Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کزن سے کزنوں تک از مرزا اسلم . پارٹ 1

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    لبنیٰ باجی کی نظر مجھ پر پڑی تو انھوں نے مسکرا کر مجھے اشارہ کیا اور میں اٹھ کر ان کی چھت کی سائیڈ پر چلا گیا ، باجی مجھ سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی ۔ ان کے گھر والوں کی وجہ سے اب ایسی ویسی بات تو ہو نہیں سکتی تھیں ، کچھ دیر لبنیٰ باجی سے بات کرنے کے بعد میں اپنی چھت پر ہی بیٹھ گیا اور باجی بھی جا کر اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ، باجی کے چہرے کا رخ میری طرف ہی تھا ، میں اُن کو بار بار دیکھ رہا تھا ، کچھ دیر ایسے ہی بیٹھنے کے بعد مجھے ایک شرارت سوجھی اور میں نے باجی لبنیٰ کو ایک میسج لکھ بھیجا ۔

    میں : ۔ لبنیٰ باجی !!!!!!

    لبنیٰ باجی : ۔ ہاں جی !!!!!

    میں : ۔ ایک بات مانو گی میری ؟؟؟؟

    لبنیٰ باجی : ۔ کونسی بات ؟؟؟؟

    میں : ۔ پہلے آپ ہاں بولو پھر بتاتا ہوں ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ چلو تم کہہ رہے ہو تو مان لیتی ہوں ، تم بھی کیا یاد کرو گے ، کس باجی سے پالا پڑا تھا ، اب بتاو کیا بات ہے ؟؟؟؟؟؟

    میں : ۔ پلیززززز ، مجھے آپ کے دودھ دیکھنے ہیں ، ابھی ۔۔۔

    لبنیٰ باجی : ۔ اوئے تم پاگل تو نہیں ہو ؟ سب ساتھ ہی بیٹھے ہیں ، اور تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں دکھا دوں گی ؟؟؟

    میں : ۔ لبنیٰ باجی یہ تو نا انصافی ہوئی نا ، میں نے بھی تو تمھیں اپنا لن دکھایا تھا نا ، وہ بھی ننگا ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ تو ؟؟؟؟؟

    میں : ۔ تو آپ بھی اپنے ممے دکھاو نا ، ننگے نہیں ، بس دوپٹہ اتار کر کھڑی ہو جاو تھوڑی دیر کے لیے پلیززززززز ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ چل بھاگ ، کوئی نہیں دکھانے میں نے ۔

    میں : ۔ باجی پلیززززز ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ بڑے کمینے ہو تم ، مروانا چاہتے ہو مجھے ؟؟؟

    میں : ۔ آپ کو کون مار سکتا ہے ، آپ کو کسی نے کچھ نہیں کہنا مجھے پتہ ہے۔

    لبنیٰ باجی : ۔اتنی دور سے کیا نظر آئے گا جو اتنی ضد کر رہے ہو ؟؟؟

    میں : ۔ تو پاس آکر دکھا دو نا ، اپنی لبنیٰ باجی کے ممے دیکھ کر بہت مزہ آئے گا ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، خوابوں میں ہی دیکھو گے اب تم ۔

    میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے خوابوں میں بھی دیکھ لوں گا ، ابھی تو دوپٹہ سائیڈ میں کرو نا ،پلیزززز ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ چلو ٹھیک ہے کیا یاد کرو گے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسی باجی ہر کسی کو نہیں ملتی ۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے ممے بھی دکھائے اور وہ بھی گھر والوں کے سامنے ۔

    کپڑوں کے اوپر سے لبنیٰ باجی کے ممے میں نے ہزار بار دیکھے ہوں گے ، مگر میں اس فیلنگ کے مزے اٹھانا چاہتا تھا کہ لبنیٰ باجی خود مجھے اپنے ممے دکھا رہی ہے ۔ میرے مزے کے لیے یہ احساس ہی بہت تھا ورنہ اتنی دور سے ممے تو کیا مموں کا ابھار بھی ٹھیک سے نظر نہیں آنا تھا ۔

    میں : ۔ بہت بہت شکریہ ، میری پیاری باجی ۔۔۔۔

    باجی نے اِدھر اُدھر دیکھا ، سب گھر والے اپنی باتوں میں مصروف تھے ، پھر باجی نے بیٹھے بیٹھے اپنا دوپٹہ اتارا اور چپکے سے نیچے پھینک دیا ۔ لبنیٰ باجی کے بس اتنا ہی کرنے سے میرا لن جوش میں فل گرم ہو چکا تھا ۔۔۔۔ میں اب سوچتا ہوں وہ بھی کیا دن تھے کہ اتنے سے کام سے ہی لن فل تن جاتا تھا ، اور اب لڑکی کو فل ننگا بھی دیکھ لوں تو جب تک اس کے چودنے کا پروگرام نہ ہو اس وقت تک کھڑا ہی نہیں ہوتا ، پر اُس وقت تو ذرا ذرا سی بات پر کھڑا ہو جاتا تھا ۔ خیر ، باجی دوپٹہ نیچے پھینکنے کے بعد اوپر ہوئیں اور پھر جھک کر دوپٹہ اٹھا لیا اور میری طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی ، باجی نے سینہ باہر کو نکالا ہوا تھا جس سے اس کے بڑے بڑے ممے اتنی دور سے بھی قمیض کے اندر سے ہی ظاہر ہو رہے تھے ، کچھ دیر ایسے ہی کھڑی رہنے کے بعد لبنیٰ باجی نے دوپٹہ گلے میں ڈالا اور نیچے چلی گئی ۔ میرے لن کا برا حال ہو چکا تھا ۔ میں نے پھر سے لبنیٰ باجی کو میسج کیا ۔

    میں : ۔ شکریہ لبنیٰ باجی ! مجھے اپنے ممے دکھانے کے لیے ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ، باجیوں کے ممے تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کے بھائی مزہ لے سکیں ۔

    مجھے باجی کی بات سن کر جھٹکا سا لگا ، میں نے سوچا آج کل ان لڑکیوں کو ہو کیا گیا ہے ، پہلے نوشابہ ، اور ماہ رخ بھی ایسی ہی باتیں کر رہی تھیں اور اب لبنیٰ باجی بھی شروع ہو گئیں ، پھر میں نے سوچا کہیں ایسا تو نہیں کے باجی کا بھائی اس کے ممے تاڑتا ہو اور باجی نے یہ بات نوٹ کر لی ہو ، شاید اسی لیے وہ یہ بات کہہ رہی ہیں ، لیکن ایسا لگتا تو نہیں تو میں نے باجی سے پوچھا ۔

    میں : ۔ کیا مطلب ؟ کیا آپکا بھائی بھی آپ کے ممے دیکھ کر مزے لیتا ہے ؟

    لبنیٰ باجی : ۔ کمینے ! میں تمھاری بات کر رہی ہوں ، تم بھی تو مجھے باجی ہی کہتے ہو ۔

    میں : ۔ اچھا اچھا ! میں تو کہیں اور ہی پہنچ گیا تھا ۔

    لبنیٰ باجی: ۔ تم تو ہو ہی کمینے ، کہیں بھی پہنچ جاتے ہو ۔

    میں : ۔ آپ کا ہی شاگرد ہوں ، جب بھی بات ہوگی آپ کا بھی نام آئے گا ، اس لیے بار بار مجھے کمینہ نہ کہا کرو ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ کیونکہ میں تم سے بڑی ہوں ، اس لیے بڑی کمینی ہوئی ، تو پھر میرا نام آنے سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے ۔

    میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اب یہ تو بتاو آپ مجھے اپنے ممے ننگے کرکے کب دکھاو گی ؟؟؟؟

    لبنیٰ باجی : ۔ میں تمھیں کیوں دکھاوں اپنے ممے ننگے کرکے ، وہ تو صرف میرے شوہر کے لیے ہیں ۔

    میں : ۔ تو پھر آپ کچھ دیر کے لیے یہ سمجھ لینا کہ میں آپ کا شوہر ہوں ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ واہ جی واہ کیا خوب، تم کیا چاہتے ہو اب میں اپنے بھائی کو اپنا شوہر سمجھ لوں ۔

    میں : ۔ اچھا جی ! بھائی کا لن ننگا کروا کر دیکھ سکتی ہو مگر بھائی کو اپنے ممے ننگے کر کے نہیں دکھا سکتی ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ اچھا چلو ٹھیک ہے ، کبھی موڈ اچھا ہوا تو دکھا دوں گی ۔۔۔۔۔ وہ تم نے آج مجھے ماہ رخ کی گانڈ مارنے والی سٹوری بھی سنانی تھی ؟

    میں : ۔ ہاں وہ رات کو سناوں گا ۔

    لبنیٰ باجی : ۔ ٹھیک ہے میں فارغ ہو کر تمھیں میسج کرتی ہوں ۔

    لبنیٰ باجی سے بات کرنے میں بہت مزہ آرہا تھا ، دل تو کر رہا تھا کہ ان سے باتیں کرتا ہی جاؤں ، مگر انھیں گھر کے کام بھی کرنے تھے اس لیے میں نے زور نہیں دیا ۔ کچھ دیر ایسے ہی چھت پر بیٹھا رہا ، جب لن پرسکون ہو گیا تو نیچے آگیا اور کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ٹی وی دیکھنے لگا ، ماہ رخ اور نوشابہ سے تو روز ہی بات ہوتی تھی لیکن سائمہ کے پاس موبائل نہیں تھا اس لیے اس سے بات نہیں ہوتی تھی ۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے میرا دل کیا سائمہ سے بات کرنے کو تو میں نے نوشابہ کو میسج کیا ۔

    میں : ۔ نوشابہ ؟؟؟؟؟

    نوشابہ : ۔ جی میرے نخرے والے شوہر ، کیا رات ناراض ہوگئے تھے ؟؟

    میں : ۔ نہیں ، ایسی تو کوئی بات نہیں ، بس نیند بہت آرہی تھی اس لیے زیادہ بات نہیں کر سکا ۔ ممانی کہاں ہیں ؟؟؟

    نوشابہ : ۔ وہ تو تایا ابو کے گھر گئی ہیں ۔

    میں : ۔ اور سائمہ کہاں ہے ؟؟؟

    نوشابہ : ۔ یہ میرے ساتھ ہی بیٹھی ہے ۔

    میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے میں فون کرتا ہوں ، مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔

    نوشابہ : ۔ کیا بات کرنی ہے تم نے اس سے ؟؟؟

    میں : ۔ بعد میں بتادوں گا ۔

    نوشابہ : ۔ کوئی بات وات نہیں کرانی میں نے تمھاری اس سے ۔

    میں : ۔ کیوں بھئی ! وہ میری کزن ہے ، میں بات کر سکتا ہوں اس سے ۔

    نوشابہ : ۔ نہیں ! تم میری ایک اور بہن کو بھی پھنسا لو گے ۔

    میں : ۔ تو اچھا ہے نا ، میں ہی پھنسا رہا ہوں ، اور اگر کہیں باہر پھنس گئی تو ؟؟

    نوشابہ : ۔ آہو تم نے تو ٹھیکہ لے رکھا ہے نا ہم سب بہنوں کو پھنسا کر چودنے کا ۔

    میں : ۔ ہاں ! اب تم سب ہو ہی اتنی خوبصورت ، کہیں اور لن گھسانے کو دل ہی نہیں کرتا ۔ اچھا یار میں فون کرنے لگا ہوں ، ایسا نہ ہو کہ ممانی آجائیں ، پھر سائمہ کو ان کے سامنے بات کرنے میں مشکل ہوگی ۔

    نوشابہ : ۔ اوکے جناب ! کریں کال ، کراتی ہوں بات ۔

    نوشابہ کا جواب ملتے ہی میں نے کال ملا دی کچھ دیر بعد مجھے آواز سنائی دی وہ نوشابہ کی ہی تھی ۔

    نوشابہ : ۔ ہیلو ۔۔۔۔۔۔ میرے شہزادے ۔

    میں : ۔ شہزادے کو ابھی رہنے دو اور سائمہ کو فون دو ۔

    نوشابہ : ۔ اچھا ! دیتی ہوں ، مجھ سے تو بات کر لو پہلے ۔

    میں : ۔ تم سے تو روز ہی کرتا ہوں ۔

    نوشابہ : ۔ فون پر تو نہیں نا کرتے روز ۔

    میں : ۔ اس میں کیا ہے آگے سے فون پر کر لیا کروں گا ۔۔۔۔۔۔ مسئلہ تمھیں ہوتا ہے مجھے تو نہیں ۔

    نوشابہ : ۔ میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی ، ابھی بلاتی ہو سائمہ کو ۔

    اس کے بعد نوشابہ نے سائمہ کو آواز دی ، اور اس کے آنے تک مجھ سے پکا والا وعدہ لیا کہ میں سائمہ کے ساتھ جو بھی بات کروں گا اسے ایک ایک لفظ بتاوں گا پھر اس نے فون سائمہ کو دے دیا ۔

    سائمہ : ۔ جی کزن بھائی ؟؟؟

    میں : ۔ پیاری کزن ، کیسی ہو تم ؟؟؟؟

    سائمہ : ۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں ، آپ کیسے ہیں ؟؟؟

    میں : ۔ بالکل ٹھیک ! تم تو بھول ہی گئی ہو مجھے ۔

    سائمہ : ۔ بھولی میں ہوں یا آپ ؟ میرے پاس تو فون بھی نہیں ہے ، اور آپ اب ہمارے گھر آتے ہی نہیں ۔

    میں : ۔ اب روز روز آنا بھی تو اچھا نہیں ہے نا ۔

    سائمہ : ۔ کیوں جی ! آپکے ماموں کا گھر ہے ، جب مرضی آجاو ، کسی کو کیا تکلیف ہے آپکے آنے سے ؟

    میں : ۔ اچھا جی ! تو میں کیا لینے آؤں وہاں ؟؟؟؟

    سائمہ : ۔ یہاں سے تو جو چاہو گے وہ مل جائے گا ۔

    میں : ۔ جو مجھے چاہیے ، وہ پتہ نہیں ملے گا یا نہیں ۔

    سائمہ : ۔ کیا چاہیے آپ کو ، مانگ کر تو دیکھو ۔

    میں : ۔ اب اگر اپنوں سے بھی مانگ کر لینا ہے تو بندہ باہر سے ہی نہ لے لے ۔

    سائمہ : ۔ آپ بتاو گے تو ہمیں پتہ چلے گا نا ، کہ آپ کو کیا چاہیے ؟؟

    میں : ۔ تم کو سچی میں نہیں پتہ کہ مجھے کیا چاہیے ۔

    میر باتیں سائمہ کو کنفیوژ کر رہی تھیں اور اب اسے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا ، اس کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے ۔۔۔ میں نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا ۔

    میں : ۔ بتاؤ نا ، تمھیں سچ میں نہیں پتہ ؟

    سائمہ : ۔ نہیں نا ! مجھے کیسے پتہ ہوگا ؟ جب تک آپ بتائیں گے نہیں کہ آپکو کیا چاہیے ، آپ مجھ سے جو مانگو گے میں دے دوں گی ۔

    میں : ۔ کچھ بھی ؟ جو بھی میں کہوں گا دے دو گی ؟؟

    سائمہ : ۔ ہاں ! دے دوں گی ۔

    میں : ۔ دیکھ لو کہنا آسان ہوتا ہے ، کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔

    سائمہ : ۔ آپ کہہ کر تو دیکھو ۔

    میں : ۔ چلو کبھی ملے تو کہہ کر بھی دیکھ لیں گے ۔

    جاری ہے۔
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

    Comment


    • #32


      سائمہ : ۔ ٹھیک ہے مانگ لینا ۔۔۔۔۔۔ ویسے میرا لالیپاپ کہاں ہے ؟؟؟؟

      میں : ۔ میرے پاس ہی ہے ۔

      سائمہ : ۔ آپ کے پاس کیا کر رہا ہے ، اسے تو میرے پاس ہونا چاہیے ؟؟؟

      میں : ۔ یہاں وہ بہت اچھل کود رہا ہے ۔

      سائمہ : ۔ اچھل کود کیوں رہا ہے ؟؟؟

      میں : ۔ وہ خوشی میں اچھل رہا ہے ، تم سے بات ہو رہی ہے نا ، اس لیے ۔

      سائمہ بات مجھ سے ہو رہی آپ کی ، پھر یہ لالیپاپ کیوں اچھل کود کر رہا ہے ؟؟

      میں : ۔ اس کو پتہ چل گیا ہے نا کہ جس سے بات ہو رہی ہے وہی اسے چوسے گی ، اسی لیے خوشی کے مارے کہیں بیٹھ ہی نہیں رہا ۔

      سائمہ : ۔ تو آپ بٹھاؤ نا اسے ۔

      میں : ۔ مجھ سے تو نہیں بیٹھ رہا ، اسے بٹھانے کے لیے تمھاری مدد چاہیے۔

      سائمہ : ۔ بتاؤ جی ، میں کیا مدد کر سکتی ہوں ؟؟؟؟

      میں : ۔ تم اس کو چوسو گی تو پھر یہ بیٹھ جائے گا ۔

      سائمہ : ۔ اس کو میرے پاس ہی بھیج دو پھر میں اسے روز چوس چوس کر بٹھا دیا کروں گی ۔

      میں : ۔ جب تم اسے سنبھالنے کے قابل ہو جاو گی تو میں تمھیں دے دوں گا ۔

      سائمہ : ۔ اس میں سنبھالنے والی کیا بات ہے ۔۔۔۔۔ چوسنا ہی تو ہے ، میں چوس دیا کروں گی ۔

      میں : ۔ اچھا جی ! تمھیں تو مجھ سے بھی زیادہ جلدی ہے ۔

      سائمہ : ۔ آپ کو کس بات کی جلدی ہے ؟

      میں : ۔ یار میں تم کو لالیپاپ دوں گا تو بدلے میں مجھے بھی تو کچھ ملے گا نا ؟

      سائمہ : ۔ ہاں یہ تو ہے ۔۔۔ آپ مجھے لالیپاپ دو اور بدلے میں جو آپ کہو گے وہ میں آپ کو دے دوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مائنڈ نہ کرو تو ایک بات پوچھوں ؟؟

      میں : ۔ ہاں پوچھو نا ، میں کیوں مائنڈ کرنے لگا ؟؟؟

      سائمہ : ۔ آپ کو ابھی تک کہیں اور سے کچھ نہیں ملا جو ابھی تک آپ ابھی تک کچھ ڈھونڈ رہے ہو ؟؟؟

      میں : ۔ یار اب کیا بتاؤں تھوڑا بہت ملا تو ہے مگر ابھی تک سارا نہیں ملا ۔

      سائمہ : ۔ کیوں ، سارا کیوں نہیں ملا ؟؟

      میں : ۔ اب سب ہی تمھاری طرح تو نہیں ہیں نا ۔۔۔

      سائمہ : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، پھر بھی بتاؤ نا ؟؟؟

      میں : ۔ دوسروں کو چھوڑو تم اپنی بات کرو نا ۔

      سائمہ : ۔ اپنی کیا بات کروں ؟

      میں نے اس دن سائمہ کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کیں ۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں کو ہی پتہ تھا کہ ہم کس کی اور کیا بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اور دونوں ہی ڈھکے چھپے انداز میں مزے لے رہے تھے ۔۔۔۔ سائمہ سے بات کرتے ہوئے میرا لن ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں بیٹھا ۔۔۔۔۔۔ سائمہ اب کافی کھل چکی تھی۔۔۔۔۔ میں نے سوچا اب سائمہ کے ساتھ بھی جسمانی طور پر چھیڑ چھاڑ کی جانی چاہیے ۔ باتیں تو بہت ہوچکی تھیں اب آگے بڑھنا تھا ۔ میں نے اپنے دماغ میں پلان بنا چکا تھا کہ کیسے سائمہ کے ساتھ تھوڑا تھوڑا مزہ کرنا ہے ، جس سے اس کے اندر کی آگ اور زیادہ بھڑک جائے ۔

      فون بند کرتے ہی تھوڑی دیر میں نوشابہ کا میسج آگیا ۔

      نوشابہ : ۔ کیا بنا ؟؟؟؟

      میں : ۔ کیا بننا تھا ؟؟؟؟

      نوشابہ : ۔ پھنسی کہ نہیں ؟؟؟؟؟

      میں : ۔ تمھاری بہنوں کو پھنسانے کی ضرورت نہیں ہے یہ بات تم بھی جانتی ہو ، اور ویسے بھی میں جو بھی کروں گا تمھارے ذریعے ہی کروں گا ۔

      نوشابہ : ۔ کیا مطلب اب مجھے اپنی ایک اور بہن کو بھی تم سے چدوانے کے لیے تیار کرنا ہوگا ؟

      میں : ۔ ہاں ! کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی کہ کوئی اور نہیں بلکہ میں تمھاری بہنوں کی پھدیاں کھولوں گا ۔

      نوشابہ : ۔ اچھا جی ٹھیک ہے تم ہی کھولنا میری ساری بہنوں کی پھدیاں ۔

      میں : ۔ چلو ٹھیک ہے اب تم اس کے ساتھ بھی تھوڑا فری ہونا شروع کردو ،اور اس کو بھی اپنے مذاق میں شامل کرنا شروع کردو تاکہ اس کی جھجک بھی ختم ہو اور وہ تم سے ڈرنا چھوڑ دے ۔

      نوشابہ : ۔ اچھا ٹھیک ہے میں سب سنبھال لوں گی ، تم بس تیاری کرو ، ماہ رخ کی سیل کھولنے کی ، سائمہ کا بندوبست میں کر لوں گی ۔ ویسے اگر تم ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں ۔

      میں : ۔ میں تم سے کیسے ناراض ہو سکتا ہوں ؟؟؟؟

      نوشابہ : ۔ ماہ رخ کو چودنے کے بعد تو سائمہ کو تیار کروا رہے ہو ، اس کے بعد بھی کسی کے بارے میں سوچا ہے ؟

      میں : ۔ اس کے بعد کیا سوچنا ہے ؟؟؟؟

      نوشابہ : ۔ تم اپنے گھر بھی نظر ڈالو ، تمھاری صباء آپی کے جانے کے بعد بھی دو دو پھدیاں ہونگی ، ان کو بھی کسی نہ کسی سے چدوانا تو ہے ۔

      میں : ۔ نوشابہ میں نے کل بھی کہا تھا کہ میری بہنوں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرو ، میں یہ برداشت نہیں کرسکتا ۔

      نوشابہ : ۔ بہن کے بارے میں کون بات کر رہا ہے ؟ میں تو مشال اور شفق آپی کی بات کر رہی ہوں ۔

      میں : ۔ وہ دونوں بھی میری بہنیں ہی ہیں ۔ تم کیوں ان کے پیچھے پڑ گئی ہو ۔

      نوشابہ : ۔ اور تم جو ہم سب بہنوں کے پیچھے پڑ گئے ہو ، میں نے تو کچھ نہیں کہا ، اور رہی بات بہنوں والی تو ویسی ہی ماہ رخ ، میں اور سائمہ بھی تمھاری بہنیں ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم تمھارے ماموں کی بیٹیاں ہیں اور شفق اور مشال تمھارے چچا کی بیٹیاں ہیں ، اگر ہماری پھدیوں میں تمھارا لن جا سکتا ہے تو تم انہیں بھی چود سکتے ہو ۔

      نوشابہ کی باتوں سے میرا دماغ بالکل ماوف ہو چکا تھا مجھے اتنا غصہ آرہا تھا ، لیکن میں بات کو ختم کرنا چاہتا تھا تو میں نے کہا ۔

      میں : ۔ نوشابہ تم جانتی ہو کہ ہم نے کبھی بھی انھیں اپنی کزنیں نہیں سمجھا ، انھیں ہم سب اپنی بہنیں ہی مانتے ہیں اور بہنوں کے بارے میں میں کچھ سننا نہیں چاہتا ۔

      نوشابہ : ۔ کیسے نہیں سنوں گے تم ان کے بارے میں بات ، اب میں صرف ان ہی کے بارے میں بات کروں گی ۔

      مجھے نوشابہ پر حد سے زیادہ غصہ آیا میں اپنے اس وقت کے جذبات ٹھیک سے بتا بھی نہیں پا رہا ۔ مجھے غصہ بھی تھا ۔۔۔۔۔ افسوس بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔ شرمندگی بھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور پچھتاوا بھی تھا ۔ میں اپنے دل کو ٹوٹا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔ میں نے غصے میں ہی فیصلہ کیا ، اور جذبات میں بندہ غلط فیصلہ ہی کرتا ہے اس کا اندازہ مجھے کچھ دن بعد میں ہوا ۔

      نوشابہ تمھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ، مجھے بہت بھروسا تھا تم پر ، اور اپنے پیار پر ۔ تم جانتی ہو کہ مشال اور شفق آپی ہمارے گھر کا ہی حصہ ہیں ، اور تم نے ان کے بارے میں ایسی باتیں کر کے مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ہے ۔

      نوشابہ کو یہ میسج لکھ کر بھیجنے کے بعد میں نے اس کے جواب کا بھی انتظار نہیں کیا اور فون بند کر دیا اور دل ہی دل میں قسم کھا لی کہ اب جو بھی ہو جائے میں نے نوشابہ سے بات نہیں کرنی ۔۔۔۔۔۔

      یہ فیصلہ میرے لیے کتنا مشکل تھا اس کا اندازہ مجھے ایک دو دن بعد ہوا ۔ میں نے غصے میں فون بند کر دیا تھا اور اسی دن مجھے لبنیٰ باجی سے بھی بات کرنی تھی مگر میں غصے کی وجہ سے ان سے بھی بات نہ کر سکا ۔ ساری رات مجھے شدید غصے اور غم کی وجہ سے نیند نہ آئی ، ساری رات میں نوشابہ کے بارے میں یہ سوچتا رہا کہ اسے میرے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ لیکن ایک بار بھی میں نے نوشابہ کے بارے میں یہ نہیں سوچا کہ اسکا کیا حال ہوا ہوگا ۔

      صبح کالج سے واپس آتے ہوئے میں نئی سم بھی لے آیا ۔ میں نے پکا فیصلہ کر لیا تھا کہ اب نوشابہ وغیرہ سے کبھی بات نہیں کرنی ، اور رہی بات سیکس کی تو میں مٹھ مار لیا کروں گا ، باہر بھی تو بہت لڑکیاں مل جاتی ہیں ، اور اس کے علاوہ لبنیٰ باجی بھی تو ہیں ۔ اس وقت میری سوچ بس اتنی ہی تھی ۔

      کالج سے آنے کے بعد میں گھر واپس آیا ، کھانا کھانے کے بعد لیٹا ہوا تھا ۔ کل رات سے میں نے کسی سے بھی بات نہیں کی تھی ، کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا تھا میرا دل ہی نہیں کر رہا تھا کسی سے بھی بات کرنے کو ، تبھی شفق آپی میرے پاس آئیں اور بولیں ۔

      شفق آپی : ۔ کیا بات ہے ارسلان ؟ تم کچھ پریشان لگ رہے ہو ؟؟؟؟

      میں : ۔ آپی میں ٹھیک ہوں ، پریشان کہاں ہوں ، یہ کہتے ہوئے میں نے ہنسنے کی کوشش بھی کی۔

      شفق آپی : ۔ مجھ سے مت چھپاو ، نوشابہ کا فون آیا تھا ۔۔۔۔۔ تم اس سے ناراض ہو ۔۔۔ وہ بہت رو رہی تھی ۔۔۔تم اس سے بات بھی نہیں کر رہے ہو ۔

      میں : ۔ میں نے نہیں کرنی اس سے بات ۔

      شفق آپی : ۔ کیوں نہیں کرنی ؟؟؟

      میں : ۔ اس نے میرا دل دکھایا ، اس نے مجھے وہ کہا ہے جو میں برداشت نہیں کر سکتا ، اس نے میرا اعتماد توڑا ہے ۔

      شفق آپی : ۔ کیا مطلب وہ کسی اور کے ساتھ بھی۔۔۔۔۔۔

      میں : ۔ نہیں یہ بات نہیں ہے ، ہماری آپس کی بات تھی ، میں نے ایک بات سے اسے منع کیا تھا مگر وہ نہیں مانی ۔ اس نے میرا دل دکھایا ہے میں نے اب اس سے بات نہیں کرنی ، جو مرضی ہو جائے ۔

      شفق آپی: ۔ وہ بہت پریشان ہے ۔۔۔۔ وہ کھانا بھی نہیں کھا رہی ہے اور بہت رو رہی ہے ۔۔۔۔ اس سے ایک بار بار کرلو ، جو بھی مسئلہ ہوا ہے اس کا حل نکل آئے گا ۔

      میں : ۔ میں نے نہیں کرنی اس سے کوئی بھی بات ۔۔۔

      شفق آپی: ۔ پلیزززززز ، ارسلان ، میری خاطر ہی بات کر لو میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ میں تمھاری بات کرا دوں گی ۔۔

      میں : ۔ سوری آپی ۔۔۔۔ مجھے نہیں کرنی اس سے کوئی بات ۔

      یہ کہہ کر میں اٹھا اور باہر نکل گیا ، اب میں آپی کو کیا بتاتا کہ وہ تم دونوں کے بارے میں ہیں ایسی ویسی باتیں کر رہی تھی ، اور تم ہی اس کی وکالت کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی میں نے بنا دی تھی ۔ اس کی بات کسی حد تک ٹھیک بھی تھی ، جب میں ماموں کی بیٹیوں کے بارے میں ایسی فیلنگز رکھ سکتا ہوں تو چچا کی بیٹیوں کے بارے میں ایسا کیوں نہیں سوچ سکتا ۔ لیکن میرا دماغ اس بات کو قبول ہی نہیں کر رہا تھا اس وقت ، کیونکہ میں نے اور سب گھر والوں نے بھی کبھی صباء آپی ، شفق آپی اور مشال میں کوئی فرق ہی نہیں رکھا تھا بلکہ ہمارے مقابلے میں انھیں زیادہ اہمیت دی جاتی تھی ۔

      مگر میرے دل میں نوشابہ کے لیے کوئی فیلنگز نہیں بچی تھیں یا پھر میں محسوس نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ مجھے اس پر بہت غصہ آرہا تھا میں اس وقت اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا ، اس وقت احساس ہی نہیں تھا کہ میرے اس غصے میں بھی اس کے لیے پیار چھپا ہو ا ہے ، لیکن میں تو بس دل ہی دل میں خود سے وعدے کیے جا رہا تھا کہ اب نوشابہ سے بات نہیں کرنی

      جارہی ہے ۔
      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

      Comment


      • #33
        مجھے اپنا پتہ بھی تھا کہ ایک بار اگر میں نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تو پھر میں اسے معاف کیے بغیر نہیں رہ سکوں گا ، میں نوشابہ سے بات بھی اسی لیے نہیں کر رہا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اگر ایک بار میں نے اس سے بات کر لی تو اس نے کچھ بھی کرکے مجھے منا لینا ہے ۔ میں اس وقت کا گھر سے نکلا ہوا شام کو ہی گھر واپس آیا ، اور کھانا کھاتے ہی بیٹھک میں آگیا ، سب نے پوچھا کیا بات ہے تو میں نے طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا دیا ۔۔۔۔۔ تینوں بہنوں کو تو پتہ تھا مگر امی اور ابو کو کچھ نہیں پتہ تھا ، میرا ایک بھائی بھی ان دونوں چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا ، اسے بھی کچھ پتہ نہیں تھا ۔ میں بیٹھک میں آکر لیٹ گیا اور اپنے آپ سے دل ہی دل میں وعدے کرنے لگا کہ اب نوشابہ سے بات نہیں کروں گا ۔

        ایسے ہی لیٹے لیٹے مجھے لبنیٰ باجی کا خیال آیا ، دل تو نہیں کر رہا تھا پھر بھی میں نے سوچا چلو لبنیٰ باجی سے بات کر ہی لیتے ہیں ، وہ بھی پریشان ہو رہی ہونگی ، کیونکہ کل میں نے ان سے بات کرنی تھی وہ بھی نہیں کر سکا تھا اور میرا نمبر بھی بند تھا اور نئے نمبر کا انھیں پتہ نہیں تھا ۔

        میں : ۔ لبنیٰ باجی ، میں ارسلان ہوں اور یہ میرا نیا نمبر ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ کون ارسلان ؟؟؟

        لبنیٰ باجی سمجھ تو گئی ہوں گی مگر مجھ سے کنفرم کرنا چاہ رہی ہونگی ۔

        میں : ۔ وہی ارسلان جسکا لن دیکھا تھا آپ نے چھت پر ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ اچھا تو یہ تم ہی ہو کمینے ۔۔۔۔۔۔ کہاں تھے تم ؟ کل رات میں نے تمھیں کتنے میسج کیے ۔ اور یہ نمبر کیوں تبدیل کرلیا تم نے ؟؟؟؟

        میں : ۔ رات کو سم خراب ہو گئی تھی اسی لیے بات نہیں کر سکا ، اسی لیے آج یہ نیا نمبر لایا ہوں ۔

        باجی کو میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر میں نے باجی کو اصل بات بتائی تو باجی نے بھی مجھے نوشابہ سے بات کرنے کے لیے مجبور کرنا ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ سم کیسے خراب ہو گئی ؟

        میں : ۔ پتہ نہیں کیسے ہوگئی ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ تم نے کل کوئی سٹوری سنانی تھی مجھے ۔

        میں : ۔ لبنیٰ باجی پھر کبھی سنا دوں گا ابھی میرا دل نہیں کر رہا ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ او ہو ، کیا ہوگیا ہے میرے پیارے شاگرد کے دل کو ؟؟؟؟

        میں : ۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی آج موڈ نہیں ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے، ورنہ تم اور ایسی باتوں کا موقع ضائع کردو ، ہو نہیں سکتا ۔

        میں : ۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ، ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ میں اچھی طرح سے جانتی ہوں تمھیں ، چلو اب سچی سچی بتاو کیا ہوا ہے ؟؟؟

        میں : ۔ کوئی بات نہیں ہے ، بس نوشابہ سے تھوڑی سی لڑائی ہو گئی ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ اچھا تو یہ بات ہے ، میں بھی تو سوچوں ، کیا ہوگیا ہے میرے شاگرد کو وہ ایسا تو نہیں کہ سیکسی باتیں کرنے سے ہی انکار کردے وہ تو ایسے موقع کی تلاش میں رہتا ہے ۔

        میں : ۔ ہاں بس یہی بات ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ یار اس میں اتنا اداس ہونے کی کیا ضرورت ہے ، پیار میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں ۔

        میں : ۔ ہاں یہ تو ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ تو چلو پھر جلدی سے اپنا موڈ ٹھیک کرو ۔۔۔۔۔۔ اور مجھے سٹوری سناؤ اپنی ماہ رخ کی گانڈ مارنے والی ۔

        میں : ۔ لبنیٰ باجی پلیززززز ، پھر کبھی سن لینا ، ابھی موڈ نہیں ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ میں نے آج ہی اور ابھی سننی ہے ،اوکے ۔

        میں : ۔ واہ جی واہ ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ کیا واہ جی واہ ، اگر سنانی ہے تو ابھی سناؤ ، ورنہ پھر کبھی بھی مجھ سے سیکسی باتیں مت کرنا ، اور پھر دیکھ لینا تم میرے ننگے ممے بھی ۔

        لبنیٰ باجی جان بوجھ کر ایسے الفاظ کا استعمال کر رہی تھی ، وہ میرا موڈ بنانا چاہتی تھی ، لیکن آج میرا ذرا بھی دل نہیں تھا ، مجھے لبنیٰ باجی پر بھی غصہ آنا شروع ہوگیا تھا ، ایک بار تو دل کیا کہ باجی کو بھی سنا دوں دو ، چار ۔۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ لبنیٰ باجی کو ناراض نہیں کرنا چاہئیے ، پہلے بھی ایک بار ایسا ہی کر چکا ہوں ، اگر اب کی بار ایسا ہوگیا تو باجی نے معاف نہیں کرنا ، اور ویسے بھی میں نے پکا فیصلہ کر لیا تھا کہ نوشابہ اور ماہ رخ سے اب بالکل بھی بات نہیں کرنی ہے ، تو ان کے بعد ایک لبنیٰ باجی ہی رہ جاتی ہیں ، جن سے میں بات کر سکتا ہوں ، یہ سوچ کر میں نے کہا ۔

        میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے سناتا ہوں آپ کو ۔

        اس کے بعد میں نے لبنیٰ باجی کو اس دن کی ساری بات فل تفصیل کے ساتھ سنا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ لبنیٰ باجی کو اپنے سیکس کی داستان سناتے ہوئے میں بھی اپنے غصے سمیت سب کچھ بھول چکا تھا ، اب میرا پرانا موڈ اچھے سے بحال ہو چکا تھا ، لبنیٰ باجی بھی اس وقت فل گرم ہو چکی تھیں ۔

        میں : ۔ تو پھر کیسی لگی آپکو اس بار ماہ رخ کی چدائی کی کہانی ؟

        لبنیٰ باجی : ۔ حیرت انگیز ! !!!!!!! کیا واقعی اس بار ماہ رخ نے تمھارا پورا لن اپنی گانڈ میں آرام سے لے لیا ؟ اور اسے درد بھی نہیں ہوا ؟؟؟؟؟

        میں : ۔ نہیں ، اس بار اسے بہت مزہ آیا ، میں پورا لن اس کی گانڈ میں ڈال کر فل طاقت سے جھٹکے مارتا رہا مگر اس نے ایک بار بھی مجھے نہیں روکا ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ میں تو سوچ رہی ہوں ، ماہ رخ اتنی سی تو ہے اس نے اپنی گانڈ میں تمھارا اتنا بڑا لنڈ لے کیسے لیا ؟؟؟

        میں : ۔ وہ تو اب پھدی بھی مروانے کے لیے بھی ضد کر رہی ہے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ تو مار دو نا ، بیچاری کی پھدی بھی ۔

        میں : ۔ موقع ہی نہیں مل رہا ، صباء آپی کی شادی پر کوئی موقع بن گیا تو مار لوں گا ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ میری کوئی مدد چاہیے ہو تو ضرور بتانا ۔

        میں : ۔ آپ ماہ رخ کی پھدی مارنے میں میری کیا مدد کر سکتی ہو ؟؟؟؟؟

        لبنیٰ باجی : ۔ میں تمھارا لن اپنے ہاتھ سے پکڑ کر ماہ رخ کی پھدی میں ڈال دوں گی ۔۔۔۔۔ بیوقوف ۔۔۔۔۔۔۔ سو طرح کے مسئلے ہوتے ہیں ، کچھ بھی ہو تو مجھ سے بات کر لینا ۔

        میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ میرا لنڈ پکڑ کر ماہ رخ کی پھدی کی بجائے اپنی ہی پھدی میں ڈال لو ؟؟؟؟؟

        لبنیٰ باجی : ۔ جی نہیں شکریہ ۔۔۔۔

        میں : ۔ لبنیٰ باجی ! کیا آپ کا سچ میں دل نہیں کرتا میرا لن لینے کو ؟؟؟؟

        لبنیٰ باجی : ۔ نہیں کرتا ۔۔۔

        میں : ۔ (میں نے تھوڑا سا مایوس ہوکر کہا ) اوکے ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، مذاق کر رہی ہوں یار ۔

        میں : ۔ مطلب آپ کا بھی دل کرتا ہے میرا لن لینے کو ؟؟؟؟

        لبنیٰ باجی : ۔ ہاں ! جب سے تمھارا لن دیکھا ہے میں اور میری پھدی دونوں ہی تمھارے لن کے لیے تڑپ رہے ہیں ۔

        میں : ۔ کیوں تڑپ رہی ہو ، لے لو نا میرا لن اپنی پھدی میں ، منع کس نے کیا ہے ۔۔ میری باجی کو ؟؟؟؟

        لبنیٰ باجی : ۔ منع تو کسی نے بھی نہیں کیا ، لیکن اگر میں تم سے اپنی پھدی مروا لیتی ہوں تو شادی کی رات اپنے شوہر کو کیا جواب دوں گی ، میرے بوائے فرینڈ کو پتہ ہے کہ میں سیل پیک ہوں ، اس نے خود میری پھدی چیک کی ہوئی ہے ۔

        میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب کیا کروں ۔۔۔ پھر اچانک دماغ میں ایک آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ میں لبنیٰ باجی کو تیار کروں کہ وہ ایک بار اپنے بوائے فرینڈ سے چدوا کر اپنی سیل کھلوا لے پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ، تب تک اگر موقع ملا تو میں لبنیٰ باجی کی گانڈ مارتا رہوں گا ۔

        میں : ۔ اس کا بھی ایک حل ہے ، اگر آپ میرا ساتھ دو تو ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ کیا حل ہے تمھارے پاس اس مسئلے کا ؟؟؟؟

        میں : ۔ آپ ایک بار اپنے بوائے فرینڈ سے چدوا کر اپنی سیل کھلوا لو ، اس کے بعد آپ کو کھلی آزادی ہوگی ، جب دل چاہے میرا لن لے لیا کرنا اپنی پھدی میں ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ اگر فرض کرو میں اپنے بوائے فرینڈ سے چدوا لیتی ہوں اور بعد میں وہ مجھ سے شادی کرنے سے انکار کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا ؟؟؟؟

        میں : ۔ کیا آپ کو اپنی محبت پر اتنا بھی بھروسہ نہیں ہے ۔

        بھروسے کا لفظ آتے ہی مجھے نوشابہ پر اپنا بھروسہ یاد آگیا اور میرا موڈ تیزی سے چینج ہونا شروع ہوگیا ، میں نے سوچا بات کا رخ تبدیل کرنا چاہیے ، ورنہ میں پھر سے پریشان ہو جاؤں گا ۔

        میں : ۔ چلو پھدی نہ سہی ، گانڈ تو مروا ہی سکتی ہو مجھ سے ، اس میں تو کوئی سیل والی بات ہی نہیں ہوتی ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ نہیں نہیں ، میں نے تم سے گانڈ نہیں مروانی ،گانڈ مروانے سے بہت درد ہوتا ہے ، اور تمھارا لن تو ویسے بھی بہت بڑا ہے وہ تو میری گانڈ پھاڑ ہی دے گا ۔

        میں : ۔ اتنا بڑا بھی نہیں ہے ، اور میں بہت آرام سے تمھاری گانڈ ماروں گا ، تمھیں بالکل بھی درد نہیں ہونے دوں گا ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ہاں ، مجھے پتہ ہے جتنا تم آرام سے کرو گے ، ماہ رخ کی گانڈ بھی تو تم نے بڑے آرام سے ہی ماری تھی نا ۔

        میں : ۔ لبنیٰ باجی ، ماہ رخ کی بات اور تھی ، اس نے تو مجھے چیلنج کیا تھا ، آپ کی بات دوسری ہے ، آپ تو میری ٹیچر ہو ، بھلا آپ کو میں کیسے درد دے سکتا ہوں ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ ہاں جی! پہلے تو سبھی یہی کہتے ہیں اور ڈالتے وقت سب بھول جاتے ہیں ۔

        میں : ۔ آپ مجھ سے جیسا مرضی وعدہ لے لو ، جیسے آپ کہو گی ویسے ہی کروں گا ۔۔۔۔۔۔ اگر اندر ڈالنے سے آپ کو زیادہ درد ہوا تو میں اوپر اوپر سے ہی کر لوں گا ۔۔۔۔ پلیززززززز میری پیاری باجی مان جاو نا ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ چلو ٹھیک ہے میں سوچوں گی اس بارے میں ۔

        میں : ۔ اس میں سوچنے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کونسا آپکی پھدی مارنی ہے جو کوئی مسئلہ ہوگا ، گانڈ ہی تو مانگ رہا ہوں ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ یار ارسلان ! میرا دل نہیں مانتا گانڈ مروانے کو ، جو چیز جس کام کے لیے بنی ہے اس سے وہی کام لینے میں مزہ آتا ہے ۔ لن لینے کے لیے پھدی ہے نا ، تو گانڈ کو اس کا کام کرنے دو ۔

        میں : ۔ مگر آپ تو پھدی بھی نہیں مارنے دے رہی ہو تو پلیزززز گانڈ ہی مارنے دو ۔۔۔۔ پلیززززززز ۔

        لبنیٰ باجی : ۔ چلو ٹھیک ہے ، میں کچھ کرتی ہوں ۔

        میں : ۔ تھینک یو ، سو مچ ، میری پیاری لبنیٰ باجی ، آئی لو یو ۔۔۔۔ ویسے کب تک کرو گی آپ ، یہ ,,کچھ ،،؟؟؟

        لبنیٰ باجی : ۔ جب کچھ کروں گی تو بتا دوں گی ۔

        میں :۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔

        لبنیٰ باجی سے بات کر کے میں خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا ۔۔ میرا غصہ بھی ختم ہو چکا تھا ۔۔۔۔ مجھے نوشابہ سے کی ہوئی باتیں یاد آنے لگیں اور میں نوشابہ سے بات کرنے کے لیے بیچین ہو گیا ، میں نے بہت کوشش کی مگر نوشابہ اور ماہ رخ کے ساتھ ہونے والی باتوں کی یاد میرے لن کو بیٹھنے ہی نہیں دے رہی تھیں ۔ اور جب ایک بار لن کھڑا ہو جائے تو بندہ دماغ سے کام نہیں لے سکتا ۔۔۔۔ میں کمزور پڑنے لگا تھا ، اور اس مسئلے کا میرے پاس ایک ہی حل تھا اور میں نے بڑے مزے سے مٹھ مار کر اپنے لن کو ٹھنڈا کیا اور مزے سے سوگیا فارغ ہونے کے بعد ہر طرح کی پریشانی ختم ہو جاتی ہے ، میری نظر میں اپنی گرلفرینڈ کی یادوں سے پیچھا چھڑانے کا سب سے بہترین طریقہ مٹھ مارنا ہی ہے ۔

        اگلے دن بھی میری تینوں بہنوں نے مجھ سے بات کی ۔۔۔۔ اور نوشابہ کی سفارش کی کہ بس ایک بار اس کی بات سن لو ۔۔۔ مگر میں نہیں مانا ۔۔۔۔۔ انھوں نے کئی بہانوں سے میرا نیا نمبر بھی لینے کی کوشش کی مگر میں نے نہیں دیا ۔۔۔میں جانتا تھا کہ اگر ایک بار ان کو میرا نیا نمبر مل گیا تو اسی وقت وہ اسے نوشابہ کو بتا دیں گی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر نوشابہ کے لیے ایموشنل بلیک میل کرکے مجھے منانا کوئی مشکل نہیں تھا ، اب میں غصے کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے نوشابہ سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اس نے مجھے راضی کر لینا ہے ، اور میں ابھی اس سے صلح نہیں کرنا چاہتا تھا ، کیونکہ اس نے میرا دل دکھایا تھا اور میں اس کو سزا دینا چاہتا تھا ۔

        وہ دن بھی ایسے ہی گزر گیا اور میں نے نوشابہ سے بات نہیں کی ۔۔۔۔۔ لبنیٰ باجی سے بس نارمل سی باتیں کیں ، باجی نے مجھ سے وعدہ کیا کہ صباء آپی کی شادی سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ ضرور کر لوں گی ۔۔۔۔

        جاری ہے ۔
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • #34
          اگلے دن وہی روٹین اور کوئی خاص بات نہ ہوئی ۔ میری بہنیں آج مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کر رہی تھیں ۔ کیونکہ میں ان کی بات نہیں مان رہا تھا ، نوشابہ میرے سب گھر والوں کی چہیتی تھی اس لیے وہ بھی مجھ سے ناراض تھیں اور نوشابہ کی سائیڈ لے رہیں تھیں ۔ میرا غصہ اب بالکل ختم ہو چکا تھا بس ایک ضد تھی کہ نوشابہ نے میری بات کیوں نہیں مانی ، اس لیے میں نے اس سے بات نہیں کرنی ، میں اسے زیادہ سے زیادہ تکلیف دینا چاہتا تھا کیونکہ اس نے مجھے بہت تکلیف دی تھی ۔ میں نے نوشابہ سے آج تک جو بھی کروایا تھا پیار سے کروایا تھا ، میں نے اس کے ساتھ زبردستی نہیں کی تھی ، یہ ہم دونوں کا آپس میں اعتماد تھا کہ یہ سب ہو گیا ۔ میں بے شک جیسا بھی تھا مگر نوشابہ کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ۔ میرے دل میں بار بار بس یہی بات آرہی تھی کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

          یہ ہماری لو سٹوری شروع ہونے کے بعد پہلی بار تھا کہ ہم تین دن سے ناراض تھے اور تین دن تک کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔

          رات کو کھانا کھانے کے بعد میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا تبھی لبنیٰ باجی کا میسج آیا ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ اوئے ؟؟؟؟؟

          میں : ۔ جی لبنیٰ باجی ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ کیا کر رہے ہو ؟؟؟

          میں : ۔ بس آپ کو یاد کر رہا تھا باجی ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟

          میں : ۔ آپ کی گانڈ مارنی ہے نا اس لیے ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ کمینے ۔۔۔۔۔۔۔ بس اسی کام کے لیے یاد کرتے ہو مجھے ؟؟

          میں : ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ، نہیں باجی میں تو مذاق کر رہا تھا ، میں ٹی وی دیکھ رہا ہوں ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ اچھا ۔۔۔۔۔۔ اب یہ گانڈ کا چکر چھوڑو اور پھدی مارنے کے بارے میں سوچو ۔

          میں : ۔ کیا مطلب ، کیسے ؟؟؟؟؟

          لبنیٰ باجی : ۔ میں نے ایک پلان بنایا ہے ۔۔۔ اس سے تمھارا کام بھی ہو جائے گا اور میرا بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ تمھارا تو ڈبل فائدہ ہو گا ۔

          میں : ۔ وہ کیسے باجی ، جلدی بتاؤ ؟؟؟

          لبنیٰ باجی : ۔ نادر کو جانتے ہو ۔۔۔۔۔ وہ جو میرا کزن ہے ۔

          میں : ۔ نادر کون ؟ وہ اپنے گاؤں والا ؟؟

          لبنیٰ باجی : ۔ ہاں ، میں اسی کی بات کر رہی ہوں ۔

          میں : ۔ ہاں ، اسے تو میں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔

          وہ میرے بڑے بھائی کا دوست تھا ۔۔۔ وہ ہمارے ساتھ والے محلے میں رہتا تھا ۔۔ اور لبنیٰ باجی کا رشتہ دار تھا ۔ مجھ سے بھی اس کی اچھی سلام دعا تھی گاؤں میں ہی رہتا تھا اس لیے اس سے روز ہی ملاقات ہو جاتی تھی ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ وہ میرا بوائے فرینڈ ہے ، اور میں نے اسی سے شادی کرنی ہے۔

          میں : ۔ کیا ؟؟؟؟؟؟ وہ !!!! آپکا بوائے فرینڈ ہے سچچچچچچچی ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ کیوں ، کیا نہیں ہو سکتا میرا بوائے فرینڈ ۔۔۔۔۔۔ اتنا تو ہینڈسم ہے وہ ۔

          ہینڈسم تو وہ تھا ، مگر حرامی بھی ایک نمبر کا تھا ۔۔۔۔ سبھی دوست اس کو سرکاری ملائی کہتے تھے ۔۔۔ کیونکہ اس نے ایک وقت میں کافی لڑکیاں پھنسائی ہوتی تھیں ۔

          میں : ۔ میں ہو سکتا ہے ۔ میں نے کب کہا کہ نہیں ہو سکتا ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ کیا ؟؟؟؟ ۔ تو ایسے کیا ہے تم نے جیسے میں نے بہت عجیب بات کی ہو ۔۔۔

          میں : ۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ نادر آپکا بوائے فرینڈ ہوسکتا ہے اس لیے ایسا کہا ۔۔۔۔۔۔۔ اب پلان کیا ہے یہ بتاؤ ؟؟؟

          لبنیٰ باجی : ۔ اس کی چھوٹی بہن کو جانتے ہو ؟؟؟؟

          میں : ۔ کون سی والی کی بات کر رہی ہو ؟؟؟؟؟؟ عروسہ ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ ہاں وہی عروسہ ۔

          میں : ۔ ہاں جانتا ہوں میں ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ کیسی ہے وہ ؟؟؟؟

          میں نے اسے کئی بار دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ وہ باجی کے گھر آتی جاتی رہتی تھی ۔۔وہ بہت خوبصورت تھی ۔۔۔ اور لگتی بھی شریف ہی تھی ۔۔۔ کیونکہ میں نے اسے کبھی کچھ غلط کرتے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی کسی سے سنا تھا ۔۔۔ میں نے کبھی بھی اسے بری نظر سے نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ میرے بڑے بھائی کے دوست کی بہن تھی ۔۔۔۔۔۔ اور گاؤں میں اس بات کا بہت خیال رکھا جاتا تھا کہ کسی یار دوست اور تعلق دار کی عورتوں کو بھی اپنے گھر کی عورتوں کی طرح ہی عزت دی جاتی ہے ۔(دوسرے علاقوں کا تو پتہ نہیں پر ہمارے گاؤں میں اس وقت ایسا ہی ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے مگر اب پہلے کی طرح نہیں ہے )

          میں : ۔ اچھی ہے ۔۔۔۔۔۔ کیوں ؟؟؟؟؟

          لبنیٰ باجی : ۔ اگر تمھیں عروسہ کی پھدی مارنے کو مل جائے تو کیسا رہے گا ۔

          میں : ۔ کیااااااااا ؟؟؟؟؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ تو بہت شریف لڑکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ پلیززز کھل کر بات کرو ، اور مجھے پوری تفصیل بتاؤ ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ ہاں مجھے اچھی طرح سے پتہ ہے کہ وہ کتنی شریف لڑکی ہے ، میری آنکھوں کے سامنے کئی بار پھدی مروا چکی ہے وہ ۔

          میں : ۔ کیا بات کر رہی ہو ؟؟؟؟؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ تو بہت شریف لگتی ہے ۔۔۔

          لبنیٰ باجی : ۔ تم نہیں جانتے اسے ، میں جانتی ہوں ، میں نے اسکی کئی بار مدد کی ہے پھدی مروانے میں ۔

          میں : ۔ وہ کس سے پھدی مرواتی ہے ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ اس بات کو تم بھول جاؤ، اور یہ بتاو کہ اگر تمھیں اس کی پھدی مل جائے تو کیسا رہے گا ؟؟؟

          میں : ۔ پر یہ ہوگا کیسے ؟؟؟ اور آپ مجھے اس کی پھدی کیوں دلوانا چاہتی ہو ۔۔۔۔۔ پوری بات تو بتاؤ ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ میں نے پلان بنایا ہے کہ میں عروسہ کو تم سے چدواوں گی ۔۔اور تم دونوں کی چدائی کی ویڈیو بنا لوں گی ۔۔۔۔ اور پھر میں نادر سے اپنی پھدی مرواؤں گی ۔۔۔۔

          میں : ۔ تو ! اس سے کیا ہوگا ؟؟؟؟

          لبنیٰ باجی : ۔ بیوقوف انسان ! اگر نادر نے مجھے چودنے کے بعد مجھے چھوڑنے کی کوشش کی تو میں وہ ویڈیو سب کو دکھانے کا بول کر اسے بلیک میل کروں گی ویسے مجھے یہ یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا ۔

          میں : ۔ واو ! کیا دماغ لڑایا ہے لبنیٰ باجی آپ نے ، واہ کیا پلان ہے .

          لبنیٰ باجی : ۔ شکریہ ! شکریہ ۔

          میں : ۔ لیکن باجی ! عروسہ کیوں مانے گی ۔۔۔۔ اور وہ ویڈیو کیوں بنانے دے گی ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ یہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو ، میں سب سنبھال لوں گی ، عروسہ مجھے نہ کر ہی نہیں سکتی ، میں جو بھی کہوں گی وہ وہی کرے گی ، میں اس کی بہت مدد کرتی ہوں پھدی مروانے میں ۔۔۔۔ اور ویسے بھی عروسہ کو تمھارا لن تو مل ہی رہا ہے اور اسے کیا چاہیے ۔

          میں : ۔ ٹھیک ہے ، میں تیار ہوں عروسہ کی لینے کے لیے ۔

          لبنیٰ باجی : ۔ گڈ ! میں کل ہی عروسہ سے بات کرتی ہوں ۔

          میں : ۔ پر میں اسے چودوں گا کہاں ؟؟؟

          لبنیٰ باجی : ۔ اس کا بھی بندوبست ہو ہی جائے گا ۔۔۔۔ ابھی میں اس سے بات تو کر لوں ۔

          میں : ۔ ٹھیک ہے ۔

          لبنیٰ باجی سے بات کر کے میں ہمیشہ خوش ہی ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ پر آج تو میں کچھ زیادہ ہی خوش تھا ۔۔۔۔ میں تو ایک پھدی کے پیچھے بھاگ رہا تھا ، اور یہاں تو دو دو کا چانس بن رہا تھا ۔۔۔۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اس رات خوشی کے مارے نیند بھی نہیں آرہی تھی ، میں اپنی خوشی کسی سے شئیر کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ اور گھوم پھر کر میرے سامنے بس نوشابہ کا نام ہی آرہا تھا ۔ جس سے میں اپنی خوشی شئیر کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ پر میں تو اس سے ناراض تھا بہت ناراض ۔

          اگلے دن اتوار تھا اور کالج سے چھٹی تھی ۔۔۔۔۔ میں ناشتے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد بیٹھا ہوا تھا کہ امی کی آواز آئی کہ آج باہر مت جانا ۔۔۔۔۔ مشال کو ماموں کے گھر لے کر جانا ہے ۔۔۔۔ میں تو وہاں جانا ہی نہیں چاہتا تھا ۔۔ مگر امی کو کیا بتاتا کہ کیوں نہیں جانا چاہتا ، میں نے کئی بہانے بنائے مگر امی کے آگے ایک نہ چل سکی ، مشال ہلکا ہلکا مسکرا رہی تھی اور مجھے اس پر غصہ آرہا تھا ۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ جان بوجھ کر مجھے وہاں لے کر جانا چاہتی ہے۔۔ تقریباً 11 کا ٹائم ہوگا جب میں مشال کو لے کر گھر سے نکلا ۔۔۔۔۔ میں نے آخر یہی سوچا کہ مشال کو گلی میں اتار کر کوئی بہانہ بنا کر وہیں سے واپس آجاؤں گا ۔۔۔ مگر جب میں وہاں پہنچا تو میرے سارے پلان پر پانی پھر گیا ۔۔۔۔ کیونکہ میری دونوں ممانیاں باہر گلی میں کھڑی باتیں کر رہیں تھیں ۔۔۔۔ اب میں مشال کو اتار کر بھاگ نہیں سکتا تھا ۔

          میں اندر جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔ سب سے پہلے مجھے سائمہ ملی وہ بہت خوش تھی ۔۔۔ وہ مجھ سے بہت اچھے سے ملی ۔۔۔۔۔۔ جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو کہ میرے اور نوشابہ کے بیچ کیا چل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور مجھ سے باتیں کرنے لگی ۔۔۔ مشال دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ جہاں میرے خیال کے مطابق نوشابہ اور ماہ رخ تھیں ۔ مشال کے جاتے ہی ماہ رخ باہر نکلی اور مجھ سے ہاتھ ملایا ۔۔۔۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا درد تھا ، میں اس کی آنکھوں میں نہ دیکھ سکا اور میں نے اپنی نظریں نیچے جھکا لیں ۔

          ماہ رخ : ۔ کیسے ہو کزن جی ؟؟؟

          ماہ رخ کے الفاظ تو وہی تھے مگر لہجہ وہ نہیں تھا ۔۔۔۔ پہلے اس کی آواز میں بہت شوخی ہوتی تھی مگر آج بہت اداسی تھی ۔

          میں : ۔ ٹھیک ہوں ۔

          میں اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا ۔۔۔۔۔ سائمہ کو پتہ نہیں ماہ رخ نے اشارہ کیا یا پھر اس نے خود ہی سمجھ داری کا ثبوت دیا وہ اٹھی اور باہر چلی گئی۔

          ماہ رخ : ۔ ارسلان یہ سب کیا ہے ؟؟؟؟

          میں : ۔ کیوں ، کیا ہوا ؟؟؟؟؟

          ماہ رخ : ۔ تم بات کیوں نہیں کر رہے ہو ہم سے ؟ اور نمبر کیوں چینج کیا ہے؟؟؟

          میں : ۔ میرا موبائل خراب ہو گیا ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ مجھے پتہ ہے کیا ہوگیا ہے موبائل کو ۔۔۔۔۔ غلطی میری ہے تو سزا بھی مجھے ہی دو نا ۔۔۔۔ اس بیچاری کو کیوں تڑپا رہے ہو ، اسے ایسی باتیں کرنے پر میں نے ہی آمادہ کیا تھا ۔

          میں : ۔ میں کسی کو نہیں تڑپا رہا ، اور نہ ہی مجھے کسی کو سزا دینی ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ پتہ ہے اس نے اس دن سے اب تک ایک بار بھی کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ امی بڑی مشکل سے فروٹ اور جوس پلاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ چارپائی سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہے اس میں ، اور تم کہہ رہے ہو کہ میں کسی کو سزا نہیں دے رہا ۔۔۔۔ اس سے بڑھ کر اور کیا سزا دو گے ؟؟؟؟

          جاری ہے ۔
          جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
          ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

          Comment


          • #35
            میں ماہ رخ کی باتیں سن کر تڑپ گیا ۔۔۔ کچھ بھی ہو میں اس سے بہت پیار کرتا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے یہ تو پتہ تھا کہ وہ بہت پریشان ہوگی ، لیکن اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ میرے لیے کھانا پینا ہی چھوڑ دے گی ۔۔۔۔ مجھے آج بھی یہ بات یاد آتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے ۔۔۔۔ وہ مجھ سے اتنا پیار کرتی تھی کہ میرے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی ، یہاں تک کہ جان بھی دے سکتی تھی ۔ اور جان دے بھی رہی تھی ، اور میں نے اس کو اتنی تکلیف دی جبکہ اس کی غلطی بھی نہیں تھی (اس بات کا پتہ مجھے بعد میں لگا تھا )

            میں : ۔ کہاں ہے اب وہ ؟؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ کمرے میں ہے اور امی اس کے لیے دوائی لینے گئی ہے ۔

            میں اٹھا اور کمرے کی طرف چل دیا ۔۔۔۔ پہلے مجھے جتنا زیادہ غصہ تھا اب اتنا ہی افسوس ہو رہا تھا ، اس وقت مجھے پتہ بھی نہیں تھا کہ غلطی نوشابہ کی نہیں ہے ، اس کے باوجود میں نوشابہ کا سامنا کرنے میں بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا ۔ کمرے میں داخل ہوا تو مشال اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور ان دونوں کی آنکھوں میں آنسوں تھے ۔

            میں نے نوشابہ کی حالت دیکھی تو جو رہی سہی کسر تھی وہ بھی نکل گئی ۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں اسی وقت خود کو ختم کر لوں ۔ میری وجہ سے میرے پیار کا کیا حال ہو گیا تھا ، نوشابہ کا رنگ فل پیلا زرد پڑ گیا تھا ، وہ ان چار دنوں میں ایسی ہو گئی تھی کہ پتہ نہیں کتنے سالوں کی بیمار ہو ۔ ہمارے گھر میں تو بس اتنا ہی پتہ تھا کہ نوشابہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ پر اس کا یہ حال ہو گیا ہے کسی کو نہیں پتہ تھا ، شاید ممانی نے جان کر نہیں بتایا تھا کہ سب پریشان ہو جائیں گے ۔

            نوشابہ نے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا ۔۔۔ اس کی ایک نظر نے میری روح تک کو تڑپا کر رکھ دیا ، میں بتا نہیں سکتا کہ اس کی نظر میں کیا کیا تھا ۔۔۔۔۔ غم ، درد ، اذیت ، کرب ، بے بسی ، شکایت ، مان ، پیار اور پتہ نہیں بہت کچھ چھپا ہوا تھا اس کی ایک نظر میں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نوشابہ کی نظروں کی تاب نہیں لا سکتا تھا اور میں نے اپنی نظریں جھکا لیں ۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میری آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔۔۔۔۔۔ یہ میری زندگی میں پہلی بار تھا کہ میں کسی کے لیے رویا تھا ۔۔۔ میں وہیں نظریں نیچے کئے کھڑا تھا کہ ماہ رخ کی آواز آئی ۔۔۔۔۔ مشال ذرا میری بات سننا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مشال اسکی آواز سنتے ہی اٹھ کر باہر چلی گئی ۔۔۔۔۔ اور میں نوشابہ کے قریب بیٹھ گیا ۔۔۔۔ نوشابہ کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا ، ارسلان میری جان ۔۔۔۔۔ اس سے آگے میں نے اسے کچھ کہنے ہی نہ دیا ۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے چپ کرا دیا اور اس کا ہاتھ چومنے لگا اور ساتھ ساتھ رونے لگا ۔۔۔۔۔۔ نوشابہ بھی رو رہی تھی ۔۔ تھوڑی دیر بعد جب جذبات کنٹرول ہوئے تو میں نے اسے کہا ۔

            میں : ۔ نوشابہ یہ کیا حال بنا لیا ہے تم نے اپنا ۔۔۔۔۔ تم نے میرے لیے ایسا کیوں کیا ؟ میں بہت برا ہو ۔۔۔۔ میں اس قابل ہی نہیں ہوں ۔۔۔۔ تم نے صرف میرے لیے ایسا کیوں کیا ؟؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ ارسلان میں تمھارے بنا نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑنا مت پلیزززز ۔

            میں : ۔ مجھے معاف کر دو میری جان ۔۔ میں۔ تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتا مجھے بس ایک بار معاف کر دو ۔

            نوشابہ : ۔ مجھے یہ سب کہنے کو ماہ رخ نے کہا تھا ۔۔۔۔ ہم نے تمھارے ساتھ مذاق کیا تھا ۔

            میں : ۔ اس بات کو اب گولی مارو ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں جاننا کہ کیا ہوا تھا اور کیوں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ میں نے تمھارے ساتھ بہت ظلم کیا ہے ۔۔۔ تم مجھے معاف کر دو ۔

            نوشابہ : ۔ پلیز ارسلان تم مجھ سے معافی نہ مانگو ۔

            نوشابہ بہت کمزور ہو گئی تھی ، مجھے ایسے لگا کہ وہ بہت مشکل سے بات کر پا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں نے اسے چپ کرا دیا کہ باقی باتیں بعد میں کریں گے ۔۔ ابھی پہلے میں تمھیں ٹھیک کر لوں ۔۔ اور نوشابہ جواب میں بس ہلکا سا مسکرا دی ۔۔۔۔ میں نے ماہ رخ کو آواز دے کر نوشابہ کے کھانے کو کچھ لانے کا کہا ۔۔۔۔ ماہ رخ کھچڑی لے کر آگئی ۔۔۔۔۔ نوشابہ نے کھچڑی کھانے سے انکار کر دیا اور بولی اب تو میں روٹی کھاوں گی ۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ تم نے اتنے دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے ایک دم سخت خوراک کھانے سے تمھیں نقصان ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور بھی بیمار ہو جاو گی ۔۔۔ پہلے کچھ ہلکا پھلکا سا کھا لو ۔۔۔۔۔ کچھ طاقت آنے کے بعد جو دل چاہے کھا لینا ۔۔۔۔

            نوشابہ : ۔ مجھے کھچڑی اچھی نہیں لگتی ۔

            میں : ۔ چلو کوئی بات نہیں ، دوائی سمجھ کر تھوڑی سی کھا لو ۔

            نوشابہ : ۔ نہیں ارسلان ! پلیز میں کھچڑی نہیں کھاوں گی ۔

            میں نے ماہ رخ کو کہا کہ اس کے لیے تھوڑی سی کھیر بنا لو ۔۔۔۔ اور ابھی کے لیے ملک شیک بنا لاو ۔۔۔۔۔ ماہ رخ ہنستے ہوئے باہر چلی گئی اور کچھ ہی دیر میں ملک شیک بنا کر لے آئی ۔۔۔۔۔ اور گلاس مجھے پکڑا کر باہر جانے لگی تو میں نے کہا ، ماہ رخ کہاں جا رہی ہو ، پہلے اسے بٹھا تو دو ۔۔۔۔۔۔ اس کے شوہر کے ہوتے ہوئے میں کیوں بٹھاؤں اسے ، یہ کہتے ہوئے ماہ رخ کمرے سے باہر نکل گئی ۔

            میں نے ہنستے ہوئے نوشابہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا رہی تھی ۔۔ بغیر کھائے پئیے ہی اس کا چہرہ اب کچھ بہتر لگ رہا تھا ۔۔۔۔ مجھے وہ اس حالت میں بھی اچھی لگ رہی تھی اور مجھے اس پر پہلے سے بہت زیادہ پیار آرہا تھا ۔۔ یہ سچ ہے کہ لڑائی کے بعد پیار پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔۔۔ یہ بات میں نے اس روز محسوس کی تھی ۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ میں نوشابہ کو ایسی جگہ لے جاتا جہاں ہمارے سوا کوئی اور نہ ہوتا ۔۔۔ اور بس اسے دیکھتا ہی رہتا ۔۔۔۔ پیار تو میں نوشابہ سے پہلے بھی بہت کرتا تھا پر جو شدت میں آج محسوس کر رہا تھا وہ بہت مختلف تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سہارا دے کر نوشابہ کو بٹھایا اور اپنے ہاتھ سے اسے ملک شیک پلانے لگا ۔۔۔۔ وہ ملک شیک پیتے ہوئے بھی میری ہی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اور میں پہلی بار نروس ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں اس کی نظروں کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بڑی مشکل سے آدھا گلاس ہی پیا ہوگا اس سے زیادہ اس میں ہمت نہیں تھی ، میں نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا ۔۔۔۔ جس کمرے میں ہم دونوں تھے اس کے قریب بھی کوئی نہیں آرہا تھا ۔۔۔ شاید ماہ رخ اور مشال کسی کو اس طرف آنے ہی نہیں دے رہی تھیں ۔۔۔۔۔ اب تک کوئی بچہ بھی اس کمرے میں نہیں آیا تھا ۔۔ کچھ دیر میں ماہ رخ کھیر بنا کر لے آئی ۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے نوشابہ کو کھیر بھی کھلا دی ۔۔۔۔ ماہ رخ بھی اب پہلے سے بہتر اور کِھلی کِھلی سی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد جب مجھے ممانی کی آواز سنائی دی تو میں وہاں سے اٹھ کر باہر جانے لگا تو نوشابہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی ،، تم نے آج جانا نہیں ہے ،، سمجھے ۔۔۔۔۔ اس کے اس انداز میں بے پناہ پیار تھا ۔۔۔۔ میں اسے انکار کر ہی نہیں سکتا تھا ، میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے ہاں بولا اور باہر نکل آیا ۔۔۔۔۔۔۔ باہر آکر میں نے اپنا نیا نمبر نوشابہ کو سینڈ کیا اور ماموں شکیل کی طرف چلا گیا اور کافی دیر وہیں پر رہا ۔۔۔۔۔۔ پھر مجھے نوشابہ کا میسج آگیا ۔۔۔۔۔ اب آ بھی جاو ۔۔۔ وہیں جاکر بیٹھ گئے ہو ۔۔۔ وہیں رہنے کا ارادہ ہے کیا ؟؟؟؟؟؟

            نوشابہ کا میسج پڑھ کر مجھے ایکدم سے خیال آیا کہ اگر نوشابہ ایسے فوری ٹھیک ہو گئی تو ممانی کو شک ہو جائے گا ۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے نوشابہ کو میسج کر کے پوچھا کہ ممانی کہاں ہے ۔

            نوشابہ :۔ اوپر چھت پر گئی ہیں ۔

            میں : ۔ اچھا اب ایک دم سے ٹھیک نہ ہو جانا میرے جانے کے بعد ٹھیک ہونا ۔

            نوشابہ : ۔ وہ کیوں جناب ؟؟؟ میں تو اب بالکل ٹھیک ہوں ۔

            میں : ۔ یار ممانی کو شک ہو جائے گا کہ پہلے تو کچھ کھایا ، پیا ہی نہیں جارہا تھا اور اب ان کے آنے سے ٹھیک کیسے ہوگئی ؟؟؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ ہوتا ہے شک تو ہو جائے مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔۔۔۔ اور اچھا ہے کہ انھیں بھی پتہ چل جائے کہ ان کی بیٹی ان کے داماد سے کتنا پیار کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔

            میں : ۔ کتنا پیار کرتی ہو ؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ ذرا سا بھی نہیں ، ہاہاہاہا ۔۔۔۔اچھا اب آ بھی جاو نا ۔

            میں : ۔ کیوں آؤں میں ، پیار تو تم ذرا سا بھی نہیں کرتی ۔

            نوشابہ : ۔ آجاو ! میں نے تمھیں دیکھنا ہے تیڈی مونجھ آی ہے( تمھاری یاد آرہی ہے۔۔۔۔۔)

            میں : ۔ کیوں پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔۔ وڈی تیکوں مونجھ آی اے ( بڑی تمھیں یاد آرہی ہے )

            نوشابہ : ۔ نہیں میرا دل کر رہا ہے اپنے شوہر کو جی بھر کو دیکھنے کا ۔

            نوشابہ پر پہلے جتنا غصّہ تھا اب اس سے کہیں زیادہ پیار آرہا تھا ۔۔۔۔ اس کی ہر بات ہر انداز اس کے لیے میرے پیار کو اور زیادہ بڑھا رھا تھا ۔ میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا ۔

            میں : ۔ پیار تو تم مجھ سے کرتی نہیں ہو پھر کیوں دیکھنا ہے ؟؟؟

            نوشابہ : ۔ توں ہن کٹ نا کھا گھنی میڈے ہتھوں ( اب تم میرے ہاتھو پٹائی نہ کروا لینا )

            میں : ۔ نکی جہی تیڈی جان ہے توں کیا مریسیں ( کمزور سی تو ہو تم کیا مارو گی ) ، اچھا آرہا ہوں ۔

            اس لڑائی نے مجھے اور نوشابہ کو اور بھی قریب کر دیا تھا ۔۔۔۔ میں وہاں سے اٹھا اور نوشابہ کے پاس جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔ وہ اب ٹی وی والے کمرے میں تھی اور پہلے سے بہت بہتر لگ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کے چہرے پر بڑی جان لیوا مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔ اسے دیکھ کر میرا دل کر رہا تھا کہ میں اسے خود سے لپٹا لوں اور اتنا چوموں ، اتنا چوموں کہ انتہا کر دوں ۔

            میں نے دوپہر کا کھانا بھی نوشابہ وغیرہ کی طرف ہی کھایا ۔۔۔۔۔۔ نوشابہ نے وہی کھیر کھائی ۔۔۔۔ ماہ رخ بھی کافی خوش لگ رہی تھی لیکن ابھی مجھے اس سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا ۔۔۔سائمہ بھی بہت خوش تھی وہ اپنے چکروں میں تھی اور موقع کی تلاش میں تھی ، اور چاہتی تھی کہ میں اس سے کوئی بات شروع کروں تاکہ وہ کھل سکے لیکن میں ابھی نوشابہ کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ رہا تھا نہ ہی میرا دل کسی اور سے ابھی بات یا کچھ اور کرنے کو چاہ رہا تھا ۔

            کھانا کھانے کے بعد میں ممانی کے ساتھ ڈیرے پر چلا گیا ( نوشابہ وغیرہ کی کافی زمینیں تھیں جنہیں ہمارے دور کے رشتہ داروں نے آباد کیا ہوا تھا وہ لوگ وہیں ڈیرے پر ہی رہتے تھے ، ان کی ایک لڑکی کو بھی میں نے چودا تھا ، اگر کبھی موقع بنا تو اس کے بارے میں بھی بتاؤں گا ) اور وہاں سے شام کو ہی واپسی ہوئی ۔ گھر سے امی کا فون آیا کہ ٹائم کافی ہوگیا ہے اب واپس آجاو کل پڑھنے بھی جانا ہے تو میں نے کہہ دیا کہ ہم لوگ کل ہی آئیں گے ۔۔۔۔۔





            امی نے دو چار گالیاں نکالی اور کہا کہ روز ہی چھٹی کر کے بیٹھ جاتے ہو ، اور اب مشال کو بھی چھٹی کرواؤ گے ۔۔۔ میں امی کی گالیاں ہمیشہ ہی ہنستے ہوئے سنتا تھا ۔۔۔۔۔ نوشابہ نے مجھے کوئی میسج وغیرہ تو نہیں کیا تھا مگر میں جب گھر پہنچا تو مجھ پر آنکھیں نکال رہی تھی ۔

            میں : ۔ کیا بات ہے ، کیوں آنکھیں نکال رہی ہو ؟؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ تم ڈیرے پر کیوں گئے تھے ؟؟؟

            میں : ۔ ممانی نے ساتھ چلنے کو بولا تھا تو میں کیسے منع کر سکتا تھا ۔

            نوشابہ : ۔ کیوں منع نہیں کر سکتے تھے ۔ میری خاطر تم اتنا بھی نہیں کر سکتے تھے ؟؟؟؟

            میں : ۔ نہ بھی جاتا تو کیا ہو جاتا ، تم تو رات کو نہیں دیتی دن میں کون سا تیر مار لینا تھا ۔

            نوشابہ : ۔تمھیں تو ہر وقت لینے دینے کی پڑی رہتی ہے ، ویسے ہی میرے پاس بیٹھ نہیں سکتے تھے کیا ؟؟؟

            میں : ۔ میں تو مذاق کر رہا تھا اصل بات یہ تھی کہ تم سامنے ہوتی ہے تو مجھے خود پر کنٹرول نہیں رہتا ۔۔۔ اگر میں وہاں نہ جاتا تو سب کے سامنے تمھیں جھپی ڈال دیتا ۔

            نوشابہ : ۔ تو ڈالو نا پھر ۔۔۔ روکا کس نے ہے ؟؟؟؟

            میں : ۔ تمھاری امی جان نے ۔

            نوشابہ : ۔ میری امی جان تمہیں کچھ بھی نہیں کہے گی ، چاہے تم ان کے سامنے مجھے چود بھی لو ۔

            میں : ۔ واقعی ، تم سچ کہہ رہی ہو ۔۔ ویسے وہ کیوں کچھ نہیں کہیں گی ؟؟؟

            نوشابہ : ۔ کیونکہ وہ تمہیں بہت پسند کرتی ہیں ، سارا دن تمھاری تعریفیں کرتی رہتی ہیں ۔۔۔۔ کسی کو تمھارے خلاف بات تک نہیں کرنے دیتی ۔

            ابھی تو وہ کسی کو میرے خلاف بات نہیں کرنے دیتی ۔۔۔۔۔۔ اگر انھوں نے مجھے تمھارے ساتھ کچھ الٹی سیدھی حرکت کرتے دیکھ لیا تو سب سے پھینٹی لگوانی ہے میری ۔۔۔۔۔ اور مجھے لگتا ہے کہ تمھارا بھی یہی پروگرام ہے ۔

            نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ تو کیا میری خاطر تم ذرا سی مار بھی نہیں کھا سکتے ؟؟؟؟؟؟

            میں : ۔ جی نہیں ۔

            نوشابہ : ۔ (میری طرف آنکھیں نکالتے ہوئے ) کیا کہا تم نے ؟؟؟؟؟

            میں : ۔ ذرا سی نہیں ، میں تو زیادہ سی مار بھی تمھاری خاطر کھا سکتا ہوں ۔

            نوشابہ : ۔ ہاں یہ ہوئی نا بات ۔

            میں : ۔ تو تم مجھے مار پڑوانے کے چکروں میں ہو ۔

            نوشابہ : ۔ علاج تو تمھارا یہی ہے مگر کیا کروں ، تمھیں چوٹ لگے گی تو مجھے درد ہوگا نا ۔

            میں : ۔ اچھا جی ! ویسے رات کا کیا پروگرام ہے ؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ کوئی پروگرام نہیں ہے ۔۔ میری حالت ہے کسی پروگرام والی ۔۔۔۔ تم ماہ رخ کے ساتھ بنالو کوئی پروگرام ۔۔

            میں : ۔ نہیں میرا آج کسی کے ساتھ بھی کچھ کرنے کا دل نہیں ہے ۔۔۔۔ میں آج کی رات بس تمھارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ میں کچھ نہیں کروں گا بس میں آج کی ساری رات تمھارے ساتھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔

            نوشابہ : ۔ پر میں نہیں آسکتی آج تمھارے پاس ۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے ۔۔

            میں : ۔ تم نہ آنا میں خود آجاؤں گا ۔

            نوشابہ : ۔ سب کے ہوتے ہوئے تم کیسے آؤ گے ؟؟؟؟

            میں : ۔ میں انتظام کر لیتا ہوں تم بے فکر رہو ۔

            ہماری یہ سب باتیں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے میسج کے ذریعے ہو رہی تھیں ۔ نوشابہ سے بات کرنے کے بعد میں نے ماہ رخ سے رابطہ کیا اور اسے ساری صورتحال بتائی ۔۔۔۔۔ اور اسے کہا کہ کچھ کرو ۔۔۔۔ پہلے تو اس نے صاف منع کردیا مگر پھر میری ناراضگی کے ڈر سے مان گئی اور بولی میں کچھ کرتی ہوں ۔ اس نے نوشابہ اور مشال سے کیا بات کی اس کا مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ماہ رخ نے مجھے کہا کہ کام ہو گیا ہے تم تیار رہنا ۔۔۔۔۔ اور مجھے سارا پلان سمجھا دیا ۔۔۔۔۔ اس کے بعد وہ مشال اور نوشابہ کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور میں وہیں بیٹھا رہا ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ سونے کا ٹائم ہوگیا ۔۔۔۔۔ میں نے ممانی کو پوچھا تو انھوں نے ماہ رخ کو آواز دی مگر وہ نہ آئی ۔۔۔۔ اور پلان کے مطابق ان کو آنا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ ممانی نے ایک دو آوازیں اور دیں مگر جب وہ نہیں آئیں تو وہ خود اٹھ کر اس کمرے کی طرف گئیں جہاں وہ بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ اور کچھ دیر بعد واپس آگئیں اور بولیں ۔

            ممانی : ۔ وہ تینوں تو سو بھی گئیں ، میں نے بیٹھک میں بستر لگا دیا ہے تم وہیں سو جاؤ ۔

            میں : ۔ ٹھیک ہے ۔

            میں پھر وہاں سے اٹھا اور بیٹھک میں آگیا اور سب کے سونے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ پلان یہ تھا کہ سب سے پہلے نوشابہ ، ماہ رخ اور مشال تینوں بیٹھک کے ساتھ والے کمرے میں جاکر سونے کا بہانہ کریں گی ۔۔۔۔۔ اس کمرے میں جگہ کم تھی اور وہاں 3 یا 4 سے زیادہ افراد نہیں سو سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔ اس طرح ممانی سب بچوں کے ساتھ ٹی وی والے کمرے میں ہی سو جاتیں ۔۔۔۔۔۔ اور رات کو سب کے سونے کے بعد میں ان کے کمرے میں چلا جاتا ۔۔۔۔۔۔ ماہ رخ اور مشال بیٹھک میں آکر سو جاتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب میں واپس آتا تو وہ دونوں بھی واپس اسی کمرے میں چلی جاتیں ۔۔۔۔۔۔ اور یہ میری قسمت تھی کہ سب کچھ پلان کے مطابق ہی ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ ممانی سب بچوں کے ساتھ ٹی وی والے کمرے میں تھی اور وہ تینوں میرے ساتھ والے کمرے میں ۔۔۔ میرے ساتھ نوشابہ کا چھوٹا بھائی جو میرے آنے پر صرف میرے ہی ساتھ سوتا تھا آج وہ بھی نہیں تھا وہ بھی آج ممانی کے ساتھ ہی سو گیا تھا ۔۔۔۔ میں بھی سب کے سونے کا انتظار کر رہا تھا گاوں میں سب لوگ 9 بجے کے بعد سونے کے لیے لیٹ جاتے ہیں ۔ اس رات بھی ایسا ہی ہوا ۔۔۔۔ تقریباً 11 بجے میں نے ماہ رخ کو میسج کیا ۔

            میں : ۔ ماہ رخ ، کیا صورتحال ہے ؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ ایک منٹ ٹھہرو میں چیک کر کے بتاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد مجھے باہر کسی کے چلنے کی آواز آئی اور پھر ماہ رخ بیٹھک میں داخل ہوئی ۔۔۔۔ میں بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا اسے دیکھا تو اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔ وہ آتے ہی مجھ سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔

            میں : ۔ یہ کیا کر رہی ہو ؟؟؟ مشال دیکھ لے گی ۔

            ماہ رخ : ۔ وہ واش روم گئی ہے ۔

            میں نے اچھا کہا اور کس کے ماہ رخ کو جھپی ڈال لی ۔

            ماہ رخ : ۔ ابھی تو ٹائم نہیں ہے مگر میں تمھیں بعد میں پوچھوں گی۔۔

            میں : ۔ کیا پوچھنا ہے ؟؟؟؟

            ماہ رخ وہی جو تم نے ہمارے ساتھ کیا ہے ۔۔۔ میں زندگی بھر کبھی اتنی پریشان نہیں ہوئی جتنی ان چار دنوں میں ہوئی ہوں ۔

            میں : ۔ بات میری اور نوشابہ کی تھی تم کیوں پریشان ہوئی ؟؟؟؟

            اس سے پہلے ماہ رخ کوئی جواب دیتی مجھے باہر سے کچھ آواز سنائی دی اور ہم جلدی سے الگ ہو گئے ۔۔۔۔۔ تبھی مشال کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔۔۔ ویسے تو وہ میری کزن تھی مگر اس سے میرا تعلق بڑے بھائی کی طرح ہی تھا ۔۔۔۔۔ یہ پہلی بار تھا جب میں اس کی مدد سے اپنی محبوبہ سے ملنے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ میں اس سے نظریں نہیں ملا پایا ۔۔۔۔ یہاں تک کہ میں نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اور جلدی سے کمرے سے نکل گیا اور نوشابہ کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔

            کمرے میں فل اندھیرا تھا ۔۔۔۔ میں نے موبائل کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا تو نوشابہ مجھے ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی نظر آگئی ۔۔۔۔۔ میں اس کے پاس گیا اور اسے ایک سائیڈ پر ہونے کو کہا ۔۔۔ وہ بنا کچھ بولے ایک سائیڈ پر ہو گئی اور میں اس کے ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔ اور اس کو اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔۔۔ اس نے بھی بازو کھول کر مجھے خود میں سمیٹ لیا ۔۔۔ وہ کچھ بھی بول نہیں رہی تھی ۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہے پھر مجھے لگا کہ وہ آہستہ آہستہ ہل رہی ہے ۔۔ غور کیا تو پایا کہ نوشابہ رو رہی تھی ۔

            میں : ۔ میری جان رو کیوں رہی ہو ۔۔۔ پلیزززز اب تو مجھے معاف کر دو نا ۔

            نوشابہ : ۔ (روتے ہوئے) میں نے نہیں کرنا تمھیں معاف ، تم نے بہت دکھ دیا ہے مجھے ۔۔

            میں : ۔ ہاں میں جانتا ہوں ۔۔۔۔۔ جانے کیا ہو گیا تھا مجھے تم نے بات ہی ایسی کی تھی جو مجھے بہت بری لگی اسی لیے ۔۔۔ پتہ نہیں میں اتنا سخت دل کیسے ہوگیا ۔

            نوشابہ : ۔میں نے کچھ نہیں کیا تھا ۔۔ ماہ رخ نے مجھے کہا تھا کہ جب وہ ماموں کی بیٹیوں کو خوش کرسکتا ہے تو چاچا کی بیٹیوں کو بھی خوش کر سکتا ہے ، میں نے اسے کہا بھی تھا کہ تم انہیں بہن مانتے ہو تو وہ بولی ، ہم تو صرف مذاق کریں گے اگر مان گیا تو مشال کا بھی فائدہ ہو جائے گا وہ بھی تو سائمہ کی ہی ہم عمر ہے اسکے بھی جذبات ابل رہے ہیں ۔

            میں : ۔ کیا ماہ رخ نے تم سے کہا تھا یہ سب کہنے کو ؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ ہاں اسی نے کہا تھا ۔

            نوشابہ کی بات سن کر مجھے ماہ رخ پر غصہ آنے لگا ۔۔۔۔ اور اس سے بھی زیادہ مجھے اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا ۔۔۔۔ میں نے نوشابہ کو اپنی صفائی دینے کا موقع بھی نہیں دیا تھا ۔۔۔۔۔ اگر میں اس سے بات کر لیتا تو اتنا کچھ نہ ہوتا ۔۔۔ اور میں پہلے سے زیادہ شرمسار ہوگیا ۔

            نوشابہ کا رونا تو اب بند ہوگیا تھا مگر وہ اب بھی ہلکی ہلکی ہچکیاں لے رہی تھی ۔

            میں : ۔ نوشابہ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی اور آخری غلطی ہے ۔۔۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردو ۔

            نوشابہ : ۔ میں نے نہیں کرنا تمھیں معاف۔

            میں : ۔ کردو نا پلیز مجھے معاف ۔۔۔ آگے سے وعدہ کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔

            نوشابہ : ۔ ایک شرط پہ معاف سکتی ہوں

            میں : ۔ مجھے تمھاری ہزار شرطیں منظور ہیں تم ایک کہہ رہی ہو ۔

            نوشابہ : ۔ پہلے شرط تو سن لو ۔۔۔۔ پھر بولنا ۔

            میں : ۔ اچھا بتاو اپنی شرط ۔

            نوشابہ : ۔ آج کے بعد تم میرے علاوہ کسی اور کو ٹچ بھی نہیں کرو گے ۔

            میں : ۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ مجھے منظور ہے نہیں کروں گا کسی کو بھی ٹچ ۔

            دوستو یقین کرو میں اس وقت نوشابہ کے پیار کے نشے میں اتنا ڈوبا ہوا تھا کہ ایک منٹ کے لیے بھی میں نے کسی کے بارے میں بھی کچھ نہ سوچا اور نہ ہی کسی کے لیے میرے دل میں کوئی فیلنگ کوئی چاہت بھی پیدا نہیں ہوئی ۔۔ یہ وعدہ میں نے ایسے ہی نہیں کر لیا تھا بلکہ اپنی روح کی گہرائیوں سے کیا تھا ، اور میرے لہجے کی سچائی نوشابہ نے بھی محسوس کر لی تھی ۔

            نوشابہ : ۔ بس جس کو میں کہوں گی صرف اسی کو کرو گے ۔

            میں : ۔ نہیں میں اب کسی کو بھی نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔ میں بس اب اپنی شہزادی کو ہی پیار کروں گا ۔

            نوشابہ : ۔ میری بات نہیں مانو گے ؟؟؟

            اس وقت نوشابہ کا انداز اتنا جان لیوا تھا کہ وہ اس وقت وہ مجھے جو کچھ بھی کہتی میں انکار نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے اس پر بے پناہ پیار آرہا تھا ۔۔۔ میں نے ایسی فیلنگز پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔

            جاری ہے ۔

            جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
            ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

            Comment


            • #36
              میں : ۔ کیوں نہیں مانوں گا ۔۔۔۔ میں اپنی دلربا کی کسی بات سے انکار کر سکتا ہوں کیا ؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ ہاں کسی بات سے منع تو نہیں کر سکتے مگر اپنی دلربا کو چھوڑ ضرور سکتے ہو ۔

              میں : ۔ ایسا میں کبھی بھی نہیں کر سکتا ، اوکے ۔۔

              نوشابہ : ۔ تم نے چھوڑ دیا تھا مجھے ۔۔۔اور میں یہ کبھی نہیں بھولوں گی ۔

              میں : ۔ میں نے تمھیں چھوڑا نہیں تھا ۔۔۔ میں بس تم سے ناراض تھا ۔

              نوشابہ : ۔ ناراض تھے تو کم از کم مجھ سے بات تو کرتے ۔۔۔۔ مجھے صفائی کا موقع تو دیتے ۔۔۔۔۔۔ میں نے پتہ نہیں کس کس کے ترلے کیے تم سے بات کرنے کے لیے ۔۔۔ تمھیں پتہ ہے میں کتنا روئی ہوں ۔۔۔۔ اتنا میں کبھی اپنے پاپا کے لیے بھی نہیں روئی جتنا تمھارے لیے روئی ہوں ۔۔۔۔۔۔

              میں : ۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے غلط کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا پچھتاوا مجھے ساری زندگی رہے گا ۔۔۔۔۔ تم بس مجھے ایک موقع دے دو ۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں اتنا پیار دوں گا کہ تم یہ بات یاد بھی نہیں کرو گی ۔

              نوشابہ : ۔ یہ دن جیسے میں نے گزارے ہیں مجھے ہی پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔ میں ان دنوں کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گی ۔۔۔۔۔ اور اس بات کو بھی کہ تم نے مجھے چھوڑ دیا تھا ۔

              میں : ۔ تم کیوں روتی رہی میرے لیے ۔۔۔۔ دفعہ کرتی مجھے ، میں کچھ بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ تم اتنی خوبصورت ہو تمھیں ایک سے بڑھ کر ایک ، ہزاروں مل جاتے۔۔

              نوشابہ : ۔ آج تو یہ بکواس کر دی ہے آج کے بعد دوبارہ ایسی بات تمھارے منہ سے نہ سنوں ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں خود کو کچھ کر لوں گی ۔

              نوشابہ کی آواز پھر سے رونے والی ہوگئی ۔۔۔۔ مجھے لگا میں نے پھر سے غلطی کر دی ۔۔۔۔۔ میں نے پھر سے نوشابہ کا دل دکھا دیا ہے ۔۔۔۔۔ مجھے خود پر پھر سے غصہ آنے لگا ۔

              میں : ۔ اچھا بابا اچھا ! پلیز رونا نہیں ۔۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔۔۔۔ میں پھر کبھی بھی ایسا نہیں کہوں گا ۔

              میرے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی نوشابہ رو ہی پڑی ۔۔۔۔۔ میں پھر سے اسے چپ کرانے لگا ۔۔۔۔۔۔ کافی دیر بعد وہ چپ ہوئی تو بولی ۔

              نوشابہ : ۔ ارسلان تم نہیں جانتے کہ تم میرے لیے کیا ہو ۔۔۔۔۔ میں نے کبھی کسی اور کے بارے میں سوچا تک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ میں تمھارے بنا جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔

              میں : ۔ مجھے بھی بہت دکھ ہے ۔۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم مجھ سے اتنا پیار کرتی ہو ۔۔۔۔۔ میں بھی کتنا پاگل ہوں کہ تمھارے پیار کو سمجھ ہی نہیں پایا اور تمیں اتنا پریشان کیا ۔۔۔۔۔ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا ۔۔۔

              نوشابہ : ۔ جو ہونا تھا ہو گیا ہے ۔۔۔ اب تم خود کو تکلیف مت نہ دینا ۔۔۔۔۔ تم میری جان ہو اگر تم کو کچھ ہو گیا تو سکون سے میں بھی نہیں رہوں گی ۔

              میں : ۔ تم نے تو معاف کردیا ہے پر پتہ نہیں میں خود کو کبھی معاف کر پاؤں گا یا نہیں ۔۔۔۔۔۔

              نوشابہ : ۔ میں نے کہا ہے نا ، اب تم ایسا نہیں سوچو گے ۔۔۔ اوکے ۔۔۔۔۔۔ تم یہ بتاو کیا اتنے دن تمھیں میری یاد نہیں آئی ۔

              میں : ۔ یاد تو بہت آتی رہی مگر اپنے غصے اور ضد کی وجہ سے بات نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے لگا تھا کہ تم نے میرا اعتماد توڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔ اب میں نے ماہ رخ کمینی سے کبھی بات نہیں کرنی اس کی وجہ سے میں اپنے پیار کو کھونے لگا تھا ۔

              نوشابہ : ۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔ میں نے تمھیں معاف کر دیا ہے نا ۔۔۔ اب تمھیں میری بہن کو معاف کرنا پڑے گا ۔

              میں : ۔ لیکن نوشابہ تم نے دیکھا نہیں کہ ماہ رخ کی وجہ سے ہماری زندگی میں کتنا کچھ ہو گیا ہے ۔

              نوشابہ : ۔ ہاں میں نے دیکھا ہے پر تم اسے معاف کر دو ۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ ساتھ وہ بھی بہت پریشان تھی ۔

              میں : ۔ ٹھیک ہے پر میری بھی ایک شرط ہے ۔

              نوشابہ : ۔ بتاو کیا شرط ہے تمھاری ؟؟؟

              میں : ۔ تمھیں میری قسم کھا کر وعدہ کرنا ہوگا کہ کچھ بھی ہو جائے تم میری خاطر کھانا پینا نہیں چھوڑو گی ۔

              نوشابہ : ۔ کیا مطلب ؟ تم پھر مجھ سے ناراض ہونا چاہتے ہو ؟؟؟

              میں : ۔ نہیں !!!! میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے خود کو کبھی بھی تکلیف نہ دو ، میں اس قابل نہیں ہوں ۔

              دوستو ! یہ سچ تھا کہ میں اس وقت خود کو نوشابہ کے قابل نہیں سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور میں اسے دکھ دے رہا تھا ۔۔۔۔اس سے کیا کچھ کروا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت اس کے سامنے خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا تھا ۔

              نوشابہ : ۔ تم اپنی بکواس بند ہی رکھو ۔۔ مجھے پتہ ہے تم کس قابل ہو ۔

              میں : ۔ سچ میں میں اس قابل نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ میں بہت برا ہوں اور تم بہت اچھی ہو ۔

              نوشابہ : ۔ اب میں اتنی بھی اچھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ دیکھنا تو سہی میں کیا کرتی ہوں تمھارے ساتھ ۔

              میں : ۔ اچھا جی ! کیا کیا کرو گی میرے ساتھ یہ بھی بتا دو ۔

              نوشابہ : ۔ بس دیکھتے جاو تم سے گن گن کر بدلے لوں گی ۔

              میں : ۔ بس تم ناراض نہ ہونا باقی جو مرضی کر لینا ۔

              نوشابہ : ۔ میں تو ہوں گی ناراض ۔۔۔۔ کر لو جو کرنا ہے ۔

              میں نے جھپی ڈالی ہوئی تھی جو باتوں کے دوران ڈھیلی پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔ پھر سے زور سے کس لی ۔۔۔۔ اور نوشابہ کے منہ سے ااااااووؤووی کی آواز نکلی ۔

              میں : ۔ اب بولو ہوگی ناراض ؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ ہاں ہاں ہوں گی ۔

              میں نے اور زیادہ زور لگایا تو نوشابہ کے منہ سے اور زور کی آواز میں آآآآآآئیییییییی نکل گیا ۔

              میں : ۔ اب کہو ۔

              نوشابہ : ۔ اچھا بابا اچھا ! نہیں ہوتی ناراض ۔۔۔۔۔۔ مارنا چاہتے ہو کیا مجھے ۔

              میں : ۔ گڈ ! اب ناراض ہونے کی بات کبھی بھی نہ کرنا ۔

              نوشابہ : ۔ تم مرد ہو نا ۔۔۔۔ زور دکھا لیتے ہو ۔۔۔۔۔ تم جب مجھ سے ناراض ہوئے تھے بتاو اب میں تمھارے ساتھ کیا کروں ؟؟

              میں : ۔ تم بھی کر لو جو میں نے کیا ہے میں کونسا منع کروں گا ۔

              نوشابہ نے سر ہلایا اور ہنستے ہوئے اپنا پورا زور لگا کر مجھے بھینچ لیا ۔۔۔۔ ایک تو وہ کمزور سی تھی اوپر سے اتنے دنوں سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا مجھ پر کیا خاک اثر ہونا تھا ۔۔۔۔ وہ زور لگاتی رہی اور میں ہنستا رہا ۔۔۔۔ زور لگا لگا کر اس کی سانس پھول گئی جب اس نے دیکھا کہ کچھ نہیں ہو رہا تو اس نے میرے کندھے پر منہ رکھا اور پوری طاقت سے کاٹ لیا ۔۔۔۔۔ اور میرے منہ سے بے اختیار آآآآآئییییییییی امی جی نکل گیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کچھ کرے گی ۔۔۔۔۔۔ نوشابہ نے فل زور لگا کر کاٹا اور پھر زور زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔

              میں : ۔ آرام سے ! مروانا ہے کیا ؟؟؟

              نوشابہ : ۔ اس سے اچھا کیا ہوگا کہ میں تمھاری بانہوں میں مر جاوں ۔

              میں : ۔ زیادہ ڈائیلاگ نا مارو ۔

              نوشابہ : ۔ تمھیں میری باتیں ڈائیلاگ لگ رہی ہیں ؟؟؟؟؟

              میں : ۔ اور نہیں تو کیا ۔

              نوشابہ نے ایک بار پھر سے وہی کام کیا اور اس بار پہلے سے بھی زیادہ زور سے کاٹا ۔۔۔۔۔ اور میری ایک بار پھر سے چینخ نکل گئی ۔

              میں : ۔ پاگل ہوگئی ہو کیا ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔ بہت درد ہوتا ہے ۔

              نوشابہ : ۔ ذرا پھر سے تو کہو ۔۔۔ میں ڈائیلاگ مار رہی ہوں ۔

              میں : ۔ اچھا میڈم جی سوری ۔۔۔۔ ویسے یہ نا انصافی ہے ۔

              نوشابہ : ۔ کوئی نا انصافی نہیں ہے ۔ اوکے ۔

              اس رات کے بارے میں بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے ۔۔۔۔ لیکن میں آپ لوگوں کو زیادہ بور نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ سب میرے لیے تو یادگار تھا مگر آپ کے لیے بورنگ ہی ہوگا اور میں آپکا ٹائم ویسٹ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔ مختصر یہ کہ صبح تک ہم نے نان سٹاپ باتیں کیں اور ان باتوں کے دوران ہم کئیں بار روئے بھی ۔۔۔۔ پیار کیا ہوتا ہے یہ مجھے اس رات پتہ چلا تھا ۔۔۔۔۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ نوشابہ اس حد تک مجھ سے پیار کرتی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے اسی رات اپنے دل میں یہ عہد کر لیا تھا کہ اب میں نے کسی بھی صورت میں نوشابہ کو دکھ نہیں دینا ۔۔۔۔ میں آئیندہ اس بات کا خیال رکھوں گا کہ اسے میری طرف سے کوئی تکلیف نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ میں نے اس رات نوشابہ کو لبنیٰ باجی اور عروسہ کے بارے میں بھی سب بتا دیا اور لبنیٰ باجی کے پلان کے بارے میں بھی بتا دیا ۔۔۔ پھر نوشابہ سے پوچھا ۔

              میں : ۔ اب تم مجھے بتا دو کہ میں کیا کروں ؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ جو تمھارا دل کرتا ہے وہ کرو ۔

              میں : ۔ تم نے ابھی تو کہا تھا کہ میں جس کا کہوں گی اسی کے ساتھ کرو گے تو اب بتاو ؟؟؟؟؟

              نوشابہ : ۔ میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا ۔۔۔۔ تمھارا جو دل چاہے ، جس سے چاہے بے فکر ہو کر کرو ۔۔۔۔۔۔ بس مجھ سے کبھی ناراض مت ہونا ۔

              میں : ۔تم مجھے اس سب سے منع بھی کر دو تو پھر بھی میں تم سے اب کبھی بھی ناراض نہیں ہونے والا ۔

              نوشابہ : ۔ جیسے پہلے چل رہا تھا اب بھی ویسے ہی چلنے دو ۔۔۔۔۔ اس ناراضگی سے بس ہمارا پیار بڑھا ہے اور کسی چیز میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے ۔

              میں : ۔ مطلب میں لبنیٰ باجی ، عروسہ ، ماہ رخ ، سائمہ سب کی لے سکتا ہوں ؟

              نوشابہ : ۔ ہاں ! پر میری ایک شرط ہے ؟

              میں : ۔ کونسی شرط ہے ؟؟؟

              نوشابہ : ۔ جس کے ساتھ میں کہوں گی اس کے ساتھ تمھیں ہر حال میں سیکس کرنا ہوگا ۔

              نوشابہ کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔ ایسی وہ کون سی لڑکی ہوگی جسے نوشابہ مجھ سے چدوانا چاہتی ہے ۔۔۔۔ ایک بار پھر میرے دماغ میں مشال اور آپی شفق کا نام آیا ۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ نوشابہ اگر مجھے منا بھی لیتی ہے تو ان دونوں کو کیسے منائے گی کیونکہ وہ دونوں بھی تو مجھے اپنا بھائی ہی مانتی ہیں ۔۔۔۔ نوشابہ شاید کسی اور کی مروانا چاہتی ہے ، اپنی کسی سہیلی یا پھر کسی کزن کی ۔

              میں : ۔ ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔

              نوشابہ : ۔ اگر تم نے بعد میں منع کر دیا تو ؟؟؟؟؟

              تم جانتی ہو کہ میں کسی کی بھی پھدی مارنے سے منع نہیں کر سکتا ۔

              نوشابہ : ۔ پر مجھے لگتا ہے کہ تم منع کر دو گے ، اس لیے تم پہلے میرے سر کی قسم کھاو کہ جس لڑکی کا میں کہوں گی تم اس کی پھدی مارو گے ۔

              میں : ۔ ٹھیک ہے میں تمھاری قسم کھاتا ہوں کہ تم جس لڑکی کا بھی کہو گی میں اس کی پھدی ضرور ماروں گا ۔

              نوشابہ : ۔ گڈ ! اب اگر تم نے منع کیا نا تو مجھے بھول ہی جانا ۔

              میں : ۔ پاگل ہوئی ہو کیا ! میں مر تو سکتا ہوں مگر تمہیں نہیں بھول سکتا ۔۔۔۔ تم جب چاہو جس کو چاہو مجھ سے چدوا سکتی ہو ۔

              یہ تھوڑی سی سیکسی باتیں تھیں جو اس رات ہم دونوں کے درمیان ہوئیں ۔۔۔۔ اس کے علاوہ تو ہمارے بیچ سب پیار و محبت کی باتیں ہی ہوتی رہیں ۔۔۔۔ میں نے اس رات نوشابہ کو گلے لگانے اور ایک دو بار چومنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔۔ ایک تو نوشابہ کی طبیعت کا مسئلہ تھا اور دوسرے میں اس کے پیار میں اتنا کھو گیا تھا کہ مجھے کچھ بھی کرنے کا ہوش ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی میرا دل بھی مچلا اس کے ساتھ سیکس کرنے کو ۔۔۔۔۔ ہم دونوں ساری رات ایک دوسرے کے پیار میں کھوئے رہے اور صبح کے قریب میں نوشابہ کے پاس سے اٹھا اور بیٹھک کی طرف چل دیا ، جہاں ماہ رخ اور مشال سوئی ہوئی تھیں ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں پر ایک سرپرائز میرا انتظار کر رہا ہوگا ۔

              جاری ہے ۔
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • #37
                میں جب بیٹھک میں داخل ہوا تو وہاں فل اندھیرا تھا ۔۔۔۔۔ میں نے موبائل کی لائٹ آن کی ۔۔۔۔۔ میرا رخ بیڈ کی طرف تھا ، اس لیے لائٹ سیدھی بیڈ پر لیٹی ہوئی ماہ رخ اور مشال پر پڑی ۔۔۔۔۔ اور انھیں دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔ ماہ رخ اور مشال کے ہاتھ ایک دوسری کے مموں پر تھے ۔۔۔۔۔ ماہ رخ کا ایک مما اس کی قمیض کے گلے سے باہر نکلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ مشال نے اس کا دوسرا مما پکڑا ہوا تھا اور مشال کا منہ اس کے ننگے ممے کے بالکل قریب تھا ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مشال اس کا مما چوستے چوستے سو گئی ہو ۔۔۔۔ ماہ رخ نے بھی اپنے ایک ہاتھ سے مشال کا مما پکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ میں ان دونوں کو اس حالت میں دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا کہ یہ دونوں آپس میں ایسا بھی کر سکتیں ہیں ۔۔۔۔۔ میرا ذہن بہت تیزی سے چلنے لگا اور میرے دماغ میں ایک ایک کرکے ماہ رخ کی ساری باتیں گھومنے لگیں ۔۔۔۔ ایک بات پر میرے دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجائی ۔۔۔ میں اپنے اور ماہ رخ کے درمیان ہونے والی باتوں کو سوچنے لگا ۔

                میں : ۔ مزہ جہاں سے بھی ملے لے لینا چاہیے ۔

                ماہ رخ : ۔ مطلب تمھیں جہاں سے بھی مزہ ملے گا لے لو گے ؟؟؟؟

                میں : ۔ اوکے ! پھر وقت آنے دو میں تمھاری یہ بات غلط ثابت کر دوں گی ۔۔۔ یا تمھیں بہت زیادہ مزہ دوں گی ۔

                مجھے اپنے اور ماہ رخ کے درمیان ہونے والی گفتگو یاد آگئی اور اس بات کا یقین ہو گیا کہ ماہ رخ ، مشال کو مجھ سے چدوانے کی پلاننگ کر رہی ہے ۔۔۔۔۔

                میں نے ایک بار پھر ان دونوں کو دیکھا ، مشال کے بکھرے ہوئے بالوں نے اس کے چہرے کو چھپایا ہوا تھا ۔۔۔۔ اس حالت میں وہ کیا قیامت لگ رہی تھی ۔۔۔۔ پھر میں نے اس کے ممے کی طرف دیکھا جسے ماہ رخ نے پکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ میرے دل میں بھی یہ خواہش بڑی شدت سے ابھری کہ میں مشال کا مما پکڑ لوں ۔۔۔ اتنے عرصے ایک ساتھ بہن بھائیوں کی طرح رہنے کے باوجود میں آج اسے صرف اپنی کزن کے رشتے سے دیکھ رہا تھا میرا بڑا دل کیا کہ میں مشال کے ممے کو پکڑوں ، سہلاؤں اور دباؤں لیکن بچپن سے اب تک جو بہن بھائی والی فیلنگز تھیں ان کی وجہ سے میری ہمت نہ ہو سکی ۔۔۔۔۔۔ ان خیالوں کی وجہ سے میں بہت گرم ہو گیا تھا اور میرا لن فل کھڑا ہو گیا تھا اور مجھ پر سیکس کا نشہ چڑھنے لگا ۔۔۔ جب مجھ سے برداشت نہ ہوا تو میں نے ماہ رخ کا وہ مما جو گلے سے باہر تھا بڑی آہستگی سے پکڑ لیا اب ماہ رخ کا ایک مما میرے ہاتھ میں تھا اور دوسرا مشال کے ہاتھ میں ۔۔۔۔ ماہ رخ کا دل کی طرف کا مما میرے ہاتھ میں تھا اور مجھے ماہ رخ کی دھڑکن بہت تیز محسوس ہو رہی تھی ، جس سے مجھ شک ہوا کہ وہ جاگ رہی ہے ۔۔۔ میں نے اپنا منہ اس کے کان کے ساتھ کیا اور کہا ۔۔۔۔ ماہ رخ تم جاگ رہی ہو ؟؟؟ اس کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا تو میں نے پھر سے اپنا سوال دہرایا ۔۔۔ اس بار بھی کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ جاگ رہی ہے اور جان بوجھ کر جواب نہیں دے رہی ۔۔۔۔ میں نے اس کے کان میں کہا ۔۔۔۔ میں چھت پر جا رہا ہوں ۔۔۔ اگر کچھ کرنے کا موڈ ہو تو وہیں آجاو ۔۔۔۔ اور اگر کچھ نہیں کرنا تو میرے واپس آنے سے پہلے مشال کو لے کر نوشابہ والے کمرے میں چلی جانا ۔۔۔۔ میں یہ کہہ کر سیڑھیوں کی طرف چلا گیا اور وہیں پر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ ففٹی ففٹی چانس تھے اس کے آنے یا نہ آنے کے ۔۔۔۔ مجھے یقین تھا اگر وہ جاگ رہی تھی تو اسے ہر حال میں آنا ہی تھا ۔۔۔۔۔ اور میرا یقین سچ ثابت ہوا ۔۔۔۔ کوئی دو منٹ بعد ہی ماہ رخ وہاں آگئی ۔۔۔۔۔ میں سیڑھیوں پر ہی کھڑا تھا میں نے وہیں اسے جھپی ڈال لی ۔

                میں : ۔ تم ابھی تک جاگ رہی تھی ؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ میں تو سو رہی تھی تم نے ہاتھ لگایا تو آنکھ کھل گئی ۔

                میں : ۔ مگر تمھاری دھڑکن تو پہلے سے ہی بہت تیز چل رہی تھی ؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ مجھے کیا پتہ ۔

                میں : ۔ اور یہ تم دونوں کر کیا رہیں تھیں ؟

                ماہ رخ : ۔ کیا کر رہی تھیں ؟؟؟؟

                میں : ۔ تم دونوں نے ایک دوسری کے ممے پکڑے ہوئے تھے ۔

                ماہ رخ : ۔ ہم نے کہاں پکڑے ہوئے تھے یار ۔۔۔ نیند میں ہاتھ چلا گیا ہوگا ۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔

                ماہ رخ کے لہجے سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے ۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ڈر بھی رہی ہے ۔۔۔ پچھلی دفعہ اس نے صرف میری بہنوں کے بارے میں بات ہی کی تھی اور میں ناراض ہو گیا تھا ۔۔۔ اور اس بار تو اس نے ممے پکڑے ہوئے تھے میری بہن کے ۔۔۔۔۔ شاید اس لیے وہ ڈر رہی تھی ۔۔۔۔۔

                میں : ۔ ڈرو نہیں سچ سچ بتاؤ تم دونوں کیا کر رہیں تھیں ؟؟؟ میں کچھ نہیں کہوں گا ۔

                ماہ رخ : ۔ پہلے تم نوشابہ کی قسم کھاؤ مجھ سے ناراض نہیں ہونگے ۔

                میں : ۔ نہیں ہوتا ناراض کہہ تو دیا ہے ، اب بتا بھی دو ۔

                ماہ رخ : ۔ آج شام کو جب تم نے نوشابہ کے پاس جانے کا کہا تو میں نے مشال سے بات کی ۔۔۔۔۔ اس کو تم دونوں کا پتہ تو پہلے سے ہی تھا اس لیے وہ فوراً ہی مان گئی ۔۔۔۔۔۔ بلکہ بہت پرجوش اور خوش بھی ہوئی ۔۔۔۔ رات کو جب میں اور مشال تمھارے کمرے میں آرہے تھے تاکہ تم نوشابہ کے پاس چلے جاؤ تو مشال واشروم کی طرف چلی گئی اور میں آکر تم سے لپٹ گئی ۔۔۔۔ تبھی مشال واپس آگئی جس کا ہمیں پتہ نہیں چلا اور اس نے ہمیں اس حالت میں دیکھ لیا اور دبے پاؤں واپس باہر جاکر آواز پیدا کی جسکی وجہ سے ہم الگ ہوگئے ۔۔۔۔۔ یہ سب اس نے بعد میں مجھے بتایا تھا ۔۔۔ ان باتوں کے بیچ ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ میں ایک ہاتھ سے ماہ رخ کے ممے اور دوسرے سے اس کی گانڈ کو سہلا رہا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ ماہ رخ کا ہاتھ میری گانڈ کی لکیر کے اندر گھوم رہا تھا ۔۔۔۔ میں جب بھی ماہ رخ سے ملتا تھا وہ مجھے یہ عجیب طرح کا مزہ ضرور دیتی تھی ۔۔۔۔۔

                میں : ۔ پھر کیا ہوا ؟؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ پھر تم چلے گئے اور میں اور مشال لیٹ گئے ۔۔۔۔۔ مشال فری تو مجھ سے پہلے سے ہی تھی ۔۔۔۔۔ مگر وہ آج مجھ سے کچھ زیادہ ہی کھل رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ لیٹتے ہی مجھ سے لپٹ گئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔

                اب آگے جو ماہ رخ اور مشال کے بیچ بات چیت ہوئی وہ کچھ اس طرح سے تھی ۔

                مشال : ۔ ماہ رخ ارسلان بھائی کیا کرنے گئے ہیں نوشابہ آپی کے پاس ؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ نوشابہ کو منانے کے لیے ۔

                مشال : ۔ کس کام کے لیے منانا ہے نوشابہ آپی کو ، ہاہاہاہا ۔

                ماہ رخ : ۔ تمھارا تو بھائی ہے خود ہی پوچھ لیتی ، کس کام کے لیے منانا ہے نوشابہ کو ۔

                مشال : ۔ نا بابا مجھے تو ڈر لگتا ہے تم ہی پوچھ لیتی نا ۔

                ماہ رخ : ۔ میں کیوں پوچھ لیتی ۔۔۔ مجھے بھی ڈر لگتا ہے ۔

                مشال : ۔ ہاں جانتی ہوں میں جتنا تمھیں ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔۔ ابھی ان سے گلے مل کر بھی ڈر دور نہیں ہوا کیا ؟؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ کیااااااا ؟؟؟ تم سے کس نے کہا ؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اوکے ۔

                مشال : ۔ مجھے کسی نے نہیں کہا ۔۔۔۔ ابھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔۔۔ شک تو مجھے پہلے سے ہی تھا ۔۔۔ اب تو یقین ہوگیا ہے ۔۔۔

                ماہ رخ : ۔ کیسا شک ، اور کس بات کا یقین ؟؟؟؟؟

                مشال : ۔ یہی کہ تم دونوں ہی بہنیں میرے بھائی کے ساتھ سیٹ ہو ۔

                ماہ رخ : ۔ تمھارے بھائی کے ساتھ نوشابہ ہی سیٹ ہے ۔۔۔۔ میں تو بس اپنے کزن سے ایسے ہی مل لیتی ہوں ۔

                مشال : ۔ ہاں مجھے تو تم نے بچی سمجھا ہوا ہے ۔۔۔۔ کوئی ایسے ہی نہیں ملتا ۔۔۔۔ اور میں نے تو تمھاری باتیں بھی سنیں ہیں ۔۔۔۔ مجھے تو بس اس بات کا بہت افسوس ہے کہ تم نے اپنی بیسٹ فرینڈ سے یہ سب چھپایا ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ کیا تمھیں اچھا لگتا اگر میں یہ سب تمھیں بتا دیتی ۔

                مشال : ۔ جس کو برا لگنا چاہیے ، جب اسے ہی برا نہیں لگ رہا تو مجھے کیوں لگے گا ۔۔۔۔ ویسے بھی تم تو میری بیسٹ فرینڈ ہو جس میں تم خوش ہو اسی میں میری بھی خوشی ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ آئی ایم سوری مشال ، میں نے تمھیں نہیں بتایا ۔۔۔۔۔۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر تمھیں بتا دیا تو نا جانے تم ہمارے بارے میں کیا سوچو گی ۔

                مشال : ۔ کہتی تو بہت ہو کہ تم میری بیسٹ فرینڈ ہو ۔۔۔۔۔ بس اتنا ہی جانتی ہو اپنی بیسٹ فرینڈ کے بارے میں ؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ اچھا بس نا ، ایک بار معافی دے دو ۔۔۔۔ آگے سے سب کچھ بتاؤں گی ۔

                مشال : ۔ معافی تو بس ایک شرط پر ہی مل سکتی ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ کیا شرط ہے تمھاری ؟؟؟

                مشال : ۔ تم مجھے وہ سب کچھ بتاو گی جو تم تینوں کے بیچ چل رہا ہے ۔۔۔ بولو منظور ہے ؟؟؟

                ماہ رخ نے بتایا کہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا اور ویسے بھی مشال کو یہ سب برا نہیں لگا تھا تو اس سے چھپانے کا کوئی مطلب نہیں تھا ۔۔۔ اسی لیے میں نے مشال کو سب کچھ بتا دیا ۔۔ جو کچھ بھی ہم تینوں کے بیچ ہوا ۔۔۔ اور کیسے ہم تینوں مزے کرتے ہیں ۔۔۔ کیسے تم نے میری گانڈ ماری اور اب بہت جلد میری پھدی بھی مارنے والے ہو ۔۔۔ اور سائمہ کے بارے میں بھی سب بتا دیا ۔۔۔ میری باتیں سن کر مشال بہت گرم ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے بنا کوئی بات کیے اپنا ہاتھ میرے ممے پر رکھ دیا ۔۔۔ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ۔

                ماہ رخ : ۔ کیا بات ہے میری پیاری سی چھوٹی کزن ؟؟؟؟

                مشال : ۔ تم لوگ یہاں کتنے مزے کر رہے ہو اور تمھیں اپنی اس کزن کا کوئی احساس ہی نہیں ہے ۔۔۔۔ ویسے مجھے اپنی بیسٹ فرینڈ کہتی ہو ۔

                ماہ رخ : ۔ میں تو ابھی تمھیں بچی ہی سمجھتی تھی اسی لیے تم سے کوئی بات نہیں کی ۔

                مشال : ۔ بچی نہیں ہوں میں ...... دیکھی ہے نا تم نے میری پھدی ۔۔۔۔۔ تمھاری پھدی سے بھی بڑی ہو گئی ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ ہم سب بہنوں کی پھدیاں تو ویسے بھی چھوٹی ہی ہیں ۔۔۔۔۔ میں پھدی کی نہیں عمر میں چھوٹی کی بات کر رہی ہوں ۔

                مشال : ۔ یہی تو عمر ہے مزے کرنے کی ۔۔۔ ذرا سے بڑے ہو جائیں تو پابندیاں لگ جاتی ہیں ۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا جی ! بہت تیز ہوگئی ہو تم ۔۔۔۔ اب تمھارے بارے میں بھی کچھ سوچنا ہی پڑے گا ۔

                مشال : ۔ ہاں ضرور سوچنا ۔۔۔۔ پہلے یہ تو بتاو تمھیں میرے بھائی سے گانڈ مروا کر کیسا لگا ؟؟؟

                ماہ رخ : ۔ پہلے مجھے ایک بات بتاو ۔۔۔ تم ارسلان کو بھائی ہی کیوں کہتی ہو ۔۔۔ تمھارا اس کے ساتھ ایک اور رشتہ بھی تو ہے جو اصل رشتہ ہے ؟؟؟؟

                مشال : ۔ ہم نے کبھی اس دوسرے رشتے کے بارے میں سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔ بچپن سے ہم نے بس یہی ایک رشتہ دیکھا ہے اب تم کیا چاہتی ہو ہم کسی کو اپنا بھائی بھی نہ کہیں ۔۔۔۔۔۔ اب مجھے میری بات کا جواب دو ۔۔۔ بات کو گھماؤ مت ۔



                جاری ہے ۔
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • #38
                  ماہ رخ : ۔ اچھا بابا کہتی رہو بھائی اسے ، مجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔ اور جہاں تک بات گھمانے کی ہے تو میں سب کچھ تو تمھیں بتا ہی چکی ہوں تو یہ بتانے سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے ۔

                  مشال : ۔ تو بتاو نا کیسا لگا تھا ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ جب پہلی بار مروائی تھی تو بہت درد ہوا تھا ۔۔۔۔۔ مزہ بھی آیا تھا جب ارسلان نے پہلے پہلے آرام سے ڈالا تھا ۔۔۔ لیکن جب ایک ہی جھٹکے میں لن اندر ڈال کر تیز تیز دھکے مارے تو بہت درد ہوا تھا اس وقت تو میں روئی بھی تھی ۔۔۔۔۔ مگر جب دوسری بار کھیت میں ارسلان نے میری گانڈ ماری تو بہت مزہ آیا تھا ۔

                  مشال : ۔ تو اب پھدی کب مروا رہی ہو ؟

                  ماہ رخ : ۔ پروگرام تو صباء آپی کی شادی پر کوئی موقع دیکھ کر مروانے کا ہے ۔۔۔ آگے دیکھیں کیا بنتا ہے ۔

                  مشال : ۔ پلیززززز ماہ رخ ! مجھے بھی دیکھنا ہے بھائی کو تمھاری پھدی مارتے ہوئے ۔۔۔۔ پلیزززززززززز ۔

                  ماہ رخ : ۔ پر یہ کیسے ہو سکتا ہے یار ؟؟؟

                  مشال : ۔ کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟؟ آخر تم میری بیسٹ فرینڈ ہو ۔

                  ماہ رخ : ۔ پر تم اپنے بھائی کو میری پھدی مارتے ہوئے کیسے دیکھ سکتی ہو ؟

                  مشال : ۔ کیوں نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔ اور ابھی تم نے ہی تو کہا تھا کہ ہمارا ایک رشتہ اور بھی ہے ۔۔۔۔ میں کزن بن کر دیکھ لوں گی ۔۔۔۔ اور ارسلان بھائی کو کونسا پتہ چلنا ہے کہ میں دیکھ رہی ہوں ۔

                  ماہ رخ : ۔ یار پھر بھی یہ ٹھیک نہیں ہوگا ۔

                  مشال : ۔ میرے نہ دیکھنے سے جو تم لوگ کر رہے ہو وہ بھی ٹھیک نہیں ہو جائے گا ۔۔۔

                  ماہ رخ : ۔ اچھا ٹھیک ہے یار ، میں کچھ سوچوں گی ۔

                  مشال : ۔ تھینک یو ماہ رخ ۔۔۔۔ ویسے ایک بات پوچھوں ؟

                  ماہ رخ : ۔ ہاں پوچھو ۔

                  مشال : ۔ میرے بھائی کا لن کیسا ہے ؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ مت پوچھ یار ۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا اور موٹا لن ہے تمھارے بھائی کا ۔

                  مشال : ۔ کتنا بڑا ہوگا ؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ میں نے پیمائش تو نہیں کی مگر بہت بڑا اور موٹا ہے ۔۔۔۔۔ ہاتھ میں پکڑو تو سکون آ جاتا ہے ۔

                  مشال : ۔ اور اگر اندر لے لو تو ؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ پھر تو کوئی ہوش ہی نہیں رہتا ۔۔۔۔۔ اتنا مزہ آتا ہے ۔۔ اور ابھی تو میں نے پھدی میں نہیں لیا ۔۔۔ اس کا تو مزہ ہی الگ ہوگا ۔

                  ان باتوں کے دوران ماہ رخ اور مشال بہت گرم ہوگئی تھیں اور مستی میں آکر ایک دوسری کے ممے دبانے لگیں اور ساتھ ساتھ پھدیاں بھی مسلنے اور سہلانے لگیں ۔ ماہ رخ نے بتایا کہ مشال میری سوچ سے بھی زیادہ سیکسی ثابت ہو رہی تھی ۔۔۔۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ کافی عرصے سے ہم پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔۔۔ اور اس بارے میں سوچ سوچ کر بہت گرم ہو جاتی ہوگی ۔

                  مشال : ۔ کتنی خوش قسمت ہو تم ۔۔۔ تم نے لن اپنے اندر لے بھی لیا ہے ۔

                  ماہ رخ : ۔ ہاں ! یہ صرف تمھارے بھائی اور نوشابہ کی مہربانی ہے کہ مجھے اتنے مزے مل رہے ہیں ۔

                  مشال : ۔ نوشابہ آپی خود کیوں نہیں لے لیتی ارسلان بھائی کا لن اپنے اندر ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ وہ ان دونوں کی اپنی بات ہے جب وہ چاہے گی لے لے گی مجھے اس سے کیا ۔۔۔۔۔ مجھے تو مزہ اور لن دونوں ہی مل رہے ہیں نا ۔

                  مشال : ۔ ہاں یہ تو ہے ۔۔۔۔۔ اچھا کیا ارسلان بھائی سائمہ کی پھدی بھی ماریں گے ؟؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ ہاں میرے بعد سائمہ کا ہی نمبر لگے گا ۔

                  مشال : ۔ تم تو کہہ رہی تھی کہ ارسلان بھائی کا لن بہت بڑا ہے ۔۔۔۔۔ تو سائمہ اتنا بڑا لن اپنی پھدی میں لے لے گی ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ کزن کہتا ہے کہ پانی اور لن اپنا رستہ خود بناتے ہیں ۔۔۔۔۔ اب دیکھو نا میں بھی یہی سمجھتی تھی کہ میں ارسلان کا اتنا بڑا لن اپنی گانڈ میں کیسے لے پاؤں گی ۔۔۔۔۔۔ اور اب کتنے آرام سے پورے کا پورا لن اپنی گانڈ میں لے لیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ کزن جی بالکل ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔۔۔۔ لن تو اپنا رستہ بنا ہی لیتا ہے ۔

                  مشال : ۔ سائمہ نے دیکھا ہوا ہے ارسلان بھائی کا لن ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ میرا خیال ہے کہ ابھی اس نے نہیں دیکھا ۔۔۔۔ پر اگر ایک بار دیکھ لے گی تو اندر ڈلوائے بغیر نہیں رہ پائے گی ۔

                  مشال : ۔ کیا اتنا ہی پرکشش ہے بھائی کا لن ؟؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ ہاں بہت زیادہ ۔

                  مشال : ۔ کیا تم ایک دفعہ مجھے ارسلان بھائی کا لن دکھا سکتی ہو , پلیززززز ۔

                  ماہ رخ : ۔ کیا تم نے بھی لینا ہے اپنی پھدی میں ارسلان کا لن ؟؟؟؟

                  مشال : ۔ ہاااااااااائے کاش ایسا ممکن ہو جائے ۔۔۔۔۔ تو میں بھی تم سب کے ساتھ مل کر اپنے بھائی کے لن سے مزے لیتی ۔

                  ماہ رخ : ۔ ایسا کیوں ممکن نہیں ؟؟؟ جیسے وہ تمھارا بھائی ہے ویسے ہی ہمارا بھی تو بھائی ہے تم بھی کزن ہو اور ہم بھی ۔۔۔۔ جب ہم لے سکتیں ہیں تو تم بھی لے سکتی ہو ۔

                  مشال : ۔ ہاں کہتی تو تم ٹھیک ہو لیکن ہم آپس میں کزنوں کی طرح نہیں رہتے ۔۔۔۔سگے بہن بھائیوں کی طرح ہی رہتے ہیں اس لیے الجھن سی ہے ۔

                  ماہ رخ نے ابھی بات یہاں تک ہی بتائی تھی کہ میں بہت جوش میں آگیا ۔۔۔ میری وہ کزن جسے میں نے آج تک بہن کے سوا کسی اور نظر سے نہیں دیکھا تھا وہ میرے لن کے بارے میں باتیں کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اور میرا لن اپنی پھدی میں بھی لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ میں آوٹ آف کنٹرول ہوگیا اور ماہ رخ کو دوسری طرف گھما دیا ۔۔۔۔ اب اس کی گانڈ میری طرف آگئی تھی ۔۔۔ میں نے ماہ رخ کو جھکنے کو کہا ۔

                  ماہ رخ : ۔ ارسلان چھت پر چلتے ہیں ۔

                  میں : ۔ کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔ تم جلدی کرو

                  ماہ رخ : ۔ یہاں کوئی آگیا تو ؟؟؟؟

                  میں : ۔ تمہیں چھوڑ کر میں اس کی پھدی مار لوں گا ۔

                  ماہ رخ : ۔ اور اگر مشال آگئی تو ؟؟

                  میں : ۔ اس کی پھدی میں کیا لن نہیں جا سکتا ؟؟؟؟؟

                  یہ باتیں کرتے ہوئے ماہ رخ سیڑھیوں میں ہی جھک گئی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے اس کی اور اپنی شلوار نیچے کردی تھی ۔۔۔۔ میں اپنے لن پر تھوک لگانا چاہا تو مجھے کچھ یاد آگیا اور میں نے ماہ رخ کو اپنی طرف منہ کرنے کو کہا تو ماہ رخ نے کہا ۔

                  ماہ رخ : ۔ کیوں کیا ہوا اب ڈالو نا اندر ۔

                  میں : ۔ اگر ایسے ہی ڈال دیا تو تمہیں بہت درد ہوگا ۔۔۔۔ پہلے میرا لن چوس کر گیلا تو کر دو پھر آرام سے تمھاری گانڈ کے اندر چلا جائے گا ۔

                  ماہ رخ یہ سن کر میری طرف مڑی اور نیچے بیٹھ کر میرے لن کو اپنے ہاتھ سے ہلانے لگی ۔

                  میں : ۔ یہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ جلدی سے چوس بھی لو ۔۔۔ پھر اندر بھی تو ڈالنا ہے ۔۔۔۔

                  ماہ رخ : ۔ میں سوچ رہی ہوں اتنا بڑا لن میری چھوٹی سی گانڈ میں کیسے چلا جاتا ہے ؟؟؟

                  میں : ۔ سوچ پھر کبھی لینا ۔۔۔۔ ابھی جلدی کرو صبح ہونے والی ہے ۔

                  ماہ رخ کچھ دیر ایسے ہی میرے لن کو ہلاتی رہی پھر آرام سے ایک ہی بار میں جتنا اس کے منہ میں جا سکتا تھا اتنا لن اپنے منہ میں ڈال لیا ۔۔۔۔ یہ ماہ رخ کا سٹائل تھا وہ پہلے جھٹکے میں جتنا لن منہ میں لے سکتی تھی لے لیتی تھی ۔۔۔ اور پھر آرام آرم سے چوپے لگاتی تھی ماہ رخ کا یہ انداز مجھے پاگل کر دیتا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے تقریباً دو منٹ تک میرا لن چوسا ہوگا پھر میں نے اسے پہلے والی پوزیشن پر ہونے کو کہا ۔۔۔۔ وہ اٹھی اور پہلے والی پوزیشن میں آگئی ۔۔۔۔ میں نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا ۔

                  میں : ۔ اپنی گانڈ کو بھی تھوک لگا کر چکنا کر لو میں لنڈ گھسانے والا ہوں ۔

                  ماہ رخ : ۔ میں نے تمھارے لن کو کیا ہے نا ، تم اب میری گانڈ کو چکنا کر دو

                  میں : ۔ ٹھیک ہے ، کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر میں نے اس کی گانڈ پر تھوک لگا دیا ۔۔۔۔۔ پھر ماہ رخ نے خود بھی کافی سارا تھوک لگا دیا ۔۔۔۔۔ میں نے ماہ رخ سے کہا کہ بہت اندھیرا ہے تم اپنے ہاتھ سے میرا لنڈ پکڑ کر اپنی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دو ۔۔۔۔۔ ماہ رخ نے میرا لنڈ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنی گانڈ پر فٹ کردیا اور بولی ، اب ڈال دو ۔۔۔۔۔ میں نے آرام آرام سے اپنا لنڈ اس کی گانڈ میں دبانا شروع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔ میرا لن اب بھی ماہ رخ کے ہاتھ میں ہی تھا ۔۔۔۔۔ میں جیسے جیسے اندر ڈالتا جا رہا تھا ماہ رخ اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اسے اندر ایڈجسٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ تاکہ میرا لنڈ آسانی سے اس کی گانڈ کے اندر جا سکے ۔۔۔۔ تھوڑا تھوڑا ڈالتے ہوئے میرا کافی سارا لن ماہ رخ کی گانڈ میں جا چکا تھا ۔۔۔۔ ماہ رخ کے منہ سے آآآآآآآہہہہہہہ ،۔ ااااااااففففففف سسسسسسسس کی مزے بھری آوازیں نکل رہی تھیں آج وہ میرے لنڈ کو اپنی گانڈ میں بغیر کسی درد کے انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ جب میرا آدھے سے زیادہ لن ماہ رخ کی گانڈ میں چلا گیا تو اس نے ہاتھ لن سے ہٹایا اور دونوں ہاتھ سامنے کی دیوار کے ساتھ ٹکا دیے ۔۔۔۔۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے ممے پکڑ لیے اور کہا ۔

                  میں : ۔ ماہ رخ میں زور سے جھٹکا مارنے لگا ہوں ۔

                  ماہ رخ : ۔ ایک بات کہوں اگر برا نا مانو تو ۔

                  میں : ۔ ہاں کہو !

                  ماہ رخ : ۔ اگر اس وقت میری جگہ مشال ہوتی تو تمھیں کیسا محسوس ہوتا ؟؟؟

                  ماہ رخ سے ہونے والی باتوں کے بعد میرے دماغ نے بھی مشال کو کزن کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تھا اور میرا دل بھی اس کے بارے میں بدل رہا تھا میں نے ماہ رخ کو جواب دیا ۔

                  میں : ۔ تمھارے اندر تو آرام آرام سے ڈالا ہے مشال کی گانڈ میں تو ایک ہی جھٹکے میں پورا لن گھسا دیتا ۔

                  دوستوں یقین کرو ماہ رخ کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے مشال کا ذکر مجھے اتنا مزہ دے رہا تھا کہ بیان سے باہر ہے ۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں اور ماہ رخ مشال کے بارے میں اور بھی باتیں کرتے رہیں ۔۔۔۔۔ اور شاید ماہ رخ بھی میری خواہش تک پہنچ گئی تھی۔

                  ماہ رخ : ۔ تو میری جان یہی سمجھو کہ میں مشال ہوں ۔۔۔۔ جس طرح سے تم مشال کی گانڈ مارنا چاہتے ہو میری گانڈ بھی اسی طرح سے مارو ۔

                  میں : ۔ تو تم میری چھوٹی بہن مشال ہو ؟؟؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ چھوٹی بہن کیوں کہتے ہو ۔۔۔ اسے بھی کزن ہی کہو نا ۔

                  میں : ۔ نہیں مجھے تو چھوٹی بہن کہنے میں ہی مزہ آرہا ہے ۔۔۔۔۔ بتاو نا تم میری بہن ہو ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ (فل ڈرامہ کرتے ہوئے) ہاں بھائی میں آپکی چھوٹی بہن مشال ہوں ۔۔۔۔۔۔ دیکھو نا آپکی چھوٹی سی معصوم بہن آپ سے گانڈ مروانا چاہتی ہے ۔۔۔۔ آپ مارو گے نا اپنی مشال کی گانڈ پلیزززززز بھائی اپنی چھوٹی بہن کی گانڈ میں اپنا پورا لن ڈالو نا ۔

                  جاری ہے ۔


                  جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                  ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                  Comment


                  • #39


                    ماہ رخ کی باتوں نے مجھے پوری طرح سے پاگل کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ میں نے ماہ رخ کے مموں کو زور سے پکڑ لیا ۔۔۔۔۔ ماہ رخ کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اب کیا ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ دیوار سے ہٹایا اور اپنے منہ پر سختی سے رکھ لیا ۔

                    اس وقت میرے اندر جتنا بھی زور تھا وہ سارا میں نے اپنی گانڈ میں جمع کرلیا اور فل طاقت سے میں نے اپنی گانڈ کو آگے کی طرف دھکا دے دیا ۔۔۔ میرا لن تھاااااااااااپ کی آواز کے ساتھ ماہ رخ کی گانڈ میں گم ہوگیا ۔۔۔۔۔ ماہ رخ کے جسم کو ایک زوردار جھٹکا لگا ۔۔۔۔ پر اس کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی ۔۔۔ کیونکہ اس نے اس جھٹکے کے لیے خود کو تیار کر لیا تھا ۔۔۔۔۔ میں اپنا پورا لن اس کی گانڈ میں گھسا کر وہیں پر رک گیا ۔۔۔۔ اور ہلکی سی آواز میں ماہ رخ کے کان میں کہا ۔

                    میں : ۔ کیسا لگ رہا ہے میری بہن کو اپنے بھائی کا لنڈ اپنی گانڈ میں کے کر ؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ بہت اچھا لگ رہا ہے بھائی ۔۔۔ تمھارا لنڈ بہت شاندار ہے ۔۔۔۔۔ آپ کی بہن آپ کے لنڈ کی دیوانی ہو گئی ہے ۔۔۔ اور آپ کو اپنی بہن کی گانڈ کیسی لگی ؟؟؟

                    میں : ۔ میری مشال کی گانڈ بھی بہت کمال کی ہے ۔۔۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے اپنی بہن کی گانڈ میں اپنا لنڈ ڈال کر ۔

                    ماہ رخ : ۔ بھائی رک کیوں گئے ۔۔۔ اب میری گانڈ میں اپنا لنڈ اندر باہر بھی کرو نا ۔۔۔۔۔ پلیز میں اپنے بھائی کے لنڈ سے پورا مزہ لینا چاہتی ہوں ۔

                    میں نے آرام سے اپنا لنڈ ماہ رخ کی گانڈ میں اندر باہر کرنا شروع کردیا ۔۔۔۔۔ میں نے اس کو بس ایک جھٹکا ہی زور سے لگایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میرا لنڈ ماہ رخ کی گانڈ میں تھا ۔۔۔۔ ماہ رخ اب تھوڑی سی اوپر کو ہو گئی تھی ۔۔۔۔ اس کا سٹائل ایسے تھا جیسے کوئی کھڑے ہو کر اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف نکالتا ہے ویسے ہی ماہ رخ نے بھی اپنی گانڈ پیچھے کو نکالی ہوئی تھی ۔۔۔۔ میں نے اب ماہ رخ کے ممے چھوڑ کر اس کو جھپی ڈال لی تھی ۔۔۔۔ ہم دونوں آہستہ آوازوں میں مشال کے بارے میں باتیں بھی کرتے جا رہے تھے۔۔۔۔ اور میں ماہ رخ کی گانڈ میں آہستہ آہستہ اپنا لنڈ اندر باہر کر رہا تھا تبھی ماہ رخ کی آواز آئی ۔۔۔

                    ماہ رخ : ۔ کزن جی ۔

                    میں : ۔ ہاں میری جان ۔

                    ماہ رخ : ۔ مزہ آرہا ہے کیا ؟؟؟؟

                    میں : ۔ ہاں میری جان ۔۔۔۔ بہت مزہ آرہا ہے تمھاری گانڈ میں لنڈ ڈال کر ۔

                    ماہ رخ : ۔ سچ میں اگر میری جگہ مشال ہوتی تو کیا تم اس کی بھی گانڈ ایسے ہی مار رہے ہوتے ؟؟؟؟؟

                    میں ماہ رخ کی بات سن کر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم دونوں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سیکس کے نشے میں یہی سب باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔ مگر اس وقت ماہ رخ کے لہجے سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ یہ بات سنجیدگی سے پوچھ رہی ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ میرے دل نے مجھے ورغلانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ کہہ دینے سے کوئی بھائی بہن تو نہیں بن جاتے ۔۔۔۔ اور کزن کی تو میں اس وقت بھی لے ہی رہا ہوں ۔۔۔۔۔ پھر اگر اس کی جگہ مشال بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔ مگر میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ماہ رخ کو یہ بات بتاؤں یا نا بتاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں اسے بتادوں تو وہ کیا سوچے گی کہ کل تک تو میں انھیں بھی ایسی بات نہیں کرنے دیتا تھا ۔۔۔۔۔ میں انھیں خیالوں میں ہی ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ ماہ رخ کی گانڈ میں میرے لنڈ کی حرکت بھی رک چکی تھی ۔۔۔۔ ماہ رخ نے میرے لنڈ کو اپنی گانڈ سے دبایا اور بولی ۔۔

                    ماہ رخ : ۔ اب اس کو تو ہلاؤ نا ۔۔۔۔ اسے کیوں روک دیا ۔

                    میں نے لنڈ کو ماہ رخ کی گانڈ میں پھر سے آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا اور کہا کچھ نہیں ۔

                    ماہ رخ : ۔ بتاو نا کزن جی ! میں وعدہ کرتی ہوں کہ یہ باتیں ہم دونوں کے بیچ ہی رہیں گی ۔

                    میں : ۔ پتہ نہیں یار وہ تمھاری جگہ ہوتی تو میں کیا کرتا ۔

                    ماہ رخ : ۔ تمھارا دل کرتا ہے اس کے ساتھ مزے کرنے کو ؟؟؟؟

                    میں : ۔ اس بارے میں کبھی سوچا نہیں مگر ان کے بارے میں باتیں کرکے اچھا لگتا ہے بہت مزہ آتا ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ ذرا سوچو کہ باتیں کرنے اتنا مزہ آتا ہے تو جب تم اس کی گانڈ اور پھدی مارو گے تو کتنا مزہ آئے گا ۔

                    میں : ۔ ہاں یہ تو ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ تو بتاو اگر میری جگہ مشال ہوتی تو کیا تم اس کی بھی گانڈ مار رہے ہوتے ؟؟؟؟

                    میں : ۔ نہیں ۔

                    ماہ رخ : ۔ واہ جی واہ ! وہ تمھارے چچا کی بیٹی ہے اور تمھارے گھر میں بہنوں کی طرح رہتی ہے بس اس لیے ۔۔ ہم بھی تو تمھاری کزنیں ہیں ۔

                    میں : ۔ ارررررے او جذباتی لڑکی ۔۔ پہلے پوری بات تو سن لو ۔۔۔۔۔

                    ماہ رخ : ۔ بولو ؟؟؟؟

                    میں : ۔ یار میں اس کی گانڈ کیوں ماروں گا ۔۔۔ تمھاری گانڈ تو مجبوری میں مار رہا ہوں ۔۔ اگر نوشابہ نے نا روکا ہوتا تو اس وقت میں تمھاری بھی پھدی ہی مار رہا ہوتا ۔۔۔۔ اور اگر اس وقت تمھاری جگہ مشال بھی ہوتی تو میں اس کی بھی پھدی ہی مار رہا ہوتا ۔

                    ماہ رخ : ۔ ہنستے ہوئے ! سچ کہہ رہے ہو ؟؟؟ اگر میں ابھی جاکر مشال کو یہاں لے آوں تو کیا تم اس کی پھدی مارو گے ؟

                    میں : ۔ ہاں ! مگر صرف اس صورت میں کہ وہ خود مجھ سے اپنی پھدی مروانا چاہے گی تو ۔

                    ماہ رخ : ۔ اور اگر میں یہ کہوں کہ وہ بھی تم سے اپنی پھدی مروانا چاہتی ہے تو ۔۔۔ تمھیں کیسا لگے گا ؟؟؟

                    میں : ۔ کییییییااااا ؟؟؟؟؟؟ ، وہ سچ میں ایسا چاہتی ہے ؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ فرض کرو اگر ایسا ہی ہے ۔۔۔ تو تمھیں کیسا لگے گا ؟؟؟؟

                    میں : ۔ مجھے بالکل بھی برا نہیں لگے گا ۔۔۔ اگر وہ بہن بھائی کا رشتہ چھوڑ کر صرف کزن کا رشتہ ہی رکھنا چاہتی ہے اور مجھ سے اپنی پھدی مروانا چاہتی ہے تو میرے لیے اس سے اچھا اور کیا ہوسکتا ہے ۔

                    ماہ رخ میری بات سن کر خاموش ہوگئی ۔۔۔ میں اس دوران لگاتار اس کی گانڈ مار رہا تھا ۔

                    میں : ۔ ہاں اب بتاو ؟؟ کیا وہ واقعی مجھ سے اپنی پھدی مروانا چاہتی ہے ؟؟

                    ماہ رخ : ۔ مجھے ابھی پوری طرح سے کنفرم نہیں ہے ۔۔۔۔ میں پہلے اس سے کنفرم کر لوں پھر تمہیں بتاتی ہوں ۔

                    میں : ۔ مشال نے تمھیں میرے بارے کچھ کہا ہے کیا ؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ اس نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ میں تمھیں بتا چکی ہو ۔۔۔۔ اور آگے بھی جو کہے گی میں تمھیں بتا دوں گی ۔۔۔

                    میں ماہ رخ کی گانڈ مارنے کے ساتھ ساتھ اس سے باتیں بھی کر رہا تھا اور باتوں کی وجہ سے دھیان مکمل طور پر سیکس کی طرف نہیں تھا جسکی وجہ سے مجھے اسے چودتے ہوئے کافی وقت ہو گیا اور میں فارغ نہیں ہو سکا تھا ۔۔۔ جیسے ہی ماہ رخ سے باتیں ختم ہوئیں تو میرا دھیان مکمل طور پر اس کی گانڈ مارنے پر ہوگیا اور میں نے تیز تیز اپنے لنڈ کو اس کی گانڈ میں اندر باہر کرنا شروع کردیا ۔۔۔۔ تیز دھکوں کی وجہ سے تھپ تھپ کی ہلکی ہلکی آوازیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔ اور ماہ رخ کے منہ سے بھی لذت بھری سسکاریاں نکلنا شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ اس نے پھر سے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا ۔۔۔۔۔ اب میرے دھکوں کی سپیڈ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور پھر میں پیک پر پہنچ گیا ۔۔۔۔۔ آخر میں مجھ سے جتنا زور لگ سکتا تھا میں نے لگایا اور میں ماہ رخ کی گانڈ میں فارغ ہونے لگا مکمل فارغ ہونے کے بعد بھی میں نے اپنا لنڈ ماہ رخ کی گانڈ میں ہی رہنے دیا اور ہم دونوں اسی پوزیشن میں ہی کھڑے رہے اور اپنے آپ کو ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔۔ جب میرے کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے لنڈ کو اس کی گانڈ سے باہر نکال لیا اور اپنی شلوار سیٹ کرنے لگا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں شلوار پکڑ کر پیچھے کی طرف ہوا مجھے نیچے کسی کا سایا سا محسوس ہوا اور میں فوراً دوڑتا ہوا سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچا ۔۔۔ مگر اب وہاں کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔ مجھے یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ وہ جو بھی تھا کس کمرے میں گیا ہے ۔۔۔۔ میرا پہلا شک مشال کی طرف ہی گیا تھا کہ وہی ہوگی ۔۔۔۔ کیونکہ ہم دونوں اس کے پاس سے ہی آئے تھے ۔

                    ماہ رخ : ۔ کیا ہواااااااا ؟؟؟؟

                    میں : ۔ مجھے لگتا ہے ابھی یہاں کوئی کھڑا ہوا تھا ۔

                    ماہ رخ : ۔ کیااااااااا ؟؟؟؟ تم نے دیکھا تھا اسے ؟؟؟؟؟

                    میں : ۔ مجھے سایا سا نظر آیا تھا بس ۔۔۔ اس سے پہلے میں اسے دیکھتا وہ جا چکا تھا ۔

                    ماہ رخ : ۔ اب کیا ہوگا ۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے ۔

                    میں : ۔ کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ تم جاو اور مشال کو اٹھا کر اپنے کمرے میں لے جاو اور میں واش روم سے ہو کر آتا ہوں ۔

                    میں زیادہ پریشان نہیں تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ جو کوئی بھی تھا ۔۔ نوشابہ ، سائمہ یا مشال کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ کیونکہ وہ اگر ممانی ہوتی تو اب تک ہماری شامت آچکی ہوتی ۔۔۔۔ نوشابہ کا ویسے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا اور اس کو ہمیں چھپ کر دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔ اور رہی بات بات مشال اور سائمہ کی تو ان دونوں کا بھی کچھ زیادہ مسئلہ نہیں تھا ۔۔ کیونکہ ان دونوں کو بھی کافی کچھ پتہ تھا ۔۔۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اگر وہ سائمہ تھی تو مجھ سے اس بارے میں ضرور بات کرے گی ۔۔۔۔ اور اگر بات نہیں بھی کرے گی تو بھی میں صبح اس کی حرکتوں سے سمجھ ہی جاوں گا ۔۔۔۔ اور وہ کسی کو بتائے گی بھی نہیں ۔۔۔۔۔ اور اگر یہ مشال تھی تو اس کا بھی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ رات سے سب کچھ جان چکی تھی اور اسے کوئی اعتراض بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ میری بات کسی کو بتائے ۔۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ میں کافی حد تک ریلیکس تھا ۔۔۔۔ ان میں سے جس نے بھی دیکھا تھا آخر اس نے بھی تو ایک دن میرے ہی نیچے آنا تھا ۔۔۔ اسی لیے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی ۔۔۔ ماہ رخ بھی زیادہ پریشان نہیں ہوئی تھی کیونکہ اسے بھی اندازہ تھا کہ وہ امی تو ہو نہیں سکتی ۔۔۔۔ اور امی کے علاوہ اسے بھی کسی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔۔

                    میں جب واش روم سے واپس آیا تو ماہ رخ اور مشال اپنے کمرے میں جاچکی تھیں ۔۔۔۔۔ صبح ہونے والی تھی اور میں لیٹتے ہی سوگیا ۔۔۔۔ اور سوتے ہی جاگ بھی گیا ۔۔۔۔۔ ممانی مجھے ناشتے کے لیے آوازیں دے رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے ٹائم دیکھا تو 8 بج چکے تھے ۔۔۔۔۔ جو کہ دیہات کے حساب سے بہت زیادہ ٹائم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے ایسا ہی لگ رہا تھا کہ میں ابھی لیٹا تھا اور 5 منٹ میں ہی اٹھ بھی گیا ہوں ۔۔۔۔۔ میں بڑی مشکل سے اٹھا اور پھر نہانے کے بعد ناشتہ کیا ۔۔۔۔۔ نہانے کے بعد بھی میری سستی پوری طرح سے اتری نہیں تھی ۔۔۔۔۔ نوشابہ کے علاوہ سبھی سکول چلے گئے تھے ۔۔۔۔

                    جاری ہے ۔
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment


                    • #40
                      ممانی ، میں ، مشال ، نوشابہ ، اور نوشابہ کا سب سے چھوٹا بھائی ہی گھر میں موجود تھے ۔۔۔۔ میں ناشتہ کرنے کے بعد ماموں شکیل کے گھر چلا گیا ۔۔۔۔ اور وہاں اپنی نانی امی کے پاس لیٹ کر ان سے باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کب ان کے پاس ہی سو گیا ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھ اس بار بھی ممانی کی آواز سے ہی کھلی ۔۔۔۔۔ مگر اس بار آواز بڑی ممانی کی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے کھانا کھلانے کے لیے اٹھا رہیں تھیں ۔۔۔۔ اس بار بھی مجھے پتہ ہی نہیں چلا کیسے 1: 30 بج گئے ۔۔۔۔۔ میں نے ہاتھ منہ دھو کر ان کے گھر ہی کھانا کھایا ۔۔۔ اور پھر اٹھ کر نوشابہ کے گھر چلا گیا ۔۔۔۔۔ وہاں اب بھی بہت سکون تھا ۔۔۔ کیونکہ ابھی کوئی بھی سکول سے واپس نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔ ابھی 2 بجے تھے اور سکول کی چھٹی 2: 30 پر ہوتی تھی ۔۔۔۔ ممانی گھر پر نہیں تھیں شاید کہیں گئی ہوئیں تھی ۔۔۔۔۔۔ مشال اور نوشابہ ایک ہی چارپائی پر لیٹی ہوئیں باتیں کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔ نوشابہ کا بھائی ان کے بیچ میں لیٹا ہوا سو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا تو مشال ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ نوشابہ نے بس ایک بار میری طرف گھور کر دیکھا اور پھر منہ دوسری طرف کرلیا ۔۔۔۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ وہ پھر مجھ سے ناراض ہے اور مجھے اندازہ بھی ہوگیا کہ وہ کیوں ناراض ہے ۔۔۔۔ میں نے مشال کو آنکھوں سے جانے کا اشارہ کیا ۔

                      مشال : ۔ نوشابہ میں ذرا نانی امی کے پاس ہو کر آتی ہوں (ہماری وجہ سے مشال بھی ہماری نانی کو نانی امی ہی کہتی تھی اور نانی امی بھی اسے بہت پیار کرتی تھی)

                      نوشابہ : ۔ نہیں ! تم یہیں بیٹھو ، کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

                      مشال نے میری طرف دیکھا تو میں نے آنکھیں نکالتے ہوئے ذرا سختی سے کہا تو وہ چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔ اس بار نوشابہ نے بھی مجھے اشارہ کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے مشال کا بازو پکڑ لیا اور بولی ، یہیں بیٹھو ! تم نے کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔ مشال بیچاری بڑی بیچارگی سے کبھی میری طرف دیکھتی اور کبھی نوشابہ کی طرف ۔۔۔۔۔

                      میں : . جانے دو یار ! اس کو نانی امی بلا رہی ہیں انھیں کوئی کام ہے ۔

                      نوشابہ : ۔ کوئی کام وام نہیں ہے ۔۔۔ مجھے پتہ ہے کون اپنا کام نکلوانا چاہتا ہے ۔۔۔

                      میں نے آگے بڑھ کر نوشابہ کے ہاتھ سے مشال کا بازو چھڑایا تو مشال ہنستی ہوئی باہر کی طرف بھاگ گئی ۔۔۔۔ نوشابہ نے غصے سے میری طرف دیکھا اور بولی ۔

                      نوشابہ : ۔ کیا ہے تم کو ؟؟؟ ہیں ۔

                      میں : ۔ تم سے پیار ہے ۔

                      میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ نوشابہ کو راضی کیسے کرنا ہے ۔۔۔۔۔ پیار کرنے والوں کی یہی ادا تو مجھے اچھی لگتی ہے ، جتنی بھی ناراضگی ہو دو پیار بھری باتیں کرو سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔۔۔

                      نوشابہ : ۔ ہاں پتہ ہے کتنا پیار ہے ۔

                      میں : ۔ تو بتاؤ نا کتنا پیار ہے ۔

                      نوشابہ : ۔ اتنا ۔۔۔۔ کہ صبح سے وہاں جاکر سو رہے ہو ۔۔۔۔ میں نے تمھیں اسی لیے تو روکا تھا کہ تم وہاں جا کر سوتے رہو ۔

                      میں : ۔ اچھا جی تو میری جان اس لیے ناراض ہے ۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے میں اس کے پاس لیٹنے لگا تو اس نے آگے بازو کرکے مجھے روک دیا اور کہنے لگی۔۔۔ میرے بھائی کو نا جگا دینا ۔

                      میں : ۔ تو پھر تم اٹھو یہاں سے ۔

                      نوشابہ : ۔ کیوں اٹھوں ؟؟؟؟

                      میں : ۔ مجھے اپنی بیوی کو پیار کرنا ہے ۔۔۔ اس لیے اٹھو ۔

                      نوشابہ : ۔ جاو میں نہیں اٹھتی ۔۔۔۔۔ صبح سے کہاں تھے تم اپنی بیوی کو اکیلا چھوڑ کر ؟؟؟؟

                      میں نے نوشابہ کو بازو سے پکڑا اور کہا ۔۔۔۔ اٹھو ورنہ میں اپنی بیوی کو زبردستی بھی پیار کر سکتا ہوں ۔

                      نوشابہ : ۔ ہاں جی ! زبردستی کر سکتے ہو ۔۔۔۔۔ اتنی ہمت ہے تمھارے اندر ؟؟؟

                      میں : ۔ ہاں ! ہے ہمت ۔

                      نوشابہ : ۔ مجھے ہاتھ تو لگا کر دکھاو ۔

                      میں نے نوشابہ کی یہ بات سنی تو اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھا لیا ۔۔۔۔ وہ بالکل ہلکی سی تھی مجھے بالکل بھی وزن محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ خود کو چھڑانے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مار رہی تھی ، مگر میرے آگے اس کی ایک نہیں چل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ میں اس کو اٹھائے اٹھائے دوسرے کمرے میں آگیا ۔۔۔۔ اور اسے چارپائی پر لٹا کر اس کے اوپر لیٹ گیا ۔۔۔۔ نوشابہ زور زور سے ہنس رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اور خود کر چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ میرا دل تھا کہ اس کے ساتھ تھوڑا ہنسی مذاق کرنے کو ۔۔۔۔۔۔ پر پتہ نہیں کہاں سے اس وقت میرے ذہن میں ایک شیطانی آئیڈیا آ گیا ۔۔۔۔ اور میں نے ایک منٹ میں ہی اپنے ذہن میں سارا پلان ترتیب دے لیا ۔۔۔۔ میں نوشابہ کے اوپر سے اٹھا اور اس کے پیٹ کے نیچے اس کی پھدی کے اوپر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ اور کہا ۔

                      میں : ۔ اب بتاو ! کروں میں تمھارے ساتھ زبردستی ؟؟؟؟؟

                      میں نے اپنے لہجے کو مضبوط رکھا ، کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ میں مذاق کر رہا ہوں ۔

                      نوشابہ : ۔ کر کے تو دکھاو ۔۔۔ تم ہی تو رہ گئے ہو زبردستی کے لیے ۔۔

                      نوشابہ کی بات سن کر میں نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ سے پکڑے اور تھوڑا سا اوپر اٹھ کر اپنے ایک ہاتھ سے اس کی شلوار پکڑی اور ایک ہی جھٹکے سے نیچے کھینچ دی ۔۔۔ شلوار نوشابہ کے نیچے دبی ہوئی تھی اس لیے ساری تو نہ اتر سکی مگر اتنا ضرور ہوا کہ اس کی پھدی والی جگہ ننگی ہو گئی ۔۔۔۔ میں نے پھر سے اسی طرح ایک اور جھٹکا دیا اور اس کی شلوار گھٹنوں سے نیچے تک اتار دی ۔۔۔۔ نوشابہ نے بھی زور لگانا شروع کر دیا لیکن کمزوری کی وجہ سے اس سے زور نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ مسلسل میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ مگر میں نے جان بوجھ کر اپنا لہجہ سخت کیا ہوا تھا ۔۔۔۔

                      نوشابہ : ۔ یہ کیا بدتمیزی ہے ؟؟؟

                      میں : ۔ کوئی بدتمیزی نہیں ہے ۔۔۔۔ تم اپنے آپ کو میری بیوی کہتی ہو نا ؟ تو میں جب چاہوں اپنی بیوی کی پھدی میں اپنا لنڈ ڈال سکتا ہوں ۔۔۔۔

                      نوشابہ : ۔ یہ کیا ہو گیا ہے تم کو ، انسان بنو ۔۔۔۔

                      میں : ۔ آج تمھیں دکھاتا ہوں کہ مجھ میں کتنی ہمت ہے ۔۔۔۔

                      یہ کہتے ہوئے میں نے نوشابہ کی قمیض کو دونوں ہاتھوں سے گلے کے پاس سے پکڑا اور زور لگانے لگا ، نوشابہ کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کیا کرنے لگا ہوں تو اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لیا ۔۔۔

                      دوستو !!! یقین کرو کہ میں نے اس وقت اپنا پورا زور لگا لیا لیکن مجھ سے نوشابہ کی قمیض نہیں پھٹی ۔۔۔۔

                      نوشابہ دونوں ہاتھوں سے اپنی قمیض چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی ، اس کی آنکھوں میں اب بھی بے یقینی تھی ، وہ بہت غور سے میری آنکھوں اور چہرے کو دیکھ رہی تھی ، مگر میں نے اپنے چہرے کو بالکل سپاٹ رکھا ہوا تھا ، جب میں نے دیکھا کہ ایسے زور لگانے سے کام نہیں بن رہا تو میں نے اس کی قمیض کو جھٹکے دینے شروع کر دیے ، تیسرے ہی جھٹکے پر چرررررررر کی آواز ہوئی اور اس کی قمیض گلے سے لے کر پیٹ تک درمیان سے پھٹتی چلی گئی ۔۔۔۔

                      جیسے ہی نوشابہ کی قمیض پھٹی تو اس نے مزاحمت بالکل ہی چھوڑ دی ، اس کے ہاتھ بالکل ہی ڈھیلے ہو گئے ، اور اس نے اپنا پورا جسم بھی ڈھیلا چھوڑ دیا ۔۔۔۔

                      میں حیران ہوا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے ، میں نے نوشابہ کی آنکھوں میں دیکھا ، اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔

                      اس نے ایک پل کے لیے میری آنکھوں میں دیکھا اور اپنا منہ دوسری طرف گھما لیا ۔۔۔۔ نوشابہ کے آنسو اور اس کا ردعمل دیکھ کر میں تڑپ کر رہ گیا ۔۔۔۔ مجھے احساس ہوا کہ مذاق ہی مذاق میں میں نے کچھ زیادہ ہی کر دیا ہے ۔۔۔۔

                      مجھے افسوس ہونے لگا کہ مجھے نوشابہ کے جذبات کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے تھا ۔۔۔۔

                      وہ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے اور میں ہر بار اسے تکلیف پہنچاتا ہوں ۔۔۔۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور نوشابہ کے چہرے کو اپنی طرف گھمایا ۔۔۔۔ اس نے دوبارہ سے اپنا منہ دوسری طرف گھما لیا ۔۔۔۔ میں نے ایک بار پھر اس کا منہ اپنی طرف گھمایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

                      میں : ۔ ادھر میری طرف دیکھو ۔۔۔۔

                      پر نوشابہ نے نا تو میری طرف دیکھا اور نہ ہی کوئی جواب دیا ۔۔۔۔۔

                      میں : ۔ نوشابہ ! تم کو لگتا ہے کہ میں تمھارے ساتھ ایسا کروں گا ؟؟؟؟

                      میری بات سن کر نوشابہ نے بس ایک بار میری طرف نظریں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔ پر جواب پھر بھی نہ دیا ۔۔۔

                      میں : ۔ بتاؤ نا ؟؟؟؟

                      نوشابہ : ۔ کیا بتاؤں ؟ دیکھو میری حالت ، تم نے میرے کپڑے پھاڑ دیے ہیں ، اور اب مجھ سے پوچھ رہے ہو ۔۔۔

                      میں : ۔ کپڑوں کو چھوڑو ! اپنے دل کی بتاؤ ، تمھارا دل کیا کہتا ہے ؟ کیا میں تمھارے ساتھ ایسا کر سکتا ہوں ؟؟؟؟

                      اس سے پہلے کہ نوشابہ کوئی جواب دیتی باہر سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی ، میری تو جیسے جان ہی نکل گئی ، نوشابہ کو تنگ کرنے کے چکر میں دروازہ بند کرنا تو بھول ہی گیا تھا ۔۔

                      میں جلدی سے اٹھا اور نوشابہ سے کہا کپڑے پہنو ، نوشابہ بھی سب کچھ بھول کر جلدی سے اٹھی اور الماری کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

                      میں تیزی سے باہر نکلا تو دیکھا مشال اندر آرہی تھی ، میں نے مشال کو وہیں روک کیا اور کہا کہ ابھی تم ادھر ہی جاو اور کچھ دیر بعد آنا ۔۔۔۔

                      مشال : ۔ (ذرا شوخی سے) کیوں جی ۔

                      مجھے شرم بھی بہت آرہی تھی رات کو جو کچھ بھی ہوا میں نے مشال کو ڈائریکٹ کچھ بھی نہیں کہا تھا ۔۔۔ اس کو بھی پتہ تھا کہ میں ایسا کیوں بول رہا ہوں ، اسی وجہ سے مجھے جھجک بھی ہو رہی تھی ، اور میں اس وقت تھوڑا جھنجھلایا ہوا بھی تھا ، اور مشال مستی کے موڈ میں تھی ، وہ مجھے تنگ کرنا چاہتی تھی مگر مجھے اس وقت اس پر غصہ آرہا تھا ۔۔۔۔

                      میں : ۔ (ذرا غصہ دکھاتے ہوئے) اب دفعہ بھی ہو جاو ، کہا ہے نا کچھ دیر بعد آجانا ۔۔۔

                      مشال : ۔ ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہو ۔۔۔۔

                      یہ کہتے ہوئے وہ باہر کی طرف چلی گئی ، اس کا موڈ تھا مستی کرنے کا مگر میری ڈانٹ کی وجہ سے وہ بھی ناراض ہو گئی ۔۔۔۔ اور پتہ نہیں کیا بڑبڑاتی جا رہی تھی ۔۔۔

                      میں واپس نوشابہ کے پاس آگیا جو دوسرے کپڑے پہن چکی تھی ۔۔۔ یقیناً اس نے ہماری باتیں سن لیں تھیں ۔۔۔۔

                      میں کمرے میں داخل ہوا تو اس نے ایک بار نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا اور کچھ کہے بنا پھر سے نظریں جھکا لیں ۔۔۔ اس کا کچھ نا کہنا ہی مجھ سے بہت کچھ کہہ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کے چہرے پر اداسی اور ناراضگی تھی ۔۔۔۔

                      جاری ہے ۔
                      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X