Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Bosses
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

    Comment


    • #32
      Achi update he

      Comment


      • #33
        #زندگی_اے_تیرے_نال
        #قسط_نمبر_15
        Azam Liza special.?
        لیزا کمرے میں واپس آ کر بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ابھی کسی بھی وقت نرس اسکے پاس آ کر اسے بتانے والی تھی کہ وہ آن کو ذہر دے چکی تھی اور لیزا کو اس خبر کا بے چینی سے انتظار تھا۔اچانک ہی دروازہ کھلا اور وہ نرس پریشانی سے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔
        "کام ہو گیا؟"
        لیزا کے پوچھنے پر نرس اضطراب سے اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔
        "جواب دو۔۔۔۔"
        نرس کی خاموشی دیکھ کر لیزا نے غصے سے کہا۔
        "میم وہ۔۔۔۔وہ میں تو دودھ انکے پاس لے کر جا رہی تھی لیکن نا جانے کہاں سے ایک جاہل ملازمہ آ کر مجھ سے ٹکرا گئی اور سارا دودھ گر گیا۔۔۔۔"
        نرس نے سہمے سے انداز میں لیزا کو بتایا جبکہ اپنا پلین فیل ہونے پر لیزا غصے سے پاگل ہو چکی تھی۔اسی لیے بغیر سوچے سمجھے اس نے ایک تھپڑ نرس کے منہ پر مار دیا۔
        "دفع ہو جاؤ یہاں سے جاہل عورت مجھے نظر بھی مت آنا ورنہ منہ توڑ دوں گی تمہارا۔۔۔۔"
        لیزا غصے سے چلائی اور پاس پڑی کرسی کو زمین پر پٹخ کر اس کمرے سے باہر نکل گئی۔اس وقت غصے اور جنون میں اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔
        صبح شاہد اسے کینیڈا واپس لے جانے والے تھے اور وہ اپنا یہ آخری موقع بھی کھو چکی تھی۔لیزا بغیر کچھ سوچے سمجھے گاڑیوں کے پاس آئی اور ایک کار پکڑ کر حویلی سے باہر نکل گئی۔وہ اس وقت بس اکیلے رہنا چاہتی تھی۔
        کچھ دیر گاڑی گھمانے کے بعد اس نے ایک سنسان جگہ پر گاڑی روکی اور اضطراب سے اپنے بال نوچتے ہوئے یہاں وہاں ٹہلنے لگی۔
        وہ یہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی کہ کل وہ یہاں سے چلی جائے گی اور اس کی چاہت کسی اور کی ہو جائے گی۔وہ ہر من چاہی چیز کو حاصل کرنے والی لڑکی اس بات کو گوارا نہیں کر پا رہی تھی۔
        نا جانے اس نے اس جگہ پر کتنا وقت گزارا تھا پھر واپس حویلی جانے کا سوچا۔وہ کچھ نہ کچھ کر کے عرشمان کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
        ابھی وہ کچھ ہی دور گئی تھی جب اسے محسوس ہوا کہ ایک گاڑی اسکی گاڑی کا پیچھا کر رہی تھی۔لیزا نے گھبرا کر اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا دی لیکن تبھی ایک گاڑی اسکی گاڑی کے سامنے آ گئی تو لیزا نے فوراً بریک لگا کر گاڑی روک دی اور گھبرا کر پیچھے دیکھا جہاں دوسری گاڑی اسکا پیچھے کا راستہ بھی روک چکی تھی۔
        لیزا اب بری طرح سے سہم چکی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ لوگ کون تھے اور انہوں نے اسکا راستہ کیوں روکا تھا۔تبھی کچھ آدمی گاڑی سے نکلے اور لیزا کے پاس آ کر اسکی گاڑی کا دروازہ کھولا تو ایک چیخ لیزا کے ہونٹوں سے نکلی۔
        "کون ہو تم لوگ؟"
        لیزا چلائی لیکن ایک آدمی نے اسے کھینچ کر گاڑی سے نکالا اور اسے لے جا کر زبردستی اپنی گاڑی میں بیٹھانے لگا۔اسکی جرات پر لیزا چلاتے ہوئے بری طرح سے مزاحمت کرنے لگی لیکن دو اور آدمیوں نے اسے دبوچ کر گاڑی میں ڈالا۔
        پورا راستہ لیزا ان آدمیوں سے لڑتی رہی لیکن خود کو چھڑوانے میں ناکام ثابت ہوئی تھی۔آخر کار گاڑی ایک بڑی سی حویلی کے باہر رکی تو وہ آدمی لیزا کو اپنے ساتھ زبردستی گھسیٹتے ہوئے اس حویلی میں لے گئے اور اسے لے جا کر شان سے صوفے پر بیٹھے ایک آدمی کے قدموں میں پھینکا۔
        لیزا نے فوراً نگاہیں اٹھا کر اس آدمی کو دیکھا تو اسکا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔
        "تم۔۔۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم مجھے کنڈنیپ کروا کر یہاں بلاؤ جاہل آدمی میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔۔"
        لیزا کے چلانے پر عزم نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور پھر صوفے سے اٹھ کر ایک عورت کے پاس گیا۔
        "یہ میری ملازمہ ہے جسے میں نے ملکوں کی حویلی آن کا خیال رکھنے بھیجا تھا۔"
        عزم کے ایسا کہنے پر غلام اسکی ہر بات لیزا کو انگلش میں بتانے لگا۔
        "آج اس نے تمہیں اور ایک لڑکی کو دودھ میں ذہر ڈال کر آن کو دیتے ہوئے دیکھا۔"
        غلام کے یہ بات انگلش میں بتانے پر لیزا کا سارا غصہ ختم ہوا اور اب اپنا پول کھلنے کا ڈر اس پر حاوی ہوا۔
        "تو تم کیا کہو گی اس بارے میں آخر کیوں کرنا چاہا تم نے ایسا۔۔۔۔۔کیوں لینا چاہتی ہو تم آن کی جان۔۔۔۔"
        لیزا عزم کی آواز میں چھپا غصہ محسوس کر کے بری طرح سے سہم گئی تھی لیکن اس نے اپنا یہ خوف چہرے پر ظاہر ہونے نہیں دیا۔
        " تم پولیس والے نہیں ہو جو میں تمہیں کوئی جواب دوں،تم ہوتے کون ہو میرے معاملے میں دخل دینے والے۔۔۔۔"
        اسکی بات پر غلام اپنی مٹھیاں غصے سے بھینچ گیا لیکن پھر بھی اس نے خود پر قابو کرتے ہوئے ساری بات عزم کو بتا دی۔
        "میں اس گاؤں کا سردار ہوں بی بی اور تم تو کیا یہاں پر موجود ہر پرندہ بھی مجھے جواب دے ہے اب جو پوچھا ہے شرافت سے اس کا جواب دو ورنہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔۔۔۔"
        غلام کہ یہ بات انگلش میں دہرانے پر لیزا ہٹ دھرمی سے اپنے ہاتھ سینے پر لپیٹ گئی۔۔
        "جو کرنا ہے کر لو۔۔۔۔"
        لیزا کی ہٹ دھرمی پر سب حیران ہوئے تھے۔پھر عزم نے ایک آدمی کو اشارہ کیا جو شاہد کو وہاں لے کر داخل ہوا اور اپنے باپ کو وہاں دیکھ کر لیزا اب سچ میں ڈر چکی تھی۔
        "تمہاری ہمت کیسے ہوئی چوہدری کہ تم میری بیٹی کو یہاں لا کر اس پر اتنا بڑا الزام لگاؤ ۔۔۔۔"
        عزم کو دیکھتے ہی شاہد غصے سے چلائے لیکن عزم انکے غصے کو نظر انداز کرتا انکے پاس آیا۔
        "تمہاری اس لاڈلی بیٹی نے جسے مارنے کی کوشش کی جانتے ہو وہ کون ہے؟ تمہاری دوسری بیٹی آن ملک۔۔۔۔"
        عزم کا لہجہ جتلانے والا تھا۔
        "تم جھوٹ بول رہے ہو میری لیزا ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔۔"
        شاہد نے پورے اعتماد سے کہا جبکہ اس کے اس اعتماد کو عزم نے چبھتی نگاہوں سے دیکھا۔
        "اچھا تمہارے اس اعتماد کو ابھی خاک میں ملاتا ہوں میں۔۔۔۔"
        اتنا کہہ کر عزم اس ملازمہ کے پاس آیا جسے اس نے آن کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا اور اسی نے اسے لیزا کے بارے میں بتایا تھا۔
        "بتاؤ انہیں جو مجھے بتایا تھا۔"
        عزم کے حکم پر ملازمہ نے شاہد کی جانب دیکھا۔
        "میں انکی انگریزی میں کی باتیں تو نہیں سمجھی تھی صاحب جی لیکن انہوں نے دودھ میں کچھ ملایا تھا اور پھر میں نے انہیں آن بی بی کا نام لیتے ہوئے سنا۔"
        اس ملازمہ کی بات پر شاہد نے اپنی آنکھیں سکیڑ کر عزم کی جانب دیکھا۔
        "اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا چوہدری۔۔۔"
        شاہد کے چیلنج پر عزم مسکرایا۔
        "زرا صبر کرو ملک صاحب ابھی پکچر باقی ہے۔۔۔۔"
        اتنا کہہ کر عزم نے اپنے ایک ملازم کو اشارہ کیا جو کچھ دیر کے بعد ہی اس نرس کو لے کر کمرے میں داخل ہوا تھا۔نرس کو وہاں دیکھ کر لیزا بری طرح سے گڑبڑا گئی تھی۔
        "یہاں آؤ لڑکی۔۔۔۔"
        عزم کے پکارنے پر وہ نرس خوف سے تھر تھر کانپنے لگی اور گھبراتے ہوئے عزم کے قریب آئی۔
        "سب کچھ سچ سچ بتا دو اس شخص کو۔۔۔۔"
        عزم کے حکم پر نرس نے ایک پر خوف نگاہ لیزا پر ڈالنے کے بعد شاہد کو دیکھا۔
        "انہوں نے مم۔۔۔۔مجھے ہیرے کا ہار دے کر سب سے خخخ۔۔۔۔خطرناک ذہر لانے کا کہا۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ وہ یہ ذہر اپنے لیے منگوا رہی ہیں لیکن کل رات انہوں نے وہ ذہر۔۔۔۔ددد۔۔۔۔دودھ میں ڈال کر ڈاکٹر آن کو دینے کا کہا۔۔۔۔بدلے میں انہوں نے مجھے بب۔۔۔۔۔بہت سے ڈالرز دیے تھے۔۔۔۔لیکن یہ ملازمہ مجھ سے ٹکرا گئی اور وہ سارا دودھ ضائع ہو گیا۔۔۔۔"
        نرس اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اسکی باتوں کو نہ سمجھنے کے بوجود لیزا اتنا سمجھ چکی تھی کہ وہ اسکا ہر پول کھول چکی ہے۔
        "ڈیڈ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوا میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔۔۔"
        لیزا اپنے آپ کو چھڑوا کر شاہد کے پاس آئی لیکن انکی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی۔
        "آپکو مجھ پر یقین نہیں؟ڈیڈ یہ لوگ مجھے پھنسا رہے ہیں۔۔۔"
        لیزا چلائی جبکہ شاہد خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے۔تبھی عزم اسکے پاس آیا اور لیزا کو بازو سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
        "یعنی تمہیں عرشمان اور آن کی شادی سے کوئی اعتراض نہیں تو کیوں ناں انکی شادی دیکھ کر ہی جاؤ تم کہ کیسے ایک دوسرے کے ہو کر انہیں خوشی ملتی ہے۔۔۔۔؟"
        عزم کی بات غلام نے انگلش میں دہرائی تو لیزا نے غصے سے عزم کو دیکھا اور اسکا گریبان ہاتھ میں جکڑ لیا۔
        "عرشمان صرف میرا ہے جاہل آدمی میں اسے کسی کا نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔"
        لیزا غصے سے چلائی اور غلام کے یہ بات بتائے بغیر ہی عزم ہلکا سا مسکرا دیا۔
        "وہ آن کا ہو چکا ہے اور تم کچھ بھی کر لو اسے حاصل نہیں کر سکو گی۔۔۔۔"
        غلام نے پھر سے عزم کی بات دہرائی تو لیزا کے ہونٹوں سے ایک چیخ نکلی۔
        "ایسا کبھی نہیں ہو گا مار دوں گی اسے میں سنا تم نے شادی کے بعد بھی اسے مار دوں گی اور پھر عرشمان میرا ہو گا صرف میرا۔۔۔۔"
        لیزا سوچے سمجھے بغیر چلائی اور عزم کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکھتے ہوئے اس نے گھبرا کر شاہد کی جانب دیکھا۔
        "ڈیڈ۔۔۔۔"
        "شٹ اپ لیزا جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔"
        شاہد اتنا غصے سے چلائے کہ لیزا کانپ کر رہ گئی۔شاہد اسکے پاس آئے اور انتہائی غصے سے اسے دیکھنے لگے۔
        "میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اپنی ضد میں تم اس حد تک گر جاؤ گی۔۔۔۔تم نے یہ تک نہیں سوچا کہ وہ تمہاری بہن ہے جو تمہاری خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو گئی اور تم۔۔۔۔۔تم اپنی ضد میں اسکی جان لینے کے لیے تیار ہو گئی۔۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری بیٹی اس قدر گھٹیا ہو سکتی ہے۔۔۔۔"
        دغا اور غصے کی شدت سے شاہد کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں اور لیزا اپنی نظریں پھیر رہی تھی۔
        "اب میں اسکے ساتھ مزید زیادتی نہیں کروں گا میں کل ہی اسکا نکاح عرشمان سے کر دوں گا میں اب اسکا باپ ہونے کا فرض پورا کروں گا۔۔۔۔"
        عرشمان کی بات پر لیزا نے اپنی غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔
        "اس سے پہلے میں اسکی جان لے لوں گی عرشمان وہ واحد مرد ہے جو مجھے پسند آیا اس پر میرا حق ہے سنا آپ نے۔۔۔آج تک لیزا نے جو چاہا حاصل کیا وہ اپنی سب سے بڑی چاہت قربان نہیں کرے گی۔۔۔۔اگر آن نے اسکا ہونا چاہا تو مار دوں گی اسے اور آپ کچھ نہیں کر سکو گے۔۔۔۔"
        لیزا کے چلانے پر شاہد نے حیرت سے اسے دیکھا۔اسکی اس ہٹ دھرمی سے اب شاہد کو اندازہ ہوا تھا کہ وہ اسکی ہر جائر اور ناجائز خواہش پوری کر کے اسے کس حد تک خود غرض کر چکے تھے کہ اپنے آگے اسے کچھ دیکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔
        "شٹ اپ لیزا تم ابھی اسی وقت واپس چلو گی میرے ساتھ میں تمہیں اپنی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گا۔۔۔۔"
        شاہد نے اسکا ہاتھ پکڑا لیکن لیزا نے انکا ہاتھ بری طرح سے جھٹک دیا۔
        "میں کہیں نہیں جا رہی مسٹر شاہد ملک اپنی خواہش کو ادھورا چھوڑنا لیزا نے نہیں سیکھا۔۔۔آپ کو جہاں جانا ہے۔۔۔"
        ابھی الفاظ لیزا کے منہ میں ہی تھے جب اچانک عزم اسکے پاس آیا اور اسکا بازو پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کرتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ اسکے گال پر مارا جسکی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لیزا جا کر زمین پر گری اور اپنے گال پر ہاتھ رکھے حیرت سے عزم کو دیکھنے لگی۔
        وہ آج تک جسے اسکے ماں باپ نے پھولوں کی چھڑی سے بھی نہیں چھوا تھا آج یہ انجان شخص اسکے منہ پر تھپڑ مار چکا تھا۔لیزا اپنے چہرے پر ہونے والی تکلیف کو نظر انداز کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اور عزم کو لال انگارہ آنکھوں سے گھورنے لگی۔
        "یو ۔۔۔۔۔۔جاہل انسان۔۔۔تمہاری اتنی جرات کہ تم مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ میں تمہیں۔۔۔۔"
        چٹاخ۔۔۔۔ایک بار پھر سے عزم کا بھاری بھرکم ہاتھ اسکے نازک چہرے پر پڑ کر اسکی بولتی بند کر چکا تھا۔لیزا اب سہم کر عزم کو دیکھ رہی تھی۔عزم نے اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑا اور بری طرح سے اسے گھورنے لگا۔
        "زبان کو لگام دو لڑکی تم میری پھپھو کی بیٹی کے بارے میں بات کر رہی ہو اگر اب تم نے کچھ بکواس کی ناں تو تمہاری زبان گدی سے نکال دوں گا۔۔۔۔"
        لیزا عزم کی بات سمجھ تو نہیں پائی تھی لیکن اسکی آنکھوں سے نکلنے والے شراروں سے کافی خوفزدہ ہوئی تھی۔
        "تمہارے باپ نے تمہیں کچھ زیادہ ہی سر چڑھا رکھا ہے جو اتنی سی عمر میں اس قدر منمانی پر اتری ہو ایک موقع ملنے پر تمہیں تیر کی طرح سیدھا نہ کر دیا ناں تو میرا نام بھی عزم چوہدری نہیں۔۔۔۔"
        اتنا کہہ کر عزم نے اسے شاہد کی جانب دھکیل دیا اور لیزا اپنا توازن برقرار نہ رکھتی ہوئی شاہد سے ٹکرائی اور نم پلکیں اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی۔
        "ڈیڈ۔۔۔۔"
        شاہد نے مردہ آنکھوں سے اسکی آنکھوں میں موجود آنسو اور چہرے پر موجود لال نشان کو دیکھا۔
        "آج تم نے میرا غرور توڑ دیا لیزا یہ سمجھو کہ اپنے ڈیڈ کو تم نے ختم کر دیا۔۔۔۔"
        لیزا نے حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا جو کسی کو اسکی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا آج کیسے کسی کو اس پر ہاتھ اٹھاتے دیکھ خاموش رہا تھا۔
        "تم مجھے جان سے زیادہ عزیز تھی کیونکہ تم میری اور مارتھا کی محبت کی نشانی تھی لیکن اب مجھے لگتا ہے میں غلط تھا۔۔۔۔"
        شاہد نے ایک پل کو اپنی آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔
        "میں تمہیں اپنی آن کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گا،اسکی خوشیاں چھیننے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔"
        لیزا حیرت سے شاہد کو دیکھ رہی تھی جو دنیا اسکے قدموں میں ڈالنے کے لیے تیار رہتے تھے آج آن کے حقوق کی بات کر رہے تھے۔
        "ساری زندگی بس تمہارا باپ بن کر رہا ہوں اپنی ساری محبت تم پر نچھاور کرتا رہا۔۔۔۔اب میں اسکا باپ ہونے کا فرض ادا کروں گا۔۔۔۔مجھے معاف کر دینا لیکن میں تمہارا یہ گناہ معاف نہیں کر سکتا۔۔۔۔"
        اتنا کہہ کر شاہد نے عزم کی جانب دیکھا جو گہری نگاہوں سے اس باپ بیٹی کو دیکھ رہا تھا۔
        "اسکا گناہ سچ ثابت ہونے کی صورت میں جو سزا تم نے مجھے تجویز کی تھی وہ مجھے منظور ہے۔۔۔۔"
        شاہد کی بات پر پہلے تو عزم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں پھر اسکے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ آئی۔اس نے مڑ کر غلام کی جانب دیکھا۔
        "نکاح خواں کا انتظار کرو غلام اس ولایتی چوزی کو عمر قید کی سزا ہو گئی ہے۔۔۔۔"
        عزم نے اپنی مونچھ کر تاؤ دیتے ہوئے کہا لیکن اسکی بات غلام کو کچھ خاص پسند نہیں آئی۔
        "یہ لڑکی تمہارے قابل نہیں عزم پلیز غصے میں اپنی زندگی تباہ مت کرو۔۔۔۔"
        عزم نے سختی سے غلام کو گھورا۔
        "آن کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کروں گا غلام مجھے روز قیامت اپنے ماں اور بابا کو منہ دیکھانا ہے۔۔۔۔"
        عزم نے گہری سوچ کے عالم میں کہا لیکن غلام کو اپنی جگہ پر جما دیکھ کر عزم کے ماتھے پر بل آ چکے تھے۔
        "جیسا کہا ہے کرو یہ میرا حکم ہے۔۔۔۔"
        عزم کی سختی پر نہ چاہتے ہوئے بھی غلام کو وہاں سے جانا پڑا۔عزم کے ایک اشارے پر ایک ملازمہ وہاں آئی اور لیزا کو بازو سے پکڑ لیا۔
        "کیا کر رہی ہو چھوڑو مجھے۔۔۔۔یہ کیا ہو رہا ہے ڈیڈ؟"
        لیزا نے سختی سے اپنی کونی چھڑوانی چاہی لیکن اس ملازمہ کی پکڑ بہت مظبوط تھی۔جبکہ اسکے سوال پر شاہد گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
        "میں تمہاری شادی عزم چوہدری سے کر رہا ہوں لیزا۔۔۔۔"
        لیزا کو لگا کہ کسی نے اس پر ایک بم پھوڑ دیا ہو۔وہ حیرت سے آنکھیں کھولے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔
        "آپ ایسا نہیں کر سکتے مجھے یہ شادی منظور نہیں۔۔۔۔۔"
        لیزا پھر سے غصے سے چلائی تھی اور اسے دیکھ کر عزم پھر سے اپنی آنکھیں سکیڑ چکا تھا۔
        "میں تمہارا باپ ہوں لیزا جو چاہے کر سکتا ہوں اس لیے بہتر یہی ہے کہ میری بات مان لو کیونکہ تم چاہو یا نہ چاہو اب تمہیں یہ شادی کرنی ہی ہو گی۔۔۔۔"
        لیزا نے فوراً اپنا آپ نوکرانی کی گرفت سے چھڑوایا اور روتے ہوئے شاہد کے پاس آ گئی۔
        "پلیز ایسا مت کریں۔۔۔۔مجھے اس جاہل گوار سے شادی نہیں کرنی پلیز ڈیڈ آئی لائک عرشمان میں اس سے شادی۔۔۔۔"
        "بس لیزا عرشمان کا نام بھی نہ آئے تمہاری زبان پر وہ بس آن کی ملکیت ہے۔۔۔۔"
        لیزا حیرت سے آنکھیں کھولے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔
        "تو ٹھیک ہے جو ہوتا ہے کر لیں میں یہ شادی نہیں کروں گی۔۔۔۔۔"
        شاہد نے اسکی ہٹ دھرمی پر گہرا سانس لے کر عزم کی جانب دیکھا۔
        "وہ تم سے شادی کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔۔۔۔۔"
        عزم شاہد کی بات کا جواب دینے کی بجائے لیزا کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگا۔لیزا مسلسل چلاتے ہوئے مزاحمت کر رہی تھی لیکن وہ نہیں رکا۔اس نے لیزا کو لا کر ایک کمرے کے بیڈ پر پھینکا اور خود الماری کے پاس چلا گیا اور ڈھونڈنے کے بعد ہینگر میں لٹکا ایک لال رنگ کا شرارہ کرتی،جو کہ انکے خاندان کی بہو کے لیے خاندانی جوڑا تھا، لا کر لیزا کے پاس پھینکا۔
        "تم جاہل گنوار آدمی ایسا کبھی نہیں ہو گا میں مر جاؤں گی لیکن تم سے شادی نہیں کروں گی سنا تم نے۔۔۔"
        لیزا غصے سے چلائی لیکن عزم پھر سے الماری کے پاس چلا گیا۔لیزا نے وہ جوڑا پکڑ کر فرش پر پھینکا۔
        "بھاڑ میں گئے تم اور تمہارا یہ شادی کا لباس میں تم سے کبھی بھی۔۔۔۔"
        عزم نے اسکے پاس واپس آ کر ہاتھ میں پکڑا ریوالور اسکے ماتھے پر رکھ دیا۔اس ریوالور کو دیکھ کر لیزا کا سانس تک خوف سے حلق میں اٹک چکا تھا۔
        "بہت شوق ہے ناں تمہیں مرنے مارنے کا۔۔۔۔۔آج تمہارا یہ شوق پورا کر ہی دیتا ہوں۔۔۔
        بس ایک گولی اور تم سے سب کی جان چھوٹ جائے گی۔۔۔۔۔۔"
        عزم نے ریوالور کی نلی زرا زور سے اسکے ماتھے سے دبائی تو لیزا اپنی سہمی سی شہد رنگ کی آنکھیں میچ گئی۔
        "آنکھیں کھولو۔۔۔۔"
        عزم کے چلانے پر لیزا خوف سے اچھل پڑی اور فوراً اپنی آنکھیں کھول دیں۔وہ جو دو بار زندگی کی بازی بے خوف ہو کر لگا چکی تھی آج سچ میں موت کو اپنے سامنے دیکھ کر بری طرح سے سہم چکی تھی۔
        "تمہارے پاس اس وقت بس دو ہی راستے ہیں یا تو اپنے باپ کی بات لو یا میں تمہیں تمہاری اس زندگی سے آزاد کر دوں جس سے تم پہلے ہی کافی تنگ ہو۔۔۔۔"
        عزم اب ریوالور کی نلی کو نیچے لاتا ہوا اسکی ٹھوڈی کے نیچے رکھ چکا تھا جسکی وجہ سے لیزا کا حسین چہرہ خود بخود اوپر ہو گیا۔اس وقت عزم اسکے بہت قریب کھڑا تھا اور لیزا کا خوف سے سانس لینا محال تھا۔کیا تھا وہ شخص؟ وہ لیزا جو کسی سے بھی نہیں ڈرتی تھی اس آدمی کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت پر اسکی روح خوف سے کانپ جاتی تھی۔
        "اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تمہیں کیا چاہیے؟یہ۔۔۔۔؟"
        عزم نے ریوالور سے اسکا چہرہ تھوڑا اور اوپر کیا تو شہد رنگ کی آنکھیں پھر سے خوف سے بند ہو گئیں۔ عزم نے دلچسپی سے اسکے کپکپاتے نازک وجود اور معصوم چہرے کو دیکھا اس سے دور ہو کر فرش پر پڑے اس جوڑے کو اٹھا کر اسکے پاس گیا۔
        "یا یہ۔۔۔۔"
        عزم نے وہ جوڑا اسکے سامنے کیا تو لیزا اسکی غصے سے بھری آنکھوں میں وارننگ کو پڑھتی خود بخود وہ جوڑا اپنے ہاتھ میں تھام گئی۔وہ ایک بار پھر سے اسکی بات کو سمجھے بغیر ہی سمجھ چکی تھی۔
        لیزا کے ہاں میں سر ہلاتے ہی گھنی مونچھوں تلے عنابی ہونٹوں پر شاندار مسکراہٹ آئی اور عزم نے واش روم کی جانب اشارہ کیا تو لیزا وہاں چلی گئی۔
        تھوڑی دیر کے انتظار ہے بعد ہی لیزا وہ جوڑا پہن کر واش روم سے باہر آ چکی تھی عزم نے ایک نظر اس لباس کو دیکھا جو اسکے لیے زرا سا چست ثابت ہوا تھا اسی لیے اسکے نسوانی حسن کو مزید دو آتشنہ کر رہا تھا۔
        اس پر کوئی حق نہ ہونے کے باعث عزم نے فوراً اس سے نگاہ ہٹائی اور اسکے قریب آ کر سنہری کام والا وہ لال دوپٹہ اسکے سر پر پھیلا دیا۔
        لیزا ابھی بھی سہمی سی اسکے سامنے کھڑی تھی۔اب وہ پہلے والی شیرنی نہیں تھی ایک سہمی سی چوزی بن چکی تھی۔عزم نے اسکے سر سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اسکی گردن تک لایا اور ہلکے سے اسکی گردن کو ہاتھ میں دبوچ لیا۔
        "باہر کوئی تماشا لگایا ناں تو یقین جانو تمہارے باپ کے سامنے تمہاری جان لے لوں گا اور وہ اف تک نہیں کر پائے گا۔۔۔۔سیدھی رہنا ولایتی چوزی ورنہ میرے ایک جھٹکے کی مار ہے اور تمہاری یہ گردن۔۔۔۔"
        عزم کے زرا سا دباؤ بڑھانے پر لیزا کانپ کر رہ گئی۔عزم نے اسے چھوڑا اور باہر آ کر ملازمہ کو اسکے پاس جانے کا اشارہ کرتے ہوئے خود شاہد کے پاس آیا جو ابھی بھی ہال میں اپنا سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھے تھے۔
        "وہ تیار ہے نکاح کے لیے۔۔۔۔"
        عزم کی بات پر شاہد نے حیرت سے اسے دیکھا۔لیزا کیسے تیار ہو سکتی تھی اس نکاح کے لیے اس نے تو کبھی کسی کی بات ماننا سیکھا ہی کہاں تھا۔اچانک ہی انہیں اپنا فیصلہ ٹھیک لگنے لگا سامنے موجود شخص ہی شائید وہ واحد انسان تھا جو انکی بگڑی بیٹی کو قابو میں کر سکتا تھا۔
        "عزم بیٹا۔۔۔۔۔وہ دل کی بری نہیں ہے بس ہماری ڈھیل نے اسے خود غرض اور مطلب پرست بنا دیا ہے۔۔۔۔میں اسکی زمہ داری تمہیں دیتا ہوں چاہو تو اس سے سختی سے پیش آ جانا لیکن اتنا بھی نہیں۔۔۔۔"
        شاہد نے نم آنکھوں سے عزم کی جانب دیکھا۔
        "عورت مرد کی پسلی سے بنی ہے عزم نرمی سے سیدھا کرنے پر سیدھا ہو جائے گی لیکن سختی سے بہت آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے۔۔۔"
        شاہد خواب کی سی کیفیت میں بولتے چکے گئے۔
        "وہ بس اٹھارہ سال کی ایک ضدی بچی ہے۔۔۔۔۔میں اسے اتنی بڑی سزا نہیں دینا چاہتا تھا لیکن وہ حد پار کرنے پر تلی ہے اور اب میں اپنی دوسری اولاد کے فرائض بھی پورے کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"
        شاہد نے نم آنکھیں اٹھا کر عزم کو دیکھا۔
        "اسے ایک مجرم سے زیادہ ایک نادان بچی سمجھ لینا عزم اس سے اتنی سختی سے پیش مت آنا کہ وہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔۔۔۔"
        شاہد کی آنکھوں میں امید دیکھ کر عزم اس مجبور باپ کو منع نہیں کر سکا۔ورنہ اس کے دل میں آ رہا تھا کہ وہ اس شخص سے پوچھے کہ کیا یہ باتیں اسے تب یاد نہیں تھیں جب وہ اسکی پھپھو سے بے وفائی کرتا رہا تھا اور انکے اپنا حق مانگنے پر انہیں ہی بے دردی سے مارتا رہا تھا۔آج بات جب اپنی بیٹی پر آئی تھی تو وہ باپ کیوں بھول گیا تھا کہ دنیا مقافات عمل ہے جیسا سلوک کسی کی بیٹی سے کرو گے کل کو ویسا سلوک تمہاری بیٹی کے ساتھ بھی ہو گا۔
        "اسکا نام ،انداز،لباس سب انگریزوں جیسا ہے کیا وہ لڑکی مسلمان بھی ہے یا بس ایک نام نہاد مسلمان مرد کا خون ہے؟"
        عزم کے سوال پر شاہد کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔
        "اا۔۔۔اسکا اصلی نام لیزا نہیں غزل ہے،غزل شاہد ملک۔۔۔۔بچپن میں میں نے اسے اپنے مطابق ڈھالنا چاہا تھا اسے کلمے سیکھائے،نماز سیکھائی لیکن اسکے تھوڑا بڑے ہوتے ہی اسکی ماں نے سب اسکے ذہن سے نکال دیا۔وہ اپنی بیٹی کو مشرقی عورتوں کی طرح پستے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس لیے اس نے اسے محبت کرنے والی غزل سے خود غرض سی لیزا بنا دیا۔"
        شاہد اپنی آنکھیں کرب سے موند گئے۔اپنی جوانی میں کیں غلطیاں آج انہیں بھگتنی پڑھ رہی تھیں۔
        "مجھے امید ہے کہ تم اسے پھر سے غزل بنا دو گے عزم۔۔۔۔"
        کچھ سوچ کر عزم نے اثبات میں سر ہلایا۔تھوڑی دیر کے بعد ہی نکاح خواں وہاں آ چکے تھے۔عزم نے ملازمہ کو لیزا کو ہاں لانے کا کہا تو وہ لیزا کو لے کر وہاں آئیں۔اسکا دوپٹہ اب ڈھلک کر ایک کندھے پر آ چکا تھا یہ دیکھ کر عزم اسکے پاس گیا اور اسکا دوپٹہ پکڑ کر اسکے سر پر ایسے دیا کہ اسکا چہرہ ہلکے سے گھونگھٹ میں چھپ گیا۔لیزا نے فوراً دوپٹہ نوچ کر اتارنا چاہا لیکن عزم نے اسکا ہاتھ تھام لیا اور اسکے کان کے قریب جھکا۔
        "عزم چوہدری کی ہونے والی بیوی پر کوئی نگاہ بھی ڈالے یہ اسے گورا نہیں۔۔۔اس لیے یہ تمہارے سر سے ہلنا بھی نہیں چاہیے۔۔۔۔۔"
        عزم کی آواز میں موجود وحشت پر لیزا پھر سے سہم گئی تھی۔
        "اور وہاں کوئی واویلا مت کرنا ورنہ۔۔۔۔"
        اپنی بات ادھوری چھوڑ کر عزم وہاں سے چلے گیا اور لیزا ملازمہ کی ہمراہی میں شاہد کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
        "آئی ہیٹ یو ڈیڈ اینڈ آئی ول نیور فارگیو یو فار دس نیور۔۔۔۔"
        لیزا کی آواز میں موجود نفرت پر شاہد کا دل کٹ کے رہ گیا۔لیکن وہ بھی کیا کر سکتے تھے اپنے آپ کو یہاں تک پہنچانے والی وہ خود تھی۔
        اس طرح کچھ ہی دیر میں شاہد اسے اسکے گناہ کی سب سے بڑی سزا دے چکے تھے۔اسکا نکاح اس سے چودہ سال بڑے شخص سے کروا چکے تھے وہ بھی وہ شخص جو انکا خاندانی دشمن تھا لیکن اس دنیا میں شائید وہی ایک واحد شخص تھا جو آج تک لیزا کو غصے میں قابو کر کے اس سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوا تھا۔
        ????
        نکاح کے بعد عزم لیزا کو ملازمہ کے ساتھ اپنے کمرے میں بھیج چکا تھا اور شاہد بھی اپنی بیٹی کو آخری بار نم آنکھوں سے دیکھ کر وہاں سے جا چکے تھے۔
        "یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا عزم وہ لڑکی انتہائی زیادہ بدتمیز ہے اور تم نے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔۔۔۔وہ تمہارے قابل نہیں۔۔۔۔"
        عزم غلام کی آواز میں اپنے لیے پریشانی محسوس کر کے مسکراتے ہوئے اسکے پاس آیا۔
        "فکر مت کرو دوست جو کیا ہے سوچ سمجھ کر کیا ہے۔میں سب سنبھال لوں گا۔۔۔۔"
        اتنا کہہ کر عزم اپنے کمرے کی جانب چلا گیا جہاں اسکی نئی نویلی دلہن اسکا انتظار کر رہی تھی مگر اسکی یہ خوش فہمی جلد ہی ختم ہو گئی۔
        دروازہ کھولتے ہی ایک گلدان اڑ کر اسکی جانب آیا تو وہ فوراً اپنا سر ایک جانب کر کے اس گلدان سے بچ گیا۔
        "واہ کیا ہی استقبال کیا جا رہا ہے شوہر کا۔۔۔"
        عزم نے شرارت سے لیزا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جو چوہدریوں کا خاندانی لال شرارہ اور کرتی پہنے دوپٹے سے بے نیاز بپھری شیرنی بنی اسے گھور رہی تھی۔پھر اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ایک چاقو پکڑا اور عزم کے قریب آ کر اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن عزم نے اسکا ہاتھ اپنی مظبوط گرفت میں پکڑ کر اتنی بڑی طرح سے مروڑا کہ اسکی چیخ نکل گئی اور چاقو اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔
        "آرام سے بیگم صاحبہ اس دیسی مرد سے مقابلے کے لیے بہت کمزور ہے تمہارا یہ ولایتی جسم ایک جھٹکے میں توڑ مروڑ کر رکھ دوں گا اور تم کچھ نہیں کر پاؤ گی۔
        عزم اسکا ہاتھ اسکی کمر کے پیچھے لے گیا جسکی وجہ سے لیزا اسکے سینے سے ٹکرا گئی مگر پھر بھی اسکی آنکھوں کی آگ کم نہیں ہوئی تھی۔
        "مجھے تمہارا کہا ایک لفظ سمجھ نہیں آ رہا جاہل آدمی چھوڑو مجھے ورنہ جان لے لوں گی تمہاری۔۔۔۔۔"
        لیزا جھپٹتے ہوئے چلائی لیکن خود کو چھڑوانا تو دور عزم کی طاقت ور گرفت میں وہ خود کو ہلا بھی نہیں پائی تھی۔
        "نہ میری ولایتی چوزی آج تمہاری انگریزی نہیں چلے گی آج تم نہ صرف میری بات سنو گی بلکہ اسے سمجھے بغیر ہی سمجھ بھی لو گی۔۔۔۔"
        عزم اتنا کہتے ہوئے لیزا کے اتنا قریب ہوا کہ لیزا سانس تک لینا بھول گئی اور حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔
        "تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں میرے پاس عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے اب چاہو یا نہ چاہو تمہیں میرے پاس ہی رہنا ہے۔۔۔۔"
        عزم نے اپنے ہونٹ لیزا کی ناک پر رکھے تو لیزا پھر سے جھٹپٹانا شروع ہو گئی مگر اسکی یہ کوشش بالکل بے کار تھی۔
        "اب تم اپنے سر کے بال سے لے کر پاؤں کے ناخن تک میری ملکیت ہو میری امانت میں خیانت کا سوچنا بھی مت ورنہ تمہاری جان لینے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گا۔۔۔۔"
        عزم اسے دھمکا رہا تھا لیکن اسکے ہونٹ لیزا کے چہرے پر گستاخیاں کر کے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی کانپنے پر مجبور کر رہے تھے۔
        "تم مجھے کبھی بھی قید نہیں کر پاؤ گے سنا تم نے ایک بار یہاں سے چھوٹ گئی تو حراساں کرنے کا ایسا کیس ڈالوں گی ناں تم پر کہ یاد رکھو گے۔۔۔۔"
        عزم کو اسکی بات سمجھ تو نہیں آئی تھی لیکن کیس لفظ کو سمجھ کر وہ قہقہ لگا کر ہنسا تھا۔
        "چلو ولایتی چوزی تمہیں کیس کرنے کی ٹھوس وجہ دوں۔۔۔۔"
        اتنا کہہ کر عزم نے انتہائی شدت سے اسکے گلابی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا کہ لیزا کو لگا اسکا دل اچھل کر حلق سے باہر آ جائے گا۔پہلی بار کسی مرد کو اپنے اتنا قریب محسوس کر وہ کانپ کر رہ گئی تھی لیکن وہ آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی اس لیے جب وہ خود کو نہ چھڑوا پائی تو اس نے اپنے دانت عزم کے ہونٹوں پر گاڑ دیے۔
        عزم نے اسکے ہونٹوں سے دور ہو کر انگوٹھے سے اپنے ہونٹ کو چھوا اور انگوٹھے پر خون دیکھ کر مسکرا دیا۔
        "واہ میری دیسی شیرنی۔۔۔۔"
        عزم نے لیزا کی جانب دیکھا جو اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے آنکھوں سے چلینج کر رہی ہو کہ پھر سے چھو کر بتاؤ مجھے۔
        "چاہے ہمارے رشتے میں ہمیشہ صرف نفرت ہی ہو گی لیکن تمہارے ساتھ یہ زندگی بہت دلچسپی سے گزرنے والی ہے۔۔۔۔"
        عزم نے شان سے مسکراتے ہوئے اس چھوٹی سی حوروں کا حسن رکھنے والی لڑکی کو دیکھا جو اپنی نظروں سے ہی اسے مارنے کا عزم رکھتی تھی۔اگر عزم شیر تھا تو وہ نازک سی لڑکی بھی شیرنی بننے کو تیار تھی۔عزم کی نظر اسکی کلائی پر پڑی جہاں ابھی بھی پٹی بندھی تھی۔
        "ایک دوسرے کا عکس ہیں ہم دونوں بالکل میرے جیسی ہو تم سر پھری سی۔۔۔غزل عزم چوہدری۔۔۔۔"
        "مائے نیم از لیزا ملک۔۔۔۔"
        لیزا نے اپنا ہاتھ کھینچ کر کہا۔وہ جانتی بھی نہیں تھی اپنے اس شیرنی والے روپ میں وہ عزم کی دلچسپی مزید بڑھا رہی تھی۔
        "تم خود کو جو بھی سمجھو میرے لیے تم غزل ہو اور اب میری زبان سے اس نام کو سننے کی عادت ڈال لو جان جہان کیونکہ اب ساری زندگی تمہیں میرے ساتھ ہی تو گزارنی ہے۔۔۔۔"
        عزم نے اسے سر سے لے کر پیر تک ایسے دیکھا کہ لیزا کا روم روم کانپ گیا اور پھر عزم اسے اپنے غصے میں کڑنے کے لیے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔
        ???

        Comment


        • #34
          زبردست جھٹکا لگا لیزا کو عزم کی بیوی بن گئی مگر دل میں عرشمان بسا ہے اگلی قسط کا انتظار ہے شکریہ

          Comment


          • #35
            غزل کے رام ہونے کا تو کوئی چانس نہیں لگتا ۔دیکھتے ہے کہ عزم کیسے اس بیگڑی گھوڑی کو نال ڈالتا ہے

            Comment


            • #36
              Zabardast update.. kaya twist aya hai kahani main

              Aala

              Comment


              • #37
                بوہت عمدہ کہانی ہے ۔۔۔۔۔۔بلکل ناول طرز پر لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔شروعات تو بوہت اچھی لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔٥ اقساط پڑھ لیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اب آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔بوہت دلچسپ کہانی ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

                Comment


                • #38
                  #زندگی_اے_تیرے_نال
                  #قسط_نمبر_16
                  Don't copy paste without my permission.
                  آن اپنے کمرے کے کونے میں سمٹی بیٹھی تھی۔وہ کل سے ایسے ہی اپنے کمرے میں بند تھی عرشمان کی ناراضگی کا خیال اسے سانپ بن کر دس رہا تھا لیکن وہ کیا کرتی اس ناراضگی کی وجہ بھی تو وہی تھی۔
                  عرشمان کی باتیں یاد کر کے آن پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اچانک ہی دروازہ کھلنے کی آواز پر آن نے اپنے آنسو پونچھے لیکن سامنے شاہد کو دیکھ کر وہ غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ چکی تھی۔
                  "کیوں آئیں ہیں اب آپ یہاں جیسا کہا تھا ویسا کر تو دیا میں نے اب جائیں اور اپنی بیٹی کے ساتھ میری بربادی کی خوشیاں منائیں آپ ۔۔۔۔۔"
                  آن شاہد کو دیکھتے ہی اپنا سارا غبار ان پر نکال چکی تھی۔سارا قصور بھی تو انکا تھا۔نہ وہ اسے اپنی ماں کی قسم دے کر مجبور کرتے اور نہ وہ عرشمان کو خود سے اتنا بد گمان کرتی۔
                  شاہد خاموشی سے آن کے پاس آئے اور کچھ شاپنگ بیگز اسکے سامنے رکھے۔
                  "یہ تمہارے لیے لایا ہوں بیٹا۔۔۔۔"
                  شاہد کی بات پر آن نے مردہ آنکھوں سے ان شاپنگ بیگز کو دیکھا۔
                  "مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے۔یاد ہے آپکو اپنے ہر حق اور ہر فرض سے آزاد کر چکی ہوں میں۔۔۔۔"
                  اپنی بیٹی کی یہ بے رخی شاہد ہے دل کو چیر گئی لیکن وہ اسی بے رخی کے قابل تھے۔
                  "اس میں تمہارے نکاح کا جوڑا ہے آن بیٹا آج تمہارا نکاح ہے۔۔۔۔"
                  شاہد کی بات پر آن کے آنسو اسکی آنکھوں میں ہی اٹک گئے اور وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔
                  "میرا نکاح ؟کس سے؟"
                  "عرشمان سے بیٹا اور کس سے ہو سکتا ہے تمہارا نکاح ۔اپنے پیدا ہونے سے پہلے اسکے نام لکھ دی گئی تھی تم۔۔۔۔"
                  اب آن نے آنسو بھلا کر حیرت سے ان شاپنگ بیگز کو دیکھا۔
                  "مم۔۔۔۔مان نے منع نہیں کیا؟"
                  شاہد نے مسکرا کر اسکے اس اضطراب کو دیکھا۔انہیں خود سے نفرت ہو رہی تھی کہ اپنی خود غرضی میں کیسے وہ اس معصوم سے اسکی زندگی چھیننا چاہ رہے تھے۔
                  "وہ کیوں منع کرے گا وہ تو تیار بیٹھا ہے ناکے کے لیے بس تم ہی دیر لگا رہی ہو۔۔۔۔"
                  آن نے حیرت سے شاہد کو دیکھا۔کل تک تو وہ شخص لیزا کے لیے اسکے پیروں میں گر رہا تھا اور اب خود ہی اسکا نکاح عرشمان سے کروانے کے لیے تیار تھا۔
                  "اور لیزا اسکا کیا؟اب اسکی پرواہ نہیں رہی آپ کو؟"
                  لیزا کے ذکر پر شاہد کے چہرے پر غمگین مسکراہٹ آئی تھی۔
                  "تم اسکی پرواہ مت کرو بیٹا اب وہ کبھی تم دونوں کے درمیان نہیں آئے گی۔کوئی بھی تم دونوں کے درمیان نہیں آ سکتا جب خدا نے ہی تم دونوں کی قسمت ملائی ہے تو کوئی کچھ بھی کر لے تم دونوں کو جدا نہیں کر سکتا۔۔۔۔"
                  آن ابھی بھی حیرت سے شاہد کے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہی تھی۔اخر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ یہ شخص ایک پل میں بدل گیا۔
                  "اب یہ سب چھوڑو اور تیار ہو جاؤ پھر اپنا فرض پورا کر کے مجھے کینیڈا واپس جانا ہے۔۔۔۔",
                  شاہد نے آن کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑے کرتے ہوئے کہا لیکن آن نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑوا لیا بے ساختہ شاہد کی آنکھوں میں دو آنسو آ گئے ۔اپنی اس اولاد سے کی گئی ہر زیادتی اور حق تلفی انہیں یاد آنے لگی۔
                  "ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا بیٹا جانتا ہوں جتنی زیادتی میں نے تمہارے ساتھ کی اسکے بعد میں معافی کے قابل تو نہیں لیکن پھر بھی میری یہی التجا ہے۔۔۔۔"
                  اتنا کہہ کر شاہد اپنے آنسو پونچھتے کمرے سے باہر چلے گئے اور آن نے انکی باتوں کو سوچنے کے بعد ان شاپنگ بیگز کو دیکھا۔
                  پہلا شاپنگ بیگ کھولنے پر اسکی نگاہ لال رنگ کے لہنگے پر پڑی تو ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ چھا گئی۔
                  میں آپ کو منا لوں گی مان دیکھیے گا جس روپ میں آپ نے مجھے ہمیشہ سے دیکھا چاہا ہے اس روپ میں دیکھنے کے بعد آپ کبھی بھی مجھ سے ناراض نہیں وہ سکیں گے۔۔۔۔میں آپ کو منا لوں گی۔۔۔
                  آن نے سوچا اور وہ جوڑا پکڑ کر تیار ہونے چلی گئی۔آج وہ اپنی محبت کی ہونے،اسے منانے کے لیے پور پور سجنا چاہتی تھی ۔
                  ????
                  "آج میں بہت سکون میں ہوں ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے دل سے ایک بوجھ اتر گیا ہو۔۔۔۔"
                  کنیز رات کے کھانے کے بعد اماں بی کو دوائی دے رہی تھی جب اماں بی نے اطمینان سے کہا۔
                  "جی باجی اس دن اتنا زیادہ تو رہی تھیں اچھا ہے انکا نکاح ہو گیا اب وہ اپنے سر کے سائیں کو منا لیں گی۔۔۔۔"
                  کنیز کی بات پر اماں بی نے اثبات میں سر ہلایا انہیں بھی یقین تھا کہ آن عرشمان کی ساری ناراضگی دور کر دے گی۔
                  "آپ آرام کر لیں اب کافی تھک گئی ہوں گی ناں ۔۔۔۔۔"
                  کنیز نے اماں بی کو لیٹا کر ان پر چادر ٹھیک سے دیتے ہوئے کہا۔
                  "اللہ تعالیٰ تمہارے نصیب اچھے کرے بیٹا کسی نیک ماں کی بہت صالح اولاد ہو تم۔۔۔۔"
                  اماں بی نے کنیز کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعا دی۔کنیز انکی خدمت ہی اتنی کرتی تھی کہ اماں بی کے دل سے اسکے لیے دعائیں نکلتی تھیں۔
                  اماں بی کے سونے کے بعد کنیز نے پانی کا جگ دیکھا جو بالکل خالی ہو چکا تھا اسی لیے سر پر دوپٹہ لیتے وہ کمرے سے باہر نکلی اور کچن میں پانی لینے کی غرض سے جانے لگی۔
                  لیکن گزرتے ہوئے اچانک اسکی نگاہ سلطان کے کمرے کی طرف پڑی تو اسے ایک جھلک دیکھنے کی چاہ دل میں امڈ آئی۔ویسے بھی اس نے کتنے ہی دنوں سے سلطان کو نہیں دیکھا تھا۔
                  "بس ایک بار انہیں دیکھ کر آ جاؤں گی انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔۔۔"
                  کنیز نے آہستہ سے خود سے کہا اور پھر یہاں وہاں دیکھتے ہوئے سلطان کے کمرے کی جانب چل دی۔دروازہ پہلے سے کھلا ہونے کی وجہ سے اس نے ہلکا سا دروازہ اور کھولا اور کمرے میں جھانکنے لگی مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اسکے ماتھے پر بل آ گئے۔
                  سلطان بیڈ پر لیٹا ہوا تھا لیکن ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں اور اس نے جوتے بھی نہیں اتارے تھے۔شائید تھکاوٹ کے باعث وہ جیسے کمرے میں آیا تھا ویسے ہی لیٹ کر سو گیا تھا۔
                  "ایسے تو سائیں جی تھک جائیں گے۔۔۔۔۔"
                  کنیز نے اپنے ناخن چباتے ہوئے سوچا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
                  "لیکن اگر وہ اٹھ گئے تو غصہ ہوں گے کہ میں انکی اجازت کے بغیر انکے کمرے میں کیوں گئی۔۔۔۔"
                  کنیز بری طرح سے بے چین ہو چکی تھی۔وہ سلطان کو اس حالت میں دیکھ بھی نہیں سکتی تھی۔
                  "میں آہستہ سے ان کے جوتے اتار دوں گی انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔۔"
                  کنیز نے سوچا اور دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گئی۔آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے وہ سلطان کے پاس آئی اور اسکے پیروں میں بیٹھ کر اسکے جوتے اتارنے لگی۔شوز اتارنے کے بعد اس نے اپنا ہاتھ اسکی جراب پر رکھا لیکن اپنی ٹانگوں پر کسی کی انگلیوں کا لمس محسوس کر کے سلطان کی آنکھ کھل گئی اور اس نے حیرت سے کنیز کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسکے پیروں سے جرابیں اتار کر اب اسکا پاؤں اپنے دوپٹے کے کونے سے صاف کر رہی تھی۔
                  "یہ کیا کر رہی ہو تم؟"
                  سلطان کی آواز پر کنیز خوف سے اچھل پڑی اور کھڑے ہو کر بری طرح سے گھبرا کر سلطان کو دیکھنے لگی۔
                  "سس۔۔۔۔۔سائیں وہ۔۔۔۔وہ آپ جوتے پہن کر سو گئے تھے۔۔۔۔۔"
                  کنیز نے فوراً اپنی نظریں جھکا کر کہا اور اسے اپنے سامنے دیکھ کر سلطان کو ایسا لگا کہ اسکا سب سے حسین خواب سچائی کا روپ دھارے اسکے سامنے کھڑا ہو۔اس لیے سلطان نے ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ تھاما اور ہلکے سے جھٹکے سے اسکے نازک وجود کو کھینچ کر خود پر گرا لیا۔اسکی اس حرکت پر کنیز کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔
                  "سسس۔۔۔۔سائیں جی۔۔۔۔"
                  "کیوں آئی تم یہاں منع کیا تھا ناں تمہیں یہاں آنے سے۔۔۔۔"
                  سلطان کی بات پر کنیز نے ایک گھبرائی سی نگاہ اس پر ڈالی اور پھر اپنی نظریں جھکا گئی۔
                  "مممم۔۔۔۔معاف کر دیں سائیں جی غغغ۔۔۔۔غلطی ہو گئی۔۔۔۔"
                  "نہیں کرنا مجھے تمہیں معاف مجھے تمہیں سزا دینی ہے۔۔۔۔"
                  سلطان نے اپنا ہاتھ اسکے سر کے پیچھے رکھا اور اسکے ہونٹ اپنے ہونٹوں کے قریب کر لیے۔کنیز نے سہم کر اپنی آنکھیں بند کر لیں
                  "نہیں سائیں جی۔۔۔۔ممم۔۔۔۔معافی دے دیں پھر ایسا نہیں کروں گی۔۔۔۔۔"
                  سلطان نے پرتپش نگاہوں سے اسکے ہونٹوں اور پلکوں کی تھرتھراہٹ کو دیکھا۔باہوں میں پھولوں جیسا نرم و ملائم حلال وجود اور اوپر سے رات کی تنہائی،یہ سب باتیں سلطان ہو بے خود کر رہی تھیں اسے مجبور کر رہی تھیں کہ خود پر باندھا ہر پہرا توڑ کر اپنی ساری شدتیں اس نازک گڑیا پر نچھاور کر دے۔
                  ایک گہرا سانس لے کر سلطان نے اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپا لیا۔اپنی گردن پر سلطان کی داڑھی اور مونچھوں کی چبھن محسوس کرتی کنیز بے جان ہونے کو تھی۔
                  "سس۔۔۔۔سائیں جی۔۔۔۔"
                  کنیز کی آواز میں ایک التجا تھی جیسے بتانا چاہ رہی ہو کہ اسکا جنون سہنے کے لیے وہ بہت کمزور ہے۔
                  "تھک چکا ہوں میں نوری بہت زیادہ تھک چکا ہوں مجھے ایک پل کا سکون چاہیے۔۔۔"
                  سلطان نے اتنا کہہ کر اپنے ہونٹ کنیز کی گردن پر رکھے تو وہ خود میں ہی سمٹ گئی۔
                  "آآآ۔۔۔۔۔آپ مجھے چھوڑیں مم۔۔۔میں آپ کے پاؤں دبا دیتی ہوں پھر آپ کی تھکن اتر جائے گی۔۔۔۔اور اگر نہ اتری تو میں سرسوں کے تیل کی مالش کر دوں گی۔۔۔۔کچھ بھی کرنا پڑے میں آپ کی تھکن ضرور اتاروں گی۔۔۔۔"
                  کنیز خود نہیں جانتی تھی کہ اپنی معصومیت میں اسے کیا کچھ کہہ چکی تھی۔
                  "ہممم تو ٹھیک ہے اتارو میری تھکن۔۔۔۔۔"
                  سلطان نے اسکی گردن سے ہونٹ ہٹا کر اسکے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لینا چاہا لیکن دروازے پر ہونے والی دستک پر وہ ہوش میں آیا اور جلدی سے کنیز کو اپنے ساتھ کے کر اٹھ کھڑا ہوا۔
                  او شٹ اگر کسی نے اسے یہاں دیکھ لیا تو نہ جانے کیا سوچے گا اس کے بارے میں۔
                  سلطان کو خود سے زیادہ کنیز کی پرواہ تھی۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اسے رات کے اس پہر سلطان کے کمرے میں دیکھ کر اسکی کردار کشی کرے۔اس لیے وہ اسے لے کر ڈریسنگ روم میں گیا اور اسے وہاں کھڑا کر کے دروازہ بند کرنے لگا۔
                  "سنو باہر مت آنا نہ ہی کوئی آواز کرنا جیسے یہاں ہو ہی نہیں۔۔۔۔"
                  سلطان کے سمجھانے پر کنیز نے کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹ کھولے لیکن تب تک سلطان دروازہ بند کر کے وہاں سے چلا گیا اور کمرے کے دروازے کے پاس آ کر دروازہ کھولا۔سامنے ہی مسکراتی ہوئی انابیہ کو دیکھ کر سلطان کے ماتھے پر بل آئے تھے۔
                  "تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔؟"
                  انابیہ اسکے سوال کا جواب دیے بغیر کمرے میں داخل ہوئی اور ہاتھ میں پکڑی ٹرے اسکے سامنے کی۔
                  "وہ آپ اتنے بزی تھے کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا تھا اس لیے آپ کو کھانا دینے آئی تھی۔۔۔۔"
                  سلطان نے گہرا سانس لے کر اسکے ہاتھ میں پکڑی ٹرے کو دیکھا اور پھر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
                  "تھینکس۔۔۔"
                  سلطان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے اٹھا کر اپنے کمرے سے باہر پھینک دے لیکن وہ ایسا کر ہے اپنی ماں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا۔
                  "ارے کوئی بات نہیں یہ سب تو میرا فرض ہے۔۔۔"
                  سلطان کا دل کیا کہ اسے کہے نہیں یہ سب بس اسکی نوری کا فرض ہے۔سلطان پر صرف اسکا حق ہے لیکن کاش وہ ایسا کہنے کی ہمت بھی رکھتا۔
                  "ویسے سلطان آج آپ بہت زیادہ اچھے لگ رہے تھے بلو کلر زیاہ پہنا کریں آپ آپکو سوٹ کرتا ہے۔۔۔ "
                  انابیہ نے ایک ادا سے کہا جبکہ اپنی اس تعریف پر سلطان بنے پریشانی سے ڈریسنگ روم کے دروازے کو دیکھا۔
                  "رات کافی ہو گئی ہے آئی تھنک تمہیں اب اپنے کمرے میں جانا چاہیے کوئی تمہیں یہاں دیکھے گا تو اچھا نہیں لگے گا۔"
                  سلطان کی بات پر انابیہ نے گہرا سانس لے کر اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔اسکے جاتے ہی سلطان نے دروازہ لاک کیا اور ڈریسنگ روم کے پاس آ کر دروازہ کھولا۔دروازہ کھولتے ہی اسکی بے چین نگاہ کنیز پر پڑی جو اپنا منہ بسورے وہاں کھڑی تھی۔
                  "آپ نے ابھی بھی ان سے دوستی نہیں توڑی ناں وہ ابھی بھی آپکی فاسنے ہیں۔۔۔۔"
                  اسکے فیانسے لفظ کا قتل کرنے پر سلطان مسکرا دیا لیکن اس نے کنیز کو کوئی جواب نہیں دیا وہ اسے کیا جواب دیتا کہ وہ چاہ کر بھی انابیہ سے تعلق ختم نہیں کر سکتا تھا۔وہ اسے کیسے بتاتا کہ وہ کس قدر مجبور انسان کی بیوی بن چکی ہے۔
                  "آپ نے مجھے یہاں بند کیوں کیا؟"
                  کنیز نے نظریں جھکاتے ہوئے پوچھا۔
                  "اگر وہ تمہیں رات کے اس وقت یہاں دیکھ لیتی تو میں اسے کیا جواب دیتا کہ تم کیوں یہاں آئی ہو؟"
                  سلطان نے اپنے خدشہ اسے سچ سچ بیان کیا۔
                  "تو آپ بتا دیتے کہ میں آپکی میڈ ہوں یہ کوئی بری بات تو نہیں۔۔۔۔"
                  سلطان کا دل کر رہا تھا کہ اسکے معصوم چہرے سے ساری شکن دور کر دے۔
                  "تمہیں اب اماں بی کے پاس جانا چاہیے انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے۔۔۔۔"
                  سلطان کے حکم پر کنیز نے فوراً ہاں میں سر ہلایا اور ڈریسنگ روم سے باہر آ گئی لیکن میز پر پڑے کھانے کو دیکھ کر اسکے ماتھے پر بل آئے۔
                  "آپ یہ کھانا مت کھانا سائیں جی آپکو بھوک لگی ہو تو مجھے بتایا کریں آپکی بھوک مٹانا میرا کام ہے۔۔۔"
                  کنیز کے معصوم شکوے پر سلطان نے ٹھنڈی آہ بھری۔وہ کیسے معصومیت میں بھی اسکے جزبات اتنی آسانی سے بھڑکا دیتی تھی۔
                  "اماں بی کے پاس جاؤ نوری ورنہ سچ میں اپنی بھوک مٹانے لگ گیا تو جان نکل جائے گی تمہاری۔۔۔"
                  سلطان نے حق سے اس نازک وجود کو دیکھتے ہوئے کہا جو اسکی ملکیت تھا۔
                  "جو حکم سائیں جی۔۔۔۔"
                  کنیز نے منہ بسور کر کہا اور وہاں سے چلی گئی لیکن دروازے میں پہنچ کر اس نے مڑ کر ایک نظر سلطان کو دیکھا اور اپنا منہ پھلا کر ناک چڑھا لی۔
                  "نیلا رنگ مت پہنا کریں زرا اچھے نہیں لگتے اس میں۔۔۔"
                  کنیز مصنوعی بے رخی سے کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور اسکے ناراضگی کے اس اظہار پر سلطان مسکرا دیا۔
                  اسکی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بنتی جا رہی تھی یہ نازک سی لڑکی اور سلطان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اسکی ہونے کے باوجود وہ بہت زیادہ بے بس تھا۔
                  سلطان نے مڑ کر کھانے کی اس ٹرے کو دیکھا تو اسے اس کھانے کے ساتھ ساتھ انابیہ سے بھی نفرت ہوئی جسکی وجہ سے اسکے خوابوں کی پری،اسکی نوری اس سے روٹھ چکی تھی۔
                  سلطان نے بغیر سوچے سمجھے ٹرے کو پکڑ کر میز سے پھینک دیا اور سب کچھ ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا ۔وہ ہر اس چیز کو ایسے ہی مٹا دینا چاہتا تھا جو اسکی نوری کو پریشان کرتی۔کاش وہ ایسا سب کے سامنے کرنے کی ہمت بھی رکھتا۔
                  ????
                  عرشمان کے کمرے میں بیٹھی وہ بے چینی سے اسکا انتظار کر رہی تھی۔آج ان دونوں کی بچپن کی خواہش پوری ہوئی تھی وہ دونوں تا قیامت ایک دوسرے کے نام لکھ دیے گئے تھے۔
                  آن جہاں اس بات پر خدا کا ہزاروں بار شکر ادا کر چکی تھی وہیں وہ عرشمان کی ناراضگی کو لے کر کافی پریشان بھی تھی لیکن اسے یقین تھا کہ وہ اپنے روٹھے ساجن کو ضرور منا لے گی۔
                  آن جانتی تھی کہ عرشمان اس سے زیادہ دیر تک ناراض رہ ہی نہیں سکتا تھا۔وہ تو اپنی آن پر جان چھڑکتا تھا۔دروازہ کھلنے کی آواز پر آن کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔اس نے گھبرا کر عرشمان کو دیکھا جو سنجیدگی سے کمرے میں داخل ہونے کے بعد دروازہ لاک کر چکا تھا۔
                  ان دونوں میں بدلے رشتے کو محسوس کر آن خود میں ہی سمٹ سی گئی۔حالانکہ عرشمان ہی تو اسکا سب کچھ تھا اسکا سب سے اچھا دوست،ساتھی،محبت سب کچھ تو وہی تھا پھر اس سے یہ جھجھک اور شرم آن کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔
                  عرشمان کو اپنی جانب آتا دیکھ آن نے اپنا سر مزید جھکا لیا۔وہ جو روٹھے ساجن کو منانے کا سوچے بیٹھی تھی اب شرم و حیا سے اسکی آواز تک نہیں نکل رہی تھی۔
                  "مممم۔۔۔۔مان۔۔۔۔"
                  آن نے اسے پکارا لیکن عرشمان ایسے ڈریسنگ روم کی جانب چلا گیا جیسے نہ تو اس نے اسے سنا ہو اور نہ ہی وہ وہاں پر موجود ہو۔اسکی اس بے رخی پر آن کی پلکیں آنسؤں سے بھر گئیں۔
                  تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ فریش ہو کر واش روم سے باہر آیا اور بیڈ کی ایک سائیڈ آ کر اس نے وہاں سے آن کا لہنگا ہٹایا اور وہاں لیٹ کر اپنا بازو اپنی آنکھوں پر رکھ گیا۔
                  "مان۔۔۔۔"
                  آن نے اسے پھر سے پکارا لیکن وہ اسکی کسی بات کا جواب دینے کی بجائے اسے بالکل فراموش کیے وہاں لیٹا تھا۔
                  آن نے خود پر سے گھونگھٹ ہٹا کر ایک گھائل نگاہ عرشمان کو دیکھا اور اپنا نازک ہاتھ اسکے مظبوط بازو پر رکھا۔
                  "اتنا ناراض ہیں مجھ سے کہ میری طرف دیکھیں گے بھی نہیں؟"
                  آن نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا لیکن عرشمان ابھی بھی اسے فراموش کیے لیٹا ہوا تھا۔
                  "مان دیکھیں تو سہی آپکی آن دلہن بنے آپکے پاس بیٹھی ہے۔۔۔۔۔"
                  عرشمان نے ابھی بھی اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی اپنی آنکھوں سے بازو کو ہٹایا۔
                  "مان پلیز ایک بار مجھے معاف کر دیں میری غلطی اتنی بڑی تو نہیں تھی کہ آپ مجھ سے یوں پیش آئیں۔۔۔۔پلیز مان آپکی یہ بے رخی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی۔۔۔۔کیا یہی تھی آپکی محبت آپ ایک بار مجھے معاف نہیں کر سکتے؟"
                  اب کی بار عرشمان نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر آن کو دیکھا تو آن نے اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔
                  "آپ مجھے۔۔۔۔"
                  "کونسی محبت؟"
                  عرشمان نے آن کی بات کاٹ کر کہا تو آن حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
                  "جس محبت کی تم بات کر رہی ہو اسے میں اسی دن دفنا آیا تھا جس دن تم نے مجھے کسی اور کا ہونے کا کہا تھا۔۔۔۔"
                  عرشمان کی بات پر آن کا دل کٹ کے رہ گیا۔
                  "مان بابا نے مجھے امی کی قسم دی تھی میں کیا کرتی۔۔۔۔"
                  آن نے روتے ہوئے کہا تو عرشمان کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی۔
                  "یعنی اگر وہ تمہیں تمہاری امی کی قسم دے کر میری جان لینے کا کہتے تو تم وہ بھی کر گزرتی؟"
                  آن نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
                  "بلکہ جو تم نے کیا آن ملک وہ تو جان لینے سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا۔وہ محبت جو میں نے اپنی آن سے آج تک کی تھی تم نے کسی اور کو مجھ سے زیادہ اہمیت دے کر میری اس محبت کو انتہائی بے رحمی سے مار دیا۔۔۔۔اب اپنے مان کو تلاش مت کرو تم اسے اس دن کا مار چکی ہو۔۔۔۔"
                  عرشمان کی بات پر آن پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔
                  "پلیز مان ایک بار مجھے معاف کر دیں میں وعدہ کرتی ہوں پھر کبھی کسی کو آپ سے زیادہ اہمیت نہیں دوں گی۔۔۔۔پلیز بس میری یہ غلطی معاف کر دیں۔۔۔۔"
                  آن مزید عرشمان کے ساتھ لپٹ گئی لیکن عرشمان نے اپنے ہاتھ اسکے کندھوں پر رکھ کر اسے سختی سے خود سے دور کر دیا۔
                  "یقین کرو تمہیں اس کمرے سے باہر پھینک کر اپنا اور تمہارا تماشا نہیں بنانا چاہتا اس لیے بہتر یہی ہے کہ دور رہو مجھ سے ورنہ یہ بھی کر گزروں گا۔"
                  "مان۔۔۔۔"
                  آن نے رو کر اسکی جانب دیکھا تو عرشمان نے اسے کہنی سے پکڑ کر بیڈ سے اتارا اور لا کر کمرے کے درمیان میں پھینک دیا۔
                  "خود پر اور مجھ پر ایک احسان کرنا مجھے جتنا کم ہو سکے اتنا کم نظر آنا ورنہ یقین جانو اپنے ساتھ ساتھ تمہارا بھی تماشا بنا دوں گا۔۔۔۔یہ شادی میرے لیے بس ایک سزا ہے اس لڑکی کے ساتھ زندگی گزرانے کی سزا جس نے محبت کے دعوے تو بہت کیے لیکن نبھا نہ سکی۔۔۔۔"
                  اتنا کہہ کر عرشمان بیڈ پر جا کر لائٹ بند کر کے لیٹ گیا اور آن اسکی اس قدر سرد مہری پر سسک سسک کر رونے لگی۔اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جس عرشمان نے محبت پوری شدت سے کی تھی وہ نفرت بھی اتنی ہی شدت سے کرے گا۔
                  پوری رات وہ دلہن بنی وہیں فرش پر بیٹھ کر روتی رہی تھی لیکن اسکے پاس آنا تو دور عرشمان نے تو اسے دیکھا تک نہیں تھا۔وہ جسکی محبت ہی آن کے جینے کا سہارا تھی اسکی یہ بت رخی آن سے برداشت نہیں ہو رہی تھی اور وہ ستمگر اسی بات سے واقف نہیں تھا کہ وہ آن کے جینے کی وجہ تھا۔
                  دن رات کلی ہوئی
                  تیرے پیچھے چلی ہوئی
                  قدراں تا کر سچے پیار دیاں
                  ہر ویلے روندی یارا
                  تینوں پھراں ٹوندی میں تے
                  سوچدی رواں میں گلاں یار دیاں
                  ہن ہندا نہیں سہار
                  اے وچھوڑا میرے یار
                  تو آ جا ماہی وے
                  مینو تیرا انتظار
                  زندگی اے تیرے نال
                  تو میرا ایں پیار
                  آ جا وے ماہی وے
                  مینوں تیرا انتظار
                  آن کتنی ہی دیر اسے بیڈ پر سوئے ہوئے دیکھتی رہی اور پھر اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپا کر رو دی۔اسے اپنی خطا کی سزا نہ جانے کب تک بھگتنی تھی۔
                  ????
                  "اماں بی یہ سیب کھائیں آپ۔۔۔۔آپ کے لیے کاٹے ہیں۔۔۔۔"
                  اماں بی نے حیرت سے کنیز کے سوجے ہوئے منہ کو دیکھا۔وہ جب سے فجر کے لیے اٹھی تھیں تب سے ہی کنیز کا منہ بنا ہوا تھا۔
                  "کیا ہوا ہماری پیاری سی نوری کو؟منہ کیوں اترا ہے مجھ سے خفا ہو کیا؟"
                  اماں بی نے پیار سے اسکا چہرہ ہاتھ میں تھام کر پوچھا۔
                  " توبہ۔۔۔میں آپ سے ناراض ہو سکتی ہوں بھلا بڑھوں سے ناراض ہو کے مجھے دوزخ میں جلنا ہے؟نہیں نہیں اماں بی میں آپ سے زرا سا ناراض نہیں۔۔۔۔"
                  اماں بی کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی۔کنیز ہمیشہ ہی اپنی معصوم باتوں سے ان کو مسکرانے پر مجبور کر دیا کرتی تھی۔
                  "تو پھر منہ کیوں اترا ہوا ہے میری گڑیا کا؟"
                  اماں بی نے چاہت سے اسکے چہرے پر آئے بال اسکے کان کے پیچھے کرتے ہوئے پوچھا۔
                  "میں سائیں جی سے ناراض ہوں وہ زرا اچھے نہیں ۔۔۔۔"
                  کنیز نے اپنا منہ پھلا لیا اور غصے میں ہاتھ میں پکڑے سیب کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے لگی۔
                  "ارے ایسا کیا کیا سلطان نے مجھے بتاؤ زرا میں اسکے کان کھینچتی ہوں۔۔۔۔"
                  اماں بی کی بات پر کنیز کا دل کیا ان کو سب کچھ بتا دے۔
                  "پتہ ہے وہ مجھے تو کتنی خوشی سے بتا لیتے ہیں کہ وہ انابیہ باجی انکی فاسنے ہیں لیکن انہیں نہیں بتاتے کہ میں انکی میڈ ہوں بھلا میڈ اتنی بری ہوتی ہے کیا کہ اسے آپ سب سے چھپا چھپا کر رکھو۔۔۔۔"
                  کنیز کی بات پر اماں بی کے ماتھے پر بل آئے کیونکہ وہ اسکی آدھی بات سمجھنے سے قاصر تھیں۔
                  "فاسنے؟بیٹا یہ فاسنے کیا ہوتا ہے؟"
                  "وہی جو انابیہ باجی سائیں جی کی ہیں آپکو نہیں پتہ کیا؟"
                  اماں بی کو کچھ سوچنے پر اندازہ ہوا کہ وہ فیانسے کہہ رہی تھی۔
                  "اوہ اچھا ہاں مجھے پتہ ہے۔۔۔"
                  کنیز کا منہ انکی بات پر مزید پھول گیا۔
                  "آپکو پتہ ہے وہ کسی کو نہیں بتاتے کہ میں انکی میڈ ہوں بھلا اب میں کیا کروں جب انکی میڈ ہوں تو انہیں بتانا چاہیے ناں یہ سب کو۔۔۔۔اب کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں کون ہوں تو میں چھپ تو نہیں سکتی ناں۔۔۔۔"
                  اماں بی نے مسکرا کر کنیز کو دیکھا۔
                  "تو تم سب کو کہہ دیا کرو کہ تم میری میڈ ہو میں بھی اس بات سے اعتراض نہیں کروں گی۔۔۔۔"
                  اماں بی نے حل بتایا لیکن کنیز کو پہلے آنکھیں پھیلا کر حیران ہوتا دیکھ اور پھر قہقے لگا کر ہنستا دیکھ حیران رہ گئیں۔
                  "آپ کی میڈ کیسے ہو سکتی ہوں میں اماں بی مجھے سائیں جی اپنے ساتھ لائے تھے میں تو صرف انکی میڈ ہو سکتی ہوں ناں۔۔۔۔"
                  کنیز نے چہرہ جھکا کر کہا جو پھر سے سلطان کے ذکر پر گلابی ہو رہا تھا۔
                  "نہیں میرا بچہ تم جس کے پاس رہ کر اسکے کام کرو اسکی دیکھ بھال کرو تم اسکی میڈ ہو سکتی ہو ۔۔۔۔ جیسے تم میرا خیال رکھتی ہو تو میں سب سے یہی کہتی ہوں ناں کہ یہ میری ملازمہ ہے ۔۔۔۔۔"
                  اماں بی نے اسے سمجھانا چاہا لیکن انکی بات پر کنیز کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی اور رنگ باکل زرد پڑھ گیا۔
                  "مم۔۔۔۔میڈ انگریزی میں ملازمہ کو کہتے ہیں کیا؟"
                  اسکے یہ حالت دیکھ کر اماں بی پریشان ہو گئیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اگلا سانس تک لے نہیں پائے گی۔
                  "ہاں بیٹا میڈ ملازمہ کو کہتے ہیں کیوں تمہیں سلطان نے کچھ اور بتایا تھا کیا؟"
                  اماں بی کے پوچھنے پر کنیز اپنا چہرہ جھکا گئی۔کتنے ہی آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ کر اسکے ہاتھوں پر گرے۔دل تھا کہ اپنی اس تذلیل پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔وہ اب اماں بی کو کیا بتاتی کہ انکا پوتا اسکی ان پڑھ ہونے کا فایدہ اٹھا کر اسے بیوی ہونے کے باوجود ایک ملازمہ کا درجہ دیتا رہا اور وہ پاگل کتنے مان سے خود کو اسکی میڈ کہتی رہی تھی۔
                  "نن۔۔۔۔نہیں انہوں نے بھی مجھے ملازمہ ہی بتایا تھا۔۔۔۔"
                  کنیز نے جھوٹ بولا جبکہ اسکی رندھی ہوئی آواز اور اسکے آنسو اماں بی کو پریشان کر رہے تھے۔
                  "میں انکی ملازمہ ہوں میں وہی ہوں جو سائیں جی مجھے بنانا چاہیں۔۔۔۔"
                  اماں بی نے پریشانی سے اسکا ہاتھ تھاما وہ اسکے اس غم کی وجہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں۔
                  "میں کیسے بھول گئی اماں بی کہ میں کنیز ہوں اور کنیز ملازمہ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔وہ کچھ بھی کر لے رہے گی ہمیشہ کنیز ہی۔۔۔۔"
                  اتنا کہہ کر کنیز کی بس ہوئی تھی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آ گئی اور حویلی کے ایک سنسان کونے میں بیٹھ کر اپنا دوپٹہ منہ میں دیے سسک سسک کر رونے لگی۔
                  سلطان کا یوں اسکی معصومیت کا فایدہ اٹھانا اس معصوم کے دل کو بہت بری طرح سے توڑ چکا تھا۔اپنا آپ حد سے زیادہ بے وقعت لگ رہا تھا ۔اسکا شوہر ہی اسے اپنے قابل نہیں سمجھتا تھا اسی لیے اسے بیوی کی بجائے ملازمہ کا درجہ دیا تھا۔
                  کاش وہ بھی سلطان کے قابل ہوتی،کاش وہ بھی پڑھیں لکھی ہوتی تو سلطان سب کو بے فکر ہو کر، شرمندگی کے بغیر بتا پاتا کہ وہ اسکی بیوی ہے۔۔۔۔سلطان کے قابل نہ ہونا بھی اسے اپنا ہی قصور لگ رہا تھا کیونکہ وہ کنیز تھی بھلا کنیز بھی اپنے سلطان کو برا سمجھ سکتی تھی وہ تو بس اپنے سلطان کے پیروں کی دھول ہوا کرتی تھی اور آج اسکا سلطان یہ بات ثابت کر گیا تھا کہ وہ اپنی کنیز کو بس اپنے پیروں کی دھول ہی سمجھتا تھا۔
                  ????


                  ?

                  Comment


                  • #39
                    Bosses
                    اگر ائندہ اس فونٹ میں پوسٹ ہوئی سٹوری اپروول نہیں ہونی ۔
                    ہم نے اتنی محنت کی اس فورم پر آپ یہ ایسے فونٹ میں پوسٹ کر رہے ہیں ۔

                    ایک بار پہلے بھی آپ کو بتایا ہے ۔

                    نیچے لنک دے رہا ہو اس پر عمل کرے سٹوری کو جمیل نوری فونٹ میں پوسٹ کرے ۔
                    شکریہ


                    https://urdustoryworld.com/forum/mai...8C%D9%86%D8%AC



                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment


                    • #40
                      ye story pehly bhi parhi hai bht kamaal ki hai

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X