لبنیٰ باجی کی نظر مجھ پر پڑی تو انھوں نے مسکرا کر مجھے اشارہ کیا اور میں اٹھ کر ان کی چھت کی سائیڈ پر چلا گیا ، باجی مجھ سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی ۔ ان کے گھر والوں کی وجہ سے اب ایسی ویسی بات تو ہو نہیں سکتی تھیں ، کچھ دیر لبنیٰ باجی سے بات کرنے کے بعد میں اپنی چھت پر ہی بیٹھ گیا اور باجی بھی جا کر اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ، باجی کے چہرے کا رخ میری طرف ہی تھا ، میں اُن کو بار بار دیکھ رہا تھا ، کچھ دیر ایسے ہی بیٹھنے کے بعد مجھے ایک شرارت سوجھی اور میں نے باجی لبنیٰ کو ایک میسج لکھ بھیجا ۔
میں : ۔ لبنیٰ باجی !!!!!!
لبنیٰ باجی : ۔ ہاں جی !!!!!
میں : ۔ ایک بات مانو گی میری ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ کونسی بات ؟؟؟؟
میں : ۔ پہلے آپ ہاں بولو پھر بتاتا ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ چلو تم کہہ رہے ہو تو مان لیتی ہوں ، تم بھی کیا یاد کرو گے ، کس باجی سے پالا پڑا تھا ، اب بتاو کیا بات ہے ؟؟؟؟؟؟
میں : ۔ پلیززززز ، مجھے آپ کے دودھ دیکھنے ہیں ، ابھی ۔۔۔
لبنیٰ باجی : ۔ اوئے تم پاگل تو نہیں ہو ؟ سب ساتھ ہی بیٹھے ہیں ، اور تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں دکھا دوں گی ؟؟؟
میں : ۔ لبنیٰ باجی یہ تو نا انصافی ہوئی نا ، میں نے بھی تو تمھیں اپنا لن دکھایا تھا نا ، وہ بھی ننگا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ تو ؟؟؟؟؟
میں : ۔ تو آپ بھی اپنے ممے دکھاو نا ، ننگے نہیں ، بس دوپٹہ اتار کر کھڑی ہو جاو تھوڑی دیر کے لیے پلیززززززز ۔
لبنیٰ باجی : ۔ چل بھاگ ، کوئی نہیں دکھانے میں نے ۔
میں : ۔ باجی پلیززززز ۔
لبنیٰ باجی : ۔ بڑے کمینے ہو تم ، مروانا چاہتے ہو مجھے ؟؟؟
میں : ۔ آپ کو کون مار سکتا ہے ، آپ کو کسی نے کچھ نہیں کہنا مجھے پتہ ہے۔
لبنیٰ باجی : ۔اتنی دور سے کیا نظر آئے گا جو اتنی ضد کر رہے ہو ؟؟؟
میں : ۔ تو پاس آکر دکھا دو نا ، اپنی لبنیٰ باجی کے ممے دیکھ کر بہت مزہ آئے گا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، خوابوں میں ہی دیکھو گے اب تم ۔
میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے خوابوں میں بھی دیکھ لوں گا ، ابھی تو دوپٹہ سائیڈ میں کرو نا ،پلیزززز ۔
لبنیٰ باجی : ۔ چلو ٹھیک ہے کیا یاد کرو گے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسی باجی ہر کسی کو نہیں ملتی ۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے ممے بھی دکھائے اور وہ بھی گھر والوں کے سامنے ۔
کپڑوں کے اوپر سے لبنیٰ باجی کے ممے میں نے ہزار بار دیکھے ہوں گے ، مگر میں اس فیلنگ کے مزے اٹھانا چاہتا تھا کہ لبنیٰ باجی خود مجھے اپنے ممے دکھا رہی ہے ۔ میرے مزے کے لیے یہ احساس ہی بہت تھا ورنہ اتنی دور سے ممے تو کیا مموں کا ابھار بھی ٹھیک سے نظر نہیں آنا تھا ۔
میں : ۔ بہت بہت شکریہ ، میری پیاری باجی ۔۔۔۔
باجی نے اِدھر اُدھر دیکھا ، سب گھر والے اپنی باتوں میں مصروف تھے ، پھر باجی نے بیٹھے بیٹھے اپنا دوپٹہ اتارا اور چپکے سے نیچے پھینک دیا ۔ لبنیٰ باجی کے بس اتنا ہی کرنے سے میرا لن جوش میں فل گرم ہو چکا تھا ۔۔۔۔ میں اب سوچتا ہوں وہ بھی کیا دن تھے کہ اتنے سے کام سے ہی لن فل تن جاتا تھا ، اور اب لڑکی کو فل ننگا بھی دیکھ لوں تو جب تک اس کے چودنے کا پروگرام نہ ہو اس وقت تک کھڑا ہی نہیں ہوتا ، پر اُس وقت تو ذرا ذرا سی بات پر کھڑا ہو جاتا تھا ۔ خیر ، باجی دوپٹہ نیچے پھینکنے کے بعد اوپر ہوئیں اور پھر جھک کر دوپٹہ اٹھا لیا اور میری طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی ، باجی نے سینہ باہر کو نکالا ہوا تھا جس سے اس کے بڑے بڑے ممے اتنی دور سے بھی قمیض کے اندر سے ہی ظاہر ہو رہے تھے ، کچھ دیر ایسے ہی کھڑی رہنے کے بعد لبنیٰ باجی نے دوپٹہ گلے میں ڈالا اور نیچے چلی گئی ۔ میرے لن کا برا حال ہو چکا تھا ۔ میں نے پھر سے لبنیٰ باجی کو میسج کیا ۔
میں : ۔ شکریہ لبنیٰ باجی ! مجھے اپنے ممے دکھانے کے لیے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ، باجیوں کے ممے تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کے بھائی مزہ لے سکیں ۔
مجھے باجی کی بات سن کر جھٹکا سا لگا ، میں نے سوچا آج کل ان لڑکیوں کو ہو کیا گیا ہے ، پہلے نوشابہ ، اور ماہ رخ بھی ایسی ہی باتیں کر رہی تھیں اور اب لبنیٰ باجی بھی شروع ہو گئیں ، پھر میں نے سوچا کہیں ایسا تو نہیں کے باجی کا بھائی اس کے ممے تاڑتا ہو اور باجی نے یہ بات نوٹ کر لی ہو ، شاید اسی لیے وہ یہ بات کہہ رہی ہیں ، لیکن ایسا لگتا تو نہیں تو میں نے باجی سے پوچھا ۔
میں : ۔ کیا مطلب ؟ کیا آپکا بھائی بھی آپ کے ممے دیکھ کر مزے لیتا ہے ؟
لبنیٰ باجی : ۔ کمینے ! میں تمھاری بات کر رہی ہوں ، تم بھی تو مجھے باجی ہی کہتے ہو ۔
میں : ۔ اچھا اچھا ! میں تو کہیں اور ہی پہنچ گیا تھا ۔
لبنیٰ باجی: ۔ تم تو ہو ہی کمینے ، کہیں بھی پہنچ جاتے ہو ۔
میں : ۔ آپ کا ہی شاگرد ہوں ، جب بھی بات ہوگی آپ کا بھی نام آئے گا ، اس لیے بار بار مجھے کمینہ نہ کہا کرو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیونکہ میں تم سے بڑی ہوں ، اس لیے بڑی کمینی ہوئی ، تو پھر میرا نام آنے سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے ۔
میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اب یہ تو بتاو آپ مجھے اپنے ممے ننگے کرکے کب دکھاو گی ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ میں تمھیں کیوں دکھاوں اپنے ممے ننگے کرکے ، وہ تو صرف میرے شوہر کے لیے ہیں ۔
میں : ۔ تو پھر آپ کچھ دیر کے لیے یہ سمجھ لینا کہ میں آپ کا شوہر ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ جی واہ کیا خوب، تم کیا چاہتے ہو اب میں اپنے بھائی کو اپنا شوہر سمجھ لوں ۔
میں : ۔ اچھا جی ! بھائی کا لن ننگا کروا کر دیکھ سکتی ہو مگر بھائی کو اپنے ممے ننگے کر کے نہیں دکھا سکتی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اچھا چلو ٹھیک ہے ، کبھی موڈ اچھا ہوا تو دکھا دوں گی ۔۔۔۔۔ وہ تم نے آج مجھے ماہ رخ کی گانڈ مارنے والی سٹوری بھی سنانی تھی ؟
میں : ۔ ہاں وہ رات کو سناوں گا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ٹھیک ہے میں فارغ ہو کر تمھیں میسج کرتی ہوں ۔
لبنیٰ باجی سے بات کرنے میں بہت مزہ آرہا تھا ، دل تو کر رہا تھا کہ ان سے باتیں کرتا ہی جاؤں ، مگر انھیں گھر کے کام بھی کرنے تھے اس لیے میں نے زور نہیں دیا ۔ کچھ دیر ایسے ہی چھت پر بیٹھا رہا ، جب لن پرسکون ہو گیا تو نیچے آگیا اور کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ٹی وی دیکھنے لگا ، ماہ رخ اور نوشابہ سے تو روز ہی بات ہوتی تھی لیکن سائمہ کے پاس موبائل نہیں تھا اس لیے اس سے بات نہیں ہوتی تھی ۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے میرا دل کیا سائمہ سے بات کرنے کو تو میں نے نوشابہ کو میسج کیا ۔
میں : ۔ نوشابہ ؟؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ جی میرے نخرے والے شوہر ، کیا رات ناراض ہوگئے تھے ؟؟
میں : ۔ نہیں ، ایسی تو کوئی بات نہیں ، بس نیند بہت آرہی تھی اس لیے زیادہ بات نہیں کر سکا ۔ ممانی کہاں ہیں ؟؟؟
نوشابہ : ۔ وہ تو تایا ابو کے گھر گئی ہیں ۔
میں : ۔ اور سائمہ کہاں ہے ؟؟؟
نوشابہ : ۔ یہ میرے ساتھ ہی بیٹھی ہے ۔
میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے میں فون کرتا ہوں ، مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔
نوشابہ : ۔ کیا بات کرنی ہے تم نے اس سے ؟؟؟
میں : ۔ بعد میں بتادوں گا ۔
نوشابہ : ۔ کوئی بات وات نہیں کرانی میں نے تمھاری اس سے ۔
میں : ۔ کیوں بھئی ! وہ میری کزن ہے ، میں بات کر سکتا ہوں اس سے ۔
نوشابہ : ۔ نہیں ! تم میری ایک اور بہن کو بھی پھنسا لو گے ۔
میں : ۔ تو اچھا ہے نا ، میں ہی پھنسا رہا ہوں ، اور اگر کہیں باہر پھنس گئی تو ؟؟
نوشابہ : ۔ آہو تم نے تو ٹھیکہ لے رکھا ہے نا ہم سب بہنوں کو پھنسا کر چودنے کا ۔
میں : ۔ ہاں ! اب تم سب ہو ہی اتنی خوبصورت ، کہیں اور لن گھسانے کو دل ہی نہیں کرتا ۔ اچھا یار میں فون کرنے لگا ہوں ، ایسا نہ ہو کہ ممانی آجائیں ، پھر سائمہ کو ان کے سامنے بات کرنے میں مشکل ہوگی ۔
نوشابہ : ۔ اوکے جناب ! کریں کال ، کراتی ہوں بات ۔
نوشابہ کا جواب ملتے ہی میں نے کال ملا دی کچھ دیر بعد مجھے آواز سنائی دی وہ نوشابہ کی ہی تھی ۔
نوشابہ : ۔ ہیلو ۔۔۔۔۔۔ میرے شہزادے ۔
میں : ۔ شہزادے کو ابھی رہنے دو اور سائمہ کو فون دو ۔
نوشابہ : ۔ اچھا ! دیتی ہوں ، مجھ سے تو بات کر لو پہلے ۔
میں : ۔ تم سے تو روز ہی کرتا ہوں ۔
نوشابہ : ۔ فون پر تو نہیں نا کرتے روز ۔
میں : ۔ اس میں کیا ہے آگے سے فون پر کر لیا کروں گا ۔۔۔۔۔۔ مسئلہ تمھیں ہوتا ہے مجھے تو نہیں ۔
نوشابہ : ۔ میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی ، ابھی بلاتی ہو سائمہ کو ۔
اس کے بعد نوشابہ نے سائمہ کو آواز دی ، اور اس کے آنے تک مجھ سے پکا والا وعدہ لیا کہ میں سائمہ کے ساتھ جو بھی بات کروں گا اسے ایک ایک لفظ بتاوں گا پھر اس نے فون سائمہ کو دے دیا ۔
سائمہ : ۔ جی کزن بھائی ؟؟؟
میں : ۔ پیاری کزن ، کیسی ہو تم ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں ، آپ کیسے ہیں ؟؟؟
میں : ۔ بالکل ٹھیک ! تم تو بھول ہی گئی ہو مجھے ۔
سائمہ : ۔ بھولی میں ہوں یا آپ ؟ میرے پاس تو فون بھی نہیں ہے ، اور آپ اب ہمارے گھر آتے ہی نہیں ۔
میں : ۔ اب روز روز آنا بھی تو اچھا نہیں ہے نا ۔
سائمہ : ۔ کیوں جی ! آپکے ماموں کا گھر ہے ، جب مرضی آجاو ، کسی کو کیا تکلیف ہے آپکے آنے سے ؟
میں : ۔ اچھا جی ! تو میں کیا لینے آؤں وہاں ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ یہاں سے تو جو چاہو گے وہ مل جائے گا ۔
میں : ۔ جو مجھے چاہیے ، وہ پتہ نہیں ملے گا یا نہیں ۔
سائمہ : ۔ کیا چاہیے آپ کو ، مانگ کر تو دیکھو ۔
میں : ۔ اب اگر اپنوں سے بھی مانگ کر لینا ہے تو بندہ باہر سے ہی نہ لے لے ۔
سائمہ : ۔ آپ بتاو گے تو ہمیں پتہ چلے گا نا ، کہ آپ کو کیا چاہیے ؟؟
میں : ۔ تم کو سچی میں نہیں پتہ کہ مجھے کیا چاہیے ۔
میر باتیں سائمہ کو کنفیوژ کر رہی تھیں اور اب اسے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا ، اس کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے ۔۔۔ میں نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا ۔
میں : ۔ بتاؤ نا ، تمھیں سچ میں نہیں پتہ ؟
سائمہ : ۔ نہیں نا ! مجھے کیسے پتہ ہوگا ؟ جب تک آپ بتائیں گے نہیں کہ آپکو کیا چاہیے ، آپ مجھ سے جو مانگو گے میں دے دوں گی ۔
میں : ۔ کچھ بھی ؟ جو بھی میں کہوں گا دے دو گی ؟؟
سائمہ : ۔ ہاں ! دے دوں گی ۔
میں : ۔ دیکھ لو کہنا آسان ہوتا ہے ، کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
سائمہ : ۔ آپ کہہ کر تو دیکھو ۔
میں : ۔ چلو کبھی ملے تو کہہ کر بھی دیکھ لیں گے ۔
جاری ہے۔
میں : ۔ لبنیٰ باجی !!!!!!
لبنیٰ باجی : ۔ ہاں جی !!!!!
میں : ۔ ایک بات مانو گی میری ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ کونسی بات ؟؟؟؟
میں : ۔ پہلے آپ ہاں بولو پھر بتاتا ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ چلو تم کہہ رہے ہو تو مان لیتی ہوں ، تم بھی کیا یاد کرو گے ، کس باجی سے پالا پڑا تھا ، اب بتاو کیا بات ہے ؟؟؟؟؟؟
میں : ۔ پلیززززز ، مجھے آپ کے دودھ دیکھنے ہیں ، ابھی ۔۔۔
لبنیٰ باجی : ۔ اوئے تم پاگل تو نہیں ہو ؟ سب ساتھ ہی بیٹھے ہیں ، اور تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں دکھا دوں گی ؟؟؟
میں : ۔ لبنیٰ باجی یہ تو نا انصافی ہوئی نا ، میں نے بھی تو تمھیں اپنا لن دکھایا تھا نا ، وہ بھی ننگا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ تو ؟؟؟؟؟
میں : ۔ تو آپ بھی اپنے ممے دکھاو نا ، ننگے نہیں ، بس دوپٹہ اتار کر کھڑی ہو جاو تھوڑی دیر کے لیے پلیززززززز ۔
لبنیٰ باجی : ۔ چل بھاگ ، کوئی نہیں دکھانے میں نے ۔
میں : ۔ باجی پلیززززز ۔
لبنیٰ باجی : ۔ بڑے کمینے ہو تم ، مروانا چاہتے ہو مجھے ؟؟؟
میں : ۔ آپ کو کون مار سکتا ہے ، آپ کو کسی نے کچھ نہیں کہنا مجھے پتہ ہے۔
لبنیٰ باجی : ۔اتنی دور سے کیا نظر آئے گا جو اتنی ضد کر رہے ہو ؟؟؟
میں : ۔ تو پاس آکر دکھا دو نا ، اپنی لبنیٰ باجی کے ممے دیکھ کر بہت مزہ آئے گا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، خوابوں میں ہی دیکھو گے اب تم ۔
میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے خوابوں میں بھی دیکھ لوں گا ، ابھی تو دوپٹہ سائیڈ میں کرو نا ،پلیزززز ۔
لبنیٰ باجی : ۔ چلو ٹھیک ہے کیا یاد کرو گے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسی باجی ہر کسی کو نہیں ملتی ۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے ممے بھی دکھائے اور وہ بھی گھر والوں کے سامنے ۔
کپڑوں کے اوپر سے لبنیٰ باجی کے ممے میں نے ہزار بار دیکھے ہوں گے ، مگر میں اس فیلنگ کے مزے اٹھانا چاہتا تھا کہ لبنیٰ باجی خود مجھے اپنے ممے دکھا رہی ہے ۔ میرے مزے کے لیے یہ احساس ہی بہت تھا ورنہ اتنی دور سے ممے تو کیا مموں کا ابھار بھی ٹھیک سے نظر نہیں آنا تھا ۔
میں : ۔ بہت بہت شکریہ ، میری پیاری باجی ۔۔۔۔
باجی نے اِدھر اُدھر دیکھا ، سب گھر والے اپنی باتوں میں مصروف تھے ، پھر باجی نے بیٹھے بیٹھے اپنا دوپٹہ اتارا اور چپکے سے نیچے پھینک دیا ۔ لبنیٰ باجی کے بس اتنا ہی کرنے سے میرا لن جوش میں فل گرم ہو چکا تھا ۔۔۔۔ میں اب سوچتا ہوں وہ بھی کیا دن تھے کہ اتنے سے کام سے ہی لن فل تن جاتا تھا ، اور اب لڑکی کو فل ننگا بھی دیکھ لوں تو جب تک اس کے چودنے کا پروگرام نہ ہو اس وقت تک کھڑا ہی نہیں ہوتا ، پر اُس وقت تو ذرا ذرا سی بات پر کھڑا ہو جاتا تھا ۔ خیر ، باجی دوپٹہ نیچے پھینکنے کے بعد اوپر ہوئیں اور پھر جھک کر دوپٹہ اٹھا لیا اور میری طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی ، باجی نے سینہ باہر کو نکالا ہوا تھا جس سے اس کے بڑے بڑے ممے اتنی دور سے بھی قمیض کے اندر سے ہی ظاہر ہو رہے تھے ، کچھ دیر ایسے ہی کھڑی رہنے کے بعد لبنیٰ باجی نے دوپٹہ گلے میں ڈالا اور نیچے چلی گئی ۔ میرے لن کا برا حال ہو چکا تھا ۔ میں نے پھر سے لبنیٰ باجی کو میسج کیا ۔
میں : ۔ شکریہ لبنیٰ باجی ! مجھے اپنے ممے دکھانے کے لیے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ، باجیوں کے ممے تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کے بھائی مزہ لے سکیں ۔
مجھے باجی کی بات سن کر جھٹکا سا لگا ، میں نے سوچا آج کل ان لڑکیوں کو ہو کیا گیا ہے ، پہلے نوشابہ ، اور ماہ رخ بھی ایسی ہی باتیں کر رہی تھیں اور اب لبنیٰ باجی بھی شروع ہو گئیں ، پھر میں نے سوچا کہیں ایسا تو نہیں کے باجی کا بھائی اس کے ممے تاڑتا ہو اور باجی نے یہ بات نوٹ کر لی ہو ، شاید اسی لیے وہ یہ بات کہہ رہی ہیں ، لیکن ایسا لگتا تو نہیں تو میں نے باجی سے پوچھا ۔
میں : ۔ کیا مطلب ؟ کیا آپکا بھائی بھی آپ کے ممے دیکھ کر مزے لیتا ہے ؟
لبنیٰ باجی : ۔ کمینے ! میں تمھاری بات کر رہی ہوں ، تم بھی تو مجھے باجی ہی کہتے ہو ۔
میں : ۔ اچھا اچھا ! میں تو کہیں اور ہی پہنچ گیا تھا ۔
لبنیٰ باجی: ۔ تم تو ہو ہی کمینے ، کہیں بھی پہنچ جاتے ہو ۔
میں : ۔ آپ کا ہی شاگرد ہوں ، جب بھی بات ہوگی آپ کا بھی نام آئے گا ، اس لیے بار بار مجھے کمینہ نہ کہا کرو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیونکہ میں تم سے بڑی ہوں ، اس لیے بڑی کمینی ہوئی ، تو پھر میرا نام آنے سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے ۔
میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ اب یہ تو بتاو آپ مجھے اپنے ممے ننگے کرکے کب دکھاو گی ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ میں تمھیں کیوں دکھاوں اپنے ممے ننگے کرکے ، وہ تو صرف میرے شوہر کے لیے ہیں ۔
میں : ۔ تو پھر آپ کچھ دیر کے لیے یہ سمجھ لینا کہ میں آپ کا شوہر ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ جی واہ کیا خوب، تم کیا چاہتے ہو اب میں اپنے بھائی کو اپنا شوہر سمجھ لوں ۔
میں : ۔ اچھا جی ! بھائی کا لن ننگا کروا کر دیکھ سکتی ہو مگر بھائی کو اپنے ممے ننگے کر کے نہیں دکھا سکتی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اچھا چلو ٹھیک ہے ، کبھی موڈ اچھا ہوا تو دکھا دوں گی ۔۔۔۔۔ وہ تم نے آج مجھے ماہ رخ کی گانڈ مارنے والی سٹوری بھی سنانی تھی ؟
میں : ۔ ہاں وہ رات کو سناوں گا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ٹھیک ہے میں فارغ ہو کر تمھیں میسج کرتی ہوں ۔
لبنیٰ باجی سے بات کرنے میں بہت مزہ آرہا تھا ، دل تو کر رہا تھا کہ ان سے باتیں کرتا ہی جاؤں ، مگر انھیں گھر کے کام بھی کرنے تھے اس لیے میں نے زور نہیں دیا ۔ کچھ دیر ایسے ہی چھت پر بیٹھا رہا ، جب لن پرسکون ہو گیا تو نیچے آگیا اور کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ٹی وی دیکھنے لگا ، ماہ رخ اور نوشابہ سے تو روز ہی بات ہوتی تھی لیکن سائمہ کے پاس موبائل نہیں تھا اس لیے اس سے بات نہیں ہوتی تھی ۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے میرا دل کیا سائمہ سے بات کرنے کو تو میں نے نوشابہ کو میسج کیا ۔
میں : ۔ نوشابہ ؟؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ جی میرے نخرے والے شوہر ، کیا رات ناراض ہوگئے تھے ؟؟
میں : ۔ نہیں ، ایسی تو کوئی بات نہیں ، بس نیند بہت آرہی تھی اس لیے زیادہ بات نہیں کر سکا ۔ ممانی کہاں ہیں ؟؟؟
نوشابہ : ۔ وہ تو تایا ابو کے گھر گئی ہیں ۔
میں : ۔ اور سائمہ کہاں ہے ؟؟؟
نوشابہ : ۔ یہ میرے ساتھ ہی بیٹھی ہے ۔
میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے میں فون کرتا ہوں ، مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔
نوشابہ : ۔ کیا بات کرنی ہے تم نے اس سے ؟؟؟
میں : ۔ بعد میں بتادوں گا ۔
نوشابہ : ۔ کوئی بات وات نہیں کرانی میں نے تمھاری اس سے ۔
میں : ۔ کیوں بھئی ! وہ میری کزن ہے ، میں بات کر سکتا ہوں اس سے ۔
نوشابہ : ۔ نہیں ! تم میری ایک اور بہن کو بھی پھنسا لو گے ۔
میں : ۔ تو اچھا ہے نا ، میں ہی پھنسا رہا ہوں ، اور اگر کہیں باہر پھنس گئی تو ؟؟
نوشابہ : ۔ آہو تم نے تو ٹھیکہ لے رکھا ہے نا ہم سب بہنوں کو پھنسا کر چودنے کا ۔
میں : ۔ ہاں ! اب تم سب ہو ہی اتنی خوبصورت ، کہیں اور لن گھسانے کو دل ہی نہیں کرتا ۔ اچھا یار میں فون کرنے لگا ہوں ، ایسا نہ ہو کہ ممانی آجائیں ، پھر سائمہ کو ان کے سامنے بات کرنے میں مشکل ہوگی ۔
نوشابہ : ۔ اوکے جناب ! کریں کال ، کراتی ہوں بات ۔
نوشابہ کا جواب ملتے ہی میں نے کال ملا دی کچھ دیر بعد مجھے آواز سنائی دی وہ نوشابہ کی ہی تھی ۔
نوشابہ : ۔ ہیلو ۔۔۔۔۔۔ میرے شہزادے ۔
میں : ۔ شہزادے کو ابھی رہنے دو اور سائمہ کو فون دو ۔
نوشابہ : ۔ اچھا ! دیتی ہوں ، مجھ سے تو بات کر لو پہلے ۔
میں : ۔ تم سے تو روز ہی کرتا ہوں ۔
نوشابہ : ۔ فون پر تو نہیں نا کرتے روز ۔
میں : ۔ اس میں کیا ہے آگے سے فون پر کر لیا کروں گا ۔۔۔۔۔۔ مسئلہ تمھیں ہوتا ہے مجھے تو نہیں ۔
نوشابہ : ۔ میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی ، ابھی بلاتی ہو سائمہ کو ۔
اس کے بعد نوشابہ نے سائمہ کو آواز دی ، اور اس کے آنے تک مجھ سے پکا والا وعدہ لیا کہ میں سائمہ کے ساتھ جو بھی بات کروں گا اسے ایک ایک لفظ بتاوں گا پھر اس نے فون سائمہ کو دے دیا ۔
سائمہ : ۔ جی کزن بھائی ؟؟؟
میں : ۔ پیاری کزن ، کیسی ہو تم ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ میں تو بالکل ٹھیک ہوں ، آپ کیسے ہیں ؟؟؟
میں : ۔ بالکل ٹھیک ! تم تو بھول ہی گئی ہو مجھے ۔
سائمہ : ۔ بھولی میں ہوں یا آپ ؟ میرے پاس تو فون بھی نہیں ہے ، اور آپ اب ہمارے گھر آتے ہی نہیں ۔
میں : ۔ اب روز روز آنا بھی تو اچھا نہیں ہے نا ۔
سائمہ : ۔ کیوں جی ! آپکے ماموں کا گھر ہے ، جب مرضی آجاو ، کسی کو کیا تکلیف ہے آپکے آنے سے ؟
میں : ۔ اچھا جی ! تو میں کیا لینے آؤں وہاں ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ یہاں سے تو جو چاہو گے وہ مل جائے گا ۔
میں : ۔ جو مجھے چاہیے ، وہ پتہ نہیں ملے گا یا نہیں ۔
سائمہ : ۔ کیا چاہیے آپ کو ، مانگ کر تو دیکھو ۔
میں : ۔ اب اگر اپنوں سے بھی مانگ کر لینا ہے تو بندہ باہر سے ہی نہ لے لے ۔
سائمہ : ۔ آپ بتاو گے تو ہمیں پتہ چلے گا نا ، کہ آپ کو کیا چاہیے ؟؟
میں : ۔ تم کو سچی میں نہیں پتہ کہ مجھے کیا چاہیے ۔
میر باتیں سائمہ کو کنفیوژ کر رہی تھیں اور اب اسے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا ، اس کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے ۔۔۔ میں نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا ۔
میں : ۔ بتاؤ نا ، تمھیں سچ میں نہیں پتہ ؟
سائمہ : ۔ نہیں نا ! مجھے کیسے پتہ ہوگا ؟ جب تک آپ بتائیں گے نہیں کہ آپکو کیا چاہیے ، آپ مجھ سے جو مانگو گے میں دے دوں گی ۔
میں : ۔ کچھ بھی ؟ جو بھی میں کہوں گا دے دو گی ؟؟
سائمہ : ۔ ہاں ! دے دوں گی ۔
میں : ۔ دیکھ لو کہنا آسان ہوتا ہے ، کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
سائمہ : ۔ آپ کہہ کر تو دیکھو ۔
میں : ۔ چلو کبھی ملے تو کہہ کر بھی دیکھ لیں گے ۔
جاری ہے۔
Comment