Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

امجد اسلام امجد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی
    امجد اسلام امجد


    بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی
    بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی
    آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں
    خشک ہونٹوں پر لرزتی اک دعا رہ جائے گی
    رو بہ رو منظر نہ ہوں تو آئینے کس کام کے
    ہم نہیں ہوں گے تو دنیا گرد پا رہ جائے گی
    خواب کے نشے میں جھکتی جائے گی چشم قمر
    رات کی آنکھوں میں پھیلی التجا رہ جائے گی
    بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب
    دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی

    Comment


    • #52
      کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر
      امجد اسلام امجد


      کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر
      ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر
      تو پھر وہ کون ہے جو ماورا ہے ہر شے سے
      نہیں ہے کچھ بھی یہاں گر خیال سے باہر
      یہ کائنات سراپا جواب ہے جس کا
      وہ اک سوال ہے پھر بھی سوال سے باہر
      ہے یاد اہل وطن یوں کہ ریگ ساحل پر
      گری ہوئی کوئی مچھلی ہو جال سے باہر
      عجیب سلسلۂ رنگ ہے تمنا بھی
      حد عروج سے آگے زوال ہے باہر
      نہ اس کا انت ہے کوئی نہ استعارہ ہے
      یہ داستان ہے ہجر و وصال سے باہر
      دعا بزرگوں کی رکھتی ہے زخم الفت کو
      کسی علاج کسی اندمال سے باہر
      بیاں ہو کس طرح وہ کیفیت کہ ہے امجدؔ
      مری طلب سے فراواں مجال سے باہر

      Comment


      • #53
        لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں

        ​​​​​​
        ​​​​​امجد اسلام امجد



        لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں
        زمانے خود کو دہرانے لگے ہیں
        پروں میں لے کے بے حاصل اڑانیں
        پرندے لوٹ کر آنے لگے ہیں
        کہاں ہے قافلہ باد صبا کا
        دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں
        کھلے جو ہم نشینوں کے گریباں
        خود اپنے زخم افسانے لگے ہیں
        کچھ ایسا درد تھا بانگ جرس میں
        سفر سے قبل پچھتانے لگے ہیں
        کچھ ایسی بے یقینی تھی فضا میں
        جو اپنے تھے وہ بیگانے لگے ہیں
        ہوا کا رنگ نیلا ہو رہا ہے
        چمن میں سانپ لہرانے لگے ہیں
        فلک کے کھیت میں کھلتے ستارے
        زمیں پر آگ برسانے لگے ہیں
        لب زنجیر ہے تعبیر جن کی
        وہ سپنے پھر نظر آنے لگے ہیں
        کھلا ہے رات کا تاریک جنگل
        اور اندھے راہ دکھلانے لگے ہیں

        Comment


        • #54
          زندگانی جاودانی بھی نہیں
          امجد اسلام امجد


          زندگانی جاودانی بھی نہیں
          لیکن اس کا کوئی ثانی بھی نہیں
          ہے سوا نیزے پہ سورج کا علم
          تیرے غم کی سائبانی بھی نہیں
          منزلیں ہی منزلیں ہیں ہر طرف
          راستے کی اک نشانی بھی نہیں
          آئنے کی آنکھ میں اب کے برس
          کوئی عکس مہربانی بھی نہیں
          آنکھ بھی اپنی سراب آلود ہے
          اور اس دریا میں پانی بھی نہیں
          جز تحیر گرد باد زیست میں
          کوئی منظر غیر فانی بھی نہیں
          درد کو دل کش بنائیں کس طرح
          داستان غم کہانی بھی نہیں
          یوں لٹا ہے گلشن وہم و گماں
          کوئی خار بد گمانی بھی نہیں

          Comment


          • #55
            قائد اعظم
            امجد اسلام امجد



            آدم کی تاریخ کے سینے میں ڈوبے ہیں
            کتنے سورج کتنے چاند
            کیسے کیسے رنگ تھے مٹی سے پھوٹے
            موج ہوا کے بنتے اور بگڑتے رستوں میں ٹھہرے
            اور خاک ہوئے
            نیلے اور اتھاہ سمندر کے ہونٹوں کی پیاس بنے
            آنے والے دن کی آنکھوں میں لہراتی آس بنے
            کیسے کیسے رنگ تھے جو مٹی سے چمکے
            اور چمک کر پڑ گئے ماند
            کچھ سورج ایسے پھر بھی
            اپنی اپنی شام میں جو اس دشت افق کا رزق ہوئے ہیں
            لیکن اب تک روشن ہیں گہنائے نہیں
            پھول ہیں جن کو چھونے والی سبز ہوائیں خاک ہوئیں
            لیکن اب تک تازہ ہیں کمہلائے نہیں
            ایسا ہی اک سورج تھا وہ آدم زادہ
            ٹوٹی اینٹوں کے ملبے سے جادہ جادہ
            ٹکڑا ٹکڑا یکجا کر کے
            ایک عمارت کی بنیادیں ڈال رہا تھا
            سات سمندر جیسے دل میں
            ان کے غم کو پال رہا تھا
            جن کے کالے تنگ گھروں میں کوئی سورج چاند نہیں تھا
            پھولوں کی مہکار نہیں تھی بادل کا امکان نہیں تھا
            صبح کا نام نشان نہیں تھا
            نیند بھری آنکھوں کے لان میں
            وہ خود سورج بن کر ابھرا
            ڈھلتی شب میں پورے چاند کی صورت نکلا
            صبح کے پہلے دروازے پر دستک بن کر گونج اٹھا
            آج میں جس منزل پر کھڑا ہوں
            اس پر پیچھے مڑ کر دیکھوں
            تو اک روشن موڑ پہ اب بھی
            وہ ہاتھوں میں
            آنے والے دن کی جلتی شمع تھامے
            میری جانب دیکھ رہا ہے
            جانے کیا وہ سوچ رہا ہے

            Comment


            • #56
              چشم بے خواب کو سامان بہت
              امجد اسلام امجد


              چشم بے خواب کو سامان بہت!
              رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
              ہاتھ میں سنگ لیے
              خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
              دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
              روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے
              ہر طرف چیخ سی چکراتی ہے
              ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
              درد کا نام سماعت کے لیے راحت جاں
              دست بے مایہ کو زر
              نطق خاموش کو لفظ
              خواب بے در کو مکاں
              درد کا نام مرے شہر خواہش کا نشاں
              منزل ریگ رواں
              درد کی راہ پہ تسکین کے امکان بہت!
              ہجر کا درد کٹھن ہے پھر بھی
              وہ بھی اس روز بچھڑ کر مجھ سے
              خوش تو نہ تھی
              اس نے یہ منزل غم
              کس طرح کاٹی ہوگی
              وہ بھی تو میری طرح ہوگی پریشان بہت
              (درد کی راہ میں تسکین کے سامان بہت)
              کیا خبر اس کی سماعت کے لیے
              درد کا نام بھلا ہو کہ نہ ہو
              شہر خواہش کا نشاں
              نطق خاموش کا اظہار ہوا ہو کہ نہ ہو
              دست بے مایہ کا زر (وہ تہی دست نہ تھی)
              ہجر کا درد بنا ہو کہ نہ ہو
              اس کی گلیوں میں رواں دستکیں دیتی ہوئی سرخ ہوا ہو کہ نہ ہو
              عشق نوخیز کے ارمان بہت
              شوق گل رنگ کے رستے میں بیابان بہت
              سوختہ جان بہت
              چشم بے خواب کو سامان بہت

              Comment


              • #57
                سمندر آسمان اور میں
                امجد اسلام امجد


                کھلیں جو آنکھیں تو سر پہ نیلا فلک تنا تھا
                چہار جانب سیاہ پانی کی تند موجوں کا غلغلہ تھا
                ہوائیں چیخوں کو اور کراہوں کو لے کے چلتی تھیں اور مٹی
                کی زرد خوشبو میں موت موسم کا ذائقہ تھا
                نظر مناظر میں ڈوب کر بھی مثال شیشہ تہی تھی یعنی
                گل تماشا نہیں کھلا تھا
                ہراس جذبوں کی رہ گزر میں دل تعجب زدہ اکیلا
                خموش تنہا بھٹک رہا تھا
                کہ ایک سائے کی نرم آہٹ نے راستوں کا نصیب بدلا
                کوئی تعلق کے چاند لہجے میں اپنے پن کی ادا سے بولا
                ''مرے مسافر اداس مت ہو کہ عہد فرقت ہی زندگی ہے
                یہ فاصلوں کی خلیج راہ وصال ہے اور طلب نگاہوں کی روشنی ہے
                تمام چیزیں تمہارے میرے
                بدن کے رشتوں کا سلسلہ ہیں
                تمہیں خبر ہے کہ ہم سمندر
                اور آسمانوں کی انتہا ہیں!''

                Comment


                • #58
                  Lajawab

                  Comment


                  • #59
                    یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دن
                    امجد اسلام امجد


                    یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دن
                    کہاں پہ جا کے رکیں گے یہ بھاگتے ہوئے دن
                    غروب ہوتے گئے رات کے اندھیروں میں
                    نوید امن کے سورج کو ڈھونڈتے ہوئے دن
                    نہ جانے کون خلا کے یہ استعارے ہیں
                    تمہارے ہجر کی گلیوں میں گونجتے ہوئے دن
                    نہ آپ چلتے نہ دیتے ہیں راستہ ہم کو
                    تھکی تھکی سی یہ شامیں یہ اونگھتے ہوئے دن
                    پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات
                    گزر گیا ہے یہی بات سوچتے ہوئے دن
                    تمام عمر مرے ساتھ ساتھ چلتے رہے
                    تمہیں کو ڈھونڈتے تم کو پکارتے ہوئے دن
                    ہر ایک رات جو تعمیر پھر سے ہوتی ہے
                    کٹے گا پھر وہی دیوار چاٹتے ہوئے دن
                    مرے قریب سے گزرے ہیں بارہا امجدؔ
                    کسی کے وصل کے وعدے کو دیکھتے ہوئے دن

                    Comment


                    • #60
                      تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں
                      امجد اسلام امجد


                      تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں
                      جیسے ڈوبنے والوں کے ہوں ہاتھ سمندر میں
                      ساحل پر تو سب کے ہوں گے اپنے اپنے لوگ
                      رہ جائے گی کشتی کی ہر بات سمندر میں
                      ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں
                      کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں
                      میں ساحل سے لوٹ آیا تھا کشتی چلنے پر
                      پگھل چکی تھی لیکن میری ذات سمندر میں
                      کاٹ رہا ہوں ایسے امجدؔ یہ ہستی کی رہ
                      بے پتواری ناؤ پہ جیسے رات سمندر میں

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X