Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کزن سے کزنوں تک از مرزا اسلم . پارٹ 1

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    نوشابہ : ۔ دیکھو ماہ رخ ، ابھی تم نہیں لے سکو گی ، کوئی جاگ گیا تو کیا ہوگا ، یہ سوچا ہے تم نے ؟ میں وعدہ کرتی ہوں جلدی ہی تمھارے لیے کسی جگہ کا بندوبست کر دوں گی ، پھر جیسے چاہے اندر لے لینا ۔

    ماہ رخ : ۔ نوشابہ پلیز ، اتنی مشکل سے تو یہ موقع ملا ہے ، پھر پتہ نہیں کب ملے لے لینے دو نا ۔

    نوشابہ : ۔ یار یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے اس کام کے لیے ، اور سوچو ! اگر تم کسی طرح اندر لے بھی لیتی ہو تو کھل کر انجوائے نہیں کر سکو گی ، اس لیے میں تو کہتی ہوں آج اوپر اوپر سے مزے لے لو پھر جیسے ہی موقع ملا ، اندر بھی لے لینا ۔

    اس دوران میں نے اپنا لن ایک بار پھر ماہ رخ کی پھدی پر پھیرنا شروع کر دیا ۔

    ماہ رخ : ۔ اچھا ، ٹھیک ہے ، مگر کچھ بھی کرو میری آگ بجھاؤ ، میں جل رہی ہوں ۔ نوشابہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ، اور اس کا مما اپنے منہ میں بھر لیا ، اور چوسنے لگی ، اور ادھر میں اپنا لن اس کی پھدی پر رگڑ رہا تھا ، میں نے ایک بار پھر اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی پھدی پر زور دیا تو ٹوپی پھر سے اندر چلی گئی ، اور ماہ رخ کے منہ سے ہلکی سی آہ نکلی ، کچھ دیر اندر رکھ کر میں نے ٹوپی باہر نکال لی ، اور پھر اندر ڈال دی ، دو تین بار ایسا کرنے سے ٹوپی آرام سے اندر باہر ہونے لگی ، مگر میں خود جان بوجھ کر لن کو اندر نہیں دبا رہا تھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ آگے اس کی سیل ہے ، اور اگر جوش میں زور سے دھکا لگ گیا تو کام خراب ہو جائے گا ۔ ایسے ہی کچھ دیر میں ماہ رخ کی پھدی کے لبوں پر پھیرتا رہا اور ٹوپی اسکی پھدی میں ڈالتا اور نکالتا رہا ، نوشابہ اس کے ممے چوس رہی تھی اور کسنگ بھی کر رہی تھی ، کچھ دیر بعد ہی ماہ رخ کا جسم کھنچنا شروع ہو گیا اور اسکی پھدی پانی چھوڑنے لگی ، ماہ رخ فارغ ہو چکی تھی مگر میں ابھی رہتا تھا ۔ میں کھڑا ہوگیا اور نوشابہ کو اپنی طرف بلا کر کہا ، یہ تو ہوگئی ، اب تم ہی میرا کچھ کرو ۔ یہ سن کر نوشابہ زمین پر بیٹھ گئی اور میرے لن پر تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے مٹھ مارنے لگی ، نوشابہ اب مٹھ مارنے میں ایکسپرٹ ہوتی جا رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر میں میں بھی فارغ ہو گیا ، ہم تینوں ابھی تک ننگے ہی تھے اور ننگے ہی ایک ساتھ لیٹ گئے ، کچھ دیر بعد نارمل ہوئے تو میں بولا ۔ ہاں تو ماہ رخ صاحبہ ، بڑے چیلنج کرتی پھرتی تھیں مجھ کو ، اب پتہ چلا ، کسی مرد کو چیلنج کرنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟

    نوشابہ : ۔ میں نے تو اسے کئی بار سمجھایا تھا کہ اپنی پھدی دیکھ کر بات کرنی چاہیے ۔

    ماہ رخ : ۔ مجھے پتہ تو تھا کہ درد ہوتا ہے ، مگر اندازہ نہیں تھا کہ اتنا ہوتا ہے ۔

    میں : ۔ ابھی تو صرف ٹوپی ہی گئی تھی ، پورا لن تو باقی ہی تھا ۔

    ماہ رخ : ۔ تو ڈال دیتے ، پورا لن ، میں نے کب منع کیا تھا ۔

    نوشابہ : ۔ ٹوپی تو سہہ نہ پائی ، اور مہارانی چلی ہے پورا لن لینے کو ۔

    میں : ۔ اب بھی کوئی چیلنج بچا ہے ، تو بتادو ۔

    ماہ رخ : ۔ نا بابا نا میری توبہ ، اب کوئی چیلنج نہیں ۔

    نوشابہ : ۔ شکر کرو تمھاری پھدی آج پھٹنے سے بچ گئی ۔

    میں : ۔ صرف اسکی پھدی ہی نہیں ، اگر میں سوچے سمجھے بغیر ایک ہی دھکے میں پورا ڈال دیتا ، تو اس نے چینخ چینخ کر سب کو اٹھا دینا تھا ، پھر اس کی پھدی کے ساتھ ہم تینوں کی گانڈ بھی پھٹ جاتی ۔

    اس بات پر ہم تینوں ہی ہنس پڑے ، پھر ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے ، ٹاپک یہی تھا کہ اب ایسا موقع کیسے اویل کیا جائے جہاں صرف ہم تینوں ہی ہوں اور کسی کا بھی خطرہ نہ ہو ۔ یہ اکتوبر کا اینڈ چل رہا تھا ، دسمبر میں میری آپی صباء ( میری بڑی بہن ) کی شادی تھی ۔ تقریبآ دو مہینے باقی تھے اور ہماری امید اب اس شادی سے ہی جڑی ہوئی تھیں ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ شادی پر ہم کوئی نہ کوئی موقع نکال ہی لیں گے ۔ اس وقت تک بس ایسے ہی گزارہ کرنا تھا ، جیسے اب کر رہے تھے ، تقریباً رات تین بجے کے قریب ہم نے کپڑے پہنے دروازہ کھولا اور سو گئے ۔

    صبح میں جب اٹھا تو وہ دونوں اپنے گھر جا چکی تھیں ، میں نے فریش ہونے کے بعد ناشتہ کیا ، اور نوشابہ کے گھر چلا گیا ، اتوار تھا اور چھٹی کی وجہ سے سب بچے گھر پر ہی ہلہ گلہ کر رہے تھے ، نوشابہ اور ماہ رخ گھر کے کاموں میں لگی ہوئیں تھیں ۔ نوشابہ میری طرف دیکھ کر تھوڑا شرما رہی تھی اور ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہی تھی ، جبکہ ماہ رخ پہلے کی طرح ہی بلا جھجک مجھے دیکھ بھی رہی تھی اور شرما بالکل بھی نہیں رہی تھی وہ بالکل نارمل فیل کرا رہی تھی جیسے رات کچھ ہوا ہی نہ ہو ، میں نے انہیں وہیں چھوڑا اور چھت پر چلا گیا جہاں سائمہ بیٹھی سکول کا کام کر رہی تھی ، مجھے دیکھتے ہی وہ عجیب سے انداز میں ہنسنے لگی اور بولی ۔

    سائمہ : ۔ ارے کزن بھائی ، کیسے ہو ؟

    میں : ۔ ٹھیک ہوں ، تم کیا کر رہی ہو ؟

    سائمہ : ۔ کچھ نہیں بس کل ایک ٹیسٹ ہے اسی کی تیاری کر رہی ہوں ۔

    میں : ۔ واہ بھئی ، بڑی پڑھاکو ہو گئی ہو تم تو ۔

    سائمہ : ۔ ہاں نا پڑھنا تو ہے ، ورنہ تمھاری

    میں : ۔ میری کیا ؟؟؟؟

    سائمہ : ۔ کچھ نہیں بس ، یہ بتاؤ موقع ملا ؟؟؟؟؟؟

    میں : ۔ کس چیز کا موقع ؟؟؟؟

    سائمہ : ۔ وہی موقع جس کے لیے رات وہاں سوئے تھے (ہنستے ہوئے)

    میں : ۔ مجھے تو نانی امی نے وہاں سونے کو کہا تھا ، اس لیے میں وہاں سوگیا ، سمجھی تم ۔

    سائمہ : ۔ ہاں سمجھ تو گئی ، ہی ہی ہی ہی ، تمہیں تو دادی امی نے کہا تھا ، پر ان دونوں کو کس نے کہا تھا ؟؟؟

    میں : ۔ مجھے کیا پتہ ، میں تو جلدی سو گیا تھا ، وہ دونوں تو اس وقت ٹی وی دیکھ رہی تھیں ۔

    سائمہ : ۔ مطلب رات کو کچھ بھی نہیں ہوا ۔

    میں : ۔ (مصنوعی غصہ دکھا کر اسے گھورتے ہوئے) کیا ہونا تھا رات کو ہاں ؟

    سائمہ : ۔ ہاہاہاہا ، میں تو بس ایسے ہی لگی ہوئی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ڈھونڈ بھی لو موقع ۔

    میں : ۔ تم کو اس سے کیا ؟؟؟

    سائمہ : ۔ تم کو موقع ملے گا تو میری باری آئے گی نا ۔

    میں : ۔ کیا مطلب ؟ کیا کہنا چاہتی ہو ؟

    سائمہ : ۔ مطلب یہ کہ مجھے بھی تو دینا ہے آپ نے ، اپنا لالیپاپ ۔

    میں : ۔ ہاں تو تمہیں کیا معلوم میں نے کس کو دینا ہے ، ضروری تو نہیں کہ وہ نوشابہ ، یا ماہ رخ ہی ہوں ، کوئی اور بھی تو ہو سکتا ہے ۔

    سائمہ : ۔ اتنی بھی بچی نہیں ہوں اب ، سب جانتی ہوں میں ۔

    میں : ۔ ابھی تک تو بچی ہوئی ہو ، مگر لگتا نہیں کہ زیادہ دیر تک بچی رہو گی ۔۔۔۔۔۔ اور کیا کیا جانتی ہو تم ، ذرا ہم کو بھی تو پتہ چلے ۔

    سائمہ : ۔ سب کچھ ، ہاہاہاہا ۔

    میں : ۔ کیا سب کچھ ، صاف صاف بتاو ؟

    سائمہ : ۔ کچھ بھی نہیں ، میں تو بس مذاق میں کہہ رہی تھی ۔

    سائمہ کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ یہ بہت کچھ جان چکی ہے ، یا پھر اسے صرف شک ہے اور یہ تکے مار رہی ہے ، مگر جو بھی ہو ، مجھے اس سے کوئی پرابلم نہیں تھی ، کیونکہ اس کی باتوں میں غصہ نہیں ، بلکہ مزے لینے کے تاثرات تھے ، وہ اس سچویشن سے لطف لے رہی تھی ، اور میں تو چاہتا بھی یہی تھا کہ یہ بہنیں ایک دوسری پر شک کریں ، جتنا یہ بہنیں ایک دوسری پر شک کریں گی اتنی ہی جلدی پھنس بھی جائیں گی ، اور انھیں شاک بھی نہیں لگے گا ۔ میں کافی دیر سائمہ کے ساتھ باتیں کرتا رہا ، ہم زیادہ تر ذومعانی باتیں ہی کرتے رہے ، کیونکہ میں سائمہ کے ساتھ اتنا فاسٹ نہی جانا چاہتا تھا اس لیے میں نے خود پر کنٹرول ہی رکھا تھا ، پر سائمہ آہستہ آہستہ بیباق ہوتی جا رہی تھی ، یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جس میں کوئی بھی ایسی چھوٹی سی بات جس میں سیکس کا ذرا سا بھی پہلو نکلتا ہو ، وہ کرنے میں بہت مزہ آتا ہے ۔ اور ہم بھی یہی کر رہے تھے ، مجھے پتہ تھا کہ سائمہ ایسی باتیں کر کے مزے لے رہی ہے ، میں نے سوچا لیتی رہو مزہ ، میرا کیا جاتا ہے ، آج باتوں کا مزہ لے گی تو کل آسانی سے لن کا بھی مزہ لے ہی لے گی ۔

    اس کے بعد میں نیچے چلا گیا ، نیچے نوشابہ کھانا بنا رہی تھی ، اور ماہ رخ کہیں نظر نہیں آرہی تھی ، شاید وہ اپنے کمرے میں ہو گی ۔ میں نوشابہ کے پاس کچن میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا ، نوشابہ کی پرابلم یہی تھی کہ دن کے وقت اس سے ایسی ویسی بات نہیں کی جا سکتی تھی ، کیونکہ وہ دن میں شرماتی بہت تھی ۔ اتنے میں ممانی بھی آگئیں ، ہم نے کھانا کھایا ، اور اس کے بعد میں وہاں سے اٹھا اور شکیل ماموں کے گھر چلا گیا ۔ ممانی نے بتایا کہ نانی امی چھت پر ہیں تو میں چھت پر ان کے پاس چلا گیا اور باتیں کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد ہی ماہ رخ بھی وہیں پر آگئی اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔ ماہ رخ بار بار میری طرف دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی ، اس کی آنکھوں میں ایک پیغام تھا ، جسے میں سمجھ تو رہا تھا مگر یہاں کچھ کرنا ممکن نہیں تھا ۔ ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ نوشابہ بھی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ وہاں آگئی اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئی ۔ نوشابہ آنکھوں سے ماہ رخ کو بار بار کوئی اشارہ کر رہی تھی ، اور ساتھ ساتھ ہنس بھی رہی تھی ۔ ماہ رخ بیچارگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی ، مگر وہاں کوئی بات ہو نہیں سکتی تھی ، اسی لیے میں وہاں سے اٹھا اور نانی امی سے ذرا دور دیوار کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا ۔ میرے پیچھے پیچھے ماہ رخ بھی وہیں پر آگئی اور آتے ہی بولی ۔

    ماہ رخ : ۔ اپنی گرلفرینڈ کو سمجھا لو ، کمینی کو ۔

    میں : ۔ کیوں ، کیا ہوا ؟؟؟؟

    ماہ رخ : ۔ وہ مجھے صبح سے تنگ کر رہی ہے ۔

    میں : ۔ کیوں ؟؟؟؟

    جاری ہے۔
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

    Comment


    • #12
      اتنے میں نوشابہ بھی اٹھ کر ہمارے پاس ہی آگئی ، ماہ رخ نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا اسی سے پوچھ لو ، نوشابہ اب بھی ہنس رہی تھی ۔

      میں : ۔ کیوں بھئی تم ماہ رخ کو تنگ کیوں کر رہی ہو ؟؟؟؟

      نوشابہ : ۔ میں کب تنگ کر رہی ہوں ؟؟

      میں : ۔ ماہ رخ تو کہہ رہی ہے کہ تم اسے صبح سے تنگ کر رہی ہو ۔

      نوشابہ : ۔ میں کیوں تنگ کرنے لگی ؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ بتاؤں میں ؟؟؟

      نوشابہ : ۔ بتادو ، مجھے کیا ؟

      میں : ۔ اب بتا بھی دو ، ہوا کیا ہے ؟؟

      ماہ رخ : ۔ میں بتاتی ہوں ۔۔۔ یہ جو ہے نا ۔

      ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ نوشابہ ہنستی ہوئی بھاگی اور اپنی پہلے والی جگہ پر جا کر بیٹھ گئی ۔ میں نے ماہ رخ کی طرف دیکھا اور کہا بتاؤ تم ۔

      ماہ رخ : ۔ یہ مجھے رات والی بات پر تنگ کر رہی ہے ۔

      میں : ۔ کیا کہتی ہے ؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ (تھوڑا شرماتے ہوئے) کہتی ہے باتیں تو بڑی کرتی تھی ، رات کو لینا تھا نا پورا ، آپ ہی بتائیں ، درد تو ہوتا ہی ہے نا ، میں نے تو منع نہیں کیا تھا پورا ڈالنے سے ، اس وقت تو خود ہی منع کردیا اور اب خود ہی مذاق بھی اڑا رہی ہے ، میں نے تو کہا تھا نا ، ہونے دو جتنا درد ہوتا ہے ایک بار ہی ہو جائے گا ۔

      میں : ۔ ہو لینے دو اسے بھی خوش ، آخر کب تک بچی رہے گی ، جب اس کی باری آئے گی تو تم بھی اڑا لینا اس کا مذاق ۔

      ماہ رخ : ۔ وہ تو شادی سے پہلے نہیں آنے والی تمھارے ہاتھ ۔

      میں : ۔ چلو کوئی بات نہیں ، شادی کے بعد ہی سہی ، آخر آنا تو ہے ہی اس نے میرے نیچے ۔

      ماہ رخ : ۔ ہاں ۔۔۔۔۔ پلیز کزن ، بس پہلی بار اس کے ساتھ میرے سامنے ہی کرنا ، میں بھی تو دیکھوں ، کیسے لیتی ہے بنا آواز نکالے ۔

      میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے جب وقت آئے گا تو کچھ سوچ ہی لوں گا ۔۔۔۔۔ویسے اگر رات تم برداشت کر لیتی تو ہمارا کام بھی ہو جانا تھا ، اور وہ تمھارا مذاق بھی نہ اڑا سکتی ۔

      ماہ رخ : ۔ میں نے کب منع کیا تھا ، مجھے یہ تو پتہ تھا درد ہوتا ہے ، مگر یہ نہیں پتہ تھا اتنا زیادہ ہوتا ہے ، اس وجہ سے مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔

      میں : ۔ چلو کوئی بات نہیں ، جلد ہی کوئی ایسا بندوبست کرنے کی کوشش کرتا ہوں جہاں کوئی مسئلہ نہ ہو ، پھر جتنی مرضی آوازیں نکال لینا ۔

      ماہ رخ : ۔ یار اب پتہ نہیں کب موقع ملے گا ، اتنا اچھا موقع تھا تم دونوں نے ضائع کر دیا ۔

      میں : ۔ یار جگہ ٹھیک نہیں تھی ، اگر میں پورا ڈال دیتا تو تم نے پورا محلہ جگا دینا تھا چینخ چینخ کر ۔

      ماہ رخ : ۔ اب اتنی بھی گئی گزری نہیں ہوں ، کر ہی لیتی کسی نہ کسی طرح برداشت ۔

      میں : ۔ اچھا جی ، اگلی بار دیکھ لیں گے ، کتنا برداشت کرلیتی ہو تم ۔

      ماہ رخ : ۔ اب میں تیاری کر لوں گی ۔

      میں : ۔ کیسی تیاری ؟؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ نوشابہ نے مجھے ایک آئیڈیا دیا تھا ، اب میں اس پر عمل کروں گی ۔

      میں : ۔ کیسا آئیڈیا دیا تھا نوشابہ نے ؟؟

      ابھی وہ مجھے بتانے ہی لگی تھی کہ ممانی نے آواز دے کر اسے بلا لیا ، میسج پر بتاؤں گی ، یہ کہہ کر وہ چلی گئی ۔ میں بھی نانی وغیرہ کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا ۔ نوشابہ کو پتہ تھا کہ ماہ رخ نے مجھے سب بتا دیا ہوگا اس لیے اب وہ مجھ سے شرما رہی تھی ، بار بار میری طرف دیکھتی اور شرما کر نظریں جھکا لیتی ۔ کچھ دیر بعد ماہ رخ کا میسج آگیا ۔

      ماہ رخ : ۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اپنی کھلی کر لو پھر زیادہ درد نہیں ہوگا ۔

      میں : ۔ کیا ؟؟؟؟ مگر کھلی کرو گی کیسے ؟؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ بہت سی چیزیں ہیں ، مثلاً ، موم بتی ، کھیرا ، بینگن ، وغیرہ وغیرہ ۔

      میں : ۔ نوشابہ نے تم سے کہا تھا ایسا کرنے کو ؟؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ ہاں مگر اس نے بیک سائیڈ پر استعمال کرنے کو کہا تھا ۔

      میں : ۔ یہ بیک سائیڈ کیا ہوتی ہے ، اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی تم اصل نام استعمال نہیں کر سکتی ۔

      ماہ رخ : ۔ اچھا اچھا ، اس نے گانڈ کے بارے میں کہا تھا کہ گانڈ کو کھلا کر لو ۔

      میں : ۔ کیوں ؟

      ماہ رخ : ۔ وہ کہتی ہے کہ جو بھی تمھاری لے گا ، بعد میں تمھاری گانڈ بھی ضرور مارے گا ، اور گانڈ مروانے میں بہت درد ہوتا ہے ، اس لیے پہلے سے ہی کھلی کر لو ۔ میں نے سوچا ، کیوں نا یہی تجربہ پھدی پر بھی کر لیا جائے ۔

      میں : ۔ تم ایسا کچھ نہیں کروگی سمجھی ، جو مزہ لن سے سیل کھلوانے میں ہے وہ کسی بھی چیز میں نہیں ہے ، اگر اور چیزوں سے مزہ ملتا تو کوئی بھی لڑکی لن لینے کا رسک نہ لیتی ۔ ویسے یہ گانڈ والی بات تو نوشابہ نے ٹھیک کہی ہے ۔

      ماہ رخ : ۔ کیا مطلب ۔۔۔۔۔ تم بھی میری گانڈ مارو گے کیا ۔

      میں : ۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔ کیا تم مجھ سے گانڈ نہیں مروانا چاہو گی ۔

      ماہ رخ : ۔ مجھے نہیں پتہ ، اگر تم کو مزہ آئے گا تو مجھے کوئی اعترض نہیں ہوگا تم سے گانڈ مروانے میں ۔

      میں : ۔ صرف مجھے ہی نہیں ، تمہیں بھی مزہ آئے گا ، اور کوئی ضرورت نہیں ہے کچھ بھی کھلا کرنے کی ، میرے لن کے ہوتے ہوئے اور چیزوں کی کیا ضرورت وہ خود ہی کھلا کر لے گا تمھارا ہر سوراخ ۔

      ماہ رخ : ۔ کتنے ظالم ہو تم ، میری چھوٹی سی پھدی کو اپنے لن سے ہی پھاڑو گے ذرا سی کھلی بھی نہیں کرنے دیتے ۔

      میں : ۔ پھدی بڑی ہو یا چھوٹی اس کے ساتھ یہ کام تو ہونا ہی ہوتا ہے ، اور لن ہی سے ہو تو اچھا لگتا ہے

      ماہ رخ : ۔ ویسے ایک بات تو بتاؤ ، میری تو چھوٹی سی پھدی ہے اور اس نے مجھے اتنا تنگ کیا ہوا ہے ، تمھارا تو اتنا بڑا لن ہے ، تم نے اسے سنبھالا کیسے ہوا ہے ؟؟؟؟؟؟

      میں : ۔ کہاں سنبھالا ہوا ہے ، یہ تو بہت تنگ کرتا ہے مجھے ، اسے تو بس تم بہنیں ہی سنبھال سکتی ہو ۔

      ماہ رخ : ۔ اوہ ہاں ، بہنوں سے یاد آیا ، تم سائمہ کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو ، ہم دونوں کافی نہیں ہیں کیا ؟؟؟

      میں : ۔ یار میں کہا پیچھے پڑا ہوں ، اسے خود آرام نہیں ہے آج صبح بھی لالیپاپ مانگ رہی تھی ۔ اور ہاں ، مجھے لگتا ہے اسے ہم پر شک بھی ہوگیا ہے ۔

      ماہ رخ : ۔ وہ کیسے ؟؟؟؟؟

      میں نے ماہ رخ کو صبح سائمہ سے ہونے والی ساری باتیں بتا دیں ، اور کچھ مسالا اپنی طرف سے بھی ایڈ کر دیا ، میں چاہتا تھا جیسے یہ دونوں آپس میں فری ہیں وہ بھی اسی طرح ان سے کھل جائے ۔ ان میں جتنی فرینکنس ہوگی میرا کام اتنا ہی آسان ہو جائے گا ۔ میں نانی امی کے پاس ہی بیٹھا تھا اور نوشابہ بھی ساتھ ہی بیٹھی تھی میں ساتھ ساتھ ان سے بھی باتیں کر رہا تھا ۔ میری باتیں سن کر ماہ رخ بولی ۔

      ماہ رخ : ۔ نوشابہ کا تو اسے پتہ ہے ، پر مجھ پر اسے کیسے شک ہوگیا ؟؟؟

      میں : ۔ مجھے کیا پتہ ؟ تم بھی تو سب کے سامنے مجھ سے مستیاں کرتی رہتی ہو ، کوئی بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے ۔

      ماہ رخ : ۔ اب کیا ہوگا ؟؟؟

      میں : ۔ کچھ نہیں ہوگا ، اس نے کونسا کسی کو بتانا ہے ۔

      ماہ رخ : ۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر اس بات کو ایسے تو نہیں چھوڑ سکتے ۔

      میں : ۔ تم نوشابہ کو بھی بتا دینا ، اور اس کے سامنے تھوڑی احتیاط کرنا۔۔۔۔ باقی میں دیکھ لوں گا ، وہ کچھ نہیں کرے گی اس کو تو بس لالیپاپ کا انتظار ہے ، وہ مل گیا تو پھر جو مرضی کر لو ، وہ ہمارے ساتھ ہو گی ۔

      ماہ رخ : ۔ یار وہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے ۔

      میں : ۔ ہاں چھوٹی تو ہے ، میں بھی ابھی تو اس کے ساتھ کچھ نہیں کر رہا ۔ ویسے وہ چھوٹی لگتی تو نہیں ہے ۔

      ماہ رخ : ۔ چھوٹی ہی ہے ، ویسے امی پر گئی ہے تو اس لیے تھوڑی ہیلدی لگتی ہے ۔

      میں : ۔ اچھا جی , وقت آنے پر دیکھ لیں گے وہ چھوٹی ہے یا بڑی ۔

      ماہ رخ : ۔ میں نوشابہ کو تمھارا بتاؤں گی ۔

      میں : ۔ تم کیا بتاؤ گی میں خود بتا دوں گا ، ویسے میرا حق بھی بنتا ہے میری سالیوں پر ، میری سالیاں مجھے پھدی نہیں دیں گی تو اور کس کو دیں گی؟

      ماہ رخ : ۔ آہو ! نوشابہ کو پتہ چلا نا ، پھر دیکھنا ۔

      میں : ۔ وہ خود ہی تمھاری طرح سائمہ کو بھی میرے نیچے لٹائے گی ۔

      ماہ رخ : ۔ مجھے نہیں لگتا ایسا ہوگا ، مجھ میں اور سائمہ میں بہت فرق ہے ۔

      میں : ۔ فرق جتنا بھی ہو لیکن تم دونوں میں آگ ایک جتنی ہی ہے ، دیکھ لینا تم ، نوشابہ خود اسے میرے لیے منائے گی ۔

      ماہ رخ : ۔ میری بہن کے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھاو گے ؟

      میں : ۔ مزے میں کوئی جائز اور ناجائز نہیں دیکھا جاتا ، مزہ جہاں سے ملے لے لینا چاہیے ۔

      ماہ رخ : ۔ تو تم کو جہاں سے بھی مزہ ملے گا لے لو گے ؟

      میں : ۔ ہاں کیوں نہیں لوں گا ۔

      ماہ رخ : ۔ چلو وقت آنے دو پھر دیکھیں گے ، یا تو میں تمھاری یہ بات غلط ثابت کردوں گی ، یا پھر تمہیں بہت زیادہ مزہ دلواوں گی ۔

      میں : ۔ وہ کیسے ؟؟؟؟

      ماہ رخ : ۔ وہ میں اسی وقت بتاؤں گی ۔

      میں شام تک وہیں رہا اور تینوں بہنوں سے گپ شپ ہوتی رہی ، مجھے موقع ضائع ہو جانے کا بہت افسوس تھا ، اور مجھ سے بھی زیادہ افسوس ماہ رخ کو تھا ۔ شاید میری جگہ کوئی اور ہوتا تو یہ موقع ضائع نہ کرتا ، کیوں کہ اس وقت میں بہت اناڑی تھا اور مجھے نہیں پتہ تھا کہ سیل پیک لڑکی کو کم سے کم درد دے کر کیسے چودنا ہوتا ہے ۔ اور بیڈ کی نسبت یہ کام چارپائی پر اور بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔ اب ہم تینوں کی نظر صباء آپی کی شادی پر تھی ، ہمیں یقین تھا کہ شادی کے ہنگامے میں ہم کوئی نہ کوئ موقع ڈھونڈ ہی لیں گے ۔

      میں گھر واپس آنے کے بعد دوستوں کے ساتھ باہر نکل گیا اور رات کو کھانے کے ٹائم ہی گھر آیا ۔ کالج جانے کی وجہ سے اب مجھ پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی ۔ کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ نوشابہ کا میسج آگیا ۔

      نوشابہ : ۔ سلام ، میری جان ۔

      میں : ۔ وعلیکم سلام ، میری شہزادی ، کیسی ہو ؟؟

      نوشابہ : ۔ اچھی ہوں ، بس تمھاری بہت یاد آرہی تھی ۔

      میں : ۔ کیوں جی ، آج ہی تو آیا ہو تمھارے پاس سے ؟

      نوشابہ : ۔ ہاں , مگر جب بھی تم مل کر جاتے ہو ، تمھاری یاد پہلے سے بھی زیادہ آتی ہے ۔

      میں : ۔ تو یہاں ہی آجاؤ نا ۔

      نوشابہ : ۔ میں تو آنے کو تیار ہوں ، تم ہی نہیں لے جارہے مجھے۔

      میں : ۔ اس میں کیا ہے میں ابھی لینے آ جاتا ہوں ۔

      نوشابہ : ۔ ایسے نہیں ، بارات لے کر آؤ اور مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤ ۔



      جاری ہے ۔
      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

      Comment


      • #13
        میں : ۔ اب تو بڑی جلدی پڑی ہوئی ہے شادی کی ، پہلے تو دس سال انتظار کرنے کا کہہ رہی تھی ۔

        نوشابہ : ۔ ہاں مجھے تو ہے بہت جلدی ، تمہیں کیا ، تمہیں تو مل ہی گئی ۔

        میں : ۔ ابھی کہاں ملی ہے ۔ تم پاس ہی تو تھی ، بس اوپر اوپر سے ہی تو کیا ہے۔

        نوشابہ : ۔ اوپر اوپر رکھنے اور اندر ڈالنے میں فرق ہی کیا رہ گیا ، آج اوپر رکھا ہے ، کل کو اندر بھی ڈال ہی دو گے ، پر میرا کیا ہوگا ؟؟؟

        میں : ۔ تو تم اپنی ضد چھوڑ دو ، پھر جب چاہے اندر ڈلوا لیا کرنا ۔

        نوشابہ : ۔ اگر میں نے ضد چھوڑ دی تو ان منصوبوں کا کیا ہوگا جو تم میری بہنوں کے لیے بنا رہے ہو ؟؟؟

        میں : ۔ کیا مطلب ہے تمھارا ؟؟؟؟

        نوشابہ : ۔ مطلب یہ ہے کہ ماہ رخ نے مجھے ، تمھارے اور سائمہ کے بارے میں سب بتا دیا ہے ، تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ؟ ابھی تو وہ چھوٹی بچی ہے ۔

        میں : ۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ، اور نہ ہی تمھارے بنا کچھ کروں گا ، ماہ رخ نے تمہیں یہ بھی بتایا ہو گا کہ سائمہ خود مجھے تنگ کر رہی ہے ، اور اس سب کے لیے اکسا بھی رہی ہے ۔

        نوشابہ : ۔ ہاں بتایا تو ہے ، مگر وہ ابھی بچی ہے ، اور اسے ابھی ان سب باتوں کا پتہ نہیں ہے ۔

        میں : ۔ اسے تو تم سے بھی زیادہ ان باتوں کی سمجھ ہے ، اگر یقین نہ ہو تو کبھی اس سے بات کر کے دیکھ لو ۔

        نوشابہ : ۔ اچھا ٹھیک ہے ، مگر تم ابھی اس کے ساتھ کچھ نہیں کرو گے ۔

        میں : ۔ میں نے کہا تو ہے ، تمھارے بناء کچھ نہیں کروں گا ، تمہیں بھروسہ نہیں ہے کیا مجھ پر ؟؟؟

        نوشابہ : ۔ یہ بات نہیں ، مجھے تم پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے ، میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا ۔

        میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ ویسے تم میری پیاری سی کزن کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو ؟؟؟؟ ماہ رخ کو کیوں پریشان کر رہی ہو ؟؟؟

        نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہا ، میں کب پیچھے پڑی ہوں ، وہ خود ہی اتنی بڑی بڑی باتیں کیا کرتی تھی ، اب اسے پتہ چل گیا ہے ، اب نہیں کرے گی ۔

        میں : ۔ ویسے جو بھی ہے ، اس نے منع تو نہیں کیا تھا ۔

        نوشابہ : ۔ ہاں یہ تو ہے ، مگر وہ تو کہتی تھی مجھے ہرانا اتنا آسان نہیں ہے تم دونوں جو بھی کرلو میں آرام سے لے لو۔ گی اب میں بچی تو نہیں ہوں ، وغیرہ وغیرہ ۔

        میں : ۔ پتہ ہے وہ کیا کہہ رہی تھی ؟؟؟

        نوشابہ : ۔ کیا کہہ رہی تھی ؟؟

        میں : ۔ کہہ رہی تھی پہلی بار نوشابہ کی بھی میرے سامنے ہی لینا ، میں بھی دیکھوں گی وہ کیسے پورا اندر لیتی ہے بغیر آواز نکالے ۔

        نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ، یہ تو کچھ بھی نہیں ، میں تو اس سے بھی بڑا آرام سے لے لوں گی ۔

        میں : اچھا جی ! پھر تو میں جیسے بھی ڈالوں ، تمھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ؟؟

        نوشابہ : ۔ نا میں کوئی ماہ رخ ہوں جو ڈر جاؤں گی تمھارے لن سے ۔

        میں : ۔ ماہ رخ بھی یہی کہتی تھی ، اور دیکھ لو ابھی صرف ٹوپی ہی گئی تھی کہ چینخ پڑی ابھی پورا لن باقی تھا ۔

        نوشابہ : ۔ وہ ماہ رخ تھی اور میں نوشابہ ہوں ۔ سمجھے ۔

        میں : ۔ اچھا جی ! اور یہ تم ماہ رخ کو کیا الٹے سیدھے مشورے دے رہی ہو ؟؟

        نوشابہ : ۔ میں نے کیا کہا ہے اسے ؟؟؟

        میں : ۔ تم نے کہا ہے کہ اپنی خود ہی کھلی کر لو ، لن سے بہت درد ہوگا ۔

        نوشابہ : ۔ ہاں ، مگر میں نے تو صرف گانڈ کے لیے کہا تھا ۔

        میں : ۔ کیا تمھیں اپنے یار کے لنڈ پر بھروسہ نہیں ہے ۔۔۔۔ کیا میرا لنڈ نہیں کھول سکتا تمھاری بہن کی گانڈ ؟؟؟

        نوشابہ : ۔ کھول تو سکتا ہے ، مگر میری بہن کو جو بہت زیادہ درد ہوگا اس کا کیا ؟

        میں : ۔ ایسے کاموں میں درد تو برداشت کرنا پڑتا ہے نا ، ویسے میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ پھدی کے ساتھ کچھ نہیں کرنا ، گانڈ کو جیسے چاہے کھلی کر سکتی ہے ، آخر میری شہزادی کے منہ سے نکلی بات کو میں کیسے منع کر سکتا ہوں ۔

        نوشابہ : ۔ جی !!!! مجھے اچھی طرح سے پتہ ہے ، میں نے یہ بھی تو کہا ہے ، شادی کر لو مجھ سے ، تو کیوں نہیں کر رہے ؟؟؟؟

        میں : ۔ میں کب منع کر رہا ہوں ، میں بھی تو تمھارے لیے تڑپ رہا ہوں ، تم خود سوچو ! ابھی ہم پڑھ رہے ہیں ایسے میں کون مانے گا شادی کے لیے ؟

        نوشابہ : ۔ مجھے نہیں پتہ ۔

        میں : ۔ شادی کر کے جو لینا ہے ، وہ ایسے ہی لے لو ، کیوں ضد پر اڑی ہو ، خود بھی تڑپ رہی ہو اور مجھے بھی تڑپا رہی ہو ۔

        نوشابہ : ۔ میں نے اگر پاپا کی قسم نہ کھائی ہوتی تو میں خود ہی آکر تمھارے لن کے اوپر بیٹھ جاتی اور پورا لیے بغیر نہ چھوڑتی ، مگر یہ قسم میں کبھی نہیں توڑ سکتی ۔

        میں : ۔ یار یہ بھی کوئی بات ہوئی ، لوگ روز کتنی قسمیں کھاتے ہیں اور توڑتے ہیں ، تم ایویں اتنی سیریس ہو رہی ہو ۔

        نوشابہ : ۔ میں , نوشابہ ، ہوں ، اور لوگ نہیں ، اوکے ۔۔۔۔۔ اچھا اب ماہ رخ کا کیا کرنا ہے ، اسے تو پہلے ہی نہیں سنبھالا جا رہا تھا ، اور اب تو اس نے لن کا ذائقہ بھی چکھ لیا ہے ۔

        میں : ۔ صباء آپی کی شادی پر کوئی نہ کوئی موقع مل ہی جائے گا ، ویسے تو تم نے ہمارے گھر آنا نہیں ہے ۔

        نوشابہ : ۔ دل تو بہت ہے ، مگر امی نہیں مانے گی ، اور پھر کالج سے چھٹیاں بھی نہیں ہیں کوئی ۔

        میں : ۔ آجاؤ نا یار کچھ دن کے لیے کوشش کرکے ، اور ہاں ماہ رخ کو بھی ساتھ ہی لانا ۔

        نوشابہ : ۔ اچھا ، کوشش کرتی ہوں ۔

        اس کے بعد کچھ دیر اور ہماری باتیں ہوئیں اور اس کے بعد سو گئے ۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح نوشابہ اور ماہ رخ ہمارے گھر کچھ دنوں کے لیے آجائیں ، پتہ نہیں کب قسمت مہربان ہو جائے ، اور ہمیں موقع مل ہی جائے ، ویسے بھی میں ماہ رخ کو زیادہ ٹائم نہیں دینا چاہتا تھا ، اگر اس کی سوچ کسی اور طرف مڑ جاتی ہے تو کوئی بھی اسے کسی دوسرے کا لن لینے سے نہیں روک سکتا تھا اور میں چاہتا تھا ، اس سے پہلے ہی کوئی موقع نکال کر اسے اچھی طرح سے ٹھنڈا کر دوں ۔ اسی طرح کچھ دن اور گزر گئے ۔ فون پر ان دونوں بہنوں سے میری روز بات ہو جاتی تھی ، سائمہ کے پاس ابھی موبائل نہیں تھا ، دونوں بہنوں کی آپس میں مستیاں بھی جاری تھیں ۔ اب وہ دونوں آپس میں بہت کھل چکی تھیں ۔ نوشابہ نے مجھے بتایا کہ ماہ رخ دو تین دن سے اپنی گانڈ میں کھیرا لینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے اور مجھے وہ ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی ، ورنہ میں تو گھسا ہی دیتی پورا کھیرا اس کی گانڈ میں ۔ وہ دونوں آپس میں جو بھی کرتیں ، مجھے روز بتا کر بیچین کر دیتی تھیں ایسے ہی دن گزر رہے تھے ۔۔۔۔ کہ ایک جمعہ کے روز نوشابہ کا فون آگیا ، کہ جلدی سے آجاو ، امی بلا رہی ہیں ۔۔۔ میں نے نوشابہ سے پوچھا بات کیا ہے ، تو وہ بولی مجھے کچھ نہیں پتہ بس امی نے کہا ہے ارسلان کو فوراً آنے کا کہو ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں کچھ پریشان ہو گیا کہ جانے کیا بات ہو ۔۔۔ خیر میں تیار ہو کر ماموں کے گھر پہنچ گیا ، وہاں جاکر دیکھا تو سب کچھ نارمل ہے ، ماہ رخ تیار ہو کر ادھر ادھر پھر رہی تھی اور بہت خوش لگ رہی تھی ، جبکہ نوشابہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی ۔ میں سمجھ گیا کہ کہیں جانے کا پروگرام ہوگا اسی لیے تو ماہ رخ تیار ہوئی بیٹھی ہے ۔ میں ممانی کے پاس بیٹھ گیا اور پوچھا ، خیر تو ہے ، اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ہے ۔ ممانی بولیں ، ایمرجنسی میں تو نہیں بلایا ، ان دونوں نے تمھارے گھر جانا تھا میں نے کہا ارسلان کو بلا لو وہ لے جائے گا ۔ میں نے کہا مگر اس نے تو مجھے پریشان کردیا ، کہتی ہے جلدی پہنچو ، میں سمجھا پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ۔ ممانی نے پوچھا تم سے یہ کس نے کہا تھا ، تو میں نے نوشابہ کا بتا دیا ، اس پر ممانی بولیں ، نوشابہ تو ہے ہی کمینی ۔۔۔ میسنی ، آنے دے ذرا میں پوچھتی ہو اسے ۔ میں نے پوچھا ، ویسے وہ گئی کہاں ہے ۔ تو ممانی نے بتایا کہ تمھارے ماموں شکیل کی طرف نہانے گئی ہے ، یہاں پر ماہ رخ نہا رہی تھی تو وہ وہاں چلی گئی ۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہو گیا تھا کہ ماہ رخ اور نوشابہ دونوں ہی ہمارے گھر جا رہی ہیں ، چونکہ آج جمعہ تھا تو کم ازکم دو راتیں تو وہ ہمارے گھر رہیں گی ، اب مجھے ماہ رخ کے خوش ہونے کی وجہ سمجھ آگئی تھی ۔ دن میں بے شک کچھ نہ بھی ہو مگر رات کے کچھ نہ کچھ مزے تو پکے تھے یہ سوچ کر میں بھی خوش ہو رہا تھا اور سائمہ بھی میرے ساتھ ہی بیٹھی مجھے دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی ، جیسے اسے پتہ ہو میں کیا سوچ رہا ہوں ۔ ممانی کی وجہ سے وہ کوئی بات کر تو نہیں رہی تھی مگر اس کے چہرے سے سب پتہ چل رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے ، کچھ دیر بعد ممانی کا فون آگیا اور وہ باہر چلی گئی ، کیونکہ کمرے میں سگنل کا مسئلہ ہوتا تھا ۔ ممانی کے جاتے ہی میں نے سائمہ کی طرف دیکھا اور کہا ، کیا ہے ؟ ہنس کیوں رہی ہو ؟

        سائمہ : ۔ کیوں کزن بھائی ؟ میرے ہنسنے پر پابندی ہے کیا ؟

        میں : ۔ پابندی ہے تو نہیں ، مگر لگ بھی سکتی ہے بلا وجہ ہنسنے پر ۔

        سائمہ : ۔ بلا وجہ تو نہیں ہنس رہی میں ۔

        میں : ۔ تو پھر بتاو کیوں ہنس رہی ہو ۔

        سائمہ : ۔ وہ آپ چھوڑو ! ویسے ایک بات کہوں ، اب کی بار موقع ضائع نہ کرنا ۔

        یہ کہہ کر وہ ہنستی ہوئی کمرے سے باہر بھاگ گئی ۔ اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس کا کیا کیا جائے ، یہ تو دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ میں سائمہ کے ساتھ جلدی نہیں کرنا چاہتا تھا ، ابھی میں تینوں بہنوں کو کچھ وقت دینا چاہتا تھا ۔ ممانی تھوڑی دیر بعد ہی واپس آگئیں ، اور انھوں نے آتے ہی پوچھا نوشابہ نہیں آئی؟

        ماہ رخ : ۔ پتہ نہیں کیا کر رہی ہے ، آ ہی نہیں رہی۔

        ممانی : ۔ جاو ، اس کو بولو جلدی کرے ، لوگ اس کے نو کر لگے ہوئے ہیں ، لینے بھی آئیں اور سارا دن انتظار بھی کریں ۔

        ماہ رخ ( ہنستے ہوئے ) اچھا جاتی ہوں ۔

        کچھ دیر بعد نوشابہ ، ماہ رخ کے ساتھ لڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ، کالے رنگ کے سوٹ میں وہ کیا غضب ڈھا رہی تھی ، میں نے اس کی طرف دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ، میک اپ وہ کرتی نہیں تھی ، صرف ہونٹوں پر لپ شائنر اور آنکھوں میں کاجل لگایا ہوا تھا ، بغیر میک اپ کے ہی وہ بہت خوبصورت لگتی تھی ۔ میں اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا کہ اتنی حسین لڑکی مجھے کتنا پیار کرتی ہے ۔ ممانی کی آواز سن کر میں خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا ، وہ نوشابہ کو ڈانٹ رہی تھی ، کچھ دیر بعد وہ دونوں تیار تھیں ، بائیک پر میرے پیچھے نوشابہ بیٹھی ، اور اس کے پیچھے ماہ رخ ، میں حیران تھا کہ ماہ رخ اتنی آسانی سے اس کے پیچھے کیسے بیٹھ گئی ، ضرور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا ہوگا ۔ گلی سے باہر نکلتے ہی میں نے نوشابہ سے کہا ، تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا کہ تم لوگوں نے آنا ہے

        نوشابہ : ۔ میں تمھیں سرپرائز دینا چاہتی تھی ، اس لیے نہیں بتایا تھا ۔

        میں : ۔ اگر پہلے بتا دیتی تو میں کوئی انتظام کرلیتا ۔

        نوشابہ : ۔ کیسا انتظام ؟؟؟

        میں : ۔ تم دونوں کو مزے دینے کا ۔

        نوشابہ : ۔ وہ تو ہم خود ہی لے لیں گے ، ویسے کیا انتظام کرنا تھا تم نے ۔

        میں : ۔ کچھ نہ کچھ کر ہی لیتا ، تم نے بتایا ہی نہیں ۔

        بائیک میں بالکل سلو چلا رہا تھا ، اب ہم ان کے گاؤں سے باہر آ چکے تھے ، میں نے ایک بات نوٹ کی کہ نوشابہ نے اپنا ایک بازو اپنے اور میرے بیچ رکھا ہوا تھا ، جسکی وجہ سے اس کے ممے میری کمر کو ٹچ نہیں ہو رہے تھے ۔

        میں : ۔ نوشابہ ، یہ بازو تو ہٹاؤ بیچ میں سے ۔

        نوشابہ : ۔ وہ کس خوشی میں جناب ؟؟؟

        میں : ۔ مجھے بھی تو کچھ فائدہ ہو تمھارا ڈرائیور بننے کا ۔

        نوشابہ : ۔ اگر نہ ہٹاوں تو ؟؟؟

        میں : ۔ تو میں اگلی بار ماہ رخ کو اپنے ساتھ بٹھا لوں گا ۔

        نوشابہ : ۔ بٹھا لینا ، وہ بھی ایسے ہی کرے گی ۔

        میں : ۔ ایویں ہی ،ایسے ہی کرے گی ، کرے تو سہی ، تمھاری بات اور ہے ، اور کسی کے نخرے نہیں اٹھاتا میں ۔

        نوشابہ : ۔ اچھا پھر اٹھاو میرے نخرے ، نہیں اٹھانا میں نے ہاتھ ۔

        میں : ۔ اگر ہاتھ نہ ہٹایا تو میں نے رات کو کچھ بھی نہیں کرنا ۔

        نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، نہ کرنا ، ہم دونوں بہنیں ہیں نا ، ہم تو آپس میں ہی کر لیتے ہیں ۔

        جاری ہے
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • #14
          نوشابہ مجھے تنگ کر رہی تھی ، اور میں جانتا تھا کہ اسے کیسے تنگ کرنا ہے ۔ میں نے سوچا یہ دونوں مجھے تنگ کرنے کا پلان بنا کر آئی ہیں ، میں ان کو سیٹ کرتا ہوں آج ۔

          ماہ رخ ان باتوں کے بیچ ایک بار بھی نہیں بولی تھی ، یا تو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں یا یہ بھی ان کے پلان کا ہی حصہ تھا ۔

          میں : ۔ (تھوڑا غصے سے ) تو پھر اب تم دونوں آپس میں ہی کرنا ، مجھے مت کہنا ۔

          نوشابہ : ۔ لو جی ! اب ناراض نہ ہو جانا میں مذاق کر رہی ہوں ۔ ایک تو تم ناراض بھی جلدی ہو جاتے ہو ۔

          میں : ۔ میں نہیں ہوں ناراض کسی سے ۔

          نوشابہ نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنا ہاتھ درمیان سے ہٹا لیا ، اور اپنے ممے آرام سے میری کمر کے ساتھ لگا دیے ۔ میرے جسم میں ایک دم مزے کی لہر سی دوڑ گئی ، مگر میں نے کوئی ریکشن ظاہر نہ ہونے دیا ۔ نوشابہ اب میری کمر کے ساتھ اپنے ممے دبا دبا کر رگڑ رہی تھی لیکن میں بالکل خاموش رہا ۔ نوشابہ سے میری خاموشی برداشت نہیں ہوئی تو اس نے باقاعدہ مجھے پیچھے سے جھپی ڈال لی ، اور میں ایک دم اچھل پڑا کیونکہ آس پاس کے گاؤں میں سبھی لڑکے مجھ جانتے تھے ، اور اگر کوئی دیکھ لیتا تو ۔ ابھی میں اس سے جان چھڑانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ نوشابہ نے اچانک میرے لن کو پکڑ لیا جو اس وقت فل کھڑا تھا ، میں نے ایک دم بریک لگا کر بائیک روک لی اور کہا ، یہ کیا بدتمیزی ہے ، انسان بنو نوشابہ ۔

          نوشابہ : ۔ کوئی بدتمیزی نہیں ہے ، میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جو دل چاہے گا کروں گی ۔

          میں : ۔ یہاں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ، چھوڑ دو ۔

          ماہ رخ : ۔( ہنستے ہوئے ) کیا چھڑانا چاہتے ہو میری بہن سے ؟؟

          میں : ۔ اسے کہو میرا لن چھوڑے ، یہاں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ۔

          ماہ رخ : ۔ پکڑے رہنے دو نا ، بیچاری کا دل کر رہا ہوگا ۔

          میں : ۔ رات کو ہاتھ میں تو کیا جہاں دل چاہے لے لے ، پر ابھی تو چھوڑ دے کوئی دیکھ لے گا ۔

          نوشابہ : ۔ تم ناراض کیوں ہوئے ہو ، میں نے نہیں چھوڑنا اب ۔

          میں : ۔ میں ناراض نہیں ہوں پلیز چھوڑ دو ۔

          ماہ رخ : ۔ اچھا تو ابھی تم دونوں لڑ رہے تھے ؟ میں سمجھی کہ پیار محبت کی باتیں ہو رہی ہیں ۔

          میں : ۔ نوشابہ چھوڑ بھی دو ، میں نہیں ہوں ناراض ۔

          نوشابہ : ۔ ابھی بھی رعب جھاڑ رہے ہو مجھ پر ، پہلے پیار سے کہو ، پھر چھوڑوں گی ۔

          میں : ۔ نوشابہ ، میری جان ، چھوڑ بھی دو ۔

          نوشابہ : ۔ کیا چھوڑ دوں ، یہ تو کہا ہی نہیں ۔

          ماہ رخ : ۔ نوشابہ ، میرے کزن بھائی کا لن چھوڑ دو ، اب سمجھ میں آئی کیا چھوڑنا ہے ۔

          نوشابہ : ۔ تم چپ کرو ، میاں بیوی کے بیچ میں نہیں بولتے ، سمجھے۔

          ماہ رخ : ۔ ابھی سے میاں بیوی کہاں سے بن گئے تم دونوں ؟

          نوشابہ : ۔ تم چپ کرو ! ارسلان میرا شوہر ہے اور میرا حق ہے کہ میں اسکا لن پکڑوں ۔

          میں : ۔ ہاں میری جان ، اسکو پکڑنا تمھارا ہی حق ہے ، مگر ابھی چھوڑ دو رات کو جو مرضی کر لینا اس کے ساتھ ۔

          نوشابہ : ۔ پہلے قسم کھاؤ آگے سے کبھی ناراض نہیں ہونگے ۔

          میں نے جان چھڑاتے ہوئے ، میں قسم کھاتا ہوں کہ اب کبھی ناراض نہیں ہوں گا ۔ نوشابہ نے زور سے میرے لن کو دبایا اور چھوڑ دیا ، اور میں نے شکر ادا کیا کہ کسی نے دیکھ نہیں لیا ، ورنہ سب نے میری جان نہیں چھوڑنی تھی ۔ میں نے بائیک سٹارٹ کیا اور پھر سے چل پڑے ، اب نوشابہ پھر سے میرے ساتھ بڑے پیار سے اپنے ممے رگڑ رہی تھی اور میں خوب مزے کر رہا تھا ، مگر یہ مزہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا کیونکہ جلد ہی گھر آگیا ، نوشابہ اور ماہ رخ کو دیکھ کر سب گھر والے بہت خوش ہوئے ۔ ان کے لیے بھی ان دونوں کا آنا سرپرائز ہی تھا ، مشال تو بہت زیادہ خوش تھی کیونکہ وہ ماہ رخ کی بہت گہری سہیلی تھی اور ماہ رخ کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی ، اور نوشابہ صحن میں ہی سب کے ساتھ بیٹھ گئی ، میں چھت پر چلا گیا اور رات کے بارے میں پروگرام بنانے لگا ، کہ رات کو کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ نوشابہ یا ماہ رخ میں سے کس نے میری ساتھ والی چارپائی پر سونا ہے ۔ نوشابہ کو تو سب پتہ ہی تھا لیکن ماہ رخ کو ابھی سمجھانا تھا ۔ میں نے سوچا پہلے نوشابہ سے کنفرم کر لیتا ہوں ، پھر کوئی پروگرام بناتا ہوں ۔ یہ سوچ کر میں نے میسج لکھا اور نوشابہ کو سینڈ کردیا ۔

          میں : ۔ ویسے تو دن میں تمھیں بہت شرم آتی تھی ، آج کہاں چلی گئی تھی تمھاری شرم ۔

          نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، وہ تو گھر پر ہی رہ گئی تھی ، آنے کی جلدی میں ساتھ لانا ہی بھول گئی ۔

          میں : ۔ مجھے تو دن میں کچھ کرنے نہیں دیتی ، اور جب خود کچھ کرنا ہو تو شرم بھول آئی ، اب روکنا تم دن میں مجھے کچھ کرنے سے ۔

          نوشابہ : ۔ میں نے پہلے کب روکا ہے تمہیں آخر بیوی ہوں تمھاری ، میں کیوں روکنے لگی تم کو ۔

          میں : ۔ اچھا تو میری بیوی جی ! آج رات کو مجھے روکنا نہیں ، میں جو چاہے کروں ۔

          نوشابہ : ۔ ٹھیک ہے میں تمھیں نہیں روکوں گی ، چاہے تم میری پھدی بھی مار لینا ۔

          میں : ۔ کککککییییا ، تم سچ کہہ رہی ہو ۔

          نوشابہ : ۔ ہاں میری جان ! آج تمھارا جتنا دل کرے اتنا چود لینا مجھے ، میں تمہیں نہیں روکوں گی ۔۔۔ آج تمہیں کھلی آزادی ہے ۔

          میں : ۔ ماہ رخ کی طرح شور تو نہیں مچاؤ گی۔

          نوشابہ : ۔ تم بیشک ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اندر ڈال دینا میں آواز بھی نہیں نکالوں گی ۔۔۔ مگر ڈالنا اپنی ہمت پہ ہے ، میں نے کوئی مدد نہیں کرنی تمھاری ۔

          میں : ۔ وہ میں ڈال لوں گا ، مگر تم میرا ساتھ تو دو گی نا ؟

          نوشابہ : ۔ اور کیا ساتھ چاہیے ؟ اپنی پھدی اور گانڈ مارنے کی کھلی آزادی تو دے دی ہے ، اس سے زیادہ اور کیا ساتھ دوں ؟؟؟؟

          میں : ۔ ویسے آج خیر تو ہے تم مان کیسے گئی ہو ؟؟؟

          نوشابہ : ۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا ، تمھارا لن ، اور میری پھدی ، مجھے رات بھر سونے نہیں دیتے ۔

          میں : ۔ میرا لن تو میرے پاس ہی ہوتا ہے وہ تمہیں کیا کہتا ہے ، ایسے ہی میرے لن پر الزام مت لگاؤ ۔

          نوشابہ : ۔ رات کو جیسے ہی آنکھیں بند کرتی ہوں یہ لہراتا ہوا سامنے آ جاتا ہے ، اب تو اس کا کچھ کرنا ہی پڑے گا ۔

          میں : ۔ اچھا ہے ، تم کو بھی میرا کچھ خیال تو آیا ۔

          نوشابہ : ۔ تم میرے شوہر ہو ، اگر میں نے تمھارا لن اپنی پھدی میں نہیں ڈالنا ، تو کیا اچار ڈالنا ہے میں نے اس پھدی کا ۔

          میں : ۔ چلو تم کو کچھ عقل تو آئی ۔۔۔۔ویسے ہم یہ سب کریں گے کہاں ؟؟؟

          نوشابہ : ۔ یہ سب سوچنا تمھارا کام ہے ، میں صرف شلوار اتار کر تمھارا انتظار کروں گی ، لن کو کہاں ڈالنا ہے ، کب ڈالنا ہے ، کیسے ڈالنا ہے ، یہ سب تم جانو ۔

          میں : ۔ واہ جی واہ ! یار تم بھی تو کچھ سوچو نا ۔

          نوشابہ : ۔ میں کچھ سوچنے جوگی ہوتی تو تمہیں اپنی اور اپنی بہن کی پھدی دے رہی ہوتی ؟؟؟؟

          میں : ۔ مطلب چھوڑو اور کوئی راستہ سوچو ۔۔۔۔۔ آج موقع ہے تمھارے پاس ، اگر آج میری پھدی میں تم نے اپنا لن نہ ڈالا تو پھر پکا میں تمہیں شادی تک نہیں ڈالنے دوں گی ، آج کی ساری رات ہے تمھارے پاس اور میں ساری رات تمھارا انتظار کروں گی ۔ بائے ۔

          میں نوشابہ کی باتوں سے بہت خوش ہوا کہ چلو یہ تو لائن پر آئی ۔ پر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کروں گا کیسے اور کہاں ، بہت سوچنے کے بعد میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا ، وہ یہ کہ سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں سوتے تھے اور میرے والے کمرے میں امی اور مشال سوتی تھیں بس ، میں نے سوچا کہ مشال تو ایک بار سو جائے تو اسے ہوش ہی نہیں رہتا ، بس امی کا ہی کچھ کرنا پڑے گا ، اور اس کے لیے مجھے اپنے ایک دوست کی مدد کی ضرورت تھی ۔ میں فوراً اپنے دوست کے پاس گیا اور اسے نیند کی گولیاں دینے کو کہا ، مجھے پتہ تھا کہ اس کے پاس نیند کی گولیاں ہوتی ہیں ، اس نے پوچھا ، کیا کروگے گولیوں کا ، میں نے اسے بتایا کہ یار تمھاری بھابھی آئی ہوئی ہے اور اس سے ملنے کی کوئی جگاڑ کرنی ہے رات کو ۔ اس نے کہا یار پہلے بتاتے ہو تو منگوا دیتا ابھی تو میرے پاس بس دو ہی ہیں ۔ میں نے کہا کافی ہیں ، گولیاں لے کر میں گھر آگیا اور نوشابہ کو گولیاں دے کر سمجھا بھی دیا کہ رات کی چائے تم نے بنانی ہے اور دینی بھی تم نے ہی ہے ، ایک گولی امی کے کپ میں اور ایک ابو کے کپ میں ڈالنی ہے ۔

          ایک ایک گولی کافی تو نہیں تھی مگر پھر بھی گزارہ ہو سکتا تھا ، اگر شور نہ ہو تو ایک گولی بھی بہت ہوتی ہے ۔

          نوشابہ نے گولیاں پکڑ لیں اور مسکرا کر میری طرف دیکھا ۔ اس کے بعد میں باہر نکل آیا کیونکہ مجھ سے ٹائم ہی پاس نہیں ہو رہا تھا ، پھر میں کھانے کے وقت ہی گھر واپس آیا ، کھانا کھانے کے بعد سب بیٹھے چائے پی رہے تھے ، میں نے نوشابہ سے اشارے سے پوچھا تو اس نے اوکے کی رپورٹ دی ، میں ایک بات نوٹ کر رہا تھا کہ ماہ رخ اور نوشابہ کچھ زیادہ ہی ہنس رہی تھیں ، گھر والے بھی پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا ہنس کیوں رہی ہو تو وہ کہہ دیتیں کہ بس ایسے ہی ہنسی آرہی ہے ، ان کے ایسے بار بار ہنسنے سے میرے کان کھڑے ہو رہے تھے کہ کہیں میرے ساتھ تو کوئی ہاتھ نہیں ہو رہا ، کیوں کہ وہ دونوں میری طرف دیکھ کر ہی ہنس رہی تھیں ۔ میں نے بہت غور کیا پر مجھے کوئی ایسی بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مجھے کسی طرح سے بیوقوف بنایا گیا ہو ، یا کچھ مذاق کیا گیا ہو ۔ اس بات کی سمجھ مجھے اس وقت آئی جب میری آپی صباء اور شفق سونے کے لیے اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں تو نوشابہ بھی ان کے ساتھ جانے کے لیے کھڑی ہوگئی ، میں نے ایک دم اس کی طرف دیکھا ، میرے دیکھنے کا سٹائل ایسا تھا یا کوئی اور بات تھی کہ وہ دونوں زور زور سے ہنسنے لگیں ، وہ دونوں ہنس ہنس کر پاگل ہو رہی۔ تھیں اور میں شرمندہ سا ہو رہا تھا ، مجھے اب سمجھ آئی کہ نوشابہ سارے دن سے مجھے بیوقوف بنا رہی تھی ، ان کا پلان کچھ اور تھا ، سب گھر والے بھی ان کے ساتھ ہی ہنس رہے تھے پر انھیں اصل بات کا پتہ نہیں تھا ، وہ صرف اس لیے ہنس رہے تھے کہ نوشابہ اور ماہ رخ ہنس رہی تھیں ، میں نے تنگ آکر اپنا منہ کمبل کے اندر کر لیا ، اور ساتھ ہی ایک زوردار قہقہے کی آوز سنائی دی ۔

          جاری ہے ۔
          جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
          ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

          Comment


          • #15
            مجھے اپنے لن پر غصہ آرہا تھا ، آج میں اپنے اس لن کی وجہ سے بیوقوف بن گیا تھا ، جب لن کھڑا ہو جائے تو بندہ دماغ کی بجائے لن سے سوچنا شروع کر دیتا ہے ، اسی لیے ، لن ، پھدی ، کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ سکتا ۔ کچھ دیر ہنسنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں ، ہم نے بھی ٹی وی بند کیا اور سونے کے لیے لیٹ گئے ، لیٹتے ہی دونوں کے میسج آنا شروع ہوگئے ، میں یہاں دونوں سے ہونے والی بات چیت الگ الگ ہی لکھوں گا تاکہ آسانی رہے ۔ پہلے نوشابہ سے ہونے والی گفتگو ۔

            نوشابہ : ۔ آئی ، ایم ، سوری ، میرے شہزادے ۔

            میں : ۔ ( سرائیکی میں ) وڈی بدی یہن دی ہیں توں ،( بڑی پھدی مروانی کی ہو تم ) تم ایک بار میرے ہاتھ تو آؤ پھر بتاتا ہوں سوری کیسے بولی جاتی ہے۔

            نوشابہ : ۔ ایں بدی یہن دی بدی دے پچھوں لوک بھولوں بنڑدے پئے ہن ، ہاہاہاہاہا(اس پھدی مروانی کی پھدی کے پیچھے لوگ بیوقوف بن رہے ہیں ۔ )

            میں : ۔ زیادہ ہاہا نہ کرو ، مجھے کیا پتہ تھا کہ تم اتنی کمینی ہو گئی ہو ، میں تو تمہیں ایک شریف اور معصوم سی لڑکی سمجھتا تھا ۔

            نوشابہ : ۔ اب تمھارے ساتھ جو رہنا ہے ، کمینہ تو بننا ہی پڑے گا ۔

            میں : ۔ میں تمھیں کمینہ لگتا ہوں ؟؟؟

            نوشابہ : ۔ اور نہیں تو کیا ، کمینے ہو اسی لیے تو ہم سب بہنوں کی پھدیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو ۔

            میں : ۔ سب کے کہاں ، تم دیتی نہیں ہو ، سائمہ کا کہتی ہو ابھی بچی ہے ، دو ابھی بہت چھوٹی ہیں ، لے دے کے بس ماہ رخ ہی بچی ہے اور اس کی لینے کا بھی موقع نہیں مل رہا

            نوشابہ : ۔ مل نہیں رہی ، یہ ایک الگ بات ہے لیکن تم تو اپنی پوری کوشش کر رہے ہو نا لینے کے لیے ۔

            میں : ۔ میں کیوں کوشش کروں گا ؟ میری بیوی ہے نا ، اپنی بہنوں کی پھدیاں مجھے دلوانے کے لیے ۔

            نوشابہ : ۔ مجھے بس نام کی بیوی بنا کے رکھنا ، اور پھدی میری بہنوں کی مارتے رہنا ۔

            میں : ۔ اب میں کیا کروں ؟ تمھارا دل نہیں کرتا میرا لن لینے کو ، تو جن کا کرتا ہے ان کو تو لینے دو نا ۔

            نوشابہ : ۔ میں نے کب منع کیا ہے ؟ جن کا دل کرتا ہے وہ لے لیں ۔

            میں : ۔ ویسے دل تو سائمہ کا بھی بہت کرتا ہے ۔

            نوشابہ : ۔ ماہ رخ نے بھی مجھے بتایا ہے کہ کوئی اور بھی ہے جس کا دل لینے کو کرتا ہے ۔

            میں : ۔ کوئی اور کون ؟؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ تم ابھی ان دونوں کو چھوڑو ، اور اس کی سوچو جو آج تمھارے پاس ہے ۔

            میں : ۔ گولیوں کا کیا کِیا ہے ؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ چائے میں ڈال کر پلا دی ہیں دونوں کو ۔

            میں : ۔ جب کچھ کرنا نہیں تھا تو کیوں پلا دی میرے امی ، اور ابو کو ۔

            نوشابہ : ۔ تو کر لو نا ، میں تو پھدی ننگی کیے تمھارا انتظار کر رہی ہوں ، ہاہاہاہا۔

            میں : ۔ بہت کمینی ہو ۔

            نوشابہ : ۔ یار میں یہیں تو ہوں ، اگر میری لینی ہے تو آجاو کمرے میں ، ورنہ ماہ رخ کی لے لو ، وہ تو تمھارے پاس ہی ہے ۔

            میں : ۔ اسکی تو میں آج ہر صورت لے کے ہی چھوڑوں گا ۔

            نوشابہ : ۔ ضرور لے لینا ، مگر پھدی نہیں ۔

            میں : ۔ کیا مطلب ، پھدی نہیں ؟؟؟؟

            نوشابہ : ۔ کیونکہ وعدے کے مطابق اس کی پھدی تم میرے سامنے ہی مارو گے ، آج اس کی گانڈ مار لینا ۔

            میں : ۔ واہ جی واہ ، یہ کیا بات ہوئی ۔

            نوشابہ : ۔ یہی وعدہ ہوا تھا ہمارے بیچ ، اس لیے صرف گانڈ مارنا ، اور پھدی کو کچھ مت کہنا ، اوکے ۔

            میں : ۔ ٹھیک ہے جی ، میڈم صاحبہ ، اور کوئی حکم ہو تو وہ بھی بتا دو ۔

            نوشابہ : ۔ اور یہ کہ میری بہن کی گانڈ آرام سے مارنا ، اور تیل وغیرہ اچھے سے لگا لینا ، اور اس سے پوچھ لینا ، جتنا لن وہ آرام سے لے سکے اتنا ہی ڈالنا ، ایسا نہ ہو کہ تم اس کی گانڈ پھاڑ دو اور وہ صبح کو چلنے کے قابل بھی نہ رہے ۔

            میں : ۔ ٹھیک ہے جناب ، اور کچھ ؟؟؟

            نوشابہ : ۔ اور یہ کہ خوب انجوائے کرنا تم دونوں اور بعد میں مجھے بھی سب کچھ بتانا ، کاش تمھارے پاس کیمرے والا موبائل ہوتا تو تم اس کی مووی بنا کر مجھے دکھا دیتے ۔

            مجھے بھی اس وقت کیمرے والے فون کی کمی محسوس ہو رہی تھی ، میں نے سوچا اب یہ بھی منگوانا ہی پڑے گا ۔

            میں : ۔ جلد ہی کیمرے والا بھی لے لوں گا ، پھر جب ماہ رخ کی پھدی ماروں گا اسکی مووی بنا لیں گے ۔

            اس کے بعد ہماری کچھ باتیں اور ہوئیں جو اتنی ضروری نہیں ، نوشابہ نے اوکے بول دیا اور کہا کہ وہ ابھی جاگ رہی ہے اگر اندر سے کوئی باہر آنے لگا تو میں بتا دوں گی ۔ میں نے بھی اوکے بائے بول دیا اب میں ماہ رخ کے ساتھ ہونے والی باتیں شیئر کرتا ہوں ۔

            ماہ رخ : ۔ ہائے کزن جی !

            میں : ۔ یہ تم دونوں بہنیں اتنا ہنس کیوں رہی ہو ؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ آپ کو نہیں پتہ ؟ ہاہاہاہاہا۔

            میں : ۔ زیادہ ہاہاہاہا مت کرو ۔

            ماہ رخ : ۔ اچھا جی ، نہیں کرتی ، ویسے نوشابہ تو چلی گئی ہے اب تم کیا کرو گے ؟؟؟؟؟

            میں : ۔ کیا کروں ؟؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ میری آپی گئی ہے تو کیا ہوا ؟ آپی کی بہن تو ہے نا ، اس کے شوہر کو خوش کرنے کے لیے ۔

            میں : ۔ہاں ویسے ہی خوش کروگی جیسے پچھلی بار کیا تھا ؟؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ واہ جی واہ ! یہ تو میرے لیے طعنہ ہی بن گیا ، میں نے تو نہیں روکا تھا ، ڈال دیتے پورا لن میری پھدی کے اندر ، خود ہی رک جاتے ہو اور اب دونوں ہی مجھے طعنے بھی مار رہے ہو ۔

            میں : ۔ اگر اس وقت تم برداشت کر لیتیں تو آج یہ طعنے نہ سننے پڑتے ۔

            ماہ رخ : ۔ چلو ٹھیک ہے ، آج کر لوں گی برداشت ، مگر نوشابہ نے کہا ہے کہ پھدی نہیں مروانی ، گانڈ مروا لینا ۔

            میں : ۔ تمھارا دل کیا کرتا ہے ؟؟

            ماہ رخ : ۔ میرا دل تو پھدی ہی مروانے کو کر رہا ہے ، مگر نوشابہ کی بات ماننا بھی تو ضروری ہے ، کیونکہ وہ میری پھدی پھٹتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہے ۔

            میں : ۔ تو کیا تمھاری گانڈ پھٹتے ہوئے نہیں دیکھے گی وہ ؟

            ماہ رخ : ۔ نہیں ، وہ پہلے ہی میری گانڈ پھٹتے ہوئے دیکھ چکی ہے ۔

            میں : ۔ کککککییییییا ؟؟؟؟؟؟؟ یہ کیا بکواس ہے یہ کیسے ہوا ؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ اوئے , اب غلط نہ سمجھ لینا ، تمھاری بیوی نے خود پھاڑی ہے میری گانڈ ۔ ۔ ۔

            میں : ۔ اس نے کیسے پھاڑ دی تمھاری گانڈ ؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ ظاہر ہے کھیرے سے پھاڑی ہے ، اب اس کے پاس تمھاری طرح لن تو ہے نہیں ۔۔۔۔

            میں : ۔ پوری بات بتاؤ کیا ہوا تھا ؟؟؟؟

            ماہ رخ : ۔ تمھارے جانے کے بعد میں اور نوشابہ روز رات کو مزے کرنے لگے ، میرا بہت دل کرتا تھا کہ کوئی چیز اپنے اندر لوں ، اور تم نے بھی تو گانڈ کے اندر لینے کی اجازت دے ہی دی تھی تو میں نے نوشابہ سے بات کی ، اس نے میرے لیے ایک نارمل سائز کا کھیرا سلیکٹ کیا ، دو دن تو میں لگی رہی اسے اپنی گانڈ میں ڈالنے کی کوشش میں ،مگر وہ جا ہی نہیں رہا تھا اور مجھے درد بھی بہت ہوتا تھا ۔ ایک دن ہم دونوں گھر میں اکیلی تھیں اور میرا دل بھی بہت کر رہا تھا ، میں نے بڑی مشکل سے نوشابہ کو راضی کیا ، ایک تو یہ نوشابہ بھی نا ڈرتی بہت ہے ۔ نوشابہ نے مجھے دونوں ہاتھ زمین پر ٹکا کر جھکنے کو کہا ، جب میں اس پوزیشن میں ہو گئی تو نوشابہ نے اپنی انگلی کو تیل میں ڈبویا اور میری گانڈ میں ڈال دی تیل لگا ہونے کی وجہ سے اس کی ایک انگلی بڑے آرام سے میری گانڈ میں گھس گئی اور مجھے کوئی خاص درد بھی نہیں ہوا ، کچھ دیر نوشابہ اپنی انگلی کو میری گانڈ میں اندر باہر کرتی رہی ، کچھ دیر بعد اس نے اپنی دوسری انگلی بھی میری گانڈ میں گھسا دی جس سے مجھے بہت درد تو ہوا مگر ناقابل برداشت نہیں تھا ، نوشابہ اپنی دونوں انگلیاں اندر باہر کرتی رہی ، اب مجھے بھی مزہ آرہا تھا ، جب میرے گانڈ کا سوراخ کافی نرم ہوگیا تو نوشابہ نے اپنی انگلیوں کو میری گانڈ سے نکال لیا ۔ پھر اس نے کھیرا اٹھا لیا اور اس پر بھی کافی سارا تیل لگا لیا اور مجھ سے پوچھا ، ماہ رخ ، میری بہن ، کیا تم تیار ہو ؟؟ میں نے کہا ، ہاں میں تیار ہوں ۔ نوشابہ نے کھیرا میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور اندر کی طرف دبا دیا ، کھیرا میری گانڈ میں پچچچچ کی ہلکی سی آواز کے ساتھ تھوڑا سا اندر داخل ہو گیا ، مجھے بہت درد ہوا اور میں آگے کو ہو گئی ، اور کھیرا میری گانڈ میں سے باہر نکل گیا ، میں نے نوشابہ سے کہا کہ بہت درد ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ گانڈ کو ڈھیلا چھوڑ دو پھر نہیں ہوگا ، میں نے ایسا ہی کیا ، اور نوشابہ کو کہا ، پھر سے ڈالو ۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کرتے ہوئے تقریباً 2 انچ تک کھیرا میری گانڈ کے اندر چلا گیا ، اس سے آگے مجھے زیادہ درد ہو رہا تھا اس کیے نوشابہ نے مزید آگے نہ کیا ، اور وہیں پر آگے پیچھے کرتی رہی ، کچھ دیر بعد میں نے کہا لاو مجھے دو اب میں خود کوشش کرتی ہوں ۔ میں نے کھیرا زمین پر سیدھا کھڑا کیا اور جیسے واشروم میں بیٹھتے ہیں ویسے ہی کھیرے پر بیٹھ گئی ، میں آرام آرام سے کھیرے پر بیٹھ رہی تھی ، جہاں تک نوشابہ نے اندر ڈالا تھا وہاں تک تو کھیرا آرام سے چلا گیا ، اس سے آگے درد ہونا شروع ہوگیا ، میں نے نوشابہ سے کہا نہیں جارہا آگے کیا کروں ؟ نوشابہ نے کہا میں کچھ کروں تو میں نے ہاں کر دی ۔ نوشابہ نے مجھے پتہ ہی نہ چلنے دیا اور میرے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر مجھے نیچے کی طرف دبا دیا ، نوشابہ نے اتنی زور سے دباو ڈالا تھا کہ میں کھیرے کے اوپر بیٹھتی چلی گئی ، اور سارا کھیرا میری گانڈ چیرتا ہوا اندر تک گھس گیا ۔ میرے منہ سے ایک زور دار چینخ نکلی ، آآآآئئئئئئئئییییی ہائیییییے ، میری چینخ اتنی زوردار تھی کہ ساتھ والے گھر سے تایا شکیل آوازیں دینے لگے ، کہ کیا ہوا ، نوشابہ نے یہ کہہ کر سنبھال لیا کہ ماہ رخ نے چھپکلی دیکھ لی ہے اور ڈر کی وجہ سے چینخی ہے ۔ درد اتنا شدید تھا کہ میری آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہہ رہے تھے درد تو بہت ہو رہا تھا لیکن کھیرا اب بھی میری گانڈ کے اندر ہی تھا کیونکہ نوشابہ اب بھی میرے کندھے دبائے کھڑی تھی ۔ میں نے بڑی مشکل سے نوشابہ کو ہٹایا اور کھیرے کو اپنی گانڈ سے باہر نکالا ، کھیرے نے میری گانڈ کو واقعی چیر دیا تھا کیونکہ اس کے اوپر میری کنواری گانڈ کا خون لگا ہوا تھا ، میں نے نوشابہ کو دکھایا تو اس نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا مبارک ہو تمھاری گانڈ کی سیل تو میں نے پھاڑ دی ہے اور تمھاری پھدی کی سیل میرا یار پھاڑ دے گا ۔

            جاری ہے ۔
            جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
            ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

            Comment


            • #16
              میں : ۔ اب تو کھیرا بڑی آسانی سے تمھاری گانڈ میں چلا جاتا ہو گا ؟؟؟؟

              مجھے کیا پتہ ، اس دن کے بعد میں نے دوبارا ڈالا ہی نہیں ، مجھے بہت ڈر لگتا ہے اور درد بھی بہت ہوتا ہے ۔

              میں : ۔ وہ کھیرا میرے لن سے کتنا بڑا تھا ؟؟؟؟؟

              ماہ رخ : ۔ نہیں بڑا تو نہیں تھا ، موٹا تو تقریباً تمھارے لن جتنا ہی ہوگا لیکن اتنا لمبا نہیں تھا ۔

              میں : ۔ اس دن کے بعد تم نے کھیرا بھی اندر نہیں لیا ، تو پھر تم کھیرے سے بھی بڑا لن آج کیسے لے سکو گی ۔

              ماہ رخ : ۔ لن اور کھیرے میں بڑا فرق ہوتا ہے لن تو بڑے مزے کی چیز ہے ، میں لے لوں گی بس تم آرام آرام سے اندر ڈالنا ۔۔۔۔

              میں : ۔ اچھا میں کوشش کروں گا کہ تمھیں زیادہ درد نہ ہو ۔

              ماہ رخ : ۔ پھپھو کو تو گولی دے دی ہے مگر مشال کا کیا ہوگا ؟؟؟

              میں : ۔ وہ ایک بار سو جائے تو پھر صبح سے پہلے نہیں اٹھتی ۔

              ماہ رخ : ۔ اٹھ بھی سکتی ہے یار ، پھر کیا کریں گے ؟؟؟

              میں : ۔ ہم نے کونسا یہاں کرنا ہے ، ہم تو چھت پر جا کر کریں گے ، تھوڑی دیر میں جب سب سو جائیں گے تو ہم دونوں چھت پر چلیں گے ۔

              ماہ رخ : ۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔ کوئی اور تو نہیں جاگ جائے گا نا ؟؟؟

              میں : ۔ ابو کو بھی گولی دے دی ہے اور دوسرے کمرے میں نوشابہ بھی جاگ رہی ہو گی اگر ادھر سے کچھ ہوا تو وہ ہمیں بتا دے گی ۔ اور مشال اگر جاگ بھی گئی تو اوپر آنے کی کوشش نہیں کرے گی کیونکہ وہ ڈرتی ہے ، وہ یہی سمجھے گی کہ تم دوسرے کمرے میں چلی گئی ہو ۔

              ماہ رخ : ۔ ہاں جی ! آج تو پورا بندوبست کیا ہوا ہے ، لگتا ہے آج میری گانڈ پھاڑ کر ہی چھوڑو گے ۔

              میں : ۔ دل تو میرا تمھاری پھدی پھاڑنے کا تھا ۔

              ماہ رخ : ۔ تو پھدی پھاڑ دو ، میرا بھی تو یہی دل ہے ، نوشابہ کو بعد میں سوری بول دیں گے ۔

              میں : ۔ تم نہیں جانتی اسے ، وہ ہم دونوں سے ناراض ہو جائے گی ، اور ویسے بھی میں اپنی جان کی کوئی بات ٹال نہیں سکتا ۔ جیسا وہ چاہے گی ویسا ہی ہوگا ۔

              ماہ رخ : ۔ اگر وہ کہے کہ آج ماہ رخ کی گانڈ بھی نہیں مارنی تو ؟؟؟؟؟

              میں : ۔ وہ یہ بات نہیں کہے گی ۔

              ماہ رخ : ۔ فرض کر لو ، اگر کہہ دے تو ؟؟

              میں : ۔ جو کام نہ ہونا ہو میں اسے فرض بھی نہیں کرتا ۔

              اچھا جی ، اگر نوشابہ ، سائمہ کے لیے نہ مانی تو کیا تم اسے کچھ نہیں کرو گے ۔

              میں : ۔ ہاں میں سائمہ کے ساتھ کچھ بھی کروں گا تو صرف نوشابہ کی مرضی سے ہی کروں گا ورنہ کچھ نہیں کروں گا ، ویسے تم بھی تو میرے لیے کسی کو تیار کر رہی ہو ، اس کا کیا بنا ؟؟؟

              ماہ رخ : ۔ وہی تو کر رہی ہوں ، بس تم تیار رہنا ، اور اپنی بات سے مکر نہ جانا ۔

              میں : ۔ نہیں مکرتا ، تم بے فکر رہو ۔

              ماہ رخ دیکھتے ہیں کہ تم کتنے پکے ہو اپنی زبان کے ۔

              ایک پل کے لیے تو میرے ذہن میں آیا کہ اسکی زیادہ دوستی تو مشال کے ساتھ ہی ہے کہیں یہ اسی کے بارے میں تو بات نہیں کر رہی ، پھر میں نے اس خیال کو دماغ سے جھٹک دیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ، اور مجھے نوشابہ نے بھی بتایا تھا کہ ماہ رخ نے اس سے بھی کسی اور کے بارے میں بات کی ہے ۔نوشابہ اور ماہ رخ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ مشال اور شفق بچپن سے ہی ہم لوگوں کے ساتھ رہتی ہیں اور ہم سب انھیں اپنی بہنیں مانتے ہیں اور وہ دونوں بھی ہمیں اپنے بہن بھائی اور امی ابو کو اپنے امی ابو سمجھتی ہیں ، نوشابہ اور ماہ رخ کوئی پاگل تو ہیں نہیں جو ایک بہن کو بھائی سے چدوائے گی ، اور ویسے بھی مشال ابھی بہت چھوٹی ہے ، پھر میرے دماغ میں ایک دم آیا کہ مشال تو سائمہ کی ہی ہم عمر ہے اگر سائمہ جوان ہو رہی ہے تو مشال بھی جوان ہو ہی رہی ہے لیکن کیونکہ میں مشال کو اپنی بہن سمجتا تھا اس لیے اس کے بارے میں اس انداز میں کبھی سوچا ہی نہیں ، اسی لیے وہ اب تک مجھے بچی ہی لگتی تھی ۔ مگر سائمہ ، پر سائمہ کی گانڈ کافی بڑی ہو گئی تھی اور اس کے ممے بھی واضع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ اور مشال کے ۔۔۔۔۔ مشال کا سوچتے ہی میرے سامنے مشال کا سراپا گھوم گیا ، میں نے غور کیا تو پتہ چلا ، مشال بھی واقعی جوان ہو رہی تھی ، اس کی گانڈ سائمہ کی طرح بڑی تو نہیں تھی مگر تھی بہت خوبصورت اور گول مٹول ۔۔۔ اس کے ممے بھی واضع ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ خوبصورت تو وہ پہلے بھی بہت تھی ، اب جوانی اس کے حسن کو اور نکھار رہی تھی ، میں مشال کے خیالوں میں ڈوبتا چلا گیا اور میرا لن فل کھڑا ہو گیا تھا ۔ آج زندگی میں پہلی بار میرا لن اس لڑکی کے نام پر کھڑا ہوا تھا جسے آج تک میں اپنی بہن سمجھتا تھا اور اسی نظر سے دیکھتا تھا ، اور اس خیال نے مجھے اتنا مزہ دیا کہ ماہ رخ کی پھدی پر لن رگڑنے سے بھی اتنا مزہ نہیں آیا تھا ۔ میں ان خیالوں سے ماہ رخ کے میسج کی وجہ سے باہر نکل آیا ۔

              ماہ رخ : ۔ کہاں گم ہو گئے ہو ، میسج کا جواب تو دو ۔

              میں : ۔ ہاں ہاں دیکھ لینا ۔

              مجھے شرمندگی بھی بہت ہو رہی تھی ، یہ میں کیا سوچ رہا ہوں ، وہ بھی اپنی بہن کے بارے میں ، مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔۔۔۔۔ایک بات حقیقت تھی کہ اس کے خیال نے ہی بہت مزہ دیا تھا مجھے ۔ میں نے سوچا کہ وہ کونسا میری سگی بہن ہے ، ہے تو چچا کی بیٹی ہی ، اور میں کونسا اس کے ساتھ کچھ کر رہا ہوں ، اور اگر صرف سوچنے میں اتنا مزہ ملتا ہے تو اس میں برا ہی کیا ہے ، برا تو اس وقت ہوگا جب میں کچھ برا کروں گا ، میں اپنی سوچوں میں کچھ بھی کروں اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ۔ میں مشال کو بچپن سے ہی بہن مانتا تھا اور ایک بہن کے بارے میں میری اس سوچ نے میری زندگی کو بدل کر رکھ دیا ۔ میں مشال کے بارے میں ایک بھائی کے طور پر ہی سوچ رہا تھا کیونکہ یہ رشتہ اتنا پختہ ہو چکا تھا کہ اب ہم چاہ کر بھی کزن والا رشتہ بحال نہیں کر سکتے تھے ۔

              میں اور ماہ رخ اس وقت تک باتیں کرتے رہے جب تک سب گھر والے سو نہیں گئے ۔ رات کے گیارہ ہوگئے تھے جب مجھے یقین ہو گیا کہ سب سو چکے ہیں تو میں نے نوشابہ کو میسج کیا کہ ہم چھت پر جا رہے ہیں ، اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا ۔ پھر میں نے ماہ رخ کو میسج کیا کہ پہلے واش روم جاو اور اگر کوئی مسئلہ نہ ہو تو وہا سے سیدھی چھت پر چلی جانا ۔ مگر اس نے کہا کہ پہلے تم جاو ، کیونکہ مجھے اکیلے چھت پر جانے سے ڈر لگتا ہے ۔ میں نے اچھا کہا اور باہر چلا گیا اور ابو کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو وہ سوئے ہوئے تھے آپی کے کمرے میں جانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نوشابہ وہاں موجود تھی ۔ پھر میں نے ماہ رخ کو میسج کیا کہ آتے ہوئے تکیہ ساتھ لیتی آنا ۔ چھت پر چارپائی تو تھی مگر تکیہ نظر نہیں آرہا تھا ، پھر میں ماہ رخ کے آنے کا انتظار کرنے لگا ۔

              کوئی پانچ منٹ کے بعد ماہ رخ کمرے سے باہر نکلی اور واشروم کی طرف چلی گئی ، میں چھت پر کھڑا سب دیکھ رہا تھا ۔ واشروم سے باہر آکر وہ کچھ دیر حالات کا جائزہ لیتی رہی اور پھر دب قدموں چھت کی طرف چل پڑی ۔ اس وقت میں اس کی حالت سمجھ سکتا تھا کیونکہ میری اپنی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی ، چھت پر تھوڑی ٹھنڈ بھی تھی ، ماہ رخ چھت پر پہنچ گئی اور آتے ہی مجھ سے لپٹ گئی اور بولی ۔

              ماہ رخ : ۔ ارسلان مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ، اگر کسی نے دیکھ لیا تو ۔

              میں : ۔ کوئی نہیں دیکھے گا ، تم پریشان کیوں ہوتی ہو ۔

              ماہ رخ : ۔ پھر بھی یار ، کوئی بھی آسکتا ہے ۔۔۔۔

              لڑکیوں کے اتنے نخروں پر مجھے غصہ آتا ہے ۔۔۔۔ میں نے بہت سی لڑکیاں دیکھی ہیں جو نہ نہ کرتے ہوئے پھدی مروا لیتی ہیں اور سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان کے منہ پر بس نہ ہی ہوتا ہے ۔ ایسا نہ کرو ، کوئی آ جائے گا ، کوئی دیکھ لے گا ، ارے بھئی اگر کسی کے دیکھ لینے کا اتنا ہی ڈر تھا تو یہاں چھت پر اپنی ماں کی پھدی مروانے کے لیے آئی ہو ۔

              میں : ۔ ٹھیک ہے پھر ، چلو نیچے چلتے ہیں ۔

              ماہ رخ : ۔ اوہ نہیں نہیں ، اب جو ہوگا دیکھ جائے گا ۔

              میں : ۔ تو پھر نخرے کیوں کر رہی ہو؟

              ماہ رخ : ۔ میں کہاں کر رہی ہوں نخرے یار بس ایسے ہی دل میں خیال آرہا تھا ۔

              میں : ۔ اچھا پھر شروع کریں ؟؟؟

              ماہ رخ : ۔ ہاں ، مگر پہلے میں تمہیں پیار کروں گی ۔

              میں : ۔ تو کر لو پیار ، روکا کس نے ہے ۔

              ہمارے گھر کی چھت کے دو طرف پردہ ہے اور ایک طرف میرے چھوٹے چاچو کا گھر ہے ان کی اور ہماری چھتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں سامنے بھی پردہ ہے مگر چھوٹا سا ہے اور سامنے والی چھت سے ہماری چھت صاف نظر آتی ہے ، میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی اس وقت ہمیں چھت پر دیکھ بھی سکتا ہے ۔ لیکن کوئی تھا جو ہمیں دیکھ رہا تھا ۔

              ماہ رخ پہلے ہی مجھ سے لپٹی ہوئی تھی اب اس نے اور زور سے مجھے جھپی ڈال لی اور میری گردن پر پیار کرنے لگی ۔ اس کی کسسنگ کے ساتھ ہی میرے اندر مزے کی لہریں اٹھنے لگیں ۔ لن صاحب تو پہلے ہی کھڑے تھے ، اب وہ ماہ رخ کی ٹانگوں کے درمیان گھسنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ لیکن میری اور ماہ رخ کی قمیضوں کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے ایسا ہو نہیں پا رہا تھا ۔ میں لن کو اس کی ٹانگوں میں گھسانا چاہ رہا تھا لیکن وہ نہیں جا رہا تھا ، ماہ رخ نے بھی یہ بات نوٹ کر لی اور جھپی چھوڑ کر میری اور اپنی قمیض اوپر اٹھائی اور لن کو ٹانگوں میں گھسانے کا راستہ بنا دیا ، پھر اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ سے پکڑا ، اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھلی کیں اور لن کو شلوار کے اوپر سے ہی اپنی پھدی پر رکھ دیا ، اور پھر سے جھپی ڈال لی ۔ اور بڑے ہی سیکسی انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ، اب خوش ، یہی کرنا چاہ رہے تھے نا تم ، آج میں تمہیں خوش کر دوں گی ، ایک دن تم نے مجھ سے پوچھا تھا نا کہ مجھے کیسے خوش کرو گی ، اور میں نے کہا تھا کہ تم بتاتے جانا اور میں کرتی جاوں گی ۔

              میں : ۔ ہاں کہا تو تھا ۔

              ماہ رخ : ۔ مگر آج تم نے کچھ نہیں بتانا ، میں تمہیں خود ہی خوش کر دوں گی ۔

              میں : ۔ ٹھیک ہے ۔

              ماہ رخ پھر سے اپنے کام پر لگ گئی ، وہ مجھے کسسنگ بھی کر رہی تھی اور میرے جسم پر ہاتھ بھی پھیر رہی تھی ۔ میری کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ماہ رخ کا ہاتھ میری گانڈ تک پہنچ گیا تھا ، مجھے کچھ عجیب سا تو لگا ، مگر میں نے کہا کچھ نہیں ۔ اب وہ میرے کولہوں کو مٹھیوں میں بھینچ رہی تھی ، مجھے مزہ آنے لگا ، ایسا کرتے کرتے اس نے اپنا ہاتھ میری گانڈ کی لکیر میں سے گزارا ، مجھے مزے کا ایک زوردار جھٹکا لگا ، یہ مزہ میرے لیے نیا تھا ، اج سے پہلے میں نے ایسا مزہ محسوس نہیں کیا تھا ، میرے منہ سے اااااااااہہہہہہہہہ نکل گئی ، اور میں نے ماہ رخ سے کہا ۔

              میں : ۔ یہ کیا کر رہی ہو ماہ رخ ؟؟؟؟

              ماہ رخ : ۔ مزہ نہیں آرہا کیا ، میری آپی کے شوہر کو ؟؟؟؟

              میں : ۔ مزہ تو آرہا ہے ، مگر عجیب بھی لگ رہا ہے ۔

              ماہ رخ : ۔ تم چپ کرکے صرف مزے لو ، کیا عجیب ہے کیا نہیں یہ بعد میں سوچیں گے ۔

              میں : ۔ مگر تمہیں یہ سب کس نے بتایا ہے ؟؟؟؟

              ماہ رخ : ۔ اس دن جب تم نے جب میری گانڈ میں ہاتھ پھیرا تھا تو مجھے بہت مزہ آیا تھا ۔۔۔۔یہی سوچ کر میں نے بھی کردیا کہ شاید تمہیں بھی مزہ آئے۔

              میں : ۔ ہاں مزہ تو خوب آتا ہے ۔

              ماہ رخ : ۔ بس اب چپ کر کے کھڑے رہو اور کوئی بات نہیں کرنی ، مجھے آج جی بھر کر پیار کرنے دو ۔

              میں : ۔ اچھا جی کر لو پیار ، جی بھر کے، میں چپ رہوں گا ۔

              اب ماہ رخ پھر سے شروع ہو گئی اور اس بار اس نے سب سے پہلے میرے ہونٹوں پر حملہ کیا ، اور نیچے سے میری گانڈ پر ہاتھ رکھ دیا ، وہ زیادہ تر میرے ہپس پر ہاتھ پھیر رہی تھی اور کبھی کبھی ایک دو انگلیاں یا پھر سارا ہاتھ ہی میری گانڈ کی لکیر میں پھیر دیتی تھی ، جب بھی اس کی انگلیاں یا ہاتھ میری گنڈ کی لکیر میں سے گزرتی مجھے ایک انوکھا سا سرور محسوس ہوتا تھا ، ماہ رخ کے ممے میرے سینے پر محسوس ہو رہے تھے اور اس کا ہاتھ میری گانڈ پر تھا ، اور میرا لن اس کی ٹانگوں کے اندر باہر ہو رہا تھا اور اوپر سے ہمارے ہونٹ بھی آپس میں جڑے ہوئے تھے ، مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ ہم کہاں ہیں ، میں اس کے پیار کے نشے میں مد ہوش ہو چکا تھا

              جاری ہے ۔
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • #17
                میں اس مزے کی دنیا سے باہر اس وقت آیا جب ماہ رخ نے کسسنگ روک دی اور آہستہ سے میرے کان میں کہا ۔

                ماہ رخ : ۔ کزن جی ! اب اپنی شلوار تو اتار دو ۔

                میں : ۔ تم کس لیے ہو ، کیا تم خود نہیں اتار سکتیں ؟

                ماہ رخ : ۔ کیسے مرد ہو ، ایک لڑکی سے اپنی شلوار اتروا رہے ہو ؟

                میں : ۔ اور وہ لڑکی میری پیاری کزن ہے ، اور سالی بھی ہے ، سالی تو ہوتی ہی آدھی گھر والی ہے ، وہ میری شلوار نہیں اتارے گی تو اور کون اتارے گا ؟

                ماہ رخ : ۔ اچھا جی ! میں ہی اتار دیتی ہوں ، آخر لن بھی تو میں نے ہی لینا ہے ۔

                یہ کہہ کر ماہ رخ نیچے بیٹھ گئی ، میری قمیض اوپر اٹھائی اور کہا اب اسے تو پکڑ لو ، میں نے اپنی قمیض پکڑ لی ، ماہ رخ نے شلوار کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑ لیا اور اسے اپنے چہرے پر ملنے لگی ، آج ماہ رخ کا ہر انداز انوکھا اور ہر وار مختلف تھا ، جانے اس نے یہ سب کچھ کہاں سے سیکھ لیا تھا ، پر جو بھی تھا ، آج وہ مجھے مزے سے پاگل کر رہی تھی ۔ پھر ماہ رخ نے میرا ازاربند کھولا اور شلوار اتار کر سائیڈ پر رکھ دی ، اور میرا لن پکڑ کر دیکھنے لگی ، میرا لن فل سخت ہوچکا تھا اور مزے سے جھٹکے لے رہا تھا ، مجھے نہیں پتہ وہ میرے لن میں کیا دیکھ رہی تھی ، پھر اس نے میری طرف دیکھا اور آہستہ آہستہ اپنا منہ میرے لن کی طرف بڑھانے لگی ، میں سمجھ گیا کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے ، اور میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ، کیونکہ ابھی مجھے جو مزے کا جھٹکا لگنے والا تھا میں اسے پوری طرح سے محسوس کرنا چاہتا تھا ، ماہ رخ کا منہ اب میرے لن کے بالکل پاس پہنچ چکا تھا اور اس کی گرم سانسیں مجھے اپنے لن پر محسوس ہو رہیں تھیں ، پھر اس کے ہونٹ میرے لن کی ٹوپی کو ٹچ ہوئے ، اس نے ذرا سا میرے ٹوپی کو چوما اور پھر کھڑی ہو گئی ، میں نے حیرانگی سے آنکھیں کھولیں اور ماہ رخ کو شکایتی نظروں سے دیکھا ، ماہ رخ نے ہنستے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہا ، کیا ہوا میرے پیارے جیجاجی کو ؟

                میں : ۔ یہ کیا ہے ماہ رخ ؟ تم نے منہ میں کیوں نہیں لیا ؟

                ماہ رخ : ۔ میں بھلا کیوں لینے لگی تمھارا لن ، اپنے منہ میں ، اپنی بیوی کو بولو ، اب وہی چوسے گی تمھارے لن کو ۔

                میں : ۔ تمہیں میری بیوی سے کیا ؟ تم تو چوسو نا ، اور وہ تو اپنی گانڈ میں بھی نہیں لے گی میرا لن ، جبکہ تم نے آج مجھے سے گانڈ بھی مروانی ہے تو پھر لن بھی چوس لو ۔

                ماہ رخ : ۔ ایک تو تم جلدی بہت کرتے ہو ، پوری رات پڑی ہے ابھی ، اور میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ درمیان میں مت بولنا ۔

                میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ، اب نہیں بولوں گا مگر تم نے میرا لن ضرور چوسنا ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ اچھا نا ، چوس لوں گی میں اپنے پیارے سے کزن کا پیارا سا لن ، اب خوش ؟

                ماہ رخ نے پھر پہلے والی حرکتیں شروع کر دی تھیں ، فرق صرف اتنا تھا کہ اب میرا لن ننگا اس کی ٹانگوں میں تھا اور اس کے ہاتھ میری ننگی گانڈ پر تھے ۔ مجھے اب پہلے سے بھی زیادہ مزہ آرہا تھا ، ماہ رخ اب صرف گانڈ کی لکیر میں ہاتھ پھیر رہی تھی مگر اس نے انگلی اندر ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی ، لیکن جب بھی اس کی انگلیاں میری گانڈ کے سوراخ پر جاتیں تو جانے کیوں میرے دل میں شدت سے یہ خواہش اٹھتی کہ کا اس بار ما رخ اپنی انگلی میری گانڈ کے اندر ڈال دے ، لیکن ایسا نہ ہوا ، اور میں بھی ماہ رخ کو نہ کہہ سکا ، آخر مرد تھا نا ، تو ایک لڑکی کو کیسے کہہ دیتا کہ میری گانڈ میں اپنی انگلی ڈالو ۔ کچھ دیر بعد ماہ رخ پھر پیچھے ہٹی اور میری قمیض کے بٹن کھولنے لگی ، جب وہ قمیض اتارنے لگی تو میں نے ہاتھ اٹھا کر اس کی مدد کی ، اس نے قمیض کے ساتھ ہی میری بنیان بھی اتار دی تھی ، اور میں اس کے سامنے بالکل ننگا کھڑا ہوا اپنا لن لہرا رہا تھا ، جبکہ ماہ رخ ابھی تک فل کپڑوں میں تھی ، اب کی بار اس کا نشانہ میری گردن اور سینہ بنے ، میری گردن اور سینے کو چومتے چومتے شاید اب وہ کھڑے کھڑے تھک گئی تھی اس لیے بولی چلو اب لیٹ کر کرتے ہیں ، میں ٹھیک ہے کہہ کر چارپائی کی طرف جانے لگا تو وہ بولی چارپائی پر مزہ نہیں آئے گا یہ چٹائی پڑی ہے اسے ہی چھت پر بچھا لیتے ہیں پھر اسی پر کرتے ہیں ، مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا ، میں نے چٹائی بچھائی اور اس پر سیدھا لیٹ گیا ، ماہ رخ میرے اوپر آنے لگی تو میں نے کہا ، میرے تو سارے کپڑے اتار دیے ہیں ، اب اپنے بھی اتارو نا ،

                ماہ رخ : ۔ تمھارے کپڑے میں نے اتارے ہیں ، تمھیں چاہیے تھا کہ میرے کپڑے تم خود اتار دیتے ۔

                میں : ۔ لاو پھر میں اتار دیتا ہوں تمھارے کپڑے ۔۔۔

                ماہ رخ : ۔ بس لیٹے رہو ، اپنے کزن کے لیے میں خود ہی اپنے کپڑے اتاروں گی ۔۔۔اور خود ہی اپنے آپ کو اپنی بہن کے یار کے لیے ننگا کر کے پیش کروں گی ۔

                یہ کہہ کر ماہ رخ نے پہلے اپنی قمیض اتاری ، پھر شلوار اور اس کے بعد انڈر گارمنٹس بھی اتار دیے ، اب وہ بھی میری ہی طرح بالکل ننگی میرے سامنے کھڑی تھی ، کچھ اندھیرا بھی تھا جسکی وجہ سے وہ مجھے اچھی طرح نظر تو نہیں آرہی تھی ، مگر مجھے مزہ دینے کے لیے یہی کافی تھا کہ میری کزن اور میری جان نوشابہ کی بہن میری لیے ننگی ہو کر میرے پاس آرہی تھی ، اور کچھ ہی دیر میں مجھے سے گانڈ بھی مروانے والی تھی ، اپنے کپڑے اتارنے کے بعد ماہ رخ نے مجھ سے کہا ، چلو الٹے ہو جاو ۔

                میں : ۔ مجھے تمھاری گانڈ مارنی ہے ، تم سے گانڈ مروانی تو نہیں ہے جو تم مجھے الٹا ہونے کا کہہ رہی ہو ۔

                ماہ رخ : ۔ تم میری گانڈ مار سکتے ہو تو کیا میں تمھاری گانڈ نہیں مار سکتی ؟؟

                میں : ۔ پیاری کزن ! گانڈ مارنے کے لیے ایک عدد طاقتور لن کی ضرورت ہوتی ہے جو تمھارے پاس نہیں ہے ۔

                ماہ رخ : ۔ میں تمھاری گانڈ ، لن کے بغیر ہی ماروں گی ۔

                میں : ۔ ماہ رخ ایک کام کرو ، یا مروا لو یا پھر مار لو ۔

                ماہ رخ : ۔ ہاہاہاہاہاہا ، میرے پاس کونسا لن ہے جو میں تمھاری گانڈ ماروں گی ، تم ہی مار لینا ، بس اب جیسے میں کہہ رہی ہوں ویسا ہی کرو ۔

                میں الٹا ہو کر لیٹ گیا ، لیکن میں ڈر رہا تھا کہ کہیں یہ کھیرا یا گاجر مولی ہی نہ اٹھا لائی ہو اور میری گانڈ میں گھسا دے ، لڑکیاں ہوتی تو پاگل ہی ہیں جانے کب کیا کر جائیں ان کا کیا بھروسہ ۔ الٹا لیٹنے میں بہت مسئلہ ہو رہا تھا کیونکہ میرا لن فل کھڑا تھا جس کی وجہ سے الٹا لیٹا نہیں جا رہا تھا ، میں نے ماہ رخ کو بتایا تو وہ بولی ، چلو پہلے میں تمھارے لن کا علاج کر دیتی ہوں پھر تمھیں الٹا کروں گی ، اور مجھے سیدھا ہونے کو کہا تو میں پھر سے سیدھا لیٹ گیا ۔ ماہ رخ اب میرے اوپر لیٹ گئی ، جیسے ہی وہ میرے اوپر لیٹی ایک سکون کی لہر میرے جسم میں پھیل گئی ۔ بہت ہی نرم و ملائم جسم تھا ، دل کر رہا تھا کہ کچھ بھی نہ کروں اور بس ایسے ہی لیٹا رہوں ، اور ماہ رخ ایسے ہی میرے اوپر لیٹی رہے ۔ ماہ رخ نے پھر سے کسسنگ شروع کردی اور میرے ہونٹوں ، گردن ، سینے سے ہوتی ہوئی میرے پیٹ تک آگئی ، پیٹ تک آکر وہ رک گئی اور وہیں پر چومنے اور چاٹنے لگی ، میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ وہ جلدی سے نیچے جائے اور میرا لن اپنے منہ میں لے کر چوسے ، لیکن وہ تو نیچے جا ہی نہیں رہی تھی ، مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ ماہ رخ جان بوجھ کر مجھے تڑپا رہی ہے ۔ میں نے بھی دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو جائے میں نے اب منہ سے بول کر نہیں کہنا ، ماہ رخ کافی دیر پیٹ اور لن کے اوپر بالوں والی جگہ کو چومتی اور چاٹتی رہی مگر لن کو منہ نہیں لگایا ، اس کے بعد وہ نیچے کی طرف آئی اور لن کے ساتھ منہ لے گئی ، اس کی گرم سانسیں ایک بار پھر مجھے اپنے لن پر محسوس ہوئیں ، اور میں نے پھر ایک بار اپنی آنکھیں بند کر لیں ، اور اس بار بھی میرے ساتھ ویسا ہی ہوا ماہ رخ کا منہ میرے لن کے اوپر سے ہوتا ہوا میری تھائی پر چلا گیا ، وہاں بھی مزہ تو بہت آیا ، مگر میں نے جس مزے کے لیے آنکھں بند کی تھیں وہ تو نہ مل سکا ، مجھے غصہ تو بہت آیا مگر میں کچھ نہ بولا اور دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ ایک بار میرے نیچے آ جائے پھر اسکی ساری مستیاں گانڈ کے راستے باہر نکالوں گا ، ماہ رخ نے میری دونوں تھائیوں کو باری باری اوپر سے نیچے تک چوما اور پھر اوپر کو آتے ہوئے میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گئی اور میری ٹانگوں کو دونوں سائیڈوں میں کھول دیا ، اب وہ سب کچھ تو کر ہی چکی تھی بس لن چوسنا ہی رہ گیا تھا اور اب اس نے وہی کرنا تھا ، ماہ رخ نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ہلانے لگی ، پھر وہ نیچے جھکی اور کچھ زیادہ ہی جھک گئی ، اور اس کے ممے میرے لن کو ٹچ ہونے لگے ، اور اس نے میرے لن کو اپنے مموں پر مارنا شروع کر دیا ، یہ بھی میرے لیے ایک نیا مزہ تھا ، لن جیسے ہی اس کی مموں سے ٹکراتا مجھے بڑا مزہ ملتا ، اور ان کے ٹکرانے سے آواز پیدا ہو رہی تھی ، ماہ رخ نے لن اپنے سینے پر مار مار کر میرا لن اور اپنے ممے دونوں ہی لال سرخ کر لیے تھے ، وہ پتہ نہیں کیا کرنا چاہتی تھی آج ، مجھے مزہ تو بہت آرہا تھا مگر اس کے لن نہ چوسنے کی تڑپ اپنی جگہ موجود تھی

                جاری ہے ۔
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • #18
                  میں چاہتا تھا کہ وہ جلد از جلد میرا لن اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دے ، اور پھر آخر وہ بھی مجھے تنگ کرتے کرتے تھک گئی تھی ، اس نے میرے لن کی ٹوپی کو چوم لیا اور میری طرف دیکھا ، پھر بڑے پیار سے صرف ٹوپی پر ایک چوپا لگایا اور پھر میری طرف دیکھا ، اسی طرح وہ بار بار ایک چوپا لگاتی اور میری طرف دیکھتی رہی ، کچھ دیر ایسا ہی کرنے کے بعد اس نے باقاعدہ میرا لن چوسنا شروع کر دیا ، میں سیدھا لیٹا ہوا تھا اور وہ میری ٹانگوں کے بیچ گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی میرا لن چوس رہی تھی ، میرا لن کافی دیر سے کھڑا ہوا تھا اور مسلسل ماہ رخ کے ظلم وستم سہہ رہا تھا ، مجھے لگا کہ میں زیادہ دیر برداشت نہیں کر پاؤں گا ، اور ہوا بھی یہی ، ابھی ماہ رخ کو میرا لن چوستے ہوئے 3 یا 4 منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے اپنے اندر ہلچل سی محسوس ہونے لگی ، اب میں نے بھی نیچے سے دھکے مارنے شروع کر دیے ، ماہ رخ کو اندازہ ہو گیا کہ اب میں فارغ ہونے والا ہوں تو اس نے میرا لن اپنے منہ سے باہر نکالا اور اپنے ہاتھ سے جلدی جلدی مٹھ مارنے لگی ، کچھ ہی سیکنڈ بعد میں فارغ ہو گیا ، ساری منی ماہ رخ کے ہاتھ پر اور میرے جسم پر گر گئی ، ماہ رخ نے ساتھ پڑا ہوا کپڑا اٹھایا پھر اپنا ہاتھ میرا لن اور میرا جسم صاف کر دیے ، میں نے اپنا جسم بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا تھا ، ماہ رخ مجھ سے بولی ، چلو اب الٹے ہو جاؤ ،

                  میں : ۔ یار ابھی سانس تو لینے دو ۔

                  ماہ رخ : ۔ واہ جی واہ ! محنت ساری میں نے کی ہے اور سانس ان جناب کی چڑھی ہوئی ہے ،

                  میں : ۔ محنت کی تو تم نے ہی ہے ، مگر یہ محنت ہوئی کس پر ہے ؟؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ میں کچھ نہیں جانتی ، تم بس الٹے ہو جاؤ نا پلیز ۔۔۔۔

                  میں : ۔ یہ کیا ضد پکڑ لی ہے تم نے ماہ رخ ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ میں نے لیٹنا ہے تمھارے اوپر ۔

                  میں : ۔ تو لیٹ جاو نا ، میں نے کب منع کیا ہے آجاو ۔

                  ماہ رخ : ۔ نہیں پہلے تم الٹے ہو جاو میں تمھارے اوپر سیدھی لیٹوں گی ۔

                  میں : ۔ شاباش ! یہ الٹا سیدھا کام کہا سے سیکھ رہی ہو ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ بس میرے دل میں جو آتا ہے میں وہی کرتی ہوں ۔

                  میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا اور الٹا لیٹ گیا ، ماہ رخ بھی اٹھی اور میرے اوپر سیدھا لیٹنے کی کوشش کرنے لگی ، وہ اپنی گانڈ کو میری گانڈ کے اوپر رکھ کر لیٹنے کی کوشش کر رہی تھی مگر بیلنس نہیں ہو پا رہا تھا ، وہ ہنستے ہوئے بار بار کوشش کر رہی تھی ، اس وقت وہ بالکل ہی چھوٹی بچی لگ رہی تھی ، کچھ بار کوشش کرنے کے بعد آخر وہ لیٹنے میں کامیاب ہو ہی گئی ، ماہ رخ کی گانڈ میری گانڈ کے اوپر تھی ، اس کی نرم نرم گانڈ کو اپنی گانڈ پر محسوس کرنا بھی میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا ۔ وہ بہت خوش ہو رہی تھی اسی وقت میرے موبائل پر میسج موصول ہوا جس کا پتہ مجھے اس کی لائٹ آن ہونے سے لگا ، میں نے ماہ رخ کو فون اٹھا کر دینے کو کہا تو اس نے اٹھ کر مجھے فون اٹھا دیا ، میسج نوشابہ کا تھا میں نے ماہ رخ کو بتایا تو وہ میرے اوپر الٹی لیٹ گئی ، اب اس کے ممے میری کمر پر دب رہے تھے ، اور ہم دونوں نوشابہ سے بات کر نے لگے ، نوشابہ نے پوچھا تھا ۔

                  نوشابہ : ۔ مار لی میری بہن کی گانڈ ؟؟؟؟

                  میں : ۔ نہیں ، ابھی کہاں ، ابھی تو یہ میری مار رہی ہے ۔

                  نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ، کیا مطلب ؟؟

                  میں : ۔ مطلب یہ کہ مجھے الٹا لٹا کر میرے اوپر لیٹی ہوئی ہے اور مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دے رہی ۔

                  نوشابہ : ۔ تمھارے پاس ہی ہے وہ ؟ ذرا اسے دینا فون ۔

                  میں : ۔ وہ بھی ساتھ ساتھ پڑھ رہی ہے تم بات کرو ۔

                  نوشابہ : ۔ اے ماہ رخ کی بچی ، کمینی ، کیوں میرے شوہر کو گانڈ مارنے نہیں دے رہی ہو ؟؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ میں نے کب منع کیا ہے ؟ آپکے شوہر صاحب کے لن صاحب آرام فرما رہے ہیں ، جب وہ جاگ جائیں گے تب آپ کی چھوٹی بہن کی گانڈ ماریں گے ۔

                  نوشابہ : ۔ تو تم نے سونے ہی کیوں دیا میرے جانو کے لن کو ؟ کیا اسی لیے بھیجا تھا میں نے تم کو ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ آپ کے شوہر میں اتنا ہی دم ہے میں کیا کروں ؟

                  نوشابہ : ۔ ارسلان ! آج اس کمینی کو دکھا ہی دینا کہ تم میں کتنا دم ہے ، چھوڑنا نہیں ہے اس کمینی کو ۔

                  میں : ۔ ایک بار میرے نیچے تو آئے پہلے ، اس کے چودہ طبق روشن نہ کیے تو کہنا ۔

                  نوشابہ : ۔ ہوا کیا ہے ؟ فارغ کیوں لیٹے ہوئے ہو ؟ کچھ کر کیوں نہیں رہے ؟؟؟

                  میں : ۔ ابھی ابھی تمھاری بہن نے چوس چوس کر میرے لن کو فارغ کر دیا ہے اسی لیے فارغ لیٹے ہوئے ہیں ، کچھ دیر تک مارتا ہوں تمھاری بہن کی گانڈ ۔

                  نوشابہ : ۔ ویسے ارسلان تم ہو بڑے بے وفا ، بوائے فرینڈ میرے ہو اور گانڈ مار رہے ہو میری چھوٹی بہن کی ۔

                  میں : ۔ تو تم آجاو ! اور اپنی بہن کی گانڈ مجھ سے بچا لو ۔

                  نوشابہ : ۔ میری بہن ہے ہی ایسی کمینی ، اب کس کس سے بچاتی پھروں گی ، بہتر ہے کہ تم مار ہی لو اس کی گانڈ ۔

                  میں : ۔ وہ تو میں مار ہی لوں گا ، ویسے اگر سب سو گئے ہیں تو تم بھی آجاو ۔

                  نوشابہ : ۔ کہاں سو گئے ہیں ؟ تمھاری صباء آپی اپنے ہونے والے شوہر سے بات کر رہی ہیں فون پر ۔ دل تو میرا بھی بہت کر رہا ہے آنے کو ، تم دونوں اکیلے اکیلے مزے کر رہے ہو اور میں یہاں پر تڑپ رہی ہوں ۔

                  میں : ۔ تمہیں خود ہی شوق ہے تڑپنے کا ۔

                  نوشابہ : ۔ شوق نہیں ہے ، میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ آج آکر میری پھدی مار لینا ، مگر تم تو میری بہن کی گانڈ مارنے چلے گئے ہو ، میری پھدی کی تو تمھیں کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔

                  میں : ۔ تم آو گی تب ہی ماروں گا نا میں تمھاری پھدی ، اب میں وہاں کیسے آسکتا ہوں ؟؟؟؟

                  نوشابہ : ۔ جنہوں نے لینی ہوتی ہے وہ ڈرتے نہیں ہیں ۔

                  میں : ۔ اب اپنی بہنوں کے سامنے تو میں تمھاری پھدی مارنے سے رہا ، اس سے تو اچھا ہے کہ میں تمھاری بہن کی گانڈ ہی مار لوں ، کیونکہ اس کی پھدی پر تو تم نے پابندی لگا دی ہے ۔

                  نوشابہ : ۔ ہاہاہاہا ، اس سے یاد آیا ، ماہ رخ اسے اپنی پھدی نہ مارنے دینا ۔

                  ماہ رخ : ۔ میں کیسے روک سکتی ہوں ، جو میرے کزن کا دل چاہے گا وہ مار سکتا ہے ۔

                  نوشابہ : ۔ بہت کُتی ، کمینی ہو تم ، اور ارسلان ، خبر دار اسکی پھدی مت مارنا ۔

                  میں : ۔ اچھا یار نہیں مارتا ، تم اچار ڈال لینا اپنی اور اپنی بہنوں کی پھدیوں کا ۔( اس بات پر ماہ رخ بہت ہنسی اور اتنا زور سے ہنسی کہ مجھے ڈر لگنے لگا کہ کہیں کوئی اٹھ نہ جائے )

                  نوشابہ : ۔ ہاہاہاہاہا ، کمینے انسان ، مذاق نہ اڑاؤ ہم بہنوں کی پھدیوں کا ۔

                  میں : ۔ تو اور کیا کروں ؟ اپنی تم دیتی نہیں ہو ، ماہ رخ کی مارنے پر تم نے پابندی لگائی ہوئی ہے ، سائمہ کے بارے میں تم بات نہیں کرنے دیتی ، تو پھر اور کیا کرنا ہے ، اچار ہی ڈال لو ۔

                  نوشابہ : ۔ تم ہی لو گے ہماری پھدیاں ، مگر میری موجودگی میں ۔

                  ماہ رخ کے ممے میری ننگی کمر پر رگڑ کھا رہے تھے اور نوشابہ کی باتیں بھی سیکسی تھیں ان کی وجہ سے میں گرم ہونا شروع ہو گیا تھا اور میرے لن نے بھی انگڑائیاں لینی شروع کر دی تھیں ، تو میں نے نوشابہ سے کہا ۔

                  میں : ۔ چلو اب بس کرو میں ذرا تمھاری بہن کی گانڈ مار لوں ۔

                  نوشابہ : ۔ کتنے ظالم ہو تم ، بچی پر ذرا بھی ترس نہیں آرہا ۔

                  میں : ۔ تم ماہ رخ سے پوچھ لو ، اگر اسے ظلم لگتا ہے تو میں نہیں مارتا تمھاری بہن کی گانڈ ۔

                  ماہ رخ : ۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے ، بے شک ارسلان میری گانڈ کے ساتھ ساتھ میری پھدی بھی مار لے ۔

                  نوشابہ : ۔ تو پھر ٹھیک ہے ارسلان آج اس کی ایسی گانڈ مارنا کہ یہ آئیندہ گانڈ مروانے کا نام بھی نہ لے سکے ۔

                  میں : ۔ اچھا ٹھیک ہے ۔ میں نے نوشابہ کو بائے بولا اور ماہ رخ کو سائیڈ پر لیٹنے کو کہا ۔۔۔۔ماہ رخ میری کمر سے اتر کر ایک سائیڈ پر لیٹ گئی اور پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگی ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ۔

                  میں : ۔ میری طرف ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟؟؟؟

                  ماہ رخ : ۔ کچھ نہیں , ارسلان کیا تم واقعی میری گانڈ مارنے لگے ہو ؟؟؟

                  میں : ۔ ہاں کیا اتنا ہونے کے بعد بھی تمہیں کوئی شک ہے ۔

                  ماہ رخ : ۔ مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا کہ میں اپنے کزن اور میری بڑی بہن کے بوائے فرینڈ سے اپنی گانڈ مروا رہی ہوں ۔

                  میں : ۔ کر لو یقین ، میں اپنی سالی کی گانڈ مارنے لگا ہوں ۔

                  ماہ رخ : ۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میری پھدی سے پہلے میری گانڈ میں لن جائے گا ۔

                  میں : ۔ کیا تمھیں اچھا نہیں لگ رہا گانڈ میں لن ڈلوانا ۔

                  ماہ رخ : ۔ نہیں ایسی بات نہیں ہے ، میں تو بہت خوش ہوں کہ میرا سب سے بیسٹ کزن میری گانڈ چودے گا ، مگر میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا پھدی سے پہلے گانڈ مروانے کے بارے میں ۔

                  میں : ۔ اچھا جی اب ساری رات باتیں ہی کرتی رہو گی یا گانڈ بھی مرواؤ گی ۔

                  ماہ رخ : ۔ گانڈ مروانی ہے ، چاہے آج کچھ بھی ہو جائے ، تمھارا لن تو میں آج اپنے اندر لے کے ہی رہوں گی ۔

                  میں : ۔ تو پھر ٹھیک ہے اب باتیں بند کرو اور مجھے اپنا کام شروع کرنے دو ۔

                  ماہ رخ : ۔ ٹھیک ہے میں نہیں بولتی ، پر میری گانڈ پر تیل اچھی طرح لگا لینا ۔

                  میں : ۔ اوہ شٹ ! تیل تو میں لانا ہی بھول گیا

                  ماہ رخ : ۔ مجھے نہیں پتہ ، تیل کے بغیر میں نے نہیں مروانی گانڈ ، جاو پہلے تیل لے کر آؤ۔

                  میں : ۔ اب پھر کپڑے پہننے پڑیں گے ۔

                  ماہ رخ : ۔ کونسا کوئی جاگ رہا ہوگا ، بلکہ ٹھہرو میں بھی چلتی ہوں ، مجھے اکیلے میں ڈر لگتا ہے ۔

                  میں : ۔ یار بہت رسک ہے اس میں ، کوئی بھی واش روم کے لیے باہر نکل سکتا ہے ۔

                  ماہ رخ : ۔ تم نوشابہ سے میسج کر کے بس آپیوں کے بارے میں پوچھ لو ، باقی کوئی نہیں اٹھے گا ۔ میں نے نوشابہ کو میسج کردیا ۔

                  میں : ۔ نوشابہ ہم نیچے آرہے ہیں ننگے ہی ،کوئی باہر تو نہیں آرہا ؟؟؟

                  نوشابہ : ۔ نہیں ، مگر دونوں ننگے کیوں آرہے ہو نیچے ؟؟؟؟؟

                  میں : ۔ یار وہ تیل اٹھانا بھول گیا تھا ، اور تمھاری بہن تیل کے بغیر گانڈ مارنے نہیں دے رہی ۔

                  نوشابہ : ۔ ماہ رخ تو ہے ہی کمینی ، آجاو کوئی نہیں آنے والا باہر ، مگر دھیان سے کہیں پھنس ہی نا جانا دونوں ۔

                  ہم دونوں ایک ساتھ اٹھے اور نیچے جانے لگے ، ہم دونوں ایک ساتھ ننگے پھر رہے ہیں یہ خیال ہی بہت مزے والا تھا ، میں نے چلتے چلتے اپنا ایک ہاتھ ماہ رخ کی گانڈ پر رکھ دیا ۔ اور ماہ رخ نے بدلے میں میرا لن پکڑ لیا تھا ڈر بھی بہت لگ رہا تھا ، پر مزہ بھی بڑا آرہا تھا ۔ یونہی مستیاں کرتے ہم نیچے پہنچ گئے اور واش روم سی تیل کی بوتل اٹھائی اور واپس اوپر چلے گئے ، ہم موبائل کی روشنی میں چل رہے تھے ، واپس اوپر پہنچ کر ماہ رخ سیم پہلے والی پوزیشن میں لیٹ گئی ۔ میں نے تیل سائیڈ پر رکھا اور ماہ رخ کے اوپر لیٹ گیا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں کے پاس لے گیا ، اس نے خود ہی اپنے ہونٹ کھول کر میرے ہونٹوں کو ویلکم کیا اور ہم ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے لگے ۔ پہلے پہل ہم آرام آرام سے ہونٹ چوستے رہے پھر ہماری سکنگ میں شدت آتی گئی ، ہم کافی دیر ایسے ہی ایک دوسرے کے ہونٹ سک کرتے رہے دونوں میں سے کوئی بھی ہونٹ چھوڑنے کو تیار نہیں ہو رہا تھا ۔ ماہ رخ بھی گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی تھی اور میرا لن بھی فل کھڑا ہو کر جھٹکے مار رہا تھا ، پھر میں نے ماہ رخ کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اسکی گردن کو چومنے اور چاٹنے لگا ۔ ماہ رخ کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں نکل رہی تھیں ، میں اس کی گردن سے ہوتا ہوا اس کے مموں پر آگیا تھا ۔ ایک ممے کو اپنے منہ میں بھر لیا اور ایک کو اپنے ہاتھ سے دبانے لگا ، ماہ رخ کے منہ سے ہلکی ہلکی اااااااااہہہہہہہہہ سسسسسسسسسی آااااااااااااہ کی آوازیں نکلنے لگیں اور اس کا ہاتھ میرے سر پر آگیا ۔ وہ اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے بالوں میں پھیرنے لگی اور بولی ، شکریہ ارسلان تم بہت اچھے ہو اااااااااہہہہہہہہہ، مجھے بہت مزہ آرہا ہے ، آااااااااااااہ آج سے میرا سب کچھ تمھارا ہے ، میرے ساتھ جو چاہو کرو میں کبھی نہیں روکوں گی اااااااااہہہہہہہہہ سسسسسسسس، پلیز ، تم کبھی مجھ سے ناراض نہ ہونا ، اور مجھے ایسے ہی مزے دیتے رہنا ، تمہیں نہیں پتہ میں نے کتنی مشکل سے یہ دن گزارے ہیں اس دن کے انتظار میں ، میں اور نوشابہ ہر وقت تمھاری اور تمھارے لن کی باتیں کرتی رہتی ہیں سسسسسسسس اااااااااہہہہہہہہہ، نوشابہ بھی تم سے بہت پیار کرتی ہے اور میں بھی ، اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں وہ جذبات میں بڑبڑاتی جا رہی تھی ، میں اس کی باتیں سن تو رہا تھا مگر کوئی جواب دیے بغیر اپنے کام میں لگا ہوا تھا ، میں باری باری ماہ رخ کے دونوں ممے چوس رہا تھا اس کے ممے چھوٹے چھوٹے سے تھے اور میرے منہ میں آسانی سے آرہے تھے ، ماہ رخ اب فل گرم ہو چکی تھی اور اپنا سر ادھر ادھر مار رہی تھی ، اس نے میرا سر سختی سے اپنے مموں پر دبا لیا تھا ، اب میں ممے چوستے ہوئے اپنا ہاتھ نیچے لے گیا اور سیدھا ماہ رخ کی پھدی پر رکھ دیا ، اس کی پھدی نے کافی سارا پانی چھوڑا ہوا تھا ، میں ماہ رخ کی چھوٹی سی پھدی کے نازک نازک لبوں کے درمیان اپنی انگلی پھیرنے لگا ، ماہ رخ کے جسم کو جھٹکا لگا اور اس نے میرے سر کو اور زیاد زور سے اپنے مموں پر دبا لیا ، کچھ دیر ایسا ہی کرنے کے بعد میں نے ماہ رخ کو مخاطب کیا ،

                  میں : ۔ ماہ رخ ! اب تمھارا کیا خیال ہے ۔

                  ماہ رخ : ۔ ارسلان مجھ سے کچھ مت پوچھو ، جو تمہیں اچھا لگے بس کرتے جاؤ۔

                  میں : ۔ میرا تو دل کر رہا ہے کہ تمھاری گانڈ میں لن ڈال ہی دوں ۔

                  ماہ رخ : ۔ تو ڈال دو نا ، روکا کس نے ہے ۔

                  میں : ۔ لن کس سٹائل میں لینا چاہو گی؟

                  ماہ رخ : ۔ جس سٹائل میں تم دینا چاہو گے ۔

                  میں : ۔ پہلے تو میرا دل ہے کہ تم الٹی لیٹ جاو ، میں لن کو تمھارے اندر ڈال کر تمھارے اوپر لیٹ کر دھکے ماروں گا ، اور اس کے بعد ڈوگی سٹائل میں تمھاری گانڈ ماروں گا ،

                  ماہ رخ ، فٹا فٹ الٹی ہوگئی اور بولی لو میں الٹی ہو گئی ، اب ڈالو اپنا لن میرے اندر ۔

                  میں نے سائیڈ پر پڑا ہوا تکیہ اٹھایا اور ماہ رخ کی پھدی کے نیچے رکھ دیا جس سے اس کی گانڈ اوپر کو اٹھ گئی ، پھر میں نے تیل کی بوتل اٹھائی اور ماہ رخ کی ٹانگوں پر بیٹھ کر کافی سارا تیل ماہ رخ کی گانڈ پر لگایا اور اس کی گانڈ میں انگلی گھسانے لگا ، ایک انگلی کا تو پتہ بھی نہیں چلا اور اندر چلی گئی ، پھر میں نے دوسری گھسائی تو وہ ذرا پھنس کر گئی ، اور ماہ رخ کے منہ سے سسسسیییییی آااااااااااااہ کی آواز نکلی ، پر اس نے مجھے کچھ نہ کہا ، اور میں دونوں انگلیوں کو اندر باہر کرنے لگا

                  جاری ہے ۔
                  جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                  ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                  Comment


                  • #19


                    ماہ رخ نے اپنی گانڈ کو سختی سے بھینچ رکھا تھا ، میں نے اس سے کہا کہ اپنی گانڈ کو ڈھیلا چھوڑ دے ، اس سے درد کم ہوگا ، تو ماہ رخ نے اپنی گانڈ کو ڈھیلا چھوڑ دیا ، اور کچھ ہی دیر میں میری دونوں انگلیاں اس کی گانڈ میں روانی سے اندر باہر ہونے لگیں ، ماہ رخ کے منہ سے مزے بھری سسکاریاں نکل رہیں تھیں ، میں چاہتا تھا کہ لن ڈالنے سے پہلے ماہ رخ کی گانڈ اچھی طرح سے نرم ہو جائے ، اس کے لیے میں نے اپنی تیسری انگلی بھی ڈالنے کی کوشش کی تو ماہ رخ بولی ۔

                    ماہ رخ : ۔ اب انگلیاں ہی ڈالتے رہو گے یا لن بھی ڈالو گے ؟؟؟؟

                    میں : ۔ اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے ، انگلیاں ڈالنے سے گانڈ کچھ کھلی ہو جائے گی اور لن ڈالتے وقت تمہیں درد تھوڑا محسوس ہوگا ۔

                    ماہ رخ : ۔ یہ لن کیا میوزیم میں رکھنا ہے ؟ اس کو استعمال کرو نا میری گانڈ کھولنے کے لیے ۔

                    میں : ۔ جیسے تمھاری مرضی ، لیکن اب شور مت کرنا ، اور نہ ہی مجھے روکنا ۔

                    ماہ رخ : ۔ نہیں روکتی ، بس اب تم جلدی سے میری گانڈ میں اپنا لن ڈال دو ، پلیزززز ۔

                    یہ سن کر میں نے اپنے لن کو تیل سے نہلا لیا ، ماہ رخ کی گانڈ بہت نرم تھی ، میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کی گانڈ کو کھولا ، بیچ میں اس کی گانڈ کا سوراخ تیل میں بھیگا ہوا نظر آرہا تھا ، میں نے اپنا لنڈ ایک ہاتھ میں پکڑا جس کی وجہ سے مجھے اس کی گانڈ چھوڑنی پڑی اور اس کا سوراخ پھر سے گم ہو گیا ، میں نے ماہ رخ سے کہا کہ ہاتھ پیچھے کر کے اپنی گانڈ کھولو ، اس نے دونوں ہاتھ پیچھے کرکے اپنے ہپس کھول دیے ، اب میں نے ایک ہاتھ ماہ رخ کی کمر پر رکھا اور دوسرے سے لن پکڑ کر بیٹھے بیٹھے ہی ماہ رخ کی گانڈ میں دبا دیا ، ایک تو بہت زیادہ تیل لگا ہوا تھا اور دوسرے اتنی دیر فنگرنگ بھی کرنے کی وجہ سے گانڈ نرم ہوچکی تھی اور میرا لن اس کی گانڈ میں آسانی سے داخل ہو گیا ، میرا لن ٹوپی تک اس کی گانڈ میں جا چکا تھا ، اس نے آااااااااااااہ کی آواز بھی نکالی مگر مجھے کچھ نہ کہا اور نہ ہی اپنی گانڈ کو اپنے ہاتھوں سے آزاد کیا ، میں نے لن کو باہر نکالا اور دوبارا اس کی گانڈ میں ڈال دیا ، لن کے گانڈ میں جانے کا نظارہ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا ، گانڈ میں لن جانے کا منظر دیکھنے کے لیے میں بار بار ایسا ہی کرنے لگا ، کافی دیر تک جب میں نے ٹوپی سے آگے اندر نہ کیا تو ماہ رخ نے کہا ، اب آگے بھی ڈالو ، کیا کر رہے ہو ؟؟

                    میں: ۔ ڈال رہا ہوں یار ، گانڈ میں لن ڈالنے کا منظر دیکھ رہا ہوں ، بہت پیارا لگ رہا ہے تمھاری گانڈ میں میرا لن جاتے ہوئے ۔

                    ماہ رخ : ۔ میرے اندر آگ لگی ہوئی ہے اور تمہیں نظارے دیکھنے کی پڑی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ پلیزززز ابھی میری گانڈ مارو اور نظارے پھر کبھی دیکھ لینا ۔

                    میں : ۔ اچھا اب تیار ہو جاؤ میں اندر ڈالنے لگا ہوں ۔

                    میری ٹوپی آسانی سے ماہ رخ کی گانڈ میں جا رہی تھی ، اب میں نے ٹوپی کو اندر کیا اور دونوں ہاتھوں سے ماہ رخ کی کمر کو پکڑ کر ہلکا سا دھکا دیا تو میرا لن کوئی دو انچ تک ماہ رخ کی گانڈ میں گھس گیا ، اس کے منہ سے سسسسسییییی ااااااووؤووی کی آواز نکلی اور اس نے فوراً اپنی گانڈ سے دونوں ہاتھ ہٹا کر اپنے منہ پر رکھ لیے ، میں نے اس کی کمر کو سختی سے پکڑ رکھا تھا تاکہ وہ اسے ہلا نہ سکے ، میرا لن اس کی گانڈ میں پھنسا ہوا تھا ، ماہ رخ بے شک گانڈ میں کھیرا لے چکی تھی مگر اس بات کو کافی دن گزر چکے تھے ، مجھے ایسا ہی لگ رہا تھا کہ کنواری گانڈ ہے اب تک اس کے اندر کچھ بھی نہیں گیا ، میں نے لن کو وہیں پر روکا ہوا تھا ، ماہ رخ نے اب تک مجھے کچھ نہیں کہا تھا ، کچھ سیکنڈ بعد ماہ رخ نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور کہا ۔

                    ماہ رخ : ۔ کتنا اندر جاچکا ہے ارسلان ؟؟؟

                    میں : ۔ ابھی تو صرف دو یا تین انچ ہی گیا ہوگا ۔

                    ماہ رخ : ۔ پلیز آرام آرام سے ڈالو مجھے بہت درد ہو رہا ہے ۔

                    میں : ۔ ماہ رخ اس طرح زیادہ درد ہوگا ، ایک ہی بار برداشت کر لو تو بہتر رہے گا۔

                    ماہ رخ : ۔ ایک ہی بار میں تو میں برداشت نہیں کر سکوں گی ۔

                    میں : ۔ باتیں تو بڑی کر رہیں تھی ، جلدی ڈالو میرے اندر لن ، میں نے گانڈ تیار کر لی ہے کھیرے سے ، جیسے مرضی کرو میرے ساتھ میں کچھ بھی نہیں کہوں گی ، اب کیا ہوا ؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ اچھا جیسے مرضی کرو ، لیکن جب زور سے جھٹکا مارنے لگو تو مجھے پہلے ہی بتا دینا ۔

                    میں نے اوکے کہا اور ایک ہاتھ سے ماہ رخ کی گانڈ کو کھولا ، میرا لن بری طرح اس میں پھنسا ہوا تھا ، میں نے لن کو باہر نکالا اور پھر اندر کر دیا ، لن کے اندر باہر ہونے سے ماہ رخ کے منہ سے مختلف آوازیں نکل رہی تھیں ۔ کچھ دیر ایسا ہی کرنے کے بعد میں نے ماہ رخ کی گانڈ میں تھوڑا زور سے دبا دیا اور باہر نہیں نکالا ، اسی طرح لن کو اندر دبائے ہوئے میں ماہ رخ کے اوپر لیٹ گیا ، اب ماہ رخ نیچے تھی اور میں اس کے اوپر لیٹا ہوا تھا اور میرا لن اس کی گانڈ میں تقریباً 3 انچ تک جا چکا تھا اور اس کی گانڈ نے میرے لن کو بری طرح جکڑا ہوا تھا ، ماہ رخ کے اوپر لیٹتے ہی میں نے ماہ رخ کے بازو کے نیچے سے ہاتھ گزارتے ہوئے اس کے کندھے کو سختی سے پکڑ لیا اور ماہ رخ کو کہا کہ تم اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لو میں اندر کرنے لگا ہوں ، ماہ رخ جو اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی فوراً اپنی کہنیوں کے سہارے ہو گئی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے منہ پر سختی سے جما لیا ، ماہ رخ کی طرف سے اوکے کا سگنل ملتے ہی میں نے اپنا لن تھوڑا سا باہر نکالا اور ایک زور سے جھٹکا مارا ، میرا لن پھسلتا ہوا آدھے سے زیادہ ماہ رخ کی گانڈ میں گھستا چلا گیا ، ماہ رخ کے منہ سے درد بھری آوازیں نکلنے لگیں ہااااااااے ااااااااافففففف ہہہہہہہہہائےےے ، میں نے ماہ رخ کی طرف دیکھا تو اس نے اپنا ایک ہاتھ منہ سے ہٹا دیا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ منہ پر ہی ٹکایا ہوا تھا ، اس کے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے بہت درد ہو رہا ہے ، میں نے لن کو وہیں پر روک لیا اور اپنے ہاتھ اس کے کندھوں سے ہٹا کر اس کے مموں پر رکھ دیے اور انھیں دبانے اور مسلنے لگا ، کچھ دیر بعد ماہ رخ نے منہ سے ہاتھ ہٹایا اور اور بولی ، آآاااائیییییییییی ااااااااامممممممی ، ہائے ارررررسسسلاااان بہت درد ہو ررررررہا ہے ، اسے باہر نکالو پلیززززززز ،

                    میں نے کہا ، کچھ نہیں ہوتا درد ابھی ختم ہو جائے گا ، بس کچھ ہی دیر میں آرام آ جائے گا ،

                    ماہ رخ : ۔ بہت جلن ہو رہی ہے مجھے گانڈ میں ، ابھی باہر نکال لو پھر دوبارا ڈال دینا ۔

                    میں : ۔ باہر نکال لیا تو پھر ڈالتے ہوئے اور زیادہ درد ہوگا ، تم اپنی گانڈ کو ڈھیلا چھوڑ دو ، اور میرے لن کو اپنی گانڈ میں محسوس کرنے کی کوشش کرو ، اس سے تمھیں مزہ آئے گا اور درد بھی کم محسوس ہوگا ۔

                    ماہ رخ : ۔ مجھے نہیں پتہ ، مجھے بہت درد ہو رہا ہے تم ابھی باہر نکالو ۔

                    میں : ۔ جتنا درد ہونا تھا ہو چکا ، دیکھو تم بہت بہادر لڑکی ہو تم نے میرا پورا لن اپنی گانڈ میں لے لیا ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ سچچچچچچچی ، میں نے تمہارا پورا لن لے لیا ہے ، کیا تمھارا سارا لن میرے اندر جا چکا ہے ۔

                    میں : ۔ ہاں ، اور اتنا بڑا لن اپنی گانڈ میں لے کر بھی تم مجھ سے باتیں کر رہی ہو ، تم بہت بہادر ہو ۔

                    ماہ رخ : ۔ مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا کہ تمھارا سارا لن میرے اندر ہے اس وقت ۔

                    میں : ۔ اب اندر باہر کروں کیا ؟؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ ہاں کرو ، مگر آرام سے کرنا مجھے اب بھی بہت جلن ہو رہی ہے ۔

                    ماہ رخ کی آواز بتا رہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں آنسوں آ چکے تھے ، اس کی آواز ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی رونے کے بعد بولتا ہے ۔ میں نے ماہ رخ کو جان بوجھ کر یہ کہا تھا تاکہ اس کا دھیان درد کی طرف سے ہٹ جائے اور اور بقایا بچے ہوئے لن کا ڈر اس کے دماغ سے ختم ہو جائے ، اور جب وہ درد کے بارے میں نہیں سوچے گی تو یقیناً مزے کے بارے میں سوچے گی ، اس کے دماغ میں یہی رہے گا کہ سارا لن میں پہلے ہی لے چکی ہوں اب اور درد نہیں ہو گا ، اب تو صرف مزہ آئے گا ، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جتنا زیادہ درد کے بارے میں سوچو تو درد زیادہ محسوس ہوتا ہے ، اور جتنا زیادہ مزے کے بارے میں سوچو ، مزہ بھی اتنا زیادہ ہی آتا ہے ۔

                    ماہ رخ کے ہاں کرتے ہی میں نے اپنے لن کو آرام سے باہر کی طرف کھینچا ، ماہ رخ کے منہ سے ایک لمبی سی آہ نکلی ، میں نے دونوں ہاتھوں سے ماہ رخ کے ممے پکڑ رکھے تھے ، تھوڑا سا لن باہر نکالنے کے بعد میں نے واپس اندر ڈال دیا ، ماہ رخ کے منہ سے نکلنے والی آوازوں سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے مزہ کم اور درد زیادہ محسوس ہو رہا تھا ، پر وہ مجھے روک نہیں رہی تھی بلکہ درد کو برداشت کر رہی تھی ، میں آرام آرام سے اندر باہر کر رہا تھا ، میں جب لن کو اندر کی طرف دباتا ماہ رخ اپنے جسم کو ٹائٹ کر لیتی تھی ، میں نے اسے بہت بار کہا کہ وہ اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دے ، لیکن وہ کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی ، میں کافی دیر ایسے ہی کرتا رہا ، اب اس کے منہ سے صرف تھوڑی تھوڑی آواز ہی آرہی تھی ، میں نے اب لن کو باہر کم اور اندر زیادہ دبانا شروع کردیا تھا ، لن جب تھوڑا آگے جاتا تو ماہ رخ آآآہ کی آواز نکالتی ، لیکن مجھے کچھ نہیں کہہ رہی تھی ، اندر باہر کرتے ہوئے میں نے ماہ رخ سے پوچھا ،

                    میں : ۔ ماہ رخ مزہ آرہا ہے ؟؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ تھوڑا تھوڑا آ تو رہا ہے ، مگر جلن اب بھی بہت ہو رہی ہے ۔

                    میں : ۔ کہیں سے بھی پتہ نہیں چلتا کہ تم اپنی گانڈ میں کھیرا لے چکی ہو ، تمھاری گانڈ اندر سے بہت ٹائٹ ہے ، اب تو میرے لن میں بھی درد ہونا شروع ہوگیا ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ کھیرا تو پورا ہی اندر چلا گیا تھا ، اب پتہ نہیں کہ یہ کھلی کیوں نہیں ہوئی ۔

                    میں : ۔ ایک دو دفعہ لینے سے کچھ نہیں ہوتا گانڈ ربڑ کی طرح ہوتی ہے ، پھر اسی جگہ آجاتی ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ کیا مطلب ہے تمھارا ؟ اب تم جب بھی میری گانڈ مارو گے مجھے ہر بار ایسے ہی درد ہوگا ؟؟؟؟

                    میں : ۔ اگر روز اپنی گانڈ میں کوئی چیز لیتی رہو گی تو کچھ روز ہلکا ہلکا درد ہوگا پھر نہیں ہوگا ، لیکن اگر کبھی کبھار لوگی تو زیادہ درد ہوگا ۔

                    ان باتوں کے دوران میں لگاتار لن کو اندر باہر کر رہا تھا ، میں نے ماہ رخ کو جان بوجھ کر باتوں میں لگایا ہوا تھا تاکہ اس کا دھیان لن کی طرف نہ جائے اور میں باقی بچا ہوا لن بھی اس کی گانڈ کے اندر ڈال دوں ۔

                    ماہ رخ : ۔ تو کیا اب میں روز تم سے گانڈ مروانے یہاں آیا کروں گی ؟؟؟؟

                    میں : ۔ جب موقع ملے گا تو میں تمھاری گانڈ مار لیا کروں گا ، مگر جب میں نہیں ہوں گا تو کھیرا یا کوئی اور چیز دن میں ایک بار اندر ڈالنی ہوگی اگر درد سے بچنا ہے تو ۔

                    ماہ رخ : ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم صرف میری پھدی کے اندر لن ڈالو اور گانڈ کو چھوڑ دو ۔

                    میں : ۔ زیادہ درد تو اب تم برداشت کر ہی چکی ہو پھر مجھے کیوں روک رہی ہو ، مجھے تمھاری گانڈ بہت پسند ہے ، اب جب بھی تمھاری پھدی ماروں گا تو تمھاری گانڈ بھی لازمی مارنا ہوگی

                    ماہ رخ : ۔ کتنے ظالم ہو تم ، مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میری گانڈ میں مرچیں بھر دیں ہوں ۔

                    میں : ۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ اس طرح کے کاموں میں درد تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے ۔

                    ماہ رخ : ۔ کیا تم نوشابہ کی گانڈ بھی مارو گے ؟؟؟؟؟

                    میں : ۔ ہاں ، اسکی گانڈ بھی ماروں گا ، مگر شادی کے بعد ۔

                    ماہ رخ : ۔ میں اسے منع کر دوں گی ، گانڈ نہ مروانا ، بہت زیادہ درد ہوتا ہے ۔

                    میں نے ایک زور دار جھٹکا دیا اور جتنا لن باقی بچا تھا وہ بھی ماہ رخ کی گانڈ کے اندر گھسا دیا ، ماہ رخ ایک دم سے چینخ پڑی اووووووووئی ماااااااااں میں مر گئی ، یہ کیا کر رہے ہو ، مجھے یقین ہے کہ اس کی آواز نیچے تک تو لازمی گئی ہو گی ، اگر کوئی جاگ رہا ہوتا تو ضرور سن لیتا ، پر اس نے مجھے یہ کہہ کر غصہ دلا دیا کہ وہ نوشابہ کو بھی گانڈ مروانے سے منع کر دے گی ، میں نے سوچا کہ اتنے پیار سے تو کر رہا ہوں پھر بھی اس کے نخرے نہیں ختم ہو رہے ، اسی لیے میں نے سوچا کہ اب اسے دکھاتا ہوں کہ گانڈ کیسے مارتے ہیں ، میں نے ایک ہاتھ آگے لے جا کر اس کے منہ پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے کندھے کو پکڑ لیا اور تیز تیز دھکے مارنے لگا اور میرا لنڈ اس کی گانڈ میں تیزی سے اندر باہر ہونے لگا ، ماہ رخ خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کر رہی تھی ، مگر میں نے اسے اچھے سے قابو کیا ہوا تھا ، وہ میرے نیچے بہت تڑپ اور مچل رہی تھی مگر میں بھی فل طوفانی دھکے لگاتا رہا ، مجھے اصل مزہ تو اب آنا شروع ہوا تھا پہلے تو اسے درد نہ دینے کے چکر میں بہت احتیاط کر رہا تھا جس سے بالکل بھی مزہ نہیں مل رہا تھا ، لیکن اب مجھ سے جتنا زور لگ سکتا تھا لگا رہا تھا ، میں اب فارغ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا اور میری سپیڈ بہت بڑھ چکی تھی ، اس وقت مجھے ماہ رخ کا کوئی احساس نہیں رہا تھا ، دل تو کر رہا تھا کہ لن کو گانڈ میں سے ڈال کر آگے پھدی میں سے نکال دوں ، ماہ رخ کے منہ سے آوازیں تو اب بھی نکل رہی تھیں مگر زیادہ دور نہیں جا سکتیں تھیں ، کیونکہ میرا ہاتھ اب بھی اس کے منہ پر تھا ، میں پورا لن ماہ رخ کی گانڈ میں ڈال رہا تھا ، کیونکہ میں جب بھی باہر نکال کر اندر کرتا تو میرے ٹٹے اس کی پھدی سے جا ٹکراتے ، اور میرے بالوں والی جگی پر اس کے نرم نرم ہپس کا ٹچ صاف محسوس ہوتا تھا ، اور یہ احساس بڑا پر لطف تھا ، ابھی مجھے تیز دھکے مارتے ہوئے 3 یا 4 منٹ ہوئے تھے کہ مجھے لگا کہ میری ساری جان میرے لنڈ کے اندر سمٹ گئی ہے میرا جسم فل اکڑ گیا اور میں نے ایک زوردار دھکا مار کر لنڈ کو جڑ تک ماہ رخ کی گانڈ میں اتار دیا اور وہیں رک گیا ، میرے لنڈ سے منی کی پچکاریاں اس کی گانڈ کو بھرنے لگیں ، مجھے اتنا مزہ آرہا تھا کہ میرے منہ سے بھی سسکاریاں نکلنے لگیں ، لیکن مجھے ان کی پرواہ نہیں تھی ، مکمل فارغ ہونے کے بعد میں نے اپنا پورا جسم بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا اور ماہ رخ کے اوپر ہی لیٹ گیا ، میرا لن اب بھی ماہ رخ کی گانڈ کے اندر ہی تھا ، میرا ہاتھ اس کے منہ سے ہٹ گیا تھا اور اس کے رونے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں ، مگر میں خود کو ریلیکس کرنے میں لگا ہوا تھا ، کچھ دیر بعد جب میرے حواس درست ہوئے تو میں نے ماہ رخ کی طرف دھیان دیا ، وہ اب بھی لگاتار رو رہی تھی ، میں اس کے اوپر سے ہٹ کر سائیڈ میں ہو گیا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہ ہوئی اور بس روتی رہی ، میں نے اسے بہت بار سوری بولا ، بہت منایا ، لیکن وہ کوئی بات ہی نہیں کر رہی تھی بس روئے جا رہی تھی ، میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب کیا کروں ؟ میں کچھ دیر پڑا سوچتا رہا اور پھر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اسے پکڑ کر سیدھا کیا ، پھر اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے چپ کرانے لگا اور اسے سوری بھی بولتا رہا ، کچھ دیر بعد اس نے رونا تو بند کر دیا مگر اس کی سسکیاں لگاتار جاری تھیں ، میں نے اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کوئی جواب نہیں دے رہی تھی ،کچھ دیر ایسے ہی بیٹھنے کے بعد میں نے اسے کہا کہ اب اٹھو اور کپڑے پہن لو بہت ٹائم ہو گیا ہے اب نیچے چلتے ہیں ، اس نے میری بات سنی اور اٹھ کر بیٹھ گئی پر کوئی جواب نہ دیا ، میں نے اسے اٹھتے ہوئے دیکھا تو اپنے کپڑے پہننا شروع کر دیے ، میں نے کپڑے پہن کر دیکھا تو وہ ابھی بھی اسی طرح بیٹھی ہوئی تھی ، میں نے ایک بار پھر اسے کہا تو اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس کے منہ سے سسسسسسییییییی ااااااووؤووی، کی آواز نکلی اور وہ پھر سے بیٹھ گئی ، اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسوؤں آگئے ، اب مجھے خود پر بہت غصہ آرہا تھا ، وہ کوئی رنڈی تو نہیں تھی کہ اس کا روز کا کام ہوتا اور برداشت کرلیتی ، وہ تو ایک سیدھی سادی گھریلو لڑکی تھی اور گانڈ مروانے کا اس کا پہلا چانس تھا اور میں نے اتنی بے رحمی سے اس کی گانڈ کا ستیا ناس کر دیا ، میں نے بیٹھے بیٹھے ہی اس کو اپنے گلے سے لگا لیا اور اس نے بھی دونوں بازو میری کمر کے گرد لپیٹ لیے ، میں نے کہا ۔

                    میں : ۔ ماہ رخ ، مجھے معاف کر دو ، مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

                    ماہ رخ : ۔ (روتے ہوئے ) مجھے بہت درد ہو رہی ہے ۔

                    میں : ۔ میں تیل گرم کرکے لاتا ہوں ، وہ لگانے سے آرام آ جائے گا ، تم اٹھو اپنے کپڑے تو پہن لو نا ۔

                    ماہ رخ : ۔ میکوں کجھ نی پتہ ، میڈے کونوں نہی اٹھیندا پیا ۔( مجھے کچھ نہیں پتہ مجھ سے اٹھا نہیں جارہا )

                    میں : ۔ اچھا تم یہیں رکو ، میں ابھی آتا ہوں ۔ اور وہ پھر سے لیٹ گئی ، اور میں تیل کی بوتل اٹھا کر نیچے تیل گرم کرنے کے لیے آگیا ، میں نے سوچا کہ نوشابہ کو میسج کر کے دیکھتا ہوں ، وہ جاگ رہی ہو گی تو شاید کچھ مدد کر دے ۔ میں نے نوشابہ کو میسج کیا ۔ اےےےے ،۔ اور تیل گرم کرنے کے لیے فرائینگ پین میں ڈالا ، فورآ ہی نوشابہ کا جواب آگیا ۔

                    نوشابہ : ۔ جی صاحب جی ؟؟؟؟؟

                    میں : ۔ یار وہ ماہ رخ کو مسئلہ ہو گیا ہے اسے بہت درد ہو رہا ہے اور وہ رو رہی ہے ۔

                    نوشابہ : ۔ واہ جی واہ ۔۔۔۔۔۔۔ اب پھر ؟؟؟؟

                    میں : ۔ میں نیچے تیل گرم کرنے آیا ہوا ہوں وہ اس کی گانڈ میں لگانا ہے ،وہ تو چپ ہی نہیں ہو رہی ۔

                    نوشابہ : ۔ آپی وغیرہ سو گئی ہیں ، میں بھی آتی ہوں ۔

                    میں : ۔ اوکے ، مگر احتیاط سے ، کوئی اور مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے ۔ میں کچن کے دروازے پر کھڑا ہو کر نوشابہ کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد نوشابہ دبے قدموں کمرے سے نکلی اور سیدھی میری طرف آگئی ، اور تھوڑا ناراضگی سے پوچھنے لگی ، میں نے اسے ساری بات بتائی اور اس کے بعد ہم گرم تیل اٹھا کر چھت پر چلے گئے ، ماہ رخ اب بھی وہیں الٹی لیٹی ہوئی تھی ، اس نے ابھی تک کپڑے بھی نہیں پہنے تھے ، نوشابہ نے جاتے ہی اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور اس کی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا ۔

                    نوشابہ : ۔ کیا ہوا ہے میری شہزادی بہن کو ؟؟؟؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ اپنے یار سے پوچھ لو ، کیا ہوا ہے ۔ ۔۔۔۔۔ ماہ رخ کے لہجے میں اب شوخی آچکی تھی اور وہ پہلے والا درد اور دکھ ختم ہو چکا تھا ۔ اس کی آواز سن کر میں نے بھی سکون کا سانس لیا کہ اب خیر ہے ، ورنہ میں تو بہت پریشان ہو گیا تھا کہ اب کیا ہوگا ۔ میں اور نوشابہ دونوں ہی اس کی بات سن کر ہنس پڑے ۔

                    نوشابہ : ۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ بہت درد ہوتا ہے ، لیکن تمھیں ہی شوق چڑھا تھا گانڈ مروانے کا ۔

                    ماہ رخ : ۔ گانڈ مروانے کا شوق تو نہیں تھا مجھے ، میں نے تو پھدی مروانی تھی ، گانڈ تو تمھارے کہنے پر مروائی ہے میں نے ۔۔۔۔۔

                    اس دوران میں ماہ رخ کی گانڈ کی طرف چلا گیا اور اپنی انگلی کے ساتھ گرم تیل اس کی گانڈ پر لگانے لگا ۔ میری انگلی لگتے ہی اس کے منہ سے سسسسییییی کی آواز نکلی اور بولی ۔

                    ماہ رخ : ۔اب کیا کرنے لگے ہو میری گانڈ کے ساتھ ، پہلے کیا کم ظلم کئے ہیں تم نے اس غریب پر ؟؟؟؟

                    میں : ۔ کچھ نہیں کرنے لگا ، بس تیل لگا رہا ہوں ، درد کچھ کم ہو جائے گا ۔

                    نوشابہ : ۔ اور یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟؟؟ تم نے میرے کہنے پر یہ سب کیا ہے ہاں ، اور وہ جو تم میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی ، میرا کچھ کرو ، میرا کچھ کرو ، وہ کیا تھا ؟؟؟؟

                    ماہ رخ : ۔ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ میری گانڈ میں اتنا بڑا لن گھسا دو ، اور وہ بھی اتنی بیدردی کے ساتھ ۔

                    نوشابہ : ۔ تو کونسا زبردستی ڈال دیا ، تمھیں خود ہی تو شوق چڑھا تھا اپنے اندر لن ڈلوانے کا ۔

                    ماہ رخ : ۔ پھدی میں لینے کا شوق تھا گانڈ میں نہیں ، اگر تم نے پھدی مروانے سے منع نہ کیا ہوتا تو آج میری گانڈ نہ پھٹتی ، پھدی ہی پھٹتی نا ۔

                    نوشابہ : ۔ چلو کوئی بات نہیں ، پھدی بھی جلد ہی پھٹ جائے گی ، پھر بھی مجھ پر ہی الزام لگا دینا ۔

                    ماہ رخ : ۔ ہاں لگاؤں گی الزام ، تمھارا بوائے فرینڈ ہی تو میرے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا ہے ، تمھارا ہی قصور ہے ۔

                    میں ان دونوں بہنوں کی باتوں کو سن کر انجوائے کر رہا تھا اور ساتھ ہی ماہ رخ کی گانڈ پر گرم تیل بھی لگا رہا تھا ، ماہ رخ کو یقیناً اس سے آرام مل رہا تھا ، اس بات کا پتہ اس کی آواز سے چل رہا تھا ، نوشابہ کو بھی معلوم تھا کہ وہ مذاق کر رہی ہے اور اسے نارمل کرنے کے لیے نوشابہ بھی اس سے اسی طرح باتیں کر رہی تھی ۔

                    نوشابہ : ۔ تو کسی اور سے چدوا لیتی ، خود ہی تو کہا تھا نا کہ مجھے بڑے لن والا لڑکا چاہیے ۔

                    ماہ رخ : ۔ کہا تو تھا ، مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ مجھے مار ہی ڈالے ۔۔۔ دیکھو نا تمھارے ارسلان نے میری گانڈ کا کیا حال کردیا ہے ، اور تم اسے کچھ کہنے کی بجائے اسی کی سائیڈ لے رہی ہو ۔

                    نوشابہ : ۔ تو کیا کہوں اسے ؟؟؟ ارسلان نے مجھے سب بتا دیا ہے ، ایسے وقت پر ایسی باتیں کرو گی تو یہ سب ہوگا ہی نا ، تمھیں کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی کہ میں نوشابہ کو گانڈ مروانے سے منع کر دوں گی ، ،،،،جیسے میں تو تمھاری بات مان ہی لوں گی ۔۔

                    ماہ رخ : ۔ ٹھیک ہے ، نہ مانو ، جب تمھاری گانڈ پھٹے گی تب سمجھ آئے گی تمہیں میری بات ۔

                    نوشابہ : ۔ مجھے سب پتہ ہے ، اور میں اپنی جان کے لیے ہر درد سہنے کو تیار ہوں ۔۔۔۔ ارسلان چاہے تو ایک ہی جھٹکے میں سارا لن میری گانڈ میں اتار دے ۔۔۔۔ میں تمھاری طرح شور نہیں مچاوں گی اور نہ ہی رونے لگ جاؤں گی ۔

                    ماہ رخ : ۔ میں کب روئی ہوں ؟؟؟؟

                    نوشابہ : ۔ مجھے سب پتہ ہے ، اچھا ، ویسے ایک بات تو بتاؤ ، شوق ہوگیا پورا یا آگے سے بھی گانڈ مرواؤ گی ۔

                    ماہ رخ : ۔ میکوں نہی پتہ (مجھے نہیں پتہ ) ۔

                    میں : ۔ اب تو جو ہونا تھا ہو گیا ہے ، اب تو جب مرضی گانڈ مروا لینا ، کچھ نہیں ہوگا ، بس شروع شروع میں زیادہ دن کا گیپ نہیں آنا چاہیے ۔

                    نوشابہ : ۔ ہم نے تو پرسوں چلے جانا ہے پھر کیسے مارو گے اس کی گانڈ ؟؟؟

                    میں : ۔ کل کی رات تو ہے نا ۔

                    ماہ رخ : ۔ نا بابا نا کل نہیں مروانی میں نے پھر سے ۔

                    نوشابہ : ۔ ہاں ، اور ویسے بھی کل کی رات میری ہے ۔

                    میں : ۔ تم نے کونسا کچھ کرنے دینا ہے ۔۔۔۔۔۔ پہلے تم اپنا شوق پورا کر لینا پھر میں ماہ رخ کی گانڈ مار لوں گا ، اگر میں نے کل اس کی گانڈ نہ ماری تو پھر جب بھی یہ گانڈ مروائے گی اسے اتنا ہی درد ہوگا جتنا آج ہوا ہے ۔

                    نوشابہ : ۔ ٹھیک ہے ، اس سے پوچھ لو ۔

                    میں : ۔ کیوں ماہ رخ ، کیا کہتی ہو ، اگر ساری زندگی مزے لینے ہیں تو کچھ دن کا درد تو برداشت کرنا ہی پڑے گا ۔

                    ماہ رخ : ۔ میں سوچ کر بتاؤں گی ، پہلے دن میں اپنی گانڈ کی حالت دیکھوں گی پھر فیصلہ کروں گی کہ مروانی ہے یا نہیں مروانی ۔

                    نوشابہ : ۔ ٹھیک ہے پر تم دونوں جو بھی کرو گے میرے بعد ہی کرو گے ، اگر میرا ساری رات ارسلان کے ساتھ گزارنے کا دل کیا تو تمھیں ساری رات انتظار کرنا ہوگا ۔ کیونکہ کل کی رات میری ہے ۔

                    میں : ۔ اچھا جی ، دیکھ لیتے ہیں تم کیا چیز ہو ، تمھیں تو دس منٹ میں ہی فارغ کر دینا ہے میں نے ۔

                    نوشابہ : ۔ ہاہاہاہا ، اچھا جی ۔۔۔۔ اب ادھر سے تو ہٹو ، میں بھی تو دیکھوں اپنی بہن کی گانڈ کو ، کیا ظلم کیا ہے تم نے اس پر ؟؟؟

                    میں : ۔ کوئی ظلم نہیں کیا پہلی بار جتنا بھی آرام سے کر لو اتنا درد تو ہوتا ہی ہے ۔

                    میں ایک طرف ہوگیا ، اور نوشابہ بھی پیچھے آگئی ، ماہ رخ ابھی تک الٹی ہی لیٹی ہوئی تھی ، ہم دونوں اس کی گانڈ کے دونوں طرف بیٹھ گئے ، نوشابہ نے ماہ رخ کی گانڈ کو دونوں ہاتھوں سے کھولا اور بڑے غور سے اپنی بہن کی گانڈ کے سوراخ کو دیکھنے لگی ، جو اب کھل چکا تھا اور لال سرخ ہوگیا تھا ، اور تھوڑا سا سوج بھی گیا تھا ، وہ تھوڑی دیر دیکھتی رہی پھر بولی ، اب تم پکڑو(ماہ رخ کی گانڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کیا حال کر دیا ہے میری بہن کی گانڈ کا ، میں خود لگاتی ہو اس پر تیل ۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے ماہ رخ کی گانڈ کو کھول دیا اور نوشابہ اس پر تیل لگانے لگی ، نوشابہ کی انگلیاں پتلی پتلی تھیں ، وہ اس کی گانڈ کے اندر تک انگلی گھسا کر تیل لگا رہی تھی ، ماہ رخ کو اب سکون کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آرہا تھا اس بات کا پتہ نوشابہ کو اس کی پھدی سے نکلنے والے پانی سے چلا جب تیل لگاتے لگاتے اس کی نظر اچانک اس کی پھدی پر پڑی تو اس نے اپنا دوسرا ہاتھ ماہ رخ کی پھدی پر رکھ دیا اور بولی۔

                    نوشابہ : ۔ ابھی تو تمھیں درد ہو رہا تھا ۔۔ اور ابھی مزے لے رہی ہو ، دیکھو تمھاری پھدی کتنی گیلی ہو رہی ہے ، ویسے ہی میرے بوائے فرینڈ کو پریشان کر دیا تھا تم نے ۔۔۔۔۔

                    ماہ رخ : ۔ کب سے تم دونوں میاں بیوی میرے پاس بیٹھے گندی گندی باتیں کررہے ہو ، باری باری میری گانڈ میں انگلیاں بھی ڈال رہے ہو ، اور میری پھدی بیچاری اب پانی بھی نہ چھوڑے ۔

                    نوشابہ : ۔ تو کیا خیال ہے ، آج ہی تمھاری پھدی کا بھی افتتاح نہ کر دیا جائے ؟؟ یہ کہتے ہی نوشابہ نے شلوار کے اوپر سے ہی میرے لن کی طرف دیکھا ، جو گانڈ اور پھدی سے بے خبر سکون سے نیند کی وادیوں میں گھوم رہا تھا ۔

                    ماہ رخ : ۔ بس رہنے ہی دو تم ، اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھو ، گانڈ کا درد تو ابھی برداشت ہی نہیں ہو رہا اور میں پھدی بھی پھڑوا کر بیٹھ جاؤں ۔

                    جاری ہے ۔
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment


                    • #20


                      نوشابہ : ۔ تو پھر یہ کیوں پانی چھوڑ رہی ہے ۔

                      ماہ رخ : ۔ یہ تو میری گانڈ پھٹنے کے سوگ میں آنسوں بہا رہی ہے ۔

                      نوشابہ نے ہاتھ اپنی پھدی پر بھی رکھا اور ماہ رخ سے کہا ، دیکھو تمھاری پھدی کو روتا دیکھ کر اب میری پھدی نے بھی رونا شروع کر دیا ہے ۔

                      ماہ رخ : ۔ ارسلان تم اپنے لن کو کہو نا کہ ہماری پھدیوں کو چپ کرائے ۔

                      میں : ۔ میرے لنڈ کو تو سونے ہی دو تو اچھا ہے ، اگر یہ اٹھ گیا تو تم دونوں میں سے کسی نہ کسی کی گانڈ یا پھدی ضرور پھٹ جائے گی ، پھر نہ کہنا ۔۔۔۔

                      ماہ رخ : ۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر رہنے ہی دو ، ہم خود ہی چپ کروا لیں گے ایک دوسری کی پھدیوں کو ، ویسے بھی ہمیں آتا ہے ایک دوسری کی پھدی کو سنبھالنا۔

                      نوشابہ اور ماہ رخ کی ان سیکسی سیکسی باتوں کی وجہ سے میرے لن نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ، اور اسکے ساتھ ہی مجھے اپنے لن میں تھوڑا تھوڑا درد بھی ہونے لگا تھا ، (پتہ نہیں یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے یا صرف میرے ساتھ ہوتا ہے ، دوسری یا تیسری بار فارغ ہونے کے بعد جب میرا لن کھڑا ہونا شروع ہوتا ہے تو ساتھ ہی ہلکا ہلکا درد بھی ہونے لگتا ہے ، جو کہ لن کے فل سخت ہونے تک رہتا ہے اس کے بعد ختم ہو جاتا ہے )۔ نوشابہ بھی اب ماہ رخ کی گانڈ میں تیل لگا کر فارغ ہو چکی تھی میں نے بھی ماہ رخ کی گانڈ کو چھوڑ دیا اور نوشابہ کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ نوشابہ نے میری طرف دیکھا تو میں نے اسے اوپر اٹھنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی بولا ۔

                      میں : ۔ میں خود چپ کراتا ہوں اپنی جان کی پھدی کو ۔

                      نوشابہ : ۔ ابھی اتنا ٹائم نہیں ہے ، اور یہ اب اتنی جلدی بھی رونا بند نہیں کرے گی۔۔۔۔

                      میں : ۔ میں کراؤں گا تو ہو جائے گی جلدی سے ، یہ میری بات مانتی ہے ۔

                      ماہ رخ ہماری بات سن کر سیدھی ہو کر لیٹ گئی اور ہماری طرف دیکھنے لگی ، میں نے نوشابہ کو اٹھا کر گلے سے لگا لیا اور نوشابہ نے بھی مجھے فل زور سے جھپی ڈال لی ، مجھے نوشابہ کے اس انداز پر بہت پیار آیا اور میں نے بھی جھپی ڈالے ہوئے فل جذبات میں کہا ۔

                      میں : ۔ آئی لو یو میری جان ۔

                      نوشابہ : ۔ آئی لو یو ٹو ۔۔۔۔۔۔

                      میں : ۔ تم بہت اچھی ہو ، میری زندگی میں آنے کے لیے شکریہ ۔۔۔۔

                      نوشابہ : ۔ مجھے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے تمھارا بھی شکریہ ۔۔۔۔

                      تبھی ماہ رخ کی آواز آئی ، اور میری گانڈ پھاڑنے کا بھی شکریہ ۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک اور آواز آئی ،،، مجھے اتنا اچھا شو دکھانے کا بھی شکریہ ،ہی ہی ہی ۔

                      یہ آواز ایٹم بم کی طرح ہم تینوں پر گری ۔۔۔۔ میں ایک دم سے نوشابہ سے الگ ہوا اور نوشابہ فوراً چھت پر بیٹھ گئی، میں نے اس طرف دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی ۔

                      اب کہانی میں ایک نئے کردار کی انٹری ہو رہی ہے ، اور یہ واحد کریکٹر ہے جس کا تعلق ہماری فیملی سے نہیں ہے ، ویسے تو اور بھی لڑکیاں تھیں لیکن ان کا ذکر کہانی کو لمبا کھینچ جائے گا ، میں اس کا ذکر بھی نہ کرتا لیکن اس کا کہانی میں بہت کردار ہے اور اس کے ذکر کے بغیر کہانی مکمل نہ ہو پاتی اور اس نے آگے چل کر میری بہت مدد بھی کی ہے ۔

                      جیسے ہی میں نے اس طرف دیکھا تو میں نے سامنے والی چھت پر کسی کو بھاگ کر چھت والے کمرے میں جاتے ہوئے دیکھا ، وہ کوئی لڑکی تھی اور جو آواز سنائی دی تھی وہ بھی لڑکی کی ہی تھی ۔ میں بہت پریشان ہوگیا ، پتہ نہیں اب یہ کون تھی ۔ ساتھ والوں سے ہمارے تعلقات بھی بہت اچھے تھے ، آنا جانا بھی تھا اور ان کی لڑکیاں بھی 7 تھیں اور ان میں سے 3 کی شادی ہو چکی تھی اور 4 ابھی باقی تھیں ۔ اور جو باقی بچی ہوئیں تھیں ان میں سے ایک کے پاس میں بچپن میں پڑھتا بھی رہا تھا ، اور ان سب بہنوں کی میری بہنوں کے ساتھ دوستی بھی تھی ۔ اس وقت میرا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا تھا ، اور میں بہت ڈر گیا تھا ، اور میرے ڈرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ جو بھی تھی صبح کو سب گھر والوں کو سب کچھ بتا دے گی ، اور سب کو نہ بھی بتائے تو میری بہنوں کو تو لازمی بتائے گی ۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور ڈر کی وجہ سے میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے ۔ وہ جو بھی تھی کمرے کے اندر جا چکی تھی اور دروازہ بند کر لیا تھا اور میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا تھا ، کچھ ڈر کی وجہ اور کچھ میں سوچ میں گھر گیا تھا جس کی وجہ سے مجھے ماہ رخ اور نوشابہ کا خیال بھی نہ رہا تھا ، ان دونوں کا حال تو مجھ سے بھی برا تھا ، تبھی نوشابہ کی آواز آئی تو میں چونک پڑا ۔

                      نوشابہ : ۔ ارسلان ، اب کیا ہوگا ؟ یہ کون تھی ۔

                      ماہ رخ : ۔(روتی ہوئی آواز میں ) یہ تو ہمیں بدنام کر دے گی ، اب ہم کیا کریں گے .

                      نوشابہ : ۔ یہ کیا ہوگیا ؟ تم اوپر آئے ہی کیوں تھے ، بیٹھک میں چلے جاتے ، اب یہ صبح سب کو بتا دے گی ۔

                      میں نے ماہ رخ اور نوشابہ کی حالت دیکھی تو وقتی طور پر اپنا ڈر بھول گیا اور انھیں دلاسا دینے لگا ، کیونکہ وہ دونوں بہت ڈر گئیں تھیں اور بہت زیادہ پریشان تھیں ، پہلے تو ماہ رخ سے کہا کہ وہ کپڑے پہن لے ، پھر ان دونوں کو کہا ، تم فکر نہ کرو یہ جو بھی تھی میں اس کا پتہ کر لوں گا ، اور وہ کسی کو کچھ نہیں بتائے گی ۔

                      نوشابہ : ۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو ؟ مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے ۔

                      میں : ۔ اگر اسے بتانا ہوتا تو اپنی موجودگی کے بارے میں پتہ بھی نہ چلنے دیتی ، اور تم نے سنا نہیں اس نے کیا کہا ، اگر اس نے بتانا ہوتا تو یہ نا کہتی کہ شو دکھانے کا شکریہ ۔

                      نوشابہ : ۔ تم دیکھ نہیں سکتے تھے آس پاس ۔ اور تم اوپر ہی کیوں آئے تھے ، اگر اس نے کسی کو بتا دیا تو میں نے خودکشی کر لینی ہے ، یہ میں تمھیں بتا رہی ہوں ، یہ کہہ کر نوشابہ نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا اور میں اسے اپنے ساتھ لگا کر چپ کرانے لگا ، ماہ رخ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے ، اور میں بھی نوشابہ کی بات سن کر تڑپ سا گیا تھا ، پھر میں بولا ، نوشابہ میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں ۔ وہ جو بھی ہے میں اسے سنبھال لوں گا ۔ میں نے بڑی مشکل سے ان دونوں کو سنبھالا اور نیچے لے آیا ۔ نوشابہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں اور ماہ رخ اپنے کمرے میں ، وہ دونوں بہت ڈر گئی تھیں ۔ ایک تو کسی نے ایسا کام کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور دوسرے ہماری ساری باتیں بھی سن لیں تھیں ۔ جس سے اسے یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ نوشابہ اور ماہ رخ دونوں بہنیں ہی میرے ساتھ یہ سب کرتی ہیں ۔ مجھے بھی اسی بات کی زیادہ پریشانی تھی ، اگر ایک ہوتی تو بندہ کہہ سکتا ہے کہ ہم پیار کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن دو بہنوں کا ایک ساتھ پکڑے جانا زیادہ مسئلہ پیدا کر رہا تھا ۔ ساری رات ہم تینوں میں سے کوئی بھی نہ سو سکا ، وہ مجھے میسج کرتیں رہیں اور میں انہیں دلاسے دیتا رہا ، اور سوچتا رہا کہ وہ کون ہو سکتی ہے ۔ میں اس کی آواز بھی نہ پہچان سکا تھا اس وقت ، پر کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ڈر جب حد سے بڑھ جائے تو ختم ہو جاتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا ، بہت سوچنے کے بعد جب کوئی بہانہ کوئی ترکیب سمجھ نہ آئی تو میں نے سوچا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا ، قسمت میں جو بھی لکھا ہے ہونا وہی ہے ، وہ جو بھی ہے اپنے آپ کو شو تو ضرور کرے گی ۔ اگر اس نے گھر والوں کو بتانا ہوا تو صبح ہی بتا دے گی ، ورنہ میرے اور ماہ رخ اور نوشابہ کے ساتھ پہلے کی طرح نارمل برتاؤ تو نہیں کرے گی ۔ وہ جو کوئی بھی تھی پتہ چل ہی جائے گا ۔ خطرے کے پیش نظر میں نے نوشابہ اور ماہ رخ کو سمجھا دیا تھا کہ اگر وہ صبح گھر والوں کو بتا بھی دے تو ہم نے یہی کہنا ہے کہ میں اور نوشابہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ، اور شادی کرنا چاہتے ہیں ، اور ہم چھت پر ملنے گئے تھے ، اور ماہ رخ ہمیں بلانے کے لیے اوپر آئی تھی کہ رات بہت ہوگئی ہے اب نیچے آجاو ۔ میں نے انھیں اچھی طرح سے پکا کر دیا تھا کہ جو بھی ہو جائے اس بات کے علاوہ اور کوئی بات نہیں بتانی ۔ جو بھی پوچھے یہی بتانا ہے ، وہ جو مرضی کہتی رہے ہمیں ماننا ہی نہیں ہے ۔ یہ پلان بنانے کے بعد میں کچھ پر سکون تو ہوگیا تھا مگر اب بھی کچھ نہ کچھ ڈر تو موجود ہی تھا ۔ یہی سوچتے اور ان دونوں بہنوں کو سمجھاتے رات گزر گئی ۔

                      صبح میں جلدی اٹھ گیا ، سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے ، نوشابہ میری امی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ، اور امی روٹیاں پکا رہی تھی ، جبکہ ماہ رخ نظر نہیں آرہی تھی ، میں بھی نہا کر امی کے پاس ہی جاکر بیٹھ گیا ، اور نوشابہ سے پوچھا کہ ماہ رخ کہاں ہے ، نوشابہ کا چہرہ اترا ہوا تھا اور وہ بہت پریشان لگ رہی تھی ۔

                      نوشابہ : ۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، اس لیے ابھی تک اٹھی نہیں ہے ۔

                      میں : ۔ او ہو ! کیا ہوگیا ہے اس کو ؟؟؟

                      نوشابہ : ۔ کہہ رہی ہے رات بھر سو نہیں سکی ، سر میں بہت درد تھا ۔

                      میں : ۔ اچھا اب ٹھیک ہے نا وہ ؟؟؟

                      نوشابہ : ۔ ہاں ۔

                      میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ، یہ مشال کہاں ہے ؟ یہاں پانی کس نے رکھنا ہے ۔ اور امی مشال کو آوازیں دینے لگی مگر وہ پتہ نہیں کہاں چلی گئی تھی ۔ نوشابہ بولی میں لے آتی ہوں ، اور یہ کہہ کر وہ کچن سے جگ لینے چلی گئی اور میں بھی اس کے پیچھے چلا گیا ۔اور اس سے بولا ، نوشابہ پلیز اپنا چہرہ ٹھیک کرو بہت پریشان لگ رہی ہو ، کوئی پوچھے گا تو کیا کہو گی ؟

                      نوشابہ : ۔ مجھے نہیں پتہ ۔ میں کیسے نارمل رہوں یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے اگر کچھ ہوا نا تو میں تمہیں کبھی بھی تمہیں معاف نہیں کروں گی ۔ (یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے)

                      میں : ۔ کچھ نہیں ہوگا ، میں نے کہا ہے نا ، اور تم یہ رونے کیوں لگی ہو ، وہ بتائے نہ بتائے تم ہمیں ضرور مرواؤ گی ۔۔

                      جاری ہے ۔
                      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X