظاہر نہیں ہونے دیے ۔

      آخر کار ہماری واپسی کا پروگرام بن گیا اور واپسی پر بھی وہی پوزیشن تھی میرے پیچھے ماہ رخ اپنے تمام تر جلوؤں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی وہ اب بہت زیادہ کھل چکی تھی اور میرے ساتھ بالکل چپکی بیٹھی تھی اسکے ممے میری کمر کو اپنا احساس دلانا شروع ہو چکے تھے ۔ شہر کی حدود سے باہر نکلے تو ٹریفک بھی بہت کم ہوگئی تھی مجھے اچانک اپنے کولہوں پر کچھ محسوس ہوا اور ایک لمحے میں مجھے اندازہ ہوگیا

      ماہ رخ نے اپنے دونوں ہاتھ میری تھائیز کے اوپر والے حصے پر رکھ دیے تھے اور دھیرے دھیرے وہ میری تھائیز کو سہلا رہی تھی ، ایک عجیب و غریب سنسناہٹ میرے پورے جسم میں دوڑنا شروع ہوگئی یہ کام میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا اور اس سے ملنے والے مزے کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا لیکن بائیک پر بیٹھ کر ایسی حرکت مہنگی بھی پڑ سکتی تھی ، ایک طرف تو اسکے ممے مسلسل میری کمر کو چوم رہے تھے اور دوسری طرف اسکے ہاتھ میری تھائیز کو سہلا رہے تھے میں مزے سے مدہوش ہوا جارہا تھا لیکن ذرا سی غفلت نقصان کا باعث بن سکتی تھی اس لیے میں نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے دبا کر چھوڑ دیا میں اسے روکنا چاہتا تھا لیکن اس نے آج مجھے فل تڑپانے کی قسم اٹھائی ہوئی تھی شاید ،اب وہ ایک ہاتھ سے میری تھائی سہلا رہی تھی اور دوسرا ہاتھ مری کمر پر رکھ دیا اور وہاں سہلانے لگی ، کچھ دیر بعد اسکا ہاتھ کمر سے ہوتا ہوا میرے پیٹ کی طرف بڑھنے لگا اس حرکت سے میں اور زیادہ بیچین ہوگیا ،مزہ بھی بہت آرہا تھا کوئی اور جگہ ہوتی تو میں خوب انجوائے کرتا لیکن موٹر سائیکل چلاتے ہوئے میں یہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔ ماہ رخ کا ہاتھ مسلسل اور آہستہ آہستہ میرے پیٹ پر حرکت کر رہا تھا اب اس کا رخ میرے لن کی طرف تھا ممانی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کی پیاری بیٹی میرے ساتھ کیا کیا ظلم کر رہی ہے ۔ ماہ رخ کا ہاتھ بڑھتے بڑھتے میرے لن کے بالکل قریب بالوں والی جگہ تک پہنچ گیا تھا اب میں نے اسے روکنے کا فیصلہ کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے دبا دیا اور پکڑے ہی رکھا ۔ قسمت اچھی تھی کہ اسی وقت سامنے پیٹرول پمپ آگیا اور میں نے شکر ادا کیا اور پیٹرول بھروانے کے لیے پمپ کی طرف مڑ گیا اسی بہانے کچھ ٹائم تو ملا ۔ جذبات کی شدت کی وجہ سے میرا رنگ لال سرخ ہو گیا تھا یہ بات مجھے ممانی کی بات سے پتہ چلی تھی ۔

      ممانی : ۔ ارے ارسلان کیا ہوا تمھارا چہرہ اتنا سرخ کیوں ہو رہا ہے ؟

      میں : ۔ ہوا تیز ہے شاید اسی لیے اور میری طبعیت بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔

      اور ماہ رخ صاحبہ دوسری طرف منہ کرکے ہنسنے لگی ۔

      خیر میں ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر پیٹرول ڈلوانے کی لیے چلا گیا ۔۔۔

      پمپ پر اش تھا میں نے ایک سائیڈ پر رک کر ماہ رخ کو میسج کیا ۔

      میں : ۔ کیوں خود بھی مرنا چاہتی ہو اور ہمیں بھی مروانا چاہتی ہو ؟؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ میں نے کیا کیا ہے ؟؟؟

      میں : ۔ کزن جی مجھ سے ایسے بائیک نہیں چلائی جاتی ایکسیڈینٹ کروادو گی تم ۔

      ماہ رخ : ۔ تو پھر بول بھی دو کہ میں تم سے خوش ہوں اور راضی ہوں ، پھر نہیں کروں گی ۔

      میں : ۔ اچھا میری ماں ، میں تم سے بہت خوش بھی ہوں اور راضی بھی ہوں ، اب تو کچھ میری جان پر رحم کرو ۔

      ماہ رخ : ۔ہاہاہاہاہا ، چلو نہیں کرتی کیا یاد کرو گی کسی کزن سے پالا پڑا تھا اب بے فکر ہوکر بائیک چلانا ۔ہمارا سفر پھر سے شروع ہوگیا اب ماہ رخ نے اپنے ہاتھ تو نہیں چلائے مگر ممے اسی طرح میری کمر پر رگڑتی رہی اب میں بھی تھوڑا ریلیکس ہوگیا تھا لیکن لن کا برا حال تھا اور وہ کہہ رہ تھا کہ میرا کچھ کرو ورنہ میں پھٹنے لگا۔۔

      جاری ہے
      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

      Comment


      • #4
        زبردست کہانی ھے۔ خاص طور پر مکالمے بہت عمدہ لکھے ھیں

        Comment


        • #5
          ایسے ہی ماہ رخ کے مموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم گھر پہنچ گئے اور گھر میں داخل ہوتے ہی میں واش روم کی طرف دوڑا کیونکہ میرا لن فل کھڑا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ ماہ رخ یا کسی اور کے نظر میری شلوار کے ابھرے ہوئے حصے کو دیکھے ۔

          واش روم پہنچتے ہی میں نے شلوار اتار کر رکھ دی اور تیزی سے مٹھ مارنے لگا ، کیونکہ اب میر لن مسلسل کھڑا رہنے کی وجہ سے درد کرنے لگا تھا اور مٹھ کے علاوہ میرے پاس کوئی اور آپشن بھی تو نہیں تھا ، ماہ رخ کے ممے مجھے ابھی تک اپنی کمر پر محسوس ہورہے تھے ان کی لذت محسوس کر کے مٹھ مارنے میں جو مزہ آرہا تھا بیان سے باہر ہے۔ اور اسی وقت ماہ رخ کا میسج آگیا۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔میں نے اسے جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور اپنے کام میں لگا رہا ۔

          میں سوچ رہا تھا کہ ماہ رخ کی پھدی میں کچھ زیادہ ہی خارش ہے اب اس کی اس خارش کو مٹانا ہی پڑے گا میں نے مٹھ مارتے مارتے ہی فیصلہ کرلیا کہ اب ماہ رخ کو ضرور چودوں گا بلکہ نوشابہ سے بات کرتا ہوں آج رات ہی اسے اس کی چھوٹی بہن کا نام بتادوں گا کہ میں ماہ رخ کی لینا چاہتا ہوں ، کتنا مزہ آئے گا جب میں نوشابہ کے سامنے اس کی چھوٹی بہن کی پھدی پھاڑ رہا ہوں گا اسے چود رہا ہوں گا اور وہ اپنی بہن کو میرا لن لیتے ہوئے دیکھ رہی ہوگی ،

          یہ سب سوچتے سوچتے مجھے اتنا لطف آیا کہ اسی وقت میری منی نکلنا شروع ہوگئی اور لن صاحب ٹھنڈے ہوتے ہوتے ہوگئے ، فارغ ہونے کے بعد میں واشروم سے باہر نکل آیا ،ماہ رخ دور کھڑی مجھے ہی دیکھ رہی تھی اور بڑے معنی خیز انداز میں مسکرا رہی تھی میں اسے اگنور کرتا ہوا ممانی کے پاس گیا اور گھر جانے کے اجازت لے کر اپنے گھر روانہ ہوگیا ۔ اس وقت بھی ماہ رخ مسکرا رہی تھی میں نے سوچا ابھی تو ہنس لو بہت جلد جب تمھارے اندر ڈالوں گا تمہیں رونا بھی پڑے گا ۔

          گھر پہنچنے کے بعد بھی میں ماہ رخ کے بارے میں ہی سوچتا رہا اور آگے کا پلان ترتیب دیتا رہا ۔

          اب سب سے بڑا مسئلہ نوشابہ کو ماہ رخ کے بارے میں بتانے کا تھا بیشک اس نے مجھے کہا ہوا تھا کہ جس لڑکی کا کہو گے میں دلوانے کی کوشش کروں گی مگر اپنی ہی چھوٹی بہن کا سن کر اسے شاک تو لگے گا ،مگر نوشابہ کو کیسے ہینڈل کرنا ہے اور نوشابہ کو منانے کے بعد ماہ رخ کو کیسے راضی کرنا ہے میں یہ اچھی طرح جانتا تھا ۔

          ویسے تو ماہ رخ اب میرے ساتھ اتنی فری ہوچکی تھی کہ اگر میں چاہتا تو خود بھی اسکی پھدی لے سکتا تھا لیکن میں چاہتا تھا کہ یہ کام میرے لیے خود نوشابہ کرے ۔نوشابہ خود اپنے محبوب کے لیے اپنی چھوٹی بہن کو راضی کرے،

          خود اپنی چھوٹی بہن کو میرے ساتھ چدائی کرنے کا کہے ، یہ بات سوچ کر ہی مجھے اتنا مزہ آرہا تھا تو جب ایسا حقیقت میں ہوگا تو کیسا لگے گا ۔

          اسی قسم کی باتیں بار بار میری دماغ میں گھوم رہیں تھیں اور اس سوچ سے ہی میں ہواؤں اڑتا محسوس کر رہا تھا۔

          یہی سوچتے سوچتے آخر میں نے ایک پلان ترتیب دے ہی لیا اس کے لیے اب پہلے مجھے نوشابہ کو اعتماد میں لینا تھا اور اس کے مان جانے کے بعد ہم دونوں نے مل کر ماہ رخ کو جال میں پھانسنا تھا ۔

          اس رات میری نوشابہ اور ماہ رخ دونوں سے ایک ساتھ ہی چیٹنگ ہوتی رہی لیکن آپ سب کے لیے میں یہاں ان دونوں سے ہونے والی گفتگو الگ الگ لکھوں گا تاکہ آپ لوگوں کو دقت نہ ہو ، کیونکہ اگر ایک سات لکھا تو سب مکس ہو جائے گا اور مزہ بھی نہیں آئے گا ،

          تو پہلے نوشابہ سے ہونے والی گفتگو لکھتا ہوں ۔۔رات کو جب پلان سوچ رہا تھا اسی وقت نوشابہ کا میسج آیا ۔۔۔

          نوشابہ : ۔ کیا حال ہے میری زندگی ۔۔۔۔

          میں : ۔ بالکل ٹھیک ، بس ہر وقت تمہیں ہی سوچتا رہتا ہوں ، تم کیسی ہو جانِ زندگی ؟

          نوشابہ : ۔ میں بہت خوبصورت ، بہت پیاری ،ہاہاہاہاہاہاہاہا ، کیا کر رہے تھے ؟

          میں : ۔ بتایا تو تھا بس تمہیں ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور مجھے کیا کام ہو سکتا ہے ۔

          نوشابہ : ۔ واہ بھئی اسکا مطلب ہوا کہ ہم تو بہت ہی قسمت والے ہیں ۔

          میں : ۔ ہاں جی یہ تو ہے ۔ اچھا ایک بات پوچھوں ؟

          نوشابہ : ۔ ایک بات کیوں ، سو باتیں پوچھو ۔

          میں : ۔کل رات تم ٹھیک تو رہیں ، درد زیادہ تو نہیں ہوا تھا ؟

          نوشابہ : ۔ ارے چھوڑو بھی رات گئی بات گئی تم بتاو تمہیں مزہ تو آیا تھا اب تو میری جان خوش ہے نا ؟

          میں : ۔ کچھ مت پوچھو ، اتنا مزہ اتنا مزہ کہ بتا نہیں سکتا ، جادو ہے میری شہزادی کے ہاتھوں میں ۔

          نوشابہ : ۔ ارے واہ کیا مطلب ؟ صرف ہاتھوں میں ہی بس ؟

          میں : ۔ تو اور کیا ابھی تم نے صرف ہاتھوں ہی سے مزہ دیا ہے تو بتا دیا جب کہیں اور لوگی تو وہ بھی بتا دوں گا ویسے کب پروگرام بنا رہی ہو ؟

          نوشابہ : ۔ نا بابا نا کہیں اور لے کر مجھے مرنا ہے کیا ؟

          میں : ۔ یہ بھی خوب رہا ، خود ہی شور مچایا ہوا تھا للی ہے للی ہے اب کیا ہوگیا اتنی سی للی سے اتنا خوف ؟

          نوشابہ : ۔ میرے شہزادے ، اب ہوا یہ ہے کہ تمھاری للی اب بڑی ہوکر بہت لمبا ، موٹا ، اور خطرناک لن بن گیا ہے اور میری بلبل ابھی بھی چھوٹی سی ،پیاری سی ، معصوم سی اور نازک سی ہے

          میں : ۔ تو اس میں کیا ہے جتنا پھنس کر جائے گا مزہ اتنا ہی زیادہ آئے گا تمھاری بلبل کو ۔

          نوشابہ : ۔ ارسلان مجھے اب واقعی اس سے خوف محسوس ہونے لگا ہے یہ اتنا بڑا کیسے جائے گا ؟ میں تو درد سے مر ہی جاؤں گی ۔

          میں : ۔ ارے تم پریشاں کیوں ہوتی ہو میں بھلا اپنی جان کو تکلیف کیسے دے سکتا ہوں بہت آرام سے اور پیار سے ڈالوں گا بالکل بھی درد نہیں ہونے دوں گا اپنی شہزادی کو ۔

          نوشابہ : ۔ پھر بھی اتنی چھوٹی سی تو ہے آرام سے تو نہیں جاسکے گا نا ۔

          میں : ۔ اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں ، عورت کے جسم کا یہ حصہ بہت فلیکس ایبل ہوتا ہے بچہ بھی اسی راستے سے باہر آتا ہے اور بچے کے مقابلے میں لن تو کچھ بھی نہیں ، جب وقت آئے گا یہ خود ہی کھل جائے گی ۔

          نوشابہ : ۔ اچھا جی ، کتنی آسانی سے کہہ دیا تم نے ۔

          میں : ۔ ہاں جی ،بس اب اپنی خوراک پر توجہ دو اور خود کو تندرست رکھو اور خود کو میرا لن لینے کے لیے تیار کرو ۔

          نوشابہ : ۔ ہاں جی تمہیں بہت جلدی ہے میری پھاڑنے کی ۔

          میں : ۔ ہاں جلدی تو ہے مگر اب تم سے پہلے کسی اور کی بھی تو پھاڑنی ہے۔

          نوشابہ : ۔ ہاں اب بتا بھی دو کس کی پھاڑنا چاہتے ہو ، کوئی فیصلہ کیا یا ابھی تک سوچنے پر ہی لگے ہوئے ہو ؟

          میں : ۔ ہاں یار فیصلہ تو میں نے آج کرلیا ہے اور لڑکی بھی فائنل ہو گئی ہے ۔

          نوشابہ : ۔ ارے واہ ، اب جلدی سے بتا بھی دو کون ہے جسکی تم نے لینے کا پروگرام بنایا ہے ۔

          میں : ۔ تمہیں ہی بتانا ہے اور کس کو بتاؤں گا سیٹ بھی تو تم ہی نے کروانی ہے ، لیکن اس سے پہلے ایک وعدہ کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ تم کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے سکون سے میری پوری بات سنو گی اور ناراض نہیں ہو گی ۔

          نوشابہ : ۔ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم سے ناراض ہو سکتی ہوں اس سے پہلے میں مر نہ جاؤں۔ تم بے فکر ہو کر مجھے اس کا نام بتاؤ ۔

          میں : ۔ مجھے ماہ رخ کی لینی ہے ۔۔۔۔۔۔

          نوشابہ : ۔ ککککککیا ، کیا کہہ رہے ہو مطلب کس ماہ رخ کی بات کر رہے ہو ؟

          (ہماری فیملی میں ماہ رخ نام کی دو لڑکیاں ہیں ایک تو نوشابہ کی چھوٹی بہن اور ایک ہماری دور کی کزن ہے ۔)

          میں : ۔ میں اپنی والی ماہ رخ کی بات کر رہا ہوں ۔

          نوشابہ : ۔ یہ کیا بکواس ہے ارسلان تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو ، تمہیں شرم آنی چاہیے مجھ سے میری ہی چھوٹی بہن کے بارے میں ایسی بات کرنے پر ، تمھارے دماغ میں یہ بات آئی بھی کیسے کہ میں اپنی ہی چھوٹی بہن کو چدنے کے لیے خود تمھارے نیچے لٹا دوں گی کچھ تو شرم کی ہوتی ۔

          میں نوشابہ سے اسی قسم کے ردعمل کی توقع کر رہا تھا ، یہ تو کامن سی بات ہے آپ کسی لڑکی سے بھی ایسی بات کرو گے تو اس کا ردعمل ایسا ہی آئے گا یا ہوسکتا ہے اس سے بھی زیادہ سخت آئے ، اب نوشابہ کو کیسے ہینڈل کرنا تھا اور اس کام کے لیے راضی کرنا تھا یہ میں پہلے ہی سوچ چکا تھا ۔

          میں : ۔ ابھی تو تم نے کہا تھا کہ تم ناراض نہیں ہونگی اور میری پوری بات سکون سے سنوں گی اور اب تم اتنا غصہ کر رہی ہو ، میری پوری بات تو سن لو پہلے ۔

          نوشابہ : ۔ اب سننے کو اور رہ ہی کیا گیا ہے ،میرا دماغ پھٹ جائے گا تم ایسا کیسے سوچ سکتے ہو

          میں : ۔ نوشابہ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو میں یہ سب سوچ سمجھ کر ہی کہہ رہا ہوں یہ فیصلہ میں نے ایسے ہی جلد بازی میں نہیں کرلیا ہے ۔

          نوشابہ : ۔ کیا سوچ سمجھ کر ایسے ہی بات کی جاتی ہے تم نے مجھے میری ہی نظروں سے گرا دیا ہے ، تم نے میرا دل توڑ دیا ہے ارسلان ۔

          میں : ۔ تم ابھی میری بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی ہو ، ہم اس ٹاپک پر کل بات کریں گے بس ایک بات یاد رکھنا کہ ماہ رخ بھی کچھ ایسا ہی چاہتی ہے اور میں اسکی نہ بھی لوں وہ کسی اور سے بہت جلد ہی یہ سب کچھ کروا لے گی ، اب باقی باتیں کل ہوں گی ۔

          نوشابہ : ۔ میں ماہ رخ کو اچھے سے جانتی ہوں وہ ایسی لڑکی نہیں ہے تم اس کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو ۔

          میں : ۔ میں تمھیں کل سب کچھ بتا دوں گا ۔

          نوشابہ : ۔ نہیں جو بات بھی ہے تم مجھے ابھی بتاو ۔

          میں : ۔ نوشابہ میں کل سب کچھ تمہیں بتا دوں گا اور اب اس کے لیے ضد مت کرنا بس اپنے آپ کو ریلیکس کرو اور ٹھنڈے دماغ سے اس بارے میں سوچو ۔ اور ہاں ابھی ماہ رخ سے اس بارے میں کوئی بات مت کرنا ،اوکے بائے ۔

          میں نوشابہ کو ابھی سب کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا کیونکہ ایک تو وہ ابھی غصے اور شاک کی کیفیت میں تھی اور بحث کے موڈ میں تھی ، دوسرے میں چاہتا تھا کہ آج وہ اس معاملے پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرلے ، اور تیسری وجہ یہ تھی کہ میں ایک ہی ٹائم میں ان دونوں بہنوں سے بات کر رہا تھا اور میرا دماغ بھی بٹا ہوا تھا اور اگر غلطی سے ایک کا میسج دوسری کے پاس چلا جاتا تو اور بھی مسائل پیدا ہو سکتے تھے ۔

          اب میں آپ کو ماہ نور کے ساتھ ہونے والی بات چیت بتاتا ہوں ۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          ماہ رخ : ۔ ہائے کزن ، کیسے ہو ۔

          میں : ۔ ٹھیک ہوں ، مجھے کیا ہوا ہے ؟

          ماہ رخ : ۔ ہاں جی اب تو سکون آگیا ہوگا جناب کو ؟

          میں : ۔ کیوں جی اب ایسا کیا ہوگیا جس سے مجھے سکون مل گیا ہو ۔

          ماہ رخ : ۔ آتے ہی واش روم جو گھس گئے تھے ۔

          میں : ۔ تو پھر ؟

          ماہ رخ : ۔ تو پھر کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اب تم ناراض تو نہیں ہو نا مجھ سے ؟

          میں : ۔ کزن جی ، ناراض تو میں پہلے بھی نہیں تھا تم سے ، بس ذرا غصے میں تھا ۔

          ماہ رخ : ۔ اب تو دور کر دیا نا میں نے آپکا غصہ ۔

          میں : ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ آج تم نے جو کچھ بھی کیا بطور رشوت کیا

          ماہ رخ : ۔ تم جو بھی سمجھو ، میں نے جو بھی کیا بس تمہیں خوش کرنے کے لیے کیا تھا ۔

          میں : ۔ بس اتنی سی چھیڑ چھاڑ سے کون خوش ہوتا ہے اور کم از کم میں تو نہیں ہوسکتا ۔

          ماہ رخ : ۔تو پھر تم ہی بتا دو ، میں ایسا کیا کروں کہ تم خوش ہو جاو ،تم جیسا کہو گے میں ویسے ہی کرلوں گی۔

          میں : ۔ کزن جی کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل ، جب کرنا پڑے گا تو لگ پتہ

          جائے گا ۔

          ماہ رخ : ۔ کیا کرنا پڑے گا

          میں : ۔ اچھا چھوڑو اسے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ بتاؤ یہ آج تم ڈینجر زون میں ہاتھ کیوں گھسا رہی تھیں ؟؟؟؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ، ویسے ہی کچھ چیک کرنا تھا ۔

          میں : ۔ وہاں ایسی کیا چیز ہے جسے تم چیک کرنا چاہتی تھیں ۔

          ماہ رخ : ۔ دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر تم نے وہا ایسا کیا چھپایا تھا جس سے اس روز مجھے ڈرا رہے تھے ۔

          میں : ۔ کزن جی تم کچھ زیادہ ہی تیز نہیں جا رہی ہو ؟؟؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ تم نے کردیا ہے مجھے اتنا تیز ۔

          میں :۔ کیا مطلب ؟ میں نے کب کیا ؟

          ماہ رخ : ۔ بعد میں کبھی بتاؤں گی ۔

          میں : ۔ ابھی کیا ہے ، ابھی بتادو نا ۔

          ماہ رخ : ۔ ابھی میرا موڈ نہیں ہے ۔

          میں : ۔اچھا جی اگر بتانے کا موڈ نہیں ہے تو پھر کس چیز کا موڈ ہے میری کزن کا ۔

          ماہ رخ : ۔ آج تو تمہیں خوش کرنے کا موڈ ہے ۔۔۔۔۔۔۔

          میں : ۔ تو پھر کرو نا کس نے روکا ہے ؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ تو آجاو نا ، کر دیتی ہوں خوش ۔۔۔۔۔۔

          میں : ۔ کیسے کرو گی مجھے خوش ؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ آج تک کسی کو کیا تو نہیں ہے تم جیسے جیسے بتاتے جاو گے میں کرتی جاؤں گی ۔

          میں : ۔ بہتر ہے پہلے کسی سے پوچھ لو ۔

          ماہ رخ : ۔ میں کس سے پوچھ لوں ؟

          میں : ۔ بس ایک دو دن ٹھہر جاو پھر کسی سے پوچھنا نہیں پڑے گا ۔

          ماہ رخ : ۔ اچھا جی ایسا کیا ہونے والا ہے ایک دو دن میں ؟؟؟؟؟؟؟

          میں : ۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی کہہ رہا تھا ، اچھا بس اب میں سونے جا رہا ہوں سارے دن کی تھکاوٹ ہے بائے ۔۔۔۔۔۔

          ماہ رخ : ۔ اچھا جی ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی ۔۔۔۔۔۔۔۔

          میری اور ماہ رخ کی باتوں سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اب میں ماہ رخ کو جب چاہتا سیکس کے لیے راضی کر سکتا تھا ۔ وہ ابھی نئی نئی جوان ہوئی تھی اور سب کو پتہ ہے کہ نئی نئی جوانی بھی کسی نشے سے کم نہیں ہوتی ، وہ ابھی ہلکا ہلکا مزہ لینا شروع ہوئی تھی مگر اس کو اندازہ نہیں تھا کہ ہلکا ہلکا مزہ اس سے کیا کچھ کروا سکتا ہے ، وہ صرف مزے لینے کے لئے ایسی باتیں کرتی تھی اور اسے اس کا چسکا پڑتا جارہا تھا ۔اب وہ زیادہ دن صبر نہیں کرسکتی تھی ، کیونکہ جس سٹیج پر وہ آچکی تھی وہاں پر میں یا کوئی اور بھی اسے اس قسم کی باتیں کر کے آسانی سے پھنسا اور چود سکتا تھا ۔

          لیکن اب میں یہ سب نوشابہ کے ذریعے کروانا چاہتا تھا میرے دماغ میں شیطانی سوچ پیدا ہوچکی تھی اب میں بڑی لمبی پلاننگ کر رہا تھا ، میرا دماغ اب سائمہ کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا ،

          آخر کسی نہ کسی نے تو ان سب کو ایک دن چودنا ہی ہے تو کیوں نہ یہ کام میں ہی کرلوں ، اور اس میں غلط بھی کیا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          اسہی لیے میں چاہتا تھا کہ نوشابہ اپنی ایک بہن کو خود میرے نیچے لٹا کر چدوائے ، تاکہ اس کی جھجک ختم ہو جائے اور دوسری کو چدواتے وقت وہ زیادہ نخرے نہ کرے ۔

          اسی طرح کے پلان بناتے بناتے جنے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سوگیا ۔۔۔۔

          اگلے دن سب کچھ روٹین وائز ہی تھا ناشتہ کیا کالج چلا گیا وہاں سے واپس آیا لنچ کیا اور دوستوں سے ملنے باہر نکل گیا شام کو واپس آیا ڈنر کیا اور اس کے بعد ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا ، اب مجھے نوشابہ کے میسج کا انتظار تھا مگر اب تک اس کا کوئی میسج نہیں آیا تھا

          مجھے معلوم تھا کہ وہ حقیقت جاننے کے لیے بے چین ہوگی مگر شاید غصے یا شرم کی وجہ سے ہچکچا رہی تھی ۔

          یہ سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود ہی بات چیت شروع کرتا ہوں ،اور میسج لکھنے لگا ۔

          میں : ۔ ابھی تک غصے میں ہو میری شہزادی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔تم نے بات ہی ایسی کی تھی کیا اس پر مجھے غصہ نہیں ہونا چاہیے؟

          میں : ۔ ہونا چاہیے ، کیوں نہیں ہونا چاہیے مگر پوری بات سن لینے کے بعد ۔

          نوشابہ : ۔تو پھر سنا دو پوری بات ۔

          میں : ۔ یار ماہ رخ نئی نئی جوان ہوئی ہے اور تمھاری طرح شرمیلی بھی نہیں ہے بلکہ بہت گرم اور منہ زور ہے اگر تم مجھے اس کی لینے نہیں دو گی تو وہ کسی اور کو بخوشی دے دے گی ۔

          نوشابہ : ۔ تمھاری اس لاجک کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے مجھے تم وہ بتاؤ ۔

          پھر میں نے نوشابہ کو ماہ رخ کے بارے میں وہ سب باتیں جو اب تک ہوچکی تھیں ان کی خالہ کے گھر جانے سے شہر جانے اور واپس آنے کی ساری کہانی اور اس سے میسج پر جو جو باتیں ہوئیں سب کی سب اور کچھ اپنی طرف سے مصالہ ایڈ کرکے بتا دیں مصالہ اس لیے لگایا کہ اس کی وجہ سے نوشابہ بھی تھوڑی بہت گرم ہو جائے کیونکہ اگر ایک بار نوشابہ گرم ہو جاتی ہے تو پھر وہ دماغ سے نہیں بلکہ اپنی پھدی سے سوچتی ہے نوشابہ کے بارے میں اتنا اندازہ تو مجھے ہو ہی چکا تھا اور ہوا بھی یہی میری محنت رنگ لے آئی تھی ۔

          نوشابہ : ۔ ارسلان کیا تم یہ سب سچ کہہ رہے ہو ؟؟؟؟؟

          میں : ۔ تمھاری قسم ہر بات سچ ہے اس سے پہلے کبھی تم سے جھوٹ بولا ہے ۔

          نوشابہ : ۔پھر تو اس کا کچھ کرنا ہی پڑے گا اس کی عمر تو دیکھو اتنی سی تو ہے اور آگ کتنی لگی ہوئی ہے کمینی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          میں : ۔ تم ابھی بھی اسے بچی ہی سمجھتی ہو ، ممے دیکھے ہیں اس کے تمھارے جتنے ہو گئے ہیں اور گانڈ تو تم سے بھی بڑی ہے ۔۔۔۔۔

          نوشابہ : ۔ اچھا جی تم میری بہن کے ممے اور گانڈ تاڑتے رہتے ہو شرم تو نہیں آتی تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔

          (نوشابہ اب ریلیکس ہو چکی تھی اور پہلے والے انداز میں واپس آرہی تھی اسی لیے تو میں نے سیکسی باتیں بتا کر اسے گرم کیا تھا)

          میں : ۔ اس میں کیا برائی ہے ، بھئی سالی ہے میری اور آدھی گھر والی بھی تو ہے اب میں اسے نہیں تاڑوں گا تو کیا کوئی اور آکر یہ کام کرے گا ۔

          نوشابہ : ۔ آدھے گھر والی ہے اگر تمھاری تو اس کا کیا مطلب ہے کی تم اس کی جان لے لو گے ؟؟؟؟؟؟

          میں : ۔ میں نے جان لینے کا کب کہا ؟ میں تو اسے وہ مزہ دینا چاہت ہوں جس کے لیے وہ تڑپ رہی ہے ۔

          نوشابہ : ۔ اس نے ابھی تمھارا دیکھا نہیں ہے نا اسی لیے مزے لینا چاہتی ہے ایک بار دیکھ لیا نا تو دیکھنا کیسے بھاگتی ہے ۔

          میں : ۔ جی نہیں ، کیا تم نے اسے اپنے جیسا سمجھا ہے ؟ جس دن بھی اس نے میرا دیکھ لیا تو سمجھو دیوانی ہو جائے گی اور اندر لیے بغیر نہیں چھوڑے گی ۔

          نوشابہ : ۔ میں بھی دیکھوں گی جب وہ اندر لے گی ، ویسے ارسلان تم ہو بہت ظالم ہم معصوم بہنوں کی پھدیوں کے پیچھے ہی پڑ گئے ہو ، ہماری تو چھوٹی چھوٹی سی پھدیاں ہیں اور تمھارا لن اتنا بڑا اور اتنا موٹا، ایک بات تو بتاؤ ، کیا بنے گا ہم معصوموں کا ؟؟؟؟

          میں : ۔ کیا ماہ رخ کی پھدی بھی تمھاری پھدی کی طرح چھوٹی سی ہے ؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ ہاں چھوٹی سی ہے بالکل میری پھدی کی طرح ، ہم سب بہنوں کی ایک جیسی ہی ہیں ۔

          میں : ۔ وہ کیوں جی سب کی ہی ایک جیسی کیوں ہیں ؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ بس ایسے ہی ۔۔۔۔۔۔

          میں : ۔ بتاؤ نا ؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ کیونکہ ہماری امی کی بھی بالکل ایسی ہی چھوٹی سی ہے اس لیے ہم سب بہنوں کی بھی انہیں پر گئی ہیں۔

          میں : ۔ کیا کہہ رہی ہو ؟ کیا تم نے ممانی کی دیکھی ہے ، تمہیں کیسے پتہ چلا کہ ممانی کی پھدی بھی چھوٹی سی ہے ؟؟

          نوشابہ : ۔ہاں میں نے امی کی کئی بار دیکھی ہے ان کی بھی چھوٹی سی ہی ہے

          میں : ۔ تم نے کہاں دیکھ لی اپنی امی کی پھدی اور تمہیں شرم بھی نہیں آئی اپنی امی کی دیکھتے ہوئے ؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ نہاتے ہوئے ، کبھی کپڑے بدلتے ہوئے اس میں شرم کی کیا بات ہے ماں بیٹیوں میں اتنا تو چلتا ہی ہے اور جو کچھ امی کو لگا ہوا ہے وہی ہمیں بھی تو لگا ہوا ہے ۔۔۔۔

          میں : ۔اچھا ٹھیک ہے بابا ، یہ بتاو کیا تم نے ماہ رخ کی بھی دیکھی ہے ؟؟؟

          نوشابہ : ۔ہاں کئی بار دیکھی ہے بچپن سے ہم ایک سات ہی رہتے ہیں اور سوتے بھی ایک ہی چارپائی پر ہیں ۔

          میں : ۔ تو کیا ٹچ بھی کرتی ہو تم ایک دوسری کی پھدی کو ؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ہاں مگر صرف مذاق مذاق میں جیسے تم کہہ رہے ہو ویسے نہیں۔

          میں : ۔چلو اب تک ویسے نہیں کی تو اب جیسے میں کہہ رہا ہوں ویسے ہی

          کرنا ہے اور بل ناغہ کرنا ہے ۔۔۔۔۔

          نوشابہ : ۔ وہ کس خوشی میں جناب ؟؟؟

          میں : ۔ کیونکہ تم نے وعدے کے مطابق مجھے اپنی چھوٹی بہن کی پھدی لی کر دینی ہے اگر تم اس کے ساتھ اس انداز میں فری ہو جاتی ہو تو یہ کام بہت ہی آسان ہو جائے گا اور تم اسی صورت میں ماہ رخ کو مجھ سے چدواتے ہوئے لائیو دیکھ سکتی ہو ۔

          نوشابہ : ۔تمہیں شرم تو باکل ہی نہیں آتی ، اپنی ہی گرل فرینڈ سے کہہ رہے ہو کہ اپنی چھوٹی بہن کی پھدی لے کر دو ۔

          میں : ۔ تمھاری بہن نے آخر کسی نا کسی سے چدوانا تو ضرور ہے اگر یہ نیک کام میں کرلوں گا تو تمہیں اس سے کیا پریشانی ہے : ۔

          نوشابہ : ۔ اچھا بابا اب دوبارا نا شروع ہو جانا ۔مجھے صرف یہ بتا دو کہ اب مجھے کیا کرنا ہے ؟؟؟؟؟

          اس کے بعد میں نوشابہ کے ساتھ مل کر آگے کا لائحہ عمل تیار کرنے لگا ۔میں نے اسے سارا پلان سمجھا دیا کہ اس نے

          ماہ رخ کو مجھے پھدی دینے پر راضی کیسے کرنا ہے ،اور ساتھ ساتھ میں اس کام میں اس کا ساتھ کیسے دوں گا

          اس کے بعد میں کافی دیر نوشابہ کے ساتھ مل کر پلان کی خامیاں درست کرتا رہا۔ اب پلان مکمل ہوچکا تھا بس اس پر عمل کرنا باقی تھا جو بہت جلد شروع ہو جانا تھا اور اس کے بعد ماہ رخ پکے ہوئے پھل کی طرح میری جھولی میں آ گرتی پک تو وہ پہلے ہی چکی تھی اب بس تھوڑی سی تحریک دینی باقی تھی اور یہ کام نوشابہ نے کرنا تھا ،

          پورا پلان سمجھنے کے بعد نوشابہ بولی

          نوشابہ : ۔ سب کچھ پہلے سے ہی سوچ کر بیٹھے ہوئے ہو ، بڑا شیطانی دماغ ہے تمھارا ،اب تو اس بیچاری کی پھدی پھٹے ہی پھٹے ۔

          میں : ۔شکر کرو میں کچھ سوچ تو رہاں ہوں ورنہ تمھاری بہن کی پھدی مارنے کے لیے تو کچھ سوچنے کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔

          نوشابہ : ۔ تو پھر مجھے کیوں بیچ میں ڈال رہے ہو ؟ اگر اتنا ہی آسان ہے تو خود ہی لے لو نا ۔۔۔۔۔۔

          میں : ۔وہ تو میں جب چاہے لے سکتا ہوں مگر میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ ساتھ تم بھی بھرپور انجوائے کرو ، ویسے بھی میں دور کی سوچتا ہوں ۔

          نوشابہ : ۔کیا مطلب ہے دور کی سوچتا ہوں کا ؟

          میں : ۔ کوئی مطلب نہیں وقت آنے پر سب کھل کر سامنے آ جائے گا ، تم اپنے چھوٹے سے دماغ کو زیاد تکلیف مت دو اور آج سے ہی پلان پر عمل شروع کردو ۔

          نوشابہ : ۔ اچھا جی ، لو نہیں کرتی اپنا دماغ استعمال اور حکم ہے تو وہ بھی بتا دو میرے شہزادے ۔

          میں : ۔ اپنی شہزادی کو بھلا حکم دے سکتا ہوں یہ تو میرا مشورہ ہے ، اور دیکھو آج جو بھی کرو کل اسکی مکمل رپورٹ دینی ہے ، اب میں کچھ دیر ماہ رخ سے بھی بات کر لوں ۔

          نوشابہ : ۔ کیا بات کرنی ہے ماہ رخ سے کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ ۔

          میں : ۔ بتادوں گا پہلے بات تو کر لینے دو

          نوشابہ : ۔ واہ جی واہ تمھارے تو مزے ہی مزے ہیں ایک کو چھوڑتے ہو دوسری سے لگ جاتے ہو ۔

          میں : ۔ اوکے بائے شب بخیر ، میری جان آئی لو یو ۔

          نوشابہ : ۔ لو یو ٹو ، شب بخیر ۔

          ہم نے جو فیصلہ کیا تھا اس کے مطابق پہلے نوشابہ نے ماہ رخ کے ساتھ مذاق مذاق میں فری ہونا تھا اس کے جسم کے نازک حصوں کو ٹچ کرنا اور چھیڑنا تھا اور اس کے ساتھ سیکسی سیکسی باتیں کرنی تھیں اور یہ سب کچھ سٹپ بائی سٹپ ہونا تھا اور اگر ماہ رخ کوئی ناراضگی کا اظہار کرتی تو نوشابہ کہہ سکتی تھی کہ وہ تو صرف مذاق کر رہی ہے ۔ وہ دونوں بہنیں آپس میں فری تو پہلے ہی تھیں بس ایک بار سیکس میں فری ہو جاتی تو نوشابہ اس سے کچھ بھی کروا سکتی تھی ،میرا پلان بھی یہی تھا کہ میں اور نوشابہ مل کر ماہ رخ کو اتنا گرم کر دیں کہ وہ خود نوشابہ سے کہے کہ میری پھدی ، لن مانگ رہی ہے ۔

          اب مجھے ماہ رخ کے میسج کا انتظار تھا کیونکہ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ اسے سیکسی باتیں کرنے اور سننے کا چسکا پڑ چکا ہے ۔ لیکن جب کافی ٹائم گزرنے کے بعد بھی اسکا میسج نہیں آیا تو میں نے پھر نوشابہ کو میسج کر کے پوچھا کہ ماہ رخ کیا کر رہی ہے نوشابہ نے بتایا کہ وہ ابھی پڑھ رہی ہے کل شاید اسکا ٹیسٹ ہے۔

          میں چاہتا تو ماہ رخ کو خود بھی میسج کر سکتا تھا لیکن اسے اندازہ ہو جاتا کہ میں اس کے لیے تڑپ رہا ہوں اور جب کسی لڑکی کو پتہ چل جائے کہ لڑکا اس کے لیے تڑپ رہا ہے تو وہ اس سے ناز نخرے اٹھوانا شروع کر دیتی ہے جبکہ میں نوشابہ کے علاوہ کسی کے ناز نخرے اٹھانا نہیں چاہتا تھا ، یہ سوچ کر میں بھی سونے کے لیے لیٹ گیا ۔

          مجھے لیٹے ہوئے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ موبائل پر ماہ رخ کا میسج آگیا ۔

          ماہ رخ : ۔ہائے کزن جی ، کیا حال ہے ؟

          میں : ۔ خیر تو ہے آج اتنی دیر تک جاگ رہی ہو ؟ ( میں اسے شو نہیں کروانا چاہتا تھا کہ مجھے بھی اس کے میسج کا انتظار تھا )

          ماہ رخ : ۔ہاں وہ میرے ٹیسٹ شروع ہوگئے ہیں تو انہیں کی تیاری میں لگی ہوئی تھی ۔

          میں : ۔ ہاں بھئی بس اپنے ٹیسٹوں کی ہی تیاری کرتی رہنا بس ۔

          ماہ رخ : ۔ تو اور کس چیز کی تیاری کروں ، یہ بھی بتادو کزن جی ؟؟؟؟

          میں : ۔مجھے خوش کرنے کے لئے بھی تھوڑی بہت تیاری کرلو ۔

          ماہ رخ : ۔ارے کزن جی تمہیں خوش کرنے کے لیے تیاری کی کیا ضرورت ہے ، تم نے جس سے خوش ہونا ہے وہ سارا سامان تو پہلے ہی میرے پاس موجود ہے ۔

          میں : ۔ارے واہ تم تو چھپی رستم نکلیں ذرا مجھے بھی تو بتاؤ میری پیاری کزن نے مجھے خوش کرنے کے لیے کیا کیا سامان اکٹھا کیا ہوا ہے ؟؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔وہ میں تمھیں کیوں بتاؤں؟

          میں : ۔ ارے بتادو کزن جی ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کی کمی رہ گئی ہو ۔

          ماہ رخ : ۔ نا جی نا ، میرے پاس کمی کسی چیز کی نہیں ہے ہر چیز پوری پوری ہے ، مجھے پتہ ہے ۔

          میں : ۔پھر بھی بتا ہی دو کیا پتہ تمھارے سامان کا سن کر ہی میں خوش ہو جاؤں۔

          ماہ رخ : ۔کزن جی تم تو سن کر خوش ہو ہی جاؤ گے ، پر میرا کیا بنے گا ؟ مجھے بھی تو خوش ہونا ہے ۔

          میں : ۔ اچھا جی ہماری کزن بھی خوش ہونا چاہتی ہے ؟ اس کا تو آسان حل ہے میرے پاس ، تم مجھے خوش کردو اور بدلے میں میں بھی تمہیں کردوں گا ، کیا خیال ہے ڈئیر کزن ۔

          ماہ رخ : ۔ تم مجھے کیسے کروگے ؟؟؟؟

          میں : ۔ جیسے سب کرتے ہیں ۔

          ماہ رخ : ۔ سب کیا کرتے ہیں ؟

          میں : ۔ وہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          ماہ رخ : ۔ وہی کیا ؟؟؟؟؟؟؟

          میں : ۔ خوش ۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا۔

          ماہ رخ : ۔ او ہو ، وہی تو میں بھی پوچھ رہی ہوں کیسے کرو گے مجھے خوش ، تمھارے پاس ایسا کیا ہے جس سے میں خوش ہو جاؤں گی ؟؟؟؟؟؟

          میں : ۔میرے پاس ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر لڑکی خوش ہو جاتی ہے ، تم بھی ہو جاو گی ۔۔۔۔

          ماہ رخ : ۔ بڑا اعتماد ہے ہمارے کزن کو اپنی اس چیز پر ؟؟؟

          میں : ۔ اعتماد ہے تو کہہ رہاں ہوں ، جب دل چاہے آزما لینا ۔

          ماہ رخ : ۔ اب تو ضرور دیکھنا ہی پڑے گا ایسی کیا دنیا سے انوکھی چیز مل گئی ہمارے کزن کو جس پر وہ اتنا اچھل رہا ہے ۔ ہاہاہاہاہاہاہا ۔

          میں : ۔ ہاں ہاں ضرور دیکھنا ، جب تک دیکھو گی نہیں تمیں یقین نہیں آئے گا۔

          ماہ رخ : ۔ تو پھر کب دکھا رہے ہو اپنے اس عجوبے کو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

          میں : ۔ جب تم مجھے خوش کرو گی ۔

          ماہ رخ : ۔ پھر تو اپنے کزن کے لیے جلد ہی مجھے کچھ کرنا پڑے گا ۔ اچھا کزن جی بائے ۔۔۔۔۔

          میں : ۔ اررررررے کیا ہوا ابھی سے ؟

          ماہ رخ : ۔ آج نوشابہ کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے مجھے تنگ کر رہی ہے

          میں : ۔ کیا کہہ رہی ہے نوشابہ ؟

          ماہ رخ : ۔ پھر کبھی بتاؤں گی بائے ۔۔۔۔

          میں : ۔ اوکے بائے ۔۔۔۔۔۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          مجھے پتہ چل گیا تھا کہ نوشابہ نے پلین پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے ۔

          اب بہت جلد نوشابہ اپنی چھوٹی بہن کی پھدی مجھے چودنے کے لیے پیش کرنے والی تھی یہ سوچ کر ہی میرا لن لوہے کی طرح سخت ہو گیا تھا اور مچل رہ تھا پر میں مٹھ نہیں مارنا چاہتا تھا اس لیے لن کو ٹانگوں میں دبا کر سونے کی کوشش کرنے لگا ۔

          نوشابہ ، ماہ رخ ، اور سائمہ کے خیالوں میں گم ہوکر ناجانے کب آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا ۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          اگلا سارا دن میں بس انہیں کے بارے میں سوچتا رہا اب تو میرے شیطانی دماغ میں سائمہ کے بارے میں بھی سوچیں آنا شروع ہوگئی میں سوچنے لگا کیوں نی نوشابہ کو ابھی سے سائمہ کے بارے میں بھی کہہ دوں کہ ساتھ ساتھ اسے بھی تیار کرنا شروع کردو ۔

          آخر اس نے بھی تو جوان جلد ہی ہو جانا ہے بعد میں بھی تو اس پر محنت کرنی پڑے گی تو ابھی سے کیوں نہ کر لی جائے لیکن پھر یہ سوچا کہ پتہ نہیں سائمہ کو ان چیزوں کا پتہ بھی ہے یا نہیں اور دوسرے ابھی وہ کچھ چھوٹی بھی تو تھی اور اس کے علاوہ نوشابہ ماہ رخ کے لیے تو مان گئی تھی ۔ لیکن سائمہ کے بارے میں اس کا ردعمل الٹ نہ ہو جائے ایسی صورت میں مجھے نہ صرف ماہ رخ سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے تھے بلکہ شاید نوشابہ بھی نہ ملے ۔

          یہ سوچ کر میں نے اپنا ارادہ بدل ہی دیا بس یہی سوچا کہ ابھی سائمہ پر اچھے سے نظر رکھتا ہوں آگے چل کر دیکھتا ہوں وہ کس لائن پر چلتی ہے پھر اسی حساب سے فیصلہ کروں گا ۔ ابھی صرف ماہ رخ پر پورا فوکس رکھ کر اسے چود لوں پھر سائمہ کو بھی دیکھ لیا جائے گا ۔۔

          اسی ادھیڑ بن میں دن آخر کار ختم ہوا اور رات ہوگئی میں بے چینی سے نوشابہ سے رابطے کے انتظار میں تھا تاکہ اس سے رات کی کاروائی کی رپورٹ لے سکوں ۔ آخر نوشابہ کا میسج آہی گیا ۔

          نوشابہ : ۔ کیسے ہو میری جان ؟؟؟؟

          میں : ۔ بالکل ٹھیک میری شہزادی ، تم سناؤ کیسی ہو ؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورت اور حسین و جمیل ۔ ہاہاہاہاہا۔

          میں : ۔وہ تو تم ہو ، یہ بتاو سارا دن کہاں گم تھیں ؟ رابطہ ہی نہیں کیا اور میں انتظار ہی کرتا رہا ۔

          نوشابہ : ۔ میں نے کہاں جانا ، میں تو فارغ ہی تھی تم دن میں مصروف ہوتے ہو اس لیے رات کا انتظار کرتی رہی ۔

          میں : ۔چلو جانے دو ، اب یہ بتاؤ رات کو کیا ہوا تھا ؟؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ وہ میں تمھیں کیوں بتاؤں ؟؟

          میں : ۔ ارے بتا دو نا پھر اس کے مطابق مجھے تیاری بھی تو کرنی ہے ۔

          نوشابہ : ۔کس چیز کی تیاری کرنی ہے میرے شہزادے نے ۔

          (نوشابہ مجھے تنگ کرنے پر تلی ہوئی تھی اور انجوائے کر رہی تھی ۔)

          میں : ۔ تمھاری بہن کی لینے کی تیاری ۔

          نوشابہ : ۔ میری بہن کی کیا لینی ہے ۔

          (میں بھی اب موڈ میں آگیا تھا )

          میں : ۔میری جان ، تمھاری بہن کی پھدی جو پھاڑنی ہے اس کی تیاری بھی تو کرنی پڑے گی ایسا نہ ہو کہ عین ٹائم پر تمھاری بہن کو میرا لن پسند ہی نا آئے ۔

          نوشابہ : ۔ توبہ توبہ ابھی بھی تمہیں تیاری کی ضرورت ہے اتنا بڑا ،اتنا موٹا اور خطرناک تو ہوگیا ہے تمھارا لن اب اور کیا بنانا چاہتے ہو میرے معصوم بہن پر کچھ تو رحم کرو ۔

          میں : ۔ تم نہیں جانتی ۔ جتنی آگ تمھاری بہن میں ہے نا اس حساب سے اسے میرا لن کم ہی لگے گا ۔

          نوشابہ : ۔ مجھے تو لگتا ہے تم میری بہن کو مارنا چاہتے ہو ۔

          میں : ۔ نہیں مرتی تمھاری معصوم بہن ، اور دیکھ لینا جب ایک بار اس نے آسانی سے میر لن لے لیا تو تم نے بھی اپنی قسم وسم سب بھول جانا ہے اور خود کہو گی ارسلان اب میری بھی لے لو ۔

          نوشابہ : ۔ اچھا جی دیکھ لوں گی ۔

          میں : ۔ کیا دیکھ لو گی ؟؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ اپنی چھوٹی سی معصوم بہن کی پھدی تمھارے لن سے پھٹتے ہوئے ۔

          میں : ۔ ارے میری شہزادی ، وہی تو میں پوچھ رہا ہوں پھر کب دلا رہی ہو ماہ رخ کی پھدی مجھے ۔

          نوشابہ : ۔ ہاں جی تمہیں بہت جلدی ہے ہم بہنوں کی چھوٹی سی پھدیوں کو پھدا بنانے کی ۔

          میں : ۔ میری جان ، کیا بات ہے آج تو بڑے خطرناک موڈ میں لگ رہی ہو ؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ہاہاہاہاہاہا ، ایسی کوئی بات نہیں میں تو بس تمہیں چھیڑ کر مزے لے رہی تھی ۔

          میں : ۔بس یوں خود ہی مزے لیتی رہنا کبھی اپنی پھدی کو مزے نا دینا ۔

          نوشابہ : ۔اسے بھی مزہ آخر مل ہی جائے کا کبھی نا کبھی ۔

          میں : ۔اچھا اب یہ تو بتا دو کہ کل رات کیا ہوا تھا ،کیوں تڑپا رہی ہو میری جان ۔

          نوشابہ : ۔میرا کچھ کام ابھی رہتا ہے وہ کر لوں پھر سب بتاتی ہوں ۔

          میں : ۔ پہلے سبھی کام کرکے فارغ ہو جاتیں پھر رابطہ کرنا تھا سارا مزہ خراب ہو گیا ۔

          نوشابہ : ۔ ٹھیک ہے میری جان ، آئندہ سے ایسا ہی ہوگا ابھی تو دس پندرہ منٹ انتظار کرو ۔

          میں : ۔ اچھا جی آپ کے لیے انتظار بھی کر لیتے ہیں ۔

          میں چاہتا تھا کہ نوشابہ جلد سے جلد مجھے رات کے بارے میں بتادے مگر نوشابہ مجھے تنگ کرنے پر لگی ہوئی تھی بتایا کچھ بھی نہیں الٹا مجھے گرم کرکے چلی گئی اب یہ ٹائم گزارنا مجھے دشوار ہو رہا تھا ، میں نے سوچا چلو ماہ رخ سے بات کر لیتے ہیں اسہی بہانے وقت گزر جائے گا ۔اور اسے میسج کردیا ۔

          میں : ۔ہائے کزن کیسی ہو ؟؟

          ماہ رخ : ۔ ہائے ہینڈسم ، تم کیسے ہو ؟؟؟

          میں : ۔ کزن کی بچی میرا مذاق اڑا رہی ہو ۔ میں جانتا ہوں کتنا ہینڈسم ہوں میں ۔

          ماہ رخ : ۔ جب تم ہینڈسم ہو تو ہینڈسم ہی بولوں گی نا ۔

          میں : ۔ تمھاری بہن کو تو نہیں لگتا کہ میں ہینڈسم ہوں وہ تو کہتی ہے کہ شکر مناو میں تمھاری گرلفرینڈ بن گئی ہوں ورنہ تم سے کوئی لڑکی بھی نہ پٹتی ۔

          (ماہ رخ کو میرے اور نوشابہ کے بارے میں شروع سے ہی سب کچھ پتہ تھا)

          ماہ رخ : ۔ اسے بولو ایک بار تم سے دست بردار ہوکر تو دیکھے پھر پتہ چلے گا کہ لڑکیاں تم سے پھنستی ہیں یا تمہیں پھنساتی ہیں ۔

          میں : ۔ کیوں مجھے ایک سے بھی ختم کرانا چاہتی ہو ، مجھے بھی پتہ ہے کون پٹے گی مجھ سے ؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ میں ہوں نا ۔

          میں : ۔تمہیں پھنسانے میں محنت کیوں کروں تم تو ویسے بھی مجھے خوش کرنے ہی والی ہو ،ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔

          ماہ رخ : ۔ ارے واہ کزن جی تم تو پکے ہی ہوگئے ، اپنی گرلفرینڈ سے بولو ،وہ کرے گی تمہیں خوش ،ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔

          میں : ۔ اب وہ نہیں کرتی تو کیا کروں ؟ وہ تو کہتی ہے جو کروں گی شادی کے بعد ہی کروں گی۔

          ماہ رخ : ۔ بڑے تیز ہو کزن جی ، گرلفرینڈ نہیں مانی تو اس کی چھوٹی بہن پر ٹرائی شروع کردی ۔

          میں : ۔میں کب پھنسا رہا ہوں تمہیں ؟ تم تو خود ہی پھنسی ہوئی ہو تم ہی تو کہہ رہی تھی کہ میں تمہیں خوش کرنا چاہتی ہوں ۔

          ماہ رخ : ۔ نوشابہ کو پتہ چل گیا نا ،لگ پتہ جائے گا ۔

          میں : ۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا اگر اسے پتہ چل گیا تو ؟

          ماہ رخ : ۔ وہ تمہیں بھی مار ڈالے گی اور مجھے بھی ۔

          میں : ۔ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا تم اس سے بے فکر رہو اگر اسے پتہ چل بھی جاتا ہے تو وہ کچھ نہیں کہے گی مجھے پتہ ہے ۔

          ماہ رخ : ۔تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو ؟

          میں : ۔ کزن جی نوشابہ نے مجھے خود کہا ہے کہ وہ ہر خوشی صرف شادی کے بعد ہی دے گی اگر تمہیں زیادہ جلدی ہے تو کسی بھی لڑکی کو اپنی پارٹ ٹائم گرلفرینڈ بنا کر اس سے خوشیاں حاصل کر سکتے ہو ۔

          ماہ رخ : ۔ کیا مطلب ،چاہیے اس کی چھوٹی بہن سے بھی ؟؟؟؟؟

          میں: ۔ کسی بھی کا مطلب تو صاف صاف یہی ہے خواہ کوئی بھی لڑکی ہو اب اس میں اس کی بہن ہونے یا نا ہونے کی شرط تو نہیں ہے ۔اگر ایسا بھی کچھ ہوا تو میں خود ہی سنبھال لوں گا تم کیوں فکر کرتی ہو ۔

          ماہ رخ : ۔ کزن جی تم تو سنبھال ہی لو گے مگر پہلے ہی مذاق مذاق میں اتنا کچھ ہوگیا ہے اب میں لیمٹ کراس نہیں کروں گی.

          ماہ رخ کی یہ بات سنتے ہی میرے تو ٹٹے شاٹ ہو گئے یہ بھی کوئی بات ہوئی پہلے تو خود آگے پیچھے پھر رہی تھی اور جب میں نے رسپانس دیا تو لگی نخرے دکھانے ، سالی بہن چود نے کتنے دنوں سے تنگ کیا ہوا تھا ، میں نے بھی غصے میں اوکے بائے بول دیا ۔

          اس کے بعد اس کے کافی میسج آئے ، آئی ایم سوری ، میں تو مذاق میں ایسا کہہ رہی تھی ، تم تو ایک منٹ میں ناراض ہو جاتے ہو ، اچھا جیسا تم کہو گے ویسے ہی کروں گی وغیرہ وغیرہ اور جب میں نے کوئی رسپانس نہ دیا تو اس کی کال آگئی وہ بھی رسیوو نا کی بیل بج بج کر خود ہی بند ہوگئی مجھے بہت غصہ چڑھا ہوا تھا میں نے سوچا سالی ایک بار میرے نیچے آجا پھر دیکھ تیرے نخرے کیسے نکالتا ہوں.

          کچھ دیر بعد ہی نوشابہ کا میسج بھی آگیا لیکن میرا موڈ خراب ہو چکا تھا تو میں نے اسے کہہ دیا کہ صبح بات ہو گی ابھی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے

          میری طبیعت کا سن کر اس نے بھی ضد نہیں کی اور میں کچھ دیر غصے میں تلملاتا رہا پھر مجھے نیند آگئی۔

          اگلے دن صبح اٹھا تو ابو نے کالج سے چھٹی کرنے کا حکم سنادیا کیونکہ کھیتوں میں پانی وغیرہ لگانا تھا یہ سن کر میں نے کپڑے تبدیل کئے اور کھیتوں کی طرف چلا گیا ہماری زمینیں کچھ زیادہ تو نہیں ہیں لیکن اتنی ہیں کہ ہمیں گندم ،چاول،اور سبزیاں وغیرہ بازار سے نہیں لینی پڑتیں اور کچھ نہ کچھ آمدن بھی ہو جاتی ہے

          وہ سارا دن کھیتوں میں ہی گزرا ،دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھایا ،شام کو گھر آیا تو بہت تھک گیا تھا ،فریش ہونے کے بعد کھانا وغیرہ کھایا اور جیسے ہی سونے کے لیے لیٹا تو مجھے موبائل کا خیال آیا موبائل تو میں گھر ہی چھوڑ گیا تھا

          وہیں لیٹے لیٹے مشال کو آواز دی اور اسے موبائل لانے کو کہا اور مشال مجھے موبائل دے کر چلی گئی میں نے چیک کیا تو اس پر بہت سے میسج اور کالیں نوشابہ نے کی ہوئیں تھیں وہ بہت پریشان تھی میرے کال اور میسج کا جواب نہ دینے پر ۔ ماہ رخ کی بھی بہت سی کالیں اور میسج آئے ہوئے تھے جس میں اس نے مجھ سے سوری کیا تھا

          تھکاوٹ کی وجہ سے دل تو سونے کو کر رہا تھا لیکن نوشابہ کو بھی پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا اس لیے اسے میسج کر دیا ۔

          میں : ۔میری جان کیا ہوا ؟ کیوں اتنی پریشان ہورہی ہو ؟

          نوشابہ : ۔ شکر ہے تم نے میسج تو کیا ،میں صبح سے تمہیں میسج اور کالیں

          کر رہی تھی اور تم اٹھا ہی نہیں رہے تھے ،پریشانی سے میرا دماغ پھٹ جا رہا تھا بندہ جواب تو دیتا ہے میں سوچ رہی تھی پتہ نہیں مجھ سے کیا غلطی ہوگئی کہ بات نہیں کر رہے ہو ،کیا ہو گیا تھا ،تم ٹھیک تو ہو نا ؟

          میں : ۔ میں ٹھیک ہوں میری جان، بھلا میں تم سے ناراض کیسے ہو سکتا ہوں۔آج تو سارا دن ہی بہت مصروف گزرا ہے کیونکہ کھیتوں کو پانی لگانا تھا اور میں صبح ہی وہاں چلا گیا تھا اور موبائل گھر پر ہی بھول گیا اسی لیے تمھارے میسج اور کال کا جواب نہیں دے سکا ۔

          نوشابہ : ۔ارسلان تمہیں کسی کا احساس بھی ہے تمہیں پتہ ہے میں کتنا پریشان ہوئی ہوں کوئی ایسا بھی کرتا ہے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ۔

          میں : ۔میری شہزادی تمھارا ہی احساس ہے اسی لیے تو اتنا تھکا ہوا ہونے کے بعد بھی تم سے بات کر رہا ہوں تم خود ہی اندازہ کر لو ، صبح گھر سے نکلا تھا اور ابھی واپس آیا ہو اور اب تم بھی مجھے ہی باتیں سنا رہی ہو ۔

          نوشابہ : ۔تمہیں نہیں سناؤں گی تو اور کس کو سناؤں گی، پریشان بھی تو تم نے ہی کیا ہے اگر موبائل ساتھ لے جاتے تو اتنا مسئلہ بھی نہیں ہوتا ۔

          میں : ۔اوکے میڈم جی آئندہ بالکل ایسا ہی کروں گا ،اب یہ بھی بتا دو آج کی غلطی معاف کرنے کا کیا لو گی؟

          نوشابہ : ۔میرے شہزادے ، لینے کو تو بہت دل کرتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی لے نہیں سکتی ۔

          میں : ۔ لینے کو تو آسانی سے لے سکتی ہو بس اپنی فضول ضد پر اڑی ہوئی ہو ۔

          اچھا یہ بتاؤ کیا بات کرنی تھی جس کے لیے سارے دن سے پریشان ہو رہی ہو ؟

          نوشابہ : ۔ ارے ہاں یار ،پہلے یہ بتاو ماہ رخ سے تمھاری کوئی بات ہوئی ہے کیا ۔

          میں : ۔کیوں اسے کیا ہوا ہے ؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔پہلے تم بتاؤ تو سہی میں پھر سب بتاتی ہوں ۔

          میں نے نوشابہ کو رات ماہ رخ سے ہونے والی سب باتیں بتا دیں اور رات نوشابہ سے بات نا کرنے کی وجہ بھی بتا دی ۔

          نوشابہ : ۔اچھا تو یہ بات تھی میں بھی کہوں اسے ہو کیا گیا ہے ایک دم ۔

          میں : ۔ کسے کیا ہوگیا ؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ماہ رخ کی بات کر رہی ہوں اور کسی کو کیا ہونا تھا ۔

          میں : ۔اچھا اب جلدی سے سب کچھ بتادو ،کل کیا ہوا اور پرسوں کیا ہوا تھا سب باتیں ۔

          پھر نوشابہ نے مجھے وہ ساری باتیں اور سب کچھ جو ان کے درمیان ہو مجھے بتانے لگی ۔

          یہاں میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آرہا ہے اور وہ یہ کہ نوشابہ اور ماہ رخ نے آپس میں جو کچھ بھی کیا کیوں نا نوشابہ کی زبانی بتایا جائے کیونکہ دونوں بہنوں میں ہونے والی چھیڑ چھاڑ ،ہلکا پھلکا مذاق اور چھوٹی چھوٹی سیکسی حرکتیں اگر ان کی ہی زبانی سنا جائے تو سٹوری کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          (اب آگے جو کچھ ان بہنوں کے درمیان ہمارے پلان کے مطابق ہوا نوشابہ کی زبانی سنیئے )

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          اس دن جب ارسلان نے مجھے اپنا پلان بتایا تو اس وقت میں مان گئی لیکن بعد میں پریشان ہوگئی کیونکہ ہم بہنوں میں آج تک کوئی اس قسم کی بات نہیں ہوئی تھی مجھے بار بار یہی سوچ ستا رہی تھی کہ میں اپنی بہن کے ساتھ یہ سب کیسے کرسکوں گی۔اس سے پہلے شاذونادر ہی ایسا ہوتا تھا کہ ہم بہنیں آپس میں اس طرح کی بات کریں ۔ میں نے تو کبھی ماہ رخ سے اس کے بوائے فرینڈ کی بھی بات نہیں کی تھی۔

          وہ تو اکثر ہی مجھے ارسلان کا نام لے لے کر ستاتی رہتی تھی اور مذاق بھی کر لیتی تھی مگر میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا تھا ۔

          اس دن وہ موبائل پر کسی سے میسجنگ کر رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ کہاں سے شروع کروں سوچتے سوچتے بس ایسے ہی میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور میں نے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

          یہ میرے لیے بڑی ہمت کا کام تھا لیکن یہ کام مجھے کرنا ہی تھا کیونکہ مجھے اپنے یار کو بھی تو خوش کرنا ہی تھا یہ رسک میں اپنے یار کے لیے ہی اٹھا رہی تھی میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر آج میں نے ہمت نہ کی تو اپنے شہزادے کو وعدے کے مطابق اپنی چھوٹی بہن کی پھدی نہیں دلا سکوں گی ۔

          ماہ رخ اس وقت سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور موبائل میں مصروف تھی اس نے اپنی دونوں ٹانگیں اوپر کی طرف موڑ رکھی تھیں جسکی وجہ سے اسکی پھدی واضع ہو رہی تھی میں نے ہاتھ بڑھایا اور سیدھا ماہ رخ کی پھدی کے اوپر رکھ دیا اسکی پھدی گیلی ہو رہی تھی میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اس وقت ضرور ارسلان سے ہی باتیں کر رہی ہے اسہی لیے تو میری بہن کی پھدی پانی چھوڑ رہی ہے میرے ہاتھ رکھتے ہی

          ماہ رخ کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور اس نے فوراً اپنی ٹانگیں بھینچ لیں ۔

          اس کے چہرے پر بناوٹی غصہ اور آنکھوں میں شرارت تھی ۔ماہ رخ کچھ دیر ایسے ہی مجھے دیکھتی رہی اس کے بعد ایکدم غصہ دکھاتے ہوئے بولی ۔

          ماہ رخ : ۔ کیا بدتمیزی ہے یہ تم نے اپنا ہاتھ کہاں رکھا ہوا ہے ؟

          میں (نوشابہ)۔کچھ نہیں ،بس کچھ چیک کر رہی تھی ۔

          ماہ رخ : ۔یہ کونسی جگہ ہے کچھ چیک کرنے کی ،اور چیک کر کیا رہی ہو ؟؟

          میں : ۔ میں دیکھنا یہ چاہتی تھی کہ میری بہن اسوقت کس سے باتیں کر رہی ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ تو یہ مجھ سے پوچھو نا ، اس پر ہاتھ رکھ کر کیسے پتہ چلتا ہے ۔

          میں : ۔ تم نے کونسا مجھے سچ بتا دینا ہے ، لیکن یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتی ۔

          ماہ رخ : ۔ اچھا تو کیا بتایا اس نے تمہیں ۔۔۔

          میں : ۔ یہ بتا رہی ہے کہ اس وقت تم اپنے بوائے فرینڈ سے باتیں کر رہی ہو ۔

          ماہ رخ : ۔جا اے ، میرا تو کوئی بوائے فرینڈ ہی نہیں ہے پھر میں اس سے باتیں کیسے کر سکتی ہوں ،تم بھی نا بس۔

          میں : ۔میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ تم جھوٹ بول دو گی مگر دیکھ کو اس نے نہیں بولا ۔

          ماہ رخ : ۔مجھے بھی تو بتاو تم یہ بات کیسے کہہ رہی ہو ؟؟؟

          میں : ۔کیوں کہ تم اپنے بوائے فرینڈ سے گرما گرم باتیں کر رہی تھی اسی لیے تمھاری یہ بلبل گرم ہو کر پانی چھوڑ رہی ہے کیا یہ ثبوت کم ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ تھوڑا شرماتے ہوئے ، کہا پانی چھوڑ رہی ہے ایویں ہی نا بے پر کی چھوڑا کرو ۔

          میں : ۔ اگر یہ گیلی نہیں ہے تو ابھی مجھے دکھاو ۔

          ماہ رخ : ۔کیوں ، میں تو نہیں دکھاوں گی ،مجھے شرم آتی ہے ۔

          میں : اور جب مجھے ننگی ہی واشروم میں بلا لیتی ہو اس وقت اور جب ننگی ہی میرے سامنے کمرے میں گھومتی رہتی ہو اس وقت تمھاری شرم سیر کرنے گئی ہوتی ہے اور اب مہارانی کو بڑی شرم آرہی ہے

          یہ کہتے ہوئے میں نے ماہ رخ کی دونوں ٹانگیں پکڑیں اور زور لگا کر کھولنے لگی

          ماہ رخ مزاحمت بھی کر رہی تھی اور زور زور سے ہنس بھی رہی تھی اور کہہ رہی تھی نوشابہ نہ کرو یار مجھے شرم آتی ہے مگر میں نے بھی اس کی ایک نہ سنی اور آخر اس کی ٹانگوں کو کھول ہی دیا اور اپنا ہاتھ اپنی بہن کی پھدی پر رکھ دیا جو اب اور بھی گیلی ہو چکی تھی ، ماہ رخ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا

          میں : ۔ ہاں اب بولو ،کیا اب بھی کہو گی کہ گیلی نہیں ہے ؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ نہیں مجھے نہیں پتہ بس تم نہ کرو پلیز نوشابہ ۔

          میں : ۔نہیں کروں گی پہلے تم بتاو تو سہی وہ ہے کون جس کے لیے تمھاری بلبل اتنے آنسو بہا رہی ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ یار نوشابہ نہ کرو ، یقین کرو کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے میں تو بس ایک دوست سے باتیں کر رہی تھی

          میں : ۔ اچھا جی ،پھر تو شاید تمھاری بلبل اس لیے رو رہی تھی کہ اسکا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ہے نا یہی بات؟

          ماہ رخ : ۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور یہ آج تمہیں ہو کیا گیا ہے پہلے تو کبھی ایسا نہیں کیا تم نے ؟

          میں : ۔چلو آج تو کرلیا نا ، اور اپنی چھوٹی بہن کا ہر طرح سے خیال رکھنا بھی تو میرا فرض ہے ۔اچھا یہ بتاؤ کہ کوئی لڑکا نظر میں ہے بھی یا پھر مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا ۔

          ماہ رخ : ۔نہیں جی آپکا بہت بہت شکریہ مجھے ایسے فضول شوق نہیں ہیں ۔

          میں : ۔تمہیں نہ سہی مگر تمھاری اس بلبل کو تو بہت ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ دیکھو میرا ہاتھ لگتے ہی اور زیادہ آنسو بہانا شروع کر دیے ہیں ۔

          (اس ساری بات چیت کے دوران میرا ہاتھ ماہ رخ کی پھدی پر ہی رکھا ہوا تھا اور میں اسے شلوار کے اوپر سے ہی سہلا رہی تھی جسکی وجہ سے ماہ رخ کو بھی مزہ آرہا تھا اسی لیے اس کی پھدی پہلے سے زیادہ گیلی ہو گئی تھی ماہ رخ اب مجھے روک نہیں رہی تھی اور اس کی آواز بھی دھیمی ہو گئی تھی، اپنی بہن کی پھدی کو چھیڑنے کی وجہ سے میں بھی گرم ہوتی جا رہی تھی اور میری پھدی سے بھی اب خوشی کے مارے آنسو نکلنے لگے تھے)

          ماہ رخ : ۔ یار نوشابہ ،اب تم ایسے چھیڑو گی تو اس نے تو رونا ہی ہے نا ۔

          میں : ۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا یہ تو خود ہی گیلی ہو رہی ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ اب ایسا بھی نہیں ہے اگر میں بھی تمھاری کے ساتھ ایسے ہی کروں تو تمھاری بھی پانی چھوڑنے لگے گی ۔

          میں : ۔ میری بھلا کیوں چھوڑنے لگی پانی ۔۔۔۔

          ماہ رخ : ۔ میں بھی ایسے ہی کرتی ہوں پھر دیکھوں گی چھوڑتی ہے یا نہیں ؟

          یہ کہہ کر ماہ رخ نے بھی اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا اور مزے کی ایک لہر میرے وجود میں دوڑ گئی اور میری پھدی جو پہلے ہی بھیگی ہوئی تھی اب اور تیزی سے بہنے لگی ۔

          ماہ رخ : ۔ ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہاہا۔

          میں : ۔ کیا ہے کمینی ،ہنس کیوں رہی ہے ؟

          ماہ رخ : ۔ارے یہاں تو پہلے سے ہی سیلاب آیا ہوا ہے اور باتیں تو سنو میڈم جی کی ۔

          میں : ۔ ہاں تو اس میں کیا ہے ؟ مجھے تو تمھاری بلبل نے گرم کردیا ہے جب سے اس پر ہاتھ رکھا ہوا ہے یہ مجھے بھی گرم کر رہی ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ جا اے جھوٹی ۔

          میں : ۔ ویسے ایک بات تو بتاو کیا تمہیں میرے سہلانے سے مزہ آرہا ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ مجھے نہیں پتہ ۔

          میں : ۔ بتا نا ماہ رخ کی بچی یہاں ہم دونوں ہی تو ہیں پھر کس سے شرما رہی ہو ۔

          ماہ رخ : ۔ رہنے ہی دو تم ، میری شرم نہ ہی کھلواو تو بہتر ہے بعد میں جھے جھیل نہ پاو گی تم مجھے جانتی نہیں ہو

          میں : ۔ چلو پھر کھل ہی جاو آج تو تمہیں بھی دیکھ ہی لوں ۔

          ماہ رخ : ۔ تو پھر اوپر سے کیوں کر رہی ہو یہاں سے کیا خاک مزہ آئے گا ہاتھ شلوار کے اندر ڈال کر کرو کچھ مزہ تو آئے ۔

          میں : ۔ بہت بڑی کمینی ہو تم (میں نے اپنا ہاتھ اسکے شلوار کے اندر ڈالتے ہوئے کہا)

          ماہ رخ : ۔میں نے تو پہلے ہی کہا تھا تھا مت کھولو مجھے ،اور ابھی تم نے میرا کمینہ پن دیکھا ہی کہاں ہے ۔

          میں : ۔وہ بھی دیکھ لوں گی ابھی تو یہ بتاؤ مزہ آرہ ہے ؟

          ماہ رخ : ۔ ہاں اب کچھ کچھ آنا شروع ہو ہے

          میں : ۔ تمھاری بڑی بہن کا ہاتھ تمھاری ننگی بلبل پر ہے اور تم کہتی ہو کہ کچھ کچھ مزہ آرہا ہے اور تم صرف اوپر سے ہاتھ پھیر رہی ہو اور میں مزے سے پاگل ہو رہی ہوں ۔

          ماہ رخ : ۔ کیا بلبل ،بلبل لگا رکھی ہے جو اصل نام ہے ہی لو نا اب تم کیوں شرما رہی ہو ۔

          میں : ۔اچھا تو میری کمینی بہن تمہیں واقعی مزہ نہیں آرہا ؟

          ماہ رخ : ۔ آ تو رہا ہے مگر تھوڑا تھوڑا ۔

          میں نے یہ سنا تو ماہ رخ کی طرف کروٹ لے لی وہ بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی میں نے اپنا دوسرا ہاتھ اس کی سر کے پیچھے سے گزارتے ہوئے اس کے ممے پر رکھ دیا اور دبانے لگی میرا ایک ہاتھ پہلے ہی ماہ رخ کی پھدی پر تھا جبکہ ماہ رخ کا ہاتھ میری پھدی سے ہٹ چکا تھا ۔ اس نے بھی اپنا ہاتھ بڑھایا اور میرا مما پکڑ لیا اور زور زور سے دبانے لگی ۔

          میں : ۔ ہاں اب بتاو آیا مزہ ؟

          ماہ رخ : ۔ ہاں اب کچھ زیادہ مزہ آنے لگا ہے ۔

          میں : ۔ ویسے میں ایک بات سوچ رہی ہوں مجھے یا تمہیں اس کام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا ہم تو بچپن سے ہی ایک ساتھ رہتے اور سوتے آئے ہیں ، کتنا مزہ آرہا ہے یہ سب کرتے ہوئے مجھے پہلے پتہ ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔

          ماہ رخ : ۔ ہاں یہ تو ہے مگر آج یہ تمہیں ہو کیا گیا ہے ایک دم بدل گئی ہو ۔

          میں : ۔یار وہ ارسلان ہے نا روز ہی مجھے گرم کر دیتا ہے باتیں ہی ایسی کرتا ہے کہ دل قابو میں نہیں رہتا ۔ بس آج تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا ۔

          ماہ رخ : ۔ تو ارسلان سے کہو نا وہ تمھاری ساری گرمی نکال دے گا اس کے پاس تو وہ ہے نا ۔

          میں : ۔ کیا ہے ارسلان کے پاس جس سے وہ میری گرمی نکالے گا ۔

          ماہ رخ : ۔سب پتہ ہے تمہیں ،اب میرے سامنے بچی نہ بنو ۔

          میں : ۔ بھلے سے پتہ ہو ،مگر میں تو تمھارے منہ سے سننا چاہتی ہوں ۔

          ماہ رخ : ۔ سچ میں بتادوں کیا ؟

          میں : ۔ ہاں اب بول بھی دو ۔

          ماہ رخ : ۔لن ، لن ہے ارسلان کے پاس جس سے تمھاری ساری گرمی نکل جائے گی

          میں : ۔ افففففففففف ،یہ کس چیز کا نام لے لیا کمینی پہلے ہی آگ لگی ہوئی تھی تم نے اور تیل ڈال دیا ۔

          ماہ رخ : ۔ تو ارسلان ہے نا اس سے بجھوا لو اس سے اپنی آگ ، اگر میرا کوئی بوائے فرینڈ ہوتا تو میں روز ہی اس سے اپنی آگ بجھواتی ۔

          میں : ۔ ارسلان کو بھی بہت جلدی ہے اس کام کی مگر میں ہی نہیں کرنے دیتی اسے ۔

          ماہ رخ : ۔ وہ بھلا کیوں ؟

          میں : ۔ وہ پھر کبھی بتاؤں گی ۔

          ماہ رخ : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔

          اس کے بعد بھی ہم کچھ دیر مزے لیتے رہے ابھی تک ہم دونوں میں سے کوئی بھی فارغ نہیں ہوئی تھی اور میں بھی نہیں چاہتی تھی کہ اسے فارغ کرکے ہاتھ سے فارغ ہونے کا چسکا نہ پڑ جائے میں تو چاہتی تھی کہ اس کی آگ روز بہ روز بڑھتی ہی رہے اور اس کام میں مجھے پہلے دن ہی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی تھی ارسلان نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ اب ماہ رخ کو ایک عدد لن کی اشد ضرورت تھی پھر میں ماہ رخ سے الگ ہوگئی اس نے ہلکا سا احتجاج بھی کیا کیونکہ وہ شاید فل مزہ لینا چاہتی تھی لیکن میں نے تھکاوٹ کا بہانہ بنا دیا پھر ہم نے ایک دوسری کے ہونٹوں پر کس کیا اور سو گئیں ۔

          صبح ہم دونوں ہی دیر سے اٹھے بقایا سارا دن روز کی طرح ہی نارمل رہا بس ہم دونوں ہی نارمل نہیں تھیں بار بار ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتیں رات کا نشہ ابھی تک اترا نہیں تھا ۔ماہ رخ نے مجھ سے دن میں بھی پوچھا کہ میں ارسلان کو کرنے کیوں نہیں دیتی تو میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ رات کو ہی بتاؤں گی ۔ماہ رخ کی بے چینی بتا رہی تھی کہ اسے رات کا کس بے صبری سے انتظار ہے

          آخر رات بھی آگئی میں ابھی گھر کے کام کاج کر رہی تھی اور ماہ رخ موبائل پر میسج کر رہی تھی پہلے تو وہ بالکل نارمل تھی لیکن کچھ ہی دیر میں اسکا چہرہ لٹک سا گیا اور موڈ آف ہو گیا اور وہ بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی کام کرنے کے بعد فارغ ہو کر میں ماہ رخ کے پاس آکر لیٹ گئی پر اس نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا میں نے کچھ دیر تو صبر کیا پھر خود ہی اس سے پوچھ لیا کیا بات ہے دن میں تو تم بہت بیچین تھی اور رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی اور اب رات ہوئی تو منہ لٹکا کر لیٹ گئی ہو

          ماہ رخ : ۔ کچھ نہیں بس میرا سر درد کر رہا ہے

          میں : ۔ ابھی تک تو ٹھیک ہی تھا پھر ایک دم سے کیسے درد کرنے لگا کیا ہوگیا تمہارے سر کو ۔

          ماہ رخ : ۔ مجھ نہیں پتہ ۔

          میں : ۔ تو پھر آج کچھ کرنا بھی نہیں ہے

          ماہ رخ : ۔ نہیں آج میرا موڈ نہیں ہے

          میں نے بھی مزید زور دینا مناسب نہیں سمجھا ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ شام تک تو بڑی جوش میں تھی اب اچانک اس کے موڈ کو کیا ہوگیا ۔اور یہی بات میں ارسلان سے پوچھنا چاہتی تھی کہ کہیں اس نے کچھ ایسا ویسا تو نہیں کہہ دیا جس سے ماہ رخ اپسیٹ ہو گئی ہے

          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          یہ تو وہ باتیں تھیں جو نوشابہ اور ماہ رخ کے بیچ ہوئیں ،اب چلتے ہیں میری اور نوشابہ کی بات چیت کی طرف۔۔۔۔۔۔۔

          نوشابہ : ۔اب تمھاری وجہ سے بنا بنایا کھیل بگڑ رہا ہے پھر مجھے گلہ مت کرنا۔

          میں : ۔ ارے یار نہیں ہونے دوں گا کھیل خراب تم کیا سمجھتی ہو کیا ایسے ہی چھوڑ دوں گا تمھاری بہن کی پھدی کو پھاڑے بغیر ؟

          نوشابہ : ۔ اگر تمھارے حالات ایسے ہی رہے تو اسکی پھدی خوابوں میں ہی پھاڑنا ۔ ایسے ہی ناراض ہوتے رہے اور کبھی اس کا دماغ گھوم گیا تو سوچ لو اسے لڑکوں کی کوئی کمی تو ہے نہیں کسی سے بھی پھڑوا کر آ جائے گی اور تم دیکھتے ہی رہ جاو گے اور یہ بات تم بھی جانتے ہو

          میں : ۔ ہاں جانتا ہوں ،تم فکر نہ کرو میں اسے ٹھیک کرلوں گا صبح کرتا ہو اس سے بات

          نوشابہ : ۔ صبح کیوں کرو گے ،ابھی کیوں نہیں کر لیتے ۔

          میں : ۔ یار تمہیں پتہ تو ہے آج میں تھکا ہوا ہوں نیند آرہی ہے

          نوشابہ : ۔ جانو جی ابھی تو صرف دو کھیتوں کو ہی پانی لگایا ہے اور یہ حال ہے اور جب دو دو بہنوں کا پانی نکالنا پڑے گا تو اس وقت کیا حال ہوگا تمھارا ابھی سوچ لو پھر مت کہنا ۔

          میں : ۔تم اس کی ٹینشن مت لو دو تو کیا تم سب بھی آجاو تو پرواہ نہیں ۔

          نوشابہ : ۔ وہ تو مجھ پہلے ہی پتہ ہے تم بہت کمینے ہو ۔

          میں : ۔ اگر میں کمینہ ہوں تو تم کون ہو ۔

          نوشابہ : ۔ میں ایک چھوٹ سی ،پیاری سی ،نازک سی کلی ۔

          میں : ۔ تو یہ نازک کلی ایک کمینے کے ساتھ کیا کر رہی ہے

          نوشابہ : ۔پیار کر رہی ہوں اس کمینے کو

          میں : ۔ سوچ لو اس کمینے کا پیار بہت مہنگا پڑ سکتا ہے

          نوشابہ : ۔کوئی بات نہیں وہ پیار ہی کیا جو مہنگا نا پڑے اور ہم بھی کوئی سستے شوق نہیں رکھتے ۔

          میں : ۔ خیر تو ہے بڑے ڈائیلاگ مارے جا رہے ہیں ،دن بہ دن تیز ہوتی جا رہی ہو

          نوشابہ : ۔ میں تو بہت معصوم تھی تم نے ہی کھول دیا مجھے ۔

          میں : ۔ کیوں الزام لگا رہی ہو ابھی کہاں کھولا ہے ابھی تو تمھاری بہن کو کھولنے کی تیاری کر رہا ہوں۔

          نوشابہ : ۔ بہت ظالم ہو تم ۔

          میں : ۔ اچھا ظالم کی جان اب سونے کی اجازت دو بہت تھک گیا ہوں میں ۔

          نوشابہ : ۔دل تو کر رہا ہے کہ تمہیں ساری رات نہ سونے دوں، مگر کیا یاد کرو گے جاو سو جاو ۔

          اس کے بعد میں کچھ دیر ماہ رخ کے بارے میں ہی سوچتا رہا کہ صبح اس سے بھی بات کرنی ہے اور اسے منانا بھی تو ہے پتہ نہیں اسے منانے میں کتنا ٹائم لگتا ہے اور ماہ رخ کو منانے کے بعد ۔۔۔وغیرہ وغیرہ اور یہی کچھ سوچتے ہوئے ہی نیند آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          اگلے دن صبح ٹائم پر آنکھ نہ کھل سکی اور تھکاوٹ کا سوچ کر کسی نے اٹھایا بھی نہیں ،کالج کا ٹائم نکل گیا تھا ۔

          ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد فارغ ہی تھا کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا دوست بھی سب کالج جا چکے تھے ۔ نوشابہ اور ماہ رخ بھی پڑھنے جا چکی ہوں گی ، کیونکہ اگر نہ گئی ہوتی تو ان کا میسج آگیا ہوتا ۔ میں بیٹھے بیٹھے بور ہوا تو باہر جانے کے کیے اٹھ کھڑا ہوا تو امی نے کہا ارسلان کہیں نکل مت جانا ، مجھے بھائی کے گھر جانا ہے کچھ کام ہے ۔

          میں نے پوچھا کس وقت جانا ہے تو بولیں بس چل رہے ہیں میں ذرا تیار ہو جاؤں. میں واپس بیٹھ گیا ،اور ماہ رخ کے بارے میں سوچنے لگا کہ اب مزید دیر کرنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بقول نوشابہ اگر واقعی اس کا دماغ پھر گیا تو بہت نقصان ہو جائے گا اور تم ہاتھ ملتے رہ جاو گے ۔

          کچھ ہی دیر میں امی تیار ہو کر آگئی اور ہم ماموں کی طرف روانہ ہو گئے اور 10 منٹ میں پہنچ گئے ۔

          پہلے ہم بڑے ماموں کے گھر گئے کیونکہ نانی امی انھیں کی طرف ہوتی تھیں اس لیے سب پہلے وہیں جاتے تھے۔

          ہم ابھی ادھر بیٹھے تھے کہ نوشابہ کی امی بھی وہیں آگئی ۔تھوڑی دیر بعد ممانی بولیں ،ارسلان بیٹے میں ادھر ہی بیٹھی ہوں ،نوشابہ اور ماہ رخ پڑھنے گئی ہیں اور سائمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ریحان بھی گھر پر ہے تم ایسا کرو ہمارے گھر چلے جاو ذرا سائمہ کا دھیان کرنا کہیں ریحان اس کو تنگ نہ کر رہا ہو ۔میں نے جی ممانی کہا اور نوشابہ کے گھر چلا گیا ۔

          سائمہ چھت پر تھی تو میں بھی وہیں چلا گیا وہ چارپائی پر لیٹی ہوئی لالی پاپ چوس رہی تھی (سائمہ کو بچن سے ہی لالی پاپ چوسنے کی عادت تھی اور اب بھی ہے) میں نے سائمہ سے ہاتھ ملایا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور کہا ۔

          میں : ۔ کیسی ہے میری چھوٹی سی کزن ۔

          سائمہ : ۔ میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں کزن بھائی ۔

          میں : ۔ میں تو ٹھیک ہی ہوں مگر سنا ہے کہ تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، ادھر ممانی تمھارے لیے اتنی پریشان ہیں اور میڈم یہاں پڑی لالی پاپ چوس رہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          سائمہ کا ہاتھ ابھی تک میرے ہاتھ میں ہی تھا اور اسکے نرم و نازک ہاتھ کا لمس ملتے ہی میرے اندر کا شیطان انگڑائیاں لینے لگا اور میں نے سوچا چلو آج چیک کر ہی لیا جائے کہ یہ میڈم ابھی کہاں تک پہنچی ہے ۔ یہ سوچ کر میں نے اپنی درمیان والی انگلی اس کی ہتھیلی پر رگڑی اور اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

          سائمہ نے ایکدم میری طرف دیکھا مگر کہا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ کچھ دیر میری طرف دیکھنے کے بعد بولی ۔

          سائمہ : ۔ امی کو تو بس پریشان ہونے کی عادت ہے مجھے کیا ہوا میں تو بالکل ٹھیک ہوں ۔

          میں : ۔ اگر بالکل ٹھیک ہو تو ابھی تک بستر پر کیوں لیٹی ہو ؟

          سائمہ : ۔ ایسے ہی بس صبح تھوڑا درد تھا اب بالکل ٹھیک ہوں ۔

          میں : ۔ اچھا جی آپ کہتی ہو تو مان لیتے ہیں ۔

          سائمہ : ۔ شکریہ ماننے کے لئے ۔

          میں اب سوچ رہا تھا کہ اسے کیسے چیک کروں اور کیسے باتوں کا رخ تبدیل کروں ؟؟؟؟؟ مگر کچھ سمجھ نہی آرہا تھا اسی وقت سائمہ بول پڑی ۔اور مجھے بات کرنے کا موقع فراہم کر دیا سائمہ نے ایک لالیپاپ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ، کھاو گے ؟؟؟؟؟

          اب اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانا بیوقوفی ہوتی ۔

          میں : ۔ جی نہیں کزن جی ، میرے پاس اپنا ہے بہت بہت شکریہ ۔

          سائمہ نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور میں سمجھ گیا لو جی شیلہ تو جوان بھی ہو گئی ہے اور سب کچھ جانتی بھی ہے ۔

          سائمہ کچھ دیر ایسے ہی دیکھنے کے بعد بولی ، ارسلان بھائی آپ بھی کھاتے ہیں لالیپاپ ؟؟؟؟۔

          میں : ۔ ہاں ، بلکہ میرے پاس تو بڑا سپیشل والا ہے ۔

          سائمہ : ۔ کہاں ہے مجھے بھی تو دکھاو ، میں نے بھی آپکے والا کھانا ہے ۔

          میں : ۔ میرے والا کھانے کے لیے نہیں ہے اسے صرف چوسا جا سکتا ہے ۔

          سائمہ : ۔ تو میں بھی چوس لوں گی آپ دو تو سہی ۔

          میں : ۔ دے دوں گا مگر ابھی نہیں پھر کبھی دوں گا

          سائمہ : ۔ ابھی کیوں نہیں ؟؟؟؟

          میں : ۔ ابھی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے ۔

          سائمہ : ۔ ارے واہ ، طبیعت کا لالیپاپ چوسنے سے کیا تعلق ہے ؟؟؟؟؟

          ابھی میں جواب دینے ہی لگا تھا کہ چھت کا دروازا ایکدم سے کھلا اور نوشابہ ادھر آگئی اس نے اپنا یونیفارم تبدیل کیا ہوا تھا یعنی کافی دیر سے آئی ہوئی تھی ، مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ خوشی سے کھل گیا

          اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولی

          تم کب سے آئے ہوئے ہو ؟؟؟؟

          میں : ۔صبح سے آیا ہوا ہوں ۔۔۔

          سائمہ اسی وقت بول پڑی ، نہیں جی نہیں آپی ابھی ابھی آئے ہیں

          میں : ۔ تم خاموش نہیں رہ سکتی باندری

          سائمہ : ۔میں نہیں ہوں کوئی باندری واندری ۔

          میں : ۔ تو پھر تمھاری آپی ہوگی ۔

          سائمہ : ۔ جی نہیں میری آپی بھی نہیں ہے سمجھے ۔

          اس دوران نوشابہ بس ہنس رہی تھی پھر مجھے پوچھا ، پھپھو بھی آئی ہیں تو میں نے جواب کہ ہاں آئی ہیں اور شکیل ماموں کے گھر ہیں اس پر نوشابہ بولی پہلے میں پھوپھو سے مل آؤں پھر آکر تمہیں پوچھتی ہوں ۔

          نوشابہ نیچے چلی گئی اور اس کے جاتے ہی ماہ رخ دوڑتی ہوئی اوپر آگئی ،شاید نوشابہ نے اسے میرے بارے میں بتا دیا تھا ، اس نے آتے ہی مجھ سے ہاتھ ملایا اور میرا حال چال پوچھا ، میں نے بھی نارمل ہی بات کی کیوں کہ سائمہ ساتھ ہی بیٹھی تھی ، ماہ رخ اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر سائمہ کی وجہ سے خاموش تھی۔ ماہ رخ بھی وہیں بیٹھ گئی اور مجھے پیار اور دکھ بھری نظروں سے دیکھنے لگی کچھ دیر بعد ممانی کی آواز آئی وہ ماہ رخ اور سائمہ کو نیچے بلا رہی تھیں وہ دونوں نیچے چلی گئی اور کچھ ہی دیر بعد نوشابہ چھت پر پہنچ گئی اور آتے ہی مجھ سے لپٹ گئی کیونکہ یہاں اور کوئی نہیں تھا اور میں نے بھی اسے خود سے لپٹا لیا اور اس کی کمر پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا ۔کمر سے میں اپنا ہاتھ اس کی گانڈ پر لے گیا اور دونوں سائیڈوں کو سہلانے لگا اور ساتھ ساتھ گانڈ کی لکیر پر بھی ہاتھ پھیر دیتا تھا نوشابہ کچھ بھی نہیں بول رہی تھی بس مجھے زور سے جھپی ڈالے چپ چاپ کھڑی تھی ۔

          میں نے نوشابہ کو خود سے پیچھے ہٹایا اور اس کے گال پر کس کردی اور ہونٹوں کو چومنے ہی والا تھا کہ نوشابہ بڑی شوخی سے بولی ، میں تو باندری ہوں نا اب اس باندری کو کیوں کس کر رہے ہو؟

          میں : ۔ تم تو میری جان ہو ،میری زندگی ہو ، میری شہزادی ہو ۔

          نوشابہ : ۔ نہیں جی اب تو میں باندری ہی ہوں ۔۔۔۔۔

          میں : ۔ تو پھر اس حساب سے میں کیا ہوا ؟؟؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ باندر ،ہاہاہاہاہاہاہا

          میں : ۔ اب زیادہ باتیں نا بناؤ ٹائم کم ہے کوئی آ جائے گا ۔

          نوشابہ : ۔تو پھر کیا کروں ؟؟؟؟

          میں : ۔ پیار ۔

          اور یہ کہتے ہی اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسکے نرم و ملائم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔نوشابہ نے اپنے ہونٹ بالکل ڈھیلے چھوڑ دیے اور ہم بڑے پیار سے ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے لگے ۔

          ہم دونوں ہی اناڑی تھے پھر بھی بہت مزہ آرہا تھا ۔ ہم دونوں ہی مدہوش ہو چکے تھے ۔

          ابھی دو منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہمیں دروازے کی طرف سی ہنسنے کی آواز آئی جب اس طرف دیکھا تو ماہ رخ دروازے میں کھڑی مسکرا رہی تھی ۔

          ہماری دھڑکن بے ترتیب ہوگئی تھی اور چہرے خوف سے سرخ ہوگئے تھے لیکن ماہ رخ کو دیکھ کر کچھ سکون ملا ، کیونکہ اس کی تو خیر ہے اگر کوئی اور دیکھ لیتا تو بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ۔

          تبھی ماہ رخ کی آواز آئی ۔

          ماہ رخ : ۔ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟؟؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ (نظریں نیچی کر کے) کچھ بھی نہیں ۔

          ماہ رخ : ۔ مجھے تو لگتا ہے لو برڈز چونچیں لڑا رہے تھے ۔

          میں : ۔ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا ۔

          ماہ رخ : ۔ ویسے اگر تم چاہو تو میں نیچے چلی جاتی ہوں اور پہرا بھی دے سکتی ہوں ، مگر میری ایک شرط ہے ۔

          نوشابہ : ۔کوئی ضرورت نہیں ہے ہم ایسا کچھ نہیں کر رہے ہیں جس کے لیے پہرے کے ضرورت ہو ہم تو صرف باتیں کر رہے تھے ۔

          میں : ۔ شرط بتاؤ اپنی ؟؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ یہ ہوئی نا بات ، (مسکراتے ہوئے ) تمہیں میری شرط کا پتہ تو ہے کیا ہوگی ۔

          میں جانتا تھا کہ اس کی شرط زیادہ سے زیادہ مجھے منانے کی ہوگی یا خود کچھ کرنا چاہتی ہوگی ، اور ان دونوں صورتوں میں فائدہ تو میرا ہی تھا ، یہ سوچ کر میں نے کہہ دیا کہ مجھے تمھاری ہر شرط منظور ہے اب نیچے جاو اور کسی کو بھی اوپر نہ آنے دینا جب تک ہم نیچے نا آجائیں اور اگر کوئی آئے تو آواز دے دینا ۔ ماہ رخ شرارتی انداز میں مسکرائی اور اوکے کہہ کر نیچے چلی گئی ۔ اور میں نے نوشابہ کو دوبارا پکڑ لیا اور دیوار کے ساتھ لگا لیا ۔

          اب پوزیشن یہ تھی کہ نوشابہ کا منہ دیوار کی طرف تھا میں نے اسے پیچھے سے جھپی ڈالی ہوئی تھی اور اسے کس بھی کر رہا تھا نوشابہ نے اپنی گردن جہاں تک مڑ سکتی تھی میری طرف موڑ رکھی تھی اور کس کرنے میں میری مدد کر رہی تھی ۔

          آہستہ آہستہ جوش بڑھتا جا رہا تھا اب میں نے اپنے دونوں ہاتھ نوشابہ کے مموں کے اوپر رکھ دیے تھے ۔ نوشابہ کے ممے اتنے بڑے نہیں تھے ایک ہاتھ میں ایک مما آسانی سے آ جاتا تھا ۔ کچھ یہ وجہ بھی تھی کہ میں ان تینوں بہنوں کا دیوانہ ہوتا جارہا تھا کیونکہ مجھے چھوٹے چھوٹے ممے والی لڑکیاں بہت پسند تھیں شاید میری کمزوری بھی تھے ۔

          میں دونوں ہاتھوں سے نوشابہ کے ممے دبا رہا تھا اچانک نوشابہ نے اپنے ممے سے میرا ایک ہاتھ پکڑا اور شلوار کے اوپر سے اپنی پھدی پر رکھ دیا ، میں سمجھ گیا کہ میری جان اب کیا چاہتی ہے ۔

          میں نے ایک بار اس کی پھدی کو شلوار کے اوپر سے ہی پکڑ کر دبایا اور پھر اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیا چونکہ شلوار میں لاسٹک ڈالی ہوئی تھی اس لیے ہاتھ آسانی سے اندر چلا گیا اور میں اس کی پھدی پر ہاتھ پھیرنے لگا نوشابہ کی پھدی بہت نرم و ملائم تھی اس پر ایک بھی بال محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔

          میرا لن بھی فل مستی میں کھڑا ہو کر جھوم رہا تھا لیکن انڈر وئیر کی وجہ سے سیدھا نہیں ہو پا رہا تھا , اور اسہی طرح نوشابہ کی گانڈ کو ٹچ ہو رہا تھا ۔

          نوشابہ بھی اس وقت فل مستی میں تھی اور اپنی گانڈ کو میرے لن پر رگڑ رہی تھی ۔

          کچھ دیر بعد نوشابہ نے اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر رکھے اور ہونٹ میرے ہونٹوں سے جدا کرکے بولی ۔

          ارسلان میری جان ذرا تیز کرو بہت مزہ آرہا ہے افففففف ہاں اور تیز مجھے کچھ ہو رہا ہے

          میں پہلے ہی نوشابہ کہ پھدی کو سہلا رہا تھا اب سپیڈ بڑھا دی ابھی تک میں نے اپنی انگلی نوشابہ کی پھدی کے اندر نہیں ڈالی بس پھدی کی لکیر میں ہی گھما رہا تھا ۔

          اب نوشابہ کی آوازیں تیز ہوگئیں تھیں وہ بری طرح سے مچل رہی تھی ایسے لگتا تھا جیسے اس کے اندر کوئی طوفان مچل رہا تھا میرا ہاتھ بھی اسکی پھدی پر تیز چل رہا تھا اچانک نوشابہ کا جسم اکڑنے لگا اور اسکی پھدی سے محبت کا دریا بہنے لگا وہ کافی دیر تک جھٹکے کھاتی رہی پھر نڈھال ہوکر مجھ پر ڈھے سی گئی اور سارا وزن مجھ پر ہی ڈال دیا ۔ طوفان اب تھم چکا تھا میرا ہاتھ اسکی پھدی کے پانی میں فل گیلا ہوگیا تھا میں نے اسکی شلوار سے اپنا ہاتھ باہر نکال لیا اور قریب ہی پڑے ہوئے کپڑے سے اسے صاف کیا اور پھر وہ کپڑا نوشابہ کو دے دیا اس نے کپڑا مجھ سے لیا اور شلوار کے اندر ڈال کر اپنی پھدی کو اچھے سے صاف کیا۔

          اس کے چہرے پر بے انتہا سکون تھا اور آنکھوں میں بے حساب پیار اور وہ ایک ٹک مجھے ہی دیکھے جا رہی تھی ۔

          آخر میں نے ہی خاموشی کو توڑا اور پوچھا ، مزہ آیا نوشابہ ؟؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ ہاں ، بہت زیادہ مزہ ۔

          میں : ۔تو اب پھر ؟؟؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ تو اب پھر ، تمہیں بھی مزہ لینا ہوگا ایسے تو تم مجھے جانے نہیں دو گے ، مجھے پتہ ہے ۔

          میں : ۔اب تو بہت سیانی ہو گئی ہے میری شہزادی سب سمجھ لیتی ہے خود ہی ، اچھا اب جلدی کرو نا ۔

          یہ سن کر نوشابہ ہنس پڑی اور میرے سامنے آکر بیٹھ گئی اور میری زپ کھول کر انڈر وئیر میں سے لن کو باہر نکال لیا ۔

          پینٹ نیچے کرنے کا خطرہ ہم دونوں ہی نہیں لینا چاہتے تھے ۔

          میرا فل کھڑا ہوا لن نوشابہ کے سامنے تھا اور وہ اس کے اوپر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔

          نوشابہ : ۔ جانو جی یہ اس دن سے بھی زیادہ بڑا نہیں ہوگیا ؟؟؟؟؟

          میں : ۔نہیں یار اتنا ہی ہے بڑا کب ہوا ہے ۔

          نوشابہ : ۔ یہ تو ہمیں اس وقت پتہ چلے گا جب یہ ہماری پھدیوں کو پھاڑتا ہوا اندر جائے گا ، ہماری پھدیوں کے حساب سے تو یہ بہت ہی بڑا اور موٹا بھی ہے ۔

          یہ کہتے ہوئے نوشابہ اٹھی اور میرے پیچھے آکر ویسے ہی کھڑی ہو گئی جیسے کچھ لمحوں پہلے میں اس کے پیچھے کھڑا ہو کر اسے مزے دے رہا تھا ۔

          جیسے میں پیچھے سے اسکی پھدی مسل رہا تھا نوشابہ بھی ویسے ہی میری مٹھ مارنے لگی ، میرا لن زپ کی وجہ سے فل آزاد نہیں تھا مگر پھر بھی بہت مزہ آرہا تھا ۔

          مٹھ مارتے مارتے نوشابہ بولی اب ماہ رخ سے صلح کر لینا ،اگر اس کی لینی ہے تو ۔

          میں : ۔ آج ہو جائے گی تم فکر نہ کرو ، ویسے تم کہاں تک پہنچی ہو ؟؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔ کل بھی کچھ نہیں ہو سکا ، آج پھر کوشش کروں گی۔میں : ۔ تمہیں کیا لگتا ہے وہ کب تک مان جائے گی ؟؟؟؟

          نوشابہ : ۔( اپنے ہاتھ پر تھوک لگا نے کے بعد) وہ تو مانی ہی ہوئی ہے اسے کیا منانا بس اظہار کروانا ہے ہم نے اس سے اور وہ بھی جلدی ہو جائے گا ، بس اب تم اس سے لڑائی مت کرنا ،ورنہ پھر گڑ بڑ ہو جائے گی ۔

          میں : ۔ وہ بات ہی ایسی کر دیتی ہے ،پھر بھی میں کوشش کروں گا ۔

          ابھی نوشابہ کو مٹھ مارتے ہوئے 2 یا 3 منٹ ہوئے ہونگے کہ مجھے اپنے اندر ہلچل سی محسوس ہوئی اور میں نے باتیں بند کیں اور نوشابہ سے کہا تیز تیز کرو ، میں ہونے والا ہوں ۔

          نوشابہ نے ایک بار پھر ہاتھ پر تھوک ڈال کر لن پر ملا اور تیزی سے ہاتھ چلانے لگی ۔ چند ہی لمحوں میں میرے لن سے منی کی پچکاری نکل نکل کر سامنے دیوار پر گرنے لگیں ۔

          فارغ ہونے کے بعد میں ویسے ہی چلتا ہوا چارپائی تک آیا اور سیدھا لیٹ گیا ۔

          میرا لن ابھی تک پینٹ سے باہر ہی تھا اور میں آنکھیں بند کیے ہوئے لیٹا ہوا تھا ۔ نوشابہ نے اسی کپڑے سے میرا لن اچھے سے صاف کیا پھر اسے اندر کرکے زپ بند کردی اسکے بعد دیوار کو صاف کیا ۔ پھر مجھے کہا کہ میں تمھارے کھانے کے لیے کچھ لاتی ہوں ۔ میں نے صرف، ہوں ، کیا اور آنکھیں بند کر لیں اور کچھ نہیں بولا ۔ پتہ نہیں مجھے کیوں تھوڑی سی کمزوری محسوس ہو رہی تھی ۔

          نوشابہ کے جانے کے کچھ دیر بعد ماہ رخ اوپر آئی اور میرے پاس آکر بولی ، اٹھو کزن جی ۔

          میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا ماہ رخ اپنے ایک ہاتھ میں دودھ کا گلاس اور دوسرے ہاتھ میں پھلوں کی چھوٹی سی ٹوکری لیے کھڑی تھی ،میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور پوچھا ، یہ کیا ہے ؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ مجھے کیا پتہ تمھاری گرلفرینڈ ہی لا رہی تھی میں نے کہا لاو میں دے آتی ہوں

          میں : ۔ تم کیوں آئیں ،اسے ہی آنے دیتی ۔

          ماہ رخ : ۔ یہ تو پکڑو ۔ میں نے اپنی شرط بھی تو بتانی تھی اسی لیے آئی ہوں ۔

          میں : ۔ چلو اچھا ،اب بتا بھی دو کیا شرط ہے تمھاری ؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔مجھ سے صلح کرنی ہے اور وعدہ کرنا ہے کہ آئندہ کبھی غصہ نہیں کرو گے ۔

          میں : ۔ بس یہی کچھ ، میں تو کچھ اور ہی سمجھا تھا ، میں اب تم سے ناراض نہیں ہوں ۔

          ابھی ہم نے یہی بات کی تھی کہ سائمہ بھی آگئی ،اور مجھ سے باتیں کرنے لگی۔

          دودھ کے بارے میں اس نے کوئی سوال نہیں کیا کیونکہ میں چائے نہیں پیتا اس لیے جب بھی آتا ہوں وہ مجھے دودھ ہی دیتے ہیں ، ماہ رخ بھی ساتھ ہی بیٹھی تھی جب اس نے دیکھا کہ سائمہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تو اس نے موبائل پر میسج کیا ۔

          ماہ رخ : ۔صلح کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔

          ویسے تم کیا سمجھے تھے ؟؟؟؟؟

          میں : ۔ میں تو یہ سمجھا تھا کہ تم کہو گی کہ نوشابہ کے ساتھ ابھی جو کیا ہے وہ مجھے بھی بتاؤ اور میرے ساتھ بھی وہی کرو ۔

          ماہ رخ : ۔ ہائے کتنے بے شرم ہو تم کزن جی ۔۔۔۔۔۔۔

          میں : ۔ اب میں نے جو سمجھا تھا تمہیں بتا دیا ۔

          ماہ رخ : ۔ میں تو کر بھی لوں ،اگر نوشابہ کو پتہ چل گیا تو پھر تم روتے پھرو گے ۔۔۔

          میں : ۔ تو تم اسے بتا دینا وہ کچھ بھی نہیں کہے گی۔

          ماہ رخ : ۔ نا بابا میں نہیں بتا سکتی ، اگر تم بتا سکتے ہو تو بتا دینا پھر میں تمہیں نہیں روکوں گی کچھ بھی کرنے سے ۔

          میں : ۔ کچھ بھی ؟؟؟؟؟ مطلب وہ بھی ؟؟

          ماہ رخ : ۔ وہ بھی کیا ؟ بس ابھی جتنا نوشابہ کے ساتھ کیا ہے اتنا ہی ۔

          میں : ۔تمہیں کیسے پتہ ، ہم نے ابھی کیا کچھ کیا ہے ؟

          ماہ رخ : ۔ بس پتہ ہے مجھے ۔

          میں : ۔ کیسے پتہ ہے ،بتا نا ۔

          ماہ رخ : ۔ میں نے دیکھا ہے سب کچھ دروازے کے پیچھے سے ، میں نیچے نہیں گئی تھی ادھر ہی چھپ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔

          مجھے اسکی بات پر پہلے تو غصہ آیا پھر میں نے سوچا یہ بھی اچھا ہی ہے کہ اس نے سب دیکھ لیا اب لائن پر جلدی آئے گی ۔

          میں : ۔ بہت بڑی کمینی ہو تم ۔

          ماہ رخ : ۔ وہ تو میں ہوں ، ایک بات کہوں ،اس دن تم مجھے ٹھیک ہی ڈرا رہے تھے۔

          میں : ۔ کیا تم نے وہ بھی دیکھ لیا ؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ ہاں مگر صرف ایک دو دفہ کیونکہ تمھارا رخ دوسری طرف تھا ۔

          میں : ۔ اب دکھا دوں کیا ؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ نہیں نہیں ،بچی مارنی ہے کیا میں تو دیکھ ہی لوں گی لیکن سائمہ تو شیش ناگ کو دیکھ کر بیہوش ہی ہو جائے گی ۔

          میں : ۔ نہیں مرے گی وہ بچی تھوڑی ہے

          اب وہ بھی جوان ہو چکی ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ بڑا پتہ ہے تمہیں ہم بہنوں کے جوان ہونے کا ، اچھا اس بارے میں بعد میں بات کروں گی ابھی مجھے نیچے جانا ہے ۔

          اس کے بعد ماہ رخ نیچے چلی گئی اور میں سائمہ سے مستیاں کرنے لگا اور جان بوجھ کر اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جنہیں وہ اچھی طرح سے سمجھ بھی رہی تھی اور نروس بھی ہو رہی تھی ،اسی لیے نیچے آنے کے لیے جلدی ہی اٹھ گئی اور میں بھی اس کے ساتھ ہی نیچے آگیا.

          جاری ہے
          جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
          ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

          Comment


          • #6
            شام تک ہم وہاں رہے اور پھر واپسی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ، سب نے بہت روکا ، نوشابہ نے تو باقاعدہ ناراض ہونے کی دھمکی بھی دے دی ،مگر امی رک نہیں سکتی تھیں اسی لیے مجھے بھی واپس آنا پڑا ۔رات کو ہم سب بیٹھے ہوئے تھے کہ نوشابہ کا میسج آگیا ۔

            نوشابہ: ۔ ارسلان تم نے آج واپس جاکر اچھا نہیں کیا .

            میں: ۔ میرا تو بہت دل کر رہا تھا کہ رک جاوں مگر امی کی وجہ سے مجبور ہو گیا ،میری جان تمہارے قریب رہنے کا موقع تو میں خود ڈھونڈتا رہتا ہوں ۔

            نوشابہ: ۔ اگر تم پھپھو کو کہتے تو وہ ضرور مان جاتیں۔

            میں: ۔ کہا تو تھا میں نے بھی ، مگر انھوں نے کہا کہ دو دن سے کالج کی چھٹی کر رہے ہو اور اگر یہاں ٹھہر گئے تو کل تیسری بھی ہو جائے گی ۔

            نوشابہ: ۔ اور میرا کیا ؟ میں تمہیں کتنا یاد کر رہی ہوں میرا کچھ احساس بھی ہے تمہیں؟

            میں: ۔ ارررررے میری شہزادی ، میں بھی تو تمہیں بہت مس کر رہا ہوں ،جب سے تمہیں ملا ہوں اب کہیں اور دل ہی نہیں لگ رہا ۔

            نوشابہ: ۔ اچھا جی ،اب تمہیں کہیں اور بھی دل لگانا ہے ؟

            میں : ۔ ہاں یاد آیا ، ماہ رخ نے آج سب کچھ دیکھ لیا تھا ۔

            نوشابہ : ۔تمہیں کیسے پتہ کہ اس نے دیکھ لیا ہے ؟

            میں : ۔ اس نے مجھے خود بتایا ہے کہ وہ نیچے جانے کی بجائے دروازے کے پیچھے چھپ گئی تھی ۔

            نوشابہ : ۔ماہ رخ تو بہت کمینی نکلی ، میں ابھی پوچھتی ہوں اس کتیا سے ۔

            میں : ۔اچھا ہی ہوا ،میری شہزادی کہ اس نے سب دیکھ لیا ، اب ہمارا کام اور بھی آسان ہو جائے گا ۔

            نوشابہ : ۔تمہیں تو بس اس کی پھدی مارنے کی فکر ہے ہر وقت ۔

            میں : ۔ ہاں تو اور کیا کروں ؟ تم اپنی پھدی مارنے دو پھر دیکھو ماہ رخ تو کیا دنیا کی کوئی لڑکی بھی میرے سامنے ننگی ہو کر کھڑی ہو جائے تو میں اس کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں ۔

            نوشابہ : ۔ ارے واہ ،کیا بات ہے میرے شہزادے آج تو بڑے ڈائیلاگ مار رہے ہو ،ذرا یہ تو بتاؤ جب ماہ رخ نے سب کچھ دیکھ لیا ہے تو تمھارا ہتھیار بھی ضرور دیکھا ہو گا ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا اس نے ؟

            میں : ۔نہیں ،ابھی اتنی اوپن نہیں ہوئی ،

            ویسے آج وہ بہت گرم ہوگئی ہوگی اس سے کھل کر بات کر لینا ۔

            نوشابہ : ۔ دیکھوں گی پہلے اس میم صاحبہ کا موڈ ،پھر ہی کوئی بات کر سکوں گی ۔

            میں نے ٹھیک ہے کہا اور اس کے بعد کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں ۔ آج ماہ رخ کا میسج نہیں آیا تھا اور میں نے بھی اسے میسج نہیں کیا تھا کیونکہ رات بہت ہوگئی تھی اور اس کے بعد میں سو گیا ۔

            اگلا دن بھی نارمل ہی رہا کالج سے آنے کے بعد میری نوشابہ سے کچھ دیر بات ہوئی میں نے رات کو ماہ رخ سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ رات کو بتاؤں گی ۔

            ماہ رخ سے بھی باتیں ہوئی لیکن وہ اتنی اہم نہیں تھیں اس لیے یہاں نہیں لکھ رہا

            خیر اسہی طرح سے دن گزر گیا پھر رات کے کھانے کے بعد میں نے خود ہی نوشابہ کو میسج کردیا ۔

            میں : ۔کہاں ہو میری شہزادی ؟

            نوشابہ : ۔ بس تمھاری ہی یادوں میں گم ہوں ۔ کیسے ہو تم ؟

            میں : ۔ٹھیک ہوں ؟ تم کیسی ہو ؟

            نوشابہ : ۔ تم ٹھیک ہو تو مجھے کیا ہوسکتا ہے ۔

            میں : ۔ میرے کام کا کیا بنا ؟ بات ہوئی ماہ رخ سے ؟

            نوشابہ : ۔ سمجھو تمھارا کام ہو ہی گیا ، بس اب تم اپنے ہتھیار کی دھار تیز کرلو ، اور تیار ہو جاو ۔

            میں : ۔ میں تو کب سے دھار لگائے تیار بیٹھا ہوں ،تم اپنی بہن کو تیار کرو بس ۔

            نوشابہ : ۔ وہ بھی سمجھو تیار ہی ہے بس کچھ دن اور ،اس کے بعد وہ خود کہے گی ، نوشابہ مجھے اپنے شہزادے کے ہتھیار سے قربان کروا دو ۔

            میں : ۔ بہت خوب ، اچھا یہ تو بتا دو کل رات کیا کچھ ہوا تم دونوں کے بیچ ۔

            نوشابہ : ۔ بتاتی ہوں بے صبرے ۔

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            اب آگے نوشابہ بتائے گی کہ اس کے اور ماہ رخ کے درمیان کیا کچھ ہوا ۔

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ارسلان کے جانے کے بعد سے ہی ماہ رخ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی میں سمجھ گئی کہ آج کام بن جائے گا ، اس وقت تک مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس نے مجھے اور ارسلان کو چھت پر وہ سب کرتے دیکھ لیا ہے اس بارے میں تو ارسلان نے مجھے رات کو بتایا تھا ۔ میں گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھی اور ماہ رخ بار بار مجھے آکر دیکھتی رہی اور پوچھتی رہی کہ کب سونے کے لیے چلو گی ، جلدی کام ختم کر لو ،اس کے بعد وہ میرے ساتھ رات کے کھانے کے برتن بھی دھلوانے لگی تو میں سمجھ گئی پچھلے دو دنوں کی کسر بھی آج نکلنے والی ہے ، کام ختم کرنے کے بعد ہم دونوں بستر پر چلے گئے اور میں ارسلان کے ساتھ بات کرنے لگی تو ماہ رخ نے پوچھا کس سے بات کر رہی ہو میں نے بتایا کہ ارسلان سے تو اس نے اور کوئی بات نہیں کی اور میری طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا ، مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا کیونکہ اب مجھے بھی اس کام کا چسکا پڑتا جا رہا تھا اور دوپہر کو جو کچھ ارسلان کے ساتھ کیا تھا اس کا نشہ بھی ابھی باقی تھا ، میں نے ماہ رخ کی طرف دیکھا ،اور پوچھا ،یہ کیا کر رہی ہو ؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ میں دیکھنا یہ چاہ رہی تھی کہ ارسلان سے بات کرتے ہوئے تمھاری بھی گیلی ہوتی ہے یا نہیں ۔

            میں : ۔کیوں کیا میں کیا کوئی وکھری (مختلف) ہوں کہ میری گیلی نہیں ہوگی آخر میں بھی انسان ہی ہوں میرا دل بھی مچلتا ہے میری بھی گیلی ہوتی ہے۔

            ماہ رخ : ۔ وہ تو میں نے آج دیکھ ہی کیا تھا کہ تمھارا دل کتنا مچلتا ہے ۔

            میں : ۔ کہاں دیکھا ہے تم نے ؟؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ یہ ابھی تمھاری بلبل کو چیک کیا ہے نا تو اسی نے بتایا ہے ،دیکھو کتنی گیلی ہو بھی گئی ہے ابھی کے ابھی ۔

            میں : ۔ یہ بلبل کیا ہوتا ہے ؟؟؟ اس دن کیا بات ہوئی تھی کہ آئیندہ اصل نام ہی لینا ہے ۔۔۔۔۔

            ماہ رخ : ۔ اچھا تو پھر لے دوں اصل نام ؟

            میں : ۔ تو اور کیا فارسی بول رہی ہوں ؟

            ماہ رخ : ۔ تمھاری پھدی کو چیک کرکے دیکھ لیا ، اب خوش ۔

            میں : ۔ ہائے اپنی چھوٹی بہن کے منہ سے پھدی سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے ۔

            ماہ رخ : ۔اب میں ہاتھ اندر ڈال لوں ؟؟؟

            میں : ۔ ہاتھ تو بے شک ڈال لو مگر پھدی کے اندر انگلی مت ڈالنا ،ارسلان نے سختی سے منع کیا ہے ۔

            ماہ رخ : ۔ یہ ارسلان بھی نا ، خود بھی اپنا ،، وہ ،، نہیں ڈالتا میری آپی کی پھدی میں اور نہ مجھ کچھ کرنے دیتا ہے ۔

            میں : ۔ارے ، اس کی تو اندر ڈالنے کی پوری کوشش ہے بس میں ہی اسے اندر نہیں ڈالنے دیتی ۔

            ماہ رخ : ۔ ویسے اگر برا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں ؟؟؟؟

            میں : ۔ہاں پوچھو , اب ہم صرف بہنیں ہی نہیں دوست بھی ہیں ،وہ بھی پکے والی ،اب تم کچھ بھی پوچھو میں برا کیوں مناوں گی ۔

            ماہ رخ : ۔ کیا تم نے ارسلان بھائی کا ،،وہ ،، دیکھا ہے ۔

            میں : ۔ ،،وہ ،، کیا ہوتا ہے کھل کر پوچھو نا ۔

            ماہ رخ : ۔ ممم میرا مطلب ہے لن ، ان کا لن دیکھا ہے تم نے ۔

            میں : ۔ ہاں یار دیکھا تو ہے ۔

            ماہ رخ : ۔ ہاتھ میں بھی پکڑا ہے ؟؟؟؟

            میں : ۔ہاں کئی بار ۔

            ماہ رخ : ۔ چوسا بھی ہے کبھی ؟؟؟؟

            میں : ۔ چھی ،کیسی گندی بات کر رہی ہو میں ایسا گندہ کام بھلا کیوں کرنے لگی ؟

            ماہ رخ : ۔اس میں گندہ کیا ہے ؟ میں نے تو سنا ہے کہ بہت مزہ آتا ہے اور لڑکے کو تو کچھ زیادہ ہی مزہ آتا ہے ۔

            میں : ۔ تمہیں کیسے پتہ ؟ کہیں تم نے کسی کا چوس تو نہیں لیا ؟

            ماہ رخ : ۔ ارے نہیں یار ،میری ایسی قسمت کہاں ۔میری ایک دوست ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ اسکا ایک بوائے فرینڈ ہے اور وہ اس کے ساتھ کرتی بھی ہے اور چوستی بھی ہے ۔

            میں : ۔ کیا تمھارا دل بھی لن چوسنے کو کرتا ہے ؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ ہاں بہت زیادہ کرتا ہے ۔

            میں : ۔ صرف چوسنے کو ہی کرتا ہے یا یہاں لینے کو بھی کرتا ہے (میں نے اس کی پھدی پر ہاتھ رکھ کر کہا )

            ماہ رخ : ۔ہاں دل تو یہاں لینے کو بھی کرتا ہے ۔

            میں : ۔ تو اب تک لیا کیوں نہیں ؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ میرا اب تک کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے نا اسلئے ابھی تک نہیں لیا ،ایک بار میں نے اپنی دوست کو بھی کہا تھا کہ اپنے بوائے فرینڈ سے کہو میرے ساتھ بھی کرے ،لیکن میری دوست نے صاف کہہ دیا کہ لڑکی اپنی ہر چیز شئیر کر سکتی ہے مگر ،یار ، کبھی نہیں ۔

            میں : ۔ پاگل ہو تم تو ، ایسے کسی انجان کے ساتھ کیسے کر سکتی ہو ، تمہیں پتہ ہے کتنی بدنامی ہوتی ہے ۔

            ماہ رخ : ۔ پتہ تو ہے مگر اب کیا کروں ؟ مجھ سے اور برداشت نہیں ہوتا ، اور شادی کا بھی دور دور تک کوئی چانس نظر نہیں آرہا ۔

            میں : ۔ کرتی ہوں میں ہی کچھ تمھارا ۔

            ماہ رخ : ۔سچی آپی ،آپ میرے لیے لن کا بندوبست کرنے کی بات کر رہی ہو نا ؟؟

            میں : ۔ہاں اور کیا ، اب کچھ کرنا تو پڑے گا ہی ۔

            ماہ رخ : ۔ ہائے آپی تمھارا کس منہ سے شکریہ ادا کروں ؟ ویسے ایک بات تو بتاو ؟ ارسلان کا لن ہے کیسا ؟

            میں : ۔ تم نے دیکھ تو لیا ہی ہے اب مجھ سے کیا پوچھ رہی ہو ۔

            ماہ رخ : ۔میں نے کب دیکھا ان کا لن ؟؟؟

            میں : ۔مجھے سب پتہ ہے ،تم نے دروازے کے پیچھے سے ساری فلم دیکھی ہے ۔

            ماہ رخ : ۔ کیییییییا تم جانتی تھیں ؟ پھر میرے سامنے وہ سب کیوں کیا ؟

            میں : ۔ پہلے تو مجھے غصہ آیا ،پھر میں نے سوچا میری پیاری بہن بھی تو ترس رہی ہے ، چلو اسی بہانے وہ بھی مزے لے لے گی ۔

            ماہ رخ : ۔شکریہ نوشابہ ، ویسے میں نے تمھارے ارسلان کا دیکھا تو تھا مگر ایک دو لمحے کے لیے اور وہ بھی دور سے اور ایک ہی بار ۔

            میں : ۔ او ہو مجھے بھی دھیان نہیں رہا ورنہ اس کا رخ ہی تمھاری طرف کر دیتی ،چلو کوئی بات نہیں پھر کبھی سہی ،پھر دل بھر کے دیکھ لینا ،میرے ارسلان کا لن ۔

            ماہ رخ : ۔ ہاتھ میں پکڑ کر کیسا لگتا ہے؟

            میں : ۔یار مت پوچھ اتنا مزہ آتا ہے گرم گرم ،سخت سخت ،میں تو یہ سوچتی ہوں جب یہ ہاتھ میں اتنا مزہ دیتا ہے تو پھدی میں جاکر کتنا مزہ دے گا ۔

            ماہ رخ : ۔یار نوشابہ ،میں نے بھی پکڑنا ہے ہاتھ میں پلیز کچھ کرو نا ۔

            میں : ۔ کرتی ہوں نا کچھ ،مجھے سوچنے تو دو ۔

            ماہ رخ : ۔جلدی ہی کرنا ،پلیز یار ۔

            میں : ۔اچھا نا میری جان ،کرتی ہوں ، تمھارے لیے نہیں کروں گی تو اور کس کے لیے کروں گی ۔

            میں اگر اس وقت چاہتی تو آسانی سے ماہ رخ کو ارسلان سے چدوانے کے لیے راضی کر سکتی تھی مگر ارسلان نے کہا تھا کہ جب تک ماہ رخ اپنے منہ سے نہ کہے کہ مجھے اپنی پھدی میں لن لینا ہے اس سے کوئی بات نہیں کرنی بس اسے گرم کرتی رہنا ۔

            اسی طرح باتیں کرتے کرتے ہم دونوں بہت گرم ہو چکی تھیں ایک دوسری کی پھدیوں کو تو ہم سہلا ہی رہے تھے اب ہم اپنا ایک ایک ہاتھ مموں پر بھی لے آئے تھی نیچے سے پھدی اور اوپر سے ممے۔

            ماہ رخ میرے ممے دبا رہی تھی اور میں ماہ رخ کے ممے دبا رہی تھی ۔

            کچھ ہی دیر میں ہمارے ہاتھ ایک دوسری کے کپڑوں کے اندر سے ننگے مموں کو دبانے میں مصروف ہوگئے ۔

            کپڑے ہم اتار نہیں سکتے تھے کیونکہ کمرے میں سائمہ اور دوسرے بچے بھی سوئے ہوئے تھے ۔

            آج ماہ رخ کچھ زیادہ ہی گرم ہو رہی تھی وہ میری گردن پر کسنگ کر رہی تھی جس سے میرے اندر کی آگ مزید بھڑکنے لگی ۔

            ہم دونوں کے لیے ہی یہ ایک نیا تجربہ تھا اور ہم اس کے مزے میں مدہوش ہوتے جا رہے تھے ۔

            کچھ ہی دیر بعد اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں پر تھے اور وہ کسی ایکسپرٹ کی طرح میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ۔

            مجھے کچھ کچھ شک سا ہو رہا تھا کہ جیسے یہ اسکی پہلی بار نہیں ہے یہ پہلے بھی کسی کے ساتھ ایسا کرتی رہی ہے۔

            مگر یہ وقت کچھ پوچھنے کا نہیں تھا بلکہ مزے لینے کا تھا میں نے اپنے ہونٹ ڈھیلے چھوڑ دیے اور ماہ رخ بڑی ہی نرمی سے میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ۔ وہ ایک بار میرے اپر لپ کو چوستی پھر بڑے مدہوش نظروں سے میری آنکھوں میں دیکھتی پھر میرے لوور لپ کو چوستی ،وہ بار بار ایسے ہی کر رہی تھی اس کی آنکھیں بھی شدت جذبات سے اس کے چہرے کی طرح سرخ ہو چکی تھیں ۔اس سب کو ہم دونوں خوب انجوئے کر رہے تھے مجھے ارسلان کے ساتھ آج دن میں ہونے والے مزے یاد آنے لگے جس سے میں اور بھی گرم ہوتی جا رہی تھی ،میں نے ماہ رخ کو پھدی تیز تیز مسلنے کو کہا تو اس کا ہاتھ اور تیزی سے میری پھدی پر چلنے لگا اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ، کچھ ہی دیر میں میں لطف و سرور کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگی ،میرا جسم اکڑنے لگا اور میں اپنی ہی چھوٹی بہن کے ہاتھ کو اپنی پھدی سے نکلنے والے گرم گرم پانی سے نہلانے لگی کچھ دیر میری یہی کیفیت رہی ،اور پھر میں پر سکون ہوتی چلی گئی ،اب میں مدہوش ہوکر لیٹی ہوئی تھی اور ماہ رخ مجھے ہلا ہلا کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ آگ صرف میری ہی بجھ سکی تھی ماہ رخ تو ابھی اس آگ میں جل رہی تھی ،مگر اب مجھ میں ذرا سی حرکت کی بھی ہمت نہیں تھی ،تھک ہار کر اس نے خود ہی اپنی پھدی میں انگلی کرنا شروع کردی ،میری آنکھیں تو بند ہی تھیں لیکن بستر کے ہلنے سے مجھ خوب اندازہ ہو رہا تھا ، اور اس کا ہلتا ہوا جسم بھی اس کی گواہی دے رہا تھا کچھ ہی دیر میں اس نے بھی اپنی منزل پا لی تھی اب ماہ رخ بھی پر سکون ہو چکی تھی ،ہم نے کوئی بات نہیں کی ،دونوں ہی نڈھال ہو کر سو گئیں ۔

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            اب آتے ہیں میرے اور نوشابہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کی طرف ۔

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            میں : ۔ واہ بھئی ،پھر تو میری شہزادی دونوں طرف سے مزے لوٹ رہی ہے ؟

            نوشابہ : ۔ہاں نا ،بہت مزہ آتا ہے یااااار چھوٹی بہن کے ساتھ یہ سب کرنے میں تو ۔

            میں : ۔ کہیں دونوں بہنیں آپس میں مزے لیتے لیتے مجھے ہی نہ بھول جانا، پھر میرا کیا بنے گا ؟

            نوشابہ : ۔ میرے شہزادے ،تمھارا لن بھی کوئی بھولنے والی چیز ہے اس کے بغیر تو ہم دونوں بھی ادھوری ہی رہ جائیں گی۔

            میں : ۔ یار اب جلدی ہی کرنا پڑے گا ،میں تو پاگل ہوا جا رہا ہوں تمھاری بہن کی پھدی مارنے کے لیے ۔

            نوشابہ : ۔ مل جائے گی بہت جلد مل جائے گی پھر جی بھر کے مارنا ،میری بہن کی پھدی ،تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ ماہ رخ اپنے منہ سے جب تک نہیں کہے گی ورنہ اب تک تو تم چود بھی چکے ہوتے اسے ۔

            میں : ۔ اگر اسے ہم خود کہیں گے تو بعد میں وہ کہہ سکتی ہے کہ مجھے تم دونوں نے مجبور کیا تھا ،لیکن جب وہ خود اپنے منہ سے کہے گی تو پھر یہ بہانا بھی نہیں بنا سکے گی

            نوشابہ :۔ یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔

            میں : ۔ اچھا ،میں ذرا اب ماہ رخ سے بھی بات کر لوں ۔

            نوشابہ: ۔بہت مطلبی ہو تم ارسلان ، میری بہن کی پھدی ملنے کا چانس بن رہا ہے تو مجھ سے پیچھا چھڑا رہے ہو ۔

            میں : ۔تم نے یہ کیا کہہ دیا میری جان ، ایسا بھی بھلا کبھی ہو سکتا ہے تم اپنے دل سے پوچھ کر دیکھو ۔

            نوشابہ : ۔ کیا پتہ چلتا ہے ،لوگ بدل بھی تو جاتے ہیں ۔

            میں : ۔کیا تم مجھے ان لوگوں جیسا سمجھتی ہو ،بھروسہ نہیں ہے مجھ پر ؟

            نوشابہ : ۔ ارے میری جان تم تو سیریس ہی ہو گئے ،میں تو صرف مذاق کر رہی تھی ،مجھے اپنی جان پر پورا بھروسہ ہے اسی لیے تو تمھارا ساتھ دے رہی ہوں ۔

            میں : ۔ بہت کمینی ہو تم ،ایک بار میرے ہاتھ آجاو پھر بتاتا ہوں تمہیں ۔

            نوشابہ : ۔ ہاتھ آو۔ گی تو بتاؤ گے نا ، اب تو مجھے خوابوں میں ہی قابو کرنا،حقیقت میں بھول جاو ،ہاہاہاہاہا۔

            میں : ۔ کبھی تو آو گی ہی پھر دیکھوں گا ، اچھا اب بائے مجھے ماہ رخ سے بھی بات کرنی ہے اور پھر تم دونوں کو مزے بھی تو کرنے ہیں .

            نوشابہ : ۔ ہاں ہاں کرلو بات مگر جلدی سے فارغ کر دینا میری بہن کو ۔

            میں : ۔ ایک بار نیچے تو آنے دو پھر دیکھنا کیسے فارغ کرتا ہوں تمھاری بہن کو ۔

            نوشابہ : ۔ نیچے بھی آہی جائے گی ،اوکے بائے ،لو یو ۔

            میں نے بھی لو یو کہا اور ماہ رخ سے کیا بات کرنی ہے اس بارے سوچنے لگا ۔

            میں نہیں چاہتا تھا کہ ماہ رخ کو اندازہ ہو جائے کہ میں اس کی پھدی مارنا چاہتا ہوں اسی لیے جو بات بھی کرنی تھی سوچ سمجھ کر کرنی تھی ۔

            ابھی میں میسج ٹائپ کر ہی رہا تھا کہ ماہ رخ کا میسج آگیا ۔

            ماہ رخ : ۔ ہائے کزن جی ،کیسے ہو ؟

            میں : ۔ ہائے پیاری کزن ،میں تو مزے میں ہوں ،تم سناؤ ۔

            ماہ رخ : ۔ میں بھی . اچھا ایک بات تو بتاو ، تم اس دن سائمہ کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے ؟

            میں : ۔ میں نے کیا کہا تھا جی؟؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔یہی کہ وہ اب بچی نہیں رہی جوان ہو گئی ہے ۔

            میں : ۔ ہاں یہ تو کہا تھا میں نے ۔

            ماہ رخ : ۔کہاں ہوئی ہے جوان وہ ابھی

            چھوٹی سی بچی ہی تو ہے تم نے کیا دیکھ لیا اس میں جوانی والا ؟

            میں : ۔بچی نہیں ہے وہ ،سمجھی ۔۔ اس کی بیک دیکھی ہے تم نے ؟ تم سے کچھ کم ہے مگر نوشابہ سے بھاری ہو گئی ہے ۔

            ماہ رخ : ۔ تم بس ہم بہنوں کی بیک ہی دیکھتے رہتے ہو ؟؟؟ کسی بہن کو تو بخش دو ۔

            میں : ۔ میں نے کب پکڑا ہے تم بہنوں کو ؟؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔پکڑ تو لیا ہے اور کیسے پکڑو گے

            ویسے بیک بڑی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بچی جوان ہو گئی ہے ۔وہ ابھی بچی ہی ہے ،کیونکہ ہماری امی کی بیک بڑی ہے اس لیے ہم بہنوں کی بھی بڑی ہے ۔

            میں : ۔ اگر یہ بات ہے تو نوشابہ تم سے بھی بڑی ہے ،اس کی تو پھر تم سے بھی بڑی ہونی چاہیے تھی ۔

            ماہ رخ : ۔ اس بات کا مجھے نہیں پتہ ۔ تمھاری محبوبہ ہے تم خود ہی کر لو نا اسکی بڑی ۔

            میں : ۔ میرے تو ہاتھ ہی نہیں آرہی ورنہ میں تو اس کا بہت کچھ بڑا کردوں ۔

            ماہ رخ : ۔ کیسے مرد ہو اتنی سی لڑکی قابو میں نہیں آتی اور باتیں کرتے ہو بڑی بڑی ۔

            میں : ۔ مجھے اگر ایسے کرنا ہوتا تو کب کا کر چکا ہوتا ،مگر میرا اصول ہے جب تک کوئی خود سے نہ کہے میں کچھ نہیں کرتا ۔

            ماہ رخ : ۔ واہ کزن جی ،بڑے پکے ہو اپنے اصول کے ۔

            میں : ۔ تو اور کیا جس کو بھی کسی چیز کی طلب ہو اسے مانگ لینا چاہیے ، مجھے جو کچھ چاہیے ہوتا ہے میں تو مانگ لیتا ہوں ۔

            ماہ رخ : ۔ اچھا جی ۔۔۔۔۔

            میں : ۔ ہاں جی ، ویسے سننے میں آرہا ہے نوشابہ کے ساتھ آجکل تمھاری بڑی گہری دوستی ہو گئی ہے ۔

            ماہ رخ : ۔ ہاں ،تمہیں نوشابہ نے بتایا ہے کیا ؟؟؟؟؟؟

            میں : ۔ہاں اور کیا ۔ نوشابہ تو مجھے سب کچھ بتا دیتی ہے ۔

            ماہ رخ : ۔ سب کچھ ؟؟؟؟ اور کیا کچھ بتایا ہے نوشابہ نے تمہیں؟

            میں : ۔ مجھے کیا پتہ اسی سے پوچھ لو ۔

            ماہ رخ : ۔ واہ جی واہ ۔

            میں نے جان بوجھ کر ماہ رخ کو یہ بتایا تھا کہ مجھے سب علم ہے تاکہ اس کی جھجک کچھ اور کم ہوسکے سمجھ تو وہ بھی رہی ہوگی ہم دونوں کے رویے سے ۔ اس کے بعد بھی ہماری بہت سی باتیں ہوئیں پھر میں سو گیا ۔

            آج ہفتہ تھا اور صبح ہی میرا پروگرام پکا ہو گیا تھا کہ آج رات نوشابہ کے گھر گزاروں گا ،تیار ہو کر کالج چلا گیا اور جب واپس آیا تو مشال (چچا کی چھوٹی بیٹی) کو تیار ہونے کا کہا اور شام ہونے سے پہلے ہی ماموں کے گھر پہنچ گئے۔ نوشابہ اور ماہ رخ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ،ہم تینوں آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے اور وہ دونوں بہنیں آتے جاتے مجھے سمائل بھی پاس کر دیتی تھیں ہم تینوں کو ہی اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو ہمیں نوٹس کر رہا ہے ۔

            ہم تینوں ہی انجان تھے کہ ہمیں کون نوٹس کر رہا ہے اس بات کا پتہ ہمیں بہت بعد میں اس وقت چلا جب اس نے خود ہمیں اس کے بارے میں بتایا ۔

            رات کے کھانے کے بعد ہم سب بیٹھے ہوئے تھے ،نوشابہ کھانے کے برتن اٹھا رہی تھی سائمہ میرے ساتھ ہی بیٹھی تھی تھوڑے سے فاصلے پر ماہ رخ اور مشال باتوں میں لگی ہوئی تھیں بچوں نے شور مچایا ہوا تھا اور ٹی وی بھی اپنی سنانے میں لگا ہوا تھا ،ہم سب نارمل باتیں ہی کر رہے تھے ،اتنے میں سائمہ نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک لالیپاپ نکالا اور کھولنے لگی ۔میں سائمہ کی ہی طرف دیکھ رہا تھا،سائمہ نے میری طرف دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور ساتھ ہی آنکھوں میں بھی شرارتی سی چمک آگئی اور وہ لالیپاپ کھولتے کھولتے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔

            سائمہ : ۔ ارسلان بھائی ، میں تو آپ کے لالیپاپ کا انتظار کر رہی ہوں ۔

            سائمہ نے یہ شرارت میں بولا تھا جسکی وجہ سے اس کی آواز کچھ تیز تھی ،ماہ رخ نے ایک دم ہماری طرف دیکھا ،اس نے سائمہ کی بات سن لی تھی ۔۔۔۔۔۔

            میں بھی سمجھ گیا کہ ماہ رخ نے سائمہ کے بات سن لی ہے میں اب جان بوجھ کر شروع ہوگیا تاکہ ماہ رخ کا بھی سائمہ کے حوالے سے مائنڈ بن جائے ،اور جب میں سائمہ کو چودنے کا بولوں تو ماہ رخ یا نوشابہ کو شاک نہ لگے ۔

            ماہ رخ نے اب نظریں گھما لیں تھیں ،مگر میں جانتا تھا کہ اس کے کان اب اسی طرف لگے ہوں گے ،اسی لئے میں نے ذومعانی جواب دیا ۔۔۔۔

            میں: ۔ دے دوں گا ڈئیر کزن ،لیکن تم سے پہلے کسی اور کو بھی دینا ہے ۔

            سائمہ : ۔ کسی اور کو کیوں ،مجھے دو نا ،کیا میں پہلے نہیں لے سکتی ؟

            میں : ۔لگ تو رہا ہے کہ جیسے لے سکتی ہو مگر پہلے اس نے کہا ہے نا اسی لیے اسے ہی دینا پڑے گا ۔

            سائمہ : ۔ کس نے کہا ہے پہلے لینے کو ؟؟

            میں : ۔(ماہ رخ کی طرف دیکھتے ہوئے ) ہے کوئی پیاری سی دوست ۔۔۔

            سائمہ نے مڑ کر ماہ رخ کی طرف دیکھا کیونکہ میں بھی اسہی کی طرف دیکھ رہا تھا اور ماہ رخ نے بھی نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔

            سائمہ بھی اب کوئی بچی تو تھی نہیں وہ سب سمجھ رہی تھی کہ میں کس لالیپاپ کی بات کر رہا ہوں اور کس کو دینے کی بات کر رہا ہوں ،تبھی سائمہ نے مجھے آنکھوں سے ایک عجیب سا اشارہ کیا جسے میں سمجھ نہ سکا اور وہ ہنسنے لگی۔۔۔۔۔۔

            سائمہ : ۔ آپ کے پاس ایک ہی ہے کیا ؟؟؟

            میں : ۔ہاں بس ایک ہی ہے ۔

            سائمہ : ۔ وہ تو اسے دے دو گے ،پھر مجھے کیا دو گے ؟؟؟؟؟

            میں : ۔ بتایا تو تھا کہ وہ کھانے کے لیے نہیں بلکہ چوسنے کے لیے ہے ،اور چوسنے سے وہ ختم نہیں ہوگا ،چاہے تم سب چوستی رہو ۔

            سائمہ : ۔ اچھا جی ،پھر تو وہ ضرور کوئی سپیشل لالیپاپ ہوگا ،انتظار رہے گا اسے چوسنے کا ۔

            میں : ۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا میری پیاری سی کزن کو ۔

            سائمہ : ۔ اچھا جی ۔

            میری اور سائمہ کی ساری بات چیت ماہ رخ بڑے غور سے سن رہی تھی ، مجھے اس کے چہرے پر بے یقینی اور حیرت کے تاثرات نظر آرہے تھے ۔ میرے لیے اطمینان کی بات یہ تھی کہ اس کے چہرے پر غصہ نہیں تھا

            جاری ہے۔
            جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
            ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

            Comment


            • #7
              اس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رخ اس بات کو جلد ہی ہضم کر لے گی مجھے یہ بھی یقین تھا کہ ماہ رخ کبھی نہ کبھی یہ بات نوشابہ کو بھی ضرور بتائے گی ،چلو جو بھی ہو رہا تھا میرے لیے تو اچھا ہی تھا ،نوشابہ بھی آچکی تھی اور سب ڈرامہ دیکھ رہے تھے ، میں بھی ان سب کے ساتھ ڈرامہ دیکھنے میں مگن ہو گیا ،میرا موبائل سائیلنٹ پر لگا ہوا تھا میرا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا ڈرامہ ختم ہونے کے بعد دیکھا تو نوشابہ کا منہ لٹکا ہوا تھا،میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا تو اس نے منہ دوسری طرف کرلیا ۔میں سمجھ گیا کہ مجھ سے کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے ،میں نے میسج کرنے کے لیے موبائل نکالا تو دیکھا ،اس میں نوشابہ کے بہت سے میسج آئے ہوئے تھے، سب کوگ ڈرامے میں مشغول تھے اس وقت وہ چاہتی تھی کہ میں واش روم جانے کے بہانے باہر جاوں جہاں نوشابہ میرا انتظار کر رہی تھی ۔ میں میسج پڑھتا تو جاتا نا ، اب وہ ناراض ہوگئی تھی اور مجھے اپنی رات خراب ہونے کی فکر ہو گئی تھی ۔ میں تو یہاں مزے کرنے آیا تھا اور اگر اس کی ناراضگی ختم نہیں ہوتی تو میری رات یونہی خراب ہو جاتی ۔یہ سوچ کر میں نے میسج لکھ بھیجا ۔

              میں : ۔ سوری میری جان ! میں نے ابھی تمھارا میسج دیکھا ہے ۔

              نوشابہ : ۔ اوکے ۔

              میں : ۔ یار غصہ تھوک دو ،قسم سے میرا فون سائیلنٹ پر تھا ۔

              نوشابہ : ۔ میں نے کچھ کہا ہے ؟ میں سمجھی تھی تم یہاں میرے لیے آئے ہو ۔

              میں : ۔اس میں کوئی شک بھی نہیں ہونا چاہیے ، میں اپنی شہزادی کے لیے ہی آیا ہوں ۔

              نوشابہ : ۔اگر میرے لیے آئے ہوتے تو یہاں بیٹھ کر ڈرامے نہ دیکھ رہے ہوتے ۔

              میں : ۔اس طرح کے لاکھوں ڈرامے میں اپنی شہزادی پر وار دوں ،مجھے پتہ ہی نہیں چل سکا فون سائلنٹ پر ہونے کی وجہ سے ۔

              نوشابہ : ۔اچھا ۔

              میں : ۔ میں رات کو اپنی جان کے سب گلے شکوے دور کر دوں گا ۔

              نوشابہ : ۔ رات کو میں آؤں گی تو کرو گے نا ۔

              میں : ۔ آؤ گی کیوں نہیں ؟ میں صرف تمھارے لیے ہی تو یہاں آیا ہوں ۔

              نوشابہ : ۔میں نے کوئی نی آنا یہی تمھاری لاپرواہی کے سزا ہے ۔

              میں : ۔ نوشابہ یہ تو غلط ہے تمھیں پتہ بھی ہے ،میں صرف تیرے لیے ہی یہاں آتا ہوں ۔

              نوشابہ : ۔ جو بھی ہو میں کہہ دیا آج میں نے نہیں آنا ۔

              میں : ۔ تو پھر میں تمھارے پاس آجاؤں گا ۔

              نوشابہ : ۔ آجانا ، وہاں سب ہی ہونگے ۔

              میں : ۔ تو اچھا ہے سب کو ہی پتہ چل جائے گا ،ویسے بھی ماہ رخ ،سائمہ اور مشال کو تو پہلے ہی پتہ ہے ۔

              نوشابہ : ۔میں امی کے ساتھ سو جاؤں گی آج ۔

              میں : ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو میں آئیندہ کبھی بھی تمھارے گھر نہیں آؤں گا ۔

              نوشابہ : ۔ اتنی سی تو تمھاری برداشت ہے ذرا سی بات پر بلیک میل کرنے لگتے ہو ۔ جب مجھے اگنور کیا ہوا تھا اس وقت کہاں تھے ،ہاں ۔

              میں : ۔ مجھے کچھ نہیں پتہ ،اوکے

              نوشابہ : ۔ اوکے ۔

              نوشابہ کے اوکے ،کہنے کے بعد میں اٹھا اور بیٹھک کی طرف چلا گیا ، نوشابہ کا چھوٹا بھائی بھی میرے پیچھے آگیا ،اور بولا ارسلان بھائی آج میں بھی آپ کے ساتھ سو جاؤں ؟ میں نے کہا ،آجاو ۔اور ہم سونے کے لیے لیٹ گئے ۔

              میرے لیٹتے ہی نوشابہ کا میسج آگیا ، ناراض نہ ہو جانا ، میں رات کو آجاؤں گی ۔ میں نے پوچھا کس وقت آو گی تو بولی ،سب کے سونے کے بعد ۔ اس کے بعد ہماری کوئی بات نہیں ہوئی ،اور میں نوشابہ کا انتظار کرنے لگا ۔ نوشابہ کے بارے میں سوچ سوچ کر میرا لن ابھی سے کھڑا ہو گیا تھا ۔پتہ نہیں کیوں جب بھی میرا لن کھڑا ہونے کے بعد نارمل ہوتا ہے تو مجھے کمزوری سی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ امی بھی کئی بار مجھے ٹوک چکیں ہیں کہ ارسلان تم کچھ کمزور کمزور سے لگ رہے ہو۔ مجھے علم نہیں تھا کہ اسکا تعلق میری شہوانی خواہش سے تھا ۔ خیر بہت انتظار کرنے کے بعد نوشابہ کا میسج آگیا ۔

              نوشابہ : ۔ تم ادھر ہی آجاو ۔

              میں : ۔میں آجاؤں ؟ مگر آنا تو تمہیں تھا ؟

              نوشابہ : ۔ ہاں میں نے ہی آنا تھا ،مگر تم آجاو ،اور سنو ! دروزے سے باہر ہی رہنا اندر نہیں آنا ۔

              میں : ۔ کیا مطلب؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ ایک تو مطلب بہت پوچھتے ہو ، اچھا دیکھو ! دونوں دروازے تھوڑے تھوڑے کھلے ہونگے اور تم نے ان کی درمیان والی جگہ سے اپنا لن اندر ڈالنا ہے ، اور خود باہر کھڑے رہنا ہے ۔

              میں : ۔ یہ کیا ہے یار ؟ پچھلی بار بھی تم نے کچھ نہیں کرنے دیا ۔

              نوشابہ : ۔ پلیز ارسلان ! اس بار مان لو ،اگلی بار جیسے کہو گے میں ویسا ہی کروں گی ۔

              میں : ۔ مگر آج ایسا کیا ہے ؟

              نوشابہ : ۔ پلیز ! آج میری بات مان لو ، میں تمھاری ہر بات مانتی ہوں آج تم میری بات مان لو ، میں بعد میں سب بتا دوں گی کہ ایسا کیوں کیا ۔

              میں نے سوچا پتہ نہیں آج ایسی کیا بات ہے ، چلو اس کی بات مان لیتے ہیں ،خوش ہو جائے گی ،وہ تو مجھے اپنی بہنوں کی پھدی تک دلوا رہی ہے اور میں اس کے لیے اتنا بھی نہیں کرسکتا ۔

              میں نے اوکے بول اور ان کی طرف چلا گیا ، دروازہ اسہی طرح کھلا ہوا تھا جیسے نوشابہ نے کہا تھا ، میں اسی طرح دروازے کے درمیان میں کھڑا ہوگیا ، کھڑے ہوتے ہی میں نے محسوس کیا کہ دروازے کی دوسری طرف کوئی بیٹھا ہوا ہے اور یقیناً وہ نوشابہ ہی ہوگی ، میں نے ٹراؤزر پہنا ہوا تھا ،انڈر وئیر سونے کے لیے پہلے ہی نکال چکا تھا ۔میرے وہاں کھڑے ہوتے ہی نوشابہ کے ہاتھ میرے پیروں کی آئے اور اوپر کی طرف آنا شروع ہوئے ،اس کے ہاتھ آہستہ آہستہ میرے لن کی طرف آرہے تھے اور میرے جسم میں مزے کی لہریں دوڑ رہیں تھیں ۔ اس نے زیادہ ٹائم نہ لیا اور اپنا ہاتھ کپڑوں کے اوپر سے ہی میرے لن کے اوپر رکھ دیا کچھ دیر اس کے ہاتھ وہیں پر رکے رہے ،پھر وہ اسے آرام آرام سے دبانے لگی ،کبھی وہ دباتے ہوئے اپنا ہاتھ ٹوپی کی طرف لاتی ، اور کبھی ٹٹوں کی طرف لے جاتی ۔کچھ دیر اس نے ایسا کرنے کے بعد میرا ٹروزار نیچے کر دیا ،اور میرا لن لہراتا ہوا باہر نکل آیا ۔ نوشابہ میرے اتنے قریب بیٹھی تھی کہ جیسے ہی میرا لن باہر نکلا تو اس کے چہرے پر ٹکرایا ،اور ایک نرم و ملائم احساس لن کے راستے میرے جسم میں پھیل گیا ۔ اب وہ لن کو پکڑے بغیر اس پر ہاتھ پھیر رہی تھی ، میں سوچ رہا تھا ،آج نوشابہ اتنی دیر کیوں لگا رہی ہے ،پہلے تو وہ لن ہاتھ میں آتے ہی جلدی جلدی مٹھ مار کر فارغ کرنے کی کوشش کرتی تھی مگر آج تو اس کا انداز ہی مختلف تھا ۔کچھ دیر ہاتھ پھیرنے کے بعد وہ اپنا چہرہ لن کے پاس لے آئی اور میرے لن کے ساتھ رگڑنے لگی ۔اب میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی ،میں نے اپنے دونوں ہاتھ دروازے کی سائیڈوں پر رکھ لیے ، وہ میرا لن اپنے چہرے پر رگڑ رہی تھی اور یہ احساس مجھے پاگل کئے جا رہا تھا ۔ ایک دو بار لن کی ٹوپی اس کی نازک ہونٹوں سے بھی ٹچ ہوئی اور میرا دل شدت سے مچل اٹھا کہ کاش آج نوشابہ میرا لن اپنے منہ میں لے کر چوس لے ۔ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا جب فوراً ہی میری خواہش پوری ہو گئی ،جیسے نوشابہ میری سوچوں کو بھی سن رہی ہو ۔ اس نے میرے لن پر ایک ہلکی سی کس کی اور اپنا منہ کھول کر ایک ہی بار میں وہ جتنا لن لے سکتی تھی اس اپنے منہ میں بھر لیا ۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ، میری جان کے منہ سے لگنے والے میری زندگی کے پہلے چوپے نے میری روح تک کو سرشار کر دیا تھا ۔ اب وہ بنا رکے میرے لن کو چوسے جا رہی تھی اسکا لن چوسنے کا انداز کسی ماہر چوپے باز کی طرح تھا ۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ وہی نوشابہ ہے جو اس کام کو گندہ ہے گندہ ہے کہتی رہتی تھی ۔ ابھی دو تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ میرے اندر ہلچل شروع ہوگئی میرا جسم اکڑنے لگا تو میں نے اپنا ہاتھ اس کے متھے پر رکھ کر پیچھے کو دھکیلا ، میں اس کے منہ میں فارغ نہیں ہونا چاہتا تھا ۔ جیسے ہی میرا لن اس کے منہ سے باہر آیا ، فوراً ہی اس میں سے منی کی پچکاریاں نکلنا شروع ہوگئی اور سیدھا نوشابہ کے چہرے پر گرنے لگیں ۔ اس کے منہ سے بس دو لفظ ہی نکلے ،ااااوووہ گننننندہ ۔ آواز ہلکی ہی تھی اس لیے میں دھیان نہیں دے سکا ، اور اپنے کمرے میں آگیا اور نوشابہ اسی وقت واش روم کی طرف چلی گئی ۔

              میرے واپس پہنچتے ہی نوشابہ کا میسج آگیا ۔

              نوشابہ : ۔ کیسا رہا میرے جانو جی ؟

              میں : ۔ بہت زبردست ۔

              نوشابہ : ۔ کچھ مزہ بھی آیا کہ ایسے ہی کہہ رہے ہو ۔

              میں : ۔ مزہ تو بہت زیادہ آیا ،مگررررر ،آج تمہیں ہو کیا گیا تھا ؟؟

              نوشابہ : ۔ کیوں ایسا کیا کردیا میں نے ؟

              میں : ۔ تم تو لن کو چومتی بھی نہیں تھیں ،کہ یہ تو گندہ کام ہے ،اور آج بڑے مزے لے لے کر چوس رہی تھیں ۔

              نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ،میں تو اب بھی اس کام کو گندہ ہی کہتی ہوں ۔

              میں: ۔ تو پھر کیا کیوں ؟؟؟؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ میں نے کب کیا ؟؟؟؟؟

              میں : ۔ کیا مطلب ہے تمھارا ؟؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ ارے میرے شہزادے ،ہوگئے نا پریشان ، مطلب یہ کہ جو کچھ بھی ہوا وہ میں نے نہیں بلکہ ماہ رخ نے کیا ہے ۔

              میں : ۔ ککککککککیییییییییا ،یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ کیسے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ کیوں میری جان ؟ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا ؟؟؟؟؟

              میں : ۔ نہیں ، یہ بات نہیں ہے ۔ پھر بھی ایک دم سے کیسے کروا لیا تم نے ؟؟؟

              نوشابہ : ۔ جیسے بھی ہوا ،ہوگیا ،اس بات کو چھوڑو ، میرے شہزادے کو تو مزہ آیا نا ۔

              میں : ۔ مزہ تو حد سے زیادہ آیا ،لیکن پھر بھی پتہ تو چلے تم نے راضی کیسے کیا ماہ رخ کو ؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ اچھا بابا جب تک نہیں بتاؤں گی تم نے پیچھا نہیں چھوڑنا ۔

              اس کے بعد نوشابہ نے مجھے بتایا کہ کل رات اس کے اور ماہ رخ کے درمیان کیا کچھ ہوا ، اور اس نے کیسے ماہ رخ کو راضی کیا ۔ یہ سب پہلے کی طرح نوشابہ کی ہی زبانی ہی سناؤں گا ۔

              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

              اس رات ہونے والی بات چیت نے ماہ رخ کو بہت گرم کر دیا تھا ،اب اسے صرف ایک ہی چیز کی طلب تھی ،اور وہ تھا صرف اور صرف ،، لن ،، ۔۔۔۔۔

              سارا دن جب بھی اسے موقع ملتا وہ بس یہی کہتی ، نوشابہ پلیز میرا کچھ کرو اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا مجھے ،، لن ،، پکڑنا ہے اس چھو کر محسوس کرنا ہے ،اور بھی اسی قسم کی باتیں ۔۔۔۔۔۔

              میں نے سوچ لیا تھا کہ آج رات ماہ رخ سے ارسلان کے بارے میں بات کروں گی ، مجھے اندازہ ہو تو گیا ہی تھا کہ ماہ رخ صرف میری وجہ سے ارسلان کا نام نہیں لے رہی ورنہ کب سے کہہ دیتی کہ ارسلان کا لن چاہیے کیونکہ جو لڑکی اپنی سہیلی سے ایسی فرمائش کر سکتی ہے اس کی پھدی میں لگی آگ کا اندازہ تو سبھی کو بخوبی ہو گیا ہوگا ۔ اب میں بھی فیصلہ کر چکی تھی کہ آج رات ہی فیصلہ کن ہو گی اور میں ماہ رخ کو پوری طرح سے کھول لوں گی ۔ اسے اتنا گرم کردوں گی کہ وہ خود کہے گی ،نوشابہ ،مجھے اپنے یار کا ،،لن ،، لے کر دو ، میں اپنی بہن کے یار کا ،، لن ،، لینا چاہتی ہوں ۔ مجھے یہ تو پتہ ہی تھا کہ وہ بہت گرم ہو رہی ہے اب اسے کیسے ڈیل کرنی ہے بس سارا دن یہی سوچنے میں گزر گیا ۔ رات کو جب میں کام نپٹا کر اپنے بستر میں آئی تو ماہ رخ میر بے صبری سے انتظار کر رہی تھی ۔

              میرے لیٹتے ہی ماہ رخ نے کوئی بات کئے بغیر اپنا ہاتھ میری پھدی تک پہنچا دیا ۔ میں نے بڑی پیار بھری نظروں سے ماہ رخ کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ سے اس کا مما دباتے ہوئے پوچھا ، کیا بات ہے آج تو کچھ زیادہ ہی جلدی ہے ،میری پری کو ۔

              ماہ رخ : ۔ ہاں ہے جلدی ، مجھے اپنی پیاری سی بہن کو مزہ جو دینا ہے ۔

              میں : ۔ مجھے مزہ دینا ہے یا خود مزہ لینا ہے شیطان ۔۔۔۔۔۔۔

              ماہ رخ : ۔ مجھے تم نے مزہ لے کے دینا ہے ،اس لیے پہلے تمہیں خوب مزے دے رہی ہوں ۔

              میں : ۔ اتنی سی تو پھدی ہے میری پری کی ،اور آگ دیکھو کتنی لگی ہوئی ہے لن لینے کی ، جب لن اندر جائے گا تو لگ پتہ جائے گا ۔

              ماہ رخ : ۔ مجھے تو جب پتہ لگے گا تب لگے گا ، پہلے تو تمھارے اندر جائے گا ، تمہیں پہلے پتہ لگے گا ،تمھاری بھی تو اتنی سی ہی ہے ،پہلے اپنی فکر کرو ۔

              میں : ۔ زیادہ میری فکر مت کرو ،پہلے تمھارے اندر ہی جائے گا ، دیکھ لینا ۔۔۔

              ماہ رخ : ۔ پہلے تمھاری شادی ہونی ہے ،میری کا تو پتہ نہیں ،اور مجھے نہیں لگتا کہ ارسلان بھائی تمھیں شادی تک چھوڑ دیں گے ، آخر اتنی پیاری سی لڑکی جس کے پاس ہو تو اسکا دل ،اور لنڈ کبھی بھی بے ایمان ہو سکتا ہے ۔

              میں : ۔ ارے میری لاڈو رانی ،شادی کو چھوڑو ! تمہیں تو میں شادی سے پہلے ہی لن کے مزے کروا دوں گی ۔۔۔۔

              ماہ رخ : ۔ سچچچچچچچی ، کیا کچھ سوچا ہے تم نے ؟؟؟؟؟؟؟

              میں : ۔ ہاں سوچا تو ہے پر سمجھ نہیں آرہا کہ تمھارے لیے کس لڑکے کو پھنسایا جائے اور لڑکا بھی ایسا ہونا چاہیے جس کا لن چھوٹا ہو ،تاکہ تمہیں زیادہ درد نہ ہو ، لیکن سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اپنے کزنوں میں سے چھوٹے لن والا کون سا ہے ، اور باہر کے کسی بندے سے اس لیے نہیں کر سکتے کہ بدنامی اور بلیک میلنگ کا خطرہ جو ہے ۔

              ماہ رخ : ۔ واہ بھئی واہ ، تم تو بڑی سیانی ہو ، اپنے لیے تو اتنے بڑے لن والا قابو کیا ہوا ہے ،اور میرے لیے چھوٹے سے لن والا ڈھونڈ رہی ہو ۔

              میں : ۔ ارے پگلی ! میں بڑی ہوں مجھے کم درد ہوگا ،تم چھوٹی ہو تمہیں تکلیف زیادہ ہوگی اسی لیے تمھارے لیے چھوٹا ہی ٹھیک رہے گا میرے اور تمھارے اندر فرق ہے ۔

              ماہ رخ : ۔ کیا فرق ہے ؟ پھدی تو میری بھی تمھارے جتنی ہی ہے

              میں : ۔ دیکھو ماہ رخ ! ارسلان مجھ سے بہت پیار کرتا ہے ، جیسے میں کہوں گی وہ ویسے ہی کر لے گا ،لیکن تمھارے لیے جو بھی آئے گا وہ صرف چدائی ہی کرنے آئے گا اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ تمہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے ،اس کے علاوہ تمھاری گانڈ کا بھی تو مسئلہ ہے ، میں نے ماہ رخ کے گال کو چومتے ہوئے کہا ۔

              ماہ رخ : ۔ اب یہ گانڈ کہاں سے آگئی ، میری گانڈ کا کیا مسئلہ ہے ؟؟؟؟

              (ان سب باتوں کے درمیان ہم دونوں ایک دوسری کے ممے اور پھدیاں سہلا رہے تھے اور کسنگ بھی کر رہے تھے اس لیے دونوں بہت گرم ہو چکی تھیں ، میں نے جان بوجھ کر ماہ رخ کو چھوٹے لن کا کہا تھا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ماہ رخ ضرور بڑے لن کی ضد کرے گی اور ہوا بھی یہی ۔)

              میں : ۔ یار میری گانڈ تو چھوٹی سی ہے اس لیے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ارسلان بھی میری اجازت کے بغیر میری گانڈ نہیں مارے گا ، مگر تمھاری گانڈ اتنی مست ہے کہ کبھی کبھی میری اپنی نیت خراب ہو جاتی ہے تو جو لڑکا تمھارے لیے پھنسائیں گے وہ کیوں نہیں مارے گا تمھاری گانڈ ، اور گانڈ مروانے میں پھدی سے زیاد درد ہوتا ہے ، میں تو صرف تمھاری سہولت کے کیے کہہ رہی ہوں ۔

              ماہ رخ : ۔ اگر تم بڑا لن لے سکتی ہو تو میں بھی لے ہی لوں گی ، اور رہی بات گانڈ مروانے کی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں وہ بھی مروا ہی لوں گی ، مجھے بس لن چاہیے ۔

              میں : ۔ اچھا بھئی تمھاری مرضی ، اب تم یہ بھی بتادو کس پر تمھارا دل ہے ۔( میں نے اس کی پھدی پر چٹکی کاٹتے ہوئے کہا )

              ماہ رخ : ۔ افففففف ،کرتے ہوئے ،آپ خود ہی فائنل کر لو نا ، اگر میں کچھ کہوں گی تو تم نے برا مان جانا ہے ( اور میرے ہونٹوں پر زبان پھیر دی )

              میں : ۔ ارے پگلی نہیں مانوں گی برا ، تم بتاو تو سہی کس کے ساتھ کرنا ہے ، جس کا کہو گی اسے ہی پھنسا لیں گے ، تم تو ہو ہی اتنی خوبصورت اور سیکسی کوئی بھی انکار نہیں کر سکے گا ۔

              ماہ رخ : ۔ نوشابہ ! پلیز تم خود ہی کرلو نا ، لڑکا کوئی بھی ہو بس اسکا لن بڑا ہو اور مجھے بدنام نہ کرے اور نہ ہی بعد میں بلیک میل کرے ۔

              میں : ۔ یار میں نے اب سب کے لن تو دیکھ نہیں رکھے ، فلموں کے علاوہ آج تک صرف ایک ہی لن دیکھا ہے اور دو للیاں بس ۔

              ماہ رخ : ۔ لن کا تو مجھے پتہ ہے ارسلان بھائی کا ہی ہوگا ، مگر یہ للیاں کس کی دیکھ لی ؟؟؟؟؟؟؟

              میں : ۔ اپنے پیارے پیارے برادرز کی ، ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔

              ماہ رخ : ۔ کمممممممیییییینی ، یار مذاق مت کرو ! میرا کچھ کرو ۔۔۔۔۔

              میں : ۔ ( اس کی پھدی کو زور سے دباتے ہوئے ) یار کیا کروں ؟ تم کسی کا نام تو لو ، پھر دیکھو ۔

              ماہ رخ : ۔ ٹھیک ہے ، نام سوچ کر بتا دوں گی ، مگر وعدہ کرو تم منع نہیں کرو گی ۔

              میں : ۔ بھلا میں کیوں منع کروں گی ؟ اور ہاں اگر بڑا لن لینا ہے تو اپنی گانڈ کا سوراخ کھلا کرنے کی کوشش کرو ورنہ ایک دم بڑا لن جائے گا تو پھٹ ہی جائے گی ۔(میں نے ماہ رخ کی گانڈ کے سوراخ پر انگلی گھماتے ہوئے کہا )

              ماہ رخ : ۔ (اچھلتے ہوئے ) اب میں کیسے کروں اسے کھلا ، تمھارے پاس اگر لن ہے تو تم کر دو کھلااااا ، میری گانڈ مار کر ،ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔

              میں : ۔ میر لن ہے تو سہی ، مگر اس وقت میرے پاس نہیں ہے اور اگر وہ تمھاری گانڈ میں گُھس گیا تو تمھاری 14 طبق روشن ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔

              ماہ رخ : ۔ تمھارے پاس کہاں سے آیا لن ؟

              میں : ۔ ارسلان میرا بوائے فرینڈ ہے نا ، اور اس کا لن میرا ہی تو ہے ، اور تم نے تو دیکھا ہے اس کا لن کتنا بڑا ہے ( میں مے ماہ رخ پر آخری وار کرتے ہوئے کہا )

              ماہ رخ : ۔ دیکھا ہے ، اب اتنا بھی بڑا نہیں ہے جتن تم ڈرا رہی ہو .

              میں : ۔ ایک بار اندر کے کر دیکھو ، پھر پتہ چلے گا بڑا ہے کہ نہیں .

              ماہ رخ : ۔ تم مجھے لینے دو گی ،ارسلان بھائی کا لن ؟؟؟؟؟؟

              میں : ۔ اب تو میرا دل یہی کر رہا ہے کہ تمھاری پھدی اور گانڈ دونوں کو اپنے ارسلان ہی کے لنڈ سے پھڑواوں ، تم نے بہت انسلٹ کی ہے میرے ارسلان کے لن کی ۔

              ماہ رخ : ۔ جاو جاو لیے آو ارسلان بھائی کو بھی اور ان کے لن کو بھی ، میں دونوں کو دیکھ لوں گی ۔

              میں : ۔ دیکھ لو ، اب مکرنا نہیں اپنی بات سے ۔

              ماہ رخ : ۔میں کیوں مکرنے لگی ، میں تو پہلے ہی ارسلان بھائی کا نام لینا چاہتی تھی مگر تمھارے ڈر کی وجہ سے چپ رہی ۔

              میں : ۔میرے ڈر سے کیوں ؟ جب میں ارسلان کو اس کی خوشی کے لیے کسی بھی لڑکی کے ساتھ سیکس کرنے کی اجازت دے سکتی ہوں تو تم کو کیوں نہیں ، اور اگر تم ارسلان سے سیکس کرلیتی ہو تو پھر سارا مسئلہ ہی حل ہو جاتا ہے ، نہ بدنامی کا ڈر اور نہ ہی بلیک میلنگ کا ، اور میں تم دونوں سے ہی پیار کرتی ہوں اور جب تم دونوں خوش ہوں گے تو مجھے بھی خوشی ملے گی ۔

              ماہ رخ : ۔ تو آپ سچ میں مجھے اپنے یار سے چدوانے کی اجازت دے رہی ہو ؟؟؟

              میں : ۔ ہاں دے تو رہی ہوں مگر میری بھی ایک شرط ہے ۔

              ماہ رخ : ۔ کیا شرط ؟؟؟؟؟؟؟؟

              میں : ۔ شرط یہ ہے کہ تم ارسلان سے میرے سامنے چدواؤ گی ۔۔۔۔

              ماہ رخ : ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے یار ، مجھے شرم آئے گی ۔۔۔۔

              میں : ۔ زیادہ بکواس نہ کرو ، اب ہمارے بیچ کیسی شرم ، اپنی بڑی بہن کو کہہ رہی ہو کہ اپنے یار کے لن سے چدوا دو ، اب اس کے بعد بھی کوئی شرم رہ جاتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

              ماہ رخ : ۔ اچھا ٹھیک ہے ، میری پیاری سی بہن تم بہت اچھی ہو ، لیکن ارسلان بھائی سے بات کون کرے گا اس بارے میں ؟؟

              میں : ۔ میں خود کرلوں گی اپنے طریقے سے ، تم بس ارسلان کو اتنا کہہ دینا کہ میں تم سے چدوانا چاہتی ہوں ۔

              ماہ رخ : ۔ میں ارسلان بھائی کو یہ سب کیسے کہہ سکتی ہوں ؟؟؟؟

              میں : ۔ اگر تم ایسا نہیں کہو گی تو وہ کبھی بھی تمہیں نہیں چودے گا ، میں ارسلان کو اچھے سے جانتی ہوں ، اگر لن کے مزے لینے ہیں تو تمہیں اتنی ہمت کرنی ہی ہو گی ۔

              ماہ رخ : ۔ تم ارسلان بھائی کو تیار کر لینا ۔

              میں : ۔ تیار تو میں کر ہی لوں گی مگر تمہیں یہ کہنا پڑے گا ، میں تمہیں پہلے بتا رہی ہوں ۔

              ماہ رخ : ۔ اچھاااااا ، میں کہہ دوں گی ، اور وہ جو تم گانڈ کھلی کرنے والی بات کر رہی تھیں ، کیسے کھللللللیییی ہو گی میری گانڈ ؟

              میں : ۔ نہیں اب رہنے دو ، اب تو تمھاری پھدی بھی اور گانڈ بھی میرا یار ہی کھلی کرے گا ۔

              اس کے بعد ہم کافی دیر تک ایک دوسری کے ساتھ مستیاں کرتی رہیں ، اور دونوں ایک دوسری کو فارغ کرکے پر سکون نیند کے مزے لینے لگیں ۔

              اگلے روز ارسلان اور مشال ہمارے گھر آگئے ، ارسلان کو دیکھتے ہی ماہ رخ نے مجھے فورس کرنا شروع کردیا ، اسے پتہ تھا کہ ارسلان آیا ہے تو ہم مزے بھی کریں گے اور آخر اس نے مجھے راضی بھی کر لیا اور اس کے بعد جو بھی ہو ا ہے وہ ارسلان آپ کو بتا ہی چکے ہیں۔

              جاری ہے۔
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • #8
                میں : ۔ (ارسلان) بڑی تیز ہوتی جا رہی ہو تم ، مجھے پہلے بتایا کیوں نہیں ؟

                نوشابہ : ۔ ایسے ہی بس ، میں نے سوچا چلو سرپرائز ہو جائے گا ۔۔۔۔ ویسے میں پوچھتی ہوں اس کمینی سے ، اس نے اجازت تو تمھارے لن کو صرف ہاتھ میں لینے کی لی تھی اور منہ میں بھی لے لیا ، بہت تیز لڑکی ہے ۔

                میں : ۔ ارے کیا کرو گی پوچھ کر ، رہنے دو ،سچ پوچھو تو مجھے چسوانے میں بہت مزہ آیا ۔۔۔۔

                نوشابہ : ۔ ہاں ہاں ابھی سے اس کی سائیڈ لینا شروع کردی ابھی تو صرف ایک بار چوپا ہی لگایا ہے جب اسے چود لو گے تو مجھے بھول ہی جاؤ گے ۔

                میں : ۔ میری جان تم اس ایک ماہ رخ کی وجہ سے ناراض ہو رہی ہو ،تم پر ماہ رخ جیسی ہزار لڑکیاں قربان کردوں ، اگر تم ایسا سمجھتی ہو تو اسے منع کر دینا مجھے نہیں چودنا کسی کو بھی جسکی وجہ سے تم ناراض ہو ۔

                نوشابہ : ۔ واہ میرے شہزادے اب تو لگتا ہے ڈائیلاگ بازی میں پی ایچ ڈی کرلی ہے تم نے ، اور اب ماہ رخ کو نا چودنے کی بات تو بھول ہی جاو کیونکہ اب یہ میری زبان کا مسئلہ ہوگیا ہے ، بس تم بھی نا ،ایک دم ہی ایموشنل ہو جایا کرو ، اچھا اب اجازت دو مجھے سونا بھی ہے اوکے بائے ،لو یو جان ۔

                میں : ۔ اوکے بائے ، لو یو ٹو ۔

                نوشابہ سے بات کرنے کے بعد میں بہت خوش تھا ، آخر جو میری خواہش تھی میں اسے حاصل کرنے ہی والا تھا ۔

                مجھے نیند تو بہت آرہی تھی مگر میں نے سوچا کیوں نہ لگے ہاتھوں ماہ رخ سے بھی بات کر ہی لوں کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اس وقت ۔ کیونکہ اس نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے میرا لن نہ صرف اچھے سے دیکھ لیا تھا بلکہ چوس بھی لیا تھا ،یہ سوچ کر ماہ رخ کو میسج کیا ۔

                میں : ۔ یہ کیا بد تمیزی ہے ماہ رخ ؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ کیوں کزن جی ! کیا ہوا ؟ مزہ نہیں آیا کیا ؟؟؟؟؟؟

                میں : ۔ مزے کی بات نہیں ہے ،تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ نوشابہ نے منع کیا تھا بتانے سے ۔تمہیں اگر ایسا کرنا ہی تھا تو مجھے ڈائریکٹ بتا دیتی ،نوشابہ کو درمیان میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟

                ماہ رخ : ۔ وہ میری بڑی بہن ہے ،اور تم پر اس کا حق ہے ،اسی لیے میں نے اس سے پوچھ لیا ۔

                میں نے سوچا کہ اب ان باتوں کو چھوڑ کر اصل بات کی طرف آنا چاہیے ۔

                میں : ۔ اچھا چھوڑو ان باتوں کو ، یہ بتاو کیسا لگا میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا تو ہے ،پرررررررر ۔

                میں : ۔ یہ پرررررر ،کیا ہے ؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ پر یہ کہ اتنی جلدی کیوں فارغ ہو گئے ؟ ابھی تو مزہ آنا شروع ہی ہوا تھا ۔

                میں : ۔ میرا پہلی بار کسی نے چوسا تھا اس لیے برداشت نہ کرسکا ۔

                ماہ رخ : ۔ جب یہ منہ کی گرمی دو منٹ بھی برداشت نہیں کر سکا تو نیچے کی گرمی کیسے برداشت کر پائے گا ۔

                میں ماہ رخ کی بات سن کر شرمندہ سا ہو گیا ، بات تو ماہ رخ کی بالکل ٹھیک تھی ، اگر آج منہ کی جگہ اس کی پھدی ہوتی تو شاید میں اندر ڈالتے ہی فارغ ہو جاتا ، میں نے سوچا اب اس کا بھی کچھ کرنا ہی پڑے گا ، مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ،میں نے تو اتنی زیادہ مٹھ بھی نہیں ماری پھر بھی اتنی جلدی فارغ ہو جاتا ہوں ، میرے دماغ میں پھر میرے دوست ،محسن ،کانام آگیا ۔ میں نے سوچا کہ کل یہاں سے جانے کے بعد سب سے پہلے ،محسن کو ہی ملنا پڑے گا شاید کوئی حل نکل آئے ۔ لیکن ابھی ماہ رخ کو بھی تو مطمئن کرنا تھا یہ سوچ کر میں نے کہا ۔

                میں : ۔ تم اس کی فکر مت کرو ، میرے نیچے آنے کے لیے راضی تو ہو جاو پہلے گرمی کیسے برداشت کرنی ہے یہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔

                ماہ رخ : ۔ دیکھ لو کزن جی ایسا نہ ہو کہ تم کچھ نہ کر سکو اور میں ترستی رہ جاؤں۔

                میں : ۔ ایک بار نیچے آو تو سہی ، پھر تم جان چھڑانا چاہو گی اور میں چھوڑوں گا نہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ ہاہاہاہا ، آج دیکھ تو لیا ہے تمہیں آزما کر دو منٹ تو ٹھہر نہیں سکے ، کیا فائدہ اتنے بڑے کا جو دو منٹ بھی کھڑا نا رہ سکتا ہو ۔

                میں : ۔ مجھے غصہ مت دلاو ،بعد میں تم نے بہت رونا ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ بعد کا بعد میں دیکھا جائے گا ، ویسے میں کب تک تیار ہو جاؤں ۔

                میں : ۔ کس لیے ؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ رونے کے لیے ۔

                میں : ۔ جب تم کہو گی ، ابھی تک تو تم نے کہا ہی نہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ کہہ تو رہی ہوں ، اور کیسے کہوں ؟؟؟؟؟

                میں : ۔تم تو کسی رونے کی بات کر رہی ہو ،اور رلا تو میں بہت سے طریقوں سے سکتا ہوں ۔

                ماہ رخ : ۔ میں کہہ رہی ہوں ،مجھے کب چودو گے ؟ سمجھ گئے ؟؟؟؟

                میں : ۔ یہ ہوئی نا بات , ایسے کہو کہ مجھے اپنے لنڈ سے رلاؤ ۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا ، میرے پیارے سے کزن ، مجھ کب رلا رہے ہو ،اپنے بڑے سے لن سے ؟؟؟؟؟

                میں : ۔ بہت جلدی ، جیسے ہی کوئی مناسب موقع ملا ۔

                ماہ رخ : ۔ ارسلان ،جلدی کرنا ، اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہوتا ، تم نے اور تمھاری گرلفرینڈ نے میرے اندر آگ لگا دی ہے ۔

                میں : ۔ اگر ہم نے لگائی ہے تو اب بجھا بھی تو ہم ہی رہے ہیں ۔ بس تم تیار رہنا اور ہاں مجھے لڑکی کے جسم پر سر کے علاوہ کہیں اور ایک بال بھی پسند نہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا جی ، تبھی میں کہوں نوشابہ ہر وقت اپنی اتنی صاف کیوں رکھتی ہے ۔

                میں : ۔ آج سے تم بھی صاف ہی رکھنا ، کبھی بھی موقع بن سکتا ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا کزن جی ! اور اپنے لن کا کچھ کر لینا ، میں نے اتنی جلدی نہیں چھوڑنا تمہیں ۔

                میں : ۔ چلو ،یہ تو وقت ہی بتائے گا کون چھوڑتا ہے اور کون نہیں ۔

                اس کے بعد کچھ دیر اسی طرح کی باتیں ہوتی رہیں ،پھر میں سو گیا ۔

                اگلے دن مجھے نوشابہ نے ہی اٹھایا تھا ،نہانے کے بعد ناشتہ کیا ، آج ماہ رخ مجھ سے کچھ شرما رہی تھی جب بھی وہ میرے اور نوشابہ کے قریب سے گزرتی تو ہم ہنسنے لگتے ۔ نوشابہ بھی اکیلے میں مل گئی تھی ، لیکن اس کے ساتھ گلے ملنے ، ہونٹ چوسنے اور ممے دبانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکا ، سائمہ سے بھی گپ شپ ہوتی رہی ،جسے ماہ رخ بھی نوٹ کرتی رہی ، اور میں تو چاہتا بھی یہی تھا کہ وہ نوٹ کرے ۔

                بلآخر سیکنڈ ٹائم ہم گھر واپس آگئے اور واپس آتے ہی میں اپنے دوست ، محسن ، کی طرف نکل گیا ، آج مجھے ایک بار پھر اپنے لن کے لیے ،اپنے دوست کی ضرورت پڑ گئی تھی ۔ میں محسن کے پاس پہنچا تو اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا ، کیا بات ہے شہزادے ،دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے کچھ کھایا پیا بھی کر ،صحت کا بھی کچھ خیال کر ۔

                میں بولا ،یار چت مار صحت دی توں میڈے لن دا کجھ کر ( صحت کی گانڈ مار اور میرے لن کا کچھ کر) اور اس کو ساری بات بتا دی ،اسے نوشابہ کا پہلے ہی پتہ تھا ،میں نے اسے یہی بتایا کہ صرف ٹچنگ سے ہی فارغ ہو جاتا ہے جس سے بہت شرمندگی ہوتی ہے ۔

                محسن نے میری ساری بات سنی اور کہا کل پھر چلتے ہیں اسی کے پاس ، کہیں تو زیادہ مٹھ تو نہیں مار رہا ؟؟؟

                میں نے بتایا کہ کبھی کبھار مار لیتا ہوں زیادہ نہیں مارتا ، اگلے دن کا پروگرام فائنل کرلیا ،کہ کالج کے بعد اسی کے پاس چلیں گے ،کیونکہ محسن کا واقف کار تھا اس لئے ہم سب دوست اسی کے پاس جاتے تھے ، اس کے بعد ہم کھیلنے کے لیے چلے گئے ۔ پھر شام کو ہی واپس گھر آیا کھانا وغیرہ کھایا اسے بعد نوشابہ سے بات ہوئی ، جو اتنی خاص نہیں تھی اس لیے نہیں لکھ رہا ،اس کے بعد ماہ رخ کا میسج بھی آگیا ، وہ بھی سیکسی باتوں کی دیوانی تھی اور میں بھی اس لیے زیادہ دیر نہ کرتے ہوئے اس سے بات کرنی شروع کر دی ۔

                ماہ رخ : ۔ کیسے ہو کزن جی ؟ کیا ہو رہا ہے ؟؟؟؟؟

                میں : ۔ کچھ بھی نہیں ، بس تمھارے لیے اپنے شیر کو تیار کر رہا ہوں ۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا جی ! آج پتہ چلا کہ شیر کو بھی تیار ہونے کی ضرورت پڑتی ہے ۔

                میں : ۔ ضرورت تو نہیں ہے مگر ، اب تم نے چیلنج کر ہی دیا ہے تو اس کے لیے کچھ خاص تیاری ہو رہی ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ دیکھنا کہیں مار ہی نہ دینا مجھے ، میری تو ویسے بھی چھوٹی سی ہی ہے ۔

                میں : ۔ ایسی بات ہے تو اپنی پھدی دیکھ کر چیلنج کرنا تھا نا ۔

                ماہ رخ : ۔ ایک تو تم دونوں ڈراتے بہت ہو ، نوشابہ بھی ہر وقت تمھارے لن سے ڈراتی رہتی ہے ،اور اب تم بھی شروع ہو گئے ۔

                میں : ۔ وہ ڈراتی ہے اور تم ڈر جاتی ہو ؟ تمہیں خود پر اور اپنی پھدی پر بھروسہ نہیں ہے کیا ؟

                ماہ رخ : ۔ یار پتہ نہیں میں کچھ کنفیوژ سی ہوں ، ایک طرف تو بہت دل کرتا ہے ، اور دوسری طرف ڈر بھی لگتا ہے ۔ تم میری باتوں کو سیریس نا لیا کرو ، میں تو بس مذاق میں کہہ جاتی ہوں ۔ اتنی سی تو میری پھدی ہے ، میں نے چیلنج کرکے مرنا ہے کیا ؟؟؟؟؟؟

                میں : ۔ پھدی چھوٹی ہے تو کیا ہوا ؟ میں نے تو سنا ہے کہ جن لڑکیوں کی پھدی چھوٹی ہوتی ہے ،وہ بڑے بڑے لن آرام سے لے لیتی ہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ تمھارا لن دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ یہ آرام سے میرے اندر چلا جائے گا ۔

                میں : ۔ میری جان ! اس طرح کے کاموں میں تھوڑا بہت درد تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے ، اور وہ بھی صرف پہلی بار ۔

                ماہ رخ : ۔ وہ تو میں کر ہی لوں گی ، جتنا ذلیل مجھے اس پھدی نے کیا ہوا ہے نا ، اچھا ہے اس کے اندر ایسا ہی لن جائے جو اسے چیر پھاڑ کر رکھ دے ۔

                میں : ۔ کزن جی ! اب میں تمہیں اتنا ظالم لگتا ہوں کہ تمھاری اتنی پیاری سی پھدی کو چیر پھاڑ دوں گا ۔ ویسے ہے تو تمھاری زیادتی ، تم نے نہ صرف میرا لن دیکھ لیا ہے بلکہ اسے چوس بھی لیا ، اور مجھے ابھی تک اپنی پھدی دکھائی تک نہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ میں نے کب منع کیا ہے ؟ جب تمھارا دل چاہے دیکھ لینا ، اب تو میں بھی اور میری پھدی بھی تمھاری ہی تو ہے میری شادی تک ۔

                میں : ۔ اور شادی کے بعد ؟؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ شادی کے بعد میرے ہسبنڈ کی بھی تو ہوگی ۔

                میں : ۔ تو کیا شادی کے بعد مجھے بھول جاؤ گی ؟؟؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ یہ تو تم پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ تم بھولنے دیتے ہو یا نہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ ہاں یاد آیا ، یہ تم سائمہ کے ساتھ کس قسم کی باتیں کر رہے تھے؟؟

                میں : ۔ کچھ بھی نہیں ۔ میں نے کیا کہا ہے سائمہ کو ؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ ارسلان ! انسان بن جاو ، دو بہنوں کی مل تو رہی ہے اب تم تیسری کو بھی پھنسانا چاہتے ہو ۔

                میں : ۔ پھنسا کب رہا تھا ؟ وہ تو خود ہی لالیپاپ مانگ رہی تھی اور تمہیں تو پتہ ہی ہے جب کوئی مجھ سے کچھ مانگ لے تو میں منع نہیں کر سکتا ۔

                ماہ رخ : ۔ اسے کیا پتہ تم کونسا لالیپاپ دینے کی بات کر رہے ہو ، اگر وہ تمھارا لالیپاپ دیکھ لے تو بیہوش ہی ہو جائے ۔

                میں : ۔ اب اتنی بھی بچی نہیں ہے ، اسے سب پتہ تھا ، میں جس لالیپاپ کی بات کر رہا تھا ۔ اور رہی بات بیہوش ہونے کی تو جب تمہیں اور نوشابہ کو کچھ نہیں ہوا تو اسے بھی کچھ نہیں ہوگا ۔

                ماہ رخ : ۔ نوشابہ کو پتہ ہے اس بات کا ۔

                میں : ۔ نہیں یار ، اور بتانا بھی مت ،میرا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ، پہلے تمہاری تو لے لوں پھر کسی اور کے بارے میں سوچوں گا ۔

                ماہ رخ : ۔ہاں بس ہم بہنوں کے بارے میں ہی سوچنا ؟ دنیا میں اور سب لڑکیوں کا تو کال پڑ گیا ہے ۔

                میں : ۔ تو پھر ٹھیک ہے ایک لڑکی تم بھی ڈھونڈ دو ، اگر دنیا میں اتنی زیادہ ہی لڑکیاں ہیں تو ۔

                ماہ رخ : ۔ ٹھیک ہے اس میں کونسی بڑی بات ہے ، میری اتنی فرینڈز ہیں ، کسی کو بھی پکڑ کر دے دوں گی ۔

                میں : ۔ نا جی نا ، باہر کی لڑکیاں تو مجھے بھی بہت مل جائیں گی ، مجھے تو اپنی فیملی سے ہی کوئی لڑکی چاہیے ۔

                ماہ رخ : ۔ یہ بھی اتنا مشکل نہیں ہے ۔

                میں : ۔ تو پھر میں کب تک امید رکھوں ؟

                ماہ رخ : ۔ پہلے مجھے تو خوش کرو ، پھر دیکھوں گی ۔

                میں : ۔ یار ایک بار موقع تو مل جائے ، پھر تمھارے سارے گلے شکوے دور کر دوں گا ۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا جی ! اب سونے کا کیا ارادہ ہے ؟؟؟؟؟

                میں : ۔ تمہیں نیند آرہی ہے تو پھر سوجاتے ہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ نیند تو ابھی نہیں آرہی مگر یہ جو تمھاری گرلفرینڈ ہے نا اسے بڑی مستی چڑھی ہوئی ہے اس کی مستی بھی تو اتارنی ہے ۔

                میں : ۔ اچھا جی تو پھر ٹھیک ہے تم مزے کرو ، لیکن مجھے مت بھول جانا ۔

                ماہ رخ : ۔ نہیں بھولیں گے ،کزن جی ، اوکے بائے ۔

                اسکے بعد میں سو گیا کیونکہ صبح کالج بھی جانا تھا ، اور چھٹی کے بعد تو کالج جانے پر جان نکلتی ہے اور اگر نیند بھی پوری نہ ہو تو صبح اٹھنے میں بھی موت نظر آتی ہے ،اسی لیے میں جلدی ہی سو گیا ۔

                صبح اٹھا ،ناشتہ کیا اور کالج کے لیے نکل گیا ۔ محسن سے رابطہ کیا تو اس نے کہا ، میں تمہیں کالج سے ہی پک کر لوں گا ۔ کالج سے فری ہوا تو محسن بھی پہنچ گیا ، اور ہم اسی ڈاکٹر کے پاس چلے گئے جس سے پہلے میں نے لن بڑا کرنے کی دوائی لی تھی ۔ میں پہلے بھی کئی بار وہاں آ چکا تھا اس لیے ڈاکٹر سے کافی فرینک ہو چکا تھا ۔

                میں نے اسے مکمل صورتحال بتائی ۔ اس نے دوائی دی اور کہا کہ سیکس کے بارے میں زیادہ سوچا مت کرو ۔ جب زیادہ دل کرے تو سیکس کر لو یا مٹھ مار لو لیکن خیالوں میں ہی سیکس نہ کرتے رہا کرو ۔ اس سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے ،جسمانی اور جنسی دونوں پر اور ٹائمنگ کم ہونے کی بھی یہی وجہ ہے ۔

                مجھے اب سمجھ آرہا تھا ،جب سے میں نے ماہ رخ اور نوشابہ کے ساتھ سیکسی باتیں شروع کی تھیں تب سے ہی میری صحت گر رہی تھی ۔ پر اب میں کر بھی کیا سکتا تھا ، مجھے بھی نوشابہ اور ماہ رخ کی طرح ان باتوں کا چسکا پڑ چکا تھا جسے چھوڑنا فی الحال ممکن نظر نہیں آرہا تھا ۔ خیر ،ڈاکٹر نے کچھ کھانے اور سپیشل شیک بھی بتائے اس کے ساتھ ہی صبح کی سیر بھی بلا ناغہ ننگے پاؤں گھاس پر کرنے کو کہا ۔

                اس کے بعد ہم گھر واپس آگئے ۔ اب میں ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کر رہا تھا مگر جو سب سے مین وجہ تھی گندی باتیں نہ کرنے والی ، اس پر میرا کنٹرول نہیں تھا ، نوشابہ اور ماہ رخ دونوں سے باتیں ہو رہی تھیں ، لن بھی تیار تھا اور پھدی بھی مگر موقع نہیں مل رہا تھا ، کیونکہ ہمارے گھر بھی اتنے بڑے نہیں تھے ، اور باہر بھی لے کر نہیں جا سکتا تھا ۔

                اسی طرح کافی دن گزر گئے ، ماہ رخ اب میرے اور نوشابہ کے ساتھ بہت فری ہو چکی تھی ، اب ہم تینوں گندی سے گندی بات بھی ایسے کر لیتے تھے جیسے لوگ عام طور پر باتیں کرتے ہیں ۔ میں اور ماہ رخ دونوں ہی سیکس کے لیے بے چین تھے ، میرا کورس بھی پورا ہو چکا تھا ، لیکن واک اور انرجی ڈرنکس ابھی چل رہے تھے ۔

                میں ماموں کے گھر بھی کافی دن سے نہیں جا سکا تھا کیونکہ کالج میں ٹیسٹ چل رہے تھے ، ماہ رخ اور نوشابہ دونوں ہی گھر بلانے پر بہت اصرار کر رہی تھیں ، مجھے پتہ تھا کہ پھدی تو ملنی نہیں ، ایک رات میں کہاں موقع ملنا ہے ، لیکن امید پر دنیا قائم ہے اور اسی امید کے سہارے میں نے اپنے ماموں کے گھر جا نے کی ٹھان لی ، جہاں پھدیوں کی منڈی لگی ہوئی تھی مگر مجھے کچھ نہیں ملنے والا تھا اور نہ ہی چوری کا کوئی موقع مل سکتا تھا ، آخر ایک ویک اینڈ یعنی ہفتہ کی شام میں ماموں کے گھر چلا گیا ، مجھ سے ماہ رخ اور نوشابہ دونوں نے کسی بھی طرح اکیلے میں ملنے کا وعدہ کیا تھا ، میں سیکنڈ ٹائم وہاں پہنچا تھا ، آج میں بہت دنوں کے بعد گیا تھا تو سب بہت خوش تھے ممانی بھی کہہ رہی تھیں ، اتنے دنوں کے بعد کیوں آئے ہو ، آتے رہا کرو ۔ میں سب سے ملنے کے بعد بیٹھا ہوا تھا ، نوشابہ یہاں وہاں بھاگ دوڑ کر رہی تھی اور میری پسندیدہ ڈشیں تیار کر رہی تھی ، ماہ رخ بھی نوشابہ کے ساتھ ہی لگی ہوئی تھی اور آتے جاتے مجھے بھی سمائل پاس کر دیتی تھی ، اور سائمہ ہمیشہ کی طرح سب کاموں سی بے نیاز میرے پاس بیٹھی ہوئی لالیپاپ کھا رہی تھی ، ممانی بھی میرے پاس ہی بیٹھی تھی اسی لیے بس نارمل باتیں ہی ہو رہی تھی ، میں نے ایک بات شدت سے نوٹ کی کہ میرے وہاں جانے پر نوشابہ ، ماہ رخ اور سائمہ تینوں کی آنکھوں میں ایک جیسی چمک آجاتی تھی ۔ اب تو مجھے یقین ہوچکا تھا کہ سائمہ کی پھدی بھی مجھے ہی ملنی تھی ۔ اس کی پھدی کے لیے بھی مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی ۔ میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے سائمہ کی آواز آئی اور میں خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا ، دیکھا تو ممانی کمرے سے باہر جا چکی تھیں اور بچے اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے ۔

                سائمہ : ۔ اور سناؤ ،کزن بھائی ، کیسے ہیں آپ ؟؟؟؟

                میں : ۔ ابھی تو سب کے سامنے بتایا تھا کہ ٹھیک ہوں ۔

                سائمہ : ۔ ٹھیک ہیں ، لگتا پہلے ٹھیک نہیں تھے ۔

                میں : ۔ کیوں جی ؟ تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے ؟؟؟؟

                سائمہ : ۔ آپ اتنے دن سے آئے نہیں تو مجھے ایسا لگا کہ آپ کی کسی کے ساتھ لڑائی ہو گئی ہے

                میں : ۔ تم کب سے سوچنے لگیں ؟ پہلے بڑی تو ہو جاؤ ، پھر جتنا مرضی سوچ لینا ۔

                سائمہ : ۔ میں بڑی ہو چکی ہوں ، اوکے ۔

                میں : ۔ لگتا تو نہیں کہ بڑی ہوگئی ہو ، ہر وقت لالیپاپ ہی منہ میں گھسایا ہوتا ہے ۔۔

                سائمہ : ۔ تو اس میں کیا ہے ۔۔۔۔۔بڑوں کو زیادہ مزہ آتا ہے ، لالیپاپ چوسنے میں ۔

                میں : ۔ یہ لالیپاپ تو بچوں والا ہے بڑوں والا تو اور ہوتا ہے ۔۔ تم ابھی بچی ہو اسی لیے تو بچوں والا چوستی ہو ۔

                سائمہ : ۔ تو آپ بڑوں والا دے دو ، میں وہ چوس لوں گی ۔

                میں : ۔ چوسو گی ضرور ؟ یہ عادت چھوڑو گی نہیں .

                سائمہ : ۔ ہاں نا ، اب تو آپ والا لالیپاپ ( ہنستے ہوئے ) یعنی جو لالیپاپ آپ دو گے ، اسے چوس کر ہی اس عادت کو چھوڑنے کا سوچوں گی ۔

                میں : ۔ اس لالیپاپ اور میرے والے میں بہت فرق ہے ، میرے والا چوسنے کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔

                سائمہ : ۔ آپ دو تو سہی ، بڑی ہمت ہے مجھ میں ۔ ( یہ بات سائمہ نے بڑے اعتماد سے میری آنکوں میں دیکھتے ہوئے کہی تھی ) ۔

                میں اس کے پر اعتماد لہجے اور آنکھوں میں نمایاں دعوت کو دیکھ کر حیران ہو گیا ۔۔۔۔۔ سائمہ میری سوچ سے زیادہ تیز جا رہی تھی ۔۔ آج اس کا بات کرنے کا انداز ہی الگ تھا ۔۔جیسے کسی کو کسی بات کی جلدی ہوتی ہے ۔ اب وہ شاید ان باتوں سی تنگ آچکی تھی اور کچھ آگے کرنا چاہتی تھی ۔ مگر ابھی میرا ایسا کوئی پروگرام نہیں تھا میں تو چاہتا تھا کہ پہلے ایک بار ماہ رخ کی لے لوں ، اس کے بعد سائمہ کی طرف دیکھوں گا ۔ ماہ رخ کو راضی ہوئے دو تین مہینے ہونے کو آئے تھے مگر ابھی تک موقع ہی نہیں مل رہا تھا ۔ نہ ہی گھر میں اور نہ ہی باہر کر سکتے تھے ۔

                میں پھر سائمہ کے بارے میں سوچنے لگا ، کیوں نہ جو وہ چاہتی ہے وہ اسے دے دیا جائے ، بات اب لالیپاپ سے آگے بڑھائی جائے ۔

                میں : ۔ اچھا جی ، تم نے ابھی وہ لالیپاپ دیکھا نہیں ہے نا ۔ ویسے وہ لالیپاپ ایسے ہی نہیں مل جائے گا ۔ بولو ! بدلے میں مجھے کیا ملے گا ۔( یہ کہتے ہوئے میری نظریں اس کے مموں پر تھی اس نے اس وقت دوپٹہ لیا ہوا تھا اور کچھ واضع نہیں تھا مگر میں جو اسے محسوس کروانا چاہتا تھا وہ اسے محسوس کروا چکا تھا ) ۔ سائمہ نے میری نظروں کا پیچھا کیا اور نیچے اپنے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

                سائمہ : ۔ کچھ بھی ، جو آپ کا دل چاہے لے لینا ۔

                میں : ۔ تو پھر ایسا ہے کہ مجھے اپنے دو کشمیری سیب دے دینا ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اپنی طرف سے دے دینا ( میری نظریں اب بھی اس کے مموں پر ہی تھی )۔

                سائمہ : ۔ تو پھر ٹھیک ہے ، مجھے منظور ہے ، دو سیب تو اب بھی میرے پاس ہی ہیں بے شک آج ہی لے لو ۔

                میں : ۔ نہیں آج نہیں ، جس دن میں لالیپاپ دوں گا اسی وقت اپنے سیب لے لوں گا ۔

                سائمہ : ۔ کیا اب لالیپاپ تمھارے پاس نہیں ہے ؟؟؟؟؟

                میں : ۔ ہے تو میرے پاس ہی ، مگر ابھی تمہیں نہیں دے سکتا ۔

                سائمہ : ۔ کیوں نہیں دے سکتے ؟؟؟

                میں : ۔ کیونکہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو سبھی اسے لینے کی ضد کریں گے اس لیے جب تم اکیلی ہوں گی اس وقت دوں گا تمہیں ۔

                سائمہ : ۔ اچھا ٹھیک ہے ، ایک بات پوچھ سکتی ہوں ؟؟؟؟

                میں : ۔ ہاں پوچھو ۔

                سائمہ : ۔ مجھ سے پہلے آپ نے جس کو وہ لالیپاپ دینا تھا ، کیا اسے دے دیا تھا ؟؟؟؟؟

                میں : ۔ نہیں ، تمھاری طرح اسے بھی اکیلے میں دینا تھا نا اور موقع ہی نہیں مل رہا ۔

                سائمہ : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، موووووووقعععع ،ہاہاہاہاہا ۔

                میں : ۔ ہنس کیوں رہی ہو ؟؟؟؟

                سائمہ : ۔ ایسے ہی بس کوئی خاص بات نہیں ہے ۔

                اس سے پہلے میں کچھ کہتا ، نوشابہ کمرے میں داخل ہوئی اور سائمہ پر چلانا شروع کر دیا ، تم یونہی مہارانیوں کی طرح بیٹھی رہا کرو بس ، کوئی کام نہ کرنا ۔ جاو باہر دفعہ ہو ، اور ماہ رخ کے ساتھ کھانا لگواو ۔ سائمہ ہنستی ہوئی باہر چلی گئی۔

                جاری ہے۔
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • #9
                  اور نوشابہ وہیں میرے ساتھ بیٹھنے لگی ۔ مجھے اسی وقت ایک شرارت سوجھی اور میں نے اپنا ہاتھ اس کے نیچے رکھ دیا اور نوشابہ میرے ہاتھ پر بیٹھ گئی اور میرا ہاتھ اس کی نرم اور گرم گانڈ کے نیچے دب گیا ، نوشابہ کو جیسے ہی محسوس ہوا کہ اس کی گانڈ کے نیچے کچھ ہے تو وہ ایک دم اچھل پڑی اور اوپر کو اٹھی تو میں نے بھی ساتھ ہی ہاتھ اوپر اٹھایا اور اس کی گانڈ کی لکیر پر پھیر دیا ۔ نوشابہ میری طرف دیکھ کر مسکرا دی اور میرے ہاتھ پر ہی بیٹھ گئی ۔ اور مجھ سے بولی ۔

                  نوشابہ : ۔ دل کرگیا تمھارا ، ہم غریبوں سے ملنے کو ؟؟؟؟

                  میں : ۔ میری جان اب ایسا تو نہ کہو نا ۔

                  نوشابہ : ۔ اتنے دنوں سے آئے نہیں ؟ کتنے دن ہو گئے ہیں ہم دونوں بہنیں تمھارے ترلے کر رہی ہیں ۔

                  میں : ۔ یار کالج کا حرج ہوتا ہے ۔ اور منتھلی ٹیسٹ بھی ہو رہے تھے اس لیے نہیں آسکا ۔

                  نوشابہ : ۔ ہاں جی ، اب ٹیسٹ ہم سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں ، اور تیاری تو یہاں بھی ہو سکتی تھی ۔

                  ان سب باتوں کے بیچ میرا ہاتھ نوشابہ کے نیچے ہی تھا ، پورا ہاتھ تو ہل نہیں سکتا تھا بس دو انگلیاں ہی حرکت کر رہیں تھیں ، اور وہ بھی نوشابہ کو بیچین کرنے کے لیے کافی تھیں ۔

                  میں : ۔ یہاں کیسے ہوسکتی ہے پڑھائی ، تم پاس ہوتی ہو تو پڑھائی کا ہوش ہی کسے رہتا ہے ، بس تم ہی چھائی رہتی ہو میرے دل و دماغ پر ۔

                  نوشابہ : ۔ میں ، یا ماہ رخ ؟؟؟؟؟؟

                  میں : ۔ صرف تم ! ماہ رخ تو بہت بعد میں آتی ہے ، اب بولوں اپنا وہی ڈائیلاگ ۔

                  نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہا ، نہیں کوئی ضرورت نہیں تمہیں وہ گھسا پٹا ڈائیلاگ بولنے کی ۔

                  میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ، آج کا کیا پروگرام ہے ؟؟؟؟؟

                  نوشابہ : ۔ یار ، کوشش تو پوری کریں گے ہم دونوں ، دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔

                  میں : ۔ کیا آج رات ماہ رخ کی پھدی مارنے کا بھی چانس بن سکتا ہے؟؟؟؟

                  نوشابہ : ۔ اوئے نہیں اوے ! پھدی شدی کو چھوڑو ، ابھی تو اس بارے میں مت سوچو ، ویسے ہی تھوڑا بہت مزہ کرنا ہے ۔ لن دیکھا ہے اپنا ، ماہ رخ کے اندر گیا تو اس نے پورے گھر کو تو کیا پورے محلے کو جگا دینا ہے ۔

                  میں : ۔ یار اب اتنا بھی بڑا نہیں ہے ، اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ، کتنا انتظار کرواؤ گی ۔(میں نے انگلی اس کی گانڈ کے سوراخ پر پھیرتے ہوئے کہا ).

                  نوشابہ : ۔ میں کیا کہہ سکتی ہوں ، تم خود ہی سوچو گھر میں سب کے ہوتے ہوئے کیسے ہو سکتا ہے ۔

                  میں : ۔ ہاں بات تو ٹھیک ہے ، مگر اب جلدی ہی کچھ کرنا تو پڑے گا نا ۔

                  نوشابہ : ۔ ہم دونوں بھی یہی سوچتی۔ رہتیں ہیں ، ماہ رخ نے بھی بہت تنگ کیا ہوا ہے ، پر مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا ۔

                  میں : ۔ چلو کچھ نہ کچھ تو آخر ہو ہی جائے گا ، اچھا آج رات کا کیا سوچا ہے ، میں نے سونا کہاں ہے ، تم نے اور میں نے ملنا کہاں ہے ؟؟؟؟

                  نوشابہ : ۔ تم بیٹھک میں ہی سو جانا ، ہم دونوں کوشش کریں گے کہ وہیں تم سے ملیں ۔

                  میں : ۔ تم دونوں ایک ساتھ ہی آؤ گی ؟

                  نوشابہ : ۔ ہاں ایک ساتھ ہی ۔

                  میں : ۔ تو مجھے تم دونوں کو ایک دوسری کے سامنے پیار کرنا پڑے گا ؟

                  نوشابہ : ۔ تو اس میں حرج بھی کیا ہے ، آخر تم نے میرے سامنے ہی ماہ رخ کی لینی بھی تو ہے ، اس طرح کچھ جھجک بھی ختم ہو جائے گی ۔

                  میں : ۔ ہاں ہاں ، کیوں نہیں ، بلکہ میں تو کہتا ہوں ، جب ماہ رخ کی لوں گا تو تم بھی دے ہی دینا ، دونوں بہنوں کی ایک ساتھ لینے میں مزہ بھی ڈبل ہو جائے گا ۔

                  نوشابہ : ۔ جانو جی ! مزہ تو تمہیں ڈبل بھی دوں گی ہی ، مگر ابھی نہیں ، شادی کے بعد ۔

                  میں : ۔ ایک تو تم ضدی بھی بہت ہو ۔

                  نوشابہ : ۔ وہ تو میں ہوں ۔

                  میں : ۔ یار اگر تم نے آگے سے نہ کروانے کی قسم کھا لی ہے تو مجھے یہاں سے ہی کرنے دو ۔ ( یہ کہتے ہوئے میں نے انگلی کو نوشابہ کی گانڈ پر دبا دیا ) ۔

                  نوشابہ : ۔ میں نے سیکس نہ کرنے کی قسم کھائی ہے ، اور یہاں پر کرنے کو بھی سیکس ہی کہتے ہیں ، ابھی جیسے کر رہے ہو ، بس ویسے ہی اپنے ہاتھ سے جو دل چاہے کر سکتے ہو ،( میرے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) پر اسے ابھی مجھ پر استعمال نہیں کر سکتے ۔

                  ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ماہ رخ نے آکر بتایا کہ کھانا لگ گیا ہے آجاؤ ۔ ہم نے کھانا کھایا جو کہ بہت مزیدار بنا تھا ، کھانے کے بعد سب بیٹھے تھے ، میں نے کہا ، میں ماموں شکیل کی طرف جا رہا ہوں ، کس کس نے ساتھ جانا ہے ؟ بچے تو سبھی ڈرامہ دیکھنے میں لگے ہوئے تھے ، ماہ رخ بول پڑی مجھے جانا ہے ، میں نے کہا آجاو ، اتنے میں نوشابہ بھی کہنے لگی ، میں بھی چل رہی ہوں ، ہم دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ سائمہ بھی دوڑتی ہوئی آگئی ، میں نے بھی چلنا ہے ۔ نوشابہ اور ماہ رخ اس کے ساتھ بحث کرنے لگیں کہ بچوں نے امی کو تنگ کرنا ہے اور وہ ہم سب کو ہی جلدی سے واپس بلا لیں گی تم واپس جاؤ ، سائمہ منہ بناتی ہوئی واپس چلی گئی اور ہم تینوں ماموں شکیل کے گھر چلے گئے ۔

                  ان کے گھر بھی سب کھانا کھا چکے تھے ، سب نے بہت پیار کیا خاص طور پر نانی امی نے ، میں نانی امی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا ۔ تقریبآ آدھے گھنٹے بعد ہی نانی امی کو نیند آنے لگی تو وہ بولیں مجھے کمرے میں چھوڑ آؤ ، میں نے سونا ہے اب ۔ میں انہیں چھوڑنے گیا تو وہ بولیں ، آج تم نے یہیں سونا ہے ، میرے پاس ، میں بہت پریشان ہوگیا ، نانی امی کو منع بھی نہیں کرسکتا تھا ، اور سو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ نوشابہ اور ماہ رخ نے مجھے مار ڈالنا تھا ۔ میرے پاس نہ کرنے کا کوئی بہانہ بھی نہیں تھا ، اس لیے مجھے ہاں کرنی ہی پڑی ۔ میں وہیں بیٹھ گیا اور نوشابہ کو ساری بات بتائی تو وہ مجھ پر غصہ ہونے لگی ، میرا دماغ اب اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں مصروف تھا ، نوشابہ نے ماہ رخ کو بھی بتا دیا ، اب وہ بھی مجھے کہہ رہی تھی کہ ارسلان پلیز کچھ کرو ۔ میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آرہا تھا ، میں نے انہیں کہا کہ آج رات تم دونوں بھی یہیں سو جاؤ ۔ وہ بولی ایسا کیسے ہو سکتا ہے ، اور امی (ممانی) کو کیا کہیں گے ؟؟

                  میں : ۔ یار وہ تو سو بھی چکی ہوں گی ، اب وہ ادھر نہیں آئیں گی ۔

                  نوشابہ : ۔ اگر آگئیں تو کیا کہوں گی ؟؟

                  میں : ۔ یار پہلے بھی تو تم یہاں سو جاتی ہو نا ، وہ نہیں پوچھیں گی ۔

                  نوشابہ : ۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر آج تم بھی تو یہیں ہو ، وہ شک نہ کریں ؟؟

                  میں : ۔ کچھ نہیں ہوتا ، مزے لینے ہیں تو رسک بھی لینا ہی پڑے گا نا ۔

                  نوشابہ : ۔ یہاں بھی تو مسئلہ ہے نا ، سوئیں گے کہاں پر ؟؟

                  میں : ۔ میری بات سنو ! کچھ دیر میں تم دونوں اندر آجانا نانی کے پاس ، اور ان سے باتیں کرتے کرتے بہانے سے سو جانا ، میں تو پہلے ہی دوسری چارپائی پر ہوں گا ، اگر ممانی نے اٹھایا تو اٹھ کر ساتھ والی چارپائی پر لیٹ جانا ، بہت نیند میں ہونے کا بہانہ کرو گی تو کوئی دوسرے روم میں جانے کا نہیں بولے گا ۔ بھائی اور بھابھی تو آپس میں بزی ہونگے انھیں کیا مطلب کہ کون کہاں سو رہا ہے۔

                  نوشابہ : ۔ ٹھیک ہے مگر کچھ ہوا نا ، تو میں نے چھوڑنا نہیں ہے تمہیں ۔

                  مجھے پتہ تھا کہ نانی امی دوائی کھا کر سوتی ہیں اور ان کی دوائی میں نیند کی گولی بھی شامل ہوتی ہے ، اس وجہ سے جب وہ ایک بار سو جائیں تو باقی رات کا ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔ جو پلان میں نے بنایا تھا اگر کامیاب ہو جائے تو پوری رات مزے میں گزرنی تھی ۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں آکر نانی امی کے پاس لیٹ گئیں ، میں دوسری چارپائی پر لیٹا ، سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا ، کہ کہیں ممانی آکر مجھے ہی نا اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے جائے ۔ تقریبآ آدھے گھنٹے بعد ،نانی سو چکی تھیں ، ابھی ان دونوں کی کھسر پھسر جاری تھی کہ باہر سے سائمہ کی آواز سنائی دی ، انہیں گھر بھیجو ! ہمیں دروازہ بند کرنا ہے ۔ یہ آواز ان دونوں نے بھی سن لی اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگیں ۔

                  ممانی کمرے میں داخل ہوئی ، نوشابہ اور ماہ رخ کو جگانے لگیں ، تمہیں گھر جانا ہے یا نہیں انہوں نے دروازہ بند کرنا ہے ، تبھی نوشابہ کی نیند سے بوجھل آواز آئی ، میکوں نی پتہ ( مجھے نہیں پتہ ) ممانی کو اندازہ ہو گیا کہ اب یہ نہیں اٹھنے والی ،تو انھوں نے کہا ، اچھا نا ونج ، ڈوجھی کھٹ تے سم تھی اماں کوں تنگ کریسیں رات دا ۔ ( اچھا مت جاو ،دوسرے چارپائی پر سو جاو ورنہ اماں ( نانی امی ) رات کو تنگ کرو گی ۔ مگر وہ دونوں ٹس سے مس نہ ہوئیں ، ممانی نے مشکل سے انھیں دوسری چارپائی پر شفٹ کیا ۔ لائٹ بند کی اور دروازہ بند کیے بغیر باہر چلی گئی کیونکہ ان دنوں زیادہ ٹھنڈ نہیں تھی باہر جا کر سائمہ کو بتایا کہ وہ سب سو چکے ہیں اور آج رات یہیں رہیں گے ۔ ممانی کے جاتے ہی ان دونوں کے ہنسنے کی ہلکی ہلکی آواز آئی اور ساتھ ہی نو شابہ کا میسج بھی آگیا ۔

                  نوشابہ : ۔ کیسی لگی میری ایکٹنگ ؟؟؟؟

                  میں : ۔ بہت اچھی رہی ، شکریہ ۔

                  نوشابہ : ۔ شکریہ تو تمھارا ادا کرنا چاہیے اتنا اچھا آئیڈیا دیا ہے ، گھر میں تو ایسا موقع مل ہی نہیں سکتا تھا ۔

                  میں : ۔ ہاں یہ تو ہے ، یہاں نانی کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے ، اور ممانی بھی اب صبح تک نہیں آنے والی ، ساری رات ہے اپنے پاس مزے کرنے کو ۔

                  نوشابہ : ۔ آج جی بھر کے پیار کرنا ہمیں ، کتنے دن ہو گئے ہیں کچھ بھی نہیں کر سکے ۔

                  میں : ۔ کہو تو آج ہی دونوں بہنوں کو لن کی سواری کرا دیتا ہوں ؟

                  نوشابہ : ۔ مجھے تو نہیں کرنی ابھی تمھارے لن کی سواری ، ماہ رخ سے پوچھ لو اگر وہ کرتی ہے تو ۔

                  میں : ۔ اچھا اس سے پوچھ کر تو بتاؤ ۔

                  نوشابہ : ۔ وہ کہہ رہی ہے ، ہاں کرنی ہے لن کی سواری ۔

                  میں : ۔ تو اسے بولو ، تیار ہو جائے آج میرا دل بھی ہے ماہ رخ کی پھدی لے ہی لیتا ہوں پھر ایسا موقع نہ جانے کب ملے۔

                  نوشابہ : ۔ وہ کہہ رہی ہے میں تو تیار ہوں ، تم اپنے لن کو تیار کر لو ، ایسا نہ ہو اس دن کی طرح دو منٹ بھی نہ نکال سکے ۔

                  میں : ۔ اس سے بولو ، فکر نہ کرے آج وہ خود ہار مانے گی ۔

                  نوشابہ : ۔ وہ تو ٹھیک ہے ارسلان ، لیکن تم نے کہا تھا کہ تم میرے سامنے ماہ رخ کی پھدی مارو گے ۔

                  میں : ۔ ہاں ! تم بھی ساتھ ہی تو ہوں گی ، چاہے اپنے ہاتھ سے میرا لن پکڑ کر اپنی بہن کی پھدی میں ڈال دینا ۔

                  نوشابہ : ۔ لیکن اندھیرے میں نظر تو نہیں آئے گا نا تمھارا لن ماہ رخ کی پھدی میں جاتے ہوئے ۔

                  میں : ۔ یار اب تم مسئلہ نہ بنا دینا ، بڑی مشکل سے تو موقع ملا ہے مجھے بھی فائدہ اٹھا لینے دو ۔

                  نوشابہ : ۔ ہاں ہاں اب میری بہن کی پھدی مل رہی ہے تو میں کباب میں ہڈی ہی لگوں گی نا تمہیں ۔

                  میں : ۔ میری جان ، ایسی بات نہیں ہے ، تم جانتی تو ہو کہ کتنی مشکل سے تو یہ موقع ملا ہے ۔

                  اچھا ٹھیک ہے میں موبائل کی لائٹ جلا کر دیکھوں گی ۔

                  میں : ۔ اچھا بابا ، دیکھ لینا ،پر یہ تو بتاو کہ میرے پاس پہلے تم دونوں میں سے کون آرہی ہے ؟

                  نوشابہ : ۔ پہلے میں آؤں گی ، میرا تم پر پہلے حق ہے ، پھر ماہ رخ آئے گی ، پھر تم دونوں پہلے مجھے مزے دو گے ، پھر میں تمہیں مزے کرنے کی اجازت دوں گی ۔

                  میں : ۔ روز تو ماہ رخ سے مزے لیتی ہو ابھی دل نہیں بھرا تمھارا ؟

                  نوشابہ : ۔ یہ تو وہ کام ہے ، جتنا کرو پیاس بڑھتی ہی جاتی ہے ، ختم ہی نہیں ہوتی ، میرے شہزادے ۔

                  میں : ۔ اچھا یار آ بھی جاو اب ، یا ساری رات ایسے ہی گزارنی ہے ۔

                  نوشابہ : ۔ میرے شہزادے ! تھوڑا صبر کر لو بڑی امی ( میری بڑی ممانی) ابھی جاگ رہیں ہوں گی ، انہیں تو سو جانے دو پھر آتے ہیں ۔

                  میں : ۔ یہ صبر ہی تو نہیں ہو رہا ، اچھا یہ بتاو ، ماہ رخ کیا کر رہی ہے ؟؟؟؟

                  نوشابہ : ۔ میری پھدی کے ساتھ مستیاں کر رہی ہے ، کیوں کیا کہنا ہے ؟؟

                  میں : ۔ اسے کہو ، آج پھدی سے نہیں بلکہ میرے لن کے ساتھ کھیلے ۔

                  نوشابہ : ۔ تمھارے لن کے چکر میں ہی تو یہ میری پھدی کے پیچھے پڑی ہے ، ہاہاہا۔

                  میں : ۔ ویسے یار تم بہت اچھی ہو ، اتنا تو کوئی لڑکی بھی نہیں کر سکتی ، نہ اپنے بوائے فرینڈ کے لیے ، اور نہ ہی اپنی بہن کے لیے ۔

                  نوشابہ : ۔ آپ مکھن نہ لگائیں ، تھوڑا سا میری بہن کی پھدی کے لیے بھی بچا کر رکھ لیں ، اسکی چھوٹی سی ہے ، لن گھسانے میں آسانی رہے گی ۔

                  میں : ۔ تم کو بڑی فکر ہے اپنی بہن کی پھدی کی ۔

                  نوشابہ : ۔ فکر کیوں نہ ہو ، نازک سی میری بہن ہے ، اور اتنا بڑا تمھارا لن ہے ۔

                  میں : ۔ اس میں بھی تو تمھارا ہی قصور ہے ، نہ تم اسے للی کہتی ، اور نہ ہی میں اسے اتنا بڑا کرتا ۔

                  نوشابہ : ۔ ہاں جی ! کرے کوئی اور بھرے کوئی ، یعنی غلطی میں نے کی ، اور سزا میری بہن کی پھدی کو ملنے والی ہے ۔

                  میں : ۔ تمہیں سزا لگ رہی ہے ، جس کے اندر جانا ہے اس سے تو پوچھو ، وہ کتنی بیتاب ہے ، میرا لن لینے کے لیے ۔

                  نوشابہ : ۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں ، اس نے صرف باتیں ہی سنی ہیں ، یا فلموں میں کام ہوتے ہوئے دیکھا ہے ، فلموں میں تو بڑے سے بڑا لن بھی بڑے آرام سے پھدی میں گھس جاتا ہے ، پر حقیقت میں کیا ہوتا ہے اسے اس کا اندازہ نہیں ہے ابھی ۔

                  ایسے ہی باتیں کرتے کرتے رات کے سوا بارہ کا ٹائم ہو گیا ، اس دوران ہم نے ہر طرح کی گندی سے گندی باتیں کی ، سوا بارہ ہوتے ہی میں نے سوچا کہ اب سب سو گئے ہونگے ، پھر بھی میں نے واشروم کے بہانے باہر کا ایک چکر لگا لیا ، ممانی کے کمرے کا دروازہ بھی بند تھا ،اور بھابھی کے کمرے کا بھی ، میں خوش ہوگیا اور واپس کمرے میں آکر دروازہ لاک کردیا ، تاکہ اگر کوئی ادھر آبھی جائے تو سیدھا ہی اندر نہ گھس آئے ، دروازہ لاک کرنے کا بعد میں کوئی بھی بہانہ بنایا جا سکتا تھا ، اس کے بعد میں سیدھا ان دونوں کی چار پائی کے پاس گیا ، مجھے پتہ تھا کہ نوشابہ کس سائیڈ پر ہے ، میں نے کمبل ایک سائیڈ پر کیا ، اور بنا کوئی بات کئیے نوشابہ کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا ، نوشابہ بالکل کسی نازک سی گڑیا جیسی لگ رہی تھی ، مجھے بالکل بھی وزن محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ میں نے نوشابہ کو اٹھایا ہی تھا کہ ماہ رخ بولی ، چھوڑو کہاں لے جا رہے ہو میری بہن کو ؟

                  میں نے کہا ! آج میں نہیں چھوڑوں گا تمھاری بہن کو ، آج تو اس کی پھدی لے کر ہی چھوڑوں گا ۔

                  ماہ رخ بولی ! ایسے کیسے لے لو گے میری بہن کی پھدی ہاں ؟

                  میں بولا ! پہلے اپنی بہن سے تو پوچھ لو ، اس نے مجھے دینی بھی ہے کہ نہیں ۔

                  چلو تم ہی بتا دو نوشابہ ، تم دو گی ارسلان کو اپنی پھدی ؟ ماہ رخ نے نوشابہ سے پوچھا ۔

                  نوشابہ نے جواب دیا ! میری پھدی ہی کیا ہر چیز ہی ارسلان کی ہے ۔ میں نے ماہ رخ سے کہا ، اب تمہیں پتہ چل گیا نا ، اب آرام سے لیٹی رہو اور ہمیں تنگ مت کرنا ۔ ارسلان میری بہن کو تنگ مت کرو ، آج اس کی بھی تو لینی ہے تم نے ، نوشابہ نے ماہ رخ کو چھیڑتے ہوئے کہا ۔

                  میں : ۔ اچھا جی ! ماہ رخ تم دو گی مجھے اپنی پھدی ؟

                  ماہ رخ : ۔ جب میری بہن کہہ رہی ہے تو ضرور دوں گی ۔

                  میں نے نوشابہ کو کسی بچے کی طرح اپنی بانہوں میں اٹھایا ہوا تھا ۔ میں نوشابہ کو اٹھائے ہوئے اپنی چارپائی تک آیا اور اسے آرام سے لٹا دیا ۔ کمرے میں اندھیرا تو تھا مگر اب ہماری آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو چکی تھیں اور دھندلا دھندلا نظر آرہا تھا ، نوشابہ نے فل آنکھیں کھولی ہوئی تھیں اور یقیناً پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہوگی ۔ نوشابہ کو لٹا کر میں نے اس کے گال اور ہونٹ چوم لیے اور اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا اور اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر نوشابہ کے اوپر رکھ دی جس کی وجہ سے میرا پہلے سے کھڑا ہوچکا لن نوشابہ کی ٹانگ کو ٹچ ہونے لگا ، ساتھ ہی اپنا ہاتھ نوشابہ کے ممے پر رکھ کر انہیں آرام آرام سے دبانے لگا میرے ہونٹ نوشابہ کی گردن اور کان کی لو کو چوم اور چوس رہے تھے ، اور نوشابہ کے منہ سے ہلکی ہلکی آہ آہ آہ آہ کی آوازیں نکل رہی تھیں ، میں ساتھ ساتھ نیچے سے ہل بھی رہا تھا جس کی وجہ سے میرا لن نوشابہ کی ٹانگ سے مسلسل رگڑ کھا رہا تھا ، اچانک نوشابہ کی آواز آئی ، ارررسلااان ۔

                  میں : ۔ ہاں ارسلان کی جان ؟؟

                  نوشابہ : ۔ کیا تم شادی کے بعد بھی مجھے اتنا ہی پیار کرو گے ؟؟؟

                  میں : ۔ یہ تو کچھ بھی نہیں میری شہزادی ، شادی کے بعد تو میں تمہیں وہ مزہ دوں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی ۔

                  نوشابہ : ۔ آاآآآہہہہہہ ، ارسلان تم بہت اچھے ہو شادی کے بعد مجھے چھوڑ مت دینا ، میں تمھارے بنا مر جاوں گی ، آئی لو یو میری جان ۔

                  میں : ۔ آئی لو یو ٹو ، میری جان ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو ، میں کیسے تمہیں چھوڑ سکتا ہوں ، تم ہی تو میرا سب کچھ ہو ۔

                  نوشابہ : ۔ بس تم مجھے ایسے ہی پیار کرتے رہنا ،

                  پھر تم مجھے جو بھی کہو گے میں وہی کروں گی ۔

                  میں : ۔ تم کچھ نہ کرو بس خاموشی سے لیٹی رہو اور مجھ پیار کرنے دو ، کتنا ترسنا پڑتا ہے تم سے ملنے سے پہلے ، یہ وقت کیسے گزرتا ہے مجھے ہی پتہ ہے ۔

                  نوشابہ : ۔ ارسلان ! میری جان میں بھی ہر پل تڑپتی ہوں تمھاری یاد میں ، پلیز اب مجھے شادی کر کے اپنے پاس لے جاو یہ دوری اب برداشت نہیں ہوتی ۔

                  میں : ۔ میری جان ، پڑھائی ختم ہوتے ہی میں تم سے شادی کر لوں گا ، میں بھی اب تم سے دور نہیں رہ پاؤں گا ۔

                  اس سے پہلے نوشابہ کچھ کہتی میں نے اپنے ہونٹ نوشابہ کے نازک ہونٹوں پر رکھ دیے ، نوشابہ بھی سب کچھ بھول کر ہونٹ چوسنے میں میرا ساتھ دینے لگی ، پوزیشن اب بھی وہی تھی میرا ہاتھ نوشابہ کے ممے مسل اور دبا رہے تھے ،اور میرا لن اس کی ٹانگ پر گھسے لگا رہا تھا ۔ آج نوشابہ کا انداز بہت مختلف تھا ، وہ بہت شدت سے میرے ہونٹ چوس رہی تھی ۔ جیسے وہ بہت پیاسی ہو اور میرے ہونٹوں سے رس نکل رہا ہو ۔ تقریباً پانچ منٹ تک ہم ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رہے ، پھر میں نے اپنے ہونٹ الگ کیے اور نوشابہ کے کان میں کہا ، نوشابہ ، مجھے اپنا دودھ نہیں پلاؤ گی کیا ؟ آج مجھے جی بھر کے اپنی شہزادی کا دودھ پینا ہے ۔ نوشابہ نے میرا ہاتھ ، جو پہلے ہی اس کے مموں پر تھا اسے اپنے ہاتھ سے دبا دیا ، اور کہا ، میرے دونوں بوبز تھارے ہی تو ہیں ، میں کیوں منع کروں گی بھلا ، تمھارا جب دل کرے اور جتنا دل کرے پی لو ۔

                  مگر میں چاہتا ہوں ، آج تم مجھے پلاؤ ، میں نے اس کے ہونٹ چومتے ہوئے کہا ۔

                  تو اس میں کیا ہے میں خود اپنے جانو کو دودھ پلا دیتی ہوں ، نوشابہ بڑے پیار سے بولی ( پتہ تو ہم دونوں کو ہی تھا کہ کنوارے مموں سے دودھ نہیں آسکتا مگر ان باتوں سے سیکس کی آگ مزید بڑھتی ہے ) نوشابہ کے اتنا کہتے ہی میں اٹھ کر ایک سائیڈ میں ہو گیا اور نوشابہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنی قمیض اوپر اٹھانے لگی تو میں نے اسے پکڑ کر پوری طرح اتار دیا اور ایک طرف رکھ دی ، نوشابہ بولی ،ساری تو نہ اتارو ، اگر کوئی آگیا تو مشکل ہو جائے گی ۔

                  میں نے کہا ، نوشابہ آج تم کچھ نہیں بولو گی ، جو ہوگا دیکھا جائے گا ، یہ سن کو نوشابہ خاموش ہو گئی ، اب اس کے اوپری جسم پر صرف برا رہ گئی تھی ، میں نے برا کے اوپر سے اس کے ممے کو چوم لیا اور ہاتھ پیچھے لے جا کر اس کا ہک کھول دیا ، اور آرام سے برا اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اب نوشابہ کا اوپر والا جسم بالکل ننگا ہو چکا تھا ، میں نے دونوں ہاتھ اسکے مموں پر رکھے اور انہیں پیار سے ہلانے لگا ، ہلتے ہوئے ممے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں ۔ میں نوشابہ کے بوبز سے کھیل رہا تھا ، نوشابہ نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور شلوار کے اوپر سے میرے لن پر رکھ دیا ، میرا لن پہلے ہی جوش میں تھا اس کا ہاتھ لگتے ہی جھٹکے کھانے لگا ، نوشابہ میرے لن کو مٹھی میں دباتے ہوئے بولی ، یہ جناب کیوں اچھل رہے ہیں ۔

                  میں : ۔ یہ خوشی سے اچھل رہا ہے کیونکہ اسے آج تمہیں پیار کرنے کا موقع جو مل رہا ہے ۔

                  نوشابہ : ۔ پھر تو میں آج اسے بہت سارا پیار کروں گی ، نکالو ذرا اسے باہر ۔

                  میں : ۔ میں کیوں نکالوں ، پیار تم نے کرنا ہے تو نکالو بھی خود ہی ۔ یہ سن کر نوشابہ نے میری شلوار کا ازار بند کھول دیا اور لن باہر نکال کر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرنے لگی ، وہ میرے پورے لن پر اوپر سے نیچے تک ہاتھ پھیر رہی تھی اور میں اس کے ممے دونوں ہاتھوں سے دبا رہا تھا ، میں اور نوشابہ بہت گرم ہو چکے تھے ، میں نے سوچا یہی موقع ہے اب نوشابہ سے بات کی جائے ، کیا پتہ وہ مان جائے اور مجھے ایک ہی رات میں دونوں بہنوں کی پھدیاں مل جائیں ۔ یہ سوچ کر میں نے نوشابہ کے کان میں آہستہ سے کہا ، نوشابہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ، تم اپنی ضد چھوڑ دو اور آج مجھے اپنی پھدی مارنے دو ، آخر ہم دونوں کب تک ایک دوسرے کے لیے ترستے رہیں گے ۔

                  نوشابہ : ۔ برداشت تو مجھ سے بھی نہیں ہو رہا ، لیکن تم میری مجبوری کو سمجھو ، میں ایسا نہیں کر سکتی ۔

                  میں : ۔ پلیز نوشابہ ، اچھا ٹھیک ہے بس ایک بار اوپر اوپر سے کرنے دو ، میں وعدہ کرتا ہوں اندر نہیں ڈالوں گا ۔

                  نوشابہ : ۔ ارسلان ، یہ پھدی تمھاری ہی تو ہے چاہے اوپر سے کرو چاہیے اندر ڈال دو ، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ، مگر ابھی نہیں ، مجھے پتہ ہے کہ جب تم نے ایک بار اوپر رکھ دیا تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی اور اندر لے کر ہی چھوڑو۔ گی ، پلیز میری جان ضد نا کرو پلیز ارسلان پلیز ۔

                  مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ نوشابہ نے نہیں ماننا ،اس لئے میں نے زیادہ زور دینا مناسب نہ سمجھا اور نوشابہ کو لیٹنے کا کہا ، وہ سیدھی لیٹ گئی ، اور میں اس کی سائیڈ میں لیٹ گیا ، اور اپنا ہاتھ نوشابہ کے ممے پر رکھا تو نوشابہ بولی کونسا دودھ پہلے پینا ہے میری جان نے ، میں بولا ،پہلے رائٹ والا ۔

                  تو ٹھیک ہے میں خود اپنی جان کو دودھ پلاؤں گی ۔

                  جاری ہے۔
                  جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                  ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                  Comment


                  • #10
                    یہ کہتے ہوئے نوشابہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھی ، اب وہ ایک بازو کے سہارے اٹھی ہوئی تھی ، پھر اس نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنا رائٹ والا مما پکڑا اور میرے منہ کے ساتھ لگا دیا ، میں بھی بڑے مزے سے اس کا چھوٹا سا نپل چوسنے اور چاٹنے لگا ، جیسے ہی میں نے اسکا نپل منہ میں لیا ، نوشابہ کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں ، اور وہ اااااااااہہہہہہہہہ سسسسسسسسسی کرنے لگی ، اور اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا اور بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی کچھ دیر اس کا مما چوسا ، پھر مجھے احساس ہوا کہ نوشابہ ایسے لیٹنے کی وجہ سے تھک گئی ہوگی ، میں نے اسے پھر سے سیدھا لٹا دیا اور اس کے دودھ چوسنے لگا ، اتنے میں مجھے چارپائی کے پاس حرکت محسوس ہوئی ، میں نے اس طرف دیکھا تو پایا کہ ماہ رخ بھی ادھر ھی آ چکی تھی ، وہ نوشابہ کے دوسری طرف بیٹھ گئی اور اس کے دوسرے ممے پر ہاتھ پھیرنے لگی ، اس کا ہاتھ میرے منہ کے ساتھ بھی ٹچ ہو رہا تھا ، کیونکہ نوشابہ کا دوسرا ممے پر میرا منہ تھا ، میں نے ماہ رخ کی طرف دیکھا ، اور اس کا ہاتھ پکڑ کر دبایا ، تو وہ آہستہ سے بولی ، مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا ، پلیز ارسلان ، مجھے بھی کرنے دو ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آجاؤ ۔ اس نے فوراً اپنا منہ آگے کو کیا اور نوشابہ کے دوسرے ممے پر رکھ دیا اور چوسنے لگی ، نوشابہ کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں نکل رہی تھیں ، میں نوشابہ کا مما چوستے چوستے ، ماہ رخ کا منہ بھی چوم لیتا تھا اور ایک ہی وقت میں دو دو مزے اٹھا رہا تھا ، کچھ دیر بعد میں نے ماہ رخ کے ہونٹ چومتے ہوئے اسے کہا کہ تم اب نوشابہ کی پھدی کے ساتھ کھیلو ، اور میں اس کے ممے سنبھالتا ہوں ، یہ سن کر ماہ رخ نے بھی ہلکا سا میرے ہونٹوں کو چوسا اور نوشابہ کی ٹانگوں کی طرف چلی گئی ، اور اس کی شلوار کھینچ کر اتارنے کی کوشش کرنے لگی مگر اتار نا پائی تو اس نے نوشابہ سے کہا اتے تھی نی لہندی پئی( تھوڑی اوپر اٹھو یہ اتر نہی رہی ) یہ سن کر نوشابہ نے اپنی گانڈ کر تھوڑا اوپر اٹھایا شلوار اتارنے میں مدد کی ، ماہ رخ نے شلوار کو اتار کر سائیڈ پر رکھ دیا ، اور پھر میری شلوار بھی اتارنے لگی جس میں ، میں نے بھی اس کی مدد کی ، اس کے بعد ماہ رخ کچھ دیر کے لیے سائیڈ پر ہو گئی ، پھر مجھے ماہ رخ کا ہاتھ اپنے لنڈ پر محسوس ہوا ، وہ میرے لنڈ پر اپنا ہاتھ اوپر نیچے ہلا رہی تھی ، اور ساتھ ہی نوشابہ کی پھدی کو بھی سہلا رہی تھی کیونکہ نوشابہ کی ہلچل اب بڑھ چکی تھی ، میں مسلسل نوشابہ کے ممے باری باری چوس رہا تھا اور ساتھ ساتھ اسکے ہونٹ ، گردن ، اور کان کی لو بھی چوم لیتا تھا ، اب میں بھی فل مستی میں آچکا تھا اور میرا لن جھٹکے کھا رہا تھا اور مجھے کہہ رہا تھا کہ جیسے بھی ہو مجھے اب کسی سوراخ میں ڈال دے پھر چاہے وہ کوئی اور کسی کا بھی ہو ، میں نوشابہ کے اوپر آگیا ، میرا پاؤں ماہ رخ کے چہرے پر ہلکا سا لگا تو وہ پیچھے ہو گئی اور میرے لن سے ہاتھ ہٹا لیا اور نوشابہ کی پھدی سے بھی ، اب میں نوشابہ کے اوپر سیدھ لیٹ گیا تھا اور پہلی بار میرا لن نوشا بہ کی پھدی کو ٹچ کر رہا تھا ، نوشابہ کو ایک دم کرنٹ سا لگا ، اور وہ بولی ، نہیں ارسلان ، یہاں نہیں ، میں نے تمہیں منع کیا تھا نا ۔ میں بولا فکر مت کرو میری جان میں تمھاری پھدی کو کچھ نہیں کروں گا ، یہ کہتے ہوئے میں اس کے پیٹ پر بیٹھ گیا ، میری ٹانگیں نوشابہ کے پیٹ کی دونوں اطراف چارپائی پر تھیں ، اس لیے نوشابہ پر بالکل بھی وزن نہیں آرہا تھا ۔ میں نے ماہ رخ سے کہہ کر ایک تکیہ لیا ، اور نوشابہ کے سر کے نیچے رکھ دیا ، اب میرا لن ، نوشابہ کے دونوں مموں کے درمیان میں تھا ، نوشابہ نے پوچھا ، تم یہ کیا کر رہے ہو ، تو میں بولا تمہیں مزے دینے لگا ہوں ، اس پر نوشابہ بولی ، وہ کیسے ، تو میں نے لن پر ڈھیر سارا تھوک لگا کر اس کے مموں کے بیچ رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے مموں کو پکڑ کر اپنے لن کے اوپر دبا دیا ، اور بولا ، ایسے ہی اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے اندر کی طرف دبا کر رکھو ، اور میں نے اپنے ہاتھ وہاں سے ہٹا لیے ، نوشابہ نے اسی طرح اپنے مموں کو دبا لیا ، اب اس کے ممے آپس میں مل گئے تھے اور میرا لن ان کے درمیان میں تھا ، میں نے اپنے دونوں ہاتھ نوشابہ کے کندھوں پر رکھے اور لن کو اس کے مموں کے بیچ آگے پیچھے کرنے لگا ، تھوک کی وجہ سے لن چکنا ہو گیا تھا اس لیے آسانی سے آ جا رہا تھا ، ادھر نوشابہ کو بھی مزہ آرہا تھا اور وہ ہلکی آواز میں مسلسل آآآآہ ہ ہ ہ اور اااااففف کر رہی تھی ، اس نے اپنے مموں کو سختی سے دبایا ہوا تھا ، میرا لن اس میں پھنس کر آگے پیچھ ہو رہا تھا ، ایسے لگ رہا تھا کہ کسی ٹائٹ پھدی کو چود رہا ہوں ، ماہ رخ بھی اپنے کام میں لگی ہوئی تھی اور اس نے نوشابہ کی پھدی کو ٹارگٹ بنایا ہوا تھا ، وہ اس کے ساتھ کیا کر رہی تھی یہ تو مجھے پتہ نہیں ، کیونکہ وہ میرے پیچھے تھی ، مگر اس نے نوشابہ کو تڑپا کر رکھ دیا تھا ، میرا لن اور ماہ رخ کے ہاتھ دونوں ہی نوشابہ پر جادو کر رہے تھے اور وہ بار بار مجھے کہہ رہی تھی۔۔۔

                    ارسلان ، میری جان اااااااااہہہہہہہہہ ایسے ہی کرتے رہو ، ااااااااافففففف بہت مزہ آرہا ہے ، آااااااااااااہ کیا کر دیا تم دونوں نے مجھے ، اااااااااہہہہہہہہہ میں مزے سے پاگل ہو رہی ہوں ، ارسلان ، اور تیز ، اور تیز بہت مزہ آرہ ہے اااااااااہہہہہہہہہ سسسسسسسسسی آااااااااااااہ ، ارسلان رکنا نہیں ، اور تیز ،مجھے کچھ ہو رہا ہے ، اور میں رکے بنا اپنے کام میں لگا رہا ، نوشابہ کا جسم اب اکڑنے لگا تھا اور وہ جھٹکے کھاتے ہوئے فارغ ہوگئی تھی ، مگر ابھی میں نہیں ہوا تھا ، مجھے بھی اپنے اندر ہلچل سی محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی ، نوشابہ نے اپنا پورا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا تھا ، مگر اپنے ہاتھ مموں سے نہیں ہٹائے ، ماہ رخ بھی اٹھ کر میرے پاس آگئی اور مجھے گردن پر چومنے لگی ، جیسے ہی ماہ رخ میرے ساتھ ٹچ ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ بھی بالکل ننگی ہے ،اس نے بھی اپنے کپڑے اتار دیے تھے ، میرے پاس دونوں بہنیں ننگی ھیں اور مجھے پیار کر رہی ہیں ، یہ خیال آتے ہی میرے اندر مزے کی لہریں اتنی شدت سے دوڑنے لگیں کہ میں برداشت نہیں کر پایا اور نوشابہ کے مموں کے درمیان ہی فارغ ہونے لگا ، مکمل فارغ ہونے کے بعد میں سائیڈ میں لیٹ گیا اور اپنے آپ کو ریلیکس کرنے لگا ۔

                    ماہ رخ نے کوئی کپڑا اٹھایا اور پہلے نوشابہ کے مموں پر سے میری منی کو صاف کردیا ، اور پھر میرے لن کی طرف بڑھی اور اسے بھی صاف کرنے لگی ۔ ہم دونوں لیٹے ہوئے لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے اور ماہ رخ ہمارے ساتھ بیٹھ گئی تھی ، نوشابہ نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا ، اور اس کا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا ، وہ دونوں بہنیں بالکل ننگی تھیں ، اور میں نے صرف بنیان پہنی ہوئی تھی ۔ کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد میں نے خاموشی کو توڑا ۔

                    میں : ۔ میری جان ! کیا سوچ رہی ہو ؟؟

                    نوشابہ : ۔ کچھ نہیں ، بس یہی سوچ رہی ہوں کتنا مزہ آتا ہے اس کام میں ، ابھی تو یہ میرے مموں کو چود رہا تھا ،اور جب میری پھدی میں جائے گا تو شاید اسکا مزہ مجھ سے برداشت ہی نہ ہو پائے ۔(میرے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۔

                    میں : ۔ اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمھارے مموں میں اتنا مزہ ہے تو پھدی میں کتنا مزہ ہوگا ؟

                    تبھی ماہ رخ بول پڑی ، میرے مموں اور پھدی میں بھی اتنا ہی مزہ ہے ، کچھ میرے بارے میں بھی تو سوچو ،ظالموں ۔

                    نوشابہ : ۔ ہاں یار ، میری بہن کو بھی تو خوش کرو ۔

                    میں : ۔ اسے میں نہیں میرا لن ہی خوش کر سکتا ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ اور یہ جناب تو مزے سے سو رہے ہیں ۔

                    میں : ۔ اسے پیار کرو گی تو جاگ بھی جائے گا ، اور جتنا تم اسے پیار کرو گی ، اتنا زیادہ ہی تمہیں مزہ دے گا ۔

                    ماہ رخ : ۔ کیوں نوشابہ ؟ میں تمھارے یار کے لنڈ کو پیار کر لوں ؟ اس دن بھی لڑی تھی کہ مجھ سے پوچھے بغیر میرے یار کے لنڈ کو کیوں چوسا تھا ۔

                    نوشابہ : ۔ ہاں تو ٹھیک ہے نا ، میرے یار کا لن ہے ، اور مجھ سے پوچھے بغیر کوئی استعمال نہیں کر سکتا ۔

                    ماہ رخ : ۔ اسی لیے آج پہلے اجازت لے رہی ہوں ۔

                    اپنے لن کے لیے ان دونوں کو بحث کرتا دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا ، اور شاید میرے لن کو بھی بہت اچھا لگا ، اسی لیے تو اس نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ۔

                    نوشابہ : ۔ ہاں ! آج تمہیں اجازت ہے ، میرے ارسلان کے لن کو جیسے تمھارا دل چاہے استعمال کرو ، منہ میں لو ، پھدی میں لو ، یا گانڈ میں لو ، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ شکریہ ! میری پیاری بہن ۔ یہ کہتے ہوئے ماہ رخ میرے لن کی طرف بڑھی ، جو ابھی سر اٹھا ہی رہا تھا ، ماہ رخ نے ڈائریکٹ میرے لن کو اپنے منہ کے اندر لے لیا اور چوسنے لگی ، اور میرے منہ سے آہ کی آواز نکل گئی ۔

                    نوشابہ بولی ، اب تو خوش ہو میرے شہزادے ، میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ۔

                    میں : ۔ ہاں بہت خوش ، تم بہت اچھی ہو نوشابہ ، آئی لو یو ۔

                    نوشابہ : ۔ وہ تو مجھے پتہ ہے ، ویسے تم نے ابھی آہ کیوں کیا تھا ؟

                    میں : ۔ تمھاری بہن نے ابھی میرا لن اپنے منہ میں لے لیا ہے اسی لیے آہ نکل گئی ۔

                    نوشابہ : ۔ وہ تو ہے ہی گندی ، ابھی میری پھدی کو بھی چوم رہی تھی ، ویسے تمہیں مزہ آتا ہے جب وہ تمھارا لن چوستی ہے ؟؟؟

                    میں : ۔ صرف مزہ آتا ہے ؟ جان نکل جاتی ہے مزے سے ۔

                    نوشابہ کی باتوں اور ماہ رخ کی سکنگ کی وجہ میرا لن بڑی تیزی سے کھڑا ہو رہا تھا ، ماہ رخ اب تک میرے لن کو منہ سے باہر نکالے بغیر بڑی مہارت سے چوس رہی تھی ۔ مگر جیسے جیسے لن کھڑا ہوتا جارہا تھا اسے منہ میں رکھنا مشکل ہو رہا تھا اسی لیے ماہ رخ نے اب چوپے لگانے شروع کر دیے تھے ۔ اس سے مجھے اور بھی زیادہ مزہ آنا شروع ہو گیا تھا ، میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی نوشابہ کے مموں پر فارغ ہوا تھا اس لیے مجھے ابھی فارغ ہونے کا کوئی ڈر نہیں تھا ۔

                    نوشابہ : ۔ لیکن میں نہیں چوسوں گی کبھی ۔

                    میں : ۔ ہاں تم مت چوسنا ، تمھاری بہنیں ہیں نا ۔

                    نوشابہ : ۔ میری بہنیں تو تمھارا لن چوسنے کے لیے ہی ہیں نا ، رکو ذرا میں بھی تو دیکھوں یہ کیسے چوستی ہے تمھارا لن ۔

                    یہ کہہ کر نوشابہ اٹھ کر بیٹھ گئی ، میں سیدھا لیٹا ہوا تھا ، ماہ رخ اب میرا لن چوسنے کے ساتھ ساتھ میری مٹھ بھی مار رہی تھی ، نوشابہ نے موبائل کی ایل سی ڈی کی لائٹ سے ماہ رخ کو چوستے ہوئے دیکھا ، وہ کچھ دیر دیکھتی رہی ، پھر میرے ساتھ لیٹتے ہوئے بولی ، کتنی گندی ہے ، کتنے مزے سے لن چوس رہی ہے اسکو پتہ نہیں کہاں سے لگ گیا یہ لن چوسنے کا چسکا ۔

                    میں : ۔ جہاں سے بھی لگا ، اچھا لگا ہے ، دیکھو کیسے مجھے مزے دے رہی ہے ۔

                    کچھ دیر بعد ماہ رخ نے میرا لن چھوڑ دیا ،جو اب فل ہارڈ ہو چکا تھا ، اور اٹھ کر ہمارے پاس آگئی اور نوشابہ سے بولی ، اٹھو ، نوشابہ میڈم اب میری باری ہے ۔ نوشابہ اسے چھیڑتے ہوئے بولی ، میں نے تو نہیں اٹھنا ،ابھی میں نے ایک بار اور مزے لینے ہیں اس کے بعد تمھاری باری ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ میں نے اتنی محنت کر کے لن کو اپنے لیے کھڑا کیا ہے ، تمھارے لیے نہیں ، اب اٹھ بھی جاو ، پلیز نوشابہ ۔

                    میں : ۔ ہاں یار ، دیکھو تو بیچاری کب سے کپڑے اتارے انتظار کر رہی ہے

                    نوشابہ : ۔ کتنی جلدی ہے اسے تمھارے لن سے اپنی پھدی چدوانے کی ، اوکے آجاو یہیں ، ہمارے بیچ میں ، یہ کہتے ہوئے نوشابہ نے ماہ رخ کے لیے تھوڑی سی جگہ بنا دی ، اور ماہ رخ نوشابہ کے اوپر سے ہوتی ہوئی ہمارے بیچ میں آکر لیٹ گئی ۔ جگہ کم تھی پھر بھی ہم نے ایڈجسٹ کر ہی لیا ، ماہ رخ سیدھی لیٹ گئی ، اور ہم دونوں ماہ رخ کی طرف کروٹ کے بل ہوگئے ۔ نوشابہ بولی ، چلو ارسلان ہم دونوں مل کر میری بہن کو مزے دیتے ہیں ۔ میں نے ، جو میری جان کا حکم ، کہا اور ہم دونوں نے ایک ساتھ ہی اپنے ہاتھ ماہ رخ کے مموں پر رکھ دیے ، اب ایک مما میں دبا رہا تھا اور ایک نوشابہ دبا رہی تھی ۔ ماہ رخ بہت جذباتی ہو رہی تھی ، آج پہلی بار اس کے مموں کو کسی مرد کا ہاتھ دبا رہا تھا جو اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا اور اس کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی ، نوشابہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا زیادہ شور مت کرو اور چپ چاپ مزے لو شور کی آواز سے کوئی اٹھ گیا تو ہم پھنس جائیں گے ۔ ہم دونوں ماہ رخ کے ممے بھی دبا رہے تھے اور اس کی گردن ، گالوں ، اور ہونٹوں پر کس بھی کرتے جا رہے تھے ، اور آپس میں بھی کس کر لیتے تھے ، ماہ رخ ، نوشابہ کی نسبت بہت زیادہ گرم لڑکی تھی ۔ کچھ دیر بعد نوشابہ نے اسکے ممے پر اپنا منہ رکھا تو میں نے بھی اپنا ہاتھ ہٹا کر ماہ رخ کی پھدی پر رکھ دیا ، ماہ رخ کے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا اور اس کے منہ سے لمبی سی آآآآہہہہہہہ نکل گئی ۔ نوشابہ نے اسے پھر آواز کنٹرول کرنے کو کہا تو ماہ رخ مجھ سے بولی ، ارسلان اب جلدی سے اپنا لن میری پھدی میں ڈال دو اور مجھے اس آگ سے نجات دلا دو اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہوتا ۔ میں بولا ، میری جان اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تک تو میں نے تمھارا دودھ بھی نہیں پیا ، دیکھا نہیں نوشابہ نے مزے لینے کے لیے مجھے پہلے اپنا دودھ پلایا تھا ، اور تم دودھ پلائے بغیر ہی لن مانگ رہی ہو ۔ ماہ رخ مچل گئی اور بولی ، ارسلان بعد میں دودھ بھی پی لینا ، اور جو تمھارا دل چاہے کر لینا ، بس ابھی تو ایک بار اپنا لن میری پھدی میں ڈال دو ۔

                    نوشابہ : ۔ یار ارسلان ! مت تڑپاو میری بہن کو جیسے وہ کہتی ہے کردو ، اسکے ممے کہیں بھاگے تو جا نہیں رہے ، جب چاہیے دودھ پی لینا ، جب چاہے چوس لینا ۔

                    میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ، کرتا ہوں ، مگر میرے پاس کنڈوم وغیرہ نہیں ہے ، اگر کچھ ہو گیا تو ؟

                    ماہ رخ : ۔ ہونے دو جو ہوتا ہے ، بس تم اندر ڈال دو ۔

                    نوشابہ : ۔ کچھ نہیں ہوتا ، بس تم باہر نکال کر فارغ ہو جانا ۔

                    میں نے بھی اوکے کہا اور اٹھ کر ماہ رخ کی ٹانگوں کے بیچ آگیا ، ماہ رخ نے خود ہی اپنی ٹانگیں اوپر اٹھا کر سائیڈوں میں کھول لیں ، میں نے نوشابہ سے کہا ، اس کی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ دو جو اس نے رکھ دیا ، چارپائی کی وجہ سے لن ٹھیک سے ایڈجسٹ نہیں ہو رہا تھا ، میں نے پھر بھی کوشش کر کے لن کو پھدی کے نشانے پر کر لیا ۔ ماہ رخ کی پھدی تو اسکے اپنے ہی پانی کی وجہ سے چکنی ہو چکی تھی میں نے اپنے لن پر بھی تھوک لگا کر گیلا کر لیا اور نوشابہ کو کہا ، لو میری شہزادی ، دیکھ لو اپنی بہن کی پھدی میں جاتا ہوا میرا لن ، تمہیں بہت شوق تھا نا اپنی بہن کو مجھ سے چدواتے ہوئے دیکھنے کا ۔

                    نوشابہ : ۔ ایک منٹ رکو ! مجھے موبائل کی لائٹ آن کرنے دو ، پھر اس نے لائٹ آن کی اور اٹھ کر میرے پاس آگئی ، اور لائٹ کا فوکس ، ۔ماہ رخ کی پھدی پر کر دیا ، میرا لن ماہ رخ کی پھدی پر رکھا ہوا تھا ، اس کی پھدی اتنی چھوٹی تھی کہ میرے لن کے ٹوپے کے نیچے سے نظر بھی نہیں آرہی تھی ، نوشابہ نے دیکھا تو بولی ، ارسلان ، یار کیسے جائے گا یہ اس کے اندر ، دیکھو ٹوپی کے نیچے سے دِکھ بھی نہیں رہی ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ ارسلان تم نوشابہ کی بات مت سنو ، چلا جائے گا بس تم اب ڈال دو ۔

                    میں : ۔ چلا تو جائے گا پر درد بہت ہوگا ، کیا تم برداشت کر لو گی ۔

                    ماہ رخ : ۔ ہاں کر لوں گی ، بس تم ڈال دو اندر ۔

                    نوشابہ : ۔ ارسلان ، آرام سے ڈالنا ، اس پاگل کو نہیں پتہ یہ کیا ڈلوانے جا رہی ہے اپنے اندر ۔

                    میں : ۔ تم فکر نہ کرو ، میں آرام سے ہی ڈالوں گا ، اور ماہ رخ زیادہ درد ہو تو بتا دینا ، اور زیادہ آواز نہ نکالنا ۔

                    ماہ رخ : ۔ ٹھیک ہے میں بتا دوں گی ۔

                    میں نے اب آہستہ آہستہ لن کو ماہ رخ کی پھدی پر رگڑنا شروع کیا ، ماہ رخ کے منہ سے اااااااااہہہہہہہہہ آاااااااااااہہہہہ کی آوازیں آنا شروع ہو گئی ۔ نوشابہ ساتھ کھڑی بڑے غور سے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔ اسکی اپنی حالت بہت پتلی ہو رہی تھی اور اس کے چہرے پر خوف تھا ، مگر ماہ رخ صرف اندر لینے کے لیے بے چین تھی ، میں نے نوشابہ کی طرف دیکھا ، اور پوچھا ، ڈال دوں کیا ؟ نوشابہ نے سر ہاں میں ہلا کر اجازت دے دی ، پھر میں نے ماہ رخ سے کہا زیادہ درد ہو تو بتا دینا ، میں رک جاوں گا ، یہ کہہ کر میں نی لن کو ماہ رخ کی پھدی کے سوراخ پر دبایا ، مگر سوراخ تنگ ہونے کی وجہ سے لن سلپ ہو کر سائیڈ میں نکل گیا ۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ آسانی سے نہیں جائے گا ، کچھ میں بھی اناڑی ہی تھا ، اور کچھ پھدی بھی بہت تنگ تھی ، نوشابہ بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ، جب بار بار کوشش کرنے پر بھی اندر جانے کی بجائے سلپ ہوتا رہا تو نوشابہ بولی ، ارسلان اسے ہاتھ میں پکڑ کر ڈالو گے تو سلپ نہیں ہوگا اور سیدھا جائے گا ، میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ اور لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اندر کی طرف دبایا پھر بھی نہیں گیا ، پھدی اتنی ٹائٹ تھی راستہ ہی نہیں دے رہی تھی ، میرے لن کی ٹوپی بھی درد کرنے لگی تھی ، اب مجھے غصہ آگیا۔ اور میں نے ذرا زور سے دھکا لگایا تو پچک کی آواز سے ٹوپی ماہ رخ کی پھدی می گھس گئی ، اور ساتھ ہی ماہ رخ کے منہ سے ایک زور دار آواز نکلی ااااااففففففف ااااااووؤووی میں مر گئی ، اور نوشابہ نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر آواز بند کر دی ، میں بھی ڈر گیا اور لن باہر نکال لیا ، کیونکہ اس کی آواز کافی اونچی تھی ، اگر اس وقت نانی کے علاوہ کوئی بھی کمرے میں ہوتا تو ضرور اٹھ جاتا ، اگر نانی بھی دواوں کے زیر اثر نہ ہوتی تو وہ بھی اٹھی جاتی ۔ میں سمجھ گیا تھا کہ بنا شور مچائے ماہ رخ میرا لن لے ہی نہیں سکتی ، اس کی آواز نے کافی ڈرا دیا تھا مجھے ، اب میں اس کی پھدی کو بھول کر اپنی جان بچانے کی سوچ رہا تھا ۔ میں نے ماہ رخ سے پوچھا ، کیا ہوا ، کیا بہت درد ہوا ؟ تو ماہ رخ بولی ، ہاں بہت زیادہ ، پر تم نے باہر کیوں نکال لیا ۔

                    نوشابہ : ۔ کیونکہ تمہیں بہت درد ہو رہا تھا اس لیے میں نے کہا تھا ۔

                    ماہ رخ : ۔ ہونے دو درد ، ارسلان تم ڈالو دوبارا ، مجھے آج ہر حال میں تمھارا لن اپنی پھدی میں لینا ہے ۔

                    میں : ۔ اس طرح کیسے ڈال دوں ، ابھی صرف ٹوپی ہی گئی تھی اور تم چیخ پڑی ، باقی کا لن کیسے لو گی اندر ؟

                    ماہ رخ : ۔ لے لوں گی ، بس تم اندر ڈالو آرام آرام سے ۔

                    میں نے نوشابہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولی

                    نوشابہ : ۔ نہیں ارسلان ، یہ خود تو مرے گی ہی ، ساتھ میں ہمیں بھی مروائے گی ۔ اس وقت یہ پاگل ہو چکی ہے ۔

                    میں : ۔ تو میں کیا کروں ؟ اب تم ہی اسے سمجھاو-

                    جاری ہے۔
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X