Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

میری پسندیدہ شاعری

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    Originally posted by Sun flower View Post
    بہت شاندار شاعری ہے
    مزہ أگیا پڑھ کے
    میری پوسٹس کو پسند کرنے کا شکریہ

    Comment


    • #22
      سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
      تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
      سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اسکی
      سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
      تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
      یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

      سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
      ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
      سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے چشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
      سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اسکی
      سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
      سو اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
      سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

      سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اسکی
      جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

      بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
      سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

      رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں
      چلے تو اسکو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

      کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
      اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

      اب اسکے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں
      فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

      (​احمد فراز)

      Comment


      • #23
        (​فیض احمد فیض)
        ہم دیکھیں گے
        لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
        وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
        جو لوح ازل میں لکھا ہے
        جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
        روئی کی طرح اڑ جائیں گے
        ہم محکوموں کے پاؤں تلے
        جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
        اور اہل حکم کے سر اوپر

        جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
        جب ارض خدا کے کعبے سے
        سب بت اٹھوائے جائیں گے
        ہم اہل صفا مردود حرم
        مسند پہ بٹھائے جائیں گے
        سب تاج اچھالے جائیں گے
        سب تخت گرائے جائیں گے
        بس نام رہے گا اللہ کا
        جو غائب بھی ہے حاضر بھی
        جو منظر بھی ہے ناظر بھی
        اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
        جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

        اور راج کرے گی خلق خدا
        جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو​

        Comment


        • #24
          (فیض احمد فیض)
          سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
          کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں

          یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
          کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں

          جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا
          نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں

          چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں
          یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں

          مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے
          کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں​

          Comment


          • #25
            میں خوش نصیبی ہوں تیری مجھے بھی راس ہے تو
            تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو

            عجیب شے ہے محبت کے ہم کہاں جائیں
            تیرے پاس ہوں میں بھی میرے بھی پاس ہے تو

            میں نے خود کو فراموش کیا تیرے لیے
            عام ہے سارا جہاں میرے لیے خاص ہے تو

            بند ہونٹوں پر میرے ریت جمی جاتی ہے
            میرے پاس ہے پھر بھی میری پیاس ہے تو

            درمیان تیرے میرے جب سے لوگ آنے لگے
            اس کے بعد سے میں تنہا اور بے ایس ہے تو

            زمانہ ہم کو جدا کر سکے نہیں ممکن
            محبت میں جو ناخن ہوں میں تو ماس ہے تو

            دور ہو کر بھی نہیں ہے کوئی دوری
            تیرے قریب ہوں میں میرے بھی پاس ہے تو

            یہ کون تیرے میرے درمیان ہے جاناں
            کے میں بے درد میں ہوں اور محو یاس ہے تو

            زندگی میری تیرے گرد گھومتی ہے فقط
            عام ہے سارا جہاں میرے لیے ایک خاص ہے تو

            عجیب شے ہے محبت میں کہیں چلا جاؤں
            تیرے قریب ہوں میں اور میری پیاس ہے تو

            (وصی شاہ)

            Comment


            • #26
              مجھے ہر کام سے پہلے
              سحر سے شام سے پہلے
              یہی اک کام کرنا ہے
              تمہارا نام لینا ہے

              تمہی کو یاد کرنا ہے

              کہ جب بھی درد پینا ہے
              کہ جب بھی زخم سینا ہے
              غم دنیا سے گھبرا کر
              مجھے جب جام لینا ہے
              تمہارا نام لینا ہے

              تمہی کو یاد کرنا ہے

              تمہاری یاد ہے دل میں
              کہ اک صیاد ہے دل میں
              کوئی برباد ہے دل میں
              اسے آباد کرنا ہے
              تمہارا نام لینا ہے
              تمہی کو یاد کرنا ہے

              (​وصی شاہ)

              Comment


              • #27
                گنگناتے ہوئے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
                انگلیاں پھیر کے بالوں میں سلا دے مجھ کو

                جس طرح فالتو گلدان پڑے رہتے ہیں
                اپنے گھر کے کسی کونے سے لگا دے مجھ کو

                یاد کر کے مجھے تکلیف ہی ہوتی ہوگی
                ایک قصہ ہوں پرانا سا بھلا دے مجھ کو

                ڈوبتے ڈوبتے آواز تری سن جاؤں
                آخری بار تو ساحل سے صدا دے مجھ کو

                میں ترے ہجر میں چپ چاپ نہ مر جاؤں کہیں
                میں ہوں سکتے میں کبھی آ کے رلا دے مجھ کو

                دیکھ میں ہو گیا بدنام کتابوں کی طرح
                میری تشہیر نہ کر اب تو جلا دے مجھ کو

                روٹھنا تیرا مری جان لیے جاتا ہے
                ایسے ناراض نہ ہو ہنس کے دکھا دے مجھ کو

                اور کچھ بھی نہیں مانگا مرے مالک تجھ سے
                اس کی گلیوں میں پڑی خاک بنا دے مجھ کو

                لوگ کہتے ہیں کہ یہ عشق نگل جاتا ہے
                میں بھی اس عشق میں آیا ہوں دعا دے مجھ کو

                یہی اوقات ہے میری ترے جیون میں کہ میں
                کوئی کمزور سا لمحہ ہوں بھلا دے مجھ کو

                (​وصی شاہ)

                Comment


                • #28


                  ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
                  ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
                  اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
                  ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

                  مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
                  بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
                  ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

                  بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
                  کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
                  ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

                  کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
                  حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
                  ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

                  (منیر نیازی)

                  Comment


                  • #29
                    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
                    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

                    نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
                    یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

                    ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
                    کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں

                    جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
                    کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

                    جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
                    غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

                    (منیر نیازی)

                    Comment


                    • #30
                      کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں
                      ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں

                      بس ایک وحشت منزل ہے اور کچھ بھی نہیں
                      کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہتے ہیں

                      مجھے تو روز کسوٹی پہ درد کستا ہے
                      کہ جاں سے جسم کے بخیے ادھڑتے رہتے ہیں

                      کبھی رکا نہیں کوئی مقام صحرا میں
                      کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے ہیں

                      یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں
                      یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں

                      بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں
                      اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں

                      (​گلزار​)

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X