Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

احمد فراز

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
    احمد فراز


    اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
    ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا
    آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
    میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا
    شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
    اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
    اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
    میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
    دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
    میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
    اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
    کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
    جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
    اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
    اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
    ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

    Comment


    • #22
      کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
      احمد فراز


      کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
      غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
      وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند
      میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
      یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
      میں کیسے بات کروں اب کہاں سے لاؤں اسے
      مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
      کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
      وہی جو دولت دل ہے وہی جو راحت جاں
      تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے
      جو ہم سفر سر منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
      عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے

      Comment


      • #23
        گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
        احمد فراز

        گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
        مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا
        دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
        اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
        ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
        آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
        باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
        شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا
        کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
        تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
        ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
        کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
        اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
        اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
        میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
        تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا

        Comment


        • #24
          روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
          احمد فراز

          روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
          در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
          عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
          بعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
          پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
          پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
          بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
          رو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں
          کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں
          گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں
          داغ دامن کے ہوں دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
          کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں

          Comment


          • #25
            تیری باتیں ہی سنانے آئے
            احمد فراز

            تیری باتیں ہی سنانے آئے
            دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
            پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
            تیرے آنے کے زمانے آئے
            ایسی کچھ چپ سی لگی ہے جیسے
            ہم تجھے حال سنانے آئے
            عشق تنہا ہے سر منزل غم
            کون یہ بوجھ اٹھانے آئے
            اجنبی دوست ہمیں دیکھ کہ ہم
            کچھ تجھے یاد دلانے آئے
            دل دھڑکتا ہے سفر کے ہنگام
            کاش پھر کوئی بلانے آئے
            اب تو رونے سے بھی دل دکھتا ہے
            شاید اب ہوش ٹھکانے آئے
            کیا کہیں پھر کوئی بستی اجڑی
            لوگ کیوں جشن منانے آئے
            سو رہو موت کے پہلو میں فرازؔ
            نیند کس وقت نہ جانے آئے

            Comment


            • #26
              قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
              احمد فراز
              قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
              دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
              ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
              خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
              یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
              اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
              اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
              اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
              زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
              اور تو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے
              دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فرازؔ
              مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے

              Comment


              • #27
                ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
                احمد فراز


                ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
                جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
                اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
                مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
                کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
                کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
                شائستگیٔ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
                نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
                کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزم جاں میں
                کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
                عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی
                پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے
                سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے
                جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے

                Comment


                • #28
                  Bohat hi behtreen bohat hi aala aur shandar Ahmad Faraz shayri main aik bara aur Jana pehchana naam In barshon se dosti achi NAHI Faraz Kacha hai tera makaan Kuch to khayal kar

                  Comment


                  • #29
                    بہت خوب جناب کیا بات ہے مزہ آگیا اچھی شاعری ہے

                    Comment


                    • #30
                      Originally posted by alone_leo82 View Post
                      سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
                      تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
                      سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اسکی
                      سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
                      تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
                      یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
                      ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
                      سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے چشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
                      سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اسکی
                      سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
                      سو اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
                      سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
                      سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اسکی
                      جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
                      بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
                      سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
                      رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں
                      چلے تو اسکو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
                      کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
                      اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
                      اب اسکے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں
                      فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
                      استاد غلام علی کی آواز میں اس غزل کو سننے کا لطف الگ ہی ہے۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X