نوشابہ : ۔ دیکھو ماہ رخ ، ابھی تم نہیں لے سکو گی ، کوئی جاگ گیا تو کیا ہوگا ، یہ سوچا ہے تم نے ؟ میں وعدہ کرتی ہوں جلدی ہی تمھارے لیے کسی جگہ کا بندوبست کر دوں گی ، پھر جیسے چاہے اندر لے لینا ۔
ماہ رخ : ۔ نوشابہ پلیز ، اتنی مشکل سے تو یہ موقع ملا ہے ، پھر پتہ نہیں کب ملے لے لینے دو نا ۔
نوشابہ : ۔ یار یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے اس کام کے لیے ، اور سوچو ! اگر تم کسی طرح اندر لے بھی لیتی ہو تو کھل کر انجوائے نہیں کر سکو گی ، اس لیے میں تو کہتی ہوں آج اوپر اوپر سے مزے لے لو پھر جیسے ہی موقع ملا ، اندر بھی لے لینا ۔
اس دوران میں نے اپنا لن ایک بار پھر ماہ رخ کی پھدی پر پھیرنا شروع کر دیا ۔
ماہ رخ : ۔ اچھا ، ٹھیک ہے ، مگر کچھ بھی کرو میری آگ بجھاؤ ، میں جل رہی ہوں ۔ نوشابہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ، اور اس کا مما اپنے منہ میں بھر لیا ، اور چوسنے لگی ، اور ادھر میں اپنا لن اس کی پھدی پر رگڑ رہا تھا ، میں نے ایک بار پھر اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی پھدی پر زور دیا تو ٹوپی پھر سے اندر چلی گئی ، اور ماہ رخ کے منہ سے ہلکی سی آہ نکلی ، کچھ دیر اندر رکھ کر میں نے ٹوپی باہر نکال لی ، اور پھر اندر ڈال دی ، دو تین بار ایسا کرنے سے ٹوپی آرام سے اندر باہر ہونے لگی ، مگر میں خود جان بوجھ کر لن کو اندر نہیں دبا رہا تھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ آگے اس کی سیل ہے ، اور اگر جوش میں زور سے دھکا لگ گیا تو کام خراب ہو جائے گا ۔ ایسے ہی کچھ دیر میں ماہ رخ کی پھدی کے لبوں پر پھیرتا رہا اور ٹوپی اسکی پھدی میں ڈالتا اور نکالتا رہا ، نوشابہ اس کے ممے چوس رہی تھی اور کسنگ بھی کر رہی تھی ، کچھ دیر بعد ہی ماہ رخ کا جسم کھنچنا شروع ہو گیا اور اسکی پھدی پانی چھوڑنے لگی ، ماہ رخ فارغ ہو چکی تھی مگر میں ابھی رہتا تھا ۔ میں کھڑا ہوگیا اور نوشابہ کو اپنی طرف بلا کر کہا ، یہ تو ہوگئی ، اب تم ہی میرا کچھ کرو ۔ یہ سن کر نوشابہ زمین پر بیٹھ گئی اور میرے لن پر تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے مٹھ مارنے لگی ، نوشابہ اب مٹھ مارنے میں ایکسپرٹ ہوتی جا رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر میں میں بھی فارغ ہو گیا ، ہم تینوں ابھی تک ننگے ہی تھے اور ننگے ہی ایک ساتھ لیٹ گئے ، کچھ دیر بعد نارمل ہوئے تو میں بولا ۔ ہاں تو ماہ رخ صاحبہ ، بڑے چیلنج کرتی پھرتی تھیں مجھ کو ، اب پتہ چلا ، کسی مرد کو چیلنج کرنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟
نوشابہ : ۔ میں نے تو اسے کئی بار سمجھایا تھا کہ اپنی پھدی دیکھ کر بات کرنی چاہیے ۔
ماہ رخ : ۔ مجھے پتہ تو تھا کہ درد ہوتا ہے ، مگر اندازہ نہیں تھا کہ اتنا ہوتا ہے ۔
میں : ۔ ابھی تو صرف ٹوپی ہی گئی تھی ، پورا لن تو باقی ہی تھا ۔
ماہ رخ : ۔ تو ڈال دیتے ، پورا لن ، میں نے کب منع کیا تھا ۔
نوشابہ : ۔ ٹوپی تو سہہ نہ پائی ، اور مہارانی چلی ہے پورا لن لینے کو ۔
میں : ۔ اب بھی کوئی چیلنج بچا ہے ، تو بتادو ۔
ماہ رخ : ۔ نا بابا نا میری توبہ ، اب کوئی چیلنج نہیں ۔
نوشابہ : ۔ شکر کرو تمھاری پھدی آج پھٹنے سے بچ گئی ۔
میں : ۔ صرف اسکی پھدی ہی نہیں ، اگر میں سوچے سمجھے بغیر ایک ہی دھکے میں پورا ڈال دیتا ، تو اس نے چینخ چینخ کر سب کو اٹھا دینا تھا ، پھر اس کی پھدی کے ساتھ ہم تینوں کی گانڈ بھی پھٹ جاتی ۔
اس بات پر ہم تینوں ہی ہنس پڑے ، پھر ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے ، ٹاپک یہی تھا کہ اب ایسا موقع کیسے اویل کیا جائے جہاں صرف ہم تینوں ہی ہوں اور کسی کا بھی خطرہ نہ ہو ۔ یہ اکتوبر کا اینڈ چل رہا تھا ، دسمبر میں میری آپی صباء ( میری بڑی بہن ) کی شادی تھی ۔ تقریبآ دو مہینے باقی تھے اور ہماری امید اب اس شادی سے ہی جڑی ہوئی تھیں ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ شادی پر ہم کوئی نہ کوئی موقع نکال ہی لیں گے ۔ اس وقت تک بس ایسے ہی گزارہ کرنا تھا ، جیسے اب کر رہے تھے ، تقریباً رات تین بجے کے قریب ہم نے کپڑے پہنے دروازہ کھولا اور سو گئے ۔
صبح میں جب اٹھا تو وہ دونوں اپنے گھر جا چکی تھیں ، میں نے فریش ہونے کے بعد ناشتہ کیا ، اور نوشابہ کے گھر چلا گیا ، اتوار تھا اور چھٹی کی وجہ سے سب بچے گھر پر ہی ہلہ گلہ کر رہے تھے ، نوشابہ اور ماہ رخ گھر کے کاموں میں لگی ہوئیں تھیں ۔ نوشابہ میری طرف دیکھ کر تھوڑا شرما رہی تھی اور ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہی تھی ، جبکہ ماہ رخ پہلے کی طرح ہی بلا جھجک مجھے دیکھ بھی رہی تھی اور شرما بالکل بھی نہیں رہی تھی وہ بالکل نارمل فیل کرا رہی تھی جیسے رات کچھ ہوا ہی نہ ہو ، میں نے انہیں وہیں چھوڑا اور چھت پر چلا گیا جہاں سائمہ بیٹھی سکول کا کام کر رہی تھی ، مجھے دیکھتے ہی وہ عجیب سے انداز میں ہنسنے لگی اور بولی ۔
سائمہ : ۔ ارے کزن بھائی ، کیسے ہو ؟
میں : ۔ ٹھیک ہوں ، تم کیا کر رہی ہو ؟
سائمہ : ۔ کچھ نہیں بس کل ایک ٹیسٹ ہے اسی کی تیاری کر رہی ہوں ۔
میں : ۔ واہ بھئی ، بڑی پڑھاکو ہو گئی ہو تم تو ۔
سائمہ : ۔ ہاں نا پڑھنا تو ہے ، ورنہ تمھاری
میں : ۔ میری کیا ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ کچھ نہیں بس ، یہ بتاؤ موقع ملا ؟؟؟؟؟؟
میں : ۔ کس چیز کا موقع ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ وہی موقع جس کے لیے رات وہاں سوئے تھے (ہنستے ہوئے)
میں : ۔ مجھے تو نانی امی نے وہاں سونے کو کہا تھا ، اس لیے میں وہاں سوگیا ، سمجھی تم ۔
سائمہ : ۔ ہاں سمجھ تو گئی ، ہی ہی ہی ہی ، تمہیں تو دادی امی نے کہا تھا ، پر ان دونوں کو کس نے کہا تھا ؟؟؟
میں : ۔ مجھے کیا پتہ ، میں تو جلدی سو گیا تھا ، وہ دونوں تو اس وقت ٹی وی دیکھ رہی تھیں ۔
سائمہ : ۔ مطلب رات کو کچھ بھی نہیں ہوا ۔
میں : ۔ (مصنوعی غصہ دکھا کر اسے گھورتے ہوئے) کیا ہونا تھا رات کو ہاں ؟
سائمہ : ۔ ہاہاہاہا ، میں تو بس ایسے ہی لگی ہوئی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ڈھونڈ بھی لو موقع ۔
میں : ۔ تم کو اس سے کیا ؟؟؟
سائمہ : ۔ تم کو موقع ملے گا تو میری باری آئے گی نا ۔
میں : ۔ کیا مطلب ؟ کیا کہنا چاہتی ہو ؟
سائمہ : ۔ مطلب یہ کہ مجھے بھی تو دینا ہے آپ نے ، اپنا لالیپاپ ۔
میں : ۔ ہاں تو تمہیں کیا معلوم میں نے کس کو دینا ہے ، ضروری تو نہیں کہ وہ نوشابہ ، یا ماہ رخ ہی ہوں ، کوئی اور بھی تو ہو سکتا ہے ۔
سائمہ : ۔ اتنی بھی بچی نہیں ہوں اب ، سب جانتی ہوں میں ۔
میں : ۔ ابھی تک تو بچی ہوئی ہو ، مگر لگتا نہیں کہ زیادہ دیر تک بچی رہو گی ۔۔۔۔۔۔ اور کیا کیا جانتی ہو تم ، ذرا ہم کو بھی تو پتہ چلے ۔
سائمہ : ۔ سب کچھ ، ہاہاہاہا ۔
میں : ۔ کیا سب کچھ ، صاف صاف بتاو ؟
سائمہ : ۔ کچھ بھی نہیں ، میں تو بس مذاق میں کہہ رہی تھی ۔
سائمہ کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ یہ بہت کچھ جان چکی ہے ، یا پھر اسے صرف شک ہے اور یہ تکے مار رہی ہے ، مگر جو بھی ہو ، مجھے اس سے کوئی پرابلم نہیں تھی ، کیونکہ اس کی باتوں میں غصہ نہیں ، بلکہ مزے لینے کے تاثرات تھے ، وہ اس سچویشن سے لطف لے رہی تھی ، اور میں تو چاہتا بھی یہی تھا کہ یہ بہنیں ایک دوسری پر شک کریں ، جتنا یہ بہنیں ایک دوسری پر شک کریں گی اتنی ہی جلدی پھنس بھی جائیں گی ، اور انھیں شاک بھی نہیں لگے گا ۔ میں کافی دیر سائمہ کے ساتھ باتیں کرتا رہا ، ہم زیادہ تر ذومعانی باتیں ہی کرتے رہے ، کیونکہ میں سائمہ کے ساتھ اتنا فاسٹ نہی جانا چاہتا تھا اس لیے میں نے خود پر کنٹرول ہی رکھا تھا ، پر سائمہ آہستہ آہستہ بیباق ہوتی جا رہی تھی ، یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جس میں کوئی بھی ایسی چھوٹی سی بات جس میں سیکس کا ذرا سا بھی پہلو نکلتا ہو ، وہ کرنے میں بہت مزہ آتا ہے ۔ اور ہم بھی یہی کر رہے تھے ، مجھے پتہ تھا کہ سائمہ ایسی باتیں کر کے مزے لے رہی ہے ، میں نے سوچا لیتی رہو مزہ ، میرا کیا جاتا ہے ، آج باتوں کا مزہ لے گی تو کل آسانی سے لن کا بھی مزہ لے ہی لے گی ۔
اس کے بعد میں نیچے چلا گیا ، نیچے نوشابہ کھانا بنا رہی تھی ، اور ماہ رخ کہیں نظر نہیں آرہی تھی ، شاید وہ اپنے کمرے میں ہو گی ۔ میں نوشابہ کے پاس کچن میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا ، نوشابہ کی پرابلم یہی تھی کہ دن کے وقت اس سے ایسی ویسی بات نہیں کی جا سکتی تھی ، کیونکہ وہ دن میں شرماتی بہت تھی ۔ اتنے میں ممانی بھی آگئیں ، ہم نے کھانا کھایا ، اور اس کے بعد میں وہاں سے اٹھا اور شکیل ماموں کے گھر چلا گیا ۔ ممانی نے بتایا کہ نانی امی چھت پر ہیں تو میں چھت پر ان کے پاس چلا گیا اور باتیں کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد ہی ماہ رخ بھی وہیں پر آگئی اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔ ماہ رخ بار بار میری طرف دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی ، اس کی آنکھوں میں ایک پیغام تھا ، جسے میں سمجھ تو رہا تھا مگر یہاں کچھ کرنا ممکن نہیں تھا ۔ ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ نوشابہ بھی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ وہاں آگئی اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئی ۔ نوشابہ آنکھوں سے ماہ رخ کو بار بار کوئی اشارہ کر رہی تھی ، اور ساتھ ساتھ ہنس بھی رہی تھی ۔ ماہ رخ بیچارگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی ، مگر وہاں کوئی بات ہو نہیں سکتی تھی ، اسی لیے میں وہاں سے اٹھا اور نانی امی سے ذرا دور دیوار کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا ۔ میرے پیچھے پیچھے ماہ رخ بھی وہیں پر آگئی اور آتے ہی بولی ۔
ماہ رخ : ۔ اپنی گرلفرینڈ کو سمجھا لو ، کمینی کو ۔
میں : ۔ کیوں ، کیا ہوا ؟؟؟؟
ماہ رخ : ۔ وہ مجھے صبح سے تنگ کر رہی ہے ۔
میں : ۔ کیوں ؟؟؟؟
جاری ہے۔
ماہ رخ : ۔ نوشابہ پلیز ، اتنی مشکل سے تو یہ موقع ملا ہے ، پھر پتہ نہیں کب ملے لے لینے دو نا ۔
نوشابہ : ۔ یار یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے اس کام کے لیے ، اور سوچو ! اگر تم کسی طرح اندر لے بھی لیتی ہو تو کھل کر انجوائے نہیں کر سکو گی ، اس لیے میں تو کہتی ہوں آج اوپر اوپر سے مزے لے لو پھر جیسے ہی موقع ملا ، اندر بھی لے لینا ۔
اس دوران میں نے اپنا لن ایک بار پھر ماہ رخ کی پھدی پر پھیرنا شروع کر دیا ۔
ماہ رخ : ۔ اچھا ، ٹھیک ہے ، مگر کچھ بھی کرو میری آگ بجھاؤ ، میں جل رہی ہوں ۔ نوشابہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ، اور اس کا مما اپنے منہ میں بھر لیا ، اور چوسنے لگی ، اور ادھر میں اپنا لن اس کی پھدی پر رگڑ رہا تھا ، میں نے ایک بار پھر اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی پھدی پر زور دیا تو ٹوپی پھر سے اندر چلی گئی ، اور ماہ رخ کے منہ سے ہلکی سی آہ نکلی ، کچھ دیر اندر رکھ کر میں نے ٹوپی باہر نکال لی ، اور پھر اندر ڈال دی ، دو تین بار ایسا کرنے سے ٹوپی آرام سے اندر باہر ہونے لگی ، مگر میں خود جان بوجھ کر لن کو اندر نہیں دبا رہا تھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ آگے اس کی سیل ہے ، اور اگر جوش میں زور سے دھکا لگ گیا تو کام خراب ہو جائے گا ۔ ایسے ہی کچھ دیر میں ماہ رخ کی پھدی کے لبوں پر پھیرتا رہا اور ٹوپی اسکی پھدی میں ڈالتا اور نکالتا رہا ، نوشابہ اس کے ممے چوس رہی تھی اور کسنگ بھی کر رہی تھی ، کچھ دیر بعد ہی ماہ رخ کا جسم کھنچنا شروع ہو گیا اور اسکی پھدی پانی چھوڑنے لگی ، ماہ رخ فارغ ہو چکی تھی مگر میں ابھی رہتا تھا ۔ میں کھڑا ہوگیا اور نوشابہ کو اپنی طرف بلا کر کہا ، یہ تو ہوگئی ، اب تم ہی میرا کچھ کرو ۔ یہ سن کر نوشابہ زمین پر بیٹھ گئی اور میرے لن پر تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے مٹھ مارنے لگی ، نوشابہ اب مٹھ مارنے میں ایکسپرٹ ہوتی جا رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر میں میں بھی فارغ ہو گیا ، ہم تینوں ابھی تک ننگے ہی تھے اور ننگے ہی ایک ساتھ لیٹ گئے ، کچھ دیر بعد نارمل ہوئے تو میں بولا ۔ ہاں تو ماہ رخ صاحبہ ، بڑے چیلنج کرتی پھرتی تھیں مجھ کو ، اب پتہ چلا ، کسی مرد کو چیلنج کرنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟
نوشابہ : ۔ میں نے تو اسے کئی بار سمجھایا تھا کہ اپنی پھدی دیکھ کر بات کرنی چاہیے ۔
ماہ رخ : ۔ مجھے پتہ تو تھا کہ درد ہوتا ہے ، مگر اندازہ نہیں تھا کہ اتنا ہوتا ہے ۔
میں : ۔ ابھی تو صرف ٹوپی ہی گئی تھی ، پورا لن تو باقی ہی تھا ۔
ماہ رخ : ۔ تو ڈال دیتے ، پورا لن ، میں نے کب منع کیا تھا ۔
نوشابہ : ۔ ٹوپی تو سہہ نہ پائی ، اور مہارانی چلی ہے پورا لن لینے کو ۔
میں : ۔ اب بھی کوئی چیلنج بچا ہے ، تو بتادو ۔
ماہ رخ : ۔ نا بابا نا میری توبہ ، اب کوئی چیلنج نہیں ۔
نوشابہ : ۔ شکر کرو تمھاری پھدی آج پھٹنے سے بچ گئی ۔
میں : ۔ صرف اسکی پھدی ہی نہیں ، اگر میں سوچے سمجھے بغیر ایک ہی دھکے میں پورا ڈال دیتا ، تو اس نے چینخ چینخ کر سب کو اٹھا دینا تھا ، پھر اس کی پھدی کے ساتھ ہم تینوں کی گانڈ بھی پھٹ جاتی ۔
اس بات پر ہم تینوں ہی ہنس پڑے ، پھر ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے ، ٹاپک یہی تھا کہ اب ایسا موقع کیسے اویل کیا جائے جہاں صرف ہم تینوں ہی ہوں اور کسی کا بھی خطرہ نہ ہو ۔ یہ اکتوبر کا اینڈ چل رہا تھا ، دسمبر میں میری آپی صباء ( میری بڑی بہن ) کی شادی تھی ۔ تقریبآ دو مہینے باقی تھے اور ہماری امید اب اس شادی سے ہی جڑی ہوئی تھیں ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ شادی پر ہم کوئی نہ کوئی موقع نکال ہی لیں گے ۔ اس وقت تک بس ایسے ہی گزارہ کرنا تھا ، جیسے اب کر رہے تھے ، تقریباً رات تین بجے کے قریب ہم نے کپڑے پہنے دروازہ کھولا اور سو گئے ۔
صبح میں جب اٹھا تو وہ دونوں اپنے گھر جا چکی تھیں ، میں نے فریش ہونے کے بعد ناشتہ کیا ، اور نوشابہ کے گھر چلا گیا ، اتوار تھا اور چھٹی کی وجہ سے سب بچے گھر پر ہی ہلہ گلہ کر رہے تھے ، نوشابہ اور ماہ رخ گھر کے کاموں میں لگی ہوئیں تھیں ۔ نوشابہ میری طرف دیکھ کر تھوڑا شرما رہی تھی اور ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہی تھی ، جبکہ ماہ رخ پہلے کی طرح ہی بلا جھجک مجھے دیکھ بھی رہی تھی اور شرما بالکل بھی نہیں رہی تھی وہ بالکل نارمل فیل کرا رہی تھی جیسے رات کچھ ہوا ہی نہ ہو ، میں نے انہیں وہیں چھوڑا اور چھت پر چلا گیا جہاں سائمہ بیٹھی سکول کا کام کر رہی تھی ، مجھے دیکھتے ہی وہ عجیب سے انداز میں ہنسنے لگی اور بولی ۔
سائمہ : ۔ ارے کزن بھائی ، کیسے ہو ؟
میں : ۔ ٹھیک ہوں ، تم کیا کر رہی ہو ؟
سائمہ : ۔ کچھ نہیں بس کل ایک ٹیسٹ ہے اسی کی تیاری کر رہی ہوں ۔
میں : ۔ واہ بھئی ، بڑی پڑھاکو ہو گئی ہو تم تو ۔
سائمہ : ۔ ہاں نا پڑھنا تو ہے ، ورنہ تمھاری
میں : ۔ میری کیا ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ کچھ نہیں بس ، یہ بتاؤ موقع ملا ؟؟؟؟؟؟
میں : ۔ کس چیز کا موقع ؟؟؟؟
سائمہ : ۔ وہی موقع جس کے لیے رات وہاں سوئے تھے (ہنستے ہوئے)
میں : ۔ مجھے تو نانی امی نے وہاں سونے کو کہا تھا ، اس لیے میں وہاں سوگیا ، سمجھی تم ۔
سائمہ : ۔ ہاں سمجھ تو گئی ، ہی ہی ہی ہی ، تمہیں تو دادی امی نے کہا تھا ، پر ان دونوں کو کس نے کہا تھا ؟؟؟
میں : ۔ مجھے کیا پتہ ، میں تو جلدی سو گیا تھا ، وہ دونوں تو اس وقت ٹی وی دیکھ رہی تھیں ۔
سائمہ : ۔ مطلب رات کو کچھ بھی نہیں ہوا ۔
میں : ۔ (مصنوعی غصہ دکھا کر اسے گھورتے ہوئے) کیا ہونا تھا رات کو ہاں ؟
سائمہ : ۔ ہاہاہاہا ، میں تو بس ایسے ہی لگی ہوئی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ڈھونڈ بھی لو موقع ۔
میں : ۔ تم کو اس سے کیا ؟؟؟
سائمہ : ۔ تم کو موقع ملے گا تو میری باری آئے گی نا ۔
میں : ۔ کیا مطلب ؟ کیا کہنا چاہتی ہو ؟
سائمہ : ۔ مطلب یہ کہ مجھے بھی تو دینا ہے آپ نے ، اپنا لالیپاپ ۔
میں : ۔ ہاں تو تمہیں کیا معلوم میں نے کس کو دینا ہے ، ضروری تو نہیں کہ وہ نوشابہ ، یا ماہ رخ ہی ہوں ، کوئی اور بھی تو ہو سکتا ہے ۔
سائمہ : ۔ اتنی بھی بچی نہیں ہوں اب ، سب جانتی ہوں میں ۔
میں : ۔ ابھی تک تو بچی ہوئی ہو ، مگر لگتا نہیں کہ زیادہ دیر تک بچی رہو گی ۔۔۔۔۔۔ اور کیا کیا جانتی ہو تم ، ذرا ہم کو بھی تو پتہ چلے ۔
سائمہ : ۔ سب کچھ ، ہاہاہاہا ۔
میں : ۔ کیا سب کچھ ، صاف صاف بتاو ؟
سائمہ : ۔ کچھ بھی نہیں ، میں تو بس مذاق میں کہہ رہی تھی ۔
سائمہ کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ یہ بہت کچھ جان چکی ہے ، یا پھر اسے صرف شک ہے اور یہ تکے مار رہی ہے ، مگر جو بھی ہو ، مجھے اس سے کوئی پرابلم نہیں تھی ، کیونکہ اس کی باتوں میں غصہ نہیں ، بلکہ مزے لینے کے تاثرات تھے ، وہ اس سچویشن سے لطف لے رہی تھی ، اور میں تو چاہتا بھی یہی تھا کہ یہ بہنیں ایک دوسری پر شک کریں ، جتنا یہ بہنیں ایک دوسری پر شک کریں گی اتنی ہی جلدی پھنس بھی جائیں گی ، اور انھیں شاک بھی نہیں لگے گا ۔ میں کافی دیر سائمہ کے ساتھ باتیں کرتا رہا ، ہم زیادہ تر ذومعانی باتیں ہی کرتے رہے ، کیونکہ میں سائمہ کے ساتھ اتنا فاسٹ نہی جانا چاہتا تھا اس لیے میں نے خود پر کنٹرول ہی رکھا تھا ، پر سائمہ آہستہ آہستہ بیباق ہوتی جا رہی تھی ، یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جس میں کوئی بھی ایسی چھوٹی سی بات جس میں سیکس کا ذرا سا بھی پہلو نکلتا ہو ، وہ کرنے میں بہت مزہ آتا ہے ۔ اور ہم بھی یہی کر رہے تھے ، مجھے پتہ تھا کہ سائمہ ایسی باتیں کر کے مزے لے رہی ہے ، میں نے سوچا لیتی رہو مزہ ، میرا کیا جاتا ہے ، آج باتوں کا مزہ لے گی تو کل آسانی سے لن کا بھی مزہ لے ہی لے گی ۔
اس کے بعد میں نیچے چلا گیا ، نیچے نوشابہ کھانا بنا رہی تھی ، اور ماہ رخ کہیں نظر نہیں آرہی تھی ، شاید وہ اپنے کمرے میں ہو گی ۔ میں نوشابہ کے پاس کچن میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا ، نوشابہ کی پرابلم یہی تھی کہ دن کے وقت اس سے ایسی ویسی بات نہیں کی جا سکتی تھی ، کیونکہ وہ دن میں شرماتی بہت تھی ۔ اتنے میں ممانی بھی آگئیں ، ہم نے کھانا کھایا ، اور اس کے بعد میں وہاں سے اٹھا اور شکیل ماموں کے گھر چلا گیا ۔ ممانی نے بتایا کہ نانی امی چھت پر ہیں تو میں چھت پر ان کے پاس چلا گیا اور باتیں کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد ہی ماہ رخ بھی وہیں پر آگئی اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔ ماہ رخ بار بار میری طرف دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی ، اس کی آنکھوں میں ایک پیغام تھا ، جسے میں سمجھ تو رہا تھا مگر یہاں کچھ کرنا ممکن نہیں تھا ۔ ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ نوشابہ بھی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ وہاں آگئی اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئی ۔ نوشابہ آنکھوں سے ماہ رخ کو بار بار کوئی اشارہ کر رہی تھی ، اور ساتھ ساتھ ہنس بھی رہی تھی ۔ ماہ رخ بیچارگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی ، مگر وہاں کوئی بات ہو نہیں سکتی تھی ، اسی لیے میں وہاں سے اٹھا اور نانی امی سے ذرا دور دیوار کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا ۔ میرے پیچھے پیچھے ماہ رخ بھی وہیں پر آگئی اور آتے ہی بولی ۔
ماہ رخ : ۔ اپنی گرلفرینڈ کو سمجھا لو ، کمینی کو ۔
میں : ۔ کیوں ، کیا ہوا ؟؟؟؟
ماہ رخ : ۔ وہ مجھے صبح سے تنگ کر رہی ہے ۔
میں : ۔ کیوں ؟؟؟؟
جاری ہے۔
Comment