Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

میری پسندیدہ شاعری

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11




    سسکیاں لیتی ہوئی غمگین ہواؤ، چُپ رہو
    سو رہے ہیں درد، ان کو مت جگاؤ، چُپ رہو

    رات کا پتھر نہ پگھلے گا شعاعوں کے بغیر
    صبح ہونے تک نہ بولو ہم نواؤ ، چُپ رہو

    بند ہیں سب میکدے، ساقی بنے ہیں محتسب
    اے گرجتی گونجتی کالی گھٹاؤ ، چُپ رہو

    تم کو ہے معلوم آخر کون سا موسم ہے یہ
    فصلِ گل آنے تلک اے خوشنواؤ ، چُپ رہو

    سوچ کی دیوار سے لگ کر ہیں غم بیٹھے ہوئے
    دل میں بھی نغمہ نہ کوئی گنگناؤ ، چُپ رہو

    چھٹ گئے حالات کے بادل تو دیکھا جائے گا
    وقت سے پہلے اندھیرے میں نہ جاو ، چُپ رہو

    دیکھ لینا، گھر سے نکلے گا نہ ہمسایہ کوئی!
    اے مرے یارو، مرے درد آشناؤ ، چُپ رہو

    کیوں شریک غم بناتے ہو کسی کو اے قتیلؔ!
    اپنی سولی اپنے کاندھے پر اُٹھاؤ ، چُپ رہو

    (قتیل شفائی)

    Comment


    • #12


      ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو
      جیسے جنگل میں رنگ و بُو لوگو

      ساعتِ چند کے مسافر سے
      کوئی دم اور گفتگو لوگو

      تھے تمہاری طرح کبھی ہم لوگ
      گھر ہمارے بھی تھے کبھو لوگو

      ایک منزل سے ہو کے آئے ہیں
      ایک منزل ہے رُوبُرو لوگو

      وقت ہوتا تو آرزو کرتے
      جانے کس شے کی آرزو لوگو

      تاب ہوتی تو جتسجُو کرتے
      اب تو مایوس جستجُو لوگو

      ابنِ انشا

      Comment


      • #13

        غبارِ طبع میں تھوڑی بہت کمی ہو جائے
        تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے

        ذرا خیال کرو، وقت کس قدر کم ہے
        میں جو قدم بھی اُٹھا لوں ، وہ آخری ہو جائے

        قیامتیں تو ہمیشہ گزرتی رہتی ہیں
        عذاب اُس کے لئے جس کو آگہی ہو جائے

        گزر رہے ہیں مرے رات دن لڑائی میں
        میں سوچتا ہوں کہ مجھ کو شکست ہی ہو جائے

        عجیب شخص ہے تبدیل ہی نہیں ہوتا
        جو اُس کے ساتھ رہے چند دن وہی ہو جائے

        مرا نصیب کنارہ ہو یا سمندر ہو
        جو ہو گئی ہے، تو لہروں سے دشمنی ہو جائے

        تمام عمر تو دوری میں کٹ گئی میری
        نہ جانے کیا ہو؟ اگر اس سے دوستی ہو جائے

        بس ایک وقت میں ساری بلائیں ٹوٹ پڑیں
        اگر سفر یہ کٹھن ہے تو رات بھی ہو جائے

        میں سو نہ جاؤں جو آسانیاں میسر ہوں
        میں مر نہ جاؤں اگر ختم تشنگی ہو جائے

        نہیں ضرور کہ اونچی ہو آسمانوں سے
        یہی بہت ہے زمیں پاؤں پر کھڑی ہو جائے

        تمام عمر سمٹ آئے ایک لمحے میں
        میں چاہتا ہوں کہ ہونا ہے جو ابھی ہو جائے

        وہی ہوں میں وہی امکاں کے کھیل ہیں شہزادؔ
        کبھی فرار بھی ممکن نہ ہو، کبھی ہو جائے

        (شہزادؔ احمد)

        Comment


        • #14
          اوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
          اے رات خبردار کے ہارا نہیں ہوں میں

          درپیش صبح و شام یہی کشمکش ہے اب
          اس رب کا بنوں میں کیسے کے اپنا نہیں ہوں میں

          مجھکو فرشتہ ہونے کا دعوا نہیں مگر
          جتنا برا سمجھتے ہو اتنا نہیں ہوں میں

          اس طرح پھیر پھیر کے باتیں نہ کیجئے
          لہجے کا رخ سمجھتا ہوں بچا نہیں ہوں میں

          ممکن نہیں ہے مجھسے یہ طرز منافقت،
          دنیا تیرے مزاج کا بندا نہیں ہوں میں.

          امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
          گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں

          (امجد اسلام امجد)

          Comment


          • #15

            حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
            رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے

            رات آہستہ گام اُتری ہے
            درد کے ماہتاب زینوں سے

            ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
            دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے

            کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
            دشتِ امروز کے دفینوں سے

            تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
            شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

            آشنا آشنا پیام آئے
            اجنبی اجنبی زمینوں سے

            جی کو آرام آ گیا ہے اداؔ
            کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے

            اداؔ جعفری

            Comment


            • #16
              مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا
              کہ پڑا ہے آج خُم میں قدحِ شراب الٹا


              عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تُم سے
              کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا


              چلے تھے حرم کو رہ میں، ہوئے اک صنم کے عاشق
              نہ ہوا ثواب حاصل، یہ ملا عذاب الٹا


              یہ شب – گذشتہ دیکھا کہ وہ کچھ خفا ہیں گویا
              کہیں حق کرے کہ ہووے یہ ہمارا خواب الٹا


              یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
              وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا


              کھڑے چُپ ہو دیکھتے کیا، مرے دل اجڑ گئے کو
              وہ گنہہ تو کہہ دو جس سے یہ ہوا خراب الٹا


              غزل اور قافیوں میں نہ کہے سو کیونکے انشا
              کہ ہوا نے خود بخود آ، ورقِ کتاب الٹا


              (انشا اللہ خان انشا)

              Comment


              • #17
                شہر سنسان ہے کدھر جائیں
                خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

                رات کتنی گزر گئی لیکن
                اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

                یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
                جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں

                اُن اجالوں کی دھن میں‌پھرتا ہوں
                چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں

                رین اندھیری ہے اور کنارہ دور
                چاند نکلے تو پار اتر جائیں

                (ناصر کاظمی)

                Comment


                • #18

                  اُداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
                  سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے

                  کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا
                  گلُوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے

                  کوئی دیکھائے محبتوں کے سراب مجھکو
                  میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے

                  کوئی تو آئے نئی رُتوں کا پیام لے کر
                  اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے

                  کوئی پیامبر کوئی امام ِزماں ہی آئے
                  اسیر ِذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے

                  (نیلیمہ درانی)

                  Comment


                  • #19
                    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
                    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

                    با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
                    تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

                    بار بار اُٹھنا اسی جانب نگاہ ِ شوق کا
                    اور ترا غرفے سے وُہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

                    تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
                    اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

                    کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
                    اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

                    جان کرسونا تجھے وہ قصد ِ پا بوسی مرا
                    اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے

                    تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
                    حال ِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

                    جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا
                    سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے

                    غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
                    وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

                    آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر ِ فراق
                    وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے

                    دوپہر کی دھوپ میں میرے بُلانے کے لیے
                    وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

                    آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
                    اپنا جانا یاد ہے،تیرا بلانا یاد ہے

                    میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی
                    ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے

                    دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
                    جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے

                    چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
                    مدتیں گزریں،پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے

                    شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
                    اور مِرا وہ چھیڑنا، گُدگدانا یاد ہے

                    با وجودِ ادعائے اتّقا حسرت مجھے
                    آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانا یاد ہے

                    (حسرت موہانی)

                    Comment


                    • #20
                      بہت شاندار شاعری ہے
                      مزہ أگیا پڑھ کے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X