میں : ۔ کیوں نہیں مانوں گا ۔۔۔۔ میں اپنی دلربا کی کسی بات سے انکار کر سکتا ہوں کیا ؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ ہاں کسی بات سے منع تو نہیں کر سکتے مگر اپنی دلربا کو چھوڑ ضرور سکتے ہو ۔
میں : ۔ ایسا میں کبھی بھی نہیں کر سکتا ، اوکے ۔۔
نوشابہ : ۔ تم نے چھوڑ دیا تھا مجھے ۔۔۔اور میں یہ کبھی نہیں بھولوں گی ۔
میں : ۔ میں نے تمھیں چھوڑا نہیں تھا ۔۔۔ میں بس تم سے ناراض تھا ۔
نوشابہ : ۔ ناراض تھے تو کم از کم مجھ سے بات تو کرتے ۔۔۔۔ مجھے صفائی کا موقع تو دیتے ۔۔۔۔۔۔ میں نے پتہ نہیں کس کس کے ترلے کیے تم سے بات کرنے کے لیے ۔۔۔ تمھیں پتہ ہے میں کتنا روئی ہوں ۔۔۔۔ اتنا میں کبھی اپنے پاپا کے لیے بھی نہیں روئی جتنا تمھارے لیے روئی ہوں ۔۔۔۔۔۔
میں : ۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے غلط کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا پچھتاوا مجھے ساری زندگی رہے گا ۔۔۔۔۔ تم بس مجھے ایک موقع دے دو ۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں اتنا پیار دوں گا کہ تم یہ بات یاد بھی نہیں کرو گی ۔
نوشابہ : ۔ یہ دن جیسے میں نے گزارے ہیں مجھے ہی پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔ میں ان دنوں کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گی ۔۔۔۔۔ اور اس بات کو بھی کہ تم نے مجھے چھوڑ دیا تھا ۔
میں : ۔ تم کیوں روتی رہی میرے لیے ۔۔۔۔ دفعہ کرتی مجھے ، میں کچھ بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ تم اتنی خوبصورت ہو تمھیں ایک سے بڑھ کر ایک ، ہزاروں مل جاتے۔۔
نوشابہ : ۔ آج تو یہ بکواس کر دی ہے آج کے بعد دوبارہ ایسی بات تمھارے منہ سے نہ سنوں ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں خود کو کچھ کر لوں گی ۔
نوشابہ کی آواز پھر سے رونے والی ہوگئی ۔۔۔۔ مجھے لگا میں نے پھر سے غلطی کر دی ۔۔۔۔۔ میں نے پھر سے نوشابہ کا دل دکھا دیا ہے ۔۔۔۔۔ مجھے خود پر پھر سے غصہ آنے لگا ۔
میں : ۔ اچھا بابا اچھا ! پلیز رونا نہیں ۔۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔۔۔۔ میں پھر کبھی بھی ایسا نہیں کہوں گا ۔
میرے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی نوشابہ رو ہی پڑی ۔۔۔۔۔ میں پھر سے اسے چپ کرانے لگا ۔۔۔۔۔۔ کافی دیر بعد وہ چپ ہوئی تو بولی ۔
نوشابہ : ۔ ارسلان تم نہیں جانتے کہ تم میرے لیے کیا ہو ۔۔۔۔۔ میں نے کبھی کسی اور کے بارے میں سوچا تک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ میں تمھارے بنا جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔
میں : ۔ مجھے بھی بہت دکھ ہے ۔۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم مجھ سے اتنا پیار کرتی ہو ۔۔۔۔۔ میں بھی کتنا پاگل ہوں کہ تمھارے پیار کو سمجھ ہی نہیں پایا اور تمیں اتنا پریشان کیا ۔۔۔۔۔ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا ۔۔۔
نوشابہ : ۔ جو ہونا تھا ہو گیا ہے ۔۔۔ اب تم خود کو تکلیف مت نہ دینا ۔۔۔۔۔ تم میری جان ہو اگر تم کو کچھ ہو گیا تو سکون سے میں بھی نہیں رہوں گی ۔
میں : ۔ تم نے تو معاف کردیا ہے پر پتہ نہیں میں خود کو کبھی معاف کر پاؤں گا یا نہیں ۔۔۔۔۔۔
نوشابہ : ۔ میں نے کہا ہے نا ، اب تم ایسا نہیں سوچو گے ۔۔۔ اوکے ۔۔۔۔۔۔ تم یہ بتاو کیا اتنے دن تمھیں میری یاد نہیں آئی ۔
میں : ۔ یاد تو بہت آتی رہی مگر اپنے غصے اور ضد کی وجہ سے بات نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے لگا تھا کہ تم نے میرا اعتماد توڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔ اب میں نے ماہ رخ کمینی سے کبھی بات نہیں کرنی اس کی وجہ سے میں اپنے پیار کو کھونے لگا تھا ۔
نوشابہ : ۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔ میں نے تمھیں معاف کر دیا ہے نا ۔۔۔ اب تمھیں میری بہن کو معاف کرنا پڑے گا ۔
میں : ۔ لیکن نوشابہ تم نے دیکھا نہیں کہ ماہ رخ کی وجہ سے ہماری زندگی میں کتنا کچھ ہو گیا ہے ۔
نوشابہ : ۔ ہاں میں نے دیکھا ہے پر تم اسے معاف کر دو ۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ ساتھ وہ بھی بہت پریشان تھی ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے پر میری بھی ایک شرط ہے ۔
نوشابہ : ۔ بتاو کیا شرط ہے تمھاری ؟؟؟
میں : ۔ تمھیں میری قسم کھا کر وعدہ کرنا ہوگا کہ کچھ بھی ہو جائے تم میری خاطر کھانا پینا نہیں چھوڑو گی ۔
نوشابہ : ۔ کیا مطلب ؟ تم پھر مجھ سے ناراض ہونا چاہتے ہو ؟؟؟
میں : ۔ نہیں !!!! میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے خود کو کبھی بھی تکلیف نہ دو ، میں اس قابل نہیں ہوں ۔
دوستو ! یہ سچ تھا کہ میں اس وقت خود کو نوشابہ کے قابل نہیں سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور میں اسے دکھ دے رہا تھا ۔۔۔۔اس سے کیا کچھ کروا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت اس کے سامنے خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا تھا ۔
نوشابہ : ۔ تم اپنی بکواس بند ہی رکھو ۔۔ مجھے پتہ ہے تم کس قابل ہو ۔
میں : ۔ سچ میں میں اس قابل نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ میں بہت برا ہوں اور تم بہت اچھی ہو ۔
نوشابہ : ۔ اب میں اتنی بھی اچھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ دیکھنا تو سہی میں کیا کرتی ہوں تمھارے ساتھ ۔
میں : ۔ اچھا جی ! کیا کیا کرو گی میرے ساتھ یہ بھی بتا دو ۔
نوشابہ : ۔ بس دیکھتے جاو تم سے گن گن کر بدلے لوں گی ۔
میں : ۔ بس تم ناراض نہ ہونا باقی جو مرضی کر لینا ۔
نوشابہ : ۔ میں تو ہوں گی ناراض ۔۔۔۔ کر لو جو کرنا ہے ۔
میں نے جھپی ڈالی ہوئی تھی جو باتوں کے دوران ڈھیلی پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔ پھر سے زور سے کس لی ۔۔۔۔ اور نوشابہ کے منہ سے ااااااووؤووی کی آواز نکلی ۔
میں : ۔ اب بولو ہوگی ناراض ؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ ہاں ہاں ہوں گی ۔
میں نے اور زیادہ زور لگایا تو نوشابہ کے منہ سے اور زور کی آواز میں آآآآآآئیییییییی نکل گیا ۔
میں : ۔ اب کہو ۔
نوشابہ : ۔ اچھا بابا اچھا ! نہیں ہوتی ناراض ۔۔۔۔۔۔ مارنا چاہتے ہو کیا مجھے ۔
میں : ۔ گڈ ! اب ناراض ہونے کی بات کبھی بھی نہ کرنا ۔
نوشابہ : ۔ تم مرد ہو نا ۔۔۔۔ زور دکھا لیتے ہو ۔۔۔۔۔ تم جب مجھ سے ناراض ہوئے تھے بتاو اب میں تمھارے ساتھ کیا کروں ؟؟
میں : ۔ تم بھی کر لو جو میں نے کیا ہے میں کونسا منع کروں گا ۔
نوشابہ نے سر ہلایا اور ہنستے ہوئے اپنا پورا زور لگا کر مجھے بھینچ لیا ۔۔۔۔ ایک تو وہ کمزور سی تھی اوپر سے اتنے دنوں سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا مجھ پر کیا خاک اثر ہونا تھا ۔۔۔۔ وہ زور لگاتی رہی اور میں ہنستا رہا ۔۔۔۔ زور لگا لگا کر اس کی سانس پھول گئی جب اس نے دیکھا کہ کچھ نہیں ہو رہا تو اس نے میرے کندھے پر منہ رکھا اور پوری طاقت سے کاٹ لیا ۔۔۔۔۔ اور میرے منہ سے بے اختیار آآآآآئییییییییی امی جی نکل گیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کچھ کرے گی ۔۔۔۔۔۔ نوشابہ نے فل زور لگا کر کاٹا اور پھر زور زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔
میں : ۔ آرام سے ! مروانا ہے کیا ؟؟؟
نوشابہ : ۔ اس سے اچھا کیا ہوگا کہ میں تمھاری بانہوں میں مر جاوں ۔
میں : ۔ زیادہ ڈائیلاگ نا مارو ۔
نوشابہ : ۔ تمھیں میری باتیں ڈائیلاگ لگ رہی ہیں ؟؟؟؟؟
میں : ۔ اور نہیں تو کیا ۔
نوشابہ نے ایک بار پھر سے وہی کام کیا اور اس بار پہلے سے بھی زیادہ زور سے کاٹا ۔۔۔۔۔ اور میری ایک بار پھر سے چینخ نکل گئی ۔
میں : ۔ پاگل ہوگئی ہو کیا ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔ بہت درد ہوتا ہے ۔
نوشابہ : ۔ ذرا پھر سے تو کہو ۔۔۔ میں ڈائیلاگ مار رہی ہوں ۔
میں : ۔ اچھا میڈم جی سوری ۔۔۔۔ ویسے یہ نا انصافی ہے ۔
نوشابہ : ۔ کوئی نا انصافی نہیں ہے ۔ اوکے ۔
اس رات کے بارے میں بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے ۔۔۔۔ لیکن میں آپ لوگوں کو زیادہ بور نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ سب میرے لیے تو یادگار تھا مگر آپ کے لیے بورنگ ہی ہوگا اور میں آپکا ٹائم ویسٹ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔ مختصر یہ کہ صبح تک ہم نے نان سٹاپ باتیں کیں اور ان باتوں کے دوران ہم کئیں بار روئے بھی ۔۔۔۔ پیار کیا ہوتا ہے یہ مجھے اس رات پتہ چلا تھا ۔۔۔۔۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ نوشابہ اس حد تک مجھ سے پیار کرتی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے اسی رات اپنے دل میں یہ عہد کر لیا تھا کہ اب میں نے کسی بھی صورت میں نوشابہ کو دکھ نہیں دینا ۔۔۔۔ میں آئیندہ اس بات کا خیال رکھوں گا کہ اسے میری طرف سے کوئی تکلیف نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ میں نے اس رات نوشابہ کو لبنیٰ باجی اور عروسہ کے بارے میں بھی سب بتا دیا اور لبنیٰ باجی کے پلان کے بارے میں بھی بتا دیا ۔۔۔ پھر نوشابہ سے پوچھا ۔
میں : ۔ اب تم مجھے بتا دو کہ میں کیا کروں ؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ جو تمھارا دل کرتا ہے وہ کرو ۔
میں : ۔ تم نے ابھی تو کہا تھا کہ میں جس کا کہوں گی اسی کے ساتھ کرو گے تو اب بتاو ؟؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا ۔۔۔۔ تمھارا جو دل چاہے ، جس سے چاہے بے فکر ہو کر کرو ۔۔۔۔۔۔ بس مجھ سے کبھی ناراض مت ہونا ۔
میں : ۔تم مجھے اس سب سے منع بھی کر دو تو پھر بھی میں تم سے اب کبھی بھی ناراض نہیں ہونے والا ۔
نوشابہ : ۔ جیسے پہلے چل رہا تھا اب بھی ویسے ہی چلنے دو ۔۔۔۔۔ اس ناراضگی سے بس ہمارا پیار بڑھا ہے اور کسی چیز میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے ۔
میں : ۔ مطلب میں لبنیٰ باجی ، عروسہ ، ماہ رخ ، سائمہ سب کی لے سکتا ہوں ؟
نوشابہ : ۔ ہاں ! پر میری ایک شرط ہے ؟
میں : ۔ کونسی شرط ہے ؟؟؟
نوشابہ : ۔ جس کے ساتھ میں کہوں گی اس کے ساتھ تمھیں ہر حال میں سیکس کرنا ہوگا ۔
نوشابہ کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔ ایسی وہ کون سی لڑکی ہوگی جسے نوشابہ مجھ سے چدوانا چاہتی ہے ۔۔۔۔ ایک بار پھر میرے دماغ میں مشال اور آپی شفق کا نام آیا ۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ نوشابہ اگر مجھے منا بھی لیتی ہے تو ان دونوں کو کیسے منائے گی کیونکہ وہ دونوں بھی تو مجھے اپنا بھائی ہی مانتی ہیں ۔۔۔۔ نوشابہ شاید کسی اور کی مروانا چاہتی ہے ، اپنی کسی سہیلی یا پھر کسی کزن کی ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔
نوشابہ : ۔ اگر تم نے بعد میں منع کر دیا تو ؟؟؟؟؟
تم جانتی ہو کہ میں کسی کی بھی پھدی مارنے سے منع نہیں کر سکتا ۔
نوشابہ : ۔ پر مجھے لگتا ہے کہ تم منع کر دو گے ، اس لیے تم پہلے میرے سر کی قسم کھاو کہ جس لڑکی کا میں کہوں گی تم اس کی پھدی مارو گے ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے میں تمھاری قسم کھاتا ہوں کہ تم جس لڑکی کا بھی کہو گی میں اس کی پھدی ضرور ماروں گا ۔
نوشابہ : ۔ گڈ ! اب اگر تم نے منع کیا نا تو مجھے بھول ہی جانا ۔
میں : ۔ پاگل ہوئی ہو کیا ! میں مر تو سکتا ہوں مگر تمہیں نہیں بھول سکتا ۔۔۔۔ تم جب چاہو جس کو چاہو مجھ سے چدوا سکتی ہو ۔
یہ تھوڑی سی سیکسی باتیں تھیں جو اس رات ہم دونوں کے درمیان ہوئیں ۔۔۔۔ اس کے علاوہ تو ہمارے بیچ سب پیار و محبت کی باتیں ہی ہوتی رہیں ۔۔۔۔ میں نے اس رات نوشابہ کو گلے لگانے اور ایک دو بار چومنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔۔ ایک تو نوشابہ کی طبیعت کا مسئلہ تھا اور دوسرے میں اس کے پیار میں اتنا کھو گیا تھا کہ مجھے کچھ بھی کرنے کا ہوش ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی میرا دل بھی مچلا اس کے ساتھ سیکس کرنے کو ۔۔۔۔۔ ہم دونوں ساری رات ایک دوسرے کے پیار میں کھوئے رہے اور صبح کے قریب میں نوشابہ کے پاس سے اٹھا اور بیٹھک کی طرف چل دیا ، جہاں ماہ رخ اور مشال سوئی ہوئی تھیں ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں پر ایک سرپرائز میرا انتظار کر رہا ہوگا ۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔
نوشابہ : ۔ ہاں کسی بات سے منع تو نہیں کر سکتے مگر اپنی دلربا کو چھوڑ ضرور سکتے ہو ۔
میں : ۔ ایسا میں کبھی بھی نہیں کر سکتا ، اوکے ۔۔
نوشابہ : ۔ تم نے چھوڑ دیا تھا مجھے ۔۔۔اور میں یہ کبھی نہیں بھولوں گی ۔
میں : ۔ میں نے تمھیں چھوڑا نہیں تھا ۔۔۔ میں بس تم سے ناراض تھا ۔
نوشابہ : ۔ ناراض تھے تو کم از کم مجھ سے بات تو کرتے ۔۔۔۔ مجھے صفائی کا موقع تو دیتے ۔۔۔۔۔۔ میں نے پتہ نہیں کس کس کے ترلے کیے تم سے بات کرنے کے لیے ۔۔۔ تمھیں پتہ ہے میں کتنا روئی ہوں ۔۔۔۔ اتنا میں کبھی اپنے پاپا کے لیے بھی نہیں روئی جتنا تمھارے لیے روئی ہوں ۔۔۔۔۔۔
میں : ۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے غلط کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا پچھتاوا مجھے ساری زندگی رہے گا ۔۔۔۔۔ تم بس مجھے ایک موقع دے دو ۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں اتنا پیار دوں گا کہ تم یہ بات یاد بھی نہیں کرو گی ۔
نوشابہ : ۔ یہ دن جیسے میں نے گزارے ہیں مجھے ہی پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔ میں ان دنوں کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گی ۔۔۔۔۔ اور اس بات کو بھی کہ تم نے مجھے چھوڑ دیا تھا ۔
میں : ۔ تم کیوں روتی رہی میرے لیے ۔۔۔۔ دفعہ کرتی مجھے ، میں کچھ بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ تم اتنی خوبصورت ہو تمھیں ایک سے بڑھ کر ایک ، ہزاروں مل جاتے۔۔
نوشابہ : ۔ آج تو یہ بکواس کر دی ہے آج کے بعد دوبارہ ایسی بات تمھارے منہ سے نہ سنوں ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں خود کو کچھ کر لوں گی ۔
نوشابہ کی آواز پھر سے رونے والی ہوگئی ۔۔۔۔ مجھے لگا میں نے پھر سے غلطی کر دی ۔۔۔۔۔ میں نے پھر سے نوشابہ کا دل دکھا دیا ہے ۔۔۔۔۔ مجھے خود پر پھر سے غصہ آنے لگا ۔
میں : ۔ اچھا بابا اچھا ! پلیز رونا نہیں ۔۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔۔۔۔ میں پھر کبھی بھی ایسا نہیں کہوں گا ۔
میرے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی نوشابہ رو ہی پڑی ۔۔۔۔۔ میں پھر سے اسے چپ کرانے لگا ۔۔۔۔۔۔ کافی دیر بعد وہ چپ ہوئی تو بولی ۔
نوشابہ : ۔ ارسلان تم نہیں جانتے کہ تم میرے لیے کیا ہو ۔۔۔۔۔ میں نے کبھی کسی اور کے بارے میں سوچا تک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ میں تمھارے بنا جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔
میں : ۔ مجھے بھی بہت دکھ ہے ۔۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم مجھ سے اتنا پیار کرتی ہو ۔۔۔۔۔ میں بھی کتنا پاگل ہوں کہ تمھارے پیار کو سمجھ ہی نہیں پایا اور تمیں اتنا پریشان کیا ۔۔۔۔۔ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا ۔۔۔
نوشابہ : ۔ جو ہونا تھا ہو گیا ہے ۔۔۔ اب تم خود کو تکلیف مت نہ دینا ۔۔۔۔۔ تم میری جان ہو اگر تم کو کچھ ہو گیا تو سکون سے میں بھی نہیں رہوں گی ۔
میں : ۔ تم نے تو معاف کردیا ہے پر پتہ نہیں میں خود کو کبھی معاف کر پاؤں گا یا نہیں ۔۔۔۔۔۔
نوشابہ : ۔ میں نے کہا ہے نا ، اب تم ایسا نہیں سوچو گے ۔۔۔ اوکے ۔۔۔۔۔۔ تم یہ بتاو کیا اتنے دن تمھیں میری یاد نہیں آئی ۔
میں : ۔ یاد تو بہت آتی رہی مگر اپنے غصے اور ضد کی وجہ سے بات نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے لگا تھا کہ تم نے میرا اعتماد توڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔ اب میں نے ماہ رخ کمینی سے کبھی بات نہیں کرنی اس کی وجہ سے میں اپنے پیار کو کھونے لگا تھا ۔
نوشابہ : ۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔ میں نے تمھیں معاف کر دیا ہے نا ۔۔۔ اب تمھیں میری بہن کو معاف کرنا پڑے گا ۔
میں : ۔ لیکن نوشابہ تم نے دیکھا نہیں کہ ماہ رخ کی وجہ سے ہماری زندگی میں کتنا کچھ ہو گیا ہے ۔
نوشابہ : ۔ ہاں میں نے دیکھا ہے پر تم اسے معاف کر دو ۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ ساتھ وہ بھی بہت پریشان تھی ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے پر میری بھی ایک شرط ہے ۔
نوشابہ : ۔ بتاو کیا شرط ہے تمھاری ؟؟؟
میں : ۔ تمھیں میری قسم کھا کر وعدہ کرنا ہوگا کہ کچھ بھی ہو جائے تم میری خاطر کھانا پینا نہیں چھوڑو گی ۔
نوشابہ : ۔ کیا مطلب ؟ تم پھر مجھ سے ناراض ہونا چاہتے ہو ؟؟؟
میں : ۔ نہیں !!!! میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے خود کو کبھی بھی تکلیف نہ دو ، میں اس قابل نہیں ہوں ۔
دوستو ! یہ سچ تھا کہ میں اس وقت خود کو نوشابہ کے قابل نہیں سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور میں اسے دکھ دے رہا تھا ۔۔۔۔اس سے کیا کچھ کروا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت اس کے سامنے خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا تھا ۔
نوشابہ : ۔ تم اپنی بکواس بند ہی رکھو ۔۔ مجھے پتہ ہے تم کس قابل ہو ۔
میں : ۔ سچ میں میں اس قابل نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ میں بہت برا ہوں اور تم بہت اچھی ہو ۔
نوشابہ : ۔ اب میں اتنی بھی اچھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ دیکھنا تو سہی میں کیا کرتی ہوں تمھارے ساتھ ۔
میں : ۔ اچھا جی ! کیا کیا کرو گی میرے ساتھ یہ بھی بتا دو ۔
نوشابہ : ۔ بس دیکھتے جاو تم سے گن گن کر بدلے لوں گی ۔
میں : ۔ بس تم ناراض نہ ہونا باقی جو مرضی کر لینا ۔
نوشابہ : ۔ میں تو ہوں گی ناراض ۔۔۔۔ کر لو جو کرنا ہے ۔
میں نے جھپی ڈالی ہوئی تھی جو باتوں کے دوران ڈھیلی پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔ پھر سے زور سے کس لی ۔۔۔۔ اور نوشابہ کے منہ سے ااااااووؤووی کی آواز نکلی ۔
میں : ۔ اب بولو ہوگی ناراض ؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ ہاں ہاں ہوں گی ۔
میں نے اور زیادہ زور لگایا تو نوشابہ کے منہ سے اور زور کی آواز میں آآآآآآئیییییییی نکل گیا ۔
میں : ۔ اب کہو ۔
نوشابہ : ۔ اچھا بابا اچھا ! نہیں ہوتی ناراض ۔۔۔۔۔۔ مارنا چاہتے ہو کیا مجھے ۔
میں : ۔ گڈ ! اب ناراض ہونے کی بات کبھی بھی نہ کرنا ۔
نوشابہ : ۔ تم مرد ہو نا ۔۔۔۔ زور دکھا لیتے ہو ۔۔۔۔۔ تم جب مجھ سے ناراض ہوئے تھے بتاو اب میں تمھارے ساتھ کیا کروں ؟؟
میں : ۔ تم بھی کر لو جو میں نے کیا ہے میں کونسا منع کروں گا ۔
نوشابہ نے سر ہلایا اور ہنستے ہوئے اپنا پورا زور لگا کر مجھے بھینچ لیا ۔۔۔۔ ایک تو وہ کمزور سی تھی اوپر سے اتنے دنوں سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا مجھ پر کیا خاک اثر ہونا تھا ۔۔۔۔ وہ زور لگاتی رہی اور میں ہنستا رہا ۔۔۔۔ زور لگا لگا کر اس کی سانس پھول گئی جب اس نے دیکھا کہ کچھ نہیں ہو رہا تو اس نے میرے کندھے پر منہ رکھا اور پوری طاقت سے کاٹ لیا ۔۔۔۔۔ اور میرے منہ سے بے اختیار آآآآآئییییییییی امی جی نکل گیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کچھ کرے گی ۔۔۔۔۔۔ نوشابہ نے فل زور لگا کر کاٹا اور پھر زور زور سے ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔
میں : ۔ آرام سے ! مروانا ہے کیا ؟؟؟
نوشابہ : ۔ اس سے اچھا کیا ہوگا کہ میں تمھاری بانہوں میں مر جاوں ۔
میں : ۔ زیادہ ڈائیلاگ نا مارو ۔
نوشابہ : ۔ تمھیں میری باتیں ڈائیلاگ لگ رہی ہیں ؟؟؟؟؟
میں : ۔ اور نہیں تو کیا ۔
نوشابہ نے ایک بار پھر سے وہی کام کیا اور اس بار پہلے سے بھی زیادہ زور سے کاٹا ۔۔۔۔۔ اور میری ایک بار پھر سے چینخ نکل گئی ۔
میں : ۔ پاگل ہوگئی ہو کیا ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔ بہت درد ہوتا ہے ۔
نوشابہ : ۔ ذرا پھر سے تو کہو ۔۔۔ میں ڈائیلاگ مار رہی ہوں ۔
میں : ۔ اچھا میڈم جی سوری ۔۔۔۔ ویسے یہ نا انصافی ہے ۔
نوشابہ : ۔ کوئی نا انصافی نہیں ہے ۔ اوکے ۔
اس رات کے بارے میں بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے ۔۔۔۔ لیکن میں آپ لوگوں کو زیادہ بور نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ سب میرے لیے تو یادگار تھا مگر آپ کے لیے بورنگ ہی ہوگا اور میں آپکا ٹائم ویسٹ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔ مختصر یہ کہ صبح تک ہم نے نان سٹاپ باتیں کیں اور ان باتوں کے دوران ہم کئیں بار روئے بھی ۔۔۔۔ پیار کیا ہوتا ہے یہ مجھے اس رات پتہ چلا تھا ۔۔۔۔۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ نوشابہ اس حد تک مجھ سے پیار کرتی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے اسی رات اپنے دل میں یہ عہد کر لیا تھا کہ اب میں نے کسی بھی صورت میں نوشابہ کو دکھ نہیں دینا ۔۔۔۔ میں آئیندہ اس بات کا خیال رکھوں گا کہ اسے میری طرف سے کوئی تکلیف نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ میں نے اس رات نوشابہ کو لبنیٰ باجی اور عروسہ کے بارے میں بھی سب بتا دیا اور لبنیٰ باجی کے پلان کے بارے میں بھی بتا دیا ۔۔۔ پھر نوشابہ سے پوچھا ۔
میں : ۔ اب تم مجھے بتا دو کہ میں کیا کروں ؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ جو تمھارا دل کرتا ہے وہ کرو ۔
میں : ۔ تم نے ابھی تو کہا تھا کہ میں جس کا کہوں گی اسی کے ساتھ کرو گے تو اب بتاو ؟؟؟؟؟
نوشابہ : ۔ میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا ۔۔۔۔ تمھارا جو دل چاہے ، جس سے چاہے بے فکر ہو کر کرو ۔۔۔۔۔۔ بس مجھ سے کبھی ناراض مت ہونا ۔
میں : ۔تم مجھے اس سب سے منع بھی کر دو تو پھر بھی میں تم سے اب کبھی بھی ناراض نہیں ہونے والا ۔
نوشابہ : ۔ جیسے پہلے چل رہا تھا اب بھی ویسے ہی چلنے دو ۔۔۔۔۔ اس ناراضگی سے بس ہمارا پیار بڑھا ہے اور کسی چیز میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے ۔
میں : ۔ مطلب میں لبنیٰ باجی ، عروسہ ، ماہ رخ ، سائمہ سب کی لے سکتا ہوں ؟
نوشابہ : ۔ ہاں ! پر میری ایک شرط ہے ؟
میں : ۔ کونسی شرط ہے ؟؟؟
نوشابہ : ۔ جس کے ساتھ میں کہوں گی اس کے ساتھ تمھیں ہر حال میں سیکس کرنا ہوگا ۔
نوشابہ کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔ ایسی وہ کون سی لڑکی ہوگی جسے نوشابہ مجھ سے چدوانا چاہتی ہے ۔۔۔۔ ایک بار پھر میرے دماغ میں مشال اور آپی شفق کا نام آیا ۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ نوشابہ اگر مجھے منا بھی لیتی ہے تو ان دونوں کو کیسے منائے گی کیونکہ وہ دونوں بھی تو مجھے اپنا بھائی ہی مانتی ہیں ۔۔۔۔ نوشابہ شاید کسی اور کی مروانا چاہتی ہے ، اپنی کسی سہیلی یا پھر کسی کزن کی ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔
نوشابہ : ۔ اگر تم نے بعد میں منع کر دیا تو ؟؟؟؟؟
تم جانتی ہو کہ میں کسی کی بھی پھدی مارنے سے منع نہیں کر سکتا ۔
نوشابہ : ۔ پر مجھے لگتا ہے کہ تم منع کر دو گے ، اس لیے تم پہلے میرے سر کی قسم کھاو کہ جس لڑکی کا میں کہوں گی تم اس کی پھدی مارو گے ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے میں تمھاری قسم کھاتا ہوں کہ تم جس لڑکی کا بھی کہو گی میں اس کی پھدی ضرور ماروں گا ۔
نوشابہ : ۔ گڈ ! اب اگر تم نے منع کیا نا تو مجھے بھول ہی جانا ۔
میں : ۔ پاگل ہوئی ہو کیا ! میں مر تو سکتا ہوں مگر تمہیں نہیں بھول سکتا ۔۔۔۔ تم جب چاہو جس کو چاہو مجھ سے چدوا سکتی ہو ۔
یہ تھوڑی سی سیکسی باتیں تھیں جو اس رات ہم دونوں کے درمیان ہوئیں ۔۔۔۔ اس کے علاوہ تو ہمارے بیچ سب پیار و محبت کی باتیں ہی ہوتی رہیں ۔۔۔۔ میں نے اس رات نوشابہ کو گلے لگانے اور ایک دو بار چومنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔۔ ایک تو نوشابہ کی طبیعت کا مسئلہ تھا اور دوسرے میں اس کے پیار میں اتنا کھو گیا تھا کہ مجھے کچھ بھی کرنے کا ہوش ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی میرا دل بھی مچلا اس کے ساتھ سیکس کرنے کو ۔۔۔۔۔ ہم دونوں ساری رات ایک دوسرے کے پیار میں کھوئے رہے اور صبح کے قریب میں نوشابہ کے پاس سے اٹھا اور بیٹھک کی طرف چل دیا ، جہاں ماہ رخ اور مشال سوئی ہوئی تھیں ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں پر ایک سرپرائز میرا انتظار کر رہا ہوگا ۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔
Comment