Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #71
    #زندگی_اے_تیرے_نال

    #قسط_نمبر_37(پارٹ2)


    لیزا گھبرائی سی کمرے میں بیٹھی اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ عزم کے ساتھ رخصت ہو کر چوہدریوں کی حویلی میں واپس آئی تھی۔سارے فنکشن اور راستے میں عزم کی پیغام دیتی آنکھیں اسے بے چین کرتی رہی تھیں۔وہ بولڈ سی لڑکی عزم کی نگاہوں میں موجود جنون سے گھبرا رہی تھی۔

    "کم آن لیزا اتنا کیوں ڈر رہی ہو کھا تھوڑی جائے گا وہ تمہیں جسٹ چل۔"

    لیزا نے خود کو حوصلہ دلایا اور اپنے کمرے کو دیکھنے لگی۔جہاں پوری حویلی اور راستے کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا وہیں انکے کمرے کا یوں سونا سونا ہونا لیزا کو بلکل پسند نہیں آیا۔

    "کیا مسٹر کو نہیں پتہ کہ روم بھی ڈیکور کرتے ہیں۔"

    لیزا نے منہ بنا کر سوچا اور اٹھ کر بیڈ سائیڈ ٹیبل کے پاس گئی۔ٹیبل پر عزم کا موبائل پڑا دیکھ لیزا مسکرا دی۔خود تو وہ اسے کمرے میں بھجوا کر نہ جانے کہاں چلا گیا تھا لیکن وہ موبائل اسکی تنہائی کا اچھا سہارا ہو سکتا تھا۔

    لیزا نے موبائل کا کیمرہ آن کیا اور خود کی کتنی ہی سیلفیز بنا ڈالیں۔تصویریں بنا کر انہیں دیکھنے کے بعد لیزا کے ہونٹوں کو شرمیلی مسکراہٹ نے چھوا۔وہ آج تک اتنی خوبصورت نہیں لگی تھی۔اسے انتظار تھا تو بس یہ بات عزم کے ہونٹوں سے سننے کا۔

    اچانک ہی لائٹ چلی گئی تو لیزا نے سہم کر اردگرد چھانے والے اندھیرے کو دیکھا۔اس نے موبائل کی ٹارچ جلانے کا سوچا لیکن اسکے ہاتھ میں موجود موبائل اس سے چھین لیا گیا۔

    "کک ۔۔۔۔کون ہے؟"

    لیزا نے گھبرا کر پوچھا مگر اچانک ہی اسے اپنے ہونٹوں کی قریب جانی پہچانی سانسوں کی مہک اور حرارت محسوس ہوئی تو وہ کانپ کر رہ گئی۔

    "کون ہو سکتا ہے میری چوزی۔"

    عزم کی آواز اندھیرے میں گونجی اور اس نے لیزا کو کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچا۔

    "عزم۔۔۔"

    لیزا نے اندھیرے سے گھبرا کر اسے پکارا۔

    "ہمممم عزم کی جان۔۔۔"

    عزم کی گھمبیر آواز میں اسکے لیے بہت محبت چھپی تھی۔

    "لائٹ کیوں گئی ہے مجھے اندھیرا اچھا نہیں لگتا۔"

    لیزا نے اسکی باہوں میں سمٹتے ہوئے پوچھا۔

    "تو آؤ میری جان تمہیں اندھیروں سے دور روشنیوں میں لے جاؤں۔"

    عزم نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور چلنے لگا۔

    "عزم اندھیرے میں مجھے اٹھا کر کیوں چل رہے ہو گر جائیں گے ہم۔"

    لیزا نے سہم کر اسکا گریبان ہاتھ میں جکڑا جبکہ اسکی بات پر عزم کی ہنسی وہاں گونجی۔

    "زندگی کے بتیس سال اس گھر میں گزارے ہیں میں نے میری چوزی یہاں کے چپے چپے سے واقف ہوں فکر مت کرو گروں گا تو تمہیں اپنے نیچے نہیں گراؤں گا بلکہ اپنے اوپر گرا لوں گا "

    عزم نے معنی خیزی سے کہا تو لیزا نے دہکتا چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا۔عزم اسے حویلی کی چھت پر لے آیا تو ہلکی ہلکی سی چاند کی روشنی پر لیزا نے سکھ کا سانس لیا۔

    عزم نے اسے اتارا اور پھر سے کہیں چلا گیا۔لیزا مسکرا کر چاند کو دیکھنے لگی جو آسمان پر موجود بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلتا بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔اس سب پر شام میں ہونے والی بارش کی وجہ سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا روح تک کو تسکین دے کر ماحول کو مزید خواب ناک بنا رہی تھی۔

    لائٹ دوبارہ آ گئی تو لیزا حیرت سے منہ کھولے ہر طرف دیکھنے لگی۔پورے چھت کو لائٹوں اور لال پھولوں سے سجایا گیا تھا لیکن جس چیز نے لیزا کی توجہ اپنی جانب کھینچتی تھی وہ چھت کے وسط میں لگایا گیا بیڈ تھا جس کے گرد نیٹ کے لال پردے لگائے گئے تھے جو ہوا سے لہرا رہے تھے۔جبکہ بیڈ شیٹ پر پڑے پھول کسی کی خواہشات کو بیان کر رہے تھے۔

    حویلی کی چھت گاؤں کے ہر گھر سے زیادہ اونچی تھی اور پردے اتنے اونچے بنائے گئے تھے کہ چھت پر کسی کی نظر پڑنا ناممکن ہی تھا۔لیزا کو عزم کا یہ انتخاب دل سے پسند آیا تھا۔

    اچانک ہی عزم نے پیچھے سے لیزا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی جانب کھینچا تو لیزا کٹی پتنگ کی طرح اسکی باہوں میں کھینچی چلی آئی۔

    "عزم۔۔۔۔"

    لیزا کے پکارنے پر عزم نے اسکا رخ اپنی جانب کیا اور لو دیتی نگاہوں سے اسکے حسین چہرے کو دیکھنے لگا۔

    "جاؤ اور جا کر بیڈ پر بیٹھو۔"

    عزم کے حکم دینے پر لیزا نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر اسکی بات مانتی جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔

    "ٹانگیں بیڈ پر کرو اور اپنا لہنگا پھیلا کر بیٹھو۔"

    عزم کی اگلی فرمائش پر لیزا نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا لیکن پھر اسکی بات مانتی ویسے بیٹھ گئی جیسا عزم نے اسے کہا تھا۔

    "اب اپنا گھونگھٹ نکالو۔"

    لیزا نے گہرا سانس لے کر اسکی یہ بات بھی مان لی تو عزم مسکرا کر اسکے پاس آیا اور بیڈ پر اسکے قریب بیٹھتے ہوئے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔

    "سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ تم کہاں سے سب سے زیادہ خوبصورت ہو۔ان نازک انگلیوں سے یا ان گوری کلائیوں سے اس لیے۔۔۔۔"

    عزم نے بات ادھوری چھوڑ کر ایک انگوٹھی جیب سے نکالی اور لیزا کی نازک انگلی میں پہنا دی۔

    "تمہاری منہ دیکھائی میں یہ انگوٹھی بنوائی تھی لیکن پھر مجھے ان کلائیوں کا خیال آ گیا جو سونی رہنے کے لیے تو نہیں بنی۔"

    اتنا کہہ کر عزم نے اپنے ہونٹ اسکی کلائی پر رکھے اور جیب سے ایک نفیس سی سونے کی بریسلیٹ نکال کر اسکی کلائی میں پہنا دی۔

    "جانتی ہو اس سب کے بعد بھی میرا دل نہیں بھرا۔نہ جانے یہ دل تمہیں کتنا سنوارنا چاہتا ہے تو میں بھی اسکی سنتا گیا۔"

    عزم نے اسکا سفید مہندی لگا پاؤں اپنے ہاتھ میں پکڑا اور جیب سے ایک نازک سی پائل نکال کر اسکے دائیں پیر میں پہنا دی۔اب لیزا کی بس ہوئی اسی لیے اس نے گھونگھٹ چہرے سے ہٹایا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

    "بے بی کتنے گفٹس لیے ہیں تم نے۔"

    "زیادہ نہیں بس یہ۔۔۔۔"

    عزم نے ایک پینڈنٹ نکالا جو ایک دل کی شیپ میں تھا اور اس پر بنا اے بہت زیادہ خوبصورت تھا۔عزم نے اس پینڈنٹ کو اسکی گردن میں پہنایا اور اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رکھے۔لیزا کی ہتھیلیاں پسینے سے نم ہو گئیں۔

    "اور یہ۔۔۔"

    عزم نے پیارے سے سونے کے ٹاپس اسکے سامنے کیے تو لیزا ہنس دی۔

    "ٹھیک ہے پھر میں پوری کی پوری تمہاری ہوں کر لو جو کرنا ہے۔"

    اپنی بات پر عزم کی آنکھوں میں جنون اترتا دیکھ لیزا کو احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ گئی تھی۔

    "مم۔۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔"

    "لیکن میرا ابھی ایک ہی مطلب ہے۔"

    اتنا کہہ کر عزم نے وہ بھاری دوپٹہ اس سے جدا کیا اور اسکے کانوں کو بھاری جھمکوں سے آزاد کر کے وہ ٹاپس لیزا کے کانوں میں پہنا دیے۔

    اپنے کانوں پر عزم کے ہونٹ محسوس کر لیزا اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی اور عزم کو اپنے دل کی من مانی کرنے کا ہر موقع مل گیا۔کچھ ہی دیر میں وہ لیزا کے گلے سے وہ بھاری ہار،اسکے ماتھے پر پہنی ماتھا پٹی اور دائیں کلائی میں پہنے بھاری کنگن اس سے جدا کر چکا تھا جبکہ بائیں کلائی میں پہنی چوڑیاں ابھی بھی اپنی جگہ پر قائم تھیں۔

    وہ لیزا کے بال بھی کھول چکا تھا لیکن ناک پر پہنی نتھ ابھی بھی اپنی جگہ پر قائم تھی ۔لیزا نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تو وہ اسکے سرخ ہونٹ سے ٹکراتے اس نتھ کے موتی کو ہی گھور رہا تھا۔

    "میں نہیں جانتا مجھے تمہاری یہ نتھ کا موتی اچھا لگ رہا ہے یا برا۔۔۔۔نگاہیں کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے آج تک کچھ اتنا خوبصورت نہیں دیکھا اور دل۔۔۔"

    عزم ایک پل کو رکا اور اسکی آنکھوں میں جنون اترا تھا۔

    "دل کہہ رہا ہے کہ اسکی ہمت کیسے ہوئی میری ملکیت کو چھونے کی۔"

    اتنا کہہ کر عزم نے اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور جان کا آزار بنتی اس نتھ کو راستے سے ہٹاتے ہوئے انتہائی شدت سے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔لیزا نے گھبرا کر اسکا گریبان اپنی مٹھی میں جکڑا اور اپنے ہونٹوں پر اسکی شدت کو برداشت کرنے لگی۔

    جھٹکے سے اس نتھ کو لیزا کی ناک سے جدا کر کے وہ مکمل طور پر اسکی سانسوں پر قابض ہو گیا اور لیزا اپنا کپکپاتا وجود اس میں چھپانے لگی۔

    جب اسے اپنی کرتی کی ڈوریوں پر عزم کا ہاتھ محسوس ہوا تو اس نے گھبرا کر عزم سے دور ہونا چاہا لیکن یہ اسکے بس میں کہاں تھا۔اسے آزاد کیے بنا عزم نے اسکی ڈوری کو کھینچ کر توڑ دیا جو آسانی سے کھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور اس ڈوری کا غصہ اسکے سرخ ہونٹوں پر نکالتے ہوئے اپنے دانت ان پر گاڑ دیے۔

    لیزا گھبرا کر اس سے دور ہوئی اور بیڈ سے اٹھ کر دیوار کے پاس آ کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔عزم مسکرا کر اسکے پاس آیا اور اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں لے لیا۔

    "اتنی جلدی گھبرا گئی میری چوزی کل رات تو بہت بہادری سے کہہ رہی تھی کہ ٹکرا لو گی ہر طوفان سے۔"

    عزم نے اسکی کرتی کندھے سے ہٹا کر وہاں اپنے ہونٹ رکھے تو لیزا گھبرا کر اسکی جانب پلٹی اور اس کے سینے میں چھپ گئی۔ساتھ ہی آسمان پر نظر آتا چاند بھی شرما کر بادلوں کی اوٹ میں چھپا تھا۔

    چاند چھپا بادل میں
    شرما کے میری جانا
    سینے سے لگ جا تو
    بل کھا کے میری جانا

    عزم نے اسے باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لے آیا تو لیزا نے فوراً اپنا دوپٹہ خود پر اوڑھ لیا۔اس بولڈ سی لڑکی کو آج یوں شرماتا دیکھ عزم مسکرا دیا اور بیڈ پر لیٹ کر اسے خود پر گرا لیا۔

    لیزا کا دوپٹہ اسکے چہرے پر گرا تھا جسکی خوشبو پر عزم سکون سے آنکھیں موند گیا۔

    آنچل میں تو چھپ جانے دے
    ارے نہیں بابا نہیں ابھی نہیں نہیں نہیں

    لیزا نے دوپٹہ اسکے چہرے سے ہٹایا تو عزم نے گھٹا کی ماند اپنے گرد پھیلے بالوں میں چہرہ چھپا لیا۔

    زلفوں میں تو کھو جانے دے
    ارے نہیں بابا نہیں ابھی نہیں نہیں نہیں

    لیزا نے اس سے دور ہونا چاہا تو عزم مڑ کر اس پر حاوی ہو گیا اور اس سے دوپٹے کو دور کر کے اسکی نازک گردن پر جھک گیا۔

    پیار تو نام ہے صبر کا ہم دم
    وہی ہی بھلا بولو کیسے کریں ہم
    ساون کی راہ جیسے دیکھے مور ہے

    اپنی گردن پر عزم کی جان لیوا شدت کو محسوس کرتے لیزا اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔چاند ایک بار پھر سے بادلوں کی اوٹ سے باہر آیا تھا۔لیزا کو عزم کے ہاتھ اپنی کمر پر محسوس ہوئے جو اسکی کرتی اوپر کی جانب کھسکا رہے تھے۔

    "عزم۔۔۔"

    لیزا نے گھبراتے ہوئے اسکے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے روکنا چاہا لیکن عزم نے اسکے پیٹ پر موجود اس چھوٹے سے موتی کو محسوس کیا تو اسکی گردن سے دور ہو کر اس موتی پر جھک گیا۔لیزا سسک کر آنکھوں کو زور سے میچتی تکیہ ہاتھوں میں دبوچ گئی۔

    ہیے رہنے بھی دو جانے بھی دو
    اب چھوڑو ناں منہ موڑو ناں
    یہ سماں ہاں یہ سماں کچھ اور ہے۔

    عزم اس سے دور ہوا اور اپنی شیروانی اتارنے کے بعد پھر سے کالی گھٹا کی مانند اس پر چھا گیا تو لیزا نے گھبرا کر خود کو اسکے سینے میں چھپاتے ہوئے اپنا آپ اسکے سپرد کر دیا۔انکی محبت کا گواہ بنتا چاند ایک بار پھر سے شرما کر بادلوں کی اوٹ میں ہو گیا۔

    چاند چھپا بادل میں
    شرما کے میری جانا
    سینے سے لگ جا تو
    بل کھا کے میری جانا۔
    ????
    سلطان اپنے کمرے میں آیا تو اسکی نگاہ نے بے چینی سے کنیز کو تلاش کرنا شروع کیا جو اسے بیڈ پر بیٹھی نظر آئی تو سلطان نے سکھ کا سانس لیا۔اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسکی نوری اسے واپس مل گئی تھی شائید خدا نے اسکی عبادتوں کو اسکی دعاؤں کو سن لیا تھا۔

    سلطان اسکے پاس آیا اور اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔کنیز بس وہاں بیٹھی ایک غیر مرئی نقتے کو دیکھتی جا رہی تھی۔

    "جانتا ہوں نوری میں تمہارا گناہ گار ہوں جانتا ہوں تم سے بہت زیادتی کی ہے میں تم سے یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے معاف کر دو کیونکہ میری بزدلی معافی نہیں سزا کے لائق ہے۔"

    سلطان نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا جو بغیر کسی تاثر کے تھا۔

    "تمہارے دل میں جو سزا آئے مجھے دو مجھ پر چلاؤ برا بھلا کہو مجھے چاہے تو مار لو لیکن بس ایک بار مجھ سے بات کر لو "

    سلطان کی آواز میں تڑپ تھی جسے محسوس کر کے بھی کنیز جوں کی توں بیٹھی رہی۔

    "پلیز کنیز ایک بار مجھ سے بات کر لو۔"

    سلطان نے روتے ہوئے کہا اور کنیز کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اپنی جانب کیا تو سلطان کی آنکھیں اسکی آنکھوں سے ٹکرائیں۔

    وہ آنکھیں آج بھی اتنی ہی خوبصورت تھیں جتنی سلطان کو یاد تھا لیکن ان میں سے زندگی کی جوت ختم ہو چکی تھی اور ان آنکھوں کو یوں مردہ دیکھ کر سلطان ہزار موت مرا تھا۔

    اس نے فرش پر بیٹھتے ہوئے کنیز کو اپنی گود میں بیٹھا لیا اور اسکو اپنے سینے سے لگا کر خاموشی سے آنسو بہانے لگا۔اپنی نوری کی اس حالت کا زمہ دار وہ خود تھا اسی نے اس معصوم سی زندہ دل لڑکی کی یہ حالت کر دی تھی کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندگی سے بہت دور تھی۔

    "وعدہ کرتا ہوں نوری میں تمہارے ہر زخم کا مرحم بنوں گا تمہیں اتنی محبت دوں گا کہ تم میری ہر ستم کو بھول جاؤ گی۔"

    سلطان نے اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپایا اور اسکا ہاتھ اسکی کمر پر گیا جس میں ہلکا سا اوبھار محسوس کر سلطان کو اپنے اندر تک سکون اترتا محسوس ہونے لگا۔

    "مجھے میرے بچے کی قسم ہے میں اپنی نوری کو واپس حاصل کر کے رہوں گا۔"

    سلطان نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھ کر قسم کھائی اور اسے باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر بیٹھاتا اسکے لیے کھانا لینے چلا گیا کیونکہ نوری نے شادی پہ کچھ بھی نہیں کھایا تھا اور اب سلطان ملک مر تو سکتا تھا لیکن اپنی بیوی کے حقوق سے غافل نہیں ہو سکتا تھا۔
    ????



    #زندگی_اے_تیرے_نال

    #قسط_نمبر_38

    Third last episode



    عزم مسکراتے ہوئے اپنی آغوش میں سوئی اپنی متاع جان کو دیکھ رہا تھا جو اسکی شدتوں سے چور بکھری بکھری سی اسکے دل میں اتر رہی تھیں۔فجر کے وقت اسکے سو جانے پر عزم اسے اٹھا کر اپنے کمرے میں واپس لے آیا تھا اور پھر خود فریش ہو کر مسجد نماز پڑھنے چلا گیا۔

    وہ واپس آیا تو وہ تب بھی ایک ہاتھ اپنے چہرے کے نیچے رکھے معصومیت سے سو رہی تھی۔اس وقت وہ عزم کے ہی کھلے سے کرتے میں ملبوس تھی اور اسکی مہک میں مہکی وہ اسے اپنی جانب راغب کر رہی تھی۔عزم کے قدم خود بخود اسکی جانب اٹھے تھے۔اسکے ساتھ لیٹتے ہوئے عزم نے اسے باہوں میں لیا تو لیزا نے منہ بنایا جیسے نیند میں اسکی یہ حرکت پسند نہ آئی ہو۔

    "اب تو دوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میری چوزی ہر لمحہ مجھے اپنی سانسوں سے قریب محسوس کرنے کی عادت بنا لو۔"

    عزم نے اسکی ناک پر ہونٹ رکھتے ہوئے کہا اور اسے اپنی باہوں میں بھرے کتنی دیر اسے محبت سے نہارتا رہا۔نہ جانے یہ تشنگی تھی جو اسے دیکھنے پر بھی نہیں مٹ رہی تھی۔عزم کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اٹھے اور عزم اس کے چہرے پر اپنے قرب کے رنگ دیکھے۔

    اس خواہش کے چلتے عزم جا بجا اسکے چہرے پر اپنی محبت کے پھول کھلانے لگا جسے اپنی نیند میں محسوس کر لیزا نے منہ بنایا اور کروٹ بدل کر سو گئی لیکن اب اتنی سی دوری بھی عزم کو کہاں گوارا تھی۔

    اسی لیے اسے اپنی جانب پلٹ کر عزم نے اسے گھورا اور شدت سے اسکے نیم کھلے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ساری رات اسکی شدتوں سے چور وہ لڑکی خود پر ہونے والے ستم کو محسوس کر فوراً اٹھی اور اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنے لگی۔

    عزم نے اس سے دور ہو کر اسے مشکل سے گہرے گہرے سانس بھرتے ہوئے دیکھا تو مسکرا دیا۔اسکا گلابی ہوا چہرہ اور اسکی جھکی ہوئی پلکیں رات کے گزرے ہر لمحے کی فسوں خیزی بیان کر رہی تھی۔

    "بے حجابِ حیا ہے جاں میری
    سازش ہے کوئی میری جان لین دی۔"

    عزم نے گھمبیر آواز میں کہا جبکہ یہ بات لیزا کو سمجھ تو نہیں آئی تھی لیکن پھر بھی اسے وہ الفاظ بہت پیارے لگے تھے۔پھر بھی لیزا نے منہ بنا کر عزم کو دیکھا۔

    "تھک گئی ہوں سونا ہے مجھے۔"

    اس نے اتنی معصومیت سے یہ بات کہی کہ عزم کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔

    "کیوں تھک گئی کل سارا دن بس بیٹھ کر گزارا ہے پھر ایسا کیا کیا جو تھک گئی۔"

    عزم کی بات پر لیزا نے اسے گھورا لیکن پھر شرارت سے مسکرا کر اپنی انگلی اس کی قمیض کے بٹن پر پھیرنے لگی۔

    "اپنے شوہر کی خدمت۔"

    یہ بات کہہ کر لیزا کے چہرے نے لہو چھلکایا اور وہ عزم کے سینے میں چہرہ چھپا گئی ن
    جبکہ اسکی اس حرکت پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا اور پھر اسے اپنی گرفت میں لے کر اس پر حاوی ہو گیا ۔

    "ابھی ٹھیک سے خدمت نہیں کی چلو اور کرو۔"

    عزم نے اسکی ناک کو دانتوں میں دبا کر ہلکا سا کاٹا تو لیزا کا روم روم کانپ گیا۔

    "پلیز بے بی مجھے سونا ہے۔"

    لیزا نے بہت لاڈ سے کہا جبکہ عزم اب مدہوش ہوتا کبھی اسکے چہرے کے ہر نقش کو چوم رہا تھا تو کبھی اسکی گردن کو۔

    "ہنی پلیز۔۔۔۔"

    لیزا نے پھر سے کوشش کی مگر اسکی یہ باتیں عزم کو مزید بے چین ہی کر رہی تھیں۔لیزا کو خود پر پہنی قمیض کا پہلا بٹن کھلتا محسوس ہوا تو اس نے سہم کر اپنا ہاتھ عزم کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

    "ابھی بھی دل نہیں بھرا تمہارا؟"

    لیزا نے صدمے سے پوچھا ساری رات تو وہ اسکی جان کا وبال بنا رہا تھا اور اب پھر سے اسکے ارادے لیزا کو نیک نہیں لگ رہے تھے۔

    "نہیں بھرا۔۔۔۔کس نے کہا تھا تمہیں کہ خود میں اتنا نشا رکھو جو انسان کو بہکنے پر مجبور کرتا رہے۔"

    عزم نے ہلکے سے دانت اسکے گال پر گاڑھے تو لیزا زور سے اپنی آنکھیں موند گئی اور اسکے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے ایک بار پھر سے اپنا آپ اسکے سپرد کر دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ کچھ بھی کر لے اب وہ اپنی منمانی کر کے ہی دم لے گا۔

    کچھ دیر بعد عزم اپنی تشنگی مٹا کر اس سے دور ہوا تو لیزا نے پھولے ہوئے منہ سے اسے دیکھا۔

    "اب سو جاؤں؟"

    اسکی اس بات پر عزم نے ہنستے ہوئے اسے اپنی باہوں میں لیا اور محبت سے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھے۔

    "سو جاؤ اب ایک گھنٹے تک نہیں کروں گا تمہیں ڈسٹرب۔"

    لیزا نے گھور کر اسے دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں موند کر اسکی باہوں میں سمٹتے ہوئے سونے لگی کیونکہ جانتی تھی کہ اس پتھر سے سر پھوڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

    اس کے سو جانے پر عزم نے محبت سے اسکے سر پر اپنے ہونٹ رکھے اور اٹھ کر اس کے لیے ناشتہ بنانے چلا گیا۔اس کی چوزی نے تو اسے بہت سے انگریزی کھانے کھلائے تھے آج وہ اسے اپنے ہاتھ کی بنائی حلوہ پوڑی کھلانا چاہتا تھا۔
    ????
    کنیز اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیڈ پر بیٹھی تھی جب سلطان اسکے لیے ناشتہ کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے کمرے میں داخل ہوا اور مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے اسکے پاس بیٹھ گیا۔

    "سوری زرا سی دیر ہو گئی ناشتہ لانے میں وہ کیا ہے ناں آن بے چاری میری فرمائش پر چیزیں بنا بنا کر تھک گئی تھی اس لیے اس نے دیر لگا دی۔"

    سلطان نے کھانے پر سے ڈھکن ہٹاتے ہوئے کہا اور اپنے پسندیدہ آلو کے پراٹھوں کی خوشبو کنیز کے ناک سے ٹکرائی۔

    "دیکھا مجھے پتہ ہے میری جان کو آلو کے پراٹھے بہت پسند ہیں چلو اب یہ سارا تم نے ختم کرنا ہے۔"

    سلطان نے نوالا توڑ کر اسکے ہونٹوں کے پاس کیا لیکن کنیز منہ کھولنے کی بجائے خاموشی سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔کنیز کو اس کے پاس آئے ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا لیکن اس میں زرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی تھی وہ بس خاموشی سے سلطان کو دیکھتی رہتی تھی اور اسکی ان مردہ آنکھوں کی تاب لانا سلطان کے بس میں نہیں تھا اسی لیے ہمیشہ نظریں جھکا لیتا۔

    "اب کھاؤ ناں تم نے رات سے کچھ نہیں کھایا پلیز اپنے لیے نہ سہی ہمارے بچے کی خاطر کھا لو۔"

    سلطان کی زبان پر اپنے بچے کا ذکر سن کر کتنے ہی آنسو کنیز کی آنکھوں سے بہے۔اسکا دل کیا سلطان سے پوچھنے کونسا بچہ جسے اسکے پیدا ہونے سے پہلے ہی ناجائز کہہ دیا گیا۔وہ بچہ جسکے باپ میں اتنی ہمت تک نہیں تھی کہ دنیا کے سامنے انکی ماں کو اپنی بیوی تک کہہ پاتا لیکن کنیز اس سے یہ سب نہیں کہنا چاہتی تھی وہ اس سے کوئی بات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

    جتنا عرصہ وہ اس سے دور عزم کے پاس اسی کے دیے ایک گھر میں رہی تھی وہ ہر پل بس اسی سب کے بارے میں سوچتی رہتی تھی جو اسکے ساتھ ہوا۔عزم نے کتنی ہی ملازمائیں اسکے پاس رکھی تھیں اور خود بھی اسکا حال پوچھنے آتا رہتا تھا۔

    کنیز کو یاد تھا جب اماں بی اس سے ملنے آئی تھیں تو وہ انکی گود میں سر رکھ کر کتنا زیادہ روئی تھی اور انہیں کتنی ہی دہائیاں دی تھیں کہ اسنے کچھ غلط نہیں کیا تب اماں بی نے ہی اسے سمجھایا تھا کہ غلطی اسکی نہیں سلطان کی تھی اور وہ سزا کا حقدار ہے۔

    اپنے فرائض پورے نہ کرنے کے جرم میں کنیز اسے جو سزا دینا چاہے دے سکتی ہے۔اس لیے کنیز نے اسکے لیے یہی سزا چنی تھی بے رخی اور خاموش رہنے کی سزا۔

    اگر وہ پہلے والی کنیز ہوتی تو کب کا اپنے سلطان کے آنسو اور اسکی بے چینی دیکھ کر پگھل گئی ہوتی لیکن یہ کنیز وہ کنیز نہیں تھی۔اس کنیز کو اس ذلت اور رسوائی نے اسی دن مار دیا تھا۔

    نفرت تھی اس کنیز کو اس پرانی کنیز کی معصومیت سے جس نے خود کو ہر ایک کے ہاتھ کا کھلونا بنا دیا۔جس کا اسکے شوہر تک نے فایدہ اٹھایا۔اب کنیز کے دل میں رحم نہیں آ رہا تھا کیونکہ اس پر رحم نہیں کیا گیا تھا۔

    وہ بے چاری تو اپنا گناہ تک نہیں جانتی تھی اگر اماں بی اسے معاشرے کا ہر تقاضہ اور سلطان کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتیں تو شائید وہ آج بھی بے خبر ہوتی۔

    کنیز کو مسلسل خاموشی سے ایک بت بنا دیکھ کر سلطان نے گہرا سانس لیا اور نوالا واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔اسکے ایسا کرتے ہی کنیز نے خود وہ نوالا پکڑا اور آہستہ سے کھانا کھانے لگی۔

    اس کی یہ بے رخی سلطان کے دل کو چھلنی کر گئی۔یعنی وہ اسکے ہاتھ سے کھانا تک گورا نہیں کرتی تھی۔سلطان بس بے بسی سے اسے دیکھتا جا رہا تھا۔اسکی بے رخی دل کو تکلیف دے رہی تھی لیکن وہ اسی قابل تھا۔

    کنیز نے پورا پراٹھا کھا لیا تو سلطان نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھا۔

    "اور باقی سب کون کھائے گا خاص طور پر یہ دہی؟"

    سلطان نے ٹرے میں پڑے باقی لوازمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا لیکن کنیز بس خاموشی سے اٹھی اور واش روم میں ہاتھ دھونے چلی گئی۔

    سلطان نے گہرا سانس لیا اور وہ کھانے کی ٹرے ملازمہ کو پکڑا آیا۔جب وہ واپس آیا تو واش روم سے آنے والی آواز پر بے چینی سے اس جانب بڑھا۔کنیز کو سنک پر جھک کر الٹی کرتا دیکھ سلطان پریشان ہوتا اسکی جانب بڑھا اور اسکی کمر سہلانے لگا۔

    "کیا ہوا نوری تم ٹھیک تو ہو؟'

    سلطان کی آواز میں ایک بے چینی اور خوف تھا جبکہ کنیز نے اپنا منہ پانی سے صاف کیا اور خاموشی سے کمرے سے باہر آ گئی۔

    "بتاؤ مجھے کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے ناں تمہاری۔"

    سلطان کے دوبارہ پوچھنے پر بھی کنیز نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ غصے سے باہر نکل گیا اور تھوڑی دیر کے بعد آن کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔

    "کیا ہوا کنیز سلطان بھائی کہہ رہے تھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں؟"

    آن نے کنیز کی نبض پکڑتے ہوئے کہا اور اسکا چیک اپ کرنے لگی۔

    "یہ تو بالکل ٹھیک ہے بھائی۔"

    آن نے مسکرا کر کنیز کا گال سہلاتے ہوئے کہا۔

    "ٹھیک ہے تو ابھی الٹیاں کیوں کر رہی تھی اتنی آن پلیز اسے ٹھیک سے چیک کرو نہیں تو ہاسپٹل لے جاتا ہوں اسے۔"

    سلطان کی بے چینی پر آن مسکرا دی۔

    "اس حالت میں وامٹنگ ہوتی رہتی ہے آپ پریشان مت ہوں بس خیال رکھیں کہ یہ کچھ نہ کچھ کھاتی رہے اور پریشان نہ ہو۔"

    آن نے محبت سے کنیز کے گال کو چھو کر کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔اسکے جاتے ہی سلطان اسکے پاس آیا اور اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

    "سنا تم نے اپنا بہت سا خیال رکھنا ہے تم نے ہمارے بچے کی خاطر اور میری خاطر"

    سلطان نے اسکا گال ہاتھ میں پکڑا لیکن کنیز نے اسکا ہاتھ اپنے چہرے سے دور کیا اور بیڈ پر لیٹ کر چادر اوڑھ لی۔

    سلطان سمجھ چکا تھا کہ اسکی یہ خاموشی اور بے رخی اسکی ناراضگی تھی اور سلطان کو یہ ناراضگی جان سے زیادہ عزیز تھی۔وہ اسے منانے کے لیے اور اسے خوش دیکھنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا اور وہ جانتا تھا کہ وہ کونسی چیز تھی جو کنیز کو خوشی دے سکتی تھی۔
    ????
    ان دونوں کی شادی ہوئے تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور اب لیزا کو لگنے لگا تھا کہ عزم کا پیار اسکے لیے کم ہو گیا ہے۔ناشتے کے لیے میز پر بیٹھے عزم اخبار دیکھنے میں مصروف تھا اور لیزا اسے گھورنے میں۔

    وہ کب سے یہ برداشت کر رہی تھی کہ عزم اسے دیکھنے کی بجائے اس سے بات کرنے کی بجائے اخبار پڑھ رہا تھا اور اب اسکے صبر کی انتہا ہو چکی تھی۔اس نے اخبار کو ہاتھ میں جھپٹا اور بری طرح سے عزم کو گھورنے لگی۔

    "یہ کیا حرکت تھی میری شیرنی؟"

    عزم نے حیرت سے اسکے غصے سے دہکتے چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔

    "ہمت کیسے ہوئی تمہاری مجھے اگنور کر کے اخبار پڑھنے کی جب میں پاس ہوں تو تمہاری ساری اٹینشن مجھے چاہیے جو تم مجھے دیتے بھی تھے صحیح کہتے ہیں لوگ آدمیوں کو بس ایک چیز چاہیے ہوتی ہے اور جب انکا مطلب پورا ہو جاتا ہے تو وہ بدل جاتے ہیں۔"

    لیزا نے اخبار کو مٹھی میں اچھی طرح مروڑ کر فرش پر پھینکتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر عزم نے سکھ کا سانس لیا کہ اسکے کسی ملازم کو انگلش نہیں آتی تھی۔

    "اور تمہیں کیوں لگتا ہے میں بدل گیا ہوں کل رات میری محبت میں کوئی کمی رہ گئی کیا؟"

    عزم نے اسکا ہاتھ تھام کر شرارتاً کہا تو لیزا اب غصے کی بجائے شرم سے لال ہوئی تھی۔

    "تم مجھے ہنی مون پر نہیں لے کر گئے۔"

    لیزا نے منہ بنا کر شکوہ کیا تو عزم مسکرا دیا۔اسکی بیوی اب اسے ہر بات میں لاڈ دیکھانے لگی تھی جیسے ثابت کرنا چاہتی ہو کہ وہ اس سے بہت چھوٹی تھی۔

    "کہاں ہنی مون پر جانا ہے میرے بے بی نے؟"

    عزم نے اسی کے انداز میں اسکا گلابی گال کھینچتے ہوئے پوچھا تو اسکا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔

    پاکستان میں ہی کہیں جہاں زیادہ گرمی نہ ہو آئی تھنک کشمیر جاتے ہیں میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا تھا وہ بہت زیادہ پیارا بھی ہے۔"

    لیزا نے ایکسائٹیڈ ہوتے ہوئے کہا۔

    "ہم ضرور چلیں گے لیکن پلیز تھوڑا صبر کر لو ابھی کچھ معاملات ہیں جنہیں چھوڑ کر جا نہیں سکتا ورنہ یقین جانو شادی کے اگلے دن ہی تمہیں سب سے چرا کر بہت دور لے جاتا۔"

    عزم نے محبت سے اسکی ناک کھینچ کر کہا تو لیزا کھلکھلا دی۔پہلے جو اسے لگ رہا تھا کہ عزم کی محبت میں کمی آ گئی ہے یہ خیال اب بہت دور جا چکا تھا۔

    "اوکے لیکن زیادہ ویٹ نہیں کروں گی میں۔"

    لیزا نے انگلی دیکھا کر کہا۔تبھی ملازمہ ناشتہ لے کر وہاں آئی اور انکے سامنے ناشتہ رکھنے لگی۔لیزا نے اپنے سامنے پڑے پراٹھے کو دیکھا تو منہ بنا کر عزم کو دیکھنے لگی۔

    "مجھے یہ نہیں کھانا بہت آئلی ہے یہ۔"

    "شادی کے اگلے دن میرے ہاتھ کی آئلی حلوہ پوڑی تو کھا لی تھی تم نے۔"

    عزم نے دیسی گھی کے بنے پراٹھے کا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

    "ہاں تو وہ تو تم نے بنائی تھی ناں اس لیے پلیز مجھے یہ نہیں کھانا۔اس میں سے سمیل بھی اچھی نہیں آتی۔میڈ سے بولو مجھے سیریل لا کر دے۔"

    لیزا نے ناک چڑھا کر کہا تو عزم مسکرا دیا۔

    "تم وہ تھوڑی تھوڑی پاپڑی کھاتی رہو بس اور اتنی سی جان ہی رہے گی تمہاری۔ یہ پراٹھے کھاؤ تا کہ کچھ بنے تمہارا۔"

    عزم نے ایک اور نوالہ منہ میں لیتے ہوئے کہا۔

    "تم کھاتے ہو ناں یہ سب تمہارا کچھ بنا؟"

    لیزا نے منہ پھلا کر طنز کیا۔

    "ہم بنا ہے ناں یہ سب کھانے کی وجہ سے ہی تو میں پوری رات تم سے دور نہیں ہوتا اور تم بس ایک گھنٹے میں ہی بے حال ہو جاتی ہو۔"

    عزم نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو لیزا اسکی بے باک بات پر پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوئی تھی۔

    "میں جا رہی ہوں."

    لیزا کی بات پر عزم نے ہنستے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔

    "اچھا اب میں تنگ نہیں کروں گا بیٹھو منگوا کہ دیتا ہوں تمہیں تمہارا سیریل۔"

    عزم نے محبت سے کہا تو لیزا واپس بیٹھ گئی۔عزم نے اسے کارن فلیکس منگوا کر دیے اور وہ عزم سے باتیں کرتے ہوئے ناشتہ کرنے لگی۔تبھی ایک ملازمہ عزم کے پاس آئی۔

    "چوہدری جی آپ سے ایک لڑکی ملنے آئی ہے۔"

    ملازمہ کی اردو میں کہی اس بات پر عزم نے حیرت سے اسے دیکھا۔

    "کون لڑکی؟"

    "پتہ نہیں چہرہ چھپایا ہے اس نے اپنا بس کہتی ہے وہ آپ کو کچھ بہت ضروری بتانا چاہتی ہے۔"

    عزم نے ہاں میں سر ہلایا تو ملازمہ وہاں سے چلی گئی۔

    "تم ناشتہ کرو چوزی دو منٹ میں آتا ہوں۔"

    عزم نے اسکا ماتھا چوم کر کہا تو لیزا نے منہ بسور کر اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔وہ جانتی تھی کہ عزم کو کوئی کام ہی ہو گا۔عزم وہاں پہنچا جہاں وہ لڑکی موجد تھی لیکن اس لڑکی کو دیکھ کر عزم کے ماتھے پر بل آئے۔

    "تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

    عزم کے حیرت سے پوچھنے پر وہ لڑکی گھبرا کر اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔

    "مجھے آپ کو کچھ بہت ضروری بتانا ہے عزم بھائی۔"

    اس لڑکی نے امید سے عزم کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔عزم نے ہاں میں سر ہلایا تو لڑکی نے سکھ کا سانس لیا اور ہر بات عزم کو بتا دی۔اسکی بتائی باتیں سن کر ساتوں آسمان ایک ساتھ عزم پر گرے تھے۔
    ????
    کنیز سلطان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی۔کچھ دیر پہلے ہی اس نے اسے تیار ہو کر اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا اور کنیز خاموشی سے اسکے ساتھ چل پڑی۔وہ جانتی نہیں تھی کہ وہ دونوں کہاں جا رہے ہیں لیکن پھر اچانک ہی گاڑی گاؤں میں موجود چھوٹے سے گھر کے سامنے رکی اور سلطان اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔

    "چھوٹا سا تحفہ ہے تمہارے لیے امید ہے پسند آئے گا۔"

    سلطان گاڑی سے باہر نکلا اور اسکی جانب آ کر اسے بھی نرمی سے باہر نکالا۔کنیز اسکے ساتھ خاموشی سے اس گھر کی جانب جانے لگی۔سلطان نے دروازہ کھٹکٹایا تو وہ جلدی سے کھل گیا اور دو بچے فوراً ہی کنیز سے لپٹ گئے۔

    کنیز نے سر جھکا کر انہیں دیکھا تو اپنے بھائیوں کو دیکھ کر کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔

    "امی امی۔۔۔۔کنیز باجی آئی ہیں۔"

    موٹو نے شور مچایا تو کنیز کی امی مسکراتی ہوئیں وہاں آئیں اور دروازے پر تیل لگا کر کنیز کو دیکھتے ہوئے اپنے بازو پھیلا دیے۔کنیز نے حیرت سے اپنی بہن کو دیکھا جو نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی پھر کنیز آگے بڑھی اور اپنی ماں سے لپٹ گئی۔

    کنیز کے باپ رشید نے مسکرا کر اپنی بچی کو دیکھا جو ماں کے سینے سے لگ کر دنیا جہاں بھول گئی تھی۔کچھ دیر بعد کنیز کے سسک سسک کر رونے کی آواز آنے لگی تو رشید نے پریشانی سے سلطان کو دیکھا۔

    "بس میری گڑیا تو مت اب دیکھ مل گئی ناں تو ہمیں واپس۔۔۔۔"

    کنیز کی ماں نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر چومتے ہوئے کہا۔کنیز نے ان سے دھیان ہٹا کر رشید کو دیکھا اور پھر روتے ہوئے ان کے گلے لگ گئی۔

    اتنے عرصے بعد اپنی بیٹی کو گلے لگا کر رشید بھی رونے لگا تھا۔

    "کیا اب سب میری بہن کو رو کے ہی دیکھائیں گے۔۔۔۔اندر چلتے ہیں۔۔۔۔"

    کنیز کے بہن نے کہا تو رشید نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور کنیز کو اسکی ماں کے حوالے کر کے خود سلطان کے سامنے آ گیا۔

    "مجھے سمجھ نہیں آتا سائیں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں آپ نے نہ صرف میری بچی کو بچایا،اسکا خیال رکھا بلکہ ہم سب کو بھی اسکی غلامی سے آزاد کروا دیا۔میں آپ کا احسان مر کی بھی نہیں چکا سکتا۔"

    سلطان نے رشید کے ہاتھ تھامے اور مسکرا دیا۔

    "بڑے چھوٹوں کو سامنے ہاتھ نہیں جوڑتے آپ کنیز کے بابا ہیں اور میرے بھی میں نے جو کیا وہ میرا فرض تھا۔"

    سلطان نے نرمی سے کہا اور محبت سے بھرپور نگاہ کنیز پر ڈالی۔

    "میں شام کو اسے لینے آ جاؤں گا تب تک آپ کے ساتھ وقت گزار لے۔"

    "لیکن سائیں اندر آئیں کوئی چائے پانی۔۔۔"

    رشید نے فوراً کہا تو سلطان نے انکار میں سر ہلایا۔

    "نہیں ابھی تو مجھے کام ہے لیکن رات کا کھانا میں یہیں کھاؤں گا۔"

    اتنا کہہ کر سلطان انکو خدا حافظ بولتا ایک آخری نگاہ کنیز پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا تو وہ سب کنیز کو لے کر کمرے میں آ گئے۔اتنے عرصے بعد ان سب سے مل کر کنیز کو لگا کہ وہ پھر سے زندہ ہو دل میں آیا کہ خود پر ہوا ہر ایک ستم رو رو کر اپنی ماں کو بیان کر دے لیکن پھر وہ اپنے باپ کے چہرے پر پریشانی اور اسکا جھکا سر دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

    "سائیں بہت زیادہ اچھے انسان ہیں کنیز تجھے پتہ ہے انہوں نے اتحاد ملک کو لاکھوں روپے دے کر ہمیں اس سے آزادی دلائی اور یہی نہیں ہمیں اپنے گاؤں میں یہ گھر اور تیرے ابا کو کھیتی کرنے کے لیے اپنے حصے میں سے زمین بھی دی۔"

    اپنی ماں کی بات پر کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

    "ہم نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم اس آدمی کی قید سے آزاد ہو پائیں گے۔سچ کہوں تو تیری بہن کی اتنی پرواہ تھی مجھے کہ کہیں تیری طرح سردار اس کے پیچھے نہ پڑھ جائے لیکن دیکھ نہ صرف سائیں نے ہمیں اس کے شر سے آزاد کروایا بلکہ تیری بہن کا رشتہ اپنے انتہائی اچھے آدمی سے کروا دیا۔"

    اس بات پر کنیز نے حیرت سے اپنی بہن کو دیکھا جس کے چہرے پر شرمیلی مسکان تھی۔

    "شائید تو جانتی ہو اسے اشفاق نام ہے اسکا۔"

    اس بات پر کنیز کو بھی اطمینان ہوا۔اشفاق سلطان کا سب سے خاص آدمی تھا اور نظر جھکا کر بات کرنے والا انتہائی اچھا اور شریف انسان تھا۔

    "سمجھ نہیں آتا اپنے رب کا شکر کیسے ادا کروں جس نے میری بیٹیوں کے اتنے اچھے نصیب کیے۔"

    کنیز اس بات پر افسردگی سے اپنا سر جھکا گئی۔کنیز کی بہن اسکے لیے کھانا لے کر آئی تو اسکی ماں اپنے ہاتھ سے وہ کھانا کنیز کو کھلانے لگی۔

    "سائیں نے بتایا تھا کہ تو ماں بننے والی ہے۔"

    اپنی ماں کی بات پر کنیز کے گال تپ کر لال ہو گئے تو کنیز کی ماں ہنس دی۔

    "خدا تجھے زندگی والی اولاد سے اور خوشیاں مبارک کرے آمین۔"

    کنیز کی ماں نے اسکے چہرے پر افسردگی دیکھی تو اپنی بڑی بیٹی کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور خود کنیز کا چہرہ ہاتھ میں پکڑ کر اونچا کیا۔

    "کیا بات ہے نوری تو دکھی کیوں ہے؟"

    اپنی ماں کے محبت سے پوچھنے پر کنیز کی بس ہوئی اور اس نے انکی گود میں سر رکھ کر روتے ہوئے ہر بات انہیں بتا دی۔اپنے دل کا سارا غبار وہ رو رو کر ماں کی آغوش میں نکالنے لگی۔جبکہ اسکی ہر بات پر اس ماں کا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔

    "وہ اچھے نہیں ہیں اماں بہت برے ہیں زرا پیار نہیں کرتے مجھ سے زرا خیال نہیں میرا انہیں۔۔۔۔"

    کنیز نے سسک سسک کر روتے ہوئے کہا۔

    "وہ زرا اچھے نہیں اماں پتہ ہے میں نے انہیں کہا کہ انابیہ۔۔۔۔باجی سے شادی نہ کریں اور انہوں نے میری بات نہیں مانی۔۔۔۔انہوں نے کسی کو نہیں بتایا کہ میں انکی بیوی ہوں میں انہیں اس قابل ہی نہیں لگی۔"

    کنیز نے اپنا درد بیان کیا جو اسکی ماں خاموشی سے سنتی رہی۔

    "میں اب انکے پاس نہیں جاؤں گی نہیں اچھے لگتے وہ مجھے آپ کے پاس رہوں گی میں۔۔۔"

    کنیز نے گویا حتمی فیصلہ سنایا اور پھر خاموشی سے آنسو بہانے لگی جبکہ اسکی ماں اسکے بال سہلا رہی تھی۔

    "پتہ ہے کنیز ایک سونے کی چوڑی کتنی خوبصورت اور قیمتی ہوتی ہے۔ہر کوئی اس سے پہننا چاہتا ہے،اسکے لیے اپنی دولت لٹا دیتا ہے۔"

    اپنی ماں کی بات پر کنیز نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔

    "لیکن اس سونے کی چوڑی کو ایک بھدے سے سنہری پتھر سے خوبصورت چوڑی بننے کے لیے کتنی ہی تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔پہلے اسے جلا جلا کر پگھلایا جاتا ہے پھر اسے لوہے سے مارا جاتا ہے۔کاٹ کر ایک شکل دی جاتی ہے اور رگڑ کر چمکایا جاتا ہے تب جا کر وہ چوڑی پہننے کے قابل ہوتی ہے۔"

    کنیز سر جھکا کر انکی بات کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

    "جانتی ہو عورت بھی اسی چوڑی کی مانند ہوتی ہے جسے سختیوں اور تلخیوں سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر وہ کسی کی چاہت بن سکتی ہے ایسی چاہت جسے کوئی کبھی بھی چھوڑنا نہیں چاہتا۔۔۔"

    کنیز کی ماں نے نرمی سے اسکا گال ہاتھ میں پکڑ کر کہا۔

    "اور اگر وہ برداشت نہیں کرتی اور ہٹ دھرم ہو کر یہ سوچتی ہے کہ میں ہی کیوں برداشت کروں تو ایسی عورت کبھی بھی اپنا گھر بچا نہیں پاتی میری جان۔"

    کنیز کی ماں نے اسے بہت محبت سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

    "تو کیا اگر اسکا شوہر ظالم ہو تو بھی وہ ساری زندگی اسکے ساتھ سسک سسک کر گزار دے اس امید سے کہ کل کو کچھ اچھا ہو گا؟"

    کنیز نے سوال پر اسکی ماں نے انکار میں سر ہلایا۔

    "نہیں لیکن عورت اپنے شوہر کے غلطی پر پچھتانے پر اسے معاف تو کر سکتی ہے ناں۔"

    اس بات پر کنیز نے اپنا سر جھکا لیا۔

    "جانتی ہوں معاف کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن جانتی ہو اس دنیا کی سب سے سخت سزا معافی ہی ہوتی ہے جو آپکے دشمن کو آپکے در کا غلام بنانے کی طاقت رکھتی ہے۔"

    کنیز کی ماں اسکے بال سہلاتے ہوئے اسے سمجھانے لگیں۔

    "تبلیغ کے وقت ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کتنے ہی دشمنوں نے انہیں جسمانی اور ذہنی تکلیف دی۔ان کے پیاروں کو ان سے چھین لیا لیکن جب فتح کا وقت آیا اور ان کے سارے دشمن انکے پیروں میں تھے تو جانتی ہو انہوں نے کیا کیا۔۔۔۔انہوں نے سب کو معاف کر دیا۔"

    کنیز اب بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔

    "ہمارا دین ہمیں معاف کرنا سیکھاتا ہے کنیز کبھی سوچا ہے کہ نماز پڑھ کر اپنے گناہوں کی توبہ کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں معاف نہ کریں تو کیسا لگے گا۔۔"

    اس بات پر کنیز نے سہم کر اپنی ماں کو دیکھا۔

    "اگر چاہتی ہوں کہ رب تمہارے گناہ معاف کرے تو اسکے بندوں کو معاف کرنا سیکھو۔باقی تم خود سمجھدار ہو۔"

    کنیز کی ماں نے بات ختم کی اور اسکا سر اپنی گودیں رکھ کر اسکے بال سہلانے لگیں۔انکی باتوں کے بارے میں سوچتی کنیز کچھ ہی دیر میں گہری نیند میں ڈوب گئی تھی۔

    شام کو جب سلطان واپس آیا تو اسے کنیز کا ایک بدلہ ہوا روپ ملا تھا۔اسکی کنیز ہنس ہنس کر اپنے بھائیوں سے باتیں کر رہی تھی لیکن سلطان کو دیکھتے ہی وہ خاموش ہو گئی اور اس نے اپنا منہ بسور لیا۔

    اسکی حرکت پر سلطان کھل کر مسکرا دیا۔اس نے اپنی کنیز کو بکھرنے سے بچا لیا تھا اب اگر کچھ بچا تھا وہ بس اسکی ناراضگی تھی اور سلطان جانتا تھا کہ آج نہیں تو کل وہ اسے منا بھی لے گا۔
    ????
    اپنے گھر والوں سے ملنے کے بعد کنیز سچ میں بدل گئی تھی۔اب وہ اماں بی اور آن سے باتیں کر لیتی تھی ان کے ساتھ وقت بھی گزارتی تھی لیکن سلطان کو دیکھتے ہی اسکی خاموشی پھر سے پہلے جیسی ہو جاتی تھی۔

    لیکن سلطان کے لیے یہی کافی تھا کہ اسکی غیر موجودگی میں ہی سہی اس نے جینا تو شروع کیا تھا۔اسے یقین تھا کہ آہستہ آہستہ وہ ان دونوں کے درمیان ہر خلش کو مٹا کر رکھ دے گا۔

    آج اسی خیال کے تحت اس نے کنیز کے لیے ایک سرپرائز پلین کرنا تھا۔وہ اسکے ساتھ تنہائی میں وقت گزارنا چاہتا تھا۔اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔

    "آج شام کو تیار رہنا کہیں باہر جانا ہے۔"

    سلطان نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے ایک نگاہ اڈے آئنے میں سے دیکھ کر کہا جو اسے ایسے نظر انداز کر رہی تھی جیسے کمرے میں اکیلی ہو۔

    اس سے کسی جواب کو نہ پا کر سلطان اس کے پاس آیا اور اپنے دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھ کر اسکے قریب جھکا۔اسکی اچانک سے اس حرکت پر کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وہ گھبرا کر بیڈ کراؤن سے جا لگی۔

    "آج تمہاری ہر ناراضگی مٹا دوں گا میں نوری یہ وعدہ ہے میرا تمہارے ساتھ ہوئے ہر ستم کی بھرپائی کروں گا تمہارا ہر غم سمیٹ لوں گا مجھے میری محبت کی قسم۔"

    اتنا کہہ کر سلطان نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھے اور اس سے دور ہو کر باہر چلا گیا جہاں عرشمان اسکا انتظار کر رہا تھا۔نہ جانے کیوں عرشمان نے آج ہی اسے کسی ضروری کام کے تحت کہیں لے کر جانا تھا لیکن وہ جو کوئی کام بھی تھا سلطان جلد از جلد فارغ ہو کر انکا ہر ایک پل یادگار بنانا چاہتا تھا۔

    سلطان کے جانے کے بعد کنیز اٹھ کر آن کے پاس آ گئی جو اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔

    "اماں بی کہاں ہیں؟"

    کنیز نے آن کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

    "وہ سو رہی ہیں انکا بہ پی زرا سا ہائی تھا تو میں نے انہیں دوائی دے کر سلا دیا۔"

    کنیز نے ہاں میں سر ہلایا۔

    "کنیز ایک بات کہوں اگر برا مت مانو تو۔"

    "جی باجی کہیں۔"

    کنیز نے عقیدت سے کہا۔

    "سلطان بھائی بہت اچھے انسان ہیں ایسا شخص جو ہمیشہ خود سے پہلے دوسروں کا سوچتا۔"

    آن کی بات پر کنیز کا سر جھک گیا۔

    "اگر ان میں کوئی خرابی ہے تو بس اتنی کہ وہ کسی کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور اپنی ماں سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔"

    آن نے کنیز کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

    "جانتی ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا وہ بہت زیادتی تھی اور انہیں معاف کرنا یا نہ کرنا تمہارا اپنا فیصلہ ہے لیکن ایک بار خود کو انکی جگہ پر رکھ کر دیکھو اور بتاؤ کیا تم کسی کی وجہ سے اپنی ماں کو تکلیف دے پاتی؟"

    آن کے سوال کا کنیز کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

    "میں اس بارے میں سوچوں گی باجی۔"

    کنیز نے آہستہ سے کہا تو آن مسکرا دی۔اچانک ہی ایک آدمی وہاں پر آیا اور عقیدت سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

    "آپ دونوں کو بڑی مالکن باہر بلا رہی ہیں۔"

    اس آدمی کی بات پر دونوں نے حیرت سے ایک دوسری کو دیکھا۔آن نے ہاں میں سر ہلایا تو آدمی وہاں سے چلا گیا۔

    "بڑی امی کو بھلا کیا کام ہو سکتا ہے ہم سے؟"

    آن نے حیرت سے پوچھا۔

    "چل کر ان سے پوچھ لیتے ہیں۔"

    آن نے ہاں میں سر ہلایا اور کنیز کے ساتھ باہر آ گئی لیکن فرحین بیگم کو گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر دونوں حیران ہوئی تھیں۔

    "گاڑی میں بیٹھو دونوں ہمیں کہیں جانا ہے۔"

    فرحین بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔

    "لیکن کہاں ؟"

    آن نے حیرت سے پوچھا۔

    "ضروری کام ہے فکر مت کرو جلد واپس آ جائیں گے۔"

    فرحین بیگم نے گہرا سانس لے کر کہا۔

    "لیکن بڑی امی میں مان کو تو بتا۔۔۔"

    "فکر مت کرو میں نے عرشمان کو فون کر دیا ہے اور سلطان کو بھی تم دونوں بس چلو میرے ساتھ۔"

    فرحین بیگم نے آن کی بات کاٹ کر کہا تو آن نے کچھ سوچا اور پھر کنیز کا ہاتھ تھام کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔انکے گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ آدمی بھی گاڑی میں بیٹھ گیا جو انہیں بلانے آیا تھا۔آن نے اس ملازم کو پہلے حویلی میں نہیں دیکھا اور یہ بات اسے پریشان کر رہی تھی لیکن فرحین بیگم کا ساتھ ہونا اسکی پریشانی پر حاوی ہو گیا۔

    کچھ دیر کے بعد گاڑی ایک سنسان جگہ پر رکی۔آن اس جگہ کو جانتی تھی یہ ملکوں کی پرانی حویلی تھی جو آن کے دادا نے نئی حویلی بنانے کے بعد چھوڑ دی تھی۔

    "ہم یہاں کیوں آئے ہیں بڑی امی؟"

    آن نے پریشانی سے پوچھا تو فرحین بیگم خاموشی سے گاڑی سے باہر آ گئیں۔

    "میرے ساتھ آؤ۔"

    انہیں حکم دے کر وہ آگے چلی گئیں تو کنیز نے پریشانی سے آن کو دیکھا۔

    "مجھے ان سے ڈر لگتا ہے باجی مجھے نہیں جانا۔"

    آن نے کنیز کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما۔

    "وہ ہماری ساس ہیں کنیز ہماری ماں جیسی ان کی بات تو ماننی چاہیے ناں ہمیں فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

    آن نے کنیز کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی سے باہر نکل آئی۔کنیز کو اس حویلی سے خوف آ رہا تھا جو اجاڑ بیابان ہو چکی تھی۔ٹوٹی ہوئی دیواریں اور پھیلا گند اسے بہت پریشان کر رہا تھا۔اس سب پر وہ آدمی نہ جانے کیوں ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔

    "ہم یہاں کیوں آئے ہیں بڑی امی؟"

    آن نے ایک بار پھر سے فرحین بیگم سے پوچھا جو وہاں کھڑی ایک دیوار کو دیکھ رہی تھیں۔

    "تا کہ ہر قصہ یہیں ختم کر دیا جائے۔"

    اس سے پہلے کہ آن انکی بات کا مطلب سمجھتی ان کے ساتھ آئے آدمی نے آن کو اپنی گرفت میں لے لیا اور فرحین بیگم نے ایک ریوالور اپنی چادر کے نیچے سے نکال کر کنیز ہر تان دی۔یہ دیکھ کر ان دونوں کی روح تک خوف سے کانپ گئی تھی۔کیا وہ ماں اپنے ہی بیٹوں کی خوشیاں ان سے چھیننا چاہتی تھی۔
    ????



    #زندگی_اے_تیرے_نال

    #قسط_نمبر_39
    Second last episode ❤️



    آن اور کنیز پھٹی آنکھوں سے اپنی ساس کو دیکھ رہی تھیں جو ان پر بندوق تانے کھڑی تھی۔

    "بب ۔۔۔۔۔بڑی امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟"

    آن اس آدمی کی گرفت میں جھپٹتے ہوئے چلائی۔

    "وہی جو سچ ہے آج میں تم دونوں کا قصہ کی ختم کر دوں گی۔میں ہی بے وقوف تھی جو تم دونوں کو اپنے بیٹوں سے دور کرنے کی کوشش کرتی رہی مجھے بہت پہلے ہی یہ کر دینا چاہیے تھا۔"

    فرحین کے الفاظ ہی نہیں بلکہ اسکی آنکھوں میں بھی ان دونوں کے لیے نفرت تھی صرف نفرت۔

    "لیکن کیوں؟"

    آن نے حیرت سے پوچھا۔

    "کیونکہ میرے بیٹوں کے دل پر،اس محل پر،شان و شوکت اور سکون پر کسی اور کا نہیں بس میری بھانجیوں کا حق ہے۔۔۔میں نہیں دیکھ سکتی میری بہن غیروں میں بیٹیاں بیاہ کے روتی رہے۔اسکی بیٹیاں یہاں سکون میں رہیں گی اور پھر میری بہن بھی سکون میں رہے گی۔"

    یہ بات کہتے ہوئے وہ عورت کوئی پاگل ہی لگ رہی تھی۔

    "کتنی جدوجہد کی میں نے انابیہ کو ہر پل سلطان کے قریب ہونے کا کہا اسے زبردستی اپنی قسم اور خود کو مارنے کی دھمکیاں دے کر انابیہ سے شادی کے لیے مجبور کیا لیکن پھر بھی اس لڑکی نے میرا سلطان انابیہ سے چھین لیا میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔"

    فرحین بندوق کنیز کی جانب کرتے ہوئے چلائی تو کنیز کا روم روم خوف سے کانپ گیا۔ہاتھ خود بخود اپنے پیٹ پر گئے تھے اسے اپنی نہیں بس اپنے بچے کی پروا تھی جو ابھی اس دنیا میں بھی نہیں آیا تھا۔

    "اور تم آن تمہاری تو میں نے اتنی گھٹیا تصویریں عرشمان کو بھیجیں تا کہ وہ تم سے نفرت کرے اور تمہیں طلاق دے دے لیکن پتہ نہیں کونسے طلسم پڑھ کر پھونکے ہیں تم نے اس پر جو وہ تمہیں چھوڑنے کو تیار ہی نہیں۔"

    فرحین بیگم غصے سے چلائیں جبکہ یہ بات جان کر ساتوں آسمان آن پر ایک ساتھ گرے کہ وہ تصویریں بھیجنے والی کوئی اور نہیں فرحین بیگم تھیں۔

    "اب میں تم دونوں کو نہیں چھوڑوں گی آج یہاں مار کے یہیں پر دفنا دوں گی کبھی نہیں ڈھونڈ پائیں گے میرے بیٹے تم دونوں کو۔۔۔"

    فرحین بیگم نے نفرت سے دانت کچکچاتے ہوئے کہا اور پھر ان کے چہرے پر مکروہ مسکان آئی۔

    "اور پھر میں اپنے دل کی خواہش پوری کروں گی۔ ان کی شادی اپنی بھانجیوں سے کر کے اپنا ہر ارمان پورا کروں گی۔"

    فرحین بیگم نے ہنستے ہوئے کہا۔کنیز نے سہم کر یہاں وہاں دیکھا اور وہاں سے بھاگنے لگی۔

    "نہ نہ واپس آؤ لڑکی ورنہ تمہاری اس جیٹھانی کو مار دوں گی۔"

    فرحین بیگم کی بات پر کنیز نے سہم کر آن کو دیکھا جو اس آدمی گرفت سے نکلنے کے لیے جھٹپٹا رہی تھی۔کنیز کے قدم خوف سے فرش پر جم سے گئے تھے۔

    "آج کوئی غلطی نہیں ہو گی۔بس یہ میرا آخری گناہ ہو گا اور ہر مصیبت ختم ۔۔۔۔"

    فرحین نے خوف سے کانپتی ہوئی کنیز کے پاس آ کر اسے بالوں سے پکڑا اور بندوق اسکے ماتھے پر رکھ دی۔یہ دیکھ کر کنیز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    "مم۔۔۔۔مجھے مت ماریں ممم۔۔۔۔میں اپنے سائیں جی کی اولاد کو دنیا میں لانا چاہتی ہوں وہ آپکا پوتا ہے خدا کے لیے ہمیں مت ماریں۔"

    کنیز نے روتے ہوئے کہا لیکن جواب میں فرحین بیگم مسکرا دیں۔

    "کوئی بات نہیں انابیہ دے گی میرے سلطان کو اولاد اور اس حویلی کو وارث مجھے نہ تو اسکی ضرورت ہے نہ ہی تمہاری۔"

    اتنا کہہ کر فرحین بیگم نے ریوالور سختی سے کنیز کی کن پٹی پر رکھا۔اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتیں تالیوں کی آواز انکے کانوں میں پڑی۔فرحین بیگم نے حیرت سے اس آواز کی سمت میں دیکھا تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔سامنے ہی عزم انہیں دیکھتا تالیاں بجا رہا تھا۔

    "کیا کھیل کھیلا ہے بھئی تم نے ماننا پڑے گا لیکن افسوس گناہوں کا گھڑا کبھی نہ کبھی بھرنا ہی ہوتا ہے اور آج وہ بھر چکا ہے۔"

    فرحین نے گھبرا کر کنیز کو چھوڑا اور یہاں وہاں جائے فرار دیکھنے لگیں۔

    "کہیں بھاگنے کا راستہ نہیں رہا فرحین بیگم سارے راستے تم نے خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیے ہیں۔"

    عزم نے فرحین کے قریب آتے ہوئے کہا تو فرحین نے ریوالور اسکی جانب کر دیا۔

    "جانتی ہو مجھے یہاں لانے والا کون ہے؟"

    عزم کے سوال پر فرحین نے حیرت سے اسے دیکھا۔

    "تمہاری بھانجی انابیہ جو تمہارے پاگل پن اور سازشوں سے اکتا کر میرے پاس آئی اور اسی نے مجھے تمہارے اس منصوبے کے بارے میں بتایا تا کہ تمہیں لگام ڈالی جا سکے۔"

    عزم کی بات پر فرحین بیگم کی آنکھیں پھٹنے کو تھیں۔انابیہ ان کا ہر راز تو نہیں جانتی تھی لیکن اتنا ضرور جانتی تھی کہ فرحین بیگم آن سے کتنی نفرت کرتی تھیں اور اسے عرشمان سے دور کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا جتن کیے تھے۔

    یہاں آنے سے پہلے بھی انہوں نے ہر بات انابیہ کو بتائی تھی کہ وہ آن اور کنیز کو پرانی حویلی لے جا کر ہر قصہ ختم کر دے گی اور پھر دھوم دھام سے اسے اور اسکی بڑی بہن کو بیاہ کر لائے گی۔

    "بے چاری بچی نے میرے پاس آ کر مجھے کہا کہ تم پاگل ہو چکی ہو اپنے جنون میں تمہیں کچھ دیکھائی نہیں دے رہا اور اسے افسوس ہے کہ اتنا عرصہ وہ خاموش رہ کر تمہارا ساتھ دیتی رہی،تمہارے کہنے پر سلطان نے آگے پیچھے گھومتی رہی لیکن اب اسکی بس ہو چکی ہے۔"

    عزم کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکان آئی تھی۔

    "وہ مجھے یہاں لے آئی اور دیکھو میں کسے یہاں لے کر آ گیا۔"

    عزم نے ایک جانب اشارہ کیا تو وہاں شاہد ملک کے ساتھ عرشمان اور سلطان کو پا کر ساتوں آسمان ایک ساتھ فرحین بیگم پر گرے تھے۔اپنے بیٹوں کی آنکھوں میں خود کے لیے نفرت اور آنسو دیکھ کر فرحین بیگم کا دل کیا عزم چوہدری کی جان لے لیں۔
    ????
    سلطان اور عرشمان دونوں حیرت سے اپنی ماں کے اس روپ کو دیکھ رہے تھے۔ماں تو بچوں کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے ان کا سب سے بڑا آسرا ہوتی ہے لیکن انکی ماں ان سے انکی ہر خوشی چھننے ہر تلی ہوئی تھی۔

    فرحین بیگم نے کنیز کو چھوڑا تو وہ جلدی سے آ کر سلطان کے پیچھے چھپ گئی جبکہ ان کو ہوں دیکھ کر فرحین کے ساتھ آیا آدمی بھی آن کو چھوڑ کر بھاگنے کی فراق میں تھا لیکن عزم کے آدمیوں نے اسے پکڑ لیا۔

    "سسس۔۔۔۔سلطان۔۔۔۔عرشمان یہ جھوٹ بول رہا ہے ایسا کچھ۔۔۔"

    "بس امی۔۔۔۔"

    عرشمان اتنی اونچی چلایا کہ درو دیوار اسکی آواز سے ہل گئے۔اسکی آنکھوں میں کرب سے آنسو آ چکے تھے۔کوئی بھی اسکی حالت کا نہیں سوچ سکتا تھا۔اپنی بیوی کا گناہگار اپنی ماں کو پا کر اسکی کیا حالت تھی یہ وہی جانتا تھا۔

    "ہم نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اپنے کانوں سے سنا ہے اور آپ چاہتی ہیں ہم ابھی بھی اندھے اور بہرے بن جائیں۔"

    عرشمان نے آنسؤں سے تر آواز میں کہا جبکہ سلطان میں تو کچھ کہنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔

    "کاش آپ کا یہ روپ دیکھنے سے پہلے میں مر جاتا۔"

    عرشمان نے نفرت سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ اتنی زور سے دیوار میں مارا کہ ایک دراڑ دیوار میں آ گئی۔آن سہم کر اسکے پاس آئی اور روتے ہوئے اسکے ہاتھ کو دیکھنے لگی جو لال ہو رہا تھا۔

    "ییی۔۔۔یہ سب انکی وجہ سے ہوا ہے میں انہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔"

    فرحین نے چلا کر اپنی بندوق کا رخ آن کی جانب کیا۔

    "آرام سے فرحین بیگم آرام سے ابھی سے بوکھلا گئی تم ابھی تو آدھا سچ باہر آیا ہے پورا آئے گا تو کیا بنے گا تمہارا۔"

    عزم کی بات پر جہاں فرحین کی آنکھوں میں خوف اترا تھا وہیں عرشمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔

    "کیا مطلب؟"

    عزم گہرا سانس لے کر عرشمان کے پاس آیا اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔جو بات وہ انہیں بتانے جا رہا تھا انکی دنیا ہلانے کی طاقت رکھتی تھی۔

    "مطلب یہ میرے بھائی کہ ہمارا وہ دشمن جس نے ہمارے بابا کی جان میری ماں کی جان لی وہ کوئی اور نہیں تمہاری ماں ہے۔"

    عرشمان نے بے یقینی سے عزم کو دیکھا۔ٹھیک ہے انکی ماں کا بہت برا روپ انکے سامنے آیا تھا لیکن وہ یہ بات ماننے جو تیار نہیں تھے۔

    "اا۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔"

    عرشمان کو لگ رہا تھا کہ اسکا دل بند ہو جائے گا اور اسکے ارے رنگ دیکھ کر عزم نے گہرا سانس لیا۔

    "جانتا تھا کہ تم میرا یقین نہیں کرو گے کوئی بھی اولاد نہیں کرتی عرشمان اسی لیے بہت پہلے ہی سچ سمجھ لینے کے باوجود میں نے اسے زبان پر نہیں لایا۔"

    عزم نے نرمی سے کہا اور فرحین کی جانب مڑا جو بری طرح سے بوکھلا گئی تھی۔

    "یییی۔۔۔۔یہ جھوٹ بول رہا ہے میں نے کسی کو نہیں مارا۔۔۔۔"

    فرحین بیگم نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

    "اچھا۔۔۔چلو مان لیا میں جھوٹ بول رہا ہوں لیکن اس ملازم کا کیا جس نے اپنی آنکھوں سے تمہیں میرے بابا پر گولی چلاتے دیکھا تھا کیا وہ بھی جھوٹ بول رہا ہے؟"

    "نننن۔۔۔نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔"

    فرحین ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھیں رنگ خوف سے فق ہو گیا تھا۔

    "اس نے خود مجھے بتایا کہ پہلے تم نے میرے بابا کو اور پھر اپنے شوہر کو گولی مار کر مار دیا۔"

    "نہیں ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔"

    فرحین نے گھبراتے ہوئے کہا قدم خود بخود ان سے دور جا رہے تھے۔

    "کیوں نہیں ہو سکتا ہاں جب وہ کہہ رہا ہے کہ اس نے خود تمہیں دیکھا تھا تو کیوں نہیں ہو سکتا۔"

    "کیونکہ اس دن وہاں کوئی ملازم نہیں تھا میں نے خود دیکھا تھا وہ دونوں وہاں تنہا تھے۔"

    فرحین انتہائی اونچی آواز میں چلائی لیکن عزم کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ کیا کہہ چکی ہے۔

    "اگر تم وہاں تھی ہی نہیں تو تم نے کیسے دیکھا کہ وہاں پر کوئی ملازم نہیں تھا اور وہ دونوں تنہا تھے۔"

    فرحین کو سمجھ آ گیا تھا کہ انکا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ریوالور انکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

    سلطان کنیز سے دور ہو کر مردہ قدموں سے انکے پاس آیا اور انکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔اپنے لاڈلے کی آنکھوں میں خود کے لیے اس نفرت نے فرحین بیگم کو اندر تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔

    "کیوں کیا آپ نے امی آخر کیوں کیا ایسا؟"

    سلطان نے روتے ہوئے ان سے سوال کیا جبکہ اس سوال پر انکا سر جھک گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

    "تو کیا کرتی میں۔۔۔۔بہت پیار کرتی تھی اپنے بہن بھائیوں سے۔۔۔۔اماں ابا کی موت کے بعد اپنے بچوں کی طرح پالا تھا میں نے انہیں جان سے زیادہ عزیز تھے وہ مجھے ۔"

    فرحین نے روتے ہوئے بتایا۔

    "انہیں کی خاطر تمہارے بابا سے شادی کی میں نے تو کہ انہیں اچھا مستقبل ملے اور تمہارے بابا نے بھی انہیں اچھی زندگی دی۔میری بہن کی ابھی جگہ شادی کر دی اور میرے بھائی کو اپنے پاس کام پر رکھ لیا۔"

    اپنے بہن بھائیوں کے زکر پر فرحین کی آنکھوں میں ایک تڑپ تھی پھر اس نے نفرت سے عزم کی جانب دیکھا۔

    "لیکن پھر ایک دن اسکی ماں نے سب برباد کر دیا۔پتہ نہیں کس بات کا انتقام لیا مجھ سے۔۔۔میرے معصوم بھائی پر اتنا گھٹیا الزام لگایا۔۔۔میرا وہ بھائی جو سن بول بھی نہیں سکتا تھا وہ ایسا گھٹیا کام کیسے کرتا۔"

    فرحین نے بھرپور یقین سے کہا۔وہ آج بھی اس سب کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کہ انکے بھائی نے عزم کی ماں سے زبردستی کی تھی۔

    "اور اسکے باپ نے اپنی بیوی کی اندھی محبت میں بنا کچھ سوچے سمجھے میرے بھائی کا گلا کاٹ دیا ۔۔۔۔"

    اتنا کہہ کر فرحین سسک سسک کر رونے لگیں۔

    "میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اسے نہیں چھوڑوں گی اس لیے اس کے اپنے گھر واپس جاتے ہی میں رات کو اسکے پیچھے اسکے گھر گئی تھی۔"

    یہ بات کہتے ہوئے فرحین کی آنکھوں میں ایک آگ سی تھی جسے دیکھ کر آن سہم گئی اور پھر جو باتیں فرحین نے انہیں بتائیں وہ وہاں موجود ہر شخص کو بت بنا گئیں۔
    ????
    (بارہ سال پہلے)
    فرحین رات کی تنہائی میں چپکے سے چوہدریوں کی حویلی میں داخل ہوئی تھیںل۔ویسے بھی یوسف چوہدری نے حویلی کی سیکیورٹی بہت زیادہ نہیں رکھی تھی کیونکہ اسکی کسی سے کوئی دشمنی ہی نہیں تھی سب اسے پسند کرتے تھے۔

    مگر آج جو ہوا تھا اس سے کسی کو ان سے بے تحاشا نفرت ہوئی تھی اور آج وہ وہی نفرت نکالنے اس حویلی میں آئی تھی۔

    ثمن جس میں یوسف کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اپنے کمرے میں جانے کی بجائے ہال میں لیٹ گئی تھی اور یوسف بھی شائید انہیں تنہائی دینا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔

    دونوں ہی کیسی کشمکش سے گزر رہے تھے یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔انکا ہنستا بستا جہان پل بھر میں اجڑ گیا تھا۔

    فرحین نے ثمن کو صوفے پر لیٹے دیکھا تو ان کے پاس آئی۔فرحین کا دل کیا کہ یہیں اسکا گلا گھونٹ کر اسے مار دے لیکن تبھی ثمن کی آنکھیں پٹ سے کھلیں۔

    "بھابھی آپ اس وقت یہاں کیا ہوا سب خیر ہے؟"

    ثمن نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا تو فرحین سسک سسک کر رونے لگی۔

    "آپ رویں مت میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں۔"

    ثمن اٹھ کر کچن میں پانی لینے گئی تو فرحین بھی ان کے پیچھے آ گئی اور دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔"

    ثمن نے حیرت سے فرحین کی اس حرکت کو دیکھا۔

    "بھابھی آپ یہ کیا کر رہی ہیں۔"

    اس سے پہلے کہ ثمن کو کچھ سمجھ آتا فرحین نے سٹیل کا ایک جگ میز سے پکڑا اور اسے پوری طاقت سے ثمن کے سر پر دے مارا۔اس وار کی شدت اتنی تھی کہ ثمن کے ہونٹوں سے چیخ بھی نہیں نکلی اور وہ سر پکڑ کر زمین گر گئیں۔

    "گھٹیا عورت تیری کیا دشمنی تھی میرے بھائی سے جو تو نے اس پر اتنا گھٹیا الزام لگایا۔۔۔۔اسے مروا دیا۔۔"

    فرحین نے روتے ہوئے کہا جبکہ ثمن تو بس اپنا گھومتا سر پکڑے بیٹھی تھیں۔

    "آج تیری وجہ سے وہ مجھ سے چھین گیا۔سب تیری وجہ سے ہوا میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔"

    فرحین نے یہاں وہاں دیکھا تو ان کی نظر مٹی کے تیل کی بڑی سی بوتل پر گئی۔فرحین نے وہ بوتل ہاتھ میں لی اور اس میں موجود سارا تیل ثمن پر پھینک دیا۔

    ثمن نے مزاحمت کرنا چاہی لیکن انکا گھومتا سر انہیں اٹھنے تک کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔فرحین نے ماچس پکڑ کر تیلی جلائی اور ایک خطرناک مسکراہٹ انکے ہونٹوں پر آئی۔

    "اب ملے گی میرے بھائی کے گناہ گار کو سزا "

    اتنا کہہ کر فرحین نے وہ تیلی ثمن پر پھینک دی۔فوراً ہی آگ نے انکا وجود اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ثمن کی دلخراش چیخیں حویلی میں گونجنے لگیں جنہیں سن کر فرحین کو سکون مل رہا تھا۔

    "امی ۔۔۔۔امی کیا ہوا؟"

    دروازے کے پار سے عزم کے آواز سن کر فرحین نے گھبرا کر یہاں وہاں دیکھا تو انہیں ایک کھڑکی نظر آئی۔انہوں نے وہ کھڑکی کھولی اور پچھلی جانب سے باہر نکل کر کھڑکی بند کر دی۔

    اب عزم اور یوسف دروازہ توڑ رہے تھے لیکن فرحین کو کوئی پرواہ نہیں تھیں وہ اپنا انتقام لے کر وہاں سے جا چکی تھی۔
    ????
    اگلے دن ثمن کا جنازہ تھا سب لوگ ہی ان کی موت کو لے کر افسردہ تھے سوائے فرحین کے جو اندر ہی اندر اپنے بھائی کے گناہ گار کو سزا دے کر بہت خوش تھیں لیکن انکی ساری خوشی ملیا میٹ ہو گئی جب یوسف نے یہ کہا کہ انکی بیوی نے خودکشی نہیں کی اور یہ جس نے بھی کیا ہے وہ اسے نہیں چھوڑیں گے۔

    تب پہلی مرتبہ فرحین پر گناہ کا خوف طاری ہوا تھا۔اگر سب کو پتہ لگ جاتا کہ ثمن نے خود کشی نہیں کی بلکہ فرحین نے انہیں مارا ہے تو وہ اپنا انجام سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

    اسی خوف کے زیر اثر انہوں نے چوہدریوں کی حویلی کی دو ملازماؤں کو کافی سارے پیسے دے کر انہیں مجاہد کے سامنے جھوٹ بولنے کا کہا تا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

    انکی توقع کے عین مطابق جیسے ہی مجاہد کو یہ بات بتائی گئی کہ ثمن نے خودکشی نہیں کی بلکہ یوسف نے انہیں مارا ہے مجاہد غصے سے پاگل ہوتے اپنی بندوق پکڑ کر انکے پیچھے چلے گئے۔

    فرحین بھی اپنے کمرے میں آ گئیں لیکن ایک وسوسہ ابھی بھی دل میں تھا کہ کہیں یوسف مجاہد کو اپنی باتوں سے بہکا نہ دے۔

    یہ سوچ کر انہوں نے مجاہد کی دوسری بندوق پکڑی اور چپکے سے حویلی سے نکل کر انکے پیچھے چل دیں۔چوہدریوں کی حویلی میں بالکل سناٹا طاری تھا۔عزم تو ویسے ہی ملکوں کی حویلی میں تھا جسے اماں بی نے دوائی دے کر سلا دیا تھا لیکن شائید یوسف تنہا رہنا چاہتے تھے اس لیے سب ملازمین کو چھٹی دے رکھی تھی۔

    یہاں تک کہ دروازے پر کوئی پہرے دار بھی نہیں تھا۔مجاہد حویلی میں داخل ہوئے تو انہیں یوسف ہال کے صوفے پر بیٹھے نظر آئے۔انکے ہاتھ میں اپنی اور ثمن کی تصویر تھی جبکہ آنکھوں میں کتنے ہی آنسو تھے۔

    "میری بہن کی جان لے کر یہاں جھوٹے آنسو بہا رہے ہو یوسف چوہدری۔"

    مجاہد کی غصے سے بھرپور آواز پر یوسف نے حیرت سے انکی جانب دیکھا۔

    "یہ تم کیا کہہ رہے ہو مجاہد؟"

    فرحین بیگم ان دونوں کی آواز پر حویلی کے داخلہ دروازے کے پیچھے ہی چھپ گئی تھیں۔

    "وہی جو سچ ہے تم نے میری بہن کو مارا کیونکہ وہ تمہاری عزت کی حفاظت نہیں کر پائی میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ تم اتنے گھٹیا انسان نکلو گے یوسف۔۔۔۔میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"

    مجاہد نے چلا کر کہا اور اپنی بندوق یوسف پر تان دی لیکن یوسف کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں آیا۔وہ خاموشی سے اٹھے اور مجاہد کے پاس آ کر اپنے ہاتھ انکے کندھوں پر رکھے۔

    "یہ جھوٹ ہے میری بھائی تم نے سوچ بھی کیسے لیا میں اپنی ثمن کی جان لے سکتا ہوں تم جانتے ہو وہی تو میرے جینے کی وجہ تھی۔"

    یوسف نے نم آنکھوں سے کہا۔

    "تو کیا تمہاری وہ دونوں ملازمائیں جھوٹ بول رہی ہیں۔"

    مجاہد نے غصے سے پوچھا تو یوسف کے ماتھے پر بل ائے۔

    "کون سی ملازمہ مجاہد جا رات ثمن کی جان گئی میری حویلی میں تو کوئی ملازم ہی نہیں تھا سوائے پہرہ داروں کے جو گیٹ پر تھے۔"

    اس بات پر مجاہد نے اپنی بندوق نیچے کر دی۔ انکی آنکھوں میں حیرت اتری تھی۔یہ بات وہ بھی جانتے تھے کہ انکا دوست جھوٹ نہیں بولتا اور نہ ہی وہ انکی بہن کی جان لے سکتا تھا وہ تو اسے جان سے زیادہ چاہتا تھا۔

    "کوئی ہے مجاہد جو ہمارے ساتھ بہت بڑا کھیل کھیل رہا ہے۔جس نے میری ثمن کو مارا ہے کیونکہ یہ بات ہم دونوں جانتے ہیں کہ وہ اتنی کمزور بھی نہیں تھی کہ خود کی جان لے لیتی۔"

    یوسف کی بات پر مجاہد گہری سوچ میں ڈوب گئے۔

    "کون ہو سکتا ہے وہ۔۔۔۔؟"

    "یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن شک صرف ایک پر ہی ہے جس کے پاس یہ سب کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے وہ جس کے بھائی کو میں نے ثمن کی وجہ سے مار ڈالا۔"

    اس سے پہلے کہ مجاہد یوسف کی بات کا پورا مطلب سمجھتے ایک گولی یوسف کے دل کے آر پار ہوئی۔مجاہد نے حیرت سے اپنے دوست کے سینے سے نکلتے ہوئے خون کو دیکھا۔

    انہوں نے تو گولی نہیں چلائی تھی پھر یہ خون۔مجاہد نے پلٹ کر دیکھا تو نظر فرحین پر پڑی جن کے ہاتھ میں بندوق تھی۔

    "پاگل عورت یہ کیا کر دیا تم نے؟"

    مجاہد چلائے لیکن تبھی یوسف زمین پر گرے تو مجاہد انکے پاس بیٹھ گئے اور اپنا ہاتھ انکے سینے پر رکھ دیا۔

    "میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا میرے بھائی۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا تمہیں میں۔۔۔۔تمہیں ہسپتال لے کر جاتا ہوں۔۔۔۔"

    مجاہد نے بوکھلا کر کہا اور یوسف کے نیچے ہاتھ رکھ کر انہیں اٹھانا چاہا لیکن تبھی فرحین بیگم نے اپنی بندوق انکے سر کے پیچھے رکھی اور گولی چلا دی۔

    دھڑام سے مجاہد کا بے جان وجود زمین پر گرا۔فرحین نے ایک نظر یوسف کو دیکھا جن کی سانسیں ابھی بھی ہلکی ہلکی چل رہی تھیں۔

    "اب میں نے اپنے بھائی کو انصاف دلایا۔"

    یوسف کی آنکھیں بند ہوئیں اور مجاہد کی طرح ان کا وجود بھی بے جان ہوگیا۔فرحین نے ہاتھ میں پکڑی بندوق دوپٹے سے صاف کی اور اسے یوسف کے بے جان ہاتھ میں پکڑ لیا۔اپنا گناہ چھپانے کے لئے وہ اپنے شوہر تک کی جان لے چکے تھیں۔

    انہوں نے سوچا کہ ہر ہوئی یہی سمجھے گا کہ غصے میں دونوں نے ایک دوسرے کی جان لے لی اور ایسا ہی ہوا تھا۔دونوں خاندان جو ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے انکی سازش کے باعث جانی دشمن ہو گئے۔

    آنے والے بارہ سالوں تک سب ٹھیک چلتا رہا۔فرحین کی سب سے بڑی پریشانی آن تھی جس سے عرشمان بے پناہ محبت کرتا تھا۔وہ چاہتی تھیں کہ عرشمان یہ محبت انکی بھانجی سے کرے لیکن عرشمان اپنے اور آن کے معاملے میں کسی کی بھی دخل اندازی برداشت نہیں کرتا تھا۔ان کی بھی نہیں۔

    پھر ایک دن سب کچھ پھر سے برباد ہوا جب عزم اور عرشمان پھر سے دوست بن گئے اور عزم نے کسی طرح سے عرشمان کو یہ سمجھا دیا کہ یوسف اور مجاہد نے ایک دوسرے کو نہیں بلکہ کسی اور نے انہیں مارا تھا۔

    اس دن جب عرشمان یہ بات اماں بی کو بتا رہا تھا فرحین چھپ کر وہ باتیں سن کر بہت زیادہ پریشان ہو گئی تھیں۔انہیں پتہ تھا کہ عرشمان سچ جاننے کے لیے سب سے پہلے ان ملازماؤں کے پاس جائے گا جنہوں نے فرحین کے کہنے پر جھوٹ بولا تھا۔

    ایک ملازمہ تو پہلے ہی بیماری سے مر چکی تھی جبکہ دوسری کو فرحین نے ایک آدمی کو پیسے دے کر مروا دیا۔انہیں لگا تھا کہ انکے گناہ کبھی باہر نہیں آئیں گے لیکن جھوٹ زیادہ دیر کبھی چھپ سکا ہے بھلا؟
    ????
    (حال)
    فرحین کی باتیں سن کر ہر کوئی بت بنا اسے دیکھ رہا تھا۔کیسے وہ عورت اپنے بہن بھائیوں کی اندھی محبت میں ہر ایک کو برباد کر گئی تھی۔یہاں تک کہ اس نے اپنے بیٹوں کو بھی باپ کے سائے سے محروم کر دیا تھا۔

    عرشمان اور سلطان دونوں فرحین کے پاس بیٹھے بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔اپنی ماں کا یہ روپ دیکھ کر وہ کس طرح سے بکھرے تھے یہ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

    "میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا عرشمان۔۔۔ان کی وجہ سے میرے معصوم بھائی کی جان گئی۔۔۔۔سب انہیں کا قصور تھا۔"

    فرحین نے روتے ہوئے کہا۔عرشمان نے آنسوؤں سے تر آنکھیں اٹھا کر سلطان کو دیکھا جو خود بھی خاموشی سے بیتی آنکھوں کے ساتھ اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔عرشمان نے اپنے آنسو پونچھے اور اٹھ کر عزم کے پاس آیا۔

    "تم اس گاؤں کے سردار ہو عزم اور تمہارے ماں باپ کا قاتل اس وقت تمہارے سامنے ہے جو سزا دینا چاہتے ہو دو۔"

    عرشمان نے خود کو مظبوط کرتے ہوئے یہ بات کہی تو فرحین بیگم نے حیرت سے اپنے بڑے بیٹے کو دیکھا۔

    "عرشمان تم یہ۔۔۔میں تمہاری ماں۔۔۔۔"

    "نہیں ہو تم ہماری ماں تم بس ہمارے باپ کی قاتل ہو۔۔۔۔تم وہ ہو جس نے ہمارے خاندانوں کو برباد کر کے رکھ دیا اس کے علاؤہ اب کوئی تعلق نہیں ہمارا۔"

    عرشمان روتے ہوئے چلایا اور ایک نظر عزم کی جانب دیکھا۔

    "امید ہے تم انصاف کرو گے۔"

    اتنا کہہ کر عرشمان وہاں سے چلا گیا تو فرحین نے روتے ہوئے اپنے سب سے لاڈلے بیٹے کو دیکھا۔

    "سلطان۔۔۔میرا بیٹا کیا تم بھی مجھ سے نفرت۔۔۔۔۔اپنی ماں سے نفرت کرتے ہو؟"

    فرحین نے روتے ہوئے پوچھا تو سلطان نے آنسوؤں سے تر آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔

    "نہیں امی سلطان مر کر بھی اپنی ماں سے نفرت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔"

    سلطان کی بات پر فرحین کے چہرے پر اطمینان آیا تھا ۔

    "لیکن کیا کروں امی روز قیامت بابا اور پھپھو کو بھی منہ دیکھانا ہے۔"

    فرحین کے چہرے کی ہوائیاں اڑی تھیں سلطان کی اس بات پر۔

    "اگر آج آپ کو معاف کیا تو انہیں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔"

    اتنا کہہ کر سلطان کنیز کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ تھام کر اسے وہاں سے لے گیا۔عزم نے ایک نظر اس ہاری ہوئی عورت کو دیکھا جو مکمل طور پر برباد ہو گئی تھی۔اس کے سہارے،اسکے بیٹے ہی اسے تنہا چھوڑ گئے تھے۔

    "پکڑ لو اسے اور قید خانے میں ڈال دو اس کا فیصلہ کل جرگے میں ہو گا۔"

    عزم نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا۔فرحین نے ایک نظر آن کو دیکھا جو ابھی بھی وہاں کھڑی بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

    "یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے ہوا تم لوگ شروع دن سے ہی میری جان کا وبال بنے ہو سب برباد کر دیا تم دونوں نے زندہ نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔"

    فرحین نے اتنا کہہ کر اپنے پاس پڑی بندوق اٹھائی اور اسے آن کی جانب کر کے گولی چلا دی لیکن اس سے پہلے کہ وہ گولی آن کو چھوتی آن کے پاس کھڑے شاہد فوراً اسکے سامنے ہو گئے اور گولی سیدھا شاہد کو جا لگی۔

    "بابا۔۔۔۔"

    آن روتے ہوئے چلائی اور شاہد کو پکڑنا چاہا لیکن وہ زمین بوس ہو گئے۔فرحین نے اپنی بندوق عزم کی جانب کی تھی لیکن تب تک عزم کے آدمی اسے اپنی گرفت میں جکڑ کر اس سے بندوق لے چکے تھے۔

    عزم پریشانی سے آن کے پاس آیا جس نے روتے ہوئے اپنا ہاتھ شاہد کے سینے پر رکھا تھا۔

    "بابا۔۔۔۔"

    آن نے روتے ہوئے انہیں پکارا جبکہ گولی کی آواز سن کر گاڑی کے پاس کھڑا عرشمان پریشانی سے وہاں آیا۔

    "ہمیں انہیں ہسپتال لے جانا ہو گا۔"

    عزم کے کہنے پر عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا اور شاہد کو گاڑی میں ڈال کر ہسپتال کی جانب چل دیے۔آن شاہد کے پاس بیٹھی تھی اور اس نے اپنا دوپٹہ سر سے اتارا اور اسے خون روکنے کے لیے شاہد کے زخم پر رکھ دیا۔

    "آ۔۔۔۔آن۔۔۔۔"

    شاہد نے روتے ہوئے آن کو دیکھا جس کے آنسو آنکھوں سے ٹوٹ کر شاہد کے چہرے پر گر رہے تھے۔

    "ہو سسس۔۔۔۔سکے تو مجھے معاف کر ددد۔۔۔۔دینا بیٹا اپنے بابا کو ممممم۔۔۔۔۔معاف کر دینا۔"

    اتنا کہہ کر شاہد کا وجود ساکت ہو گیا اور آن کے رونے میں مزید روانی آ گئی۔عرشمان نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔کچھ دیر میں ہی وہ ہسپتال پہنچ گئے تھے اور شاہد کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا۔

    عرشمان آن کے پاس آیا جو بری طرح سے رو رہی تھی۔عرشمان نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا تو آن مزید رونے لگی۔

    "وو۔۔۔۔وہ۔۔۔گولی مجھے مرنا چاہتی تھیں ۔۔۔۔ممم۔۔۔مگر بابا سامنے آ گئے۔۔۔۔انہیں کچھ ہو گیا تو۔۔۔میں خود کو کک ۔۔۔۔کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی مان۔۔۔۔"

    آن نے روتے ہوئے کہا اور عرشمان نے اسکی کمر سہلا کر اسے دلاسہ دیا۔اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ کیوں جزبات میں بہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔اسے یہ بھی خیال نہیں آیا کہ اسکی آن وہاں ہے۔اگر آن کو کچھ ہو جاتا تو عرشمان خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتا کبھی بھی نہیں۔
    ????
    سلطان کنیز کو حویلی واپس لے آیا تھا۔حویلی پہنچتے ہی سلطان نے کنیز کو کمرے میں جانے کا کہا اور خود فرحین کے کمرے میں آ گیا۔

    میز پر پڑی فرحین کی تصویر دیکھ کر سلطان اس تصویر کے پاس آیا اور اس تصویر کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔

    وہ ابھی تک یہ سچ قبول نہیں کر پا رہا تھا کہ اسکی ماں جس سے وہ جان سے زیادہ محبت کرتا تھا وہ ہی اس کے باپ کی قاتل تھیں۔

    سلطان کا دل کر رہا تھا کہ وہ خود کی جان لے لے۔اسے اپنی رگوں میں دوڑتے اس خون سے نفرت ہو رہی تھی جو کہ اس عورت کا تھا۔

    سلطان نے اس تصویر کو خود سے دور پھینکا اور اپنے بالوں کو ہاتھوں میں دبوچتا چیخ چیخ کر رونے لگا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ مکمل طور پر برباد ہو گیا ہو۔ایک پل میں اسکا پورا جہان اجڑ گیا ہو۔آج صحیح معنوں میں سب کچھ برباد ہو گیا تھا۔

    سلطان کے لیے پریشان ہوتی کنیز جو اسکے پیچھے آئی تھی اسے یوں روتے دیکھ کر اسکی پلکیں بھی بھیگ گئیں۔وہ سلطان کے پاس آئی اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔

    سلطان نے پلٹ کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اسے کھینچ کر اپنی باہوں میں بھینچ لیا۔کنیز کو اپنے سینے سے لگائے سلطان تڑپ تڑپ کر رونے لگا تھا اور کنیز چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائی۔

    وہ جانتی تھی کہ جو درد سلطان کو ملا تھا اسکا کوئی مرہم نہیں تھا۔اس نے اپنے ہاتھ سلطان کے سر پر رکھے اور اسکے بال سہلانے لگی۔

    "میں آپ کے پاس ہوں سائیں جی۔۔۔۔ہمیشہ آپ کے پاس ہوں۔۔۔۔"

    کنیز نے نم آواز میں کہا تو سلطان آنکھیں میچتا مزید روانی سے رونے لگا۔سلطان کی تکلیف میں وہ لڑکی اپنی ہر تکلیف،ہر ناراضگی بھلا کر اسکا سہارا بن رہی تھی۔نیک بیوی بھی خدا کی ایک نعمت ہوتی ہے جسکی قدر سلطان نے نہیں کی تھی لیکن اب وہ دل و جان سے اسکی قدر کرنے کا ارادا رکھتا تھا۔

    وہ سلطان عظیم کردار کی مالک اپنی اس ملکہ کا غلام بن کر اسکے ساتھ جینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
    ????
    رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا۔فرحین کو اس کال کوٹھری میں قید کیا گیا تھا جہاں مجرموں کو رکھا جاتا تھا۔اس اندھیرے اور تنہائی میں بیٹھیں وہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔

    اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ہر کوئی اس پر ہنس رہا ہو کہ اس نے زندگی سے کیا حاصل کیا تھا۔اپنے شوہر تک کو اپنے بھائی کی وجہ سے قربان کر کے اسے حاصل کیا ہوا تھا۔اس کے بیٹے تک اس سے نفرت کرتے تھے اسکی موت چاہتے تھے۔فرحین نے اپنے بال اپنے ہاتھوں سے نوچے اور چیخ چیخ کر رونے لگی۔

    "ہاہا اب کیوں رو رہی ہیں بھابھی مجھے زندہ جلا کر تو کافی خوش ہوئی تھیں۔"

    فرحین کو ثمن کا ہیولا نظر آیا جو ان پر ہنس رہا تھا۔

    "وہ اس لیے رو رہی ہے کیونکہ اسکے گناہوں کا گھڑا بھر گیا ہے اب اسے سزا ملے گی"

    اب کی بار یوسف کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔

    "ہاں جیسے اس نے ہمیں مارا تھا اب اسکے بیٹے اسے ماریں گے۔۔۔۔ہاہاہا صحیح سزا ملے گی اسے۔"

    مجاہد کی آواز فرحین کے کانوں سے ٹکرائی تو انہوں نے اپنے کانوں پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور چیخ چیخ کر رونے لگیں۔

    "چپ کر جاؤ سب کے سب خدا کے لیے چپ کر جاؤ ۔۔۔"

    فرحین نے روتے ہوئے کہا جبکہ ابھی بھی یوسف،مجاہد اور ثمن کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرا رہی تھی جو اسے قاتل قاتل کہہ رہے تھے۔

    فرحین کتنی ہی دیر روتے ہوئے چلاتی رہی تھیں پھر ان کا دماغی توازن بگڑا اور وہ قہقے لگا کر ہنسنے لگیں جبکہ ہاتھ اپنے بالوں کو نوچ رہے تھے۔

    "بری ہوں میں بہت بری ہوں مار دوں گی سب کو مار دوں گی۔۔۔۔"

    فرحین نے ہنستے ہوئے کہا اور اب کی بار اپنے ناخن اپنے منہ پر مارے تھے۔ساری رات اس کال کوٹھری میں بند وہ کبھی سسک سسک کر روتی تھیں تو کبھی قہقے لگا کر ہنستی۔

    گناہوں کا انجام یہی تو ہوتا ہے۔شروع میں گناہ ہمیں ڈراتا ہے لیکن جب گناہ کر کے ہمارا خوف اتر جاتا ہے تو ہمیں اس گناہ کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر اس گناہ سے خوف بھی نہیں آتا لیکن آخر میں گناہ ہمیں برباد کر دیتا ہے بالکل جیسے آج فرحین بیگم برباد ہوئی تھی۔
    ????

    • #زندگی_اے_تیرے_نال

      #قسط_نمبر_40 (پارٹ 1)
      Last episode



      شاہد کی جان بچ گئی تھی۔ شکر یہ تھا کہ گولی دل کی بجائے انکے سینے کے دائیں جانب لگی تھی۔طویل بے ہوشی کے بعد شاہد کی آنکھیں کھلیں تو پہلی نگاہ لیزا پر پڑی جو انہیں روتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

      "ڈیڈ۔۔۔۔"

      انہیں جاگتا دیکھ کر لیزا نے انکے سینے پر سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔شاہد نے کمزور سا ہاتھ اٹھا کر لیزا کے سر پر رکھا تھا۔

      "مم۔۔۔میں ٹھیک ہوں میرا بچہ۔۔۔"

      شاہد نے نرمی سے کہا لیکن لیزا نہ تو رونا بند ہوئی تھی اور نہ ہی ان سے دور ہوئی تھی۔عزم مسکرا کر اسکے پاس آیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر شاہد سے دور کیا۔

      "وہ ٹھیک ہیں میری چوزی ریلیکس کرو خود کو۔"

      عزم نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے محبت سے سمجھایا اور اسے بہلاتا اپنے ساتھ باہر لے گیا۔شاہد نے اپنے پیروں کے پاس کھڑی آن کو دیکھا جو انکی ریپورٹ ہاتھ میں پکڑے دیکھ رہی تھی۔

      "آ۔۔۔۔آن۔۔۔۔"

      شاہد کے پکارنے پر آن نے ریپورٹ رکھی اور انکے پاس آئی۔آن کو دیکھتے ہی شاہد کی پلکیں بھیگ گئی تھیں۔

      "مم۔۔۔مجھے معاف کر دو ممم۔۔۔۔میری جان میں نے تم سے بہت زز۔۔۔زیادتیاں کی ہیں۔۔۔۔ااا۔۔۔۔اپنے بابا کو معاف کر دو۔۔۔۔"

      شاہد نے اپنے ہاتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تو آن کی بس ہوئی تھی۔اب وہ مزید اپنے بابا سے ناراض نہیں رہ سکتی تھی جنہوں نے اسے بچانے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی تھی۔

      آن نے انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور سسک سسک کر رو دی۔

      "میں نے آپ کو معاف کیا بابا۔۔۔معاف کیا۔۔۔"

      شاہد نے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا تو ان انکے سینے سے لگ گئی۔کمرے میں آئے عرشمان نے یہ منظر دیکھا تو مسکرا کر ان دونوں کے پاس آیا۔

      "سوری تو آپ نے مجھے بھی بولنا ہے چچا جس پر سارا کام ڈال کر آرام سے کینیڈا چلے گئے تھے۔پتہ ہے کتنا مشکل تھا سارے کاموں کے ساتھ پڑھائی کرنا۔"

      عرشمان نے منہ بنا کر مصنوعی غصے سے کہا لیکن پھر بھی شاہد کو پچھتاوا ہوا تھا۔

      "مجھے معاف کر ۔۔۔۔دو بیٹا۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں جانتا ہوں۔۔۔۔میں سب کا گناہگار ہوں۔۔۔۔"

      شاہد یہ بات کہہ کر رونے لگے تو عرشمان نے انکا ہاتھ تھام لیا۔

      "ہر بات کڑوا ماضی سمجھ کر بھول جائیں چچا اگر ان یادوں کو لے کر بیٹھے رہے تو زندگی میں کبھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔"

      یہ بات کہتے ہوئے عرشمان کے چہرے پر بہت کرب تھا اور یہ بات آن ہی جانتی تھی کہ فرحین کی سچائی جان کر اس نے کیسے خود کو سنبھالا تھا۔

      "اب بس جلدی سے ٹھیک ہو کر گھر چلیں مزید کسی کو کھونے کی طاقت نہیں بچی ہم میں۔"

      عرشمان نے آنکھوں میں آئے آنسؤں پر قابو پا کر کہا تو شاہد نے بھی اپنے آنسو پونچھے اور مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

      "اللہ تم دونوں کو۔۔۔ڈھیروں خوشیاں دے۔۔۔ممم۔۔۔۔میرے بچو۔۔۔۔"

      شاہد نے آن اور عرشمان کو دعا دی تو آن بھی اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔ان کی زندگی پر چھائے کالے بادل اب چھٹ چکے تھے اب ان کی زندگی میں بس سنہری دھوپ سی خوشیاں آنی تھیں۔
      ????
      فرحین بیگم کے گناہوں کی خبر سب کو ہو چکی تھی۔عزم نے ساری بات جب اماں بی اور فرحین بیگم کی بہن نرمین کو بتائی تھی تو دونوں کو ہی بہت افسوس ہوا تھا۔نرمین بالکل بھی اپنی بہن جیسی نہیں تھیں اور اپنی بہن کے لیے گناہوں کا جان کر انہیں بہت زیادہ تکلیف ہوئی تھی۔

      شائید وہ عزم کی بات پر یقین نہیں کرتیں لیکن جب انکی بیٹی انابیہ نے ہر بات کی تصدیق کی تو ان کے پاس یقین کرنے کے علاؤہ کوئی اور چارہ ہی نہیں بچا۔نرمین ان سب کے سامنے کافی شرمندہ ہوئی تھی لیکن اماں بی نے نرمین کو یہ سمجھایا تھا کہ اس میں اسکا کوئی قصور نہیں بلکہ انابیہ کی وجہ سے ہی کنیز اور آن سہی سلامت تھیں ورنہ وہ فرحین کی کالی کرتوتوں کے بارے میں شائید کبھی جان ہی نہ پاتے۔

      عزم نے فرحین بیگم کا فیصلہ جرگے میں کرنا چاہا تھا لیکن جس حالت میں وہ صبح ملی تھیں عزم تو کیا کوئی بھی انہیں سزا نہ دے پاتا۔ان کا دماغی توازن مکمل طور پر خراب ہو چکا تھا۔اپنے ہی چہرے کو ناخنوں سے نوچ نوچ کر انہوں نے زخمی کر رکھا تھا جبکہ اپنے بال اتنی زور سے کھینچے تھے کہ کتنی ہی جگہ سے وہ جڑ سے اکھڑ گئے تھے۔

      انکی حالت دیکھ کر عزم نے انہیں پاگل خانے بھجوا دیا تھا۔وہ انہیں کیا سزا دیتا انہیں انکے گناہوں کی سزا انکا رب ہی دے چکا تھا۔

      وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب ہی صدمے اور غم کی کیفیت سے باہر آ گئے تھے لیکن اگر کسی کو فرحین بیگم کے عمل نے مکمل طور پر توڑا تھا تو وہ سلطان تھا جو چاہ کر بھی اس صدمے سے نکل نہیں پا رہا تھا۔

      وہ کنیز کو لے کر واپس لاہور چلا گیا تھا جہاں اپنا کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہر پل اسکا خیال رکھتا تھا لیکن کنیز نے کبھی غلطی سے بھی اسے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔کنیز کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے بکھرنے سے کیسے بچائے۔

      سب کی زندگی کی خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔شاہد اماں بی،آن اور عرشمان کے ساتھ خوشی خوشی ملکوں کی حویلی رہ رہے تھے جبکہ عزم کی کب سے سنسان حویلی میں بھی لیزا کی وجہ سے خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔

      ان دونوں کی محبت عجیب ہی تھی۔ایک دوسرے کے بغیر ایک پل کے لیے رہ بھی نہیں سکتے تھے اور ساتھ ہوتے ہوئے بھی کسی نہ کسی بات پہ بچوں کی طرح لڑتے رہتے تھے۔

      لیزا کا دل کرتا تھا وہ ہر پل عزم کو نخرے اور لاڈ دیکھائے اور عزم بھی دل و جان سے وہ لاڈ اٹھائے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تھا تو لیزا روتے ہوئے یہی کہتی تھی کہ اب عزم کو اس سے محبت نہیں رہی۔

      ابھی بھی عزم گھور گھور کر لیزا کو دیکھ رہا تھا جو آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر تیار ہو رہی تھی۔آج روپ اور غلام کا ولیمہ تھا اور انہیں پہلے ہی جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی۔

      "چوزی اور کتنی دیر لگے گی؟ایسا نہ ہو کہ ہم دونوں فنکشن کے بعد پہنچیں۔"

      عزم نے اسکے پاس آ کر پوچھا۔

      "او ہو بے بی بس لپسٹک رہ گئی ہے ہمیں دیر نہیں ہو گی۔۔۔۔جسٹ ریلیکس۔۔۔۔غصہ مت کیا کریں اچھا نہیں لگتے۔۔۔"

      آخری بات لیزا نے شرارت سے اردو میں کہی اور لال لپسٹک ہونٹوں پر سجانے لگی۔بلیک کلر کی ساڑھی پہنے مناسب سے میک اپ اور کھلے بھورے بالوں کے ساتھ وہ اس وقت بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔

      عزم نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسکا رخ اپنی جانب کیا اور پر تپش نگاہوں سے اسکے لال رنگ میں رنگے ہونٹوں کو دیکھنے لگا۔اس لڑکی کے لیے اسکا جنون اور شدت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی تھی۔

      عزم اسکے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو لیزا نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا اور اسے گھورنے لگی۔

      "اب دیر نہیں ہو گی؟"

      "نہیں۔۔۔۔"

      عزم نے ایک لفظ میں جواب دے کر اپنے ہونٹوں سے اسکا ہاتھ ہٹایا اور ان لال پنکھڑیوں کو شدت سے اپنی گرفت میں لے لیا۔اسکی شدت پر کانپتے ہوئے لیزا اسکے مظبوط وجود میں سمٹ گئی تھی۔

      عزم نے اسے کمر سے پکڑ کر ڈریسنگ پر بیٹھایا اور اپنی محبت مزید شدت سے اس پر لوٹانے لگا۔لیزا کو لگا تھا کہ اسے بس ایک کس چاہیے لیکن اب اسے بے خود ہوتا دیکھ لیزا نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کیا۔

      "نو بے بی دیر ہو جائے گی۔"

      لیزا نے اسے سمجھانا چاہا لیکن عزم اسکی گردن پر جھک گیا اور جان کا عذاب بنتا وہ پلو راستے سے ہٹا دیا۔

      "پلیز بے بی۔۔۔۔"

      لیزا نے اسے سمجھانا چاہا لیکن وہ سن ہی کہا رہا تھا۔جب لیزا کو اسکا ہاتھ اپنی چولی کی ڈوری سے الجھتا محسوس ہوا تو اس نے عزم کو خود سے دور کر دیا۔عزم نے اسکا پلو اس سے دور کردیا تو لیزا منہ بنا کر اسے دیکھنے لگی۔ملازمہ نے دو گھنٹے کی محنت کے بعد یہ ساڑھی نامی بلا سیٹ کی تھی جسے عزم جھٹکے میں کھول چکا تھا۔

      "عزم۔۔۔۔۔"

      لیزا کو عزم کا ہاتھ اپنے پیٹ پر سرکتا محسوس ہوا تو وہ عزم کا ہاتھ تھام گئی۔

      "جانے وہ کون ہیں جن کے محبوب کے ناک کا موتی انہیں مدہوش کرتا ہے
      مجھے تو میری چوزی کا یہ موتی قرار نہیں آنے دیتا۔"

      عزم نے اسکے بیلی بٹن رنگ کو چھیڑتے ہوئے کہا تو لیزا خود میں ہی سمٹ سی گئی۔

      "اسے کبھی خود سے جدا نہ کرنا تمہارے عزم کی جان ہے یہ موتی۔"

      عزم نے اپنا ہاتھ اسکے پیٹ سے ہٹایا تو لیزا نے سکھ کا سانس لیا مگر عزم اسے گردن کے پیچھے سے پکڑ کر اپنے بہت قریب کر کے پھر سے اسکی سانسیں سینے میں ہی روک گیا۔

      "اگر تمہیں لگتا ہے کہ اس قدر حسین لگ کر تمہیں کہیں جانے دوں گا تو یہ غلط فہمی ہے تمہاری۔اگر شادی پر جانا ہے تو چینج کر کے آؤ ورنہ چپ چاپ میری باہوں میں آ جاؤ."

      اپنے کان پر عزم کی سانسوں کی حرارت کے ساتھ ساتھ یہ جان لیوا سرگوشی محسوس کر کے لیزا کا روم روم کانپ گیا تھا۔

      "مم۔۔۔۔میں چینج کرتی ہوں۔"

      لیزا کی بوکھلاہٹ پر عزم نے مسکرا کر اسکے کان کی لو کو چوما اور اس سے دور ہوا۔لیزا نے شیشے میں خود کو دیکھا تو اپنے کرل کئیے بال بکھرے ہوئے اور ہونٹوں کی لال لپسٹک کو پھیلا دیکھ کر عزم کو کوسنے لگی۔

      اس نے اپنا میک اپ صاف کیا اور کپڑے چینج کرنے کے لیے جانے لگی لیکن اچانک ہی اسکا سر بہت بری طرح سے چکرایا تھا۔

      "عزم۔۔۔۔"

      بے ہوش ہو کر زمین بوس ہونے سے پہلے اس نے عزم کو پکارا تھا۔اسکے زمین پر گرنے کی آواز سن کر عزم بھاگ کر کمرے میں آیا اور اسے بے ہوش دیکھ کر اسکا دل رکنے لگا۔

      "غزل۔۔۔۔"

      عزم نے پریشانی سے اسکا گال تھپتپایا اور اسے باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا۔ڈاکٹر کو فون کرنے کے بعد اس نے کمفرٹر لیزا پھر ٹھیک سے دیا اور پریشانی سے اسے بار بار اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ملازم ڈاکٹر کو کمرے میں لایا تو عزم نے گھبرا کر ڈاکٹر کو دیکھا۔

      "پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے اسے اچانک بے ہوش ہو گئی۔"

      عزم نے پریشانی سے کہا تو ڈاکٹر نے اسے باہر جانے کہا کہا۔نہ چاہتے ہوئے بھی عزم باہر آیا اور بے چینی سے باہر ٹہلنے لگا۔کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر مسکراتے ہوئے باہر آئی۔

      "میٹھائی منگوائے چوہدری جی۔"

      ڈاکٹر کی بات پر عزم نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو۔

      "آپ باپ بننے والے ہیں۔"

      ڈاکٹر کی اگلی بات پر عزم کو لگا کہ اس نے کچھ غلط سنا ہو۔

      "کک۔۔۔۔کیا میں باپ۔۔۔سچ میں ڈاکٹر صاحبہ؟"

      ڈاکٹر نے ہاں میں سر ہلایا۔عزم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔آخر کار اس نے خوشی سے پاس کھڑے ملازم کو گلے سے لگا لیا تو ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ وہ ملازم بھی ہنس دیا۔

      عزم نے اپنی جیب سے سارے پیسے نکال کر ڈاکٹر کو پکڑا دیے اور ملازم کی جانب مڑا۔

      "اتنی میٹھائی منگواؤ کے گاؤں کے ہر گھر میں بانٹی جا سکے اور دس بکرے میری بیوی کے صدقے میں قربان کرواؤ۔"

      عزم کے حکم پر ملازم نے ہاں میں سر ہلایا تو عزم خوشی سے کمرے میں آیا اور لیزا کو دیکھا جو ابھی بھی بے ہوش تھی۔عزم اسکے پاس بیٹھا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسکے چہرے کے ہر نقش کو چومنے لگا۔

      "میری زندگی میں آنے کا شکریہ میری چوزی میری تاریکی کو دور کر کے روشنیاں لانے کا بہت شکریہ۔"

      عزم نے محنت سے کہہ کر اس کے ماتھے کو چوما تو لیزا نے ہلکے سے اپنی آنکھیں کھولیں اور خود کو دیکھا۔اسے یاد آیا کہ کیسے وہ بے ہوش ہو گئی تھی تو عزم کو گھورنے لگی۔

      "یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔"

      لیزا کی بات پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

      "ہاں میری جان وجہ تو میں ہی ہوں لیکن تھوڑا قصور تمہارا بھی ہے تم ہو ہی اتنی نشیلی پھر یہ سب تو ہونا ہی تھا۔"

      عزم نے اسکا نچلا ہونٹ انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے کہا۔

      "واؤ تو اب یہ بھی میرا قصور ہے۔تم ہی میری سانسوں کو قید کر کے آزاد کرنا بھول جاتے ہو اسی لیے بے ہوش ہوئی میں اب مجھے نرمی سے نہ چھوا تو پاس نہیں آنے دیا کروں گی۔"

      لیزا نے انگلی دیکھا کر وارن کیا تو عزم اسکے انکشاف ہر قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

      "تم میری گستاخیوں سے بے ہوش نہیں ہوئی تھی میری نازک سی ولایتی چوزی وجہ کچھ اور ہے."

      عزم کی بات نے لیزا کو پریشان کیا تھا۔

      "کیا ہوا ہے مجھے؟"

      لیزا نے گھبرا کر پوچھا۔

      "تم مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دینے والی ہو میری چوزی۔۔۔بہت جلد ہمارے ہاں ایک چھوٹی سی جان کی آمد ہونے والی ہے۔۔۔تم ماں بننے والی ہو۔"

      عزم کے یہ بات بتانے پر لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور پھر اس نے گلال ہوتا چہرہ عزم کے سینے میں چھپا لیا۔عزم نے قہقہ لگا کر ہنستے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔

      "میں بہت زیادہ خوش ہوں میری جان میری زندگی کو اتنا حسین بنانے کا شکریہ۔"

      عزم نے اسکی دونوں بند آنکھیں اور دہکتے گال چوم کر کہا تو لیزا مزید شرما کر خود میں سمٹ گئی تھی۔

      "عزم۔۔۔۔"

      "جی عزم کی جان۔۔۔۔۔"

      عزم نے اسکے ساتھ لیٹ کر اسکا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

      "تمہیں بیٹا چاہیے یا بیٹی؟"

      لیزا نے لاڈ سے اسکی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے پوچھا۔سچ تو یہ تھا کہ ایک وسوسہ اسکے دل میں اسکی ماں کا ڈالا ہوا تھا کہ مشرقی مرد بیٹی کو پسند نہیں کرتے بلکہ بیٹے کی خواہش کرتے ہیں۔

      "امممم۔۔۔بیٹا۔۔۔۔"

      عزم کی بات پر لیزا کا چہرہ اتر گیا تھا۔عزم نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اونچا کیا اور محبت سے اسے دیکھنے لگا۔

      "بلکہ پہلے چار سے پانچ بیٹے چاہیں مجھے کیونکہ اگر بیٹی تمہاری طرح حسین ہو تو اسکی حفاظت کے لیے چار پانچ باڈی گارڈ پہلے سے موجود ہوں۔باخدا تمہارے حسن کو کیسے سب کی نظروں سے بچا رہا ہوں یہ مجھے ہی پتہ ہے۔"

      عزم کی اس بات پر لیزا ہنس دی۔ہر وسوسہ پل بھر میں دل سے اتر گیا تھا۔

      "خدا ہمیں بیٹا دے یا بیٹی مجھے منظور ہو گا میری جان بس جب تک وہ صحت مند ہو۔"

      عزم نے لیزا کی ناک چوم کر کہا تو لیزا نے مسکرا کر اسکے سینے پر اپنا سر رکھ لیا۔پھر ایک خیال کے تحت منہ بنا کر عزم کو دیکھا۔

      "تم مجھے ہنی مون پر نہیں لے کر گئے ناں اور اب میں بے بی کی وجہ سے ٹریول بھی نہیں کر سکوں گی۔"

      عزم اسکی بات پر مسکرایا تھا۔

      "کوئی بات نہیں ہم آرام سے اپنے بچوں کے ساتھ ہنی مون پر چلیں گے۔"

      لیزا نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔

      "بچوں کے ساتھ کونسا ہنی مون ہوتا ہے۔"

      "کوئی بات نہیں میں تمہارا میرا الگ کمرہ لوں گا۔"

      عزم نے آنکھ دبا کر کہا تو لیزا نے شرما کر اسکے سینے میں چہرہ چھپا لیا ۔عزم نے بھی ہنستے ہوئے اپنے جینے کی وجہ کو خود سے لگایا تھا۔غلام کا ولیمہ تو دونوں بھول ہی چکے تھے۔زندگی نے انہیں اتنی بڑی خوشی جو دی تھی۔
      ????
      "آن اٹھو ہاسپٹل نہیں جانا؟"

      عرشمان نے آن کو اٹھاتے ہوئے کہا۔آجکل وہ کچھ زیادہ ہی سونے لگی تھی اور اسکی یہ تھکاوٹ عرشمان کو پریشان کر رہی تھی۔

      "مان پلیز تھوڑا سا اور سونے دیں ناں میں ہی تو ہاسپٹل کی باس ہوں کوئی نہیں ڈانٹے گا مجھے۔"

      آن نے لاڈ سے کہتے ہوئے پھر سے سونا چاہا تو عرشمان ہنس دیا۔وہ پھر آن کو گاؤں والے ہاسپٹل میں ہر نوکری دلا چکا تھا کیونکہ اس نے یہ ہاسپٹل اسی لیے تو بنوایا تھا اور اب آن کے ساتھ مل کر اس نے اس ہاسپٹل کو کافی ڈیولوپ بھی کر لیا تھا تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں ہر ایک کو علاج گاؤں میں ہی میسر ہو۔

      "نہیں مسز عرشمان ملک ہاسپٹل کی باس آپ نہیں میں ہوں اور میرا حکم ہے کہ اسی وقت اٹھ کر ہاسپٹل کے لیے تیار ہوں۔"

      عرشمان نے شرارت سے اسکی ناک دبا کر کہا۔

      "اگر ہاسپٹل آپکا ہے تو آپ میرے ہیں اس لحاظ سے ہاسپٹل بھی میرا ہے۔"

      آن اتنا کہہ کر پھر سے سونے لگی لیکن اچانک ہی اسکا دل بہت زیادہ متلایا تھا اور وہ اٹھ کر واش روم کی جانب بھاگ گئی۔اسے الٹی کرتا دیکھ عرشمان اسکے پاس آیا اور اسکی کمر سہلانے لگا۔

      "کیا ہوا آن تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔"

      آن اپنا منہ صاف کر رہی تھی جب عرشمان نے اس سے پوچھا۔

      "پتہ نہیں مان ایک دو دن سے ایسے ہی طبیعت بوجھل ہے میں ڈاکٹر ثمرہ کو چیک کروا لوں گی۔"

      آن نے برش پر پیسٹ لگا کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔

      "ایسے کیسے چیک کروا لو گی میں ابھی ڈاکٹر ثمرہ کو گھر بلا رہا ہوں اور تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے ہاسپٹل نہیں جا رہی تم۔"

      عرشمان نے حکم دیتے ہوئے کہا اور باہر آ کر ڈاکٹر ثمرہ کو کال کرنے لگا۔کچھ دیر کے بعد ہی ڈاکٹر ثمرہ وہاں آئی تھیں اور آن کا چیک اپ کرنے لگیں۔

      "مسٹر ملک آپ زرا باہر جائیں گے؟"

      ڈاکٹر ثمرہ نے عرشمان سے کہا تو عرشمان کمرے سے باہر چلا گیا۔اسے اماں بی پریشانی سے اپنی جانب آتی ہوئیں نظر آئیں تو انکے پاس چلا گیا۔

      "کیا ہوا عرشمان آن کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟"

      اماں بی نے پریشانی سے پوچھا۔

      "آپ پریشان مت ہوں اماں بی کوئی مسلہ نہیں بس احتیاطً ڈاکٹر کو چیک کروا رہا ہوں۔"

      عرشمان نے انہیں سمجھایا۔تبھی ڈاکٹر ثمرہ نے دروازہ کھولا اور مسکراتے ہوئے انہیں اندر آنے کا کہا۔عرشمان اماں بی کو اپنے ساتھ لگاتا کمرے میں داخل ہو گیا۔

      "کیسی بات ہے ناں مسٹر ملک آپکی بیوی ڈاکٹر ہو کر بھی اتنی سی بات نہیں سمجھ سکیں۔"

      ثمرہ کی بات پر عرشمان نے پریشانی سے آن کو دیکھا جو اپنا دہکتا چہرہ جھکائے بیٹھی تھی۔

      "شی از ایکسپیکٹنگ مسٹر ملک کانگریچولیشن آپ باپ بننے والے ہیں۔"

      ڈاکٹر ثمرہ کی بات پر اماں بی اور عرشمان کے چہرے پر خوشگوار حیرت آئی تھی۔اماں بی فوراً آن کے پاس آئیں اور اسکا لہو چھلکاتا چہرہ پکڑ کے چومنے لگیں۔

      "خدا تمہیں ڈھیروں خوشیاں دے میری بچی۔"

      اماں بی نے دعا دیتے ہوئے پیسے نکال کر آن ہر وار دیے۔

      "بہت بہت مبارک ہو تمہیں عرشمان۔"

      اماں بی نے عرشمان کو کہا تو وہ بھی مسکرا دیا۔

      "میں یہ خوشخبری شاہد کو سناتی ہوں۔"

      اتنا کہہ کر اماں بی خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ وہاں سے چلی گئیں اور ڈاکٹر ثمرہ بھی ان دونوں کو تنہائی دے کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔

      عرشمان مسکرا کر آن کے پاس آیا جو شرما کر خود میں ہی سمٹی تھی۔عرشمان نے کھڑے کھڑے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔

      "اس خوشی کے لیے تھینک یو سو مچ آن مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں کیسے تمہارا شکریہ ادا کروں۔"

      عرشمان کی آواز میں نمی محسوس کر آن کی پلکیں بھی بھیگ گئی تھیں۔

      "شکر تو اس ذات پاک کا ہے عرشمان جس نے ہمیں اس نعمت کے قابل سمجھا۔اللہ تعالیٰ ہماری خوشیوں کو نظر بد سے بچائیں۔"

      "آمین۔۔۔۔۔"

      عرشمان نے محبت سے کہا اور آن کو سینے سے لگاتے ہوئے اسکا ماتھا چوما۔فریش ہونے کے بعد وہ آن کو لے کر ہال میں آیا جہاں اماں بی خوشی سے میٹھایاں اور تحائف لوگوں میں بنٹوانے کی تیاری کر رہی تھیں۔جبکہ شاہد مسکراتے ہوئے اماں بی کے پاس بیٹھے تھے۔

      شاہد نے آن کو دیکھا تو مسکرا کر اسکے پاس آئے اور اسکے سر پر پیار دیتے ہوئے اسکا ماتھا چوما۔

      "ہمیشہ خوش رہو میرا بچہ اللہ تمہیں زندگی والی صالح اولاد دے"

      شاہد نے اپنی بیٹی کو دعا دے کر عرشمان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے مبارکباد دی۔اماں بی نے مسکرا کر انہیں دیکھا پھر عرشمان کی جانب متوجہ ہوئیں۔

      "عرشمان فون دو مجھے سلطان سے بات کرنی ہے۔"

      عرشمان نے اپنے موبائل پر سلطان کا نمبر ڈائل کر کے اماں بی کو پکڑایا تو اماں بی نے موبائل کان سے لگا لیا۔

      "اسلام و علیکم بیٹا کیسے ہو؟"

      اماں بی نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔

      "بہت بڑی خوشخبری ہے بیٹا مبارک ہو تم چچا بننے والے ہو۔"

      اس بات پر عرشمان نے مسکرا کر آن کو دیکھا جو ابھی بھی شرما رہی تھی۔

      "اب میں کچھ نہیں جانتی تم کنیز کو لے کر واپس آ جاؤ ویسے بھی اسکا چوتھا مہینا چل رہا ہے اسے توجہ اور محبت کی ضرورت ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تمہاری اولاد گاؤں میں اپنوں کے درمیان پیدا ہو۔"

      اماں بی نے حکمیہ انداز میں کہا لیکن شائید سلطان نے مزاحمت کی تھی کیونکہ اماں بی کا منہ بن گیا تھا۔

      "یہ میرا حکم ہے سلطان ملک جلد از جلد واپس آؤ تم۔"

      اتنا کہہ کر اماں بی نے فون بند کر کے عرشمان کو پکڑایا اور مسکرا دیں۔

      "میٹھائی آ گئی ہے اماں بی۔"

      ایک ملازم نے آ کر کہا تو اماں بی نے اثبات میں سر ہلایا۔

      "چلو عرشمان میٹھائی لے کر عزم کے ہاں چلتے ہیں سب سے پہلے اس خوشخبری پر حق تمہارے بڑے بھائی کا بنتا ہے۔"

      عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا تو اماں بی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ابھی وہ حویلی کے داخلی دروازے تک پہنچے تھے جب انہیں عزم اور لیزا ملازموں کے ساتھ حویلی میں داخل ہوتے نظر آئے۔

      "ارے ہم تم لوگوں کے پاس ہی آ رہے تھے خوشخبری دینے اور تم دونوں یہاں آ گئے۔"

      اماں بی نے عزم کو پیار دیتے ہوئے کہا اور لیزا بھاگ کر شاہد کے سینے سے لگ گئی تھی۔عزم نے اس بات پر گھور کر لیزا کو دیکھا۔

      "تم نے سرپرائز خراب کیا چوزی؟"

      لیزا نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

      "کیسا سرپرائز؟"

      عرشمان نے حیرت سے پوچھا۔

      "مبارک ہو تمہیں عرشمان تم چچا بننے والے ہو۔"

      عزم کی بات پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔شاہد نے لیزا کا چہرہ اوپر کر کے دیکھنا چاہا لیکن وہ اپنا چہرہ انکے سینے میں چھپا گئی۔عرشمان مسکرا کر عزم کے پاس آیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

      "بہت بہت مبارک ہو تمہیں میرے بھائی بلکہ مجھے بھی مبارک دو کیونکہ تم بھی تایا بننے والے ہو۔"

      اس بات پر عزم نے حیران ہو کر اماں بی کو دیکھا جنہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔عزم نے عرشمان کو سینے سے لگا کر مبارک دی۔ایک بار پھر سے وہ دونوں خاندان ایک ہوئے تھے۔ایک بار پھر سے ان کی زندگی خوشیوں سے چہچہا رہی تھی۔
      ????
      اماں بی کی کال بند ہوئی تو سلطان گہرا سانس لے کر کنیز کے پاس آیا جو کمرے میں بیٹھی چھوٹا سا سویٹر بن رہی تھی۔سلطان نے اس سے کہا تھا کہ وہ اتنی محنت نہ کرے کنیز جتنی چاہے انکے بچے کے لیے شاپنگ کر سکتی ہے لیکن کنیز نے انکار کر دیا تھا۔وہ اپنے ہاتھ سے اپنے بچے کے لیے چیزیں بنانا چاہتی تھی تا کہ انکے بچے کو ان سے انسیت ہو۔

      سلطان اسکے پاس آیا اور اسکے ہاتھ سے وہ سویٹر پکڑ کر سائیڈ پر رکھ دیا اور خود اسکے پاس لیٹ کر اپنا سر اسکی گود میں رکھ دیا۔

      "سائیں۔۔۔۔۔"

      کنیز نے فوراً اسے ٹوکنا چاہا۔نہ تو انکا رشتہ پہلے جیسا ہوا تھا اور نہ ہی کنیز۔وہ بیوی ہونے کا ہر فرض تو پورا کر رہی تھی لیکن سلطان کو اسکی پرانے والی نوری واپس نہیں لوٹا رہی تھی جو سلطان کے لمس پر کترانے کی بجائے شرما جایا کرتی تھی۔جو اپنی معصوم باتوں اور شرارتوں سے اسکے ہوش خطا کرتی تھی۔

      " مجھے اپنی بیٹی سے بات کرنی ہے اداس ہو گیا یوں اسکے بغیر۔"

      سلطان نے اپنا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹ کر اس سے لپٹتے ہوئے کہا اور کنیز میں موجود اپنی بیٹی سے باتیں کرنے لگا۔وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ وہ بیٹا ہے یا بیٹی لیکن سلطان کو یہی لگتا تھا کہ وہ بیٹی ہے۔

      اپنی بیٹی سے معصوم باتیں کرنے کے بعد سلطان نے کنیز کو دیکھا جو بت بنی وہاں بیٹھی تھی۔

      "اماں بی چاہتی ہیں کہ ہم گاؤں واپس چلے جائیں اور ہماری پہلی اولاد وہیں پر پیدا ہو۔"

      سلطان کی بات پر کنیز نے اپنا سر جھکا لیا۔

      "جیسی ان کی مرضی۔"

      سلطان نے گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہلایا۔

      "لیکن تم کیا چاہتی ہو؟یہاں رہنا چاہتی ہو یا گاؤں جانا چاہتی ہو؟"

      سلطان چاہتا تھا کہ وہ اس سے باتیں کریں اپنی خواہشات کا اظہار کرے بالکل وہ جیسے پہلے کیا کرتی تھی۔

      "اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کیا چاہتی ہوں ہمیں وہی کرنا چاہیے جو ہمارے بزرگ چاہتے ہیں۔آپ بتا دیں ہمیں کب جانا ہے میں تیار ہو جاؤں گی۔"

      اتنا کہہ کر کنیز اٹھی اور وہاں سے جانے لگی۔

      "کنیز۔۔۔۔"

      سلطان کے پکارنے پر کنیز اپنی جگہ پر رک گئی اور پلٹ کر اسے دیکھا۔

      "کچھ چاہیے آپ کو؟"

      ہاں سکون چاہیے مجھے،میری نوری واپس چاہیے،اسکی کھلکھلاہٹ،اسکی معصومیت واپس چاہیے،اسکی وہ محبت واپس چاہیے جس کے لیے سلطان ملک اتنا سب دیکھنے کے بعد بھی زندہ ہے۔

      سلطان نے یہ باتیں دل میں تو کہیں لیکن زبان پر نہیں لا پایا۔

      "کچھ نہیں میں تمہیں بتا دوں گا کہ کب نکلنا ہے گاؤں کے لیے۔"

      کنیز نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔سلطان واپس بیڈ پر لیٹا اور اپنی آنکھیں موند گیا۔اپنی ماں کے عمل کو وہ بھلا نہیں پا رہا تھا انکے کیے گناہوں کی وجہ سے وہ پل پل بکھر رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ کنیز اسے سمیٹ لے بکھرنے سے بچا لے لیکن وہ اسے کیا سمیٹتی وہ تو خود بھی ٹوٹ چکی تھی۔سلطان نے ہی اسے بہت بے رحمی سے توڑا تھا۔
      ????
    • #زندگی_اے_تیرے_نال

      #قسط_نمبر_40 (پارٹ 2)
      Last episode


      "عزم۔۔۔۔عزم۔۔۔"

      عزم گہری نیند میں تھا جب لیزا کی آواز اور اسکے ہلانے پر اسکی آنکھ کھلی۔لیزا کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر وہ پریشانی سے اٹھ بیٹھا۔

      "کیا ہوا چوزی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں تمہاری۔"

      عزم نے اسکے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا تو لیزا نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

      "پھر کیا بات ہے مجھے اٹھایا کیوں؟"

      عزم کے پوچھنے پر ایک شریر سی مسکراہٹ لیزا کے ہونٹوں پر آئی۔

      "مجھے بھوک لگی ہے۔"

      "اس وقت؟"

      عزم نے حیرت سے سائیڈ ٹیبل پر پڑی گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا جہاں رات کے دو بجے کا وقت بتایا جا رہا تھا۔

      "یہ تو اپنے بیٹے کو سمجھاؤ ناں پتہ نہیں کیا ہے کسی وقت بھی بھوک لگ جاتی ہے اسے۔"

      لیزا نے منہ بنا کر کہا تو عزم مسکرا دیا اور نرمی سے اپنے ہونٹ لیزا کے ماتھے پر رکھے۔

      "کیا کھانا ہے میری جان کو؟"

      "نوڈلز۔۔۔۔"

      لیزا نے لاڈ سے کہا تو عزم گہرا سانس لے کر اٹھا اور کچن کی جانب چل دیا۔جب سے لیزا کے پیر بھاری ہوئے تھے وہ اسے پہلے سے بھی زیادہ لاڈ دیکھانے لگی تھی اور یہ قصور بھی تو عزم کا ہی تھا جو اسکا ہر نخرا برداشت کرتا تھا۔

      عزم نے کچن میں آ کر پانی پینے میں ڈال کر چولہے پر رکھا اور دو پیک نوڈلز نکال کر کاونٹر پر رکھے جب لیزا ننگے پیر چلتی کچن میں آئی۔اس وقت وہ ریڈ کلر کے ٹراؤزر اور بٹنوں والی شرٹ میں ملبوس تھی جو کہ اسکا نائٹ ڈریس تھا۔

      اسکا چوتھا مہینا چل رہا تھا اور عزم اس میں تبدیلیاں اور ہلکا سا بھاری پن دیکھ سکتا تھا جو اسے پہلے سے بھی زیادہ حسین بناتا تھا۔

      "اب تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

      عزم نے نوڈلز کا پیکٹ کھولتے ہوئے پوچھا۔

      "تم آدھی رات کو میرے لیے اٹھ کر نوڈلز بنا رہے ہو اور میں وہاں کمرے میں بیٹھوں۔اب میں اتنی بھی بری نہیں میں یہاں تمہارے پاس بیٹھوں گی۔"

      لیزا نے کچن میں موجود ڈائنگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا تو عزم ہنس دیا۔اس نے نوڈلز ابالے اور تھوڑا سا لہسن کوٹ کر اس میں نوڈل کا مصالحہ ڈالا اور آئل کو فرائی کر کے اس مصالحے پر ڈالا تو تڑکے کی آواز اور خوشبو پر بے ساختہ لیزا کے منہ میں پانی آیا۔

      "تمہیں پتہ ہے تم اس دنیا کے سب سے اچھے نوڈلز بناتے ہو۔"

      "بالکل آخر کار رات کے دو بجے اٹھ کر جو بناتا ہوں تو اچھے ہی بنیں گے ناں۔"

      عزم نے شرارت سے کہا اور نوڈلز میں سے پانی نکال کر ان میں فرائی مصالہ مکس کرتے ہوئے پلیٹ میں نکال کر لیزا کے سامنے رکھے لیکن پھر بھی لیزا نے نچلا ہونٹ زرا باہر نکلال کر اسے دیکھا۔

      "اب کیا ہوا؟"

      "فرائیڈ ایگ بھی کھانا ہے۔"

      اگلی فرمائش پر عزم نے گہرا سانس لے کر انڈا فرائی کیا اور اسکی نوڈلز پر رکھ دیا۔لیزا نے کچھ دیر ان نوڈلز کو دیکھا اور پھر چٹکی بجا کر فریج کے پاس گئی اور اس میں سے چاکلیٹ سیرپ نکال لائی۔

      لیزا نے ان مصالحہ نوڈلز پر چاکلیٹ سیرپ ڈالا تو عزم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔کانٹے کے گرد نوڈلز کو لپیٹ کر وہ ایسے کھا رہی تھی جیسے اس سے زیادہ مزے کا کچھ نہ ہو اور عزم کا دل کر رہا تھا کہ وہ الٹی کر دے۔

      "یہ کیا کھا رہی ہو تم؟"

      عزم نے حیرت سے پوچھا۔

      "اپنے بیٹے کو پوچھو اسی نے کہا ہے ان کے اوپر چاکلیٹ ڈال کے کھانے کو۔"

      لیزا نے بھرپور مزے سے نوڈلز کھاتے ہوئے کہا۔

      "ہر بات کا الزام میرے بیٹے پر مت ڈالو تم۔"

      عزم نے اسکے پاس بیٹھ کر مصنوعی غصے سے کہا۔

      "کیا ہے بے بی مزہ آتا ہے مجھے یہ سب کھانے کا۔"

      لیزا نے نوڈلز کے ساتھ بھرپور انصاف کرتے ہوئے کہا تو عزم ہنس دیا۔اسکے نوڈلز کھا لینے کے بعد وہ دونوں کمرے میں آئے تو عزم نے لیزا کو بیڈ پر لیٹایا اور خود اسکے ساتھ لیٹ گیا۔

      "عزم۔۔۔۔"

      تھوڑی دیر کے بعد عزم کو پھر سے لیزا کی آواز آئی۔

      "ہمم ۔۔۔۔۔"

      "بے بی کہہ رہا ہے پاپا کو بولو ماما کو گڈ نائٹ کس کریں اور انہیں ہگ کر کے سوئیں۔"

      اپنے بے بی کی اس فرمائش پر عزم کے ہونٹ مسکرا دیے۔اس نے لیزا کو اپنی باہوں میں لے کر محبت سے اسکا ماتھا چوما اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ دیا۔

      "اب اور کچھ کہہ رہا ہے میرا بے بی؟"

      عزم نے شرارت سے پوچھا تو لیزا نے ہاں میں سر ہلایا۔

      "وہ کہہ رہا ہے کہ آپ اس دنیا کے سب سے اچھے پاپا ہیں۔"

      لیزا نے عزم کے دل کے مقام پر اپنے ہونٹ رکھ کر اردو میں کہا تو عزم مسکرا کر اپنی آنکھیں موند گیا۔زندگی اتنی حسین پہلے کبھی نہیں لگی تھی۔
      ????
      اپنے جسم میں اٹھنے والی تکلیف پر کنیز کی آنکھ کھلی تھی۔درد اتنا تھا کہ اس کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔وہ بمشکل ہلکا سا اٹھی اور سلطان کو دیکھا جو اس سے کچھ فاصلے پر سو رہا تھا۔

      "سس۔۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔"

      کنیز کے درد میں ڈوبی پکار محسوس کر کے سلطان فوراً اٹھا اور پریشانی سے کنیز کو دیکھنے لگا جس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا جبکہ آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔

      "کیا ہوا نوری تم ٹھیک تو ہو۔"

      سلطان نے پریشانی سے اسے اپنی باہوں میں لیتے ہوئے پوچھا تو کنیز نے روتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔

      "مم۔۔۔۔میں آن کو بلاتا ہوں۔"

      سلطان جلدی سے اٹھ کر ننگے پیر کمرے سے باہر بھاگا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی آن کے ساتھ کمرے میں آیا۔عرشمان جو ان کے ساتھ آیا تھا دروازے میں ہی رک گیا۔

      "کیا ہوا کنیز کہاں درد ہو رہا ہے بتاؤ مجھے۔"

      آن نے نرمی سے پوچھا اور اسکا چیک اپ کرنے لگی۔چیک اپ کرنے کے بعد آن نے سلطان کو دیکھا جو پریشانی سے کچھ فاصلے پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔

      "ہمیں اسے ہاسپٹل لے کر جانا ہو گا سلطان بھائی ایمرجنسی ڈیلوری کرنی پڑے گی۔"

      آن کی بات نے سلطان کی پریشانی مزید بڑھا دی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

      "میں گاڑی نکالتا ہوں سلطان تم اسے لے کر آؤ۔۔۔۔"

      عرشمان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو آن نے ٹھیک سے کنیز کا دوپٹہ اس پر دیا اور سلطان نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔ہاسپٹل پہنچنے تک کا ہر لمحہ سلطان پر کیسے بھاری گزرا تھا یہ رہی جانتا تھا۔

      ابھی کنیز کی ڈیلیوری میں پورا ہفتہ باقی تھا اور اب یہ ایمرجنسی ڈیلیوری والی بات اسے پریشان کر رہی تھی۔ہاسپٹل پہنچتے آن نرس اور وہاں موجود ڈاکٹر کی مدد سے کنیز کو ایمرجنسی میں لے گئی۔

      سلطان پریشانی سے ہال میں ٹہل رہا تھا دل بار بار بس ایک ہی دعا کر رہا تھا کہ خدا اسکے بچے اور اسکی بیوی کی حفاظت کرے کیونکہ انکے بغیر سلطان کی زندگی بے مقصد تھی۔

      تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایمرجنسی وارڈ کا دروازا کھلا اور آن مسکراتے ہوئے وارڈ سے باہر آئی۔اسکی باہوں میں کمبل میں لپٹا ایک چھوٹا سا وجود تھا۔

      "مبارک ہو سلطان بھائی بیٹی ہوئی ہے۔"

      آن نے وہ چھوٹی سی جان سلطان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔سلطان نے کانپتے ہاتھوں سے اس ننھی سی گڑیا کو اپنی باہوں میں لیا تھا۔باپ ہونے کا احساس اور ذمہ داری اسے اس دن کا سب سے حسین احساس لگ رہا تھا۔

      کتنے ہی آنسو سلطان کی آنکھوں سے ٹوٹ کر اس ننھی سی جان پر گرے تھے۔

      "کک۔۔۔۔کنیز کیسی ہے وہ ٹھیک تو۔۔۔"

      سلطان نے آن کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو آن نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

      "پریشان مت ہوں وہ بالکل ٹھیک اللہ تعالیٰ نے ماں اور بیٹی دونوں کی حفاظت کی۔آپ تھوڑی دیر میں اس سے مل سکتے ہیں۔"

      آن اتنا کہہ کر واپس وارڈ میں چلی گئی اور سلطان نے جان نثار نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے محبت سے اسکا ماتھا چوما تھا۔

      "بہت بہت مبارک ہو میرے بھائی اللہ تعالیٰ اس کے نصیب اچھے کریں۔"

      عرشمان نے سلطان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور اپنی جیب سے پیسے نکال کر اس بچی پر وار دیے۔سلطان نے بھی مسکرا کر اپنے بھائی کو دیکھا۔

      "میں اماں بی کو یہاں لے کر آتا ہوں تم تب تک کنیز سے مل لو۔"

      عرشمان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور سلطان بھی آن کے بلانے پر اس وارڈ میں چلا گیا جہاں کنیز کو رکھا تھا۔کنیز کو آنکھیں موندے بیڈ پر لیٹا دیکھ کر سلطان اسکے پاس گیا اور انکی بیٹی کو کنیز کے سامنے کیا۔

      "یہ دیکھو کنیز ہماری پیاری سی گڑیا۔"

      سلطان کے لہجے ہی نہیں بلکہ اس کی آنکھوں میں بھی اس ننھی سی گڑیا کے لیے بے پناہ محبت تھی۔کنیز آہستہ بیڈ پر نیم دراز ہوئی اور اس بچی کو اپنے بازؤں میں لے لیا۔

      وہ بچی بالکل کنیز جیسی ہی تھی سانولی سی تیکھے نقوش اور پیاری سی آنکھوں والی۔اسے دیکھ کر بے ساختہ کتنے ہی آنسو کنیز کی آنکھوں سے بہے تھے۔

      "یہ کتنی پیاری ہے ناں سائیں؟"

      کنیز نے اسکا چھوٹا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تو سلطان نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

      "بالکل تمہاری طرح۔"

      سلطان نے محبت سے کنیز کے گرد بازو لپیٹ کر اسے خود سے لگاتے ہوئے کہا۔

      "آپ کو پتہ ہے میں اسکا بہت خیال رکھوں گی۔اسے بہت زیادہ پڑھاؤں گی۔۔۔۔اتنا کہ کبھی کوئی۔۔۔۔"

      کنیز اپنی بات کہتے کہتے ایک پل کو رکی اور بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے۔

      " کبھی کوئی اسکے ان پڑھ ہونے کا فائیدہ نہ اٹھا سکے۔"

      کنیز کی بات پر سلطان کا سر شرم سے جھک گیا۔وہ زندگی بھر بھی اس سے بے پناہ محبت کر کے اس بات کا مداوا نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اسے بیوی ہونے کا حق بھی نہ دے سکا۔

      اچانک ہی سلطان نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور انہیں کنیز کے سامنے جوڑ دیا۔کنیز حیرت سے اسکی اس حرکت کو دیکھنے لگی۔

      "مجھے معاف کر دو کنیز وعدہ کرتا ہوں اپنی ہر غلطی ہر تکلیف کا مداوا کروں گا۔۔۔۔ہماری محبت کی خاطر مجھے معاف کر دو،ہماری بیٹی کی خاطر مجھے معاف کر دو۔"

      اتنا کہہ کر سلطان سسک سسک کر رونے لگا۔کنیز نے اپنی بیٹی کو اپنی گود میں لیٹایا اور خود سلطان کے ہاتھ تھام لیے۔

      "آپ معافی مت مانگیں سائیں آپ نے تو مجھ پر احسان کیا تھا ناں مجھے اس آدمی سے بچایا تھا پھر جو احسان کرتا ہے اسکا تو حق بنتا ہے وہ اپنے احسان کے بدلے میں جو چاہے کرے۔"

      کنیز نے بہتی آنکھوں سے کہا اور اسکی باتیں سلطان کو مزید آنسو بہانے پر مجبور کر رہی تھیں۔

      "جانتے ہیں سائیں مجھے بہت پہلے ہی پتہ لگ گیا تھا کہ میڈ کا مطلب بیوی نہیں ملازمہ ہوتا ہے۔"

      کنیز کی اس بات پر سلطان نے حیرت سے اسے دیکھا۔

      "لیکن میں آپ سے خفا نہیں ہوئی بلکہ یہ ظاہر بھی نہیں ہونے دیا کہ مجھے یہ بات معلوم ہے آپ کی اس بات کو آپکی خواہش سمجھتی سچ مچ آپ کی ملازمہ بن کر اس حویلی میں رہنے لگی۔"

      کنیز کی باتیں سلطان کو مزید شرمندہ کر رہی تھیں۔

      "میں اپنی ذات پر ہر ستم ہر الزام آپ کا دیا تحفہ سمجھ کر قبول کر لیتی۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔لیکن جب میری اولاد کو ناجائز کہا گیا،اسے گناہ کہا گیا تو وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا سائیں۔۔۔۔"

      کنیز نے بہتی انکھوں سے اپنی گود میں سوئی ہوئی اپنی معصوم بیٹی کو دیکھا۔

      "مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتے تو بھی میں برداشت کر لیتی لیکن ہماری بیٹی کا حق تو نہ چھینتے اس سے۔"

      کنیز نے اس ننھی سی جان کو اپنے سینے سے لگایا اور سسک سسک کر رو دی۔سلطان خود بھی کتنی ہی دیر اسکے سامنے بیٹھا سر جھکا کر روتا رہا تھا۔

      "لیکن پھر بھی میں نے آپ کو معاف کیا،اپنا اور اپنی بیٹی دونوں کا حق آپ کو معاف کیا سائیں۔"

      کنیز نے اپنے آنسو پونچھ کر کہا تو سلطان نے حیرت سے اس اعلیٰ ظرف کی مالک لڑکی کو دیکھا اور اس سمیت اپنی بیٹی کو سینے سے لگا لیا۔

      "میں تمہیں اور ہماری بیٹی کو بہت محبت دوں گا کنیز اپنی آخری سانس تک تم دونوں پر نچھاور کر دوں گا وعدہ کرتا ہوں۔"

      سلطان نے ان سے زیادہ خود سے وعدہ کیا تھا۔اب کچھ بھی ہو جاتا وہ پہلے جیسے غلطی نہیں دہرانے والا تھا وہ خود سے منسلک ہر رشتے کو اسکے حصے کی محبت دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
      ????
      سلطان کی بیٹی کی گھر میں آمد ہوتے ہی ملکوں کی حویلی خوشیوں سے جگمگا اٹھی تھی۔اماں بی نے خوشی سے پورے گاؤں میں میٹھائی بنٹوائی تھی آخر کار اتنے عرصے بعد انکے ہاں خوشی جو آئی تھی۔

      اماں بی نے بچی کا نام ارفع سلطان رکھا تھا کیونکہ کنیز چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی کا نام ایسا ہو جو اسے اونچے مقام پر پہنچائے۔وہ چھوٹی سی گڑیا ہر ایک کی لاڈلی تھی۔وہ دو ماہ کی ہو چکی تھی لیکن کبھی وہ عرشمان کی باہوں میں ملتی تو کبھی آن کی۔کنیز اور سلطان کو تو اپنی بیٹی بس چپ کروانے کے لیے یا رات کو ہی نصیب ہوتی تھی۔

      ابھی بھی کنیز نے اسے کچھ دیر پہلے ہی دودھ پلا کر سلایا تھا جب اچانک اسکے کمرے کا دروازا کھلا اور اماں بی کمرے میں داخل ہوئیں۔

      "ارے اماں بی آپ کو کچھ کام تھا تو آپ مجھے بلا لیتی آپ نے کیوں تکلیف کی۔"

      کنیز نے انہیں پکڑ کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا تو اماں بی مسکرا دیں اور اسکے سر پر محبت سے ہاتھ رکھا۔

      "ہمیشہ خوش رہو بیٹا ا...... تمہیں صحت والی زندگی دیں۔"

      کنیز انکی دعا پر مسکرائی۔ اماں بی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس صوفے پر بیٹھایا تھا۔

      "کنیز کیا تم مجھے اپنی ماں جیسی سمجتی ہو؟"

      اماں بی کے سوال نے کنیز کو حیران کیا۔

      "آپ کو تو اپنی امی سے بڑھ کر سمجھتی ہوں آپ کو میں اپنی دادو، نانو،،ماں سب سمجھتی ہوں۔"

      کنیز نے محبت سے کہا تو اماں بی اطمینان سے مسکرا دیں۔

      "پھر اس ناطے سے میں تم سے ایک گزارش کر لوں؟"

      "آپ حکم کریں اماں بی۔"

      کنیز نے محبت سے کہا تو اماں بی کچھ دیر کے لیے سوچ میں ڈوب گئیں۔

      "تم سلطان کو معاف کر دو بیٹا اور اسکے ساتھ پہلے جیسی محبت اور الفت سے رہنا شروع کر دو۔"

      اماں بی کی بات پر کنیز بت بن گئی تھی۔

      "دیکھو میں جانتی ہوں اس نے جانے انجانے تم سے بہت زیادتی کی ہے تمہاری حق تلفی کی لیکن وہ جیسا بھی ہے تمہارا شوہر ہے اور کیا تم چاہو گی کہ تمہاری بیٹی جیسی محبت عرشمان اور آن یا عزم اور غزل کے درمیان دیکھے تم لوگوں کے درمیان ایسی چاہت نہ دیکھے؟کیا تم چاہو گی کہ اس بات سے اس معصوم کی دل آزاری ہو۔"

      اس بات پر کنیز نے حیرت سے اماں بی کو دیکھا۔

      "بچے ماں باپ اور ان کے رشتے کو لے کر بہت حساس ہوتے ہیں کنیز اسکی خاطر اپنے رشتے میں محبت اور چاہت پیدا کرو۔"

      اماں بی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا لیکن کنیز نے شکوہ کناں نگاہوں سے انہیں دیکھا۔

      "اور انہیں کی وجہ سے اس بچی کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اسکا کردار سوالوں کی زد میں آ گیا تھا اماں بی اسکا کیا۔۔۔۔"

      کنیز نے نم آنکھوں سے سوال کیا تو اماں بی نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اسکے بال سہلانے لگیں۔

      "جانتی ہوں میری جان لیکن یہ بات تم بھی جانتی ہو کہ سلطان نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا۔جانتی ہو وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے سلطان نے سب کے سامنے چیخ چیخ کر یہ اعتراف کیا کہ تم اسکی بیوی ہو۔۔۔۔یہ اولاد۔۔۔۔"

      کنیز نے سر اٹھا کر حیرت سے اماں بی کو دیکھا۔

      "تم اس تڑپ کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کنیز جو سلطان کی اس پکار میں تھی جب اس نے چیخ چیخ کر سب کو بتایا کہ یہ اسکی اولاد ہے اور تم اسکی بیوی۔"

      اماں بی نے محبت سے کنیز کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔

      "خطا سب سے ہوتی ہے کنیز لیکن اگر ہم اس خطا کا دامن پکڑ کر چلتے رہیں گے تو کبھی بھی اپنے تلخ ماضی سے باہر نہیں آ پائیں گے نہ ہی اپنے رشتوں میں محبت اور خوشیاں برقرار رکھ پائیں گے۔"

      کنیز نے اس بات پر اپنا سر جھکا لیا۔

      "اگر رشتوں کی خوبصورتی کو بحال رکھنا ہے تو مقابل کے گناہوں کو بھلانا ہو گا اور درگزر کرنا اور معاف کرنا سیکھنا ہو گا تو ہی ہم زندگی میں کامیاب ہو سکیں گے۔"

      اماں بی نے اسے چاہت اور نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

      "میں نے تمہیں جو سمجھانا تھا بیٹا سمجھا دیا باقی تم خود سمجھدار ہو۔"

      اتنا کہہ کر اماں بی وہاں سے چلی گئیں اور کنیز ایک بت بنی اسی جگہ پر بیٹھی ان کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔ہاں سلطان سے غلطی ہوئی تھی اس نے کنیز کا دل دکھایا تھا اسکی حق تلفی کی تھی لیکن اسے اس گناہ کی سزا کنیز نے بھی دی تھی اور خدا نے بھی۔

      جس ماں کی محبت سلطان کا مان ہوا کرتی تھی وہ مان مکمل طور پر مٹی میں مل گیا تھا اور جب انسان اپنی سزا کو برداشت کرتا ہے اور خطا پر پچھتاتا ہے تو اسکے لیے صرف ایک شے بچتی ہے۔۔۔۔معافی جو ہمارا خدا بھی بندے کو دیتا ہے اور اپنے بندوں کو بھی معاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔

      اب کنیز نے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ ایک خطا کر دامن پکڑ کر اپنی زندگی کی خوشیاں اور خوبصورتی برباد نہیں کرے گی بلکہ زندگی میں آگے بڑھے گی اپنی بیٹی کی خاطر۔
      ????
      سلطان رات کے دس بجے گھر واپس آیا تھا۔عرشمان نے اسے بہت ضروری کام سے بھیجا تھا کیونکہ عرشمان خود آن کی طبیعت نے باعث گاؤں سے باہر نہیں جا پایا تھا۔سلطان حویلی میں داخل ہوا تو ایک ملازمہ نے اسے کھانے کا پوچھا لیکن اس نے انکار کر دیا کیونکہ جہاں وہ گیا تھا وہاں سے کھانا کھا کر آیا تھا۔

      اب وہ بس آرام کرنا چاہتا دن بھر کی تھکن اتارنا چاہتا تھا۔ںے ساختہ ہی سلطان کے دل میں کنیز کا خیال آیا۔وہ حسین پل جو اس نے کنیز کی قربت میں گزارے تھے اسکے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگے۔

      لیکن اب ان پلوں کو یاد کرنے کا کیا فایدہ تھا اپنی اس جان لٹانے والی بیوی کو وہ اپنے عمل سے خود سے بدگمان کر چکا تھا اور بدگمانی ایسی شے ہوتی ہے جو سانسوں کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے۔

      سلطان اپنی سوچوں کو جھٹکتا کمرے میں داخل ہوا تو گھپ اندھیرے نے اسکا استقبال کیا۔سلطان اندھیرا دیکھ کر زرا پریشان ہوا کیونکہ اسکی بیٹی اندھیرے میں ڈر جاتی تھی اس لیے وہ دونوں نائٹ بلب آن کر کے سوتے تھے۔

      سلطان نے لائٹ آن کی تو حیرت سے اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔کمرے کو لال غباروں سے سجایا گیا تھا جبکہ گلاب کی لال پتیاں کارپٹ پر بکھری ہوئی تھیں۔سلطان کی نظر کنیز پر پڑی جو لال رنگ کی فراک پہنے اور اپنے سیاہ لمبے بالوں کو کھلا چھوڑ کر سجی ہوئی تھی۔ہاتھوں میں موجود لال چوڑیاں اور ہونٹوں پر پھیلی لال لپسٹک اسکے حسن کو مزید نکھار رہے تھے۔

      "کنیز۔۔۔۔یہ سب۔۔۔۔"

      سلطان نے حیرت سے پوچھا تو کنیز ہلکا سا مسکرا کر اسکے پاس آئی۔

      "کنیز نہیں سائیں جی نوری۔۔۔۔آپ کی نوری۔"

      کنیز نے شرمیلی مسکان کے ساتھ کہا تو سلطان کی حیرت مزید بڑھ گئی لیکن پھر اسکی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے سلطان نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اسکے بالوں میں چہرہ چھپا گیا۔کنیز کو اسکے آنسو اپنی گردن پر گرتے محسوس ہوئے تو اس نے اپنا ہاتھ سلطان کے سر پر رکھا اور اسکے بال محبت سے سہلانے لگی۔

      "شکریہ نوری۔۔۔۔مجھے معاف کرنے کا شکریہ میری زندگی میں واپس آنے کا شکریہ۔۔۔۔"

      سلطان کی آواز سے اسکے احساسات صاف چھلک رہے تھے۔اسکی محبت کو محسوس کرتے کنیز بھی نم آنکھوں سے مسکرا دی اور اس سے دور ہو کر اپنی نظریں جھکا گئی۔

      "نوری کہیں گئی ہی نہیں تھی سائیں جی بس آپ سے ناراض ہو گئی تھی لیکن آپ نے اپنی محبت سے اسے واپس منا لیا۔۔۔اب اسے پھر سے ناراض مت کریے گا۔"

      آخری بات کنیز نے منہ بنا کر کہی تو سلطان ہنس دیا اور اسے اپنے قریب کر کے محبت سے اسکا ماتھا چوما۔

      "کبھی نہیں میری جان۔۔۔۔"

      سلطان نے اب اپنے ہونٹ اسکی بھیگی پلکوں پر رکھے اور پھر محبت سے اسکے گلابی ہوئے رخساروں کو چومنے لگا۔پھر اچانک ایک خیال کے تحت وہ کنیز سے دور ہوا اور حیرت سے خالی کمرے کو دیکھنے لگا۔

      "ارفع کہاں ہے؟"

      سلطان کے سوال پر کنیز کے گال مزید گلابی ہوئے تھے۔

      "اپنی بڑی امی اور بڑے بابا کے پاس۔۔۔۔مجھے لگا۔۔۔۔کہ آپ میرے ساتھ اکیلے وقت۔۔۔۔"

      اس سے زیادہ کنیز سے کچھ نہیں کہا گیا اور نہ ہی سلطان کو مزید سننے کی ضرورت تھی۔اسکا یہ ایک اشارہ ہی سلطان کے لیے بہت قیمتی تھا۔سلطان نے اسکا چوڑیوں سے بھرا نازک ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے قریب کھینچ لیا۔

      "تم سلطان ملک کا سب سے حسین خواب ہو نوری وہ حسین خواب جو سچ ہو گیا۔"

      سلطان نے جان نثار نگاہوں سے اسکے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ کنیز کی زبان تو اسکی آنکھوں سے نکلتی حرارت سے ہی تالو سے چپک گئی تھی۔

      "یہ سلطان تمہارے بنا ادھورا تھا نوری۔۔۔۔اسکی معصوم سی کنیز نے اسے مکمل کر دیا۔"

      اتنا کہہ کر سلطان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کھینچا اور نرمی سے اسکے سرخ رنگ میں سجے ہونٹوں پر جھک گیا۔کنیز نے گھبرا کر اسکی شرٹ کا کالر اپنی مٹھی میں دبوچا تھا۔

      سلطان کی وہ شدت اسے پگھلنے پر مجبور کر رہی تھی۔اچانک ہی سلطان نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا تو کنیز نے شرما کر اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا۔

      "میں صرف تیرا رہوں گا
      تجھ سے ہے وعدہ یہ میرا
      تو مانگ لے مسکرا کے
      میرا پیار حق ہے تیرا۔"

      سلطان نے گنگناتے ہوئے اسے بیڈ پر لیٹایا اور اسکا دوپٹہ اس سے دور کرتے ہوئے اس پر کالی گھٹا کی مانند چھا گیا۔گزرتی رات نے ان کے رشتے کی سیاہی کو دھو دیا تھا۔انکی درمیان موجود ساری بے رخی دور ہوئی تھی اگر کچھ بچا تھا تو وہ تھی صرف محبت۔
      ????
    • #زندگی_اے_تیرے_نال
      #حرم_شاہ
      #قسط_نمبر_40 (پارٹ 3)
      Last episode


      عزم اور عرشمان دونوں کے ہاں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تھی۔عرشمان کا بیٹا عزم کے بیٹے سے محض دو دن چھوٹا تھا۔دونوں بچوں کے دنیا میں آنے سے انکی خوشیوں کو چار چاند لگ گئے تھے۔

      بچے کی پیدائش آن کے لیے کافی مشکل ثابت ہوئی تھی لیکن خدا نے اسے اور بچے کو صحت والی زندگی دی تھی جس کے لیے عرشمان دل سے اپنے رب کا شکر گزار تھا۔

      اماں بی نے دونوں بچوں کے نام ان کے بابا کے نام سے ملتے جلتے رکھے تھے۔عزم کے بیٹے کا نام انہوں نے اعظم اور عرشمان کے بیٹے کا نام عالیشان رکھا تھا۔لیزا کو جب اپنے بیٹے کا نام پتہ چلا تو اس نے حیرت سے یہی پوچھا کہ باپ بیٹے کے نام میں فرق کیا ہے۔تب عزم نے اسے محبت سے اسے بتایا کہ عزم کا مطلب پختہ ارادہ ہوتا ہے جبکہ اعظم بڑے کو کہتے ہیں۔

      بچوں کی کھلکھلاہٹوں نے دونوں حویلیوں کے غم مٹا دیے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیسے دو سال کا وقت گزر گیا کسی کو علم ہی نہیں ہوا۔تینوں بچے آپس میں بہن بھائیوں کی طرح کھیلتے تھے البتہ ارفع اکثر ہی اعظم اور عالیشان پر بڑی ہونے کا رعب جھاڑا کرتی تھی۔

      جب اعظم اڑھائی سال کا ہوا تو لیزا کو خدا نے پھر سے خوشخبری دی۔عزم کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خوشی سے پاگل ہو جائے جبکہ لیزا بس اسے گھورنے میں مصروف تھی۔

      "کیا ہوا چوزی تم خوش نہیں ہو؟"

      عزم نے خوشخبری ملنے کے بعد لیزا کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر پوچھا۔

      "خوش ہمارا بیٹا ابھی صرف اڑھائی سال کا ہے اور وہی اتنا ستاتا ہے کہ کیا بتاؤں اور اب پھر سے۔۔۔۔۔دیکھو آن کے یا کنیز کے ہاں پھر سے گڈ نیوز آئی کیا ابھی نہیں ایک ہم ہی ہیں جو دنیا کی آبادی بڑھائیں گے۔۔۔۔۔سب تمہارا قصور ہے۔"

      لیزا کی باتوں پر اسے حیرت سے دیکھتا عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اسکے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اسے سینے سے لگا کر اسکا ماتھا چوما۔

      "نہیں میری چوزی تھوڑا سا قصور تمہارا بھی تھا یاد کرو مجھے میری برتھ ڈے پر سپیشل سا سرپرائز دینے کے لیے وہ ریڈ نائٹی کس نے پہنی تھی؟"

      عزم کے بے باک سوال پر لیزا پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوتی اپنا چہرہ عزم کے سینے میں چھپا گئی۔ عزم نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔

      "تم فکر مت کرو میری جان میں ہوں ناں دوسرے بچے کو اور اعظم کو سنبھالنے میں تمہارا بھر پور ساتھ دوں گا۔۔۔۔ویسے بھی اعظم لڑکا تھا دیکھنا اب ہماری پیاری سی بیٹی پیدا ہو گی جو ہمیں زرا پریشان نہیں کیا کرے گی۔"

      عزم نے محبت سے کہا تو لیزا نے امید سے اسکی جانب دیکھا۔اسے خود بھی تو گڑیا کی طرح سجانے کے لیے ایک بیٹی چاہیے تھی۔

      "پکا؟"

      "پکا۔۔۔"

      عزم نے اسے یقین دلایا لیکن عزم کی یہ خوش فہمی نو مہینے کے بعد پوری ہو گئی تھی جب ان کے ہاں دو جوڑواں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تھی۔عزم جب اپنے بیٹوں کو دیکھنے گیا تو اسکا سامنا لیزا کی گھورتی نظروں سے ہوا تھا۔

      "اتنے پیارے بیٹے دیے ہیں اللہ نے خوش نہ ہونا تم؟"

      عزم نے ایک بیٹے کو اپنی باہوں میں لیتے ہوئے کہا جبکہ دوسرے بیٹے کو اعظم محبت سے دیکھ رہا تھا۔

      "تو اب اپنے اتنے پیارے بیٹے خود ہی سنبھالنا تم۔"

      لیزا نے منہ بنا کر کہا تو عزم ہنس دیا۔

      "سنبھال لوں گا ویسے بھی اتنے شریف بچے ہوں گے ناں میرے کہ کسی نے سوچا نہ ہو گا۔"

      عزم نے اپنا کالر جھاڑتے ہوئے کہا لیکن کاش وہ جانتا کہ اسکی یہ خوش فہمی بھی جلد ہی دور ہونے والی تھی۔
      ????
      "او۔۔۔۔۔خدا یہ کیا بلائیں پیدا کی ہیں میں نے۔"

      عزم نے کچن میں قدم رکھا تو کچن کا ہر دیکھ کر اسکی آنکھوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی کھل گیا۔پورے کچن کے فرش،دیواروں اور شیلفس پر آٹا ایسے بکھرا تھا جیسے وہاں طوفان آیا ہو۔

      اور اس سب میں عزم کے دونوں لعل خود بھی آٹے میں نہائے سفید بھوت بنے ہوئے تھے۔دونوں دو سال کے ہو چکے تھے اور اپنی شرارتوں سے ہر وقت ہر کسی کو ستاتے رہتے تھے ۔عزم کے پیچھے آتی لیزا نے جب یہ منظر دیکھا تو اسکی اپنی حالت عزم جیسی ہی تھی لیکن پھر وہ قہقہ لگا کر ہنس دی۔

      "صائم اور دائم یہ کیا کیا تم دونوں نے؟"

      عزم نے غصے سے پوچھا تو دونوں بھائیوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دائم آگے بڑھا اور ہاتھ میں پکڑا آٹا عزم کے سامنے کیا۔

      "بابا ٹوٹی پائی۔۔۔۔"(بابا روٹی پکائی)

      دائم کی بات پر عزم نے اپنا سر پکڑ لیا اور لیزا پھر سے ہنس دی۔

      "بڑا کہتے تھے ناں میرے بچے دنیا کے سب سے شریف بچے ہوں گے اب انہیں نہلاؤ اور ملازمہ کو بھی تم ہی بتانا کہ یہاں کیا طوفان آیا تا کہ تمہیں پتہ چلے کہ کتنے شریف بچے ہیں تمہارے۔"

      لیزا نے اترا کر کہا اور اپنے پاس کھڑے پانچ سالہ اعظم کو اٹھا کر وہاں سے چلی گئی۔عزم نے زرا گھور کر ان دنوں بھائیوں کو دیکھا اور پھر دونوں کو ایک ساتھ باہوں میں اٹھا کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھایا۔

      "قسم سے کبھی کبھی دل کرتا ہے رسی سے باندھ دوں تم دونوں کو۔"

      عزم نے سختی سے کہا تو صائم نے منہ بنا لیا اور بت بن کر بیٹھ گیا۔دائم کے مقابلے میں وہ زرا شریف بچہ تھا اور جلد ہی ڈر جاتا تھا مگر پھر بھی اپنے بھائی کی شرارتوں میں اسکا ساتھ دینا نہیں بھولتا تھا۔

      جبکہ دائم کو نہ تو کسی کا خوف تھا اور نہ ہی ایک پل کے لیے بھی اسے سکون ہوتا تھا۔عزم نے صائم سے دھیان ہٹا کر دائم کو دیکھا تو اسکا دل منہ کو آ گیا۔

      کیونکہ دائم بڑی سے چھری پکڑ کر اسکی نوک کو اپنی ٹانگ کے پاس ہی میز میں مار رہا تھا۔عزم جلدی سے اسکے پاس آیا اور اس کے ہاتھ سے چھری پکڑی۔

      "یا تو خود کو مار دوں گا یا تم دونوں کو سدھر جاؤ تم دونوں۔۔۔"

      عزم نے غصے سے کہتے دونوں کو باہوں میں اٹھایا اور واش روم کی جانب چل دیا۔

      "یا اللہ پیاری سی بیٹی مانگی تھی پر نہ جانے کونسا گناہ کیا تھا جو یہ طوفان مل گئے۔"

      عزم نے مصنوعی غصے سے کہتے ہوئے صائم کا گال چوما اور انہیں نہلانے کے لیے واش روم میں لے گیا۔لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکی پیاری سی بیٹی کی خواہش بھی جلد کسی پوری ہونے والی تھی کیونکہ ایک سال کے بعد صائم اور دائم کی تیسری سالگرہ پر لیزا کی طبیعت پھر سے بگڑ گئی تھی اور جب ڈاکٹر نے انہیں خوشخبری سنائی تو عزم خوشی سے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا لیکن لیزا بس گہرا سانس لے کر بستر پر ڈھے سی گئی تھی۔

      ان کے تین بیٹوں نے تو دنوں کو تگنی کا ناچ نچایا تھا۔اب وہ دونوں امید ہی کر سکتے تھے کہ یہ چوتھی اولاد بیٹی ہو۔
      ????
      سلطان پریشانی سے گھر میں داخل ہوا۔ابھی کچھ دیر پہلے عرشمان نے اسے فون کر کے بتایا تھا کہ کنیز کی طبیعت خراب تھی اور سلطان اسی پریشانی میں اپنا سارا کام چھوڑ کر کنیز کو دیکھنے آیا تھا۔

      سلطان جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو اسکی نظر کنیز پر پڑی جو شرمائی شرمائی سی بیڈ پر بیٹھی تھی۔اس سے پہلے کہ سلطان اس تک جاتا چھے سالہ ارفع بھاگ کر اسکے پاس آئی اور اسکی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔

      "بابا میری پیاری سی بہن آنے والی ہے۔"

      ارفع کی بات پر سب لوگ ہنس دیے تو سلطان کا دھیان سب پر گیا جو اسی کے کمرے میں موجود تھے۔

      "وہ تمہاری نہیں میری بہن ہو گی."

      چھے سالہ عالیشان نے منہ بنا کر کہا۔اس بچے کا نخرہ ہی علیحدہ تھا۔اتنی سی عمر میں ہی وہ ہر وقت ایٹیٹیوڈ میں رہتا تھا اور اپنی ہر خواہش پوری کرنے کی جدوجہد کرتا تھا۔

      "تمہاری بہن نہیں کزن ہو گی بدھو اسی لیے کہتی ہوں دھیان سے پڑھا کرو۔۔۔۔"

      ارفع کی بات پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیے۔کنیز نے جان نثار نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو اپنی عمر سے زیادہ عقلمند اور لائق تھی۔خود تو وہ محنت سے پڑھ کر فرسٹ آنے کی قائل تو اور اپنے سب کزنز سے بھی یہی توقع کرتی تھی۔

      صائم اور دائم کو تو وہ تین سال کی عمر میں ہی اے بی سی ڈی سیکھا چکی تھی اور سب سے حیران کن بات جو تھی وہ یہ تھی کہ ہر وقت سب کی ناک میں دم کرنے والا دائم اسکے سامنے انتہائی شریف بن جاتا تھا اور ہر وقت اسکے پیچھے پیچھے گھومتا رہتا تھا۔

      سلطان نے جھک کر ارفع کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور صوفے پر بیٹھیں اماں بی کے پاس آ گیا۔

      "بہت بہت مبارک ہو سلطان اللہ تمہیں زندگی والی اولاد دے۔"

      سلطان انکی دعا پر مسکرایا اور پھر اپنے بھائی کے پاس گیا جس نے اسے گلے سے لگا کر مبارکباد دی تھی۔

      "ویسے عزم پیچھے نہیں رہا آج صبح ہی اسکا فوج آیا تھا غزل بھی امید سے ہے۔"

      اماں بی نے سب کو بتایا تو سب کی خوشی میں مزید اضافہ ہو گیا۔

      "پہلے تین بچوں سے دل نہیں بھرا بھائی صاحب کا جو چوتھے کی تیاری میں ہیں۔"

      عرشمان نے شرارت سے کہا تو سب ہنس دیے۔

      "سچ میں چوہدریوں کی حویلی اب حویلی کم اور چڑیا گھر زیادہ لگتی ہے۔۔۔۔خاص طور پر عزم کے دائم کو تو چڑیا گھر کے پنجرے میں ہی بند کر دینا چاہیے۔"

      عرشمان نے آنکھیں گھما کر کہا تو آن کھکھلا کر ہنس دی۔

      "اب ہر کوئی آپ کے اور آپکے بیٹے کی طرح سڑو تو نہیں ہو سکتا ناں ایٹیٹیوڈ دیکھیں اپنے بیٹے کا کہاں سے لگتا ہے یہ چھے سال کا بچہ۔۔۔۔"

      آن نے عالیشان کی جانب اشارہ کیا جو سینے پر ہاتھ باندھے ایک ٹانگ کو پیچے پڑے صوفے سے ٹکائے شان سے کھڑا ہر ایک کو دیکھ رہا تھا۔

      "اپنا تو سواگ ہی علیحدہ ہے۔"

      عرشمان عالیشان کے پاس آیا اور اسے باہوں میں اٹھا لیا۔

      "چھوڑیں بابا بچہ نہیں اب میں۔۔۔"

      عالیشان فوراً اسکی باہوں سے نیچے اترا۔

      "بچے ہی ہو ہائٹ دیکھو اپنی ابھی جب بڑے پاپا جتنے ہو گے تب بڑے ہو گے تم۔"

      ارفع نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو عالیشان نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔وہ سب سے بڑی ہو کر رعب جمانے کا موقع کبھی نہیں جانے دیتی تھی۔

      "چلو بچو ہم سب باہر چلتے ہیں اب میاں بیوی کو اکیلے وقت گزارنے دو۔"

      اماں بی نے حکم دیا تو عرشمان اور آن ارفع اور عالیشان کو اپنے ساتھ لیتے کمرے سے باہر چلے گئے۔سلطان مسکرا کر کنیز کے پاس آیا جو اسکے ساتھ تنہا ہونے پر شرما رہی تھی۔

      "مجھے پتہ ہوتا گھر آنے پر مجھے اتنی بڑی خوشخبری ملے گی تو میں ایسے نہیں آتا بلکہ تمہارے لیے ہزاروں تحفے لے کر آتا۔"

      سلطان نے کنیز کے پاس بیٹھ کر اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا تو کنیز شرما کر خود میں ہی سمٹ گئی۔

      "میری زندگی کو اتنا حسین بنانے کا شکریہ میری جان سچ پوچھو تو اگر میں زندہ ہوں تو صرف تمہاری اور ارفع کی وجہ سے ۔"

      سلطان نے افسردگی سے کہا اور یہ بات صرف کنیز جانتی تھی کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود وہ اپنی ماں کے دیے غم سے نکل نہیں پایا تھا۔

      "اور اب جینے کی اور وجہ دے دی ہے تم نے مجھے۔"

      سلطان نے کنیز کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا تو کنیز اسکے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔زندگی تو وہی ہو جو اپنے محبوب کے ساتھ ہو اسکے بغیر بھی جینا کوئی جینا ہوتا ہے کیا؟
      ????
      (تین سال بعد)
      لیزا کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے حویلی کے لان میں کھڑی اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔اسکے چاروں بچے فٹ بال سے آپس میں کھیل رہے تھے۔کھیلنا بھی کیا وہ اپنی چھوٹی بہن ہیر کو کھلا رہے تھے۔عزم کی خواہش پوری ہوئی تھی ان کو اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا تھا جو اپنے باپ سے زیادہ اپنے بھائیوں کی جان تھی۔

      مجال تھی کہ وہ تینوں کسی کو بھی اپنی بہن کو ہاتھ بھی لگانے دیتے۔ایک تو سنہری آنکھوں اور بھورے بالوں والی ہیر اتنی پیاری تھی کہ ہر کوئی اس کی جانب کھینچا چلا جاتا تھا لیکن اسکے بھائی کسی کو بھی اسکے قریب آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

      بس سلطان کی بیٹی ارفع اور اسکی چھوٹی بہن رضیہ کو اس سے کھیلنے کی اجازت تھی۔چونکہ رضیہ عمر میں ہیر سے بس دو دن چھوٹی تھی تو اعظم،صائم اور دائم اسکا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔

      اعظم نے فٹ بال ہیر کے پیروں میں رکھا تو ہیر نے کھلکھلا کر اسے ہٹ لگائی اور اسکے پیچھے بھاگ پڑی مگر فٹ بال لان کے کونے میں کھڑے ملازمہ کے بچے کے پاس چلا گیا۔جس نے اس بال کو پکڑ لیا۔

      ہیر کے پاس پہنچنے پر اس بچے نے وہ بال اسے دینا چاہا لیکن اعظم نے فوراً ہیر کے ہاتھ پکڑ لیے اور اس بچے کو گھورا۔

      "اب ہمیں نہیں چاہیے یہ بال تم رکھ لو۔"

      نو سالہ اعظم نے زرا سختی سے کہا لیکن ہیر کو وہ بال چاہیے تھا۔

      "میلا بال۔۔۔۔"

      ہیر نے روتے ہوئے کہا اور اس بال کو پکڑنا چاہا تو اعظم نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔

      "نہیں ہیر میں آپ کو نیا لے دوں گا وہ بال اب گندہ ہو گیا۔"

      اپنے بیٹے کی بات پر لیزا کا منہ حیرت سے کھل گیا۔وہ ان کے پاس آئی اور روتی ہوئی ہیر کو باہوں میں اٹھا لیا۔

      "یہ کیا بات ہوئی اعظم ایسا بولتے ہیں کیا؟"

      لیزا نے ہیر کی کمر سہلا کر اسے چپ کروانا چاہا۔

      "اس بال کو کسی اور نے ٹچ کر لیا ماما اب وہ ہیر کے قابل نہیں ہے بابا اسے نیو لے دیں گے۔"

      اعظم کندھے اچکا کر کہتا حویلی میں چلا گیا اور لیزا اسکی بات پر ہکی بکی سی وہاں کھڑی رہی۔اپنے بیٹے کے اس غرور سے وہ عزم کو آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

      رات کو جب سب لوگ کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے لیزا نے دوپہر والی بات اور اعظم کا رویہ عزم کو بتایا جسے سن کر عزم بس مسکرا دیا۔

      "حد ہے عزم ہمارا بیٹا بدتمیز ہو رہا ہے اور تم مسکرا رہے ہو؟"

      لیزا نے زرا سا غصے سے انگلش میں کہا۔

      "بدتمیز نہیں چوزی وہ اپنی بہن کے معاملے میں حساس ہے جس میں کوئی بری بات نہیں۔"

      عزم نے اسے نرمی سے سمجھایا اور روٹی کا چھوٹا سا نوالہ توڑ کر ہیر کے منہ میں ڈالا۔

      "تم اور تمہارے بیٹے مل کر ناں بگاڑ دو گے میری بیٹی کو۔"

      لیزا نے اپنے بچوں کو گھورتے ہوئے کہا جو اپنے ماں باپ کو لڑتا دیکھ ہنس رہے تھے۔

      "کوئی بات نہیں جیسے میں نے تمہیں سدھار لیا کوئی نہ کوئی اسے بھی سدھارنے والا مل ہی جائے گا۔"

      عزم نے ہیر کا گال ہلکا سا کھینچا تو وہ ہنس دی۔

      "ہمم جیسے تمہارے بیٹے کسی کا سایہ بھی اسکے پاس آنے نہیں دیتے اسے تو کوئی مل ہی جائے گا بلکہ دنیا کا سب سے بے چارہ ہو گا وہ آدمی جسے تمہاری ہیر پسند آئے گی۔"

      لیزا نے اترا کر کہتے ہوئے ایک سینڈ وچ دائم کے سامنے رکھا۔

      "میری ہیر کو لڑکا نہیں بلکہ وہ لڑکے کو پسند کرے گی اور جو چیز ہیر کو پسند آئے اسکا کیا کرتے ہیں لڑکو؟"

      عزم نے شرارت سے اپنے تینوں بیٹوں سے پوچھا۔

      "ڈبے میں ڈال کر ہیر کو دے دیتے ہیں۔"

      صائم نے جواب دیا اور پھر کھانا کھانے لگا جبکہ لیزا اپنا سر تھام کر رہ گئی تھی۔جتنی منتوں مرادوں میں عزم نے ہیر کو مانگا تھا اسکی اتنی محبت اس سے جائز تھی۔

      ویسے بھی وہ تین بھائیوں کی سب سے چھوٹی اکلوتی بہن تھی اسکے نخرے تو پھر اٹھائے ہی جانے تھے۔

      "مجھے یہ نہیں کھانا ماما مجھے ایسا فوڈ پسند نہیں مجھے پراٹھا کھانا ہے۔۔۔۔"

      اچانک ہی دائم نے منہ ٹیڑھا کر کے کہا تو لیزا کے سوا سب ہنسنے لگے کیونکہ وہ لیزا کی ہی کاپی کر رہا تھا۔عزم لیزا کو نماز،قرآن کے ساتھ ساتھ اردو سیکھانے میں تو کامیاب ہوا تھا لیکن اسکا انگریزی لہجہ ختم نہیں ہوا تھا جس کے نتیجے میں سب بچے کبھی ناں کبھی مزاق میں لیزا کے انگریزی لہجے میں بات ضرور کرتے تھے۔

      "تم ناں مار کھاؤ گے دائم چوہدری اس لیے اس سے بہتر ہے یہ سینڈوچ ہی کھا لو ۔۔۔۔"

      لیزا نے مصنوعی غصے سے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تو عزم ہنس دیا۔اسکا اکیلا پن مٹ چکا تھا زندگی کی ہر کمی اسکی بیوی اور بچوں نے پوری کر دی تھی۔

      کھانے کے بعد لیزا سب بچوں کو ان کے کمرے میں سلانے لے گئی۔سب بچوں کو سلانا آسان تھا سوائے دائم کے جو سوئے ہوئے صائم کے کبھی بال کھینچ دیتا تو کبھی چٹکی کاٹ کر اسے اٹھا دیتا۔

      آخر کار لیزا نے اسے دھمکی دی کہ وہ اسے الٹا لٹکا دے گی تو صائم جو چین آیا اور وہ بھی اپنے بہن بھائیوں کی طرح سو گیا۔سب کے سو جانے کے بعد لیزا نے محبت سے اپنے ہر بچے کا گال چوما اور کمرے سے باہر جانے لگی جب عزم اسے کمرے میں آتا دیکھائی دیا۔

      "کیا ہوا کچھ چاہیے تھا کیا؟"

      لیزا نے حیرت سے پوچھا لیکن عزم بس مسکرا کر اپنے بچوں کے پاس گیا اور انہیں جان نثار نظروں سے دیکھنے لگا۔پھر عزم نے اعظم کا ماتھا چوما۔

      "عزم کا غصہ۔۔۔۔۔"

      عزم نے مسکرا کر کہا اور پھر سوئے ہوئے صائم کا ماتھا چوما۔

      "عزم کی نرمی۔۔۔۔"

      اسکے بعد عزم نے دائم کو دیکھا جو نیند میں بھی ایسا لگ رہا تھا کوئی شرارتی خواب دیکھ رہا ہو۔

      "عزم کی شرارت ۔۔۔۔"

      عزم نے دائم کا ماتھا چوم کر کہا اور پھر وہ ہیر کے پاس آیا جو انکے بیڈ کے پاس پڑے جھولے میں سو رہی تھی۔یہ بھی اسکا لاڈ ہی تھا کہ دو سال کی ہونے کے باجود وہ جھولے میں سوتی تھی۔

      "عزم کی جان۔۔۔۔"

      عزم نے ہیر کا ماتھا چوم کر کہا تو اپنے بچوں کے لیے اسکی یہ محبت دیکھ کر لیزا کی پلکیں بھیگ گئیں۔عزم اس کے بعد لیزا کے پاس آیا اور اسکو باہوں میں لے کر اسکا ماتھا چوما۔

      "عزم کا جہان۔۔۔۔"

      عزم کے محبت سے کہنے پر لیزا مسکرا دی اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھا۔

      "تم پر ہنی مون ابھی بھی ادھار ہے مسٹر۔۔۔ "

      لیزا نے لاڈ سے اسکی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے کہا۔

      "ہاں ناں چوزی بھولا نہیں اور اب میرا اگلا ٹارگٹ یہی ہے۔"

      عزم نے لیزا کی ناک کھینچ کر کہا تو وہ کھلکھلا دی۔

      "میں بھی جاؤں گا ہنی مون پہ۔۔۔۔"

      دائم کی آواز پر عزم اور لیزا نے حیرت سے اسے دیکھا جو بیٹھ کر اپنی آنکھیں مل رہا تھا۔اپنے شرارتی بیٹے کی بات پر دونوں ہنس دیے۔خوشیوں نے انکے در پر آ کر انکا جہان مکمل کیا تھا۔
      ????
      آن ہاسپٹل سے واپس آئی تو عالیشان کو لان میں دو سالہ رضیہ کے ساتھ کھیلتا دیکھ کر حیران رہ گئی۔

      "عالیشان تم اس وقت گھر کیا کر رہے ہو تمہیں تو سکول ہونا چاہیے ناں۔"

      آن نے حیرت سے پوچھا تو عالیشان نے رضیہ سے دھیان ہٹا کر آن کو دیکھا۔

      "میرا دل رضو کے ساتھ کھیلنے کا کیا تو گھر آ گیا۔

      "عالیشان نے کندھے اچکا کر عام سے انداز میں کہا تو آن کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

      "اور تمہاری ٹیچر نے تمہیں آنے دیا؟"

      "میں نے ٹیچر کو بتایا ہی نہیں۔"

      اس بار آن اپنا سر تھام کر رہ گئی۔وہ سکول بنک کر کے کتنی ہٹ دھرمی سے بتا رہا تھا۔

      "آنے دو تمہارے بابا کو بتاتی ہوں تمہارے کیا کام ہیں۔"

      آن نے غصے سے کہا لیکن اسکی بات عالیشان کے چہرے پر کوئی خوف نہیں لا پائی تھی۔

      "کیا بتاؤ گی بھئی کیا کام ہیں میرے بیٹے کے۔"

      عرشمان جو ابھی حویلی میں آیا تھا مسکراتے ہوئے آن سے پوچھنے لگا۔

      "سکول بنک کیا ہے آپ کے بیٹے نے۔"

      آن کی بات پر عرشمان نے حیرت سے عالیشان کو دیکھا۔

      "کیوں۔۔۔۔؟"

      "مجھے رضو سے کھیلنا تھا۔"

      عالیشان نے کندھے اچکا کر عزم سے انداز میں کہا۔

      "تمہیں تو میں بتاتا ہوں عالیشان ملک چلو زرا میرے ساتھ۔"

      عرشمان نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر کی جانب لے جانے لگا لیکن چھوٹی سی رضیہ فوراً عرشمان کی ٹانگ سے چپک گئی۔

      "بلے بابا۔۔۔نانا میں اور شان کھیلنا۔۔۔۔"

      رضیہ نے اتنے پیارے انداز میں کہا کہ عرشمان کا سارا غصہ ہوا ہو گیا اور اس نے اس چھوٹی سی گڑیا کو باہوں میں اٹھا لیا۔

      "ٹھیک ہے لیکن اگر پھر کبھی اس نے سکول بنک کیا تو اسکی پٹائی ہو گی۔۔۔۔ٹھیک ہے؟"

      عرشمان نے عالیشان کو گھورتے ہوئے کہا جس نے ہاں میں سر ہلایا۔عرشمان نے رضیہ کو گود سے اتارا تو وہ عالیشان کے ساتھ کھیلنے لگی۔عرشمان کو مسکراتا دیکھ آن اسکے پاس آئی۔

      "بچے کو زرا زیادہ ڈانٹنا تھا ناں مان ورنہ وہ بگڑ جائے گا۔"

      آن کی بات پر عرشمان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

      "اگلی بار زیادہ ڈانٹ لوں گا یہ اسکی پہلی غلطی تھی۔"

      آن نے کچھ کہنا چاہا لیکن عرشمان نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کروا دیا۔

      "اس وقت تم اپنی پرواہ کرو کیوں کہ بیٹے سے زیادہ تو تم لاپرواہ ہو کتنی دیر ہو گئی میرے قریب آ کر مجھے سکون دیے۔"

      عرشمان کے بے باک سوال پر آن نے گھور کر اسے دیکھا۔

      "بگڑی ہوئی میں نہیں آپ باپ بیٹے ہیں اماں بی سے شکائیت کروں گی آپ کی۔۔۔۔"

      آن نے حویلی کی جانب جاتے ہوئے کہا۔

      "کر لینا پھر رات میں تمہیں شکایت کا نتیجہ بھی بتا دوں گا۔"

      عرشمان نے اسے کہا لیکن آن اسے نظر انداز کرتی اماں بی کے پاس چلی گئی۔عرشمان یہ سوچ کر مسکرا دیا کہ ابھی اسکے گال شرم سے دہک رہے ہوں گے۔اس نے مسکراتے ہوئے رضیہ اور عالیشان کو دیکھا جو اب کھیل رہے تھے۔زندگی کی سیاہی چھٹ گئی تھی اب بس خوشیاں ان کی منتظر تھیں۔
      ????
      "آپ ان سے مل سکتے ہیں مسٹر ملک۔"

      ڈاکٹر کی بات پر سلطان کا دل بہت زور سے دھڑکا۔وہ ہاں میں سر ہلا کر اٹھا اور ڈاکٹر کی پیچھے پیچھے چل دیا۔ڈاکٹر نے اسے ایک کمرے کی جانب اشارہ کیا اور خود وہاں سے چلا گیا۔

      سلطان کتنی دیر اس کمرے کے باہر کھڑا رہا تھا پھر اس نے ہمت کرتے ہوئے وہ دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہوگیا۔اس کمرے میں بس ایک بیڈ کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن جس میں سلطان کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی وہ بیڈ پر بیٹھا کمزور سا وجود تھا جس کے ہاتھوں کو باندھا گیا تھا ورنہ وہ خود ہی اپنا چہرہ اور جسم نوچنے لگ جاتی۔

      سلطان مردہ قدموں سے چلتا ان کے پاس آیا اور ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

      "امی۔۔۔۔"

      سلطان کے نم آواز میں پکارنے پر فرحین بیگم نے مردہ آنکھوں سے اسے دیکھا۔آج سلطان پہلی مرتبہ ان سے ملنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ کبھی کبھار سب سے چھپ چھپا کر ان سے ملنے آتا رہتا تھا۔

      "آپ کیسی ہیں۔۔۔؟"

      سلطان جانتا تھا کہ اسے کوئی جواب نہیں ملے گا اتنے سالوں سے اسے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔

      "مم۔۔۔۔میں یہ آپ کے لیے لایا تھا آپ کو پسند ہے ناں۔۔۔"

      سلطان نے ہاتھ میں پکڑا ڈبہ انکے سامنے کیا جس میں سموسے تھے جو فرحین بیگم کے پسندیدہ تھے مگر فرحین بیگم نے انہیں پکڑا تک نہیں تھا وہ بس مردہ آنکھوں سے سلطان کو دیکھتی جا رہیں تھیں۔

      ان کا حال دیکھ کر سلطان ہمیشہ کی طرح سسک سسک کر رونے لگا اور اس نے ہمیشہ والی بات دہرائی۔

      "کاش آپ وہ سب نہ کرتیں امی کاش تو میں دنیا سے آپ کے لیے لڑ جاتا۔۔۔۔"

      سلطان نے روتے ہوئے کہا اور اپنا سر فرحین بیگم کی گود میں رکھ دیا۔

      "اپنے بیٹے کو معاف کر دینا امی معاف کر دینا ۔۔۔۔"

      سلطان نے بہتی آنکھوں سے کہا اور کتنی ہی دیر انکی گود میں سر رکھ کر وہاں بیٹھا ماں کی آغوش میں اپنا سکون تلاش کرتا رہا۔پھر اس نے اپنے آنسو پونچھ کر سر اٹھا کر فرحین بیگم دیکھا اور اپنا موبائل نکال کر مسکرا دیا۔

      "یہ دیکھیں امی میری بیٹیاں۔۔۔۔"

      سلطان نے ارفع اور رضیہ کی تصویر فرحین بیگم کو دیکھاتے ہوئے کہا۔ارفع جہاں مکمل طور پر کنیز کی کاپی لگتی تھی رضیہ نے نین نقش تو اپنی ماں کے لیے تھے لیکن گندمی رنگت اپنے باپ سے وراثت میں کی تھی۔

      "ماشاءاللہ ارفع نو سال کی ہو گئی ہے امی اور پتہ ہے اتنی ہوشیار ہے ہر کلاس میں فسٹ آتی ہے اور یہ میری چھوٹی سی جان رضیہ۔۔۔۔یہ تو میرے جگر کا ٹوٹا ہے۔۔۔۔"

      سلطان نے محبت سے اس تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا پھر اس نے ایک اور تصویر نکال کر فرحین بیگم کے سامنے کی۔

      "اور یہ عالیشان ہے امی عرشمان بھائی کا بیٹا۔۔۔۔دیکھیں کتنا بڑا ہو گیا ہے یہ بھی۔۔۔۔"

      سلطان نے ہلکا سا ہنستے ہوئے کہا لیکن فرحین بیگم کی آنکھوں میں ہمیشہ والی تارکین دیکھ کر پھر سے رو دیا۔

      "عرشمان بھائی بھی آپ کو بہت یاد کرتے ہیں بس ہم سے اپنا غم چھپا جاتے ہیں لیکن وہ غم ان کے دل میں ہے۔"

      سلطان نے بے بسی سے کہا اور اپنے آنسو پونچھنے لگا۔

      "ہمارے گھر میں سب ہے امی،رونق،خوشیاں،محبت بس میری ماں نہیں ہے۔۔۔۔"

      سلطان نے بہتی آنکھوں سے کہا اور سموسے کا ڈبہ فرحین بیگم کے پاس رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

      "اور میری ماں کے بغیر ہر خوشی ادھوری ہے۔۔۔۔"

      اتنا کہہ کر سلطان اپنے آنسو پونچھتا کمرے سے باہر نکل گیا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ سب سے چھپ چھپا کر یہاں فرحین بیگم سے ملنے کیوں آتا تھا شائید اس لیے کہ ماں کا رشتہ ایسا ہوتا ہے جو کچھ بھی ہو جائے لیکن ماند نہیں پڑھ سکتا۔

      سلطان خود پر قابو پاتا مینٹل ہاسپٹل سے باہر نکل کر گاڑی میں آ کر بیٹھا تو اسکا موبائل بجنے لگا۔کنیز کی کال آتی دیکھ سلطان کے ہونٹ مسکرا دیے۔

      "ہیلو جانِ سلطان۔۔۔"

      سلطان کی بات پر ارفع کی ہنسی اسے سنائی دی تو سلطان کو احساس ہوا کہ فون اسکی بیٹی نے کیا تھا۔

      "اسی یہ تو بابا کی جان ہے۔۔۔ "

      سلطان نے شرارت سے کہا تو ارفع مزید ہنس دی۔

      "بابا گھر کب آئیں گے؟"

      ارفع نے محنت سے پوچھا۔

      "بس آنے لگا ہوں کچھ چاہیے بابا کی جان کو؟"

      سلطان نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا۔

      "جی مجھے چاکلیٹ اور رِضو کو بھی چاکلیٹ۔۔۔ "

      ارفع نے اپنے اور رضیہ کے بارے میں کہا۔وہ سب پیار سے رضیہ کو رضو ہی بلاتے تھے۔

      "اور کچھ؟"

      "اور ماما کہہ رہی ہیں جلدی آ جانا ورنہ ناراض ہو جائیں گی وہ آپ سے۔۔۔۔"

      ارفع نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا تو سلطان قہقہ لگا کر ہنس دیا کیونکہ وہ جانتا تھا فون ارفع نے نہیں اسکی نوری نے بند کیا تھا۔

      "اسکی ناراضگی تو گھر جا کر دور کروں گا۔۔۔"

      سلطان نے خود کلامی کی اور گاڑی ڈرائیو کرتا اپنے گھر کی جانب چل دیا جہاں اسکی خوشیاں اسکے انتظار میں تھیں۔




    Comment


    • #72
      Nice afsana. Zabardast

      Comment


      • #73
        بہترین اسٹوری جو اپنے اختتام کو پہنچی شکریہ

        Comment


        • #74
          بہت خوبصورت تحریر ہے

          Comment


          • #75
            Bht hi umda there Hy

            Comment


            • #76
              Bubat hi umda janab.. zabardast

              Comment


              • #77
                بہت خوبصورت تحریر ہے

                Comment


                • #78
                  Shandar story

                  Comment

                  Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                  Working...
                  X