میں باہر جا رہا ہوں اگر تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے تو جب تم باہر آؤ تو تمھارا چہرہ بالکل فریش اور نارمل لگنا چاہیے پہلے کی طرح ، یہ کہہ کر میں باہر آگیا اور جب کچھ دیر کے بعد نوشابہ باہر آئی تو اس کا چہرہ پہلے سے بہتر لگ رہا تھا ۔
اس دن ساتھ والوں کے گھر سے کوئی بھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا ۔ اسی دن شام کو نوشابہ اور ماہ رخ ضد کرنے لگیں کہ ہمیں اپنے گھر جانا ہے ، سب گھر والوں نے کہا کہ آج تو رہ لو تم دونوں نے تو رہنا تھا ایسا کیا ہو گیا ۔ امی نے مجھے بھی دو ، چار سنائیں کہ تم نے ہی کچھ کہا ہوگا اس لیے ناراض ہو کر جا رہیں ہیں ، لیکن وہ مان کر ہی نہیں دیں ، ماہ رخ کی طبیعت کا بہانہ تھا ان کے پاس ، میں نے بھی انھیں روکنا مناسب نہ سمجھا ، اور انھیں ان کے گھر چھوڑ آیا ، رات کو بھی وہ دونوں اسی بارے میں بات کرتی رہیں کہ اب کیا ہوگا ، ان دونوں نے صاف منع کر دیا تھا کہ اب اس وقت تک وہ ہمارے گھر نہیں آئیں گی جب تک سب کچھ کلیر نہیں ہو جاتا ۔ وہ بہت پریشان تھیں اس لیے میں نے بھی کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا ۔ میں پہلے اس لڑکی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے اور اس کا ارادہ کیا ہے ۔
اگلے دن اتوار تھا اور کالج سے بھی چھٹی تھی ، میں ناشتہ کر کے بیٹھا ہوا تھا کہ آپی شفق (میرے چچا کی بڑی بیٹی) بھی اپنے سب کام وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ اور مجھ سے باتیں کرنے لگیں ( ایک بات آپ کو بتاتا چلوں کہ میری آپی شفق سے بہت اچھی دوستی تھی وہ مجھے سب سے زیادہ پیار کرتی تھیں اور میری ہر بات مانتی تھیں، میں ان کا ذکر ابھی زیادہ نہیں کر رہا کیونکہ ان کی باری سب سے آخر میں آنی ہے اور ان کی باری آنے پر ہی ان کا تفصیلی ذکر ہوگا ) ہمیں باتیں کرتے ہوئے ابھی زیادہ ٹائم نہیں ہوا تھا کہ ساتھ والوں کے گھر سے وہ باجی جس سے میں بچپن میں پڑھتا بھی رہا تھا ، وہ آگئیں اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئیں ، میرے اندر ایک دم خوف کی ایک لہر دوڑ گئی کہ کیا پتہ اس رات وہاں پر باجی لبنیٰ ہی ہو (اس باجی کا نام لبنیٰ تھا ) مگر باجی لبنیٰ بالکل نارمل انداز میں باتیں کر رہیں تھیں ۔ لبنیٰ باجی مجھ سے پہلے بھی ہنسی مذاق کر لیتی تھیں ، اور آج بھی وہ اسی طرح باتیں کر رہیں تھیں ، میں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھنے کے بعد اٹھ کر باہر جانے لگا تو باجی لبنیٰ بولیں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کہاں جارہے ہو مسٹر چوں چوں ۔
اس نام کا مطلب اور وجہ مجھے نہیں معلوم مگر وہ بچپن سے ہی مجھے اسی نام سے چھیڑا کرتی تھی ، کوئی اور مجھے اس نام سے بلائے تو مجھے بہت غصہ آتا تھا مگر باجی پر نہیں ، اور کوئی مجھے اس نام سے پکارتا بھی نہیں تھا ، وہ اکیلی ہی تھیں جو مجھے اس نام سے بلاتی تھی ، پہلے مجھے اس پر غصہ آتا تھا لیکن جب ان کے پاس ٹیوشن جانے لگا تب سے غصہ نہیں آتا تھا بلکہ اچھا لگتا تھا ۔)
میں : ۔ کہیں نہیں باجی ، بس ایسے ہی باہر جا رہا تھا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ایسے ہی باہر نہیں جاتے آوارہ گردوں کی طرح ۔
میں : ۔ تو باجی پھر میں کیا کروں ؟؟؟
لبنیٰ باجی: ۔ بیٹھ کر ٹی وی دیکھ لو ، باہر لازمی جانا ہے ۔
میں : ۔ دن کے وقت ٹی وی دیکھنے کا مزہ نہیں آتا ۔
لبنیٰ باجی: ۔ ہاں یہ تو ہے ، مزے کے شو تو رات کو ہی آتے ہیں ۔
لبنیٰ باجی نے یہ بات کرتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھا اور بڑی معنی خیز انداز میں مسکرائیں ۔ اور میرا حال یہ ہو گیا کہ کاٹو تو لہو نہیں ، ایک دم میرا رنگ اڑ گیا ، مجھے ایسا لگا کہ جیسے باجی اس رات کی بات کر رہی ہیں ۔ اور اس رات وہاں باجی لبنیٰ ہی تھیں ۔
آپی شفق نے میری یہ حالت دیکھی تو بولیں ، کیا بات ہے ارسلان تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے ، تمھارا رنگ ایک دم پیلا کیوں پڑ گیا ہے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ بھئی واہ کیا خوب ، ٔمیں نے تو صرف سمجھایا ہی ہے ، باہر جانے پر پکی پابندی تو نہیں لگا دی جو تم اتنا پریشان ہو رہے ہو ۔
میں : ۔ ایسی کوئی بات نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ لگتا تو نہیں کہ تم ٹھیک ہو ۔
وہ اب بھی میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات کر رہی تھیں ۔ اور میں ان سے نظریں چرا رہا تھا ۔۔۔۔ میں نے بڑی مشکل سے ان سے جان چھڑائی اور باہر کی طرف بھاگا ، مجھے پیچھے سے ان دونوں کے ہنسنے کی آواز سنائی دی ، وہ دونوں ہنس رہیں تھیں ، میں اور زیادہ ڈر گیا کہ کہیں لبنیٰ باجی نے شفق آپی کو سب کچھ بتا تو نہیں دیا ۔ میں بہت پریشان ہو گیا تھا ۔ نوشابہ کو میں نے کچھ نہیں بتایا ، میں نے سوچا کہ پہلے کنفرم ہو جائے پھر بتاؤں گا ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں ، میں ایسی سچویشن میں پہلی بار پھنسا تھا ، اور نکلنے کا طریقہ بھی مجھے معلوم نہیں تھا ۔ اور کسی سے مدد بھی نہیں لے سکتا تھا ، کیونکہ جس سے بھی مدد لیتا اسے پہلے سب کچھ بتانا بھی پڑتا ، اور یہی میں نہیں چاہتا تھا ۔ اسی پریشانی میں وہ دن اور اس سے اگلا دن بھی گزر گیا لیکن کچھ نہیں ہوا تو میں کچھ ریلیکس فیل کرنے لگا کہ اگر لبنیٰ باجی نے بتانا ہوتا تو اب تک بتا چکی ہوتیں ۔ اس سے اگلے دن میرے نمبر پر ایک میسج آیا ، کوئی نیا نمبر تھا ۔(بعد میں مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ لبنیٰ باجی ہی تھیں جن سے اس روز میری بات ہوئی تھی ، اس لیے اس بات چیت میں میں ان کا نام یا صرف باجی ہی لکھوں گا ، لیکن جب یہ بات ہو رہی تھی اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ کون ہے ۔ )
لبنیٰ باجی : ۔ کچھ بات کرنا چاہتی ہوں تم سے ۔
میں : ۔ جی آپ کون ؟؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ تمھاری ایک خیر خواہ سمجھ لو ۔
میں : ۔ ہاں تو کہو ، کیا کہنا ہے ؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ کہنا تو کچھ بھی نہیں ہے بس ایسے ہی کچھ باتیں کرنا تھیں ۔( مجھے اس وقت سو فیصد یقین تھا کہ یہ میرا کوئی دوست ہے اور نئے نمبر سے مجھے تنگ کر رہا ہے ۔ کیونکہ اکثر ایسا ہو جاتا تھا ، میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی لڑکی مجھے میسج کر رہی ہے )
میں : ۔ اچھا جی ، مگر ایسے ہی تو کوئی کسی سے باتیں نہیں کرتا ، کوئی وجہ تو ہوتی ہی ہے نا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ وجہ بھی ہے نا ۔
میں : ۔ کیا وجہ ہے ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ بس ہے نا ، بس ایسا سمجھ لو مجھے تم اچھے لگتے ہو ۔
میں : ۔ ہاہاہاہاہا ، اب آگے تم کہو گے تم مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہو ، پھر کہو گے ، میں تم سے پیار کرتی ہوں ، پھر کہو گے ، میں تمھارے بغیر رہ نہیں سکتی ، یار یہ ڈائیلاگ تو ہزار بار سن چکا ہوں گانڈو ، کم از کم ڈائیلاگ تو تبدیل کر لو کمینوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان ، تم کتنے گندے ہو گئے ہو ، کیسے الفاظ استعمال کر رہے ہو ۔
میں : ۔ زیادہ پاک صاف نہ بنو ، میں نے تمھاری گانڈ پھاڑ دینی ہے ، سچ سچ بتا تو کونسے والا گانڈو ہے ؟
لبنیٰ باجی : ۔ارسلان انسان بنو ، میں تمھاری کوئی دوست نہیں ہوں ، اور یہ گالیاں نکالنی بند کرو پلیزززز ۔
میں : ۔ زیادہ میرے لن پر نہ چڑھو اور سیدھی طرح بتاؤ کون ہو ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ چچچچچھھھی ، کتنے گندے ہو تم ۔
میں : ۔ گندہ ہوں تو کیا تم نے مجھے اپنی بہن دینی ہے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان میں تمہیں ایسا بالکل نہیں سمجھتی تھی ، بائے ۔
میں : ۔ لن پے چڑھ ، کمینہ ۔
پھر اس نمبر سے کوئی میسج نہیں آیا ، جب کافی دیر ہو گئی تو مجھے پریشانی ہونے لگی ، اگر کوئی دوست ہوتا تو اب تک مجھے ڈبل سے بھی زیادہ گالیاں نکال چکا ہوتا ، لیکن اسنے تو کوئی گالی نہیں دی بلکہ اس کا تو میسج بھی نہیں آرہا تھا ، میرے ذہن میں آیا کہیں وہ واقعی کوئی لڑکی تو نہیں تھی پھر خیال آیا کہ اتنا ہینڈسم تو میں ہوں نہیں کہ لڑکیاں خود سے مجھے میسج کریں ، یہ ضرور میرا کوئی دوست ہی ہوگا ، یہ سوچ کر میں پر سکون ہوگیا اور سونے لگا تو ویسے ہی ایک میسج ٹائپ کر کے بھیج دیا ۔۔۔ سوری اگر تم میرے دوست نہیں ہو تو ۔ ۔۔۔
لیکن کوئی جواب نہیں آیا اور میں نے بھی دھیان نہیں دیا ۔سارا دن گزر گیا ، رات کو میں نوشابہ سے بات کر رہا تھا ، وہ اب بھی اسی رات کے بارے میں بات کر رہی تھی کہ پتہ نہیں وہ کون ہوگی اور ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔ ۔۔۔ اتنے دنوں سے ہمارے درمیان سیکس سے متعلق کوئی بات نہیں ہو سکی تھی ، مجھے اب ان باتوں سے الجھن ہونے لگی تھی ، پچھلے کئی دنوں سے ہم تینوں صرف اسی مسئلے پر بات چیت کر رہے تھے ، نوشابہ سے بات کرتے ہوئے اسہی نمبر سے پھر میسج آگیا ،
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان ! تم بہت خراب ہو گئے ہو ۔
میں : ۔ تم ہو کون ؟ سیدھی طرح بتادو ، ورنہ کل سے بھی زیادہ گندی گالیاں دوں گا۔
لبنیٰ باجی : ۔ جب میں نے تمھیں بتایا نا کہ میں کون ہوں تو تم بہت پچھتاؤ گے ، اس لیے اب گالی مت نکالنا ۔
میں : ۔ تو بتادو کون ہو تم ؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ وہ ابھی چھوڑو ، تم یہ بتاؤ اس رات وہ لڑکیاں کون تھیں ؟؟؟
یہ بات سن کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے ، میں تو اب اس بات کو بھلانا چاہتا تھا یہ سوچ کر کہ وہ جو بھی تھی اب کچھ نہیں کرے گی ، اور دوسری بات جو مجھے پریشان کر رہی تھی کہ یہ جو بھی تھی اس کا تعلق باجی لبنیٰ کے گھر سے ہی تھا ، اور کل میں نے اس کے ساتھ بہت بد تمیزی کی تھی ۔ میں بری طرح پھنس گیا تھا اور مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ میں اب اس کی بات کا کیا جواب دوں ۔
میں : ۔ کون سی لڑکی اور کس رات کی بات کر رہی ہو ، اور تم ہو کون ، پہلے یہ تو بتاؤ ؟
لبنیٰ باجی : ۔ میں وہی ہوں جس نے وہ سارا شو لائیو دیکھا تھا ۔
میں : ۔ کس شو کی بات کر رہی ہو ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ وہ ہی شو جو اس رات چھت پر چل رہا تھا ۔۔۔۔ تم سب جانتے ہو ۔۔۔ یاد آیا تمھیں یا پھر گھر آکر یاد دلاؤں۔
میں : ۔ پر تم ہو کون ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، جو پوچھا ہے بس اس کا جواب دو ۔
میں : ۔ تم کیا چاہتی ہو ؟؟؟؟ پلیز تم جو بھی ہو ، کسی کو اس بات کے بارے میں مت بتانا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اگر تم میری باتوں کا سیدھے سے جواب دیتے جاو گے اور جو میں کہتی رہوں گی کرتے رہو گے تو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے آپ جو چاہو گی وہی ہوگا ۔۔۔۔ پر اپنا نام تو بتادو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ جب بتانا ہو گا میں خود ہی بتادوں گی ، اب جو میں نے پوچھا ہے وہ بتاؤ ۔
میں : ۔ اگر تم نے سب دیکھا ہے تو وہ لڑکیاں بھی تو دیکھ ہی لی ہوں گی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ہاں ، مگر میں تمھارے منہ سے سننا چاہتی ہوں ، کہ تم سچ بولتے ہو یا نہیں ۔
میں : ۔ پلیز ! آپ جو بھی ہو ، کیا کرو گی یہ سب جان کر ، آپ نے جو کام مجھ سے کروانا ہے مجھے بتا دو میں کر دوں گا ، آپ جو بھی کہو گی میں کرنے کے کیے تیار ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان ! تم اب مجھے غصہ دلا رہے ہو ، میں جو پوچھ رہی ہوں ، تم نے بتانا ہے یا نہیں ۔
میں : ۔ وہ میرے ماموں کی بیٹیاں تھیں جو اس روز ہمارے گھر آئی ہوئیں تھیں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ پہلی جو اکیلی تمھارے ساتھ اوپر آئی تھی وہ کون تھی ؟؟؟
میں : ۔ وہ چھوٹے والی تھی ، ماہ رخ ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اور دوسری اوپر کیا کرنے آئی تھی ؟؟؟
میں : ۔ ماہ رخ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اس لیے وہ اوپر آئی تھی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیا اسے پتہ تھا کہ تم نے اس کی چھوٹی بہن کے ساتھ کیا کیِا ہے ؟؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اس نے کچھ کہا کیوں نہیں ؟؟؟؟؟ اور وہ تمھارا ساتھ بھی دے رہی تھی ؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیا تمھارا اس دوسری ( نوشابہ)۔ کے ساتھ بھی چکر ہے ؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اور وہ دونوں اس بات پر خوش بھی ہیں ؟؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ تم مجھے پوری بات بتاؤ ؟ ایک کا تو چلو مان لیتے ہیں ، لیکن ایک ہی وقت میں دونوں کے ساتھ ایسا چکر چلانا کیسے ممکن ہے ؟؟؟
میں : ۔ لمبی بات ہے ، میسج پر نہیں بتا سکتا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ زیادہ نخرے مت دکھاؤ ، آرام سے بتادو سب کچھ ۔
میں : ۔ میسج پر کیسے بتاؤں ، آپ کال کر لیں ، میں سب بتا دیتا ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ زیادہ تیز بننے کی کوشش مت کرو ۔۔۔۔ چلو اب بتاؤ یہ سب کیسے ہوا ؟؟؟؟
میں : ۔ میں اور نوشابہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ بھئی واہ کیا خوب ، شادی نوشابہ سے کرنا چاہتے ہو اور ظلم بیچاری ماہ رخ پر کر رہے ہو ۔
اس کی اس بات,, واہ بھئی واہ کیا خوب ،، سے میرے کان کھڑے ہو گئے ، کیونکہ لبنیٰ باجی یہ بات اکثر بول دیتی تھیں اور ان سے ہی سن سن کر میں بھی کبھی کبھی یہی بات بولنے لگا تھا ، لبنیٰ باجی یہ الفاظ اسی وقت بولتی تھی جب وہ خوش گوار موڈ میں ہوتی تھی ۔ اس دن والی باتیں بھی مجھے یاد آگئی تھیں جو لبنیٰ باجی نے شفق آپی کے سامنے مجھ سے کیں تھیں ۔ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ باجی لبنیٰ ہی ہے ، پہلے تو میں کچھ ڈر گیا ، پھر ذہن میں آیا کہ لبنیٰ باجی اچھے موڈ میں ہیں اور انجوائے کر رہی ہیں اور اسی لیے وہ مجھ سے پوری سٹوری سننا چاہتی ہیں ،
لبنیٰ باجی مجھ سے زیادہ بڑی نہیں تھی زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ سال کا فرق ہوگا ، وہ تو ان سے پڑھنے کی وجہ سے میں ان کو باجی باجی کہتا رہتا تھا ، وہ بہت خوبصورت تھیں اور ان کے ممے اور گانڈ کافی بڑی تھیں ۔ جب کبھی میں گلی میں دوستوں کے ساتھ گلی میں کھڑا ہوتا اور لبنیٰ باجی وہاں سے گزرتی تو میرے سب دوست ان کو دیکھ کر آہیں بھرتے اور کہتے تھے ، کیا چیز ہے یار بس ایک بار مل جائے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن میں نے کبھی ان میں انٹرسٹ نہیں لیا ، ایک تو بچپن میں میں ان کے پاس پڑھتا رہا ہوں اور دوسرے مجھے زیادہ بڑے مموں والی لڑکیاں زیادہ پسند نہیں تھیں ۔ ۔۔۔ یہ سب باتیں سوچتے ہوئے میرا لن کھڑا ہو گیا ، کافی دنوں سے سیکس سے متعلق باتیں نہیں ہو رہی تھیں اس لیے میں کچھ جلدی ہی گرم ہو گیا تھا ، یہ سوچ کر کہ یہ لبنیٰ باجی ہی ہے اور میری باتیں سن کر مزے لینا چاہتی ہیں ۔ اور میں نے بھی دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں اپنی پیاری لبنیٰ باجی کو خوب مزے دوں گا ، اور فی الحال یہ بھی ظاہر نہیں کروں گا کہ میں نے انھیں پہچان لیا ہے ، یہ سوچ کر میں نے جواب دیا ۔
میں : ۔ وہ سب کچھ ان دونوں بہنوں کی مرضی سے ہی ہوا ہے ۔ ۔۔۔ دراصل مجھے نوشابہ نے خود کہا تھا کہ میری بہن کے ساتھ سیکس کرو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیا ؟؟؟؟ اس نے خود ایسا کہا ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟؟
میں : ۔ وہ کہتی ہے کہ تم میرے مستقبل کے شوہر ہو ، اور ماہ رخ میری بہن ، ماہ رخ کو ,, ایل ،، کی ضرورت ہے اور اگر تم ماہ رخ کو ,,ایل ،، دے دو گے تو تم دونوں کو مزہ بھی آئے گا ، اور بدنامی کا ڈر بھی نہیں رہے گا ، اور مجھے تم دونوں پر اعتماد بھی رہے گا کہ تم لوگ باہر کسی اور کے ساتھ یہ سب نہیں کر رہے ہو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ بھئی واہ کیا خوب ، ویسے یہ ,,ایل ،، کیا ہوتا ہے ؟؟؟
میں : ۔ آپ جانتی تو ہو ، میں اس کا پورا نام نہیں لینا چاہتا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ تم جس کا چاہو پورا نام لے سکتے ہو ، تمہیں کونسا پتہ ہے کہ میں کون ہوں ، اس لیے کھل کر بات کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے، اور میں تمہیں شرمندہ بھی نہیں کروں گی ۔
میں : ۔ پکا وعدہ کرتی ہو ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ اوکے ، پکا وعدہ ۔
میں : ۔ ایل ،، کا مطلب لن ، اور ماہ رخ کو لن چاہیے تھا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ نوشابہ کو کیسے پتہ چلا کہ اس کی چھوٹی بہن کو ,, ایل ،، چاہئیے ؟؟؟؟
میں : ۔ اب آپ کیوں ,, ایل ،، بول رہی ہو ، آپ بھی پورا نام لو نا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیونکہ میں لڑکی ہوں اور مجھے شرم آتی ہے ۔
میں : ۔ مجھے کونسا پتہ ہے کہ آپ کون ہو ، تو پھر شرم کیسی ؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ اوکے ۔۔۔ تو نوشابہ کو کیسے پتہ چلا کہ ماہ رخ کو لن کی ضرورت ہے ؟؟
لبنیٰ باجی سے لن کا لفظ سن کر پتہ نہیں کیوں مجھے بہت مزہ آیا ، اتنا مزہ کہ میرا جسم مزے کی شدت سے کانپ گیا ، جس کا آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو اور اس سے ایسی بات یا کام کرنے کو ملے تو بہت ہی زیادہ مزہ آتا ہے ۔
میں : ۔ ماہ رخ نے خود ہی نوشابہ کو کہا تھا کہ مجھے لن کا انتظام کر کے دو ورنہ میں نے باہر کے کسی لڑکے کے ساتھ سیکس کر لینا ہے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ لیکن نوشابہ نے تم سے یہ کرنے کو کیسے کہا ، اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ۔
میں : ۔ دراصل ، بات یہ ہے کہ میں بھی نوشابہ کو کافی دنوں سے سیکس کرنے کے لیے فورس کر رہا تھا ، اور وہ شادی سے پہلے سیکس کرنا نہیں چاہتی تھی تو اس نے مجھ سے وعدہ کر لیا کہ وہ کسی اور لڑکی کو میرے لیے راضی کر دے گی ، تبھی ماہ رخ نے اسے اس کام کے لیے تنگ کیا تو اس نے ہم دونوں کو ہی ملا دیا ۔(میں نے جان بوجھ کر تھوڑا سا جھوٹ بول دیا تاکہ الزام مجھ پر نہ آئے)
لبنیٰ باجی : ۔ واہ ، تمھاری تو موجیں ہیں ، ویسے کب سے چل رہا ہے یہ سب ؟
میں : ۔ چل تو دو تین مہینوں سے رہا ہے ، مگر کام پہلی بار اسی رات ہوا تھا جب آپ نے دیکھا تھا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ تین مہینوں میں ، صرف ایک ہی بار کیا ہے ؟؟؟
میں : ۔ ہاں ، کیونکہ نہ تو موقع مل رہا تھا ، اور نہ ہی جگہ مل رہی تھی ، اس رات بڑی مشکل سے موقع ملا تھا ، پھر بھی آپ نے دیکھ لیا ، اور اب وہ دونوں بہنیں بہت ڈری ہوئی ہیں ، اب وہ کبھی بھی مجھے کرنے نہیں دیں گی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی ، ان سے کہو بے فکر رہیں ۔
جاری ہے ۔
اس دن ساتھ والوں کے گھر سے کوئی بھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا ۔ اسی دن شام کو نوشابہ اور ماہ رخ ضد کرنے لگیں کہ ہمیں اپنے گھر جانا ہے ، سب گھر والوں نے کہا کہ آج تو رہ لو تم دونوں نے تو رہنا تھا ایسا کیا ہو گیا ۔ امی نے مجھے بھی دو ، چار سنائیں کہ تم نے ہی کچھ کہا ہوگا اس لیے ناراض ہو کر جا رہیں ہیں ، لیکن وہ مان کر ہی نہیں دیں ، ماہ رخ کی طبیعت کا بہانہ تھا ان کے پاس ، میں نے بھی انھیں روکنا مناسب نہ سمجھا ، اور انھیں ان کے گھر چھوڑ آیا ، رات کو بھی وہ دونوں اسی بارے میں بات کرتی رہیں کہ اب کیا ہوگا ، ان دونوں نے صاف منع کر دیا تھا کہ اب اس وقت تک وہ ہمارے گھر نہیں آئیں گی جب تک سب کچھ کلیر نہیں ہو جاتا ۔ وہ بہت پریشان تھیں اس لیے میں نے بھی کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا ۔ میں پہلے اس لڑکی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے اور اس کا ارادہ کیا ہے ۔
اگلے دن اتوار تھا اور کالج سے بھی چھٹی تھی ، میں ناشتہ کر کے بیٹھا ہوا تھا کہ آپی شفق (میرے چچا کی بڑی بیٹی) بھی اپنے سب کام وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ اور مجھ سے باتیں کرنے لگیں ( ایک بات آپ کو بتاتا چلوں کہ میری آپی شفق سے بہت اچھی دوستی تھی وہ مجھے سب سے زیادہ پیار کرتی تھیں اور میری ہر بات مانتی تھیں، میں ان کا ذکر ابھی زیادہ نہیں کر رہا کیونکہ ان کی باری سب سے آخر میں آنی ہے اور ان کی باری آنے پر ہی ان کا تفصیلی ذکر ہوگا ) ہمیں باتیں کرتے ہوئے ابھی زیادہ ٹائم نہیں ہوا تھا کہ ساتھ والوں کے گھر سے وہ باجی جس سے میں بچپن میں پڑھتا بھی رہا تھا ، وہ آگئیں اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئیں ، میرے اندر ایک دم خوف کی ایک لہر دوڑ گئی کہ کیا پتہ اس رات وہاں پر باجی لبنیٰ ہی ہو (اس باجی کا نام لبنیٰ تھا ) مگر باجی لبنیٰ بالکل نارمل انداز میں باتیں کر رہیں تھیں ۔ لبنیٰ باجی مجھ سے پہلے بھی ہنسی مذاق کر لیتی تھیں ، اور آج بھی وہ اسی طرح باتیں کر رہیں تھیں ، میں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھنے کے بعد اٹھ کر باہر جانے لگا تو باجی لبنیٰ بولیں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کہاں جارہے ہو مسٹر چوں چوں ۔
اس نام کا مطلب اور وجہ مجھے نہیں معلوم مگر وہ بچپن سے ہی مجھے اسی نام سے چھیڑا کرتی تھی ، کوئی اور مجھے اس نام سے بلائے تو مجھے بہت غصہ آتا تھا مگر باجی پر نہیں ، اور کوئی مجھے اس نام سے پکارتا بھی نہیں تھا ، وہ اکیلی ہی تھیں جو مجھے اس نام سے بلاتی تھی ، پہلے مجھے اس پر غصہ آتا تھا لیکن جب ان کے پاس ٹیوشن جانے لگا تب سے غصہ نہیں آتا تھا بلکہ اچھا لگتا تھا ۔)
میں : ۔ کہیں نہیں باجی ، بس ایسے ہی باہر جا رہا تھا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ایسے ہی باہر نہیں جاتے آوارہ گردوں کی طرح ۔
میں : ۔ تو باجی پھر میں کیا کروں ؟؟؟
لبنیٰ باجی: ۔ بیٹھ کر ٹی وی دیکھ لو ، باہر لازمی جانا ہے ۔
میں : ۔ دن کے وقت ٹی وی دیکھنے کا مزہ نہیں آتا ۔
لبنیٰ باجی: ۔ ہاں یہ تو ہے ، مزے کے شو تو رات کو ہی آتے ہیں ۔
لبنیٰ باجی نے یہ بات کرتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھا اور بڑی معنی خیز انداز میں مسکرائیں ۔ اور میرا حال یہ ہو گیا کہ کاٹو تو لہو نہیں ، ایک دم میرا رنگ اڑ گیا ، مجھے ایسا لگا کہ جیسے باجی اس رات کی بات کر رہی ہیں ۔ اور اس رات وہاں باجی لبنیٰ ہی تھیں ۔
آپی شفق نے میری یہ حالت دیکھی تو بولیں ، کیا بات ہے ارسلان تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے ، تمھارا رنگ ایک دم پیلا کیوں پڑ گیا ہے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ بھئی واہ کیا خوب ، ٔمیں نے تو صرف سمجھایا ہی ہے ، باہر جانے پر پکی پابندی تو نہیں لگا دی جو تم اتنا پریشان ہو رہے ہو ۔
میں : ۔ ایسی کوئی بات نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ لگتا تو نہیں کہ تم ٹھیک ہو ۔
وہ اب بھی میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات کر رہی تھیں ۔ اور میں ان سے نظریں چرا رہا تھا ۔۔۔۔ میں نے بڑی مشکل سے ان سے جان چھڑائی اور باہر کی طرف بھاگا ، مجھے پیچھے سے ان دونوں کے ہنسنے کی آواز سنائی دی ، وہ دونوں ہنس رہیں تھیں ، میں اور زیادہ ڈر گیا کہ کہیں لبنیٰ باجی نے شفق آپی کو سب کچھ بتا تو نہیں دیا ۔ میں بہت پریشان ہو گیا تھا ۔ نوشابہ کو میں نے کچھ نہیں بتایا ، میں نے سوچا کہ پہلے کنفرم ہو جائے پھر بتاؤں گا ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں ، میں ایسی سچویشن میں پہلی بار پھنسا تھا ، اور نکلنے کا طریقہ بھی مجھے معلوم نہیں تھا ۔ اور کسی سے مدد بھی نہیں لے سکتا تھا ، کیونکہ جس سے بھی مدد لیتا اسے پہلے سب کچھ بتانا بھی پڑتا ، اور یہی میں نہیں چاہتا تھا ۔ اسی پریشانی میں وہ دن اور اس سے اگلا دن بھی گزر گیا لیکن کچھ نہیں ہوا تو میں کچھ ریلیکس فیل کرنے لگا کہ اگر لبنیٰ باجی نے بتانا ہوتا تو اب تک بتا چکی ہوتیں ۔ اس سے اگلے دن میرے نمبر پر ایک میسج آیا ، کوئی نیا نمبر تھا ۔(بعد میں مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ لبنیٰ باجی ہی تھیں جن سے اس روز میری بات ہوئی تھی ، اس لیے اس بات چیت میں میں ان کا نام یا صرف باجی ہی لکھوں گا ، لیکن جب یہ بات ہو رہی تھی اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ کون ہے ۔ )
لبنیٰ باجی : ۔ کچھ بات کرنا چاہتی ہوں تم سے ۔
میں : ۔ جی آپ کون ؟؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ تمھاری ایک خیر خواہ سمجھ لو ۔
میں : ۔ ہاں تو کہو ، کیا کہنا ہے ؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ کہنا تو کچھ بھی نہیں ہے بس ایسے ہی کچھ باتیں کرنا تھیں ۔( مجھے اس وقت سو فیصد یقین تھا کہ یہ میرا کوئی دوست ہے اور نئے نمبر سے مجھے تنگ کر رہا ہے ۔ کیونکہ اکثر ایسا ہو جاتا تھا ، میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی لڑکی مجھے میسج کر رہی ہے )
میں : ۔ اچھا جی ، مگر ایسے ہی تو کوئی کسی سے باتیں نہیں کرتا ، کوئی وجہ تو ہوتی ہی ہے نا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ وجہ بھی ہے نا ۔
میں : ۔ کیا وجہ ہے ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ بس ہے نا ، بس ایسا سمجھ لو مجھے تم اچھے لگتے ہو ۔
میں : ۔ ہاہاہاہاہا ، اب آگے تم کہو گے تم مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہو ، پھر کہو گے ، میں تم سے پیار کرتی ہوں ، پھر کہو گے ، میں تمھارے بغیر رہ نہیں سکتی ، یار یہ ڈائیلاگ تو ہزار بار سن چکا ہوں گانڈو ، کم از کم ڈائیلاگ تو تبدیل کر لو کمینوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان ، تم کتنے گندے ہو گئے ہو ، کیسے الفاظ استعمال کر رہے ہو ۔
میں : ۔ زیادہ پاک صاف نہ بنو ، میں نے تمھاری گانڈ پھاڑ دینی ہے ، سچ سچ بتا تو کونسے والا گانڈو ہے ؟
لبنیٰ باجی : ۔ارسلان انسان بنو ، میں تمھاری کوئی دوست نہیں ہوں ، اور یہ گالیاں نکالنی بند کرو پلیزززز ۔
میں : ۔ زیادہ میرے لن پر نہ چڑھو اور سیدھی طرح بتاؤ کون ہو ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ چچچچچھھھی ، کتنے گندے ہو تم ۔
میں : ۔ گندہ ہوں تو کیا تم نے مجھے اپنی بہن دینی ہے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان میں تمہیں ایسا بالکل نہیں سمجھتی تھی ، بائے ۔
میں : ۔ لن پے چڑھ ، کمینہ ۔
پھر اس نمبر سے کوئی میسج نہیں آیا ، جب کافی دیر ہو گئی تو مجھے پریشانی ہونے لگی ، اگر کوئی دوست ہوتا تو اب تک مجھے ڈبل سے بھی زیادہ گالیاں نکال چکا ہوتا ، لیکن اسنے تو کوئی گالی نہیں دی بلکہ اس کا تو میسج بھی نہیں آرہا تھا ، میرے ذہن میں آیا کہیں وہ واقعی کوئی لڑکی تو نہیں تھی پھر خیال آیا کہ اتنا ہینڈسم تو میں ہوں نہیں کہ لڑکیاں خود سے مجھے میسج کریں ، یہ ضرور میرا کوئی دوست ہی ہوگا ، یہ سوچ کر میں پر سکون ہوگیا اور سونے لگا تو ویسے ہی ایک میسج ٹائپ کر کے بھیج دیا ۔۔۔ سوری اگر تم میرے دوست نہیں ہو تو ۔ ۔۔۔
لیکن کوئی جواب نہیں آیا اور میں نے بھی دھیان نہیں دیا ۔سارا دن گزر گیا ، رات کو میں نوشابہ سے بات کر رہا تھا ، وہ اب بھی اسی رات کے بارے میں بات کر رہی تھی کہ پتہ نہیں وہ کون ہوگی اور ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔ ۔۔۔ اتنے دنوں سے ہمارے درمیان سیکس سے متعلق کوئی بات نہیں ہو سکی تھی ، مجھے اب ان باتوں سے الجھن ہونے لگی تھی ، پچھلے کئی دنوں سے ہم تینوں صرف اسی مسئلے پر بات چیت کر رہے تھے ، نوشابہ سے بات کرتے ہوئے اسہی نمبر سے پھر میسج آگیا ،
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان ! تم بہت خراب ہو گئے ہو ۔
میں : ۔ تم ہو کون ؟ سیدھی طرح بتادو ، ورنہ کل سے بھی زیادہ گندی گالیاں دوں گا۔
لبنیٰ باجی : ۔ جب میں نے تمھیں بتایا نا کہ میں کون ہوں تو تم بہت پچھتاؤ گے ، اس لیے اب گالی مت نکالنا ۔
میں : ۔ تو بتادو کون ہو تم ؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ وہ ابھی چھوڑو ، تم یہ بتاؤ اس رات وہ لڑکیاں کون تھیں ؟؟؟
یہ بات سن کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے ، میں تو اب اس بات کو بھلانا چاہتا تھا یہ سوچ کر کہ وہ جو بھی تھی اب کچھ نہیں کرے گی ، اور دوسری بات جو مجھے پریشان کر رہی تھی کہ یہ جو بھی تھی اس کا تعلق باجی لبنیٰ کے گھر سے ہی تھا ، اور کل میں نے اس کے ساتھ بہت بد تمیزی کی تھی ۔ میں بری طرح پھنس گیا تھا اور مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ میں اب اس کی بات کا کیا جواب دوں ۔
میں : ۔ کون سی لڑکی اور کس رات کی بات کر رہی ہو ، اور تم ہو کون ، پہلے یہ تو بتاؤ ؟
لبنیٰ باجی : ۔ میں وہی ہوں جس نے وہ سارا شو لائیو دیکھا تھا ۔
میں : ۔ کس شو کی بات کر رہی ہو ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ وہ ہی شو جو اس رات چھت پر چل رہا تھا ۔۔۔۔ تم سب جانتے ہو ۔۔۔ یاد آیا تمھیں یا پھر گھر آکر یاد دلاؤں۔
میں : ۔ پر تم ہو کون ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، جو پوچھا ہے بس اس کا جواب دو ۔
میں : ۔ تم کیا چاہتی ہو ؟؟؟؟ پلیز تم جو بھی ہو ، کسی کو اس بات کے بارے میں مت بتانا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اگر تم میری باتوں کا سیدھے سے جواب دیتے جاو گے اور جو میں کہتی رہوں گی کرتے رہو گے تو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی ۔
میں : ۔ ٹھیک ہے آپ جو چاہو گی وہی ہوگا ۔۔۔۔ پر اپنا نام تو بتادو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ جب بتانا ہو گا میں خود ہی بتادوں گی ، اب جو میں نے پوچھا ہے وہ بتاؤ ۔
میں : ۔ اگر تم نے سب دیکھا ہے تو وہ لڑکیاں بھی تو دیکھ ہی لی ہوں گی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ہاں ، مگر میں تمھارے منہ سے سننا چاہتی ہوں ، کہ تم سچ بولتے ہو یا نہیں ۔
میں : ۔ پلیز ! آپ جو بھی ہو ، کیا کرو گی یہ سب جان کر ، آپ نے جو کام مجھ سے کروانا ہے مجھے بتا دو میں کر دوں گا ، آپ جو بھی کہو گی میں کرنے کے کیے تیار ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ارسلان ! تم اب مجھے غصہ دلا رہے ہو ، میں جو پوچھ رہی ہوں ، تم نے بتانا ہے یا نہیں ۔
میں : ۔ وہ میرے ماموں کی بیٹیاں تھیں جو اس روز ہمارے گھر آئی ہوئیں تھیں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ پہلی جو اکیلی تمھارے ساتھ اوپر آئی تھی وہ کون تھی ؟؟؟
میں : ۔ وہ چھوٹے والی تھی ، ماہ رخ ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اور دوسری اوپر کیا کرنے آئی تھی ؟؟؟
میں : ۔ ماہ رخ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اس لیے وہ اوپر آئی تھی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیا اسے پتہ تھا کہ تم نے اس کی چھوٹی بہن کے ساتھ کیا کیِا ہے ؟؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اس نے کچھ کہا کیوں نہیں ؟؟؟؟؟ اور وہ تمھارا ساتھ بھی دے رہی تھی ؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیا تمھارا اس دوسری ( نوشابہ)۔ کے ساتھ بھی چکر ہے ؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ اور وہ دونوں اس بات پر خوش بھی ہیں ؟؟؟؟
میں : ۔ ہاں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ تم مجھے پوری بات بتاؤ ؟ ایک کا تو چلو مان لیتے ہیں ، لیکن ایک ہی وقت میں دونوں کے ساتھ ایسا چکر چلانا کیسے ممکن ہے ؟؟؟
میں : ۔ لمبی بات ہے ، میسج پر نہیں بتا سکتا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ زیادہ نخرے مت دکھاؤ ، آرام سے بتادو سب کچھ ۔
میں : ۔ میسج پر کیسے بتاؤں ، آپ کال کر لیں ، میں سب بتا دیتا ہوں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ زیادہ تیز بننے کی کوشش مت کرو ۔۔۔۔ چلو اب بتاؤ یہ سب کیسے ہوا ؟؟؟؟
میں : ۔ میں اور نوشابہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ بھئی واہ کیا خوب ، شادی نوشابہ سے کرنا چاہتے ہو اور ظلم بیچاری ماہ رخ پر کر رہے ہو ۔
اس کی اس بات,, واہ بھئی واہ کیا خوب ،، سے میرے کان کھڑے ہو گئے ، کیونکہ لبنیٰ باجی یہ بات اکثر بول دیتی تھیں اور ان سے ہی سن سن کر میں بھی کبھی کبھی یہی بات بولنے لگا تھا ، لبنیٰ باجی یہ الفاظ اسی وقت بولتی تھی جب وہ خوش گوار موڈ میں ہوتی تھی ۔ اس دن والی باتیں بھی مجھے یاد آگئی تھیں جو لبنیٰ باجی نے شفق آپی کے سامنے مجھ سے کیں تھیں ۔ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یہ باجی لبنیٰ ہی ہے ، پہلے تو میں کچھ ڈر گیا ، پھر ذہن میں آیا کہ لبنیٰ باجی اچھے موڈ میں ہیں اور انجوائے کر رہی ہیں اور اسی لیے وہ مجھ سے پوری سٹوری سننا چاہتی ہیں ،
لبنیٰ باجی مجھ سے زیادہ بڑی نہیں تھی زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ سال کا فرق ہوگا ، وہ تو ان سے پڑھنے کی وجہ سے میں ان کو باجی باجی کہتا رہتا تھا ، وہ بہت خوبصورت تھیں اور ان کے ممے اور گانڈ کافی بڑی تھیں ۔ جب کبھی میں گلی میں دوستوں کے ساتھ گلی میں کھڑا ہوتا اور لبنیٰ باجی وہاں سے گزرتی تو میرے سب دوست ان کو دیکھ کر آہیں بھرتے اور کہتے تھے ، کیا چیز ہے یار بس ایک بار مل جائے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن میں نے کبھی ان میں انٹرسٹ نہیں لیا ، ایک تو بچپن میں میں ان کے پاس پڑھتا رہا ہوں اور دوسرے مجھے زیادہ بڑے مموں والی لڑکیاں زیادہ پسند نہیں تھیں ۔ ۔۔۔ یہ سب باتیں سوچتے ہوئے میرا لن کھڑا ہو گیا ، کافی دنوں سے سیکس سے متعلق باتیں نہیں ہو رہی تھیں اس لیے میں کچھ جلدی ہی گرم ہو گیا تھا ، یہ سوچ کر کہ یہ لبنیٰ باجی ہی ہے اور میری باتیں سن کر مزے لینا چاہتی ہیں ۔ اور میں نے بھی دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں اپنی پیاری لبنیٰ باجی کو خوب مزے دوں گا ، اور فی الحال یہ بھی ظاہر نہیں کروں گا کہ میں نے انھیں پہچان لیا ہے ، یہ سوچ کر میں نے جواب دیا ۔
میں : ۔ وہ سب کچھ ان دونوں بہنوں کی مرضی سے ہی ہوا ہے ۔ ۔۔۔ دراصل مجھے نوشابہ نے خود کہا تھا کہ میری بہن کے ساتھ سیکس کرو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیا ؟؟؟؟ اس نے خود ایسا کہا ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟؟
میں : ۔ وہ کہتی ہے کہ تم میرے مستقبل کے شوہر ہو ، اور ماہ رخ میری بہن ، ماہ رخ کو ,, ایل ،، کی ضرورت ہے اور اگر تم ماہ رخ کو ,,ایل ،، دے دو گے تو تم دونوں کو مزہ بھی آئے گا ، اور بدنامی کا ڈر بھی نہیں رہے گا ، اور مجھے تم دونوں پر اعتماد بھی رہے گا کہ تم لوگ باہر کسی اور کے ساتھ یہ سب نہیں کر رہے ہو ۔
لبنیٰ باجی : ۔ واہ بھئی واہ کیا خوب ، ویسے یہ ,,ایل ،، کیا ہوتا ہے ؟؟؟
میں : ۔ آپ جانتی تو ہو ، میں اس کا پورا نام نہیں لینا چاہتا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ تم جس کا چاہو پورا نام لے سکتے ہو ، تمہیں کونسا پتہ ہے کہ میں کون ہوں ، اس لیے کھل کر بات کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے، اور میں تمہیں شرمندہ بھی نہیں کروں گی ۔
میں : ۔ پکا وعدہ کرتی ہو ؟؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ اوکے ، پکا وعدہ ۔
میں : ۔ ایل ،، کا مطلب لن ، اور ماہ رخ کو لن چاہیے تھا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ نوشابہ کو کیسے پتہ چلا کہ اس کی چھوٹی بہن کو ,, ایل ،، چاہئیے ؟؟؟؟
میں : ۔ اب آپ کیوں ,, ایل ،، بول رہی ہو ، آپ بھی پورا نام لو نا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ کیونکہ میں لڑکی ہوں اور مجھے شرم آتی ہے ۔
میں : ۔ مجھے کونسا پتہ ہے کہ آپ کون ہو ، تو پھر شرم کیسی ؟؟؟
لبنیٰ باجی : ۔ اوکے ۔۔۔ تو نوشابہ کو کیسے پتہ چلا کہ ماہ رخ کو لن کی ضرورت ہے ؟؟
لبنیٰ باجی سے لن کا لفظ سن کر پتہ نہیں کیوں مجھے بہت مزہ آیا ، اتنا مزہ کہ میرا جسم مزے کی شدت سے کانپ گیا ، جس کا آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو اور اس سے ایسی بات یا کام کرنے کو ملے تو بہت ہی زیادہ مزہ آتا ہے ۔
میں : ۔ ماہ رخ نے خود ہی نوشابہ کو کہا تھا کہ مجھے لن کا انتظام کر کے دو ورنہ میں نے باہر کے کسی لڑکے کے ساتھ سیکس کر لینا ہے ۔
لبنیٰ باجی : ۔ لیکن نوشابہ نے تم سے یہ کرنے کو کیسے کہا ، اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ۔
میں : ۔ دراصل ، بات یہ ہے کہ میں بھی نوشابہ کو کافی دنوں سے سیکس کرنے کے لیے فورس کر رہا تھا ، اور وہ شادی سے پہلے سیکس کرنا نہیں چاہتی تھی تو اس نے مجھ سے وعدہ کر لیا کہ وہ کسی اور لڑکی کو میرے لیے راضی کر دے گی ، تبھی ماہ رخ نے اسے اس کام کے لیے تنگ کیا تو اس نے ہم دونوں کو ہی ملا دیا ۔(میں نے جان بوجھ کر تھوڑا سا جھوٹ بول دیا تاکہ الزام مجھ پر نہ آئے)
لبنیٰ باجی : ۔ واہ ، تمھاری تو موجیں ہیں ، ویسے کب سے چل رہا ہے یہ سب ؟
میں : ۔ چل تو دو تین مہینوں سے رہا ہے ، مگر کام پہلی بار اسی رات ہوا تھا جب آپ نے دیکھا تھا ۔
لبنیٰ باجی : ۔ تین مہینوں میں ، صرف ایک ہی بار کیا ہے ؟؟؟
میں : ۔ ہاں ، کیونکہ نہ تو موقع مل رہا تھا ، اور نہ ہی جگہ مل رہی تھی ، اس رات بڑی مشکل سے موقع ملا تھا ، پھر بھی آپ نے دیکھ لیا ، اور اب وہ دونوں بہنیں بہت ڈری ہوئی ہیں ، اب وہ کبھی بھی مجھے کرنے نہیں دیں گی ۔
لبنیٰ باجی : ۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی ، ان سے کہو بے فکر رہیں ۔
جاری ہے ۔
Comment